Saturday, August 7, 2010

عذاب کا خواب

اب قوم پہ عذاب کی پیشن گوئیاں پورا ہونے کا وقت لگتا ہے آ ہی پہنچا ہے۔ عبدالقادر حسن صاحب ہمارے سینیئر صحافی ہیں۔ انکی سب سے اچھی بات جو مجھے  پسند ہے کہ انہوں نے ہر اچھے اور برے وقت میں شریف برادران سے وفاداری نبھائ۔
ابھی کچھ دنوں پہلے انہوں نے ٹرانسپیرینسی انٹر نیشنل کے مرتب کردہ نتائج پہ ایک کالم لکھا۔ جس میں پاکستان کے صوبوں پہ مہربانی کرتےہوئے انکی بھی گریڈنگ کی گئ اور پنجاب کو سب سے کم کرپشن کا حامل صوبہ قرار دیا گیا۔ جناب عبدالقادر حسن صاحب نے اس بات پہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے صوبے میں کم کرپشن کا باعث پنجاب کے نیک نیت حکمرانوں کو لکھا۔ 
ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ اپنے 'پنجاب کے رہنے والے بھائیوں' سے دریافت کروں کہ کیا نیک حکومت کے مزے لوٹ رہے ہیں آپ اکیلے ہی اکیلے اور ہمیں خبر بھی نہیں۔ رشوت کا خاتمہ ہو چکا ہو گا، مجرمین سب جیلوں میں ہونگے، ملزمین پہ قانون کے حساب سے مقدمے چل رہے ہونگے، امیر اور غریب سب ایک جگہ سے خریداری کر رہے ہونگے۔ کیا سہانی زندگی اس زمین پہ آپکو حاصل ہے ۔
لیکن میں تو سوچتی ہی رہ گئ، انہوں نے اپنے تازہ کالم میں آنے والی قدرتی آفات پہ روشن خیالوں  اور لبرلزکے اس خیال پہ دو حرف بھیجے کہ یہ سب قدرتی توازن خراب ہونے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔  بحیثیت ایک 'پاکستانی لبرل' میں تو یہ بھی سوچتی ہوں کہ ان قدرتی عوامل کے عدم توازن کی وجہ سے وہ علاقے زیادہ تباہی کا شکار ہوتے ہیں جہاں پسماندگی اور غربت زیادہ ہو۔ لیکن ایک بزرگ، جہاندیدہ صحافی جب یہ بات کہہ رہے ہیں تو میں نے بھی اپنے اس شیطانی خیال سے رجوع کیا۔ لیکن رجوع کرنے کے بعد جب آگے پڑھتی ہوں تو آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ

یاد کریں کہ قوم پہ آفات کا یہ بے رحم سلسلہ کیا اس سانحے کے بعد شروع نہیں ہوا جب لال مسجد کی بچیوں پہ ٹینک چڑھا دئیے گئے۔

نظریہ ٹھونسنا کسے کہتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ کیسے ہوتی ہے برین واشنگ شاید ایسے۔ کیونکہ میں اپنے دماغ کو پہلے سے کافی ستھرا پاتی ہوں۔
اگرچہ کہ یہ خیال بھی آتا ہے کہ  دنیا کا کوئ بھی شخص جب ظلم کا شکار ہوتا ہے تو چیختا ہے، چاہے وہ خودکش حملہ آور کے بم سے پھٹ کر مرے، طیارے کے پھٹنے سے مرے، زنا بالجبر کا شکار ہو رہا ہو، سڑک پہ برہنہ پھرایا جا رہا ہو، تین تین دن کچھ کھانے کو نہ ملے اور خود کشی کرنے جا رہا ہو، اپنے آزاد پیدا ہونے کے حق کو حاصل کرنے کے بجائے کسی زمیندار کی ذاتی جیل میں پڑا ہو، اپنی زندگی بھر کی پونجی لٹیروں کو حوالے کرنے کے بعد اب اپنے بچوں کو اور اپنے آپکو دینے کے لئے کچھ نہ رہا ہو، اکلوتی اولاد سر راہ چلتی ہوئ گولی سے مرے، صحن میں کھڑے بچے دو منشیات کے مافیا کے درمیان فائرنگ کی زد میں آکر مر جائیں، ایک مختلف مذہب یا زبان یا ثقافت رکھنے کی وجہ سے مارے جائیں۔ یہ واقعات پچھلی کئ دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ مجھے یقین ہے ان میں سے ہر ایک اپنے اس غیر متوقع، اندوہناک انجام سے پہلے ضرور چیختا ہوگا، مدد، مدد، مجھ پہ ظلم ہورہا ہے، بچاءو۔
 کیا دنیا میں عذاب صرف ان مظلومین کی وجہ سے آتا ہے جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں یا ہر مظلوم کی آہ عرش تک پہنچتی ہے اسے ہلا دیتی ہے اور باریابی پاتی ہے۔
پھر یاد آتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا دل ہلا دینے والا زلزلہ سانحہ ء لال مسجد سے دو سال قبل آیا تھا۔ لیکن، چونکہ یہ سانحہ انکے اخذ کردہ نتیجے سے نہیں ملتا اس لئے اسکا تذکرہ یہاں بے کار ہے۔
اب میں میں اپنی اس رائے سے رجوع کر رہی ہوں کہ یہ سیلاب کی مصیبت قدرتی تبدیلیوں کی طرف ایک اشارہ ہے۔ اور میں اس رائے کی طرف بڑھ رہی ہوں کہ یہ دراصل اللہ کا ایک عذاب ہے جو اس قوم پہ نازل ہو رہا ہے۔ لیکن ایک خیال جو میرے قدم پکڑے لیتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر یہ عذاب ہے کیونکہ اب زیادہ تر لوگ یہی کہہ رہے ہیں تو آخر یہ عذاب سب سے زیادہ خیبرپختونخواہ میں کیوں ہو رہے ہیں۔ اپنی پہلے والی حالت میں تو میں یہی کہتی کہ چونکہ غربت اور پسماندگی ہر طرح کی چاہے وہ معاشی ہو، تعلیمی ہو یا معاشرتی سب سے زیادہ ان علاقوں میں ہے تو قدرتی عوامل کی وجہ آنے والی مصیبت ،عذاب بن گئ  ہے۔ لیکن نہیں، میں تو اب اسی سوچ پہ ہوں کہ یہ عذاب ہے۔ لیکن یہ کیسا عذاب ہے جو ان علاقوں کو زیادہ متائثر کر رہا ہے جہاں زیادہ دینی مزاج کے حامل لوگ رہتے ہیں، وہ پچھلی کئ دہائیوں سے جہاد جیسے عظیم مقصد کے پیچھے اپنی جانیں بھی قربان کر رہے ہیں ۔ ایسا کیوں ہے کہ وہی لوگ اس تباہی کا سب سے زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔ 
اب اسے کیا سمجھا جائے، عذاب، یا قدرتی عمل، نامناسب منصوبہ بندی اور پسماندگی کا گٹھ جوڑ۔

22 comments:

  1. میں محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب سے سو فیصد متفق ہوں کہ پاکستانیوں پر موجودہ عذاب کی سب سے بنیادی وجہ افغانستان میں صدیوں کے بعد قائم ہونے والی اور انتہائی قلیل مدت میں اپنی سمرات ظاہر کرنے والی ایک خالص اسلامی امارت کی جڑ کھودینے کے لئے کاندھے دینے عمل تھا. وہ اسلامی حکومت ایسی تھی جس کو اپنی انکھوں سے دیکھنے کے بعد ڈاکڑ جاوید اقبال جیسا لبرل اور جدت پسند شخص بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگیا تھا کہ اگر ہمت کرکے دو چار اسلامی ملک اپنے یہاں ٹھیک یہی نظام قائم کرلیں تو ساری دنیا مسلمان ہوجائے گی.
    البتہ مجموعی بے راہ روی اور گمراہی بھی ان عذابات کی بنیادی وجہ ہے. آپ صلہ اللہ و علیہ وسلم کی لاتعداد احادیث میں اس طرح کے عذابات کا زکر موجود ہے.

    ReplyDelete
  2. آپ اردو اخبارات کو سنجیدہ لیتی ہیں؟
    میں تو اردو اخبار کبھی کبھار اس لیے پڑھ لیتا ہوں کہ یہاں اردو لغت درست کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے.
    باقی خیبر پختونخواہ کے بارے میں وہاں کے لوگ پریشان نہیں تو آپ کیوں پریشان ہیں؟
    :)

    ReplyDelete
  3. کاشف نصیر صاحب، میں انکے خیال سے سو فی صد غیر متفق ہوں۔ اسکے ثمرات یہ تھے کہ غیر مسلم تو غیر مسل ، مسلمان تک دہل گئے کہ کیا یہ ہے اصل اسلام۔ اور اگر یہ سلطنت اسی طرح چلتی تو ایک خلقت دہریہ ہو جاتی۔
    ایسے کون سے عظیم ثمرات تھے جو صرف چند مخصوص لوگوں ہی کو نظر آ سکے۔ اور باقی عالم ان سے نا آشنا رہا، بلکہ خدا سے پناہ مانگتا رہا کہ ہمیں اپنی حفظ اور امان میں رکھ اس خدا سے جو رب العالمین ہے۔
    عثمان، یہ اردو اخبار کو سنجیدہ لینے کا کیا مطلب بھئ۔ عبدالقادر حسن صاحب جنگ میں پہلے با قاعدگی سے لکھتے تھے۔ یہ اردو اخبار منلک میں انگریزی اخبار کی نشبت کہیں زیادہ پڑھے جاتے ہیں۔ اور ان سے ایک عام شخص کا ذہن متائثر ہوتا ہے۔ اگر یہ عذاب خیبر پختونخواہ کو اس طرح نشانہ بنائے ہوئے ہیں تو اسکی کی کیا وجہ ہے۔ خیبر پختونخواہ والوں نے تو اس وقت بھی لال مسجد والوں کا ساتھ دیا تھا۔ پھر یہ مصیبت ان پہ کیوں نازل ہوئ۔ اس ساری چیز کے بدلے میں تو انہیں نعمت کا سامنا کرنا چاہئیے تھا۔ پھر ایسا کیوں کہ تیس لاکھ سے زائد لوگ صرف اس صوبے میں بے گھر ہو گئے، اس سے پہلے فوج کے ملٹری ایکشن کے نتیجے میں تیس لاکھ لوگوں کو اپنے گھر چھوڑ کر مہاجر بننا پڑا، اس سے پہلے زلزلے نے اس علاقے میں قیامت مچائ۔ اسی صوبے کے لوگ اب کراچی میں فسادات کا شکار بھی ہو رہے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ حالانکہ عذاب تو اسلام آباد پہ آنا چاہئیے تھا، مگر اسکی سمت کچھ اور ہے۔
    میں تو صرف یہ دیکھتی ہوں کہ فطرت کے اشاروں کا ہمارے یہاں کیا مطلب نکالا جاتا ہے۔ اور اسی سے ہماری تقدیر بنائ جاتی ہے۔

    ReplyDelete
  4. محترمہ سب سے پہلے تو آپ تبصرے کے لیے نام اور یوآر ایل کو فعال کریں
    کیا یہ بھی کسی پالیسی کو حصہ ہے

    ReplyDelete
  5. شاذل صاحب، مرے چھوٹے سے بلاگ کے لئے پالیسی ایک خاصہ بھاری بھرکم لفظ ہے۔ تبصروں کے لئے ، میں نے رجسٹرڈ تبصرہ نگاروں کو ایکٹو کیا تھا۔ شاید اسکے ڈیفالٹ میں ہوگا۔ اب میں نے اسے ختم کر دیا کہ اس سے وہ مقاصد حاصل نہیں ہوئے جو چاہ رہے تھے۔ امید ہے اب یہ شکایت نہیں ہوگی

    ReplyDelete
  6. ویسی ہی شکایت اب بھی ہے
    فعال نہیں ہوا

    ReplyDelete
  7. تبصرے کے لیے نام اور یوآر ایل کو فعال کردیں مجھے تبصرہ کرنے میں پریشانی ہوتی ہے۔نوازش ہوگی

    ReplyDelete
  8. عنیقہ آپ نے تو کچھ لوگون کے لیئے نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کی صورت حال بنا دی ہے!!!!
    لیکن کچھ دمیں کبھی سیدھی نہیں ہوتیں!!!

    ان صاحب کا یہ بھی فرمان تھا کہ پاکستان مین صرف پنجاب کے لوگ تعصب نہیں کرتے،بڑھاپے سے یادادشت کمزور ہوگئی ہے جناب کی ورنہ آئے دن ذات برادریون کے پیچھے ہونے والے قتل تو انہیں یاد ہی رہتے!!!

    ReplyDelete
  9. فرحان دانش اور شاذل صاحبان، اب ذرا پحر سے چیک کریں۔ میں پہلے سیو نہیں کیا تھا۔

    ReplyDelete
  10. چھوٹا سا بلاگ؟؟
    بڑا تابکاری بلاگ ہے یہ!!
    ۔

    ReplyDelete
  11. Floods has targeted mostly the deobandi dominated areas. Even the districts in Punjab such as Liyya, Bhakkar etc are infested by deobandi Lashkars, Jaish and Sipahs. As it's deobandis who are attacking brelvis, shias etc there may be a pattern.

    ReplyDelete
  12. میں آپ کی بات سے کسی حد تک متفق ہوں۔۔۔۔۔۔ انسان کی تدبیر ہی اسکی تقدیر ہے۔

    ReplyDelete
  13. شکریہ انیقہ
    اب درست ہے

    ReplyDelete
  14. آپ عبداللہ کے تبصرے اگر مکمل بین نہیں کر سکتی تو کم از کم اگر کسی جگہ پنجاب بمقابلہ ایم کیو ایم کا لفظ اگر پوسٹ میں نہ ہو تو اس کے پراگندہ خیالات والے تبصرے ضرور ڈیلیٹ کر دیا کریں۔ یہ آپ کے بلاگ کے لئے درست نہیں اور اس کا نتیجہ آپ کی بات کی اہمیت ختم ہونا ہو گا۔ آگے آپ کی مرضی اس پر سنیجدگی سے سوچیں۔

    ReplyDelete
  15. عثمان، تابکاری تو اتنی نہیں، البتہ نصف زندگی زیادہ ہے۔
    :)

    ReplyDelete
  16. آپا انیقہ،مسلمان بھائیوں اور اسلامی بہنوں۔

    السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

    سب سے پہلے اگر میرا تبصرہ کسی کو پریشان کرے تو معذرت لیکن میں سچ لکھنے سے کوئی روک نہیں سکتا ہے۔
    میڈیا میں جو بھی زرائع ہو آج کل صرف اسلام کو رسواء کرنا چارہا ہے۔ ہر کوئی اپنی ذات کو نام دینے کے لئے یا پہچان کے لئے ایسی بات کرجاتا ہے جس سے لوگ
    اس کو جانے۔ اور اس وقت سب سے معصوم ہمارا دین اسلام ہے جو غیر تو غیر مسلمانوں کے بھی پروپیگینڈوں کے زنجیروں میں باندھے جارہے ہیں، میں نے سو اس وقت اس زنجیر کی ایک کڑی نکال دوں۔
    کچھ روز قبل ایک میگزین میں پڑھ چکا ہوں۔ جسکا ٹائیٹل " اس حمام میں سب کے سب ننگے ہیں۔، اور کالم سیاسی جرائم اور شخصیات کے بارے میں تھا۔
    اب میں یہ سمجھنے لگا کہ یہ بات ہم کالم نگاروں، مضمون لکھنے والوں ، بلاگرز اور تبصرہ کرنے والوں کے لیے بھی ہوسکتا ہے کیونکہ بات کو شروع کرتے ہیں دنیاوی خرابیوں کی برائیوں سے اور ختم اسلام کے نام پر کیا جاتا ہے۔ اللہ ہم سب مسلمانوں پر رحم فرمائے۔ ہم سب اللہ کو تو مان رہے ہیں لیکن اللہ کی کون مان رہاہے۔
    انیقہ بہن آپ نے کسی کے بارے میں لکھا تو چلو گمان میں لے آتے ہیں کہ اس نے دل ودماغ سےوہ لکھا جس کی تشریخ آپ سمجھانا چاہتی ہیں۔ لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ جنرل صاحب کی کاروائی سے اسلام کو کتنا نقصان پہنچا۔ جہاں لال مسجدوں کی بات آتی ہے کیا یہ سچ نہیں اس سے پہلے کسی قوم نے اپنے لوگوں پر چاہے کتنی خرابیاں کریں۔ فاسفورس بم پھینکا ہو۔
    مرغی کو پتہ ہے کہ وہ کیسے انڈا جنتی ہے آملیٹ کھانے والوں کو کیا پتا۔

    اور آپ نے لکھا کہ لال مسجد سے قبل کشمیر مصیبت زلزلہ سے دوچار ہوا ہے۔
    جتنی بھی مصیبتیں ہیں یہ سب ہماری قوم کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے۔
    اب گھن کے ساتھ گیہوں نہیں پسے کا تو کیا چاول پسے گا۔ ہاں البتہ گناہ شہروں میں خد سے تجاوز کرگیا ہے مصیبتیں وہاں آرہی ہیں جہاں آبادی کم ہے۔
    قرآن کریم کی چند آیتیں جو ذیل میں نمایا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

    سورة البَقَرَة
    شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
    المۤ (۱) یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں پرہیز گارو ں کے لیے ہدایت ہے (۲) جو بن دیکھے ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ا ور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں خرچ کرتے ہیں (۳) اور جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو اتارا گیا آپ پراور جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور آخرت پر بھی وہ یقین رکھتے ہیں (۴) وہی لوگ اپنے رب کے راستہ پر ہیں اور وہی نجات پانے والے ہیں (۵)

    سورة القَصَص
    اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ان کے اپنے ہی اعمال کے سبب سے ان پر مصیبت نازل ہوجائے پھر کہتے اے ہمارے رب! تو نے ہمارے پاس رسول کیوں نہ بھیجا تاکہ ہم تیرے حکموں کی تابعداری کرتے اور ایمان والو ں میں ہوتے (۴۷)

    سورة الحَدید
    جو کوئی مصیبت زمین پر یاخودتم پر پڑتی ہے وہ اس سے پیشتر کہ ہم اسے پیدا کریں کتاب میں لکھی ہوتی ہے بے شک یہ الله کے نزدیک آسان بات ہے (۲۲)

    سورة الشّوریٰ
    اور تم پر جو مصیبت آتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے ہوئے کاموں سے آتی ہے اور وہ بہت سے گناہ معاف کر دیتا ہے (۳۰)

    ان آیتوں کو دل سے سمجھنے اور ماننے کے بعد دماغ پر زور دینگے تو پتہ چلتا ہے
    کہ آج ہر برائی نے خداداد پاکستان کو احاطہ کیے ہوئے ہے۔
    میں برائی گنوانا نہیں چاہتا۔ صرف ایک چھوٹی سی بات سونیا گاندھی کی کہی ہوئی کو صاف شفاف عدسے سے نمایا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
    کہ " ہمیں پاکستان میں قبضہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، پورا کا پورا ھندوستان اور کلچر مکمل طورپر پاکستانی گھروں پر قابض ہوچکا ہے۔ دن رات ھندوستانی کلچر ان لوگوں کے سامنے ہوتا"۔

    اب کراچی کا رخ کریں کیونکہ میں خود کراچی کا ہوں عام لوگوں کی صبح اللہ کے بابرکت نام چھوڑکر ھندوستانی ابلیسی کلچر کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔
    بچے اسکول پہنچتے ہیں،ماسی گھر میں کام کرنے آتی ہے اور بیگم صاحبہ ھندو کلچر سے مسرتیں بٹور رہی ہوتی ہیں۔ حتی کے رات گئے تک یہی کلچر ہماری قوم کے دل و دماغ میں چل رہا ہوتا ہے۔
    اب آپ بتائے کہ جس کے دل و دماغ میں ھندو کلچر یا غیر اسلامی کلچر ہوگا وہ اسلام کی کیا بات کرے گا۔ جنازے کو شمسان گھاٹ لے کر جائے کا یا مسلمانوں کا قبرستان، بچے کی ولادت میں بجھن سنائے گا یا آذان دی جائے گی۔
    انیقہ بہن،
    بد گمانی ہی سب سے خراب چیز ہے۔ ابھی بھی وقت ہے کیونکہ قیامت واقع نہیں ہوئی۔ اور قیامت ایک ایسا عظیم خادثہ ہے جو سب کچھ ختم کردے گا۔۔
    باقی دوستوں سے بھی گذارش کرتا ہوں کہ ہم صرف اچھے کہیں گے اور اچھا لکھیں گے۔ تضاد تو ہرجگہہ ہے ایک گھر میں ایک ماں باپ کی اولاد میں تک تضاد ہوتا ہے ۔ کوشش کریں گے کہ کوئی مثبت بات نکالیں۔

    اور اللہ ہی توفیق دیتا ہے۔
    اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے
    www.mqali.weebly.com

    ReplyDelete
  17. آپا انیقہ،مسلمان بھائیوں اور اسلامی بہنوں۔

    السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

    سب سے پہلے اگر میرا تبصرہ کسی کو پریشان کرے تو معذرت لیکن میں سچ لکھنے سے کوئی روک نہیں سکتا ہے۔
    میڈیا میں جو بھی زرائع ہو آج کل صرف اسلام کو رسواء کرنا چارہا ہے۔ ہر کوئی اپنی ذات کو نام دینے کے لئے یا پہچان کے لئے ایسی بات کرجاتا ہے جس سے لوگ
    اس کو جانے۔ اور اس وقت سب سے معصوم ہمارا دین اسلام ہے جو غیر تو غیر مسلمانوں کے بھی پروپیگینڈوں کے زنجیروں میں باندھے جارہے ہیں، میں نے سو اس وقت اس زنجیر کی ایک کڑی نکال دوں۔
    کچھ روز قبل ایک میگزین میں پڑھ چکا ہوں۔ جسکا ٹائیٹل " اس حمام میں سب کے سب ننگے ہیں۔، اور کالم سیاسی جرائم اور شخصیات کے بارے میں تھا۔
    اب میں یہ سمجھنے لگا کہ یہ بات ہم کالم نگاروں، مضمون لکھنے والوں ، بلاگرز اور تبصرہ کرنے والوں کے لیے بھی ہوسکتا ہے کیونکہ بات کو شروع کرتے ہیں دنیاوی خرابیوں کی برائیوں سے اور ختم اسلام کے نام پر کیا جاتا ہے۔ اللہ ہم سب مسلمانوں پر رحم فرمائے۔ ہم سب اللہ کو تو مان رہے ہیں لیکن اللہ کی کون مان رہاہے۔
    انیقہ بہن آپ نے کسی کے بارے میں لکھا تو چلو گمان میں لے آتے ہیں کہ اس نے دل ودماغ سےوہ لکھا جس کی تشریخ آپ سمجھانا چاہتی ہیں۔ لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ جنرل صاحب کی کاروائی سے اسلام کو کتنا نقصان پہنچا۔ جہاں لال مسجدوں کی بات آتی ہے کیا یہ سچ نہیں اس سے پہلے کسی قوم نے اپنے لوگوں پر چاہے کتنی خرابیاں کریں۔ فاسفورس بم پھینکا ہو۔
    مرغی کو پتہ ہے کہ وہ کیسے انڈا جنتی ہے آملیٹ کھانے والوں کو کیا پتا۔

    اور آپ نے لکھا کہ لال مسجد سے قبل کشمیر مصیبت زلزلہ سے دوچار ہوا ہے۔
    جتنی بھی مصیبتیں ہیں یہ سب ہماری قوم کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے۔
    اب گھن کے ساتھ گیہوں نہیں پسے کا تو کیا چاول پسے گا۔ ہاں البتہ گناہ شہروں میں خد سے تجاوز کرگیا ہے مصیبتیں وہاں آرہی ہیں جہاں آبادی کم ہے۔
    قرآن کریم کی چند آیتیں جو ذیل میں نمایا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

    سورة البَقَرَة
    شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
    المۤ (۱) یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں پرہیز گارو ں کے لیے ہدایت ہے (۲) جو بن دیکھے ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ا ور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں خرچ کرتے ہیں (۳) اور جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو اتارا گیا آپ پراور جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور آخرت پر بھی وہ یقین رکھتے ہیں (۴) وہی لوگ اپنے رب کے راستہ پر ہیں اور وہی نجات پانے والے ہیں (۵)

    سورة القَصَص
    اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ان کے اپنے ہی اعمال کے سبب سے ان پر مصیبت نازل ہوجائے پھر کہتے اے ہمارے رب! تو نے ہمارے پاس رسول کیوں نہ بھیجا تاکہ ہم تیرے حکموں کی تابعداری کرتے اور ایمان والو ں میں ہوتے (۴۷)

    سورة الحَدید
    جو کوئی مصیبت زمین پر یاخودتم پر پڑتی ہے وہ اس سے پیشتر کہ ہم اسے پیدا کریں کتاب میں لکھی ہوتی ہے بے شک یہ الله کے نزدیک آسان بات ہے (۲۲)

    سورة الشّوریٰ
    اور تم پر جو مصیبت آتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے ہوئے کاموں سے آتی ہے اور وہ بہت سے گناہ معاف کر دیتا ہے (۳۰)

    ان آیتوں کو دل سے سمجھنے اور ماننے کے بعد دماغ پر زور دینگے تو پتہ چلتا ہے
    کہ آج ہر برائی نے خداداد پاکستان کو احاطہ کیے ہوئے ہے۔
    میں برائی گنوانا نہیں چاہتا۔ صرف ایک چھوٹی سی بات سونیا گاندھی کی کہی ہوئی کو صاف شفاف عدسے سے نمایا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
    کہ " ہمیں پاکستان میں قبضہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، پورا کا پورا ھندوستان اور کلچر مکمل طورپر پاکستانی گھروں پر قابض ہوچکا ہے۔ دن رات ھندوستانی کلچر ان لوگوں کے سامنے ہوتا"۔

    اب کراچی کا رخ کریں کیونکہ میں خود کراچی کا ہوں عام لوگوں کی صبح اللہ کے بابرکت نام چھوڑکر ھندوستانی ابلیسی کلچر کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔
    بچے اسکول پہنچتے ہیں،ماسی گھر میں کام کرنے آتی ہے اور بیگم صاحبہ ھندو کلچر سے مسرتیں بٹور رہی ہوتی ہیں۔ حتی کے رات گئے تک یہی کلچر ہماری قوم کے دل و دماغ میں چل رہا ہوتا ہے۔
    اب آپ بتائے کہ جس کے دل و دماغ میں ھندو کلچر یا غیر اسلامی کلچر ہوگا وہ اسلام کی کیا بات کرے گا۔ جنازے کو شمسان گھاٹ لے کر جائے کا یا مسلمانوں کا قبرستان، بچے کی ولادت میں بجھن سنائے گا یا آذان دی جائے گی۔
    انیقہ بہن،
    بد گمانی ہی سب سے خراب چیز ہے۔ ابھی بھی وقت ہے کیونکہ قیامت واقع نہیں ہوئی۔ اور قیامت ایک ایسا عظیم خادثہ ہے جو سب کچھ ختم کردے گا۔۔
    باقی دوستوں سے بھی گذارش کرتا ہوں کہ ہم صرف اچھے کہیں گے اور اچھا لکھیں گے۔ تضاد تو ہرجگہہ ہے ایک گھر میں ایک ماں باپ کی اولاد میں تک تضاد ہوتا ہے ۔ کوشش کریں گے کہ کوئی مثبت بات نکالیں۔

    اور اللہ ہی توفیق دیتا ہے۔
    اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے

    ReplyDelete
  18. ناقص منصوبہ بندی اور کچھ نہیں ۔
    عبد القادر حسن سے یہ امید نہ تھی ۔
    پنجاب میں دوسری زبانیں بولنے والوں سے تعصب یقینا بہت معمولی ہے البتہ ذات برادری قبیلے کے جگھڑے کسی بھی دوسرے صوبے سے ہرگز کم نہیں۔
    وسلام

    ReplyDelete
  19. آپ عبداللہ کے تبصرے اگر مکمل بین نہیں کر سکتی تو کم از کم اگر کسی جگہ پنجاب بمقابلہ ایم کیو ایم کا لفظ اگر پوسٹ میں نہ ہو تو اس کے پراگندہ خیالات والے تبصرے ضرور ڈیلیٹ کر دیا کریں۔ یہ آپ کے بلاگ کے لئے درست نہیں اور اس کا نتیجہ آپ کی بات کی اہمیت ختم ہونا ہو گا۔ آگے آپ کی مرضی اس پر سنجیدگی سے سوچیں!
    لیجیئے عنیقہ اب یہ وقت بھی آنا تھا کہ کیسے کیسے لوگ آپکو سنجیدگی سے سوچنے کا مشورہ دیں گے!
    lolz
    پنجاب بمقابلہ ایم کیو ایم؟؟؟؟؟؟؟
    نہیں پنجابی پختون اتحاد بماقابلہ ایم کیو ایم کہا جائے تو بہتر ہوگا!
    یا پنجابی جاگیر دار بمقابلہ ایم کیو ایم کہا جائے تو بھی چلے گا!
    کیونکہ اب تو پنجاب کے لوگ بھی ایم کیو ایم میں شامل ہورہے ہیں اور اس کی مخالفت کرنے والے کون ہیں یہ سب جانتےہیں!

    کمال ہے دوسروں کو بات بے بات ذلیل کرنے والے آج جگہ جگہ بلبلا بلبلا کر التجائیں کرتے پھر رہے ہیں کہ عبداللہ کو بلاک کردیا جائے!
    lolz

    ReplyDelete
  20. پنجاب میں دوسری زبانیں بولنے والوں سے تعصب یقینا بہت معمولی ہے البتہ ذات برادری قبیلے کے جگھڑے کسی بھی دوسرے صوبے سے ہرگز کم نہیں۔

    طالوت بہتر ہوگا کہ تم میرا منہ نہ ہی کھلواؤ،مینے جتنا پنجاب کے لوگوں کو تعصب کرتے دیکھا ہے شائد ہی کسی کو دیکھا ہواور یہ جو تمام صوبوں کے وسائل پر ڈاکہ مار کر انکو غلام بنائے رکھنے کی پالیسی تھی بمع جنوبی پنجاب کے وہ بھی تعصب ہی کے زمرے میں آتا ہے

    ReplyDelete
  21. ایک پاکستان بنا کر آپ لوگ پنجاب پختون سندھ وغیرہ کے لئے لڑ رہے ہیں تو اس سے اچھے تو ہم انڈیا والے رہے کہ اپنی قوم کے معاملے میں صوبائی یا علاقائی تعصب کو گھسنے نہیں دیتے۔
    سچ ہے کہ غیر قوم کے ساتھ رہنے سے آدمی میں کم سے کم تحمل اور برداشت کا مادہ تو آ جاتا ہے کم از کم۔
    ورنہ پاکستان کی موجودہ حالت دیکھ کر تو لگتا ہے کہ سیاستداں تو ملک کو بیچ کر رکھ دیں گے اور عوام آپس میں لڑ لڑ کر مر جائیں گے۔

    آہ ۔۔۔۔ جناح اور اقبال کو ذرا برابر بھی یہ اندیشہ ہوتا تو شائد ملک کی تقسیم کے ارادے سے ہٹ جاتے۔

    ReplyDelete
  22. راجہ فرام ممبئ، ہمم شاید اسی وجہ سے لوگوں کا ایک گروہ پاکستان بننے کے مخالفین میں سے تھا اور یہ کہتا تھا کہ پاکستان صرف اقتدار کے لالچ میں بنایا جا رہا ہے۔ اور شاید اسی کے توڑ کے لئے نظریہ ء پاکستان وجود میں آیا۔
    لیکن یہ دیکھنے کے لئے کہ اس نظرئیے کی بنیادیں کتنی کھوکھلی تھیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں صرف بلاگستان کو دیکھ لینا کافی ہے۔
    عصبیت، کسی نے کہا تھا کہ پیاز کے چھلکے کی طرح ہے۔ اگر اسکی ایک وجہ کو ختم کر کے اتار دیں تو دوسری وجوہات نکل آئیں گی۔ اگر ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو کسی طور آزادی مل جائے اور انکے درمیان عدل نہ قائم ہو تو وہ اسی طرح ایک دوسرے سے لڑیں گے جیسے آج پاکستان میں مختلف قومیتیں لڑتی ہیں۔ ایک نظام حکومت جو لوگوں کے درمیان عدل قائم کرنے سے قاصر ہو۔ ایسی ہی شکست و ریخت کا شکار رہتا ہے۔ جیسا کہ ہمارا۔
    اور ایک ایسا نظام جو صرف اہل دولت کے اقتدار کو طول دینے کے لئے ہو کبھی ایک عادل معاشرہ وجود میں نہیں لا سکتا۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ