Friday, August 27, 2010

حکمران یا نظام

یہ میرے گھر کا ٹی وی لاءونج ہے, ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانے کے لئے یہاں سے گذرنا پڑتا ہے۔ میری بچی کے کھلونے اور سائیکلیں بھی یہاں پڑی رہتی ہیں۔  اکثر جب میں گذرتی ہوں تو آپکو بھی ساتھ شریک کر لیتی ہوں۔ یہ سماء ٹی وی کی جیسمین  منظور ہیں جو اس وقت بلوچستان ڈیرہ مراد جمالی ، میں سیلاب کے متائثرین کے ساتھ موجود ہیں۔ جی یہ وہی علاقہ ہے جو سیلاب کے پانی سے اس لئے متائثر ہوا کہ سندھ کے زمینداروں نے اپنے علاقے میں آنے والے سیلابی پانی کا رخ اس طرف موڑ دیا۔ جیسمین میرے گھر میں کچھ لوگوں کو بہت پسند ہے یہ قصہ پھر کبھی سہی۔

جیسمین ایک دیہاتی عورت کو پرسہ دیکر فارغ ہوئ

تھی کہ میں نے اس پروگرام کو دیکھنا شروع کیا۔ اسکے دو بچے مر گئے  اور وہ اپنے خاندان سمیت کھانے کے انتظار میں ان چارپائیوں کے ساتھ بیٹھی ہے جہاں سے بچوں کی میتیں روانہ ہوئ ہونگیں۔ جیسمین انہیں دلاسہ دیتی ہے کھانا ملے گا سب کو ملے گا۔ مجمع تنبو یعنی ٹینٹ کے نہ ہونے کی شکایت کر رہا ہے۔ جیسمین ان سے بھی کہتی ہے سب ملے گا۔ ابھی ہم یہاں سے جا کر بات کرتے ہیں آپ سب لوگوں کو سب ملے گا کھانا بھی اور تنبو بھی۔  وہاں سے نکل کر وہ میرے جیسے ناظرین کو بتاتی ہے کہ اس وقت یہاں فوج کے جوانوں کے علاوہ کوئ شخص انکی مدد کے لئے موجود نہیں ہے۔
لیکن یہ کیا، اسکے پیچھے ایک امدادی کیمپ نظر آرہا ہے۔ اس پہ ایک بڑا سا بینر لگا ہے کہ یہ کیمپ جماعت اسلامی کی طرف سے لگایا گیا ہے۔ جیسمین، جماعت والوں کے تنبو کے اندر پہنچتی ہے تنبو یعنی شامیانے کے اندر ایک ڈنڈے کے ساتھ ایک بکری بندھی ہوئ ہے خالی زمین پہ دو تین دیہاتی بیٹھے ہوئے ہیں اور کچھ نہیں ہے۔ یہ امدادی کیمپ اندر سے بالکل خالی، پارٹی کا کوئ کارکن تک موجود نہیں ، امداد کا تو تذکرہ ہی کیا۔ جیسمین اس سے آگے بڑھتی ہے۔ یہ ایک اور شامیانہ لگا ہے جس پہ عمران خان کی ایک بڑی سی اسٹائلیش تصویر موجود ہے نیچے انکی پارٹی کا نام موجود ہے۔ تحریک انصاف۔ ابھی چند دن پہلے انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں  سنہری چمکدار کرسیوں پہ بیٹھےم پیچھے لاکھوں روپے سے پرنٹ کئے ہوئے بڑے سے بینر جس پہ سیلاب زدگان کی قد آدم تصویریں موجود ہیں انکی موجودگی میں  اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کہا تھا کہ ہمیں امداد کی رقم دیں۔ ہم آپکو ایک ایک پائ کا حساب دیں گے۔ یہ شامیانہ بھی اندر سے خالی پڑا ہے۔ اور یہ کہہ رہا ہے کہ عمران خان اس شامیانے کے پیسوں کا حساب دو۔
اس سے آگے ایک اور شامیانہ لگا ہے۔ اس میں تو لال دریاں بھی بچھی ہیں اور ایک اسٹیج بھی بنا ہے۔ یہ ایک میڈیکل ریلیف کیمپ ہے یہ بھی اندر سے بالکل خالی پڑا ہے۔ یہ پاکستان اسلامک کلچر والوں کی طرف سے لگایا گیا ہے۔ جتنی دیر میں جیسمین اپنی بے زاری کو پوری طرح ظاہر کرتی ہوئ اس میڈیکل کیمپ کی حالت دکھاتی ہے ایک داڑھی والے صاحب بھاگے بھاگے پہنچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دراصل دو بجے کیمپ کی چھٹی ہوجاتی ہے اس لئے یہ اس وقت آپکوخالی ملا۔ مجمع جو جیسمین کے ساتھ ہے بتاتا ہے کہ یہ صبح سے اسی طرح خالی ہے۔ سیلاب زدگان کے لئے قائم کیمپ میں وقت کی پابندی شاید سب سے زیادہ ہوگی۔

تین کیمپ اور تینوں خالی، باقی وہاں اور کوئ نہیں۔ فوج کا ایک ہیلی کاپٹر مصروف بہ عمل ہے۔ جیسمین وہاں سے اپنے ناظرین کو خدا حافظ کہہ کر نکل آئ۔

میں بھی جیسمین کے ساتھ اس منظر سے رخصت ہوئ۔ پیچھے رہ گئے متائثرین۔ ایسے وقت میں انکا خدا پہ یقین رکھنا بہت ضروری ہے۔ خدا نے ہی یہ عذاب بھیجا ہے ان پہ تاکہ اس نظام کی کمزوری ان پہ عیاں نہ ہو جسکے وہ پروردہ ہیں۔ اور وہ یہ سمجھتے رہیں کہ یہ سب اللہ سائیں کی مرضی ہے۔ اور اب خدا ہی باقی رہ گیا ہے کہ وہ اس زندگی کو ان پہ آسان کرے اور مخیر افراد  خدا کے ڈر سے اپنے مال کا صدقہ انہیں عطا فرمائیں۔۔
ان لوگوں کو خدا پہ چھوڑتے ہوئے میں واپس آ کر اردو سیارہ کو چیک کرتی ہوں پتہ چلا کہ جیو ٹی وی پہ کامران خان کا کہنا ہے پاکستان کے سو فی صد عوام کو نظام کی پرواہ نہیں  بلکہ وہ ایک مسلمان حکمران چاہتے ہیں جو خود اسلامی تعلیمات پہ عمل کرے اور ملک کو اسلامی تعلیمات کے مطابق چلائے اور اسکے حساب سے انکا خیال رکھے۔

لیکن معزز قارئین، جیسا کہ ابھی آپ نے میرے ساتھ، جیسمین منظور کے ساتھ

ایک علاقے کے متائثرین کو دیکھا۔ تو آپ کو پتہ چلا ہوگا کہ یہ بھی پاکستان کے عوام ہیں اور انہیں کیا چاہئیے؟

جو لوگ انہیں امداد پہنچا رہے ہیں انکے بارے میں انہیں کوئ فکر نہیں کہ وہ شراب پیتا ہے یا زنا کرتا ہے یا اسکے گھر کی عورتیں بے پردہ پھرتی ہیں، یہ امداد حق حلال کے پیسوں کی ہے یا حرام سے کمائے گئے روپے کا صدقہ ہے، یہ امداد ہندو، عیسائ یا یہودی بھیج رہے ہیں یا کوئ راسخ العقیدہ مسلمان، یہ ہمارے دشمن ملک بھیج رہے ہیں یا دوست، دہشت گرد یا امن پسند، طالبان یا لبرل۔ انہیں بس ایک ایسا نظام چاہئیے جس میں انہیں سیلاب کے بعد کھانا اور بے گھری سے بچنےکے لئے کچھ نہیں ایک تنبو تو ملے۔

یہ  پاکستان کے سو فی صد عوام میں شامل نہیں ہیں۔  یہ کبھی بھی پاکستان کے عوام میں نہیں گنے جاتے۔ کیونکہ یہ اپنی گنتی کا حق اپنے کسی انسانی رب کے حوالے کر چکے ہیں۔ انکی گنتی امداد کے حصول کے وقت یا سیاسی چالوں کے وقت صحیح سے ہوگی۔ بہر حال باقی سب جو گنتی جانتے ہیں یہ سمجھ  کے کہ یہ اپنے نظریات کو چمکانے کا سنہرا وقت ہے یہی وقت ہے  لوگوں کواللہ نامی دیوتا کے غیض و غضب سے عذاب سےڈرانے کا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام اسکے بجائے کسی اور نظریہ حکومت میں پناہ تلاش کرنے لگیں۔ اپنی اپنی دوکانیں لگائے بیٹھے ہیں۔ آئیے صاحبان، ڈھونڈھتے ہیں ایک حکمران جو ہو اصل مسلمان، جو کرے وہ سرداری دور ہوگی ہر بیماری، جو نہیں سنوگے ہماری بات، تو نازل ہونگے ایسے ہی عذاب۔  یہ اصل مسلمان حکمران انکے پاس چھپا ہوا ہے، جب سب تائب ہو جائیں گے تو وہ باہر آئے گا۔
جو مصیبت جھیل رہے ہیں وہ توبہ کی نمازوں میں کھڑے ہونے کے بجائے، کھانے اور تنبو کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ یا اپنے اپنے بیمار بچوں کی دواءووں کے انتظار میں ہیں ان میں اتنی ہمت بھی نہیں کہ ڈوبتی نبضوں پہ اپنا ہاتھ ہی رکھ دیں۔ ان میں سے بیشتر کو صحیح سے نماز بھی نہیں پڑھنی آتی۔ بس یہ کہنا آتا ہے کہ مالک ہے اللہ سائیں  اور پیر سائیں ۔ 
جو اس مصیبت سے دور ہیں وہ ایکدوسرے کو توبہ اور استغفار کی نصیحتیں کر رہے ہیں۔ جو ایکدوسرے سے جلے ہوئے ہیں وہ ایکدوسرے کو بد دعائیں دے رہے ہیں خدا تمہیں بھی ایسی مصیبت سے دو چار کرے۔ حالانکہ بات تو اتنی ہے کہ ہوئے تم دوست جسکے اسکا دشمن آسماں کیوں ہو۔ 
اب بات یہ ہے کہ سائینسداں کہہ رہے ہیں کہ دنیا بھر میں موسمی حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ اگررررررر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اس سیلاب سے بچ نکلے تو بہت ممکن ہے کہ اگلے سال پھر یہ سیلاب حاضر ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ دو،  تین، چار سال بعد پورے ملک کو قحط سالی بھگتنی پڑ جائے۔ اگلی دفعہ کیا کریں گے؟ حکمران تبدیل کریں گے یا نظام؟

35 comments:

  1. سیلاب زندگان؟ سیاسی جماعتیں؟ مدد ؟ اللہ سائیں؟
    اوہو۔۔۔۔مجھے صرف یہ بتائیں کہ سائیکلیں ٹی وی لاؤنج میں کیوں کھڑی ہیں؟

    ReplyDelete
  2. بی بی!

    دین سمجھنے کے لئیے اُس پہ ایمان اور یقین ہونا ضروری ہے۔ جس کے لئیے ذاتی زعم اور انا کو خیر آباد کرنا پڑتا ہے ۔ ورنہ نتیجہ وہی آتا ہے جیسے یہ آپ کی پوسٹ ہے

    آپ نے سب اسلام سمیت سب کو رگید لیا اور حیرت ہے کہ قائد حق پرستان کے دو سو کیمپوں کا ذکر نہیں کیا؟۔

    ReplyDelete
  3. شائد ایتھکس اور اکنامکس کے چیس بورڈ پر مہرے ادھر اودھر کرنے کے بارے میں کچھ کہنا چاہا ہے آپنے ۔

    ReplyDelete
  4. چلیں جی۔
    فی الحال ہمیں تو کھانے کو مل رہا ھے۔
    کھائی جا!۔
    پی جا!۔
    جی جا!۔
    اری دنیا بھاڑ میں جا!۔

    ReplyDelete
  5. بقول شاعرِ مشرق:
    ’عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
    یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے‘

    ‘خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا‘

    ReplyDelete
  6. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  7. عثمان، سائیکلیں اس لئے پڑی رہتی ہیں کہ کوئ تخریب کار اگر میرے گھر میں اتفاق سے گھسنے کی غلطی کر لےتو اسے لگ پتہ جائے کہ سائیکل سے ٹکرا کر کیا کیا سانحات ہو سکتے ہیں۔
    ویسے میری بیٹی سائیکل چلاتے ہوئے کارٹونز دیکھتی ہیں اور آنے جانے والوں کو متائثر کرنے کی کوشش کہ میں کتنی تیز اور صحیح سائیکل چلاتی ہوں۔ آئ ایم سپر گرل۔
    جاوید صاحب، اسلام اگر جماعت اسلامی، عمران خان اور پاکستان اسلامک کلچر والوں کا نام ہے تو یقیناً میں نے اسلام کو رگیدا اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔
    ایک علاقائ لسانی جماعت کا قومی امور جیسے اہم مسائل میں کیا تذکرہ۔ مجھے آپ سے پتہ چلا کہ انہوں نے بھی دو سو کیمپ لگائے ہیں یہ تو کراچی والوں سے بڑی زیادتی ہے۔ ووٹ کراچی والے دیں، بھتہ کراچی والے دیں اور خرچ ان لوگوں پہ ہو جو نہ انہیں ووٹ دیتے ہیں نہ ان سے ہمدردی رکھتے ہیں نہ انکا تذکرہ سننا پسند کرتے ہیں۔ اب لوٹ کے الو گھر کو آئیں تو پوچھیں گے۔
    ویسے میں نے پاکستان میں موجود دیگر دو درجن سیاسی و مذہبی جماعتوں اور انکے چار درجن سیاسی رہنماءوں کا تذکرہ بھی نہیں کیا لیکن آپ نے ان میں سے الطاف حسین کا نام کس محبت سے نکالا۔ اسکی کیا وجہ ہے۔ میرے گھر سے تو عزیز آباد زیادہ دور نہیں، نہ ہی وہ نو گو ایریا ہے کہ جا بھی نہ سکوں۔ اس سلسلے میں آپ لوگوں کی طرف سے بار بار یاد دہانی ، چہ معنی دارد۔
    لیجئیے ابھی کل ہی عمران خان ٹی وی پہ اس سوال کے جواب میں کہ آپ سیلاب کے دوران امریکہ کا دورہ کیوں کرتے رہے۔ جواب دیتے ہیں کہ میں تو شوکت خام ہسپتال کے لئے چندہ جمع کرنا گیا تھا۔ چلیں جناب ایک دفعہ پھر اسلام کو رگیدنے پہ معذرت خواہ۔ اسلام عمران خان کا نام جو ہوا۔

    ReplyDelete
  8. ہماری حکومتوں, دانشوروں و نام نہاد اسلام کے ٹھیکیداروں نے سب بڑی کوتاہی جو کی ہے، وہ ہے عام لوگوں کی تعليم و تربيت ميں غفلت- يہی وجہ ہے کہ لوگ پہاڑوں پر ڈوب کر اور دنيا کے سب سے بڑے اناج گھر ميں بھوک سے جان دے رہے ہيں- نا معلوم وجوہات کی بدولت ايسا کلچر تشکيل پا چکا ہے کہ ناگہانی آفات سے بچنے اور مقابلہ کرنے کی تياری کرنے والے پر کفر کا فتويٰ لگ جاتا ہے-
    ترقی يافتہ ممالک ميں بھی مختلف قسم کی آفات آتی رہتی ہيں اور وہاں بھی حکمران ہوتے ہيں اور عوام کی مدد اسطرح کرتے ہيں کہ ہر کوئ خوش ہوتا ہے مگر ايک بات جو نہيں ہوتی اور ديکھنے ميں نہيں آتی وہ ہے پبليسٹی - تو پھر ہمارے حکمران ايسا کيوں کرتے ہيں کہ ہر جگہ فوٹو چاہے وہ ايک گلی ميں نالی بنانے کا افتتاح ہو يا کسی بيت الخلا کا اور يا پھر کسی بيوہ اور يتيم بچی بچے کی کبھی کبھار مدد کا موقع ہو ـ يہ حکمران کام کيوں نہيں کرتے بجاۓ اپنی پبليسٹی کے ؟
    اگر کوئی بھی شخص سیلاب زدگان کی مدد کرنے کے لیئے جائے امداد پر اس انتظام کے ساتھ جائے کہ وہ ٹی وی یا میڈیا والوں کو پہلے سے دعوت دے کہ آپ فلاں جگہ پہنچیں، میں نے وہاں سیلاب زدگان کے درمیان امداد تقسیم کرنی ہے۔ جب میں متاثرین ِ سیلاب کو امداد بانٹوں تو تم فوٹو کھینچنا، تو ایسے انتظام کو بجا فوٹو سیشن کہا جائے گا۔

    ReplyDelete
  9. اس کڑے وقت میں بھی آفرین ہے ان لوگوں پر جو ہر المیے کو سنہری موقع سمجھ کر ایجنڈا آگے بڑھانے سے باز نہیں آتے۔
    اس وقت متعدد سیلاب زدہ علاقوں میں آپ کو ایسے گروہ نظر آئیں گے جو ویگن اور کوسٹرز لے کر جگہ جگہ گھوم رہے ہیں۔ یہ گروہ خیمے، خوراک، ادویات اور صاف پانی کے بجائے سکتے کے شکار فاقہ زدہ متاثرین کو بذریعہ میگا فون خوف، ڈر اور عبرت سپلائی کر رہے ہیں۔
    ’تمھارے اعمال ہی ایسے تھے کہ یہ عذاب آنا تھا۔ توبہ کرو۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔ حرص کرنی ہے تو بعد از آخرت زندگی کی حرص کرو۔ یہ تکالیف نہیں آزمائش ہے۔ جس کا اگر یہاں نہیں تو وہاں ضرور اجر ملے گا‘۔
    یقیناً یہ سب وعظ اور نصیحتیں بہت اچھے ہیں لیکن جب پیٹ خالی ہوں۔ جب حاملہ عورتیں ہر چلتی گاڑی کو امدادی گاڑی سمجھ کر پیچھے پیچھے بھاگ رہی ہوں۔ جب بچے خوراک کی تقسیم کے وقت اپنے ہی بڑوں کے پیروں تلے آ رہے ہوں اور جب بڑے چھینا جھپٹی کے دوران پولیس کے ڈنڈوں کی زد میں آ رہے ہوں ۔ کیا یہ وقت وعظ اور نصیحت کے لیے مناسب ہے؟

    کیا دماغی امراض کے شفا خانے بھی سیلاب میں بہہ گئے ہیں؟

    ReplyDelete
  10. اس بات یہ ہے کہ سیاری دنیا میں جب بھی سیلاب، زلزلہ، طوفان اور اس طرح کی غیر معمولی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو فوج کی افرادی اور تکنیکی صورت حال کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ فوج کی تربیت کا ایک اہم حصہ بھی یہی ہوتا ہے۔

    آمریکہ، چین اور ہندوستان میں بھی اس طرح کے مواقعوں پر فوج ہی کو استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ فوج ان چیزوں کے لئے سالہ سال ٹرینڈ کی جاتی ہے اور اسکا کام بھی یہی ہے۔ اب اگر فوج کے کام میں کمی نظر آئے تو اس سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ وہ اس کام پر معمور ہے اور اگر کام ٹھیک ہے تو انہیں شاباشی دینی چاہئے۔ شاباشی کا مطلب سر پر چھڑھا کر مائی باپ بنانا نہیں ہوتا؟

    سیاسی و مذہبی کارکنوں کا البتہ یہ کام نہیں ہے اور وہ اس بات کی تنخواہ بھی نہیں لیتے، اگر وہ جزبہ انسانیت سے لبریز ہوکر رضاکارانہ پر کوئی کام کریں تو وہ جس سطح کا بھی انکی ستائش اور شاباشی ہونی چاہئے۔

    چلئے جماعت اور تحریک والوں کے خالی کیمپ تو تھے لیکن پی پی پی ، ن لیگ ایم کیو ایم ور اے این پی کے تو کیمپ بھی نا تھے۔ ویسے آپ نے یہ نہیں بتایا کہ جیسمین ایک متعصب خاتون ہیں اور انہیں مذہبی لوگوں سے سخت عناد ہے۔

    ReplyDelete
  11. کاشف نصیر صاحب، تو کیا جیسمین نے ان کیمپس میں موجود لوگوں کو کسی بہانے سے باہر بھجوا کر خالی کیمپس شوٹ کروالیئے۔ اس خاتون نے تو انبینرز کی تحریر نہیں پڑھی تھی اس لئے جو لوگ پڑھ لکھ نہیں سکتے انہیں کچھ نہیں پتہ چلا ہوگا۔ یہ تو مجھ جیسے کچھ لوگ دلچسپی رکھتے ہونگے کہ کیمرہ جو کچھ دکھا رہا ہے جلدی جلدی دیکھ اور پڑھ لیں۔
    یہ ساری غلطی دراصل کیمرہ مین کی ہے۔ اسے اپنا کیمرہ ہر طرف گھمانے کی کیا ضرورت تھی۔ اس نے سرکاری کیمرہ مین سے کچھ نہیں سیکھا۔ میرا خیال ہے کہ وہ مذہبی جماعتوں سے عناد رکھتا ہوگا۔

    ReplyDelete
  12. بات یہ نہیں ہے کہ سیاسی و مذہبی کارکن کیا ک کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ انک جماعتیں اپنے کارکنوں کے ذریعے جو چیز ڈلیور کروانے کا دعوی کر رہی ہیں وہ کتنا کروا سکتی ہیں۔ انکا شامیانے لگا کر غائب ہو جانا اس بات سے زیادہ بے کار بات ہے کہ وہ کیمپ ہی نہ لگائیں۔ ایک سیاسی جماعت یہ بہانہ کر سکتی ہے کہ اسکے پاس فنڈ کی کمی ہے اس لئے وہ ہر جگہ کیمپس نہیں لگا سکتی۔ فلاں فلاں علاقے میں اسکے کارکن نہیں ، وہاں اسکا رسوخ نہیں اس لئے انکے کیمپس وہاں نہیں ہیں۔ لیک شامیانہ موجود اور شامیانہ لگانے والے کارکن غائب۔ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپکو بس اپنے نام کی اینٹری چاہئیے۔ اور آپ سنجیدگی سے اس میں کوئ دلچسپی نہیں رکھتے۔

    ReplyDelete
  13. "ویسے آپ نے یہ نہیں بتایا کہ جیسمین ایک متعصب خاتون ہیں اور انہیں مذہبی لوگوں سے سخت عناد ہے۔
    "

    جيسمين کو چاہيئے تھا داڑھی لگا کے خود کيمپ ميں بيٹھ جاتيں تاکہ مذہبی لوگوں کا ڈرامہ نہ کھلتا- جيسمين نے يہ نہيں کيا اسليئے متعصب -

    ReplyDelete
  14. اس لیتر مار پروگرام پر اگلا تبصرہ کرنے سے بمشکل ہی اپنے آپکو روکا ہے جی ۔
    اب تو لیتر بھی پولائٹ طریقے سے ہی مارنے چاہییں کیونکہ اب تو اڑتے ہوئے جوتوں کا دور ہے ۔ دوست احباب جنکو راکٹ ایکویشنز کا پتا ہے اب جوتوں کی پیرامیٹرک اور نان پیرامیٹرک ایکویشنز ڈیرائو کریں اور اپنے آپ کو گلوبل تسکین ایوارڈ کے اہل بنائیں ۔

    ReplyDelete
  15. عنیقہ
    آپکو پتہ نہیں یہ تو جماعتیون کی پرانی عادت ہے،انہیں بس اپنے نام کی انٹری چاہیئے ہوتی ہے اپنے نعمت اللہ صاحب بھی تو یہی کرتے رہے تھے جگہ جگہ افتتاحی کتبے لگوا دیئے تھے،باقی جب مصطفی کمال نے آکر پروجیکٹ مکمل کروائے تو انہوں نے اخباروں میں یہی بیانات داغے کہ یہ سب تو نعمت اللہ خان نے شروع کروایا تھا مصطفی کمال نے تو صرف اختتامی کام کروایا ہے،اسے ہی تو کہتے ہیں ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا!!!!!!
    آخر جن کے ساتھ مل کرسیاست کی ہے ان سے یہ بھی نہ سیکھتے تو فائدہ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    ReplyDelete
  16. رہی یہ بات کہ لوٹ کے الو گھرآئیں گے تو آپ ان سے پوچھیں گی!
    کیا پوچھیں گی کراچی والوں کا تو مسئلہ ہی یہی رہا ہے کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے،اور سب کر کے بھی ذلت اور رسوائی ہمارے ہی حصے میں آتی ہے!!!!

    ReplyDelete
  17. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    بہن عنیقہ، دراصل بات یہی ہےکہ ہم نےاسلام کواتنابدنام کردیاہےکہ ہرمعاملےمیں اسلام کولایاجاتاہے۔لیکن اسلام کی الف ب کی تعلیم بھی نہیں ہوتی ہے۔ لیکن اسلام کےنام سےاس طرح بھاگتےہیں کہ جسطرح غلیل سےکوا۔ اورجویہ سیلاب آیاہےیازلزلہ آیاتھابجائےاسکی تحقیق کرنےسےیہ کہہ کریہ اللہ تعالی کی طرف سےعذاب ہےبہت سی چیزوں سےجان چھوٹ جاتی ہے۔خداراقرآن مجیدکی تعلیمات پرعمل کرناسیھکیں کہ جوباربارانسان کودعوت دیتاہےکہ غوروفکرکرو۔لیکن ہم لوگوں نےملاجس کودین اسلام کاعلم نہیں ہے۔لیکن زبان پہ ہروقت اسلام اسلام ہےلیکن دل اس سےخالی ہ ے۔ اللہ تعالی سےدعاہےکہ ہمیں دین اسلام کی صحیح سمجھ بوجھ عطاء فرمائيں۔ آمین ثم آمین

    والسلام
    جاویداقبال

    ReplyDelete
  18. بی بی!

    ماشاءاللہ آپ کافی سمجھدار ہیں اور اچھی طرح جانتی ہیں ۔ کہ میں نے عمران خان وغیرہ کو رگیدنے کو اسلام سے نتھی کیا ۔ آپ جانتے بوجھتے موضوع کو ایک مختلف رُخ دے دیتی ہیں۔ جو مناسب نہیں۔

    آپ مسلمانوں کو بہ حیثیت مجموعی ناکام اور شکستگی کا پیغام دیتی ہیں۔ اور بھول جاتی ہیں کہ عقیدے کا تعلق انسان سے اسقدر گہرا اور پرانا ہے جتنی پرانی زمین پہ انسانی زندگی ہے۔ آپ اپنے آپ کو کسی بھی عقیدے یا عدم عقیدے پہ قائم بے شک رہیں مگر دوسروں کے عقائد کو بغیر کسی وجہ کے گھٹیا اور کم تر قرار دینا درست عمل نہیں ۔

    آپ یہ بات سوفیصد بہتر سمجھتی ہیں کہ بھارت اور پاکستان میں لوگ "اللہ" سبحان و تعالٰی کو "دیوتا" نہیں سمجھتے۔ اگر آپکی نیت میں بہتری کی تبلیغ ہوتی تو آپ ایک مسلمان کا دل دکھانے کی بجائے کسی اور طریقے سے اپنی بات کر سکتیں تھیں مگر نہیں صاحب وہ موضوع ہی کیا جس میں اپ دوسروں کو رگڑا نہ لگایں۔ خواہ وہ مذھب ہو یا کسی قوم کا کلچر۔

    ساری دنیا کا پریس برملا بتا رہا ہے کہ پاکستان کے موجودہ سیلاب میں حکومت سے بھی بہت پہلے اور بہتر طریقے سے سیلاب ذدگان کی مدد کر رہا ہے۔ جس پہ پاکستان دشمن طاقتیں اور پاکستان کے سو کال " اسیکولرز" وہ پاکستان کے مسلمانوں کی اسلام کے بارے بہ حیثیت فلاحی دین دریافت کرنے کو چیخ چیخ کر ناجائز طور پہ اسلامی شدت پسندی میں مبینہ اضافے سے نتھی کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ جسکا مطلب یہ بنتا ہے کہ پاکستان میں اکثریت لوگوں کی وہ ہے جو اسلام سے محبت اور دلچسپی رکھتے ہیں ، اور اس اپنا دینی اور قومی فریضہ سمجھتے ہوئے سیلاب زدگان کی مقدور بھر مدد کر رہے ہیں۔ اوریہ بات اسلام دشمن اور نام نہاد سیکولرز کو گوارہ نہیں۔

    آپ کو مسلمان جماعتوں اور دیگرز کو صرف اسلئیے معتوب قرار دے رہی ہیں کہ وہ مسلمان ہیں ۔ آپ کی اطلاع کے لئیے صرف ایک حوالہ دینا چاہوں گا کہ صرف "الخدمت" ہر روز ایک لاکھ افراد سے زائد کو دو وقت کا کھانا فراہم کر رہی ہے۔ جبکہ کے آپ سے بڑھ کر کون بہتر جانتا ہوگا کہ یہ تمام فلاحی ادارے حکومت یا امریکہ وغیرہ سے ملی بھیک سے کسی قسم کا کوئی حصہ نہیں لیتے۔اور جو حکومت میں ہیں اور لیتے ہیں اُن پہ بات کرنے کی بجائے آپ کو وہی ہمیشہ کے لوگ نظر آتے ہیں جن سے بوجوہ آپ کی نہیں بنتی۔

    آخر کوئی تو وجہ رہی ہوگی کہ پاکستان میں اسقدر اسلامی رفاحی اداروں کی اور مسلمانوں کی انفرادی کوششوں کی بجائے آپ نے بطور خاص جسمین کے مشکوک مقاصد کے ویڈیو پہ اپنی توانائی صرف کی۔

    آپ کو علم ہے کہ کراچی میں ہر روز کتنے افراد طبعی اور غیر طبعی طور پہ فوت ہوجاتے ہیں؟۔ اگر صرف مرنے والوں کے بارے ڈھنڈورا پیٹا جائے اور ہر روز پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد نہ بتائی جاے تو کیا سکا یہ مطلب لیا جائے گا کہ کراچی عنقریب انسانی زندگی سے خالی ہوناے والاہے؟

    گلاس کے بھرے حصے کو نظر انداز کرتے ہوئے نستاََ کم خالی حصے کو موضوع بنانا ، معاملات کو اپنی مرضی کا رنگ دینے کے مترادف ہے اس سے اجتناب برتنا چاہئیے۔
    اللہ تعالٰی سچ لکھنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

    ReplyDelete
  19. جب میں چھوٹا تھا تو میرے پاس تو ایک بھی سائیکل نہیں تھی۔ سپر گرل کے پاس تو ایک سے زائد ہیں۔
    اس سے پوچھیں کہ عثمان ماموں کہہ رہے ہیں کہ وہ ایک سائیکل ادھار لے سکتے ہیں؟
    (:

    ReplyDelete
  20. عثمان، جب میں چھوٹی تھی تو ہمارے گھر میں ایک سائیکل تھی جسے باری باری ہم سب بہن بھائیوں نے استعمال کیا۔ پھر اسے صاف کر کے لپیٹ کر رکھ دیا گیا۔ ابھی پچھلے دنوں پرانے سامان کی چھان پھٹک میں دوبارہ نکلی۔ ایک ہی سائکل رہی کہ ہمارے نانی دادی چچا ماموں پھوپھی خالہ کینیڈا، امریکہ کے شہری نہ تھے۔
    مشعل کے اسکول میں بچے اپنی سالگرہ پہ دیگر بچوں میں تحفے تقسیم کرتے ہیں۔ جب پہلے دن وہ اسکول سے اسی طرح کا گوڈی باکس لیکر لوٹیں تو میں نے اپنی بیٹی کو سمجھایا کہ اس میں سے اسے کچھ گھر میں کام کرنے والی لڑکی کے ساتھ شیئر کرنا پڑیں گی کیونکہ وہ تمہاری دوست ہے۔ وہ راضی ہو گئ۔ اب آجکل میں نے کوشش شروع کی کہ انہیں بتایا جائے کہ کسی اور کے لنچ بکس میں سے اس وقت تک کوئ چیز نہیں کھاتے جب تک وہ آفر نہ کرے۔ کسی اور کی چیز آپکی نہیں ہوتی۔ ایک دو دن تو انہوں نے اس فلسفے کو سنا اور پھر کہنے لگیں کہ ماما، اسکول سے جو گوڈی بکس ملتا ہے وہ میرا ہوتا ہے ناں۔ میں نے کہا ہاں وہ تمہارا ہوتا ہے۔ تو انہوں نے سوال داغا۔ آپ کیوں کہتی ہیں کہ اسے رابعہ کے ساتھ شیئر کرو۔ کسی کی چیز میں سے تو نہیں کھانا چاہئیے ناں۔
    تو عثمان ماموں،یہ ادھار والی بات آپ ہی کو سمجھانی پڑے گی۔ میں فی الوقت مزید سوالات کی زد میں نہیں آنا چاہتی۔

    ReplyDelete
  21. جاوید صاحب، آپ خود خاصی الجھنوں کا شکار ہیں۔ سیکولر لوگ مسلمان بھی ہوتے ہیں البتہ وہ دین کا شور و غوغا اس طرح نہیں کرتے اور نہ اس پہ اپنی اجارہ داری جتاتے ہیں جس طرح کہ آپ جیسے دیندار لوگ کرتے ہیں۔
    پاکستان کے لوگوں کی اکثریت مڈل کلاس یا اپر کلاس دیندار لوگوں پہ مشتمل نہیں ہے بلکہ وہ ہے جو ان دنوں سیلاب کی وجہ سے در بدر ہو گئ ہے۔ انہیں اس سے بالکل کوئ غرض نہیں کہ دیندار لوگ کیا فرماتے رہتے ہیں۔
    الخدمت کو فنڈ دینے والوں میں بھی کئ سیکولر لوگ ہونگے۔ در حقیقت اس وقت کراچی سے جتنے لوگ امدادی کاررائیوں میں جوش و خروش سے حصہ لے رہے ہیں وہ آپکی بتائ ہوئ دیندار لوگوں کی تعریف میں نہیں آتے۔ اس لئے یہ آپکی ایسی جنت ہے جہاں کے آپ خود شہنشاہ ہیں۔
    کسی سیکولر کو دین سے تکلیف نہیں۔ ہر سیکولر شخص کو دین کی اس تعریف سے تکلیف ہے جو آپ جیسے دیندار لوگ بیان کرتے ہیں اور جسکا آپ چرچا کرتے ہیں۔
    تمام مذہبی جماعتیں پاکستان سے باہر مختلف طاقتوں سے فنڈنگ لیتی ہیں۔ یہ کوئ ڈھکی چھپی بات نہیں۔ آپ اسے جھٹلا نہیں سکتے۔
    آپ لوگ جس طرح خدا کا تذکرہ کرتے ہیں ذرا اسے کسی ہندو کے تصور خدا سے ملا کر دیکھیئے گا یا پرانے زمانے کے بت پرستوں سے جو عہد جاہلیت میں عرب میں موجود تھے تو وہ ایک دیوتا ہی لگتا ہے۔ یہ میں اسے دیوتا نہیں کہہ رہی بلکہ یہ اسکی وہ حیثت ہے جو آپ لوگ اپنی مسلسل پیہم کوششوں سے متعین کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
    ایک ایسے وقت میں جب ہم سب کو بحیثیت مجموعی یہ تسلیم کرنا چاہئیے کہ ہم نے پچھلے تریسٹھ سالوں میں ملک کے انفرا اسٹرکچر پہ کوئ کام نہیں کیا۔ ہمارے پاس ماہرین نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہم کسی بھی قسم کی مستقبل کی منصوبہ سازی سے محروم ہیں اور اپنی اس نااہلیت، نکمے پن اور کام چوری کو ایسے بحران کے وقت خدا پہ ڈال کر آرام سے بیٹھنا چاہتے یں۔ نہ صرف یہ بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ لوگوں میں اگر کوئ احتجاج پیدا ہو تو وہ بھی اسکے زیر اثر دبا رہے۔ دینی جماعتیں خاص طور پہ اس وقت بھی یہ محسوس نہیں کرتیں کہ انہوں نے اس ریاست کو ایک فلاحی ریاست بنانے میں کبھی دلچسپی نہیں لی، انکے نزدیک پاکستان یا پاکستانی کی کوئ اہمیت نہیں۔ وہ ابھی پان اسلامزم سے فارغ ہوں تو انہیں پتہ چلے کہ سیلاب نے اس بڑے پیمانے پہ تباہی کیوں کی۔ یہ ان تمام افعال و اعمال کا مشترکہ نتیجہ ہے جس میں دینی و مذہببی جماعتیں سب سے آگے ہیں کہ آج ہم اپنے شہریوں کو وصول کی جانے والی امداد ہی صحیح طریقے سے دینے کے قابل نہیں۔
    کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ مسلم معاشرے کا ے مخیر حضرات، ضرورت مندوں کو اپنا صدقہ خیرات دیتے رہیں اور حوصلہ بلند رکھیں کہ خدا اسکے بدلے میں انکی آخرت آسان کرے گا۔ یا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہر پاکستانی اپنے طور پہ اپنے مسائل حل کرنے کے قابل ہو۔ اور کسی مصیبت کے وقت میں محض تھوڑی بہت داد رسی سے وہ ایک دفع پھر اپنے پیروں پہ کھڑا ہو جائے۔ میں تو نہیں چاہتی کہ ایک ہاتھ پیر سے مضبوط شخص ہر تھوڑے دن بعد میرے سامنے اپنے کم وسائل کی بناء پہ ہاتھ پھیلائے کھڑا ہو اور میں بڑی سخی داتا بنی اسکی مشکلات حل کروں۔ آخر تریسٹھ سال کم تو نہیں ہوتے کہ ہم اپنے شہریوں کو ایک با عزت زندگی نہ دے سکیں اور اسکے بعد ڈھنڈھورا پیٹیں کہ ہماری قوم اپنی دینداری کی وجہ سے اتنی امداد کرتی ہے۔
    آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہماری قوم اپنے احساس گناہ کو چھپناے کے لئے یہ سب کرتی ہے۔
    دوسری طرف سیکولر ممالک جو آپکو ایک کثیر امداد دے رہے ہیں وہ انکے عوام کی جمع کی ہوئ دولت ہے جو وہ آپکو امداد کی شکل میں دے رہے ہیں۔ آخر لا دین ہونے کے باوجودآپ جیسے دیندار انکی امداد کیوں لینے پہ مجبور ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی انہی لا دین ریاستوں کی خدمت کر کے اتنا حاصل کرتے ہیں کہ آپ جیسے دینداروں کی مدد کر سکیں۔ یہ وہ دیندار ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ دراصل دنیا کی مدد کے لئے بنائے گئے ہیں۔
    یہ ہمارے معاشرے کا نفاق ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ کرپٹ اقوام میں شمار ہونے قوم والی خیرات کرتی ہے اپنے ہم وطنوں کے لئے۔ اپنے معاشرے سے کرپشن ختم کر لیں تو ان اخلاقیات کا شور کرنے کا فائدہ۔ ورنہ لوگ یہی کہیں گے کہ نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی۔
    لوگوں کو انکا حق دیں خیرات نہیں، وہ اپنے معاملات خود سدھار لیں گے انہیں پھر اس خیرات کی ضرورت نہیں رہے گی۔ مگر یہ تو نقصان کا سودا ہوگا۔
    اس لئے آئیے اور آیت ربانی کو اپنے کمرشل مقاصد کے لئے استعمال کریں۔
    اے اللہ ہمیں ان میں شامل فرما جن پہ تونے اپنی نعمتوں سے نوازا اور ان میں شامل نہ کر جن پہ تونے اپنا غضب نازل کیا۔ بے شک ہم اپنی جانوں پہ ظلم کرنے والے ہیں۔

    ReplyDelete
  22. ہاہاہا۔۔۔ یعنی سپرگرل کی ماما اور عثمان ماموں میں ایک بات مشترک ہے کہ عثمان ماموں کا بھی کوئی ماموں چاچو کبھی باہر نہیں رہا۔ لیکن سپرگرل کو مسئلہ نہیں کیوں کہ عثمان ماموں اینڈ فیلمی باہر ہیں۔ اور دیکھ لیں۔ کہ سپر گرل کے پاس ایک سے زائد نئی سائیکلیں ہیں۔ تو ماما کی بات تو سوفیصد ٹھیک ہے۔ :)
    عثمان ماموں نے سپر گرل سے خود ہی بات کرلی ہے۔ سپرگرل نے سائیکل کی آفر بھی کی ہے اور ساتھ میں لنچ کے لئے سپرماما کی ہاتھ کی پکی ہوئی کراچی بریانی اس عید پر کھانے کے لئے مدعو بھی کیا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عثمان ماموں اس سپربریانی سے ڈرے ہوئے ہیں۔ کہ کیا معلوم اس کا ذائقہ بھی بلاگ جیسا نہ ہو۔ :)
    پس نوشت : یہ اوپر ہسپانوی درویش اپنی جو حجامت بنوا چکے ہیں اب تو مجھے بھی ان پر ترس آرہا ہے۔
    (:

    ReplyDelete
  23. اس پوسٹ کو افادیت کو آگے بڑھانے کیلیے تبصرے کرتے وقت موضوع کو ذہن میں رکھنا چاہیے تھا۔ عنیقہ صاحبہ نے حکمران اور نظام پر بات کی لیکن یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے فالتو میں اسلام کا تڑکا لگا دیا۔ اب سب لوگ اصل موضوع سے ہٹ کر اسلام اور سائیکل پر تبصرے کر رہے ہیں۔
    دراصل نظام تبھی درست بنتا ہے اور چلتا ہے جب اس کے بنانے اور چلانے والا حکمران اور حکمران کو چننے والے عوام باشعور ہوں۔ اسلیے نظام پر حکمران کو اولیت حاصل ہے۔ مغرب میں اگر نظام کامیاب ہے تو وہ اس کے حکمرانوں کی وجہ سے ہے۔ جہاں مارشل لا کی بات کرنے والے کو ایک دن بھی حکومت میں نہیں رہنے دیا جاتا۔
    ویسے ہمیں آج تک سیکولر لفظ کا مطلب سمجھ نہیں آ سکا۔ اکثر اسے مذہب مخالف لوگوں کی کلیے بولا جاتا ہے اور اس کا دفاع کرنے والے اسے جمہوریت کے ہم پلہ قرار دیتے ہیں۔ عنیقہ صاحبہ اگر لگے ہاتھوں اس پر بھی پوسٹ لکھ دیں تو ہماری معلومات میں اضافہ ہو گا۔

    ReplyDelete
  24. Gondal, secualr kafir peole all over world are helping flood victims with millions while your mazhabee people are doing this;

    Pakistan relief organisations ‘discriminating against Christian flood victims’
    http://www.telegraph.co.uk/news/worldnews/asia/pakistan/7968046/Pakistan-relief-organisations-discriminating-against-Christian-flood-victims.html

    Even when you mazhabee people get free money from secular kafirs, you can't avoid discrimination in distributing aid.

    ReplyDelete
  25. میرا پاکستان صاحب، بات یہ ہے کہ جیسے ہی ہم یہ شرط لگا دیتے ہیں کہ اصل مسلمان ہو یا اسلامی ریاست ہو۔ اس وقت ہی ہم یہ عندیہ دیتے ہیں کہ ہم ان مسائل کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ نہیں ہیں۔ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔
    اب ایک گفعہ ہم یہ سوچ لیں کہ یہ ہیں ہمارے مسائل اور یہ ہے ہمارے اہداف جو ہمیں حاصل کرنے ہیں۔ یہ ہیں ہمارے قومی وسائل۔ یہ ہے ہماری قوم کے کام کرنے کی رفتار اور اپنے مسائل کو سمجھنے کی سمجھ۔ اب ان نکات پہ بات کریں۔ میں سمجھتی ہوں یہ ہے سیکولر طرز عمل۔ جس میں ہم ڈائریکٹ انسانون کو لا حق مسائل کے سنجیدہ حل نکالنے کے لئے پس میں گفت و شنید کرنا چاہتے ہیں۔ اس پس منظر میں آپکے ملک کا عیسائ ہندو، شیعہ سنی سب حصہ لینے کے اہل ہونگے۔ سبکو پتہ ہوگا کہ یہ مسائل جتنی جلدی حل ہونگے اتنی ہی آسان، مطمئن اور محفوظ ہم سب کی زندگی ہوگی۔

    ReplyDelete
  26. اور ہاں جہاں تک سائیکل کی بات ہے۔ یہ صرف اس لئے ہے کہ اندازہ رہے کہ میں پاکستان کی ایک بالکل عام شہری ہوں جو اپنے گھر میں ایک عام انسان کی زندگی گذارتی ہے۔ میں کسی اخبار کی کالم نویس نہیں اور نہ کسی پارٹی کی فرمائیش پہ لکھتی ہوں۔ اپنے بلاگ کے لکھنے تک مجھے ان تمام چیزوں سے گذرنا پڑا یا پڑتا ہے جس سے دیگر عام لوگ گذرتے ہیں۔

    ReplyDelete
  27. عثمان،

    پس نوشت : یہ اوپر ہسپانوی درویش اپنی جو حجامت بنوا چکے ہیں اب تو مجھے بھی ان پر ترس آرہا ہے۔


    ھا ھا ھا ھا ھا سر جی ہسپانوی درویش حجامت بھی بنواتےھیں

    ReplyDelete
  28. جاوید صاحب، آپ خود خاصی الجھنوں کا شکار ہیں۔ سیکولر لوگ مسلمان بھی ہوتے ہیں البتہ وہ دین کا شور و غوغا اس طرح نہیں کرتے اور نہ اس پہ اپنی اجارہ داری جتاتے ہیں جس طرح کہ آپ جیسے دیندار لوگ کرتے ہیں۔ از عنیقہ ناز۔
    بی بی! واللہ میں آپ کے مندرجہ بالا الفاظ پڑھ کر مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا۔ اول تو آپ کے اس تبصرے کی ساری شان نزول مجھے سیکولر کی تعریف سمجھانے اور ثانیاََ مجھے دیندار جنت کے ٹھیکیدار اور پتہ نہیں کیا کچھ کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ جبکہ آپ نے اسقدر میڑے بارے میں بیان کر دیا ہے کہ میں خود بھی حیران ہوں کہ ان سب اوصاف کے بارے مجھے خود کیوں پتہ نہیں تھا۔ (: آپ نے چونکہ میری ذات کو بارہا مخاطب کر کے اسلام کو موضوع بنایا ہے تو ایک بات واضح کرتا چلوں ۔ کہ میں الحمداللہ مسلمان ہوں ۔ اور اسلام کو سلامتی کے معنوں میں لیتا ہوں جس سے نہ صرف مسلمان بلکہ تمام انسان مستفید ہوسکتے ہیں۔ اسکے باوجود مجھ میں بہت سی خامیاں ایسی ہوسکتیں ہیں ۔ جو بنی نوع انسان کا خاصہ ہیں میری کوتاہیاں میرا ذاتی عمل سمجھا جائے اسے اسلام جیسے عطیم مذھب سے نتھی نہ کیا جائے ۔ وضاحت کی ضرورت اس لئیے پیش آئی کہ میری ذاتی کوتاہیوں کو بنیاد بنا کر آپ دوسروں کو برگشتہ نہ کر سکیں ۔
    بی بی! آپ کی پوسٹ کے موضوع سے رتی بھر اختلاف نہیں مگر جب آپ اسلام یا مسلمانوں پہ کسی خاص وجہ کے بغیر طنز کرتے ہوئے یا پاکستانی عوام کو انکے علاقائی ، صوبائی یا لسانی اور ثقافتی بنیاد پہ تقسیم کرتی ہیں ۔ وہ موضوع اور الفاظ استعمال کرتی ہیں کہ عام آدمی آپس میں الجھ پڑتے ہیں تو یقین مانئیے وہ آپ ہوں یا میرا سگا بھائی اسے ایسا کرنے سے روکنے کی ہر ممکن تلقین کرؤنگا۔ قطع نظر اس بات کے خدا نے جیسا کہ ہر انسان میں کچھ ردوبدل کے ساتھ کچھ خصوصیت رکھی ہیں جسے ہم قابلیت کہتے ہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالٰی نے آپ کو بھی بہت سی خوبیوں سے نواز رکھا ہوگا ۔ اگر آپ اپنی توانائی کو مثبت استعمال کریں گی تو میرے سمیت آپکے بہت سے قارئین کو آپ سے شکایت کی بجائے آپکی خوبیوں کا اعتراف ہوگا۔ وہ تعریف کریں گے۔ آپ حکمران یا نظام جسمیں کے مذکورہ ویڈیو کو یکطرفہ طور پہ استعمال نہ کرتیں یعنی ڈبیٹ کے سنہری اصولوں کو مد نظر رکھتی ہوئیں وہ باتیں بھی بیان کرتیں کہ پاکستانی اسلامی اور فلاحی اداروں نے بھی سیلاب ذدگا ن کی مصیبتوں کو کچھ کم کرنے بھرپور حصہ لیا ہے ۔ تو شاید آپ سے ہمیں شکایت نہ ہوتی۔ اور جب آپ سے اس بارے اور آپکے الفاظ کے چناؤ کی شکائت کرتے ہوئے آپکی توجہ اسطرف مبذول کروائی تو نتیجے میں آپ نے حسب عادت نئے نئے موجوع چھیڑ دئیے جن کا تذکرہ میں اوہر کرچکا ہوں ۔ اور ابھی تک آپ کی جذباتیت پہ مسکرا رہا ہوں ۔ بی بی ! آپ ہر اُس بات کو جس میں آپکا قاری آپ سے اتفاق نہ کرتا ہو ۔ اُسے اپنی ذاتی انا کا مسئلہ کیوں بنا لیتی ہیں؟۔ جبکہ ہمیں آپ سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔
    اے این پی ۔ جس کی شان میں آپ نے قصیدے لکھ رکھے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو سیکولر کہلواتے ہیں ۔ آپ میری گذشتہ رائے دیکھیں۔ میں نے نام نہاد یا پاکستان کے سوکال سیکولر کے الفاظ لکھے ہیں۔ پاکستان کے سیکولر طبقے کی آیک خصوصیت ہے کہ کلام میں یہ بہت نیک اور مومن نظر آتے ہیں مگر عمل میں شیطان کی راہ کاٹتے ہیں ۔ اور اپنے ازم سے بھی سچے نہیں۔ پاکستان کے سیکولرز کا زیادہ تر زور پاکستان میں اسلام سے بغض پہ رہتا ہے۔ آپ کہیں گی تو کئی ایک نام گنوا دونگا۔ جو ہماری اس بحث کا موضوع نہیں۔ یاد رکھیں میں نے پاکستان کے سیکولرز حضرات کے پروپگنڈے کی بات کی ہے ۔ سیکولر کی تعریف وہ نہیں جو پاکستان اور اسلام سے بغض رکھنے والے لوگ اپنے آپ کو سیکولر کہہ کر بیان کرتے ہیں۔ پاکستان کے دہریوں کا ذکر نہیں کیا ۔وہ ایک الگ موضوع ہے۔

    میری رائے میں ،پاکستان میں ٹی وی پہ ،بناسپتی گھی اور شربت وغیرہ کی کمرشلز کے پس منظر میں اذان کے کلمات اور آیات قرآنی پہ حکومت کو پابندی لگانی چاہئیے۔ یہ اسلام کو اپنے ذاتی اور تجارتی مقاصد کے لئیے استعمال کرنے والی بات ہے۔
    (جاری ہے )

    ReplyDelete
  29. (گذشتہ سے منسلک)
    میں نہیں چاہونگا کہ آپ میری اس رائے کے بدلے میں کچھ نئے موضوع چھیڑ دیں ۔مگر ایک بات واضح کرتا چلوں کہ دنیا میں رائج الوقت تمام مذھبوں سے جدید اور روشن مذھب اسلام ہے۔ جو لوگ اسلام کو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں ۔ اللہ کون ہے اور اسلام ایک ضابطہ حیات ہے ، جس پہ عمل کرنے سے پاکستان ایک بے مثال فلاحی ریاست بن سکتا ہے ۔ جس میں نہ صرف مسلمان آبادی بلکہ غیر مسلم بھی مثالی زندگی گزار سکتے ہیں ۔ پاکستان میں جب بھی اسلام کی تعلیمات کوحقیقی معنوں میں عام کیا گیا تو نہ صرف پاکستان کے مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی اسکے ثمرات سے مستفید ہونگے عوام ان کی بات ماننے والے نہیں ۔ اس وجہ سے پاکستان میں کچھ لوگ ہر وقت اسلام کے خلاف ڈھول پیٹتے رہتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی تعلیمات حقیقی معنوں عام ہونے سے ایسا ہونے سے انکا اڑھائی اینٹ کا مند ر منہدم ہوجائے گا۔ اسلئیے وہ اسلام کے بارے میں عام آدمی کو برگشتہ کرنے کے لئیے پیش پیش رہتے ہیں۔ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں نام نہاد سیکولر خواہ کوئی بھی لبادہ اوڑھ لیں۔

    بی بی ! سیلاب سے تباہ ہونے والوں کو خیرات یا زکواۃ کی نہیں بلکہ ہماری مدد کی ضرورت ہے ۔ ہم پاکستان میں اپنے بہتر مستقبل کے لئیے بھی ان کی مدد کرنے پہ مجبور ہوں گے کیونکہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہونے والوں کی اکثریت سیلاب سے پہلے پاکستان کے بڑے حصے کے لئیے اناج پیدا کرتی تھی اور انہوں نے زندگی میں کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا تھا ۔ انشاءاللہ جونہی سیلاب اترا یہ محنتی لوگ اپنے علاقوں کو واپس پلٹیں گے اور زیادہ تر لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے گھر دوبارہ سے آباد کریں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی مدد اس طریقے سی کی جائے جس طرح ایک بھائی کی مدد کی جاتی ہے۔ تانکہ انکی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ آپ کی اس بات سے مجھے اتفاق ہے۔

    مجھے آپ کی اس بات سے سو فیصد اتفاق ہے کہ الخدمت کو ایسے لوگوں نے بھی فنڈ مہیاء کئیے ہونگے جو حقیقی سیکولر ہونگے ۔ خواہ وہ بہت ہی کم تعداد میں ہوں۔ جیسے غیر مسلم ممالک میں ہم مسلمان بھی مقامی المیوں یا آفات ان ممالک کی عیسائی یا رفاعی تنظیموں کی انسانی ہمدردی کے تحت مقدر بھر مدد کرتے ہیں۔

    آپکی اس بات سے بھی اتفاق کرتا ہوں کہ ہمیں ملک میں عام آدمی کے وسیع تر مفاد کے لئیے انصاف پہ مبنی ایسا نظام اور حکمران سامنے لانا چاہئیں جو ملک کے عام آدمی کی قسمت بدلے اور پاکستان میں عدل اور مساوات قائم کرنے کو روکنے والے تمام طبقات کی بیخ کُنی کی جائے خواہ اس کے رستے میں آنے والے جاگیر دار ہوں ۔ سیاسی پارٹیوں کے بلا شرکت غیرے مالک رہنماء ہوں ۔ یا فوجی اور سول آمر ہوں۔ ان سب کا رستہ روکا جانا چائیے۔ ملک بڑے پیمانے پہ ذرعی اصلاحات ہونی چاہئیں اور جو جماعتیں اپنے عہدیدار ووٹ کے ذرئیے نہ چنیں ان پابندی ہونی چاہئیے اور جو جرنیل عزیز ہموطنوں نامی پروگرام جاری کرتے ہوئے سول حکومتوں کا تختہ الٹ دیں انھیں پاکستان کے آئین کے تحت غداری اور بغاوت کی سزا دینی چاہئیے۔ جو ڈکیٹر مر چکے ہیں ان پہ بھی مقدمات چلا کر انکا کردار واضح کیا جائے تانکہ تاریخ پاکستان کو اسکے درست پس منظر میں بیان کیا جاسکے۔

    اسکے لئیے لازمی ہے کہ پاکستان کا تعلیم یافتہ طبقہ عوامی سوچ کی تربیت کی ذمہ داری لے اور اسے نباھنے کے لئیے وسائل مہیاء کرے ۔ ورنہ نت نئے مارشل لاء اور نئی نویلی جمہورتوں کے تجربے خدانخواستہ اس پوری کشی کو لے ڈوبے گے جس کی سوار آپ بھی ہیں ۔ ہم بھی ہیں۔ اور پاکستان کے باقی عوام بھی۔

    ReplyDelete
  30. جاوید صاحب، آپ نے اپنے اس سے پہلے کے تبصرے میں لکھا کہ
    ۔ آپ اپنے آپ کو کسی بھی عقیدے یا عدم عقیدے پہ قائم بے شک رہیں مگر دوسروں کے عقائد کو بغیر کسی وجہ کے گھٹیا اور کم تر قرار دینا درست عمل نہیں ۔
    اب بھلا بتائیے کہ آپکے اس جملے کے جواب میں کیا سمجھا جائے۔ اور یہ کوئ پہلی دفعہ نہیں بلکہ بیشتر اوقات آپکا یہی روہ ہوتا ہے۔ جس میں آپ ان قوتوں کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں جو اسلام دوست ہیں اور ان سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں جو آپکے خیال میں اسلام دوست نہیں۔ اسکی وجہ انکا اپنے آپکو غیر مسلم کہنا نہیں بلکہ آپکی جو مسلمان کی تعریف ہے اس میں ان کا پورا نہ اترنا ہے۔
    آپ نے کہا جو اسلام کو سمجھتا ہے وہ خدا کو جانتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ خدا کو تو ہر شخص جانتا ہے وہ بھی جو اسلام کو نہیں سمجھتا۔ اسلام خدا کا جو ٹصور پیش کرتا ہے وہ البتہ ایک دیوتا کا نہیں جو یا تو غیض و غضب کا مجسمہ ہے یا نعمتوں کا برسانے والا۔ ہر انسان کو چاہے وہ کتنا ہی نکی کیوں نہ ہو اپنے حصے کی آزمائیش سے گذرنا پڑتا ہے۔
    کوء اسلام سے کسی کو برگشتہ نہیں کرتا۔ البتہ اسلام کے ٹھیکے داروں سے ہر ذی ہوش شخص چڑتا ہے کہ بات کچھ بھی ہو اسکا رخ اس طرف موڑ دیا جائے جہاں سے مذہب کے ورژن پہ گفتگو شروع ہو۔ پاکستان کی اکثریت مسلمانوں پہ مشتمل ہے اس لئے یہ کہنا کہ جب یہاں حقیقی معنوں میں اسلامی تعلیمات کا نفاذ ہو گا تو یہ ہوگا۔ یہ سب باتیں مسائل کو سنجیدگی سے نہ لینے کی باتیں ہیں۔ اگر اس وقت دنیا میں کوئ ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں اسلامی تعلیمات صحیح معنوں میں نافذ نہیں تو آپ کو بھی فی الوقتاتنے مذہب پہ راضی ہو کر عوام کے مسائل کے حل پہ بات کرنی چاہئیے۔ جب وہ حالت سکون میں ہونگے،جب انہیں چیزوں کا علم ہوگا تو اپنے لئے بہتر سوچیں گے اس میں انکا مذہب بھی شامل ہے۔ آخر سیکولر لا دین ممالک میں جا کر بھی مسلمان اپنے دین سے نہیں پھرتے تو پھر پاکستان میں ایسی کون سی قیامت آ رہی ہے۔
    پختونخواہ میں تباہی کا وہ عالم ہے اور انفرا اسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے لوگ وہاں جانے کی ہمت بھی نہیں کر پا رہے آخر وہاں کے عوام کی یہ درگت بنانے میں آپکے طالبان کا بھی تو ہاتھ ہے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ ہم بیس لاکھ کی امدادی رقم دینے کو تیار ہیں یا ہم لوگوں کی مدد کریں گے۔ سب تباہ کرنے کے بعد کیا مدد کریں گے۔ ان علاقوں میں تو عملا انکی حکومت قائیم ہے۔ وہاں وہ نہیں کریں گے تو اور کون کیا کرے گا۔ جماعت سے یا دیگر تنظیموں سے دریافت کریں وہاں کتنے کیمپس لگائے گئے ہیں۔ یہی حال بلوچستان کا ہے۔
    یہ سندھ اور پنجاب کے قابل پہنچ علاقے ہیں جہاں وہ پہنچ پا رہے ہیں وہاں دنیا بھر کے اور لوگ بھی پہنچ رہے ہیں۔
    اصلاحات ضروری ہیں، سخٹ قوانین اور انکا نفاذ ضروری ہے۔ دولت کی تقسیم منصفانہ ہونی چاہئیے، نظام ایسا ہونا چاہئیے کہ دولت مرتکز نہ رہے بلکہ ہر شخص کو مواقع حاصل ہوں۔
    محض اسلامی تعلیمات کوئ معنی نہیں رکھتے۔ منصوبہ سازی اس سے ماوراء ایک چیز ہے۔ مذہب اگر انسان اس پہ خلوص دل سے عمل پیرا ہو تو اخلاقی خوبیاں پیدا کر سکتا ہے لیکن یہ آپکے ٹیوب ویل اور کارخانوں کے پہیئے نہیں چلا سکتا۔
    یہی مذہب، اگر دولت کی طرح چاہیں تو جاہ وحشم کی علامت بن سکتا ہے۔ نمائیش اسکی تسکین بن جاتی ہے اور اس صورت میں یہ محض ایک اور طبقہ پدا کرتا ہے جو حکومتی اثر میں حصے دار ہوتا ہے۔

    ReplyDelete
  31. عنیقہ شاباش ہے آپکے حوصلوں کو
    اور کچھ لوگوں کی ڈھٹائی کو بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ReplyDelete
  32. عنیقہ یہ ورڈ پریس پر بنے ہوئے بلاگز یہاں نظر نہیں آرہے کیا پاکستان میں بھی یہی مسئلہ ہے یا ورڈ پریس ایک بار پھر بیٹھ گیا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    ReplyDelete
  33. معذرت کے ساتھ
    عنیقہ کو اسلام سے زیادہ اپنا بلاگ محبوب ہے
    اسے بچانے کے لیے یہ کسی بھی سطح تک جاسکتی ہے
    غضب خدا کا اللہ کا کھلا عذاب دیکھ کر بھی جو اسکو عذاب نہ مانے
    وہ اور کیا چاہتا ہے
    ربی لا تجعلنی مع القوم المجرمین
    آمین۔

    ReplyDelete
  34. ہمیشہ کی طرح ایک ماسٹر پیس۔۔۔۔
    جیسمین کے کیا کہنے۔ سچ آشکار کردیا۔۔۔۔۔
    راوٹر کا مائیکل گارگے معتصب ہونے کے ساتھ ساتھ بڑا جھوٹا ہے۔ الخدمت کی مشہوری کرتا پھر رہا ہے۔۔۔۔
    :)

    http://www.reuters.com/article/idUSTRE67S0L020100830

    ReplyDelete
  35. متحدہ کی خدمت خلق فاؤنڈیشن سیلاب زدگان کے لیئے پورے ملک میں کیا کام کررہی ہے کس طرح کام کررہی ہے اس کی ایک جھلک آج حامد میر کے پروگرام کیپیٹل ٹالک میں دکھائی گئی!
    جن لوگوں کو دیکھنا ہو وہ پاکستان کے وقت کے مطابق رات ایک بجے ریپیٹ ٹیلی کاسٹ میں دیکھ سکتے ہیں!
    کئی ممالک نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ان کی امداد خدمت خلق کے پلیٹ فارم سے تقسیم کی جائے،مگر حکومت اس کے لیئےراضی نہیں ہے یہ بات دو دن پہلے عرفان صدیقی (جنگ کے کالم نگار )نے خبروں میں بتائی تھی!!!!!!!!!!!!!

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ