Saturday, October 30, 2010

گا میرے منوا

یہ نئ نسل اس انداز سے نکلے سر بزم
کہ موءرخ سے گنہگار نہ ہونے پائے

لیکن تاریخ کی کلاس لینے کے بعد مصطفے  زیدی نے کبھی سوچا کہ  افتادگی ء زمانہ سے چکرائی ہوئی نسل کو قابو میں رکھنے کے لئے کیا کرنا چاہئیے۔ ایک ذہن میں آنے والے خیال کو  تو اس ویڈیو میں ددیکھ سکتے ہیں۔


جب چکرایا ہوا سر اپنے ماحول میں واپس پہنچتا ہے تو اپنا حال دیکھ کر اسے حال آجاتا ہے۔ کچھ لوگ اسکے لئے روحانی علاج تجویز کرتے ہیں اور کچھ کا کہنا ہے کہ چونکہ موسیقی روح کی غذا ہے اس لئے بہترین روحانی علاج گانا ہے۔ دانا کہتے ہیں کہ گائیے ، رونا اور گانا کسے نہیں آتا۔ لیکن ایسی سنی سنائ باتوں میں مت آجائیے گا کہ ایسا بھی ہوتا ہے۔


گانا جنوبی ایشیا کی ثقافت کا حصہ رہا ہے اور ایک قوم کی مذہبی عبادات کا قصہ بھی۔ یہاں کی سنگیت کی تاریخ اتنی شاندار رہی ہے کہ مائیکل جیکسن نے بھی اپنی فنی مہارت کو اس کے ساتھ مدغم کرنے کا مزہ لیا۔


یقین آیا، یہ مائیکل جیکسن ہے۔ 
ہمم لیکن پھر تاریخ۔ تاریخ ایک چلمن کی طرح راستے میں کیوں کھڑی ہو جاتی ہے۔ آئیے تاریخ اور چلمن کے درمیان تعلق نکالنے کی کوشش کرتے ہیں



  اس نتیجے کو سنگیت سے ضرب دیں۔  اگر کوئ تعلق نہ نکل پائے تو اس تحریر کو دوبارہ سے پڑھیں اور مکمل تجزئیے کے لئے ویڈیوز کو دوبارہ دیکھنا مت بھول جائیے گا۔ تعلق نکل آنے کی صورت میں  بے شمار فوائد ہیں۔ فوری طور پہ لاحول پڑھنے کا ایک صحیح موقع ملے گا۔  مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگی،  آپ،  ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو والی صورت سے باہر نکل آئیں گے۔ معاشی حالات بہتر بنانے کے لئے مالشئیے کا کاروبار برا نہیں عالمی کساد بازاری میں اس قسم کے پیشوں سے مستقل ذریعہ ء روزگار رہنے کا امکان رہتا ہے۔
چلیں پھر گانا شروع کریں۔ 
ایک
دو
تین
گا میرے منوا گاتا جا رے
   
 

14 comments:

  1. This comment has been removed by a blog administrator.

    ReplyDelete
  2. یہ پہلا قدم ہے؟ بابا فوکے کی پیشین گوئی کو عملی روپ دینے کی راہ ہم وار کرنے کے لیے؟ :-)

    ReplyDelete
  3. پرانے گانے؟
    نئیں جی نئیں۔

    ReplyDelete
  4. یه مائیکل جیکس کے سٹائل کا ڈانس
    ہند کے موسیقی کے استاد لوگ کہا کرتے هیں که هم لوگ جو فن جانتے هیں وھ مغربی موسیقار نهیں کر سکتے لیکن
    جو وھ کرتے هیں
    وھ ہمارے لیے اسان هے
    میں بھی اس بات کو مانتا هوں
    رنگیلے کی اواز میں گانا
    گا میرے منوا مجھے بھی اچھا لگتا هے
    پکے راگوں میں میں دادرا سنا کرتا تھا لیکن
    پھر
    وھ
    خواب خیال کی کھیتیاں سب زمین کے شور سے جل گئیں
    که
    اپنے گھر کی غریبی دور کرنے کے چکر میں خجل هو کے رھ گئے هیں

    ReplyDelete
  5. ٹھوکو صاحب -آپ نے کافی ثواب کمالیا ہے ۔ ثواب ایسے ہی تو کمایا جاتا ہے ۔ اس تبصرہ کے بعد جنت آپ کے اور قریب آگئی ہے ۔ آپ نے جس طرح کی زبان استعمال کی ہے ،اس سے صاف ظاہر ہوگیا ہے کہ آپ ایک شریف انسان ہیں ،آپ نے اپنے لئے جو نام چُنا ہے وہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ اعلیٰ کردار ے مالک ہیں۔

    ReplyDelete
  6. تھوک کر چاٹنے والے، شریفوں کو اسی طرح اپنی ذہنی غلاظت کے مطابق مخاطب کرتے ہیں،جس سے شریفوں کو رتی فرق نہیں پڑتا مگر انکا اپنا اعمال نامہ ضرور دن بدن سیاہ ہوتا جاتا ہے!!!!!

    ReplyDelete
  7. اگر آپ ذھین اور صحت مند بچہ چاہتے ہیں تو ،،مناسب غذا ،صحت مند ماحول کے ساتھ حاملہ کو میوزک بھی ضرور سنانا ہوگا یہ میں نہیں بلکہ جدید سائینس کہہ رہی ہے ۔ جو حال ہی میں وجود میں آئی ہے کہ جس کا نام (جینینی بنیادیں) ہے -اب علما کو فتویٰ دینا ہے کہ آیا جدید سائینس سے منہ موڑنا ہے ،یا اپناناہے ۔لیکن میرا تجربہ ہے کہ پہلے انکار کرتے ہیں پھر اپنا لیتے ہیں ۔ بہت شکریہ

    ReplyDelete
  8. عبداللہ اور گمنام، میری ہی غلطی ہے ۔ اسپہم مہں ڈالنے کے بجائے پبلش کا بٹن دبا دیا۔ جلدی می دیکھا بھی نہیں۔

    عثمان، تو کچھ نیا چاہئیے۔ یہ لیجئیے حاضر ہے۔

    http://www.youtube.com/watch?v=3Ko-YCsuME0
    :)

    ReplyDelete
  9. عمار ابن ضیاء با با فوکے کا تو معلوم نہیں۔ نظام پضم بہتر ہوا یا نہیں۔
    :)
    ایم ڈی صاحب، آجکل آپریشن کے دوران میوزک کا اہتمام کرنے لگے ہیں۔ بالخصوص ایسے آپریشن جس میں لوکل انیستھیا دیا جاتا ہے۔ اور پاکستان میں بھی کچھ ڈاکٹرز اسے استعمال کرتے ہیں۔
    جہاں تک علماء کا تعلق ہے۔ میرا خیال ہے اس کیس میں مشکل ہے۔

    ReplyDelete
  10. عمار، یہ نظام ہضم کے متعلق لکھا ہے۔

    ReplyDelete
  11. پہلی خوراک سے بہ ہر حال واضح بہتری کا اندازہ کرنا مشکل ہے لیکن ساتھ ساتھ کچھ لوگوں کا نظامِ ہضم خراب ہوجانے کے امکانات بھی ردّ نہیں کیے جاسکتے۔ :P

    ReplyDelete
  12. میرے مطابق آپ کے بلاگ کی ٹیگ لائن میں تین غلطیاں ہیں۔

    صحیح فقرہ کچھ یوں ہونا چاہیے

    تخیل کے پر ہوتے ہیں اور کوئی اس کی اڑان نہیں روک سکتا

    کوئ ، کو اور ختمہ غلط ہیں۔

    ReplyDelete
  13. اور اڑان کی بجائے لفظ پرواز ذیادہ مناسب رہے گا یہاں۔
    میرے خیال سے اب آپ کو ہونہار شاگرد کی عظیم صلاحیتوں کا معترف ہوجانا چاہیے۔

    ReplyDelete
  14. عثمان، لفظ پرواز مجھے خاصہ ٹیکنیکل لفظ لگتا ہے، جذبات سے عارء، جیسے آپ اعلان سنتے ہیں کہ اب آپ کا جہاز پی کے سازیرو پانچ پرواز کے لئے تیار ہے۔ جبکہ اڑان میں ایک رومانویت ہے۔ چڑے نے ایک اڑان لی اور دوبارہ اسی شاخ پہ آ بیٹھا۔
    آپکے ایک خیال سے متفق ہوں۔ 'کو' نہیں ہونا چاہئیے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ