Wednesday, October 27, 2010

روڈ پہ

مشعل کو بڑا مزہ آتا ہے جب کسی کو ڈانٹ پڑ رہی ہو۔ اور اگر اسے ذرا بھی شبہ ہو کہ کسی کو ڈانٹ پڑنے والی ہے تو وہ موقع پہ جم جاتی ہے سو بعض اوقات گھر میں لوگوں کو اس وجہ سے ڈانٹ موءخر کرنی پڑتی ہے۔ کیونکہ انکی موجودگی کی وجہ سے ڈانٹ میں وہ کڑک نہیں پیدا ہو پاتی جس کا اثر تا دیر رہے۔
کسی شخص کو بے وقوف کہنا وہ عیاشی ہے جسے وہ وقتاً فوقتاً حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اس لئے جب بھی کسی کو بے وقوف کہا جائے وہ ہمیشہ وجہ پوچھتی ہیں کہ اسے بے وقوف کیوں کہا گیا۔ اسکا مقصد عبرت حاصل کرنا نہیں بلکہ دوبارہ کسی سے بھی اس حرکت کے سرزد ہونے پہ انکا سب سے پہلے بے وقوف کہنے کی تیاری ہے۔
اپنی مونٹیسوری آتے جاتے ہوئے، دن میں ایک وقت وہ میرے ساتھ اور دوسرے وقت اپنے ابا کے ساتھ ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی ابا کی زیادہ مصروفیت کی وجہ سے دونوں وقت یہ میری ذمہ داری ہو جاتی ہے۔ رستہ بھر ہم دونوں باتیں کرتے جاتے ہیں اس میں انکا حصہ زیادہ ہوتا ہے لیکن زبان کے ساتھ وہ خود بھی بہت متحرک رہتی ہیں اس لئے ڈرائیونگ کے دوران  ہر تھوڑی دیر بعد مجھے کوئ نصیحت کرنی پڑتی ہے۔  مثلاً سیٹ سے ٹیک لگا کر بیٹھو، چہرہ آگے کی طرف رکھو، گاڑی سے ہاتھ باہر بالکل نہیں نکالنا، پیچھے والی سیٹ پہ جانے کی کوشش نہ کرو، پیچھے سے آگے آنے کی حماقت نہیں کرنا، چلتی گاڑی میں پانی خود سے نہیں پینا وغیرہ وغیرہ۔
ابھی تین چار دن پہلے جب میں نے ایک موٹر سائیکل والے کو اپنے برابر سے مسکراتے ہوئے نکلتے دیکھا تو  روڈ سے نظر ہٹا کر ان پہ ڈالی، وہ کھلی کھڑکی سے ہاتھ باہر نکالے پاس سے گذرنے والوں سے جذبہ ء خیر سگالی کا مظاہرہ کر رہی تھِں۔ میں  بالکل اصل والے غصے میں چنگھاڑی۔ مشعل کتنی دفعہ منع کیا ہے چلتی گاڑی میں سے ہاتھ باہر نہیں نکالا کرو، بالکل یاد نہیں رکھتیں تم۔ انہوں نے میرے چہرے کے تائثرات دیکھے اور پھر سیٹ پہ بیٹھ گئیں۔ کچھ منٹ خاموشی رہی۔ میں نے کن انکھیوں سے دیکھا وہ دونوں ہاتھ گود میںرکھے ، منہ پھلائے ڈیش بورڈ کو تک رہی تھیں۔ اس وقت میں نے انکے حواسوں کو مہمیز کرنے والا جملہ بولا۔ ارے یہ کیا؟ فوراً ہی آواز آئ کیا ہوا ماما؟ یہ بس پہ اتنے سارے لوگ چڑھے بیٹھے ہیں۔ کراچی میں یہ منظر روز کا منظر ہے۔ لیکن میں نے مشعل کی توجہ  اس طرف کرائ۔ محض گاڑی کے ماحول کے تناءو میں کمی کے لئے۔
کتنے بے وقوف لوگ ہیں چھت پہ بیٹھے ہیں، کتنا خطرناک ہے یہ گر بھی سکتے ہیں۔ میں نے یہ سارے ڈائیلاگز بولے کہ مشعل کے پسندیدہ ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا یہ تو بے وقوف لوگ ہیں ایسا تو نہیں کرنا چاہئیے۔ ہم تو اپنی گاڑی کے اندر بیٹھے ہیں۔ ہے ناں ماما۔ اگریہ گر جائیں تو چوٹ لگ سکتی ہے پھر ڈاکٹر کے پاس جانا پڑے گا۔ وہاں ڈاکٹر انجکشن لگائے گا پھر روئیں گے کہ تکلیف ہو رہی ہے۔ مشعل نے اپنی آپ بیتی کو شامل کر کے ایک پورا ڈرامہ کھڑاکر لیا۔ اسکول پہنچنے تک بے وقوف لوگوں، ہسپتال اور ڈاکٹر کے تذکرے میں ہم الجھے رہے۔ اسکے بعد سے وہ روڈ پہ ایسی گاڑیوں کو نظر میں رکھتیں کہ پھرلوگوں کو بے وقوف کہنے کا موقع ملے گا۔
 آج صبح بھی جب ہم ایک چورنگی سے مڑے تو سامنے ایک رکشہ جا رہا تھا۔ میں نے تو دھیان نہیں دیا کہ روڈ کہ باقی پیرامیٹرز کو دھیان میں رکھنا تھا۔ لیکن مشعل کی آواز آئ۔ کتنا بے وقوف بچہ ہے رکشے کے اوپر بیٹھا ہے ایسا تو نہیں کرنا چاہئیے۔ یہ گر بھی سکتا ہے، اسے چوٹ بھی لگ سکتی کتنا خنّاک ہے۔ ماما ہم تو ایسا نہیں کرتے ناں۔ میں نے دیکھا کہ رکشے کی چھت پہ ایک گیارہ بارہ سال کا بچہ جیسے تخت طاءوس پہ بیٹھا ہوا تھا۔  زیر لب مسکراہٹ سے کہا ہمم، ہم ایسا نہیں کرتے۔ پھر سوچا ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں ہم اسکے مقابلے میں بہتر سہولیات زندگی رکھتے ہیں۔  لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی سوچ رہی تھی کہ جو میری بچی کو پتہ ہے  یہ  پورا سچ نہیں ہے۔ اور مشعل کو اس پورے سچ کو جاننے میں وقت لگے گا۔ پھر وہ سامنے دیکھتے دیکھتے،  میری طرف مڑی۔ اور کہنے لگی، ماما لگتا ہے رکشے کے اندر جگہ نہیں ہوگی۔ میں نے کچھ حیرانی، کچھ مادرانہ فخر اور خوشی سے اپنی بیٹی کو دیکھا۔ یہ وہ خصوصیت ہے جومیں اس میں چاہتی ہوں۔ وجوہات پہ غور کرنا، جو نظر نہیں آرہا، اسکے بارے میں بہتر اندازہ لگانا اور پھر نتیجہ نکالنا۔

14 comments:

  1. اچھی تحریر ہے، بچوں میں تجزیہ کرنے اور اُس سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت واقعی بہت اہم ہے جو اُنہیں معاملات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔

    ReplyDelete
  2. مصیبت بنا مدد بھگتنی پڑے تو سروائیول آف فٹسٹ کی سمجھ بھی آجاتی اور اس تھیوری کے استعمال میں سہولت بھی ہو جایا کرتی ہے جی ۔ مدد کے بہانے مطلب نکال لینا تو ریئل پرفارمنس ان ریئل ٹائم ہوا کرتا ہے ۔

    ReplyDelete
  3. آجکل کے بچے بڑے ہی تیز ہیں۔۔۔ میرے بھتیجے کو اسکے ابا اکثر بے وقوف کا پتر کہتے ہیں۔۔۔ ایک دن میں نے کسی وجہ سے کہا کہ سمیع میرا پتر نہیں ہے؟ کہتا ہے نہیں میں آپکا پتر نہیں ہوں۔۔۔ میں بے وقوف کا پتر ہوں۔۔۔ اندازہ لگا لیں۔۔۔

    ReplyDelete
  4. مطلب کہ سپرگرل نے تین چار سال میں وہ قوت تجزیہ حاصل کرلی جو بہت سے لوگ ساری عمر نہیں حاصل کرپاتے۔بلکہ تجزیہ اور تنائج تو بڑی دور کی بات ہے۔زومبی تو بنیادی قوت مشاہدہ سے عاری ہوتے ہیں۔لہذا آج کے لیکچر کا سبق ہے


    ذہنی بلوغت عمر پر راست متناسب نہیں۔


    چاکلیٹ اور بریانی فوراً ٹورنٹو کینیڈا ارسال کردی جائے۔

    ReplyDelete
  5. عثمان، میرا خیال ہے کہ چاکلیٹ کینیڈا سے آنی چاہئیے اور بریانی پاکستان سے جانی چاہئیے۔
    اب آپ اپنا بلاگ کب لکھ رہے ہیں۔
    محمد احمد شکریہ آپکا۔
    جاہل اور سنکی،یہ ریئل پرفارمنس ان ریئل ٹائم میں ہمیشہ ٹائم کی غلطی ہوجاتی ہے۔ اس کا کیا کریں جی۔
    نعیم اکرم ملک صاحب،
    :)

    ReplyDelete
  6. ذہین اماں ابا کی ذہین بیٹی کو ایسا ہی ہونا چاہیئے!!!
    یہ مسکا نہیں حقیقت ہے!
    :)
    پھر جہاں اسے ذہن استعمال کرنے کا بھرپور موقع بھی مل رہا ہو توپھر تو یہ سونے پر سہاگا والی بات ہوگئی نا

    ReplyDelete
  7. سیکھنے کا عمل شروع ہی سوال سے ھوتا ھے جو سوال نہیں کرتا وہ کبھی بھی نہیں سیکھ سکتا وہ صرف اندھی تقلید ہی کرسکتا ھے، ساری دنیا میں بچوں کو سوال کرنا سکھایا جاتا ھے جب کے ہمارے ہاں بچہ سوال کرے تو کہتے ہیں کے بدتمیز ھے بجائے بڑوں کا حکم ماننے کے سوال کرتا ھے۔

    ReplyDelete
  8. پرائیاوریٹیز کو ری ایویلئوئیٹ کریں اور ڈیڈ لائنز کو میٹ کرنے کی کوشش کیا کریں ۔

    ReplyDelete
  9. میونیسوٹری سٹیم سکول میں واقعی بچےکےحفاظےکوایک مہمیزملتی ہے۔اوربچہ وہی کامیابی حاصل کرتاہےجوکہ سوالات کرے۔اوراپنےذہن کوہروقت استعمال کرے۔شرارتی بھی ہوناچاہیےکیونکہ یہ بھی بچےکی تربیت میں ایک اہم رول اداکرتیں ہیں۔
    اللہ تعالی مشعل کی زندگی درازکرےاورزندگی کےہرامتحان میں کامیابی اس کےمقدرچومے۔ آمین ثم آمین

    ReplyDelete
  10. کاش ہمارے ملک میں زیادہ تر ماں باپ اس بات کا احساس کریں کہ ان کے بچے صحیح طرح سوچ سکیں۔ سوال کرسکیں اور اپنی رائے مرتب کرسکیں اور بعد ازاں اس کا مناسب انداز میں اظہار کرسکیں۔ لیکن اگر آپ عام ماں باپ کی تربیت کا انداز اور ہمارا تعلیمی نظام دیکھیں تو آئندہ نسلوں کے لئے حالات کچھ زیادہ حوصلہ افزا نظر نہیں آتے۔

    ReplyDelete
  11. عنیقہ مجھے مشعل کی ٹھیک ٹھیک عمر کا تو نہیں پتہ۔۔۔لیکن پتہ نہیں شاید آج کل کے بچے ہی کچھ اور طرح کے ہیں۔۔۔میری بیٹی نورالعین اس سال دسمبر میں دو سال کی ہوجائے گی۔۔۔نور نےماشاءاللہ مکمل طور پر بولنا سیکھ لیا ہے۔۔۔وہ میرا ہر ہر لفظ چاہے جتنا بھی مشکل ہو اسے نقل ضرورکرتی ہے۔۔۔اس کو بسم اللہ،پہلا کلمہ۔۔۔ون ٹو تھری اینڈ فور تک کاؤنٹنگ، مونٹیسوری لیول کے کچھ بنیادی سوالات یاد ہوچکے ہیں۔۔۔میری ماما اور بابا تو اسے حیرت انگیز بچہ کہتے ہیں۔۔۔مجھے اس سلسلے میں آپ کی رائے چاہییے۔۔۔کیا میں اسے ڈھائی سال کی عمر میں Montessori بھیج دوں۔۔۔؟؟ آپ نے مجھے ایک بار کہا تھا کہ آپ بچوں کے متعلق کچھ پوسٹس لکھیں گی۔۔۔آپ نے اب تک لکھی کیوں نہیں۔ :|
    دوسری بات آپ کا مشعل کو ڈانٹنے کا طریقہ کیا ہے۔۔؟؟؟ مطلب کبھی جب اگر وہ بلا وجہ تنگ کریں یا ضد تو آپ کیا کرتی ہیں۔۔۔؟؟ آپ اگر میرے ان سوالات کو پوسٹ کی صورت اقتباس کرکے لکھ دیں تو مجھے زیادہ اچھا لگے گا کیونکہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ لکھتے لکھتے آپ کافی کچھ اور بھی شامل کردیں جس طرف میرا ابھی دھیان نہ ہو۔۔۔بہتتتتتتتتتتتتت شکریہ ان ایڈوانس :smile:

    ReplyDelete
  12. عنیقہ میں امن ایمان۔۔۔!

    ReplyDelete
  13. امن ایمان، مشعل اگلے مہینے کے اخیر میں چار سال کی ہو جائے گی۔ بھئ میں نے تو اسے ڈھائ سال کی عمر میں نہیں بھیجا تھا۔ بس مجھے لگا کہ اس عمر میں بچے اپنے والدین اور دیگر رشتے داروں کے گرد گھوم گھوم کر جو کچھ سیکھتے ہیں اسکول اسے آہستہ کر دے گا۔ اس لئے دن کا ایک بڑا حصہ تو اسکول میں نکل جائے گا۔ اور پھر وہاں سے آئیں گی تو بیٹری ڈاءون ہوگی۔
    لیکن یہ کہ میں نے یہ اندازہ کر لیا تھا کہ اس لیول پہ مونٹیسوری میں کیا کیا کروایا جاتا ہے۔ سو اس سال کے شروع میں جب میں انکو عوام کے بے حد اصرار پہ مونٹیسوری لے گئ تو اکثر نے مجھ سے یہ کہا کہ سوا دو سال کی عمر سے بچہ مونٹیسوری کے پہلے لیول پہ لیتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ اپ بچی کا ٹیسٹ لے لیجئے۔ مشعل نے انکا ٹیسٹ کلیئر کیا۔ جو کہ درآصل بچوں کے موٹر اسکل اور اعتماد چیک کرنے کے لئے ہوتا ہے۔
    اب پچھلے چھ مہینے میں اس نے رائٹینگ سیکھ لی ہے اردو اور انگریزی دونوں۔ انگریزی الفاظ کے ہجے کرنے لگی ہے۔ میرا ٹارگٹ اگلے تین مہینے میں اردو الفاظ کے ہجے کرنے لگے۔ جمع گھٹا سے واقف ہو جائے اور بچوں کی انگریزی کی
    چھوٹی موٹی کتابیں پڑھنے لگے۔
    میرا زیادہ زور چیزیں یاد کروانے پہ نہیں ہوتا۔ بلکہ اس پہ ہوتا ہے کہ وہ مختلف عوامل کے درمیان تعلق سمجھنے کی کوشش کرے۔ یاد تو بچوں کو چیزیں ہو ہی جاتی ہیں۔ لیکن سوال کرنا اور اسکا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرنا یہ ہنر پیدا کرنا پڑتا ہے۔
    آپ نے صحیح یاد دلایا میں کوشش کرتی ہوں کہ اگلے ایک آدھ ہفتے میں کم از کم بچوں کی ڈانٹ پہ کچھ ضرور لکھوں۔

    ReplyDelete
  14. ماشاءاللہ مشعل کی ذہانت کو مزید نکھارنے میں آپ کا کمال ہے۔۔۔عنیقہ میں بھی آپ جیسی ماما بننا چاہتی ہوں۔۔۔آپ نے مشعل کو مونٹیسوری لیول کی ابتدا میں جو گھر سے سیکھایا تھا پہلے تو وہ سب پلیزززززز اک پوسٹ میں لکھ دیں۔۔۔آپ کے بتانے کا طریقہ کیا تھا اور پھر پتہ کیسے چلتا تھا کہ مشعل پِک کررہی ہے۔۔۔عنیقہ آپ اگر چاہیں تو مجھے ای میل میں لکھ دیں یا پوسٹ۔۔۔۔جب بھی آپ کے پاس وقت ہو۔۔۔۔اور آپ کا بہتتتتتتتتتت شکریہ۔
    اور ہاں عنیقہ آپ نے سارے بچوں کی ڈانٹ پر لکھنا ہے تو وہ آپ ضرور لکھیں لیکن مجھے ابھی صرف اور صرف آپ کے ڈانٹنے کا طریقہ جاننا ہے کہ آپ مشعل کو کس طرح ہینڈل کرتی ہیں۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ