Sunday, October 3, 2010

باغی کا حوصلہ

ابھی کچھ دن پہلے فیس بک پہ ایک صاحب سے بات چیت ہو رہی تھی۔ اگرچہ میں چیٹنگ سے اجتناب کرتی ہوں۔ لیکن خیر  یہ صاحب چونکہ ایک دلچسپ پس منظر رکھتے ہیں اس لئیے وقت انکے ساتھ ضائع ہوتا ہوا نہیں لگتا۔ باتوں  باتوں میں انہوں نے کہا کہ زندگی ایک بھوت بنگلہ ہے جو ہر کسی کو ڈراتی ہے۔ کامیاب وہ رہتا ہے جو اسے ڈرا دے۔ اگر اس جملے میں غلطی ہو تو وہ اسے درست کر سکتے ہیں۔
 میں اس خیال میں انکے ساتھ ہوں۔   کسی نے کہا تھا کہ ہر چیز کی قیمت ہوتی ہے۔ اسے مزید سادہ کرنا چاہونگی۔ ہر چیز کی قیمت ہوتی ہے اور کرنسی آپکا حوصلہ اور بغاوت کرنے کے جراثیم ہوتے ہیں۔ یوں دنیا میں کوئ چیز نا ممکن نہیں رہتی۔
 ابھی میں نے ایک کتاب پڑھنا شروع کی ہے جسکا نام ہے۔ الکیمسٹ۔ نہ نہ یہ کتاب کیمسٹری کے متعلق نہیں ہے۔ بلکہ نرا فکشن ہے۔ یہ ناول برازیلین ادیب پاءولو کوایلیو کا تحریر کردہ ہے۔ اسکی ابتک چھ کروڑ سے زائد کاپیاں بک چکی ہیں اور سڑسٹھ زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ ابھی میں نے اسکے صرف پچیس صفحے پڑھے ہیں اور اس نے بالکل باندھ لیا ہے۔پورا ناول صرف ایک سو بہتر صفحات کا ہے انگریزی میں۔
اس سے اخذ کردہ کچھ دلچسپ باتیں حاضر ہیں۔ تقدیر یا قسمت وہ چیز ہے جو عالم شباب میں ہر شخص کو معلوم ہوتی ہے کہ اوہ کیا ہے وہ اسکی چاہت کرتا ہے۔ انکی زندگی کے ایک حصے میں ہر چیز بالکل واضح ہوتی ہے اور ہر چیز ممکن ہوتی ہے۔ وہ اپنے خوابوں سے خوفزدہ نہیں ہوتے اور خواہش کرتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو وہ چاہتے ہیں کہ وقوع پذیر ہو انکی زندگیوں میں ہو جائے۔ لیکن جسی جیسے وقت گذرتا جاتا ہے۔ ایک پر اسرار قوت جنم لیتی ہے جو انہیں قائل کرتی ہے کہ یہ نا ممکن ہے کہ وہ اپنی تقدیر کو جان سکیں۔یہ ایک منفی قوت ہوتی ہے۔ لیکن اسی سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تم اپنی تقدیر کو کیسے جان سکتے ہو۔ اس کائنات کا ایک اصول ہے اور وہ یہ کہ تم جو کوئ بھی ہو اور جہاں کہیں بھی رہتے ہو۔ جب تم واقعی کسی چیز کی چاہت رکھتے ہو تو زمین پہ وہ تمہارا مشن بن جاتا ہے۔ کیونکہ یہ وہ خواہش ہوتی ہے جو کائنات کی روح  سے جنم لیتی ہے۔ زندگی میں ایک لمحہ ایسا ضرور آتا ہے جب تم وہ کرنے کا اختیار رکھتے ہو جو تم کرنا چاہتا ہو۔لیکن ایسے وقت میں کچھ اور چیزیں ایسے گھیر لیتی ہیں کہ تقدیر اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔
اب آگے کیا ہوگا؟ یہ بات کتنی سچ ثابت ہوگی یہ تو آگے پڑھنے پہ ہی پتہ چلے گا۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ خاصی صحیح معلوم ہوتی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی تقدیر کا مالک ہے اور زندگی میں ہمیں یہ احساس ملکیت بارہا ملتا ہے مگر ہم میں سے اکثر لوگ اپنے حوصلوں کی بلندی اور خوابوں کی سچائ پہ پوری طرح یقین نہیں رکھتے۔ ہم کچھ ایسے رسوم و رواج، وراثت میں چلے آنے والے خیالات، ثقافتی یلغار اور معاشرتی رویوں کے دباءو میں ہوتے ہیں کہ تقدیر کی باندی ہمارے اوپر حکومت کرنے میں آزاد ہو جاتی ہے۔ اگر آپ اس بات پہ یقین نہیں رکھتے تو ایک دفعہ آزمائشی طور پہ اپنی پوری سچائ، استقامت اور حوصلے سے کھڑے ہو جائیں۔ اور پھر دیکھیں خدا کیا کرتا ہے۔
ہمم، اس ناول سے لی گئ ایک پنچ لائن تو رہ گئ۔
جب تم وہ کرنا چاہتے ہو، جسکی واقعی خواہش رکھتے ہو تو کائینات کی ہر چیز تمہارے ساتھ شامل ہو جاتی ہے۔

37 comments:

  1. Aik bagi ka injaam;

    Muslim woman sacked from estate agency for REFUSING to wear a headscarf

    http://www.dailymail.co.uk/news/article-1317342/Muslim-woman-sacked-REFUSING-wear-headscarf.html#ixzz11J6vAOA1

    ReplyDelete
  2. بہت دلچسپ ناول ہے آپ کو ضرور پسند آئے گا۔

    ReplyDelete
  3. آخری پیراگراف سے مطمئن نہیں۔
    آپ نے معاملے کو بہت ذیادہ آئیڈیلائز کردیا ہے۔ بے شک محنت اور استقامت اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن ایک شخص کی تقدیر صرف انہی دو چیزوں کے تابع نہیں۔ دو چیزیں بیان کروں گا۔
    ۱) خداداد صلاحیتیں : تمام انسان ایک جیسی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا نہیں ہوئے۔ عام مشاہدہ ہے کہ کچھ لوگ ذہانت اور محنت میں اسقدر آگے ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں کی نسبت کوئی مقصد بہت جلد اور سہل طریقے سے حاصل کرلیتے ہیں۔
    ۲) مواقع : ایک شخص اگر تیسری دنیا کے ایک معمولی قصبے کے ایک غریب گھر میں پیدا ہوا۔ جبکہ دوسرا ایک ترقی یافتہ دنیا کے پرتعیش خاندان میں۔ اب دونوں کے ملنے والے مواقع یکساں نہیں۔ بہتر معاشی اور سماجی ماحول کی بدولت بہتر مواقع رکھنے والے شخص کے لئے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے امکانات ذیادہ ہیں۔

    اب اکثر اوقات انسان کی خواہشات اس کی تقدیر کے مطابق نہیں ہوتیں۔ اور اس کی تقدیر اوپر دیے گئے دو نقاط کی بدولت اس ڈگر پر نہیں ہوتی کہ وہ زندگی کے کسی مقام پر اپنی خواہش کے حصول میں کامیاب ہو۔ محنت اور استقامت کامیابی کے امکان کو بڑھا دے گی۔ لیکن یہ کامیابی کی ضمانت نہیں۔ اوپر دیے گئے دو نقاط کا آپ کے حق میں ہونا بہت ضروری ہے۔

    مجھے اس نیچے دیے گئے جملے کی بھی پوری طرح سمجھ نہیں آسکی:
    جب تم واقعی کسی چیز کی چاہت رکھتے ہو تو زمین پہ وہ تمہارا مشن بن جاتا ہے۔ کیونکہ یہ وہ خواہش ہوتی ہے جو کائنات کی روح سے جنم لیتی ہے۔

    شاگرد عزیز کو لیکچر پوری طرح سمجھانے کے لئے اپنے آفس میں ایکسڑا ٹائم دیں۔

    ReplyDelete
  4. واقعی جی، میراتوالحمداللہ یہ اللہ تعالی پرتوکل کامل ہےکہ آپ کوئی بھی کام کریں اس کوخلوص نیت سےکریں اس پراپنی پوری توانیاں لگادیں۔ اوراس کےنتیجےپرکبھی بھی نظرنہیں رکھیں کیونکہ جوبھی ہوتاہےاللہ تعالی کی طرف ےہوتاہےہاں اپنی طرف محنت سےکوئی کوتاہی نہ کریں ۔انشاء اللہ تعالی اللہ تعالی آپ کی محنت کورائیگان نہیں جانےدےگا

    ReplyDelete
  5. "آگ برساتے لوح زدہ ہواؤں کے جھکڑ چل رہے تھے کہ ایسے میں باغی کا حوصلہ نامی" گھٹا برسی جس سے کچھ سکوں حصل ہوا -اور امید بندھی ہے کہ اب ہم جیسوں کی کچھ پیاس بجھےگی آخری پنچ لائن والے خیال کو مصنف" رہونڈا بیرن نے دی سیکریٹ" نامی کتاب میں سمویا ہے -بہت شکریہ

    ReplyDelete
  6. آپکی تحریر کا کوئی سرا ہاتھ میں نہیں آرہا ہے، یا تو یہ کوئی ماوارائے خیال ہے جو آپ نے پیش کیا ہے شاید میں ہی کج فہم ہوں کہ سمجھ نہیں پارہا.
    لگتا ہے آپ نے منطق اور فلسفہ کی بات چھیڑی ہے اور میں ایک کم علم اور کچ فہم شخص فلسفہ اور منطق پر اپنا منہ کیسے کھولے...... میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ انسان کا کام ہے بتائے گئی منزل کے لئے بتائے گئے طریقے سے محنت کرنا اور نتائج نہ اس سے مطلوب ہیں اور نہ وہ اسکا مختار......

    ReplyDelete
  7. کاشف نصیر صاحب، آپ اس میں کچھ نریہ وظریہ، کچھ پارٹی بازی، کچھ ایم کیو ایم اور الطاف حسین تلاش کر رہے ہونگے تو یہ تحریر گحمبیر لگنے لگی ہوگی۔
    ا کا جو نظریہ تھا وہ آپ نے بتا دیا۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہر انسان اپنے ساتھ کچھ ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے آتا ہے۔ تمام لوگ نہ ایک جیسی صلاحیتیں ، نہ ایک جیسا دماغ نہ ایک جیسی قسمت، نہ اپنی کوششوں کا ایک جیسا نتیجہ، نہ ایک جیسی پیدائش،نہ ایک جیسا انجام اور نہ ایک جیسی آخرت رکھتے ہیں۔
    کچھ نہ کچھ تو نتائج اس سے مطلوب ہیں ورنہ جنت اور دوزض کس لئے بنائے گئے اور ان میں بھی درجات کیوں رکھے گئے ہیں۔
    کچھ نہ کچھ تو نتیجہ چاہئیے ورنہ ایٹم جیسے حقیر ذرے کو اتنی توانائ کیوں دی گئ کہ وہ اتنی وسیع کائینات کو تخلیق کر ڈالے۔
    اور کچھ نہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی مختاری دی گئ ہے جبھی تو وہ خلیفہ ٹہرتا ہے۔
    عثمان، ابھی ذراوقت نکال کر آپکی باتوں پہ غور کرتے ہیں۔ اور پھر اس بحث کو آگے بڑھاتے ہیں۔

    ReplyDelete
  8. ناکام وہی جو اپنی ضرورت کو لالچ کہلوائے ۔ کامیاب کی تو لالچ ہی ضروت ہوا کرتی ہے جی ۔

    ReplyDelete
  9. ایم کیو ایم، الطاف حسین اور اے پی ایم ایل اور پرویز مشرف تو آپ روشن خیالوں کو مبارک ہو، ہم تاریک خیال لوگ کیا جانیں سیاست اور کیا سیاست کے رموز

    ویسے کبھی تنز و طعنہ سے باہر نکل وسیع القلبی سے بھی جواب دینے کی کوشش کیا کریں۔ کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

    ReplyDelete
  10. عثمان، ابھی تو میں کتاب کے مزے اڑا رہی ہوں۔ لیکن دیکھنے میں آتا ہے کہ با صلاحیت لوگ اپنی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ وہ اکثر زیادہ اعتماد کا شکار ہوتے ہیں یا زیادہ قناعت پسند ہو جاتے ہیں۔ پس منظر ایک سطح تک ہی آسانی پیدا کر پاتا ہے۔ ورنہ چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے۔ زندگی میں جتنی آسانیاں ہوں اتنی موٹیویشن کم نہیں ہوتی۔
    چلیں دیکھتے ہیں۔ آپ سوچیں ذرا صاف دل سے زندگی میں کس چیز کو آپ واقعی کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس میں کیا مشکلات حائل ہیں۔
    جہاں تک میرا تعلق ہے۔ کچھ چیزیں حاصل کرنے اور بہت ساری چیزوں پہ صبر کرنے کے بعد اب خیال آتا ہے کہ وہی چیزیں حاصل ہوئیں جن کے لئے ضد کر لی تھی کہ ایسا ہی ہونا چاہئیے۔ جن پہ صبر کیا وہ نہیں ملیں۔

    ReplyDelete
  11. کاشف نصیر صاحب یہ بیان بھی آپکا ہے۔ میرے بارے میں۔

    آخری پیراگراف سوائے امریکہ پرستی، کم ضرفی اور زمیر فروشی کے اظہار کے اور کچھ نہیں۔ اکیسویں صدی کے عبداللہ بن ابی پرویز مشرف نے اپنی پارٹی بنالی ہے، جلدی سے اسکی جماعت جوائن کر لیں۔ اسے آپ جیسی آگ لگانے، روشن خیالی پھیلانے والے اور دین اسلام کی نت نئی تاویلات کرنے والے معزز خواتین و حضرات کی اشد ضرورت ہے۔ عقیقہ اوڈھو اور میرا تو جاچکی ہیں اب آپ کی ضرورت ہے۔

    اب آپ یہ بتائے کہ وسیع القلبی کے معنی کس کو سمجھانے چاہیئیں۔ مجھے یا آپکو؟

    ReplyDelete
  12. بے شک انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے۔ لیکن ہر سعی انسان کو اس کا مقصد اور مطلوب نہیں دلاتی۔ اس سعی سے انسان کچھ نا کچھ سیکھتا ضرور ہے۔ لیکن مقصود ہاتھ نہیں آتا.
    زندگی میں ایسے کئی مواقع آئے جب میں نے دیکھا کہ وہ کام جو میں ایک ہفتے کی محنت کے بعد بھی نہیں کرپاتا۔۔۔کچھ لوگ محض ایک رات کی محنت میں مکمل کرکے مجھ سے کہیں آگے نکل گئے۔ محنت ہم دونوں نے کی۔ یہاں مواقع بھی ہم دونوں کو برابر ملے۔ لیکن تیسری چیز یعنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے میں ان کے مقابلے میں مار کھاتا رہا۔ میرے پاس صرف دو چیزیں ان کے مقابلے کی تھیں۔ ان کے پاس تیسری چیز مجھ سے کہیں بہتر ہونے کی وجہ سے وہ مجھ سے آگے نکل گئے۔
    دنیا بھر کے کامیاب لوگوں کی شخصیات کا مطالعہ کریں۔وہ ان تین چیزوں کا ایک کامبی نیشن نظر آئیں گے : خداداد صلاحیتیں ، مواقع ، اور محنت و استقامت ۔ جن شخصیات میں ان تین عناصر کا امتزاج انتہائی متناسب تھا ان کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔
    میں یہ بھی واضح کردوں کہ میں ان تین عناصر کا آپس میں مقابلہ برائے برتری نہیں کروا رہا۔ تینوں عناصر ایک دوسرے کے متوازی ہیں۔ اپنی اپنی اہمیت کے حامل ہیں۔ بغیر محنت و استقامت کے محض مواقع اور صلاحیتیں کچھ نہیں کرسکتی۔ بغیر مواقع کے صلاحیت اور استقامت کچھ نہیں کرسکتی۔ وغیرہ۔ جو لوگ اپنی صلاحیت سے فائد نہیں اٹھا پائے۔ وہ اس لئے نہیں اٹھا پائے کہ باقی عناصر کی کمی ہوگی۔
    بات صرف آسانی کی نہیں۔ کامیابی کے لئے انسان کو چیلنج چاہیے۔ اور چیلنج کے لئے موقع چاہیے۔

    یہ باادب شاگرد اتنی آسانی سے بھاگنے والا نہیں۔ اگلی سیٹوں پر بیٹھ کر سوال کرکر کے ناک میں دم کردینے والا ہونہار شاگرد ہے۔
    مزید ٹائم دیں۔

    ReplyDelete
  13. عثمان، شاگرد عزیز، ، اگر آپ اسی طرح اپنی چھیڑیں خود ہی تخلیق کر کے لوگوں کو مہیا کرتے رہے تو کچھ لوگ جن کی بنیادی دلچسپی دوسروں کی چھیڑیں بنانے اور انہیں استعمال کرنے میں ہے ان کے پاس کرنے کے لئے کیا رہ جائے گا۔
    :)
    آپ صلاحیت، مواقع اور استقامت کے درمیان مقابلہ نہیں کروا رہے میں کر رہی ہوں۔ یہ آپکا اور میرا اختلاف رائے ہو سکتا ہے۔ میں محنت اور استقامت کو پہلا نمبر دونگی، صلاحیت کو دوسرا اور مواقع کو تیسرا۔
    اگر ہمارے اندر کوئ صلاحیت ہواور ہم اسکو سنوارنے میں وقت اور محنت لگاتے ہوں تو مواقع بھی نکل آتے ہیں۔ ہنارے پاس صلاحیت ہو اور اسکے ساتھ قدرت ہمیں مواقع بھی دے لیکن ہم زندگی کے جوش سے محروم ہوں تو کوئ چیز فائدہ نہیں دیتی۔
    جوش اور جذبہ اور خواہش انسان کو اپنی ایسی صلاحیتوں سے متعارف کرواتی ہے جس کا اسے بالکل علم نہیں ہوتا، اور وہ خود حیران رہ جاتا ہے ، اٹس می۔
    خواہش یا چاہت کے بھی درجے ہوتے ہیں۔ دل میں آنے والے ہر خیال کو ہم خواہش نہیں کہہ سکتے۔ کچھ خواہشیں ایسی ہوتی ہیں کہ انہیں پالنے پوسنے اور سنبھال سنبھال کر رکھنے میں مزہ آتا ہے۔ اگر وہ پوری ہونے لگیں تو پریشانی لاحق ہو جاتی ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے، اب کیا ہوگا۔ لیکن ایک وہ خواہش ہوتی ہے جو انسان میں جذبہ پیدا کرتی ہے اس طرح کہ ہر نا ممکن ممکن نظر آنے لگتا ہے ۔ جب یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے تو قدرت آپکا ساتھ دینے میں بخیلی نہیں کرتی۔

    ReplyDelete
  14. محنت اور استقامت تقریبا ہر کسی میں ہوتی ہے، صلاحیت کو کاپی یا حاصل کیا جا سکتا ہے اور مواقع حاصل کرنے کیلئے ذبردستی کرنی پڑتی ہے جی ۔

    ReplyDelete
  15. ہاہاہا۔۔۔
    ارے بھئی خدا نے طفیلیے بھی تو پیدا کیے ہیں نا۔ تو کام کرنے والوں کو چاہیے کہ خلقت خدا کی زندگی آسان کرے۔ اب ایسے میں کوئی اپنے روٹی ٹکر کے لیے کچھ چگ کر لے جاتا ہے تو کیا برائی ہے۔ چلنے دیں!
    آپ کی ترتیب عناصر بعض شخصیات کے لئے ٹھیک ہے۔ لیکن آپ کو اس معاملے میں بہت سی رعایتیں بھی ملیں گی۔ ایسی کامیابیاں آپ کو نظر آجائیں گی جن کے پیچھے کامیاب شخصیات کی محنت کی بجائے دوسرے عناصر ذیادہ قابل ذکر تھے۔ شوبز کی مثال لے لیں ، سیاست کی مثال لے لیں۔ ایسے لوگ موجود ہیں جن کی قابل ذکر محنت تھی نہ کوئی ڈھنگ کی صلاحیت۔۔۔بس موقع تھا۔ ہوسکتا ہے کہ آپ ان کی کامیابیوں کی محض سطحی جانیں لیکن بہرحال۔۔۔انھوں نے اپنی بہت سی خواہشات پالیں۔ تو بس دنیاوی طور پر کامیاب ٹھہرے۔
    مواقع ملنا اور مواقع سے صحیح طریقہ سے فائد اٹھا لینے میں فرق ہے۔ بے شک صحیح اور بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے محنت درکار ہے۔
    جوش و جذبہ اور خواہش۔۔۔دونوں طریقوں سے کام کرتی ہے۔دراصل اس کی آبیاری کے لیے کچھ نہ کچھ درکار ہے۔ورنہ مسخرہ بنتے دیر نہیں لگتی۔ جوش و جذبہ سے بپھرے سڑکوں پر چیختے چلاتے مذہب پرستوں کے چہرے دیکھیں۔ سمجھ جائیں گی۔
    چاہت کے درجے دلچسپ کہے۔ لیکن شائد یہ استقامت کے درجے ہیں جو چاہت کو مختلف رنگ دے رہے ہیں۔

    ReplyDelete
  16. کریئیشن کو استعمال کریں یا کہ ایوولیشن کو، دونوں میں سے کسی بھی ایک کو جگہ دیکر اپنے لیئے گنجائش نکالی جا سکتی ہے ۔ بس ہمت کرنے اور رسک لینے کی بات ہے جی ۔

    ReplyDelete
  17. ناول سے چلتے ہوئے بحث دلچسپ مرحلے پر پہنچ گئی ہے اور اگر گفتگو آگے بڑھے تو میرا خیال ہے ایک اور پوسٹ کے لیے با آسانی مواد فراہم کر سکتی ہے۔

    ویسے عثمان جسے ہم زیادہ تر خداداد صلاحیت کہتے ہیں یا سمجھتے ہیں وہ بہت مکمن حد تک کسی شخص کی بچپن کی دلچسپی اور محنت سے پختہ ہوئی عادت بھی ہو سکتی ہے اس شخص کو ماحول یا کوئی استاد میسر رہا ہو جس نے اس میں وہ شوق پروان چڑھا دیا ہو جس نے صحیح سمت متعین کر دی ہو

    ReplyDelete
  18. جاہل اور سنکی،محنت اور استقامت ہر ایک کے اندر ہوتی ہے۔
    :)
    کہہ سکتے ہیں۔ اگر ایک شخص سارا دن ٹی وی کے آگے پڑا رہتا ہے اور خود سے کھانا نکال کر کانا بھی اسے پسند نہیں تو شاید یہ اسکی استقامت کہلا سکتی ہے۔ لیکن ہم یہاں استقامت سے ایک ایسی مسلسل جدو جہد لے رہے ہیں جسکی کوئ مثبت سمت ہوتی ہے۔ اور اس میں کچھ کرنے کی خواہش ہو۔
    ایوولوشن تو اپنی مرضی چلاتی ہے۔ اور انسان اس میں اپنا اختیار کھو بیٹھتا ہے البتہ کری ایشن ایسی چیز ہے جو شاید ایوولوشن کے متضاد سمت میں چلتی ہے۔ کری ایشن دکھانے والے کو اکثر باغی ہونا پڑتا ہے۔ کیا خیال ہے؟
    محب علوی صاحب، شاید آپ ٹھیک ہوں کہ صلاحیت بچپن سےپیدا ہونے والی خصوصیت ہوتی ہے۔ لیکن ایک ہی گھر میں ایک ہی جیسے ماحول میں رہنے والے بہن بھائ، ایک ہی والدین کی اولاد، ایکدوسرے سے بہت الگ شخصیات اور فطری جھکاءو رکھتے ہیں۔ حتی کہ بعض اوقات بچے اپنے والدین سے بالکل الگ رجحانات رکھتے ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ بچوں میں کچھ اور خواص ہوتے ہیں مگر انہیں بزور قوت کسی اور رجحان کی طرف رکھا جاتا ہے اور جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو اپنے فطری رجحانات کے تحت اپنے ماحول سے بغاوت کر جاتے ہیں۔ مثلاً لوگوں کا اپنے آبائ مذہب سے الگ ہو جانا، اپنی ثقافتی خامیوں کے خلاف مہم چلانا،اپنے آبائ روزگار کو تبدیل کر لینا اور اسی طرح کی دیگر مثالیں۔ اس بارے میں آپکا خیال ہے۔

    ReplyDelete
  19. کریئیشن کی تو واقعی اپنی مرضی ہوتی ہوگی اور اسی طرح پازیٹیو یا نیگیٹیو میوٹیشن میں ایوولوشن کی بھی اپنی ہی مرضی ۔ سیلیکشن البتہ دونوں صورتوں میں فٹسٹس کی ہی ہوتی ہے ۔ اب میوٹیشن کو مرضی ہے کے کریئیشن کہیں یا نہ کہیں ۔

    ReplyDelete
  20. اس سوال کا جواب کافی مشکل ہے مگر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ کہوں گا کہ ایک ہی گھر اور ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہونے کے باوجود بھی لوگ مختلف ہوتے ہیں تو اس میں بھی بہت سے خارجی یعنی گھر سے باہر کے عوامل ہوتے ہیں جس میں کوئی خیال یا کچھ لوگوں کی سحبت بچوں کو پسند آ جاتی ہے اور وہ شعوری یا لا شعوری طور پر بسی رہتی ہے ذہن میں جس پر ذہن کام کرتا رہتا ہے ۔ کچھ کو اسے پروان چڑھانے کے زیادہ مواقع میسر آ جاتے ہیں اور کچھ کو کم مگر اس سے وہ صلاحیت پروان چڑھ رہی ہوتی ہے۔
    اپنی مثال دوں تو مجھے بچپن سے کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق تھا اور امی ابو کے بہت روکنے اور منع کرنے کے باوجود یہ شوق بڑھتا ہی گیا کم نہ ہو سکا۔ اس کے علاوہ شاعری کا شوق میرے ایک کزن اور ایک اور کزن کی فیملی بنی جو خود شاعری کو پسند نہیں کرتے تھے مگر ان کے گھر دیوان غالب اور اکبر الہ آبادی کی شاعری کی کتاب پڑی تھی۔ کزن کو بہت سے اشعار یاد ہوتے تھے اور اس سے شعر سن کر بلکہ تشریح بھی سن کر شاعری کا شوق ہوتا گیا حالانکہ خاندان بھر میں بظاہر کسی کو شوق یا رغبت نہیں تھی اور سکول
    یا اور دوست بھی شاعری پسند نہیں ملے۔

    کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی مگر میرا ذاتی رجحان اس طرف ہے کہ صلاحیتیں پیدائشی نہیں ہوتی بلکہ کچھ ماحول اور شوق مل کر اسے پروان چڑھاتے ہیں

    ReplyDelete
  21. استانی جی اور دوستو!
    ایک خوبصورت عورت خوبصورت ہی پیدا ہوتی ہے۔ خوبصورتی ایک خدا داد صلاحیت ہے۔ محنت و استقامت اور مواقع کسی کی خوبصورتی میں کمی بیشی نہیں لا سکتے۔ یہ عورت آگے چل کر اگر شوبز میں نام کماتی ہے تو اس میں اس کی خداداد صلاحیت کا بہت عمل دخل ہے۔
    اچھا گلوکار۔۔اچھی آواز لے کر پیدا ہوتا ہے۔ مواقع (مثلا اچھے اساتذہ وغیرہ کا ملنا) اس کی خداداد صلاحیت کو جلا بخشتے ہیں۔
    اوپر دی گئی دو مثالیں وہ ہیں جہاں ہمیں خداداد صلاحیت واضح نظر آرہی ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ جسطرح تمام لوگ ایک طرح کا چہرہ لے کر پیدا نہیں ہوتے۔۔۔۔اسی طرح جو کچھ ان چہروں کے پیچھے ہے وہ بھی یکساں نہیں۔ جس طرح کچھ چہرے ، کچھ آوازیں بہتر ہیں اسی طرح کچھ ذہن ذیادہ بہتر ہیں۔ جسطرح چہرے کی ایک خوبصورتی ہے اسی طرح ذہن کی بھی ایک خوبصورتی ہے۔ اسے ذہانت کہتے ہیں۔ ذہنی صلاحیت کہتے ہیں۔
    موزارٹ پانچ برس کی عمر میں حیرت انگریز موسیقی ترتیب دیتا ہے۔
    ایواغستے گالوا اٹھارہ سال کی عمر شہرہ آفاق تھیورم تخلیق کرتا ہے جو الجبرا کو ایک نئی زندگی دیتا ہے۔
    رابرٹ جیمز بابی فشر تیرہ سال کی عمر میں کھیل کھیلتا ہے جسے دنیا ئے شطرنج میں گیم آف دی سینچری کے نام سے یاد جاتا ہے۔

    اوپر دی گئی مثالیں محض محنت اور مواقع کی مثالیں نہیں۔۔۔کچھ ہے جو زائد ہے۔
    محب علوی جسے ماحول کہہ رہے ہیں۔۔۔اسے میں مواقع کا نام دیتا ہوں۔ جس کی شراکت اور اہمیت پہلے ہی بیان کرچکا۔

    ماحول(یعنی مواقع) اور محنت صلاحیتوں کو جلا بخشتے ہیں۔ پیدا نہیں کرتے۔ فطرت یکساں نہیں۔ تغیر ہے۔ ذہن انسانی مختلف صلاحیتوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ مواقع اور محنت کے ذریعے مختلف سانچوں میں ڈھلتا اور نکھرتا ہے۔

    جاری رکھیں۔۔۔ابھی میں تھکا نہیں۔۔۔

    ReplyDelete
  22. ہمم، آپ نے خوبصورتی کو صلاحیت قرار دیا۔ اس سے مجھے اختلاف ہے۔
    :)
    صلاحیت تو اس وقت ہوتی کہ کوئ خوبصورت نہ ہو اور بازی لے جائے۔ مثال صوفیہ لارین جو کیریئر کے ابتداء میں قطعاً خوبصورت نہیں سمجھی جاتی تھی۔ دراصل اداکاری ایک صلاحیت ہے جسے محنت سے جلا دی جاتی ہے۔ جیری لوئیس اور مسٹر بین کا ہیرو مجھے تو خوبصورت نہیں لگتے۔ رنگیلا کو کس نے خوبصورت کہا۔ لیکن بہر حال اپنی فیلڈ کے راجہ ہیں۔
    یہاں اس سلسلے میں مجھے کسی اور اصطلاح کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
    :)
    خوبصورتی خدا کا زائد عطیہ ہے اور عورت یا مرد دونوں کو زیادہ مواقع عطا کرتا ہے۔ مگر کتنے خوبصورت لوگ اس سے فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔ لوگ اسی کی وجہ سے مصائب کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ سو یہ یک الگ دلچسپ بحث ہو جائے گی۔
    اگر ایک خوبصورت شخص اپنی دیگر صلاحیتوں پہ محنت نہ کرے تو اسکی حیثیت ایک شو پیس سے زیادہ نہیں رہتی۔ یہ انجام ان سارے گھرانوں میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں شریک حیات میں صرف ایک خوبی دیکھی جاتی ہے اور وہ ہے خوبصورتی۔
    اس چیز سے انکار نہیں کہ صلاحیت ایک خداداد چیز ہے۔ لیکن میں تو یہ کہہ رہی ہوں کہ اگر ہم اپنا کوئ مقصد متعین کریں اور اسکے لئے محنت اور استقامت سے کام کریں تو کم صلاحیت کے باوجود اسے کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور مواقع بھی نکل آتے ہیں۔ اس معاملے میں دنیا میں انگنت مثالیں بھری پڑی ہیں۔ دنیا میں با صلاحیت اور ذہین لوگ اتنا کچھ نہیں کر پاتے بلکہ یہ اوسط ذہن کے حامل لوگ ہوتے ہیں جو اپنی استقامت اور محنت کی وجہ سے ہمیں آگے نظر آتے ہیں۔ مثالیں اوبامہ، اوپرا ونفرے، عبدالستار ایدھی، نیلسن منڈیلا، سرسید احمد خان، ہماری فلائینگ کوئین نسیم حمید۔ سر دست یہ چند نام تھے جو یاد آ رہے ہیں۔
    ۔۔بحیثیت قوم اگر ہم دیکھیں تو یہ چائینیز ہیں جو کامیاب رہے۔ اس وقت جبکہ ساری دنیا میں اقتصادی حالات بد ترین ہیں۔ خود امریکہ کو اس وجہ سے اپنی بقاء خطرے میں نظر آتی ہے۔ یہ چین ہے جو معاشی طور پہ مستحکم ہے۔ ہمارے ساتھ آزادی حاصل کرنے والا یہ ملک اپنے محنتی لوگوں کی وجہ سے حیران کن جانا جاتا ہے۔ ایک وقت افیون کے نشے میں ڈوبی رہنے والی قوم آج دنیا کی سپر پاور میں شامل ہے۔
    چلیں اب آپکی باری ہے۔
    ۔

    ReplyDelete
  23. اب تو انسان کی لک ہی باقی بچتی ہے اور بڑے اور با اثر لوگوں کے انٹرسٹس ۔ صلاحیتوں کے ہوتے ہوئے ناکام ہونا اور صلاحیتوں کے نہ ہوتے ہوئے کامیاب ہونا تو حیرت انگیز بات ہو گئی نا ۔ دوسروں کی صلاحیتوں کو اپریشیٹ نہ کرنا جیلیسی اور اپنی غیر حقیقی پروموش ایروگنس جیسی صلاحیتوں میں شمار ہوتی ہیں ۔ کامیاب اور مشہور ہونے کیلئے جہاں اچھی طرح سے جیلس او ایروگنٹ ہونا ضروری ہے وہیں موقعہ کی مناسبت سے کسی حد تک کول ہونا بھی ۔

    ReplyDelete
  24. "دراصل اداکاری ایک صلاحیت ہے جسے محنت سے جلا دی جاتی ہے۔"
    ہی ہی ہی۔۔۔میرا مقدمہ تو آپ نے تسلیم کرلیا۔ بات بڑھانے کو بہانہ چاہیے۔ بڑھاتے ہیں۔۔۔
    یہ لیں ایک اور اصطلاح وصول کریں:
    suitable appearance/ability
    گدھے کا کردار ادا کرنے کے لئے رنگیلا صاحب میں بدرجہ اتم موجود تھی۔


    "آپ نے خوبصورتی کو صلاحیت قرار دیا۔ اس سے مجھے اختلاف ہے۔"

    "خوبصورتی خدا کا زائد عطیہ ہے اور عورت یا مرد دونوں کو زیادہ مواقع عطا کرتا ہے۔"

    لگتا ہے کہ استانی عزیز کے نوٹس گڑبڑا گئے ہیں۔ خداداد صلاحیت خدا کا عطیہ ہی تو ہے میری عزیز استانی جی۔ صرف خوبصورت لوگ ہی نقصان نہیں اٹھاتے بلکہ بہت سے محنتی لوگوں کو بھی حاسدین کا سامنا ہے۔ مواقع جن کو ملتے ہیں ان کی ٹانگیں کھینچنے والے بھی بہت ہیں۔
    بے شک صلاحیت تنہا کچھ نہیں۔۔۔اس کو جلا دینے کے لئے محنت چاہیے۔ پہلے بیان کرچکا۔
    کامیابی کیا ہے۔ اور انسان کب مطمئن ہوتا ہے یہ بھی اپنی جگہ ایک بحث ہے۔ بعض دفعہ ہم جزوی کامیابی سے بھی مطمئن ہوجاتے ہیں۔ باصلاحیت ہم سے کہیں آگے نکل کر بڑی کامیابی پالیتے ہیں۔ زندگی میں کھیل کا فاتح کوئی ایک نہیں۔ کامیابی کے بھی درجے ہیں۔ جیسے صلاحیتوں کے درجے ہیں۔
    کامیابی بالحاظ صلاحیت بھی ہوسکتی ہے بشرطیکہ محنت اور مواقع یکساں ہو جائیں۔

    اوبامہ مثال ہے ایک ایسے شخص کی جس کی شخصیت سرتاپا صلاحیت اور مواقع کا مجموعہ ہے۔ انتخابات میں اس کے خلاف سب سے بڑی پھبتی ہی یہ تھی کہ اس وجیہ و ذہین اور موقع پرست آدمی کی اچیومنٹ کیا ہے؟ اور نوبل انعام کیوں ملا ؟ اس لیے کہ صدر بننے کی راہ پر ہے؟۔۔۔جو اس کی واحد اچیومنٹ ہوگی ہے۔ اوبامہ کی کامیابی اس کی محنت کے علاوہ دوسرے عناصر کے مرہون منت ہے۔ کل کو اگر بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم بن گیا تو وہ بھی اسی زمرے میں آئے گا۔ محنت اور استقامت کو یہاں معاف ہی رکھیں۔
    اوپرا وینفرے کا کمال باتیں بنانے کی صلاحیت ہے۔ ہیری پورٹر کی جے کے رولنگ بھی یہی کچھ کرتی ہے۔۔۔اپنا امان اللہ بھی کسی سے کم نہیں۔ ان لوگوں کو مواقع اپنی صلاحیت کے حساب سے بہت ملے۔ اور محنت سے آگے بڑھ کر انھوں نے فائد بھی اٹھایا۔ ورنہ باتیں بنانے والی بھی کم نہیں۔ اور جنوں بھوتوں کی کہانیاں لکھنے والے بھی کم نہیں۔
    مینڈیلا اور ایدھی بلاشبہ استقامت کی اعلٰی مثال ہیں۔ چونکہ میں ان کی پوری سوانح حیات سے واقف نہیں اس لئے یہاں پوائنٹ آپ کا ہوا۔لیکن سنا ہے اچھے لیڈر میں لیڈ کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔

    آخری پیراگراف میں اب آپ فرد سے قوم پر آگئیں۔نہ جی نہ۔۔۔زگ زیگ نہیں کرنے دوں گا۔ قوموں کی تخصیص میں اور بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔ موضوع پھیل جائے گا۔۔۔اس لیے اجتناب برت رہا ہوں۔

    اب کے باری احتیاط سے لیں۔ آگے سردیاں آرہی ہیں۔ دماغ کو متحرک رکھنے کے لئے ابھی میں نے آپ کو بہت تنگ کرنا ہے۔ تیاری پکڑ لیں۔

    ReplyDelete
  25. لیکن میں اب بھی آپکی یہ بات تسلیم نہیں کر سکتی کہ خوبصورتی صلاحیت ہے۔ صلاحیت کی میرے خیال میں کچھ اور تعریف ہے۔ کسی کی آواز خوبصورت ہو سکتی ہے اور اسکا بولنا دلنشیں۔ مگر نغمگی گانے کی صلاحیت کو ظاہر نہیں کرتی۔ گلاب کا پھول خوبصورت ہوتا ہے مگر کیڑے کھانے کی صلاحیت ان میں نہیں ہوتی۔ یہ بعض مخصوص پھولوں میں ہوتی ہے وہ بھی خوبصورت ہوتے ہیں مگر ایک صلاحیت رکھتے ہیں۔ جیسے ایک شخص دونوں ہاتھوں سے بولنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یعنی کسی فعل کو انجام دینے کی قوت رکھنا۔ خوبصورتی اس زمرے میں نہیں آتی۔ خوبصورتی کو استعمال کیا جا سکتا ہے مگر صلاحیت کی تعریف میں رکھنا ، میرے خیال سے درست نہیں ہے۔
    اب اوپرا ونفرے کسی ایسے خاندان سے تعلق نہیں رکھتی جو اسے مواقع فراہم کر سکتا ہو، محض نو سال کی عمر میں وہ جنسی زیادتی کا شکار ہوئ۔ ادھر ہیری پوٹر کی مصنفہ ایک معمولی اسکول ٹیچر ہی تھی۔ خود الکیمسٹ کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اسکا پہلا ایڈیشن صرف نو سو کتابوں پہ مشتمل تھااور پھر اسے بند کر کے رکھ دیا گیا تھا۔ جب اسکی دوسری کتاب آئ تو یہ کتاب دوبارہ مارکیٹ میں آئ اور مصنف کی سب سے زیادہ بکنے والی کتابوں میں شامل ہو گئ۔ گارسیا نوبل انعام یافتہ ادیب ایک معمولی صحافی اور آئینسٹائین ایک کلرک۔ میرے خیال سے انہوں نے کامیابی اور شناخت حاصل کی کیونکہ انہوں نے اپنے اوپر یقین کو متزلزل نہیں ہونے دیا۔
    اوبامہ کو نوبل پرائز اپنی انتخابی جیت کے بعد ملا۔ اور ان کا ذاتی پس منظر کوئ غیر معمولی بات نہیں رکھتا۔ پاکستان کی طرح وہ کسی موروثی ذریعے سے بھی نہیں آیا۔ جیسا کہ آپ نے بلاول بھٹو کی مثال دی۔ بلاول ان لوگوں میں شمار ہوتا ہے جو اپنے منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے اس پس منظر کی وجہ سے بے پناہ مواقع حاصل ہیں لیکن یہ تو وقت بتائے گا کہ وہ کیا حاصل کر پاتے ہیں۔
    کراچی میں سردیاں نہیں ہوتیں۔ ہم یا تو کیلینڈر دیکھ کر موسموں کے نام رکھتے ہیں۔ یا پھر دوسروں سے کچھ گھنٹوں کے لئے ادھار لے لیتے ہیں۔ ہمارے یہاں ایک بلکہ یوسفی کی زبان میں صرف دو موسم ہیں زیادہ سردی، کم سردی۔ یوسفی کی ہی زبان میں سینتیس ڈگری ٹمپریچر اگر جون میں ہو تو گرمی اور اگر دسمبر میں ہو تو سردی کہلاتی ہے۔
    بس اسی وجہ سے ہم کراچی والوں کا مزاج کچھ لوگوں کو کم بھاتا ہے۔
    :)
    اس سے آپکو اندازہ ہو گا کہ ہمارا دماغ جون اور دسمبر ہر دو مہینے میں یکساں رفتار سے چلتا ہے۔
    اس لئے یہ امید نہ رکھیں کہ دسمبر میں کچھ حالات میں بہتری ہو گی۔
    :)

    ReplyDelete
  26. جاہل اور سنکی،
    اب تک تو یہ سنتے آئے تھے کہ خوشامد کامیابی کی اہم سیڑھی ہے اور بہت سارے مصائب کو کم کر دیتی ہے۔ اقبال نے بھی کہا کہ
    ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
    وجہ یہ ہے کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق
    لیکن اب آپ اگر کہہ رہے ہیں کہ ایروگینس بھی کامیابی کا حصہ ہے تو میں سوچتی ہوں کہ ایک ایروگینٹ شخص میں یقیناً کچھ اورایسا ضرور ہوگا کہ کامیابی حاصل ہوئ۔ اور اگر ایروگینٹ شخص کی ایروگینسی کے باوجود لوگ اس سے تعلق چاہتے ہیں تو یقیناً کوئ بات ہوگی جو اس ایروگینسی کے اثر کو زائل کر دیتی ہو گی۔
    یہ جیلسی تو حسد میں نہیں آتی۔ مجھے لگتا ہے اسے رشک ہونا چاہئیے۔ حاسد شخص کا بیشتر وقت تو جلنے بھننے میں ختم ہو جاتا ہے۔ البتہ رشک، آدمی کا مورال خاصہ بلند کر دیتا ہے۔

    ReplyDelete
  27. عثمان، جملہ درست کر لیں۔
    ہمارے یہاں دو موسم ہوتے ہیں زیادہ گرمی اور کم گرمی۔

    ReplyDelete
  28. پلیزنگ طریقے سے پرفارم کرنے کی ہی بات ہوتی ہے جی ۔ پرفارم کی ہوئی ایروگنس کو عظمت اور پرفارم کی ہوئی جیلیسی کو رشک کہہ دینے سے ایروگنس اور جیلیسی کی اوریجنل ڈیفینیشنز تبدیل نہیں ہو جاتیں ۔

    ReplyDelete
  29. آپ نے لاشعوری طور پر صلاحیت اور مواقع کی تعریف کافی محدود اور مبہم کررکھی ہے کہ اب آپ کو خود بھی مشکل ہورہی ہے کہ کہاں لائن ڈرا کریں۔
    :)
    جبکہ میرے نزدیک:

    ہر وہ چیز جو انسان جسمانی یا نفسانی طور پر لے کر پیدا ہوتا ہے اسے خداداد صلاحیت کہتے ہیں۔ یا اگر آپ اصرار کرتی ہیں تو عطیہ کا لفظ استعمال کرلیں لیکن بات ایک ہی ہے۔
    ۲) ہر وہ سہولت جو انسان کو اپنے ارد گرد کے ماحول سے میسر ہوتی ہے میں اسے مواقع کہتا ہوں۔ اسے موافق حالات بھی کہہ لیجئے۔ تصویر اور واضح ہوجائے گی۔
    ۳) محنت و مشقت و استقامت انسان کو کرنا پڑتی ہے جب ہی وہ ذکربالا عناصر کو استعمال کرتے ہوئے کہیں پہنچ پاتا ہے۔


    پھول کا خوبصورت ہونا ایک الگ صلاحیت ہے۔ اس کا کیڑے کھانا ایک الگ صلاحیت۔ آواز کا خوبصورت ہونا ایک الگ صلاحیت ہے۔ گائکی کا فن ایک الگ صلاحیت۔ بعض زنانہ آوازیں گانا نہ بھی گائیں تو بھی بڑی شہوت انگیز ہوتی ہیں۔ اور کچھ آوازیں ایسی ہوتی ہیں کہ بندہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ بولنے والی کیا واقعی خاتون ہے؟
    اوپرا وینفرے کا بچپن بھلے کیسا بھی گذرا۔ لیکن اسے ٹی وی کی دنیا میں موافق حالات میسر آئے۔ اپنی رواں کلامی کی صلاحیت اور محنت سے اس نے اپنے آپ کو کامیاب بنایا۔ اس سے کہیں بہتر صلاحیت اور محنت کے حامل ٹی وی اور ریڈیو میزبان امریکہ میں موجود ہیں۔ بلکہ اپنے بیچارے پی ٹی وی میں بیٹھے رہے ہیں۔ جے کے رولنگ کی مثال تو اور بھی کمزور ہے۔ جنوں بھوتوں کی کہانیاں ہمیشہ سے لکھی جارہی ہے۔ جے کے رولنگ نیا کیا لائی۔ برصغیر میں دیسی زبانیں بولنے والے کئی اقسام کی طلسم ہوشربا لکھتے آئے ہیں۔ کون ان کے نام سے واقف ہے؟ اردو کے کچھ عظیم ادیب اور شعراء اگر اردو کی بجائی بین الااقوامی زبان انگریزی میں لکھتے تو بین الااقوامی طور پر اتنے گم نام نہ ہوتے۔ خود مغرب میں جنوں بھوتوں کی کہانیاں لکھنے والے کم نہیں رہے۔ لیکن موجود دور میں ایک مصنفہ میڈیا کی چکاچوند روشنی میں آگئی۔ قسمت لگی اور کام چل نکلا۔ ورنہ مجھے بتائیے کہ اوپرا وینفرے اور جے کے رولنگ کی سوانح حیات میں محنت و استقامت کا عظیم عنصر کہاں نمودار ہوتا ہے؟ ارب پتی جے کے رولنگ نے کونسی محنت سے ایسا کونسا عظیم ادب تخلیق کرڈالا ہے کہ جو دولت و شہرت اس کے حصے میں آئی وہ اردو ، پنجابی ، سندھی اور پشتو بولنے والے نہ کرسکے؟

    ReplyDelete
  30. نوبل کمیٹی نے ۲۰۰۸ء کے شروع میں ہی اوبامہ کو نوبل انعام دیے جانے کی فہرست میں شمار کرلیا تھا۔ اس وقت اس نے ابھی چند پرائمری ہی جیتی تھیں۔ الیکشن سے پہلے ہی وہ شارٹ لسٹ ہوچکا تھا۔ اس کی سوانح بھی دیکھ لیجئے۔ وہ ایک متمول اپر مڈل کلاس گھرانے میں پیدا ہوئے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ ماں اور باپ دونوں سائنس کے مضامین میں پی ایچ ڈی تھے۔ باراک اوبامہ جب پیدا ہوا تو امریکہ کے طول عرض میں افریقی النسل امریکی بنیادی انسانی حقوق کے لئے مار کھا رہے تھے۔ جبکہ باراک اوبامہ ایک متمول سفید فام امریکی خاندان کا چشم و چراغ تھا۔ اس خاندان کی بجائے اگر وہ ہارلیم کی کسی گلی میں پیدا ہوا ہوتا تو حسب دستور ایک چور اچکا نکلتا۔ لیکن ابتدا سے ہی قسمت کی دیوی اس پر مہربان تھی۔ ملین میں سے ایک امریکی کو ہی ایسا ماحول میسر ہوتا ہے۔ اس کے بچپن ہی میں اس کی ماں اسے لے کر کئی ممالک پھری۔ یاد رہے کہ اس نے یہاں در در کی ٹھوکریں نہیں کھائیں۔ بلکہ ماں کی گود میں سیرو تفریح کے مزے لیے۔ جس نے ظاہر ہے کہ اس کی شخصیت پر بہت سے مثبت اثرات چھوڑے۔ اعلیٰ ترین امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھا۔ وہیں ایک ذہین عورت سے شادی کی۔ چند سال شکاگو میں وکیل رہا اور سٹیٹ سینٹر رہا۔ ۲۰۰۴ء کے ڈیموکریٹک کنونشن میں ایک خوبصورت تقریر کرنے کی بدولت میڈیا کی نظر میں آیا۔ میڈیا کی نظروں میں آنے کی وجہ سے اس کی وہ کتاب بھی دھڑا دھڑ بکنے لگی جسے پہلے کسی نے گھاس نہ ڈالی تھی۔ امریکی سینیٹ میں صرف دو سال گزارنے کے بعد ہی اس نے صدارتی انتخابات میں چھلانگ لگا دی۔ اس تمام عرصے اس نے کوئی ایسا کارنامہ انجام نہ دیا جس پر کوئی رشک کرسکے۔ ہر امریکی تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہے۔ باراک اوبامہ کی واحد دلیل یہ تھی کہ وہ نیا آدمی ہے۔ لہذا واشگنٹن کی سیاسی چپقلش سے پاک ہے۔ یہی دلیل میں بھی اپنے حق میں استعمال کرسکتا ہوں۔ لیکن نہ تو میرے پاس اس جیسی فن تقریر ہے ۔ نہ ویسی ذہانت نہ قسمت۔ باراک اوبامہ کا آدھا کالا اور آدھا سفید ہونا بھی اس کے لئے خوش قسمت ثابت ہوا۔ ۲۰۰۸ء وہ دور تھا جب امریکی اور خاص طور نوجوان امریکی طبقہ سفید فام ایلیٹ رپبلکن پارٹی کی حرکتوں سے عاجز آچکا تھا۔ انھیں تبدیلی چاہیے تھے۔ چاہے وہ کچھ بھی ہو۔ ہلری کلنٹن نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ لیکن بہتر سیاسی کیریر رکھنے کے باوجود اس کی دال نہ گلی۔ چھے بچوں کی اماں ، الاسکا کی ڈیڑھ سالا گورنر بھی محض "غیر روایتی" ہونے کے سبب امریکی میڈیا اور عوام کی آنکھوں کا تارا بن گئی۔ تبدیلی کی اس ہوا میں رپبلیکن پارٹی ایک موقع پر بھارتی نثراد بوبی جندل کو نائب صدر کے لئے سوچ رہی تھی۔ باراک اوبامہ کی تمام کہانی ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس پر قسمت کی دیوی ہردم مہربان تھی۔ جو ان تمام صلاحیتوں کے ساتھ پیدا ہوا جس نے اسے وہاں پہنچایا جہاں وہ پہنچنا چاہتا تھا۔
    ملاحضہ فرمائیں سابق امریکی نائب صدارتی امیداور گیرالڈین فیرارو کا متنازع لیکن درست تجزیہ :
    "If Obama was a white man, he would not be in this position. And if he was a woman (of any color) he would not be in this position. He happens to be very lucky to be who he is. And the country is caught up in the concept."

    ReplyDelete
  31. مجھے بتائیے کہ اوبامہ کی کہانی میں وہ عظیم محنت و استقامت کہاں ہے کہ آپ نے اسے ستائیس سال قید تنہائی کاٹنے والے مینڈیلا کے ساتھ لا کھڑا کیا؟ یقناً وکیل بننے اور صدر بننے کے لئے محنت درکار ہے۔ یقینا وہ ایک ذہین خوش قسمت اور محصورکن شخصیت ہے لیکن اوبامہ کی کامیابیاں اس کی محنت سے کہیں ذیادہ ہیں۔ اوباما میرے موقف کے حق میں ایک سنہری مثال ہے۔ آپ کے موقف کے حق میں نہیں۔ مواقع ضروری نہیں کہ خاندان سے ہی ملیں۔ کچھ کو اوبامہ کی طرح ہرطرف سے ملتے ہیں۔ کچھ کو بلاول بھٹو زرداری کی طرح خاندان سے۔

    میں نے اپنے پچھلے تبصرے میں کہا تھا کہ مواقع اور محنت یکساں ہوجائیں تو باصلاحیت آگے نکل جائیں گے۔ یہ بات درست ہے۔ لیکن انتہائی آئیڈیل ہے۔ چونکہ فطرت میں تغیر ہے اس لیے یہ ممکن نہیں۔ دو آدمیوں کے مواقع اور محنت یکساں ہوجانا قریب قریب محال ہے۔ اسی لیے آپ کو کچھ ایسے لوگ مل جائیں گے جوانتے باصلاحیت نہیں۔ لیکن محنت ذیادہ کرنے کی بدولت آگے نکل گئے۔ لیکن اس رعایت سے میرے استدلال کو زک نہیں پہنچتی۔

    موسم کی بات میں نے اپنے لیے کہی ہے۔ کہ سردیوں کی برفوں میں متحرک رہنے کے لئے مجھے آپ کو اضافی تنگ کرنا ہے۔ جہاں تک استانی جی کا تعلق ہے تو چاہے سردی ہو یا گرمی۔۔۔۔استانی جی کی تیزی میں کوئی کمی نہیں آسکتی۔ :)

    ہاں جی۔۔۔اتنا کافی ہے یا چلیں اگلی پوسٹ پر؟۔۔۔ اپنا موقف میں ثابت کرچکا ہوں یہ میں جانتا ہوں۔ :)

    ReplyDelete
  32. اوہو۔۔۔۔
    آئن سٹائن کی سوانح حیات کا تجزیہ تو رہ ہی گیا۔ وہ چند سال کلرک کیوں رہا اس کی تفصیل میں پھر کبھی بتاؤں گا۔ یہ بتا دوں کہ یہ مثال بھی ہرگز آپ کے موقف کے حق میں نہیں ہے۔

    ReplyDelete
  33. عثمان، میرے عزیز شاگرد،
    میں صلاحیت سے مراد وہ چیز لے رہی ہوں جسے انسان اپنی شبانہ روز محنت سے بہتر بناتا ہے اور اس میں مزید تغیر لاتا ہے۔ یا اسکے نتیجے میں وہ ارتقائ تبدیلیوں سے گذرتا ہے اور جستجو کی نئ منازل طے کرتا ہے۔ جبکہ جسمانی خوبصورتی ایک عمر رکھتی ہے اور آپ جتنی بھی محنت اس پہ کریں یہ بالآخر اپنا تائثر کھو دیتی ہے۔ انسان کی صلاحیتوں کے ساتھ عام طور پہ ایسا نہیں ہوتا۔ اور سوائے اسکے کہ انسان کی وہ چیز اسکی جسمانی سرگرمی سے وابستہ ہو یہ عام طور پہ اوپر کی سمت سفر کرتی ہے۔ حتی کہ جب ہمارے قوی ہمارا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں تب بھی ہمارا ذہن اسکی گہرائیوں کو چھانتا رہتا ہے۔
    اتنی ساری بحث میں، میں صرف یہ کہنا چاہ رہی ہوں کہ ذہنی طور پہ معذور شخص تو اس بات سے عاجز ہے کہ وہ کچھ کر پائے لیکن بلند کام کرنے کے لئے انسان کے اندر بے پناہ صلاحیتوں کا ہونا ضروری نہیں بلکہ اپنے ٹارگٹ سے اخلاص اور اسکی طرف جدو جہد زیادہ ضروری ہے۔ میں نہیں سمجھتی کہ محض با صلاحیت شخص ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ ایک عام صلاحیت رکھنے والا شخص بھی وہ سب کچھ حاصل کر سکتا ہے جو ایک باصلاحیت شخص کر سکتا ہے۔ اسے محنت چاہئیے۔ ایک باصلاحیت شخص بھی اکثر مار کھا جاتا ہے جب وہ معاشرتی دباءو کے آگے سر نگوں ہو جاتا ہے۔ روزمرہ کی زندگی اور قبولیت عام کے درجے سے ہٹ کر اگر کوئ کچھ کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے نظام سے بغاوت کرنی پڑتی ہے۔ ۔ اب آءینسٹائین کی بات کریں تو اسے اپنے اسکول پہ بھی اعتراض تھا اس لئے کہ وہاں پڑھانے کے جو طریقے رائج تھے وہ بقول اسکے طالب علموں کیے اندر جستجو ختم کر دیتے تھے۔ اسے اس وجہ سے فیل بھی ہونا پڑا۔
    میں نے جتنی مثالیں دیں وہ ان لوگوں کی دیں جو اپنی زندگی میں ہر طرح کے اتار اور چڑھاءو سے گذرے۔ قسمت کسی کی سخت بھی ہو سکتی ہے ایک ایسے وقت میں قسمت کے سامنے ڈٹے رہنے کا نام ہی استقامت ہے، اس چیز کا نام استقامت ہے کہ ہم اپنے آپ پہ یقین رکھتے ہوں کہ یہ ہم کر سکتے ہیں۔ محنت ایک عملی چیز ہے جو ہم اپنے ٹارگٹ کے حصول کے لئے کرت ہیں۔
    ابھی اتنا ہی وقت ملا۔ باقی باتیں بعد میں۔

    ReplyDelete
  34. بات تو ایبیلیٹی اور بیلانگنگز کی ہوتی ہے ۔ بظاہر خوبصورت خد و خال اور ایکیوریٹ ہھتیار بیلانگنگز اور انکا استعمال ایبیلیٹی کہلاتا ہے ۔ ایبیلیٹی ایک نظر نہ آنے والی شے ہے اور دماغ کے استعمال کا دوسرا نام بھی ہے ۔ دل نامی شے کا استعمال بھی دماغ کیلئے اچھے بھلے مسائل پیدا کردیتا ہے ۔ اسی دل نامی مصیبت کو پلیز کرنے کی خاطر ایک اچھا بھلا انسان اپنی ایبیلیٹیز کی لیمٹس کو اپنے دوست نما دشمنوں پر آشکارہ کر دیا کرتا ہے ۔

    ReplyDelete
  35. السلام علیکم،

    عنیقہ میں آپ کی اس بات سے سو فیصد متفق ہوں۔۔آپ نے لکھا۔۔۔


    "لیکن میں تو یہ کہہ رہی ہوں کہ اگر ہم اپنا کوئ مقصد متعین کریں اور اسکے لئے محنت اور استقامت سے کام کریں تو کم صلاحیت کے باوجود اسے کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور مواقع بھی نکل آتے ہیں۔""

    اس کی مثال میں خود ہوں۔۔۔عنیقہ مجھے شعر و شاعری سے کسی قسم کی دلچسپی نہیں تھی۔۔۔میں نےایک فورم جائن کررکھی تھی وہاں ایک مرتبہ اراکین پر پیروڈی لکھنے کا خیال آیا۔۔۔میں نے لکھ دی ۔۔۔سب کی جانب سے بے پناہ تعریف ملی۔۔۔۔سب نے کہا میں شعر کہہ سکتی ہوں۔۔۔۔میں نے پھر آپ والی بات محنت اور استقامت سے لکھنا شروع کیا۔۔۔۔آپ یقین کریں کہ میں اب تک 56 کے قریب نظمیں لکھ چکی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری شاعری اردو محفل فورم پر پوسٹڈ ہے۔۔۔پھر اردو مھفل فورم پر اراکین کے انٹرویوز۔۔۔سب حیران رہ گئے اور اب تک پوچھتے ہیں کہ کیا میں پہلے کسی پروگرام میں اینکر پرسن تھی۔۔۔۔۔اردو محفل پر ہی میری کچھ برجستہ پوسٹس۔۔۔تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شاید یہ صلاحیت مجھ تھی لیکن مجھے خود اندازہ نہیں تھا۔۔لیکن خیال دلانے پر جب میں نے اپنا مقصد بنایا تو مجھے اس کا بہترین رزلٹ ملا۔۔۔۔
    یہ میں نے اپنی ماما کے لیےلکھا ۔۔۔۔۔

    ماں کتنی ٹھنڈک ہے تیرے نام کے ان حرفوں میں
    لب پہ آتے ہی تپتی دھوپ بھی گھنی چھاؤں لگنے لگتی ہے

    تیرا سایہ رہے مجھ پر میری زندگی کی آخری حد تک
    ماں تجھے اک دن نہ دیکھوں تو زندگی بُری لگنے لگتی ہے

    اے میری پیاری ماں تُو کیا جانے تیری دعا میں کیا اثر ہے
    اِدھر تو ہاتھ اٹھائے، اُدھر ہر مشکل مجھےآساں لگنے لگتی ہے

    ایک تجھے راضی رکھنے سے میرا دامن بھرگیا خوشیوں سے
    تیری محبت کے سامنے دنیا کی ہرمحبت جھوٹی لگنے لگتی ہے

    جوہومیرے بس میں نثار کردوں میں جہاں بھر کی نعمتیں
    دنیا کی ہر نعمت تیرے رتجگوں سامنے ہیچ لگنے لگتی ہے

    ماں تُو کہتی ہے میں تیری ہستی کا مان ہوں،غرورہوں
    یہ سوچ کے مجھے یہ زندگی کچھ اور بھی اچھی لگنے لگتی ہے

    میں وہ لفظ کہاں سے ڈھونڈ کرلاؤں،جو تیری شان میں ہوں ادا
    ماں میری محبت،تیری محبت کے سامنے شرمندہ سی لگنے لگتی ہے


    اور ایک بات بھی کہ اگر آپ کی صلاحیتوں کی قدر کی جائے تو یہ دن بدن نکھرتی جاتیں ہیں۔
    (اگر میری بات یا نظم موضوع کے برخلاف تھی تو ابھی سے معذرت مجھے گفتگو میں نے موقع محل بات کرنا اچھا نہیں لگتا ناں)

    ReplyDelete
  36. امن ایمان، پہلی بات تو میں آپ سے کہونگی کہ اگر آپ شاعری کی طرف رجحان رکھتی ہیں تو کسی با علم شخص سے اصلاح لینا شروع کر دیں۔ چھپن نظمیں بہت ہوتی ہیں۔ آپ ان کی اصلاح کر والیں اور ایک کتاب چھپوا لیں۔ لیجئیے صاحب کتاب ہو جائیں گی۔ یہ میں انتہائ سنجیدگی سے کہہ رہی ہوں۔
    میری ایک جھاڑو پونچھا لگانے والی ماسی تھی۔ اب سے چار سال پہلے اسے چھاتی کا کینسر تشخیص ہوا۔ جس وقت اس نے یہ بات بتائ۔ میں نے سوچا، کس قدر غریب ہے یہ عورت، پچپن سال سے زائد عمر ہے اسکی۔ شوہر بھاگ چکا ہے۔ بڑے بچے سب شادی کر کے الگ ہو گئے۔ یہ چھ مہینے بھی گذار لے تو بہت ہے۔ اسکی چھاتی کا تین دفعہ آپریشن ہوا۔ خیراتی ہسپتال میں۔ وہ کس طرح معلومات کرتے کرتے اس ہسپتال تک پہنچی وہ الگ ہے۔ ہسپتال سے دوائیں مفت نہیں ملتیں وہ خریدنا پڑتی ہیں۔ ۔ ڈیڑھ سال بعد پتہ چلا کہ اسکے رحم میں بھی کینسر پھیل گیا ہے۔ جیسا کہ چھاتی کے کینسر میں اسکا امکان ہوتا ہے۔ اسک پھر رحم کا آپریشن ہوا۔ کس طرح وہ لوگوں سے مانگ کر ادھر ادھر سے پیسے جمع کر کے علاج کراتی رہی۔ ابھی بھی وہ زندہ ہے۔ ایک ایسی بیماری میں جو مالدار لوگوں کو بھی ہو جائے تو دل بیٹھ جاتا ہے۔ اس نے تقریباً چار سال نکال لئے۔ میں سوچتی ہوں ایسا کیسے ہوا۔
    اس عورت کے نو بچوں میں سے سب سے چھوٹا ابھی بارہ سال کا ہے۔ اسے اس نے چار سال پہلے مدرسے میں ڈال دیا تھا حفظ کے لئے۔ مدرسے سے ہی اس بچے کو دو وقت کا کھانا بھی مل جاتا تھا۔ ایک تو اسے اسکی فکر بہت تھی۔ دوسری فکر اسے اپنے اس بچے کی ہے جو پیدائیشی ذہنی طور پہ معذور ہے۔ ان فکروں نے اسے زندگی کو چلائے رکھنے پہ جیسے مجبور رکھا ہوا ہے۔ ایک جذبہ جو اس میں ایک بھیانک بیماری سے لڑنے کا جذبہ بیدار رکھتا ہے۔ ابھی میرا چھوٹا بیٹا بہت چھوٹا ہے۔ دوسرا اس پاگل کو کون دیکھے گا میرے بعد۔ لوگ کہتے ہیں اسے ایدھی میں ڈالدو۔ میں کیسے اسے وہاں ڈال کر آجاءوں۔ اس عورت کے پاس کوئ صلاحیت نہیں اور نہ مناسب مواقع بس وقت پڑنے پہ کہیں نہ کہیں سے کوئ موقع نکل آتا ہے یا وہ پیچھے پڑ کر اسے نکال لیتی ہے۔ چار سال سے وہ اس موذی مرض کے ساتھ انتہائ کم ادویات اور زندگی کی کم ترین سہولیات کے ساتھ زندہ ہے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ