Wednesday, August 11, 2010

ایک ماں اپنے بیٹے کی زبانی-۲

گذشتہ سے پیوستہ

سر سید کہتے ہیں کہ جو کچھ آمدنی ہوتی تھی اس میں سے پانچ فی صد کے حساب سے میری والدہ ہمیشہ الگ رکھتی جاتی تھیں۔ اور اس سرمایہ کو حسن انتظام کے ساتھ نیک کاموں میں صرف کرتی تھیں۔ کئ جوان لڑکیوں کا انکی امداد سے نکاح ہوا اکثر پردہ پوش عورتیں جو معاش سے تنگ ہوتیں انکی ہمیشہ خبر گیری کرتیں۔ غریب خاندانوں کی جوان لڑکیاں جو بیوہ ہو جاتیں انکو دوسرا نکاح کرنے کی نصیحت کرتیں۔ دوسرے نکاح کو برا سمجھنے والوں سے نفرت کرتیں۔ غریب رشتے داروں کے یہاں جاتیں اور خفیہ حیلے بہانے سے انکی مدد کرتیں۔ بعض رشتے دار مردوں نے ایسی عورتوں سے شادی کر لی تھی جن سے ملنا معیوب سمجھا جاتا مگر وہ برابر انکے گھر جاتیں اور انکی اولاد سے شفقت سے پیش آتیں۔
انکی والدہ کو شاہ غلام علی سے عقیدت تھی  اور وہ ان سے بیعت تھیں۔ لیکن انہوں نے کبھی کوئ منت یا نذر یا نیاز نہیں مانی۔ تعویذ یا گنڈے پر تاریخوں یا دنوں کی سعادت یا نحوست پر انکو مطلق یقین نہ تھا۔ لیکن اگر کوئ کرتا تو اسکو منع نہ کرتیں اور یہ کہتیں کہ اگر انکو منع کیا جائے اور اتفاق سے وہی امر پیش آجائے جسکے خوف سے وہ ایسا کرتے ہیں تو انکو یقین ہو جائے گا کہ ایسا نہ کرنے سے یہ ہوا۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو نہ ہوتا۔
سر سید کے ننہیال والے شاہ عبدالعزیز سے عقیدت رکھتے تھے۔ شاہ عبدالعزیز کے یہاں بچوں کو ایک گنڈا دیا کرتے تھے۔ جس میں ایک ہندسہ یا حرف سفید مرغ کے خون سے لکھا ہوتا۔ اور جس بچے کو دیا جاتا اسے بارہ برس تک انڈہ یا مرغی کھانے کی ممانعت ہوتی۔ سرسید کے صاحبزادوں کو بھی انکے ننہیال والوں نے یہ گنڈے پہنائے۔ اسکے باوجود جب یہ بچے انکی والدہ کے ساتھ کھانا کھاتے تو وہ کھانے میں موجود انڈہ یا مرغی بلا تامل کھلا دیتیں۔
سر سید کو بچپن میں باہر تنہا جانے کی اجازت نہ تھی اور ہر چند کے نانا کی اور انکی والدہ کی حویلی میں صرف ایک سڑک درمیان میں تھی جب کبھی وہ نانا کے یہاں جاتے تو ایک آدمی ساتھ میں جاتا۔ اس لئے بچپن میں گھر سے باہر عام صحبتوں میں بیٹھنے یا آوارہ پھرنے کا بالکل اتفاق نہ ہوا۔
سر سید کو انکی ایک خادمہ نے جیسا کہ صاحب حیثیت خاندانوں کا دستور تھا،  پالا تھا اور وہ اسے ماں بی کہہ کر بلاتے تھے۔
انہیں ان سے بہت محبت تھی۔ جب وہ پانچ برس کے تھے تو انکا انتقال ہو گیا۔ انہیں اسکے مرنے کا بہت رنج ہوا۔ والدہ نے سمجھایا کہ وہ خدا کے پاس گئ ہے۔ بہت اچھے مکان میں رہتی ہے۔ بہت سے نوکر چاکر اسکی خدمت کرتے ہیں اور اسکی بڑے آرام سے گذرتی ہے تم مطلق فکر نہ کرو۔ مدت تک اسکی ہر جمعرات کو فاتحہ ہوتی۔ مرتے وقت اس نے کہا تھا کہ میرا سارا زیور سید کا ہے۔ مگر والدہ اسکو خیرات کرنا چاہتی تھی۔ ایکدن انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر تم کہو تو یہ گہنا ماں بی بی کے پاس بھیج دوں۔ میں نے کہا ہاں بھیج دو۔ والدہ نے وہ سب گہنا مختلف طرح سے خیرات کر دیا۔
سر سید کا بیان ہے کہ 
میں جب دلّی میں منصف تھا تو میری والدہ کی یہ نصیحت تھی کہ جہاں تم کو ہمیشہ جانا ضرور ہے وہاں کبھی سواری پہ جایا کرو اور کبھی پیادہ پا جایا کرو۔ زمانے کا کچھ اعتبار نہیں۔ کبھی کچھ ہے اور کبھی کچھ۔ پس ایسی عادت رکھو کہ ہمیشہ اسے نبھا سکو۔
ایک دفعہ کا ذکر بتاتے ہیں کہ وہ ایک زیبن نامی بڑھیا کی خبر گیری کرتی تھیں۔ اتفاق سے وہ دونوں ایک ساتھ بیمار پڑ گئیں۔ حکیم  نے افاقے کے لئے والدہ صاحبہ کے لئے ایک معجون کا نسخہ تیار کیا جو قیمتی تھا مگر مقدار میں صرف اتنا ہوا کہ ایک شخص اسے استعمال کر لے۔ انہوں نے وہ اپنی والدہ کو پہنچا دی۔ انکی والدہ کو خیال آیا کہ زیبن کو کون تیار کروا کے دے گا تو انہوں نے وہ معجون پابندی سے زیبن کو کھلا دیا۔ چند دنوں بعد جب میں نے ان سے پوچھا کہ معجون نے آپکو بہت فائدہ کیا تو ہنسیں اور کہا کہ کیا بغیر دوا کے خدا صحت نہیں دے سکتا۔ معلوم ہوا کہ دوا تو صرف زیبن نے کھائ لیکن صحت خدا نے دونوں کو دی۔ 
اب اس آخری واقعے کے بعد، محترم قارئین، دوا علاج کرنا مت چھوڑ دیجئیے گا۔  خدا توکلی اچھی چیز ہے مگر اونٹ کو رسی ڈالنا ضروری ہے۔ تو یہ تھا سر سید کی والدہ کا ایک اجمالی خاکہ، ایک ایسی مسلمان خاتون جو آج سے دو  سو سال پہلے موجود تھیں۔ سرسید کی طبیعت اور مزاج پر اپنی والدہ کی عادات و خصائل کا خاصہ اثر تھا۔
مندرجہ بالا واقعات حالی کی حیات جاوید سے لئے گئے ہیں۔

12 comments:

  1. صرف دو اقساط ناکافی ہے اس موضوع کے لئے. لیکن پھر بھی اچھا تعارف ہے.
    معلوم ہوتا ہے کہ یہی حقیقت پسندانہ تربیت تھی جس کی بدولت سرسید کے مذہبی، سماجی اور سیاسی نظریات ترتیب پائے.

    ReplyDelete
  2. اور ہاں۔۔۔۔ایک بات تو بھول ہی گیا۔
    مجھے رگڑا دینے کا شکریہ۔ شاگرد کو استاد سے رگڑا ملتے رہنا چاہیے۔ :)
    باقی رہے سرسید تو ان کے بارے میں کیا اندر کیا باہر۔۔۔سبھی کو پڑھنا چاہیے۔

    ReplyDelete
  3. عثمان، رگڑا، یہ بطور خاص آپکے لئے تو نہ تھا۔ اس لئے تھا کہ آپکی رائے وہاں باقی سبکے ساتھ موجود تھی۔ اب اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
    اپنی رائے ایسے متنازعہ موضوعات پہ دینے سے پہلے یہ تو چیک کریں کہ مخاطب اپنی باتوں کے ذخیرے کس منبع سے لا رہا ہے۔

    ReplyDelete
  4. بلاگر اعظم آئیندہ کسی بھی جھگڑے میں چُپ کا روزہ رکھے گا. بھلے مخاطب الکلام گالیاں ہی کیوں نا نکال رہا ہوں.....کہ بلاگر اعظم اپنی حقیقی زندگی میں بھی اسی اصول پر عمل کرکے بھلامانس اعظم بنا ہے
    (:

    ReplyDelete
  5. عثمان، اگر کوئ گالیاں نکال رہا ہو آپ پہ ، اور آپ اس سے بہتر گالیاں نکال سکتے ہوں تو ضرور جواب دیں۔ کافی لوگوں کو اس تماشے میں مزہ آئے گا۔
    لیکن کسی جھگڑے میں اسی وقت شامل ہوں جب جھگڑے میں آپکے کچھ ذاتی خیالات بھی ہوں۔ بس ایسے ہی ان سے ہمارا ڈاکخانہ مل گیا ہے تو انکی طرف سے کچھ کہنا ضرور ہے۔ اس میں تو آپ بلا وجہ مارے جائیں گے۔
    مشتاق احمد یوسفی نے اپنے ایک دوست کی بابت لکھا کہ کاغان کی پہاڑیوں پہ میسر ٹٹو پہ وہ سوار نہیں ہوتے تھے کہ اگر اتنی بلندی سے گر کر مرنا لکھا ہے تو بہتر ہے کہ اپنی ٹانگوں کی لرزش سے مروں۔ کیا سمجھے، شاگرد عزیز۔
    بھلے مانس کو اپنی ٹانگوں پہ بھروسہ ہونا چاہئیے۔ ورنہ بھلے مانس سے بن مانس بننے میں صرف ایک درخت کا فرق ہے۔

    ReplyDelete
  6. اور انکے اس آخری کمینٹ کے بعد مینے یہ جواب دیا کہ مینے یہ کب کہا کہ تمام جرائم پنجاب میں ہی ہوتے ہین مگر جب آپ دوسروں کو مورد الزام ٹھرائیں گے تو پہلے اپنے ارد گرد بھی دیکھ لیں کہ کیا ہورہا ہے!!!
    اور مجھے آپکی پوسٹ پر تبصرے کرنے کا ہرگز کوئی شوق نہیں!
    اور جناب نے میرا یہ تبصرہ بھی ڈلیٹ کردیا!!!
    اسی سے صاف پتہ چلتا ہے کہ کس کی داڑھی میں تنکا ہے!

    ReplyDelete
  7. ویسے مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ دوسروں کو نسلی اور تعصبی کہنے والوں کے اپنے چہروں سے نقاب اتر گیا جو یہ کہتے تھے کہ پنجاب کے لوگ تعصب نہیں کرتے اردو بولنے والے تو ہمارے بھائی ہیں اور ایم کیو ایم سے ہمارا اختلاف اصولی بنیادوں پر ہے اج ایک ایک کر کے سب کی اصل شکلیں سامنے آرہی ہیں، اوران کا یہ کہنا بھی جھوٹ ہے کہ اردوسیارہ ایک تعصب سے پاک موڈریٹر ہے ورنہ خاور کھوکھراور جہانزیب اشرف کی ان تحریرون کے بعد انہیں بھی اردو سیارہ پر بین کردینا چاہیئے تھا، ا ب بھی کچھ بے وقوفوں کو سمجھ نہ ائے تو الگ بات ہے!!!!

    ReplyDelete
  8. جزاک اللہ خیر، بہن جی، بہت اچھی تحریر ہے۔ آج کل کے دورِ فتنہ و آشوب میں جب بعض والدین اپنے بچوں کو برے اخلاق سے روکنا تو درکنار ، روشن خیالی اور ترقی کے پردے میں خود ان کی بد اخلاقیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، ایسے میں سرسید مرحوم کی والدہ مکرمہ جیسی ہستیوں کا تذکرہ بڑی غنیمت بلکہ نہایت ثواب کا کام ہے۔
    ایک غالباً غیر متعلقہ سا اضافہ:
    کیا اس بلاگ کی پوسٹوں پر تبصرے کے کوئی قواعد یا پالیسی ہے۔ کیا پوسٹ سے غیر متعلقہ تبصرے اور دوسرے بلاگوں پر بین کیے گئے تبصرے یہاں ڈمپ کرنے کی مکمل آزادی ہے؟ بات ذرا عجیب سی لگتی ہے ، یا پھر میں ہی اس بلاگ دنیامیں نووارد ہونے کی وجہ سے سمجھ نہیں پا یا۔
    ارے ہاں تذکرہٗ سرسید چل رہا ہے، ساتھ میں نسلی لسانی تبصروں کی بھی بہار لگی ہوئی ہے تو یہ ذکرِ سعید کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ اہلِ پنجاب کو زندہ دِلانِ پنجاب کا لقب بھی اُسی خلد آشیانی خادمِ ملّت سر سید ہی نے دیا تھا۔ اور پنجاب کی سرزمین سے اُٹھنے (اور اُٹھ کر ہفت افلاک سے ورے اپنا مقام تلاش کرنے والے) حکیم الامت کو سرسید سے ایک خاص روحانی تعلق تھا۔ اپریل ۱۹۳۶ میں اپنے قیامِ بھوپال کے دوران میں اقبال سخت علیل ہوئے تو خواب میں سرسید کی زیارت ہوئی اور انھوں نے اقبال کو اپنی بیماری کی فریاد حضور سرکارِ دوعالم کی بارگاہ میں کرنے کی نصیحت کی، جس پر عمل کرتے ہوئے بعد میں علامہ نے ۰۰ در حضور ِ رسالت مآب۔۔۔ کے عنوان سے عشق و مستی میں ڈوبی ہوئی ایک فارسی نظم لکھی جو اُن کے فارسی کلیات کے صفحہ نمبر ۸۴۴ پر درج ہے۔
    سرسید کے لاڈلے پوتے سر راس مسعود حضرتِ علامہ کے خاص ترین دوستوں میں سے تھے ۔ علامہ انھیں بے حد عزیز رکھتے تھے۔ اکثر اُن سے ملاقات کے مواقع نکال لیتے۔ بھوپال میں علامہ مرحوم کا قیام اکثر ریاض منزل ( دولت کدہ سر راس مرحوم) پر ہی رہتا۔ مرحوم کی وفات پر حکیم الامت نے اُن کا ایک پر اثر مرثیہ بھی لکھا۔
    میرا خیال ہے کہ ہمیں نسلی ، لسانی اور علاقائی تعصبات سے اوپر اُٹھ کر اپنے بزرگوں کے ایک دوسرے کے لیے محبت ، خلوص اور ایثار کے پہلو تلاش کرنے چاہییں۔ ورنہ ہمارے پہلے سے لاینحل بے شمار مسائل میں اضافہ ہی ہو گا۔ نفرتیں اور کدورتیں اور بڑھیں گی اور دشمنوں کا کام آسان ہو جائے گا۔ ہمیں کبھی نہ بھولنا چاہیے کہ ۱۹۴۷ میں لٹ پٹ کر اپنے گھروں سے نکلنے کے بعد پاکستان کی صورت میں ہمیں ایک جائے پناہ مل گئی تھی (خواہ آنے والا مشرقی پنجاب سے تھا یا یو پی سے) لیکن اب ہمارے پاس کوئی اور آپشن باقی نہیں بچا۔ ہمارے چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے اور آگے سمندر ہے!!!
    نعیم

    ReplyDelete
  9. نعیم صاحب، میرے بلاگ پہ سوائے فجش نگاری سے اجتناب کے ایسی کوئ پالیسی نہیں کہ میں لوگوں کے تبصرے بین کروں۔ اس صورت میں جبکہ صاحب بلاگ اور تمام مبصرین یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ جو دل چاہے اپنے نظریات پیش کریں۔ میں اس قسم کے بین پہ یقین بھی نہیں رکھتی۔ جب سب جو دل چاہے لکھ رہے ہیں تو انہیں ہر طرح کے تبسرے لینا بھی چاہئیں۔
    وہ تمام تبصرے جو کسی اور کے بلاگ پہ ڈیلیٹ ہونے کی صورت میں یہاں ڈالے گئے، میں نے آج تک انکا کوئ جواب نہیں لکھا۔ سوائے یہ کہ انہیں یہ کہا کہ وہ ساتھ میں لنک ضرور ڈال دیں۔
    میں نے آج تک ایسا کوئ بیان نہیں دیا، جس میں خود کو یا اپنی ماحولیاتی ثقافت کو نسلی، لسانی یا صوبائ بنیاد پہ کسی سے بھی برتر بتایا ہو۔
    ہم کس نسل میں پیدا ہونگے، اسکا اختیار ہمارے پاس نہیں اور زبان اگر انسان سیکھنا چاہے تو اہل زبان سے بھی بڑھ کر سیکھ لیتا ہے۔ اور جنہیں شوق نہ ہو وہ دو ڈھائ سو الفاظ کے ساتھ بھی کامیاب زندگی گذار لیتے ہیں۔
    تحریک آزادی میں اگر لوگوں نے اپنے پچھلے بزرگوں کے چھوڑے ہوئے کام کو آگے نہیں بڑھایا ہوتا تو پاکستان کا قیام نا ممکن ہوتا۔
    لیکن ہم نسلی اور صوبائ تعصبات سے اوپر کیسے اٹھ سکتے ہیں جبکہ بیشتر اوقات ہماری تربیت اسی نہج پہ ہوتی ہے یعنی ثقافتی فخر، ہمارا نصاب انہیں خطوط پہ ہوتا ہے، ہماری سیاست اور نظام حکومت انہی بنیادوں پہاستوار ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے ہر مسئلے کے حل سے پہلے مختلف قومیتوں کے حوالے دیکھنے پڑتے ہیں۔
    لیکن اس وقت، تمام لوگوں کو آنے والی مصیبت کے نتائج بھگتنے کے لئے تیار ہونا چاہئیے جو کہ انتہائ بھیانک ہونے جا رہی ہے۔ اگر وہ محسوس کر سکیں تو۔

    ReplyDelete
  10. بڑے لوگ پیدا ہی بڑے ھوتے ھیں۔

    ReplyDelete
  11. http://www.urdujahan.com/blog/politics/2010/civilized/#comments

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ