Saturday, November 13, 2010

بچوں کی ابتدائ تعلیم

کراچی میں سی آئ ڈی کی بلڈنگ پہ شدید دھماکہ ہوا۔ پوری عمارت تباہ، پندرہ سے زائد لوگ ہلاک۔ سوسے زائد زخمیوں کی بڑی تعداد سر پہ چوٹ کا شکار۔ ایک کلومیٹر کے علاقے میں دو سو سے زیادہ گھر تباہ۔  بس اس سے آگے میں اس پہ کچھ نہیں لکھنا چاہتی۔ البتہ ان لوگوں میں سے ہوں جو سوچتے ہیں کہ اس قتل و غارتگری، جنگ و جدل کو کیا ہمارے بچوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ کون ان دہشت گردوں کے ہاتھوں کو روکے گا اورکون انکے منجمد دماغوں کو زندگی کی قدر کرنے کی تحریک دے گا۔
-
-
-
-
میری ایک تبصرہ نگارماں ہیں اور ہر ماں کی طرح چاہتی ہیں کہ وہ اپنی بچی کی زندگی میں وہ سب آسانیاں دیں جو وہ دے سکتی ہیں۔ بچوں کے بارے میں سب سے پہلے تعلیم کا سوال اٹھتا ہے۔ 
 ذمہ دار والدین فکر مند رہتے ہیں کہ وہ اپنے بچے کی تعلیم کن بنیادوں پہ استوار کریں۔ کراچی میں  بعض اسکولوں میں بچوں کی پیدائیش کے فوراً بعد رجسٹریشن کرانا ضروری ہوتی اور بعض بچے سوا سال کی عمر میں  اسکول میں داخل کرا دئیے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ والدین کی اکثریت نہیں جانتی کہ یہ اسکول نہیں بلکہ پلے اسکول ہوتے ہیں۔ ان پلے اسکولوں میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ماں باپ اپنے بچوں کو گھروں میں کرا سکتے ہیں۔ کیونکہ اس عمر میں بچوں کو کھیل ہی کھیل میں اپنے ماحول سے آگہی دی جاتی ہے اور زندگی کے ابتدائ ادب آداب سکھائے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں ماءووں کی اکثریت چونکہ گھروں میں رہتی ہے اور انکے لئے اسکا وقت نکالنا مشکل نہیں بلکہ یہ انکی پہلی ترجیح ہونی چاہئیے۔ لیکن بد قسمتی سے ہماری ماءووں کی اکثریت یا تو خود ان پڑھ ہوتی ہے، وہ خود ہی اپنے ماحول سے آگاہ نہیں ہوتی تو وہ اس سلسلے میں چاہنے کے باوجود کچھ کرنے سے معذور ہوتی ہے۔
وہ مائیں جو اتنی پڑھی لکھی ہیں کہ کمپیوٹر استعمال کر سکیں  اور انکے گھروں میں کمپیوٹر موجود بھی ہے انہیں اپنے آپکو خوش قسمت سمجھتے ہوئے اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہئیے۔ ٹیکنالوجی کے صحیح استعمال سے آپ اپنے بچے کو اپنے گھر کے اندر اس سارے طریقے سے واقف کرا سکتے ہیں جو کہ والدین بہت زیادہ فیسوں کی ادائیگی اور دن رات کے تناءو کے بعد حاصل کرتے ہیں۔ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے اور ہم اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے اپنے بچوں کو وہ تمام علم دے سکتے ہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں دیا جاتا ہے۔ یوں ٹیکنالوجی نے تمام انسانوں کو برابر کی سطح پہ لا کھڑا کیا ہے۔
بچوں کی پہلی انسپیریشن انکے ماں باپ ہوتے ہیں۔ اگر گھر میں والدین کتابوں میں دلچسپی لیتے ہیں تو بچے بھی دلچسپی لینے لگتے ہیں انہیں کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔  اس لئے سب سے پہلے خود پڑھنے کی عادت ڈالنہ چاہئیے۔
بچوں ک تربیت میں ایک چیز کا خیال ضروررکھنا چاہئیے کہ جب بھی آپکا بچہ کوئ نئ چیز سیکھتا ہے چاہے وہ کتنی معمولی کیوں نہ ہو اسکی حوصلہ افزائ ضرور کریں۔ جب وہ آپکی ہدایات پہ عمل کرتا ہے اسے ڈھیر سارا پیار کریں اور خوب ساری تعریف۔ والدینکو بچوں کے سامنے لڑائ جھگڑے سے گریز کرنا چاہئیے۔ تعریف، محبت اور تحفظ کا احساس بچوں کے سیکھنے کے عمل کو مہمیز کرتے ہیں۔ ہر بچہ فطری طور پہ اپنے والدین کو خوش دیکھنا چاہتا ہے۔ اور ذرا سی تربیت سے وہ ہر کام آپکی مرضی کے مطابق کرنے لگتا ہے۔ سو تعریف اور محبت سب سے بڑی رشوت ہے۔
میں نے اپنی بچی کی ابتدائ تعلیمی سرگرمیوں کے لئے نیٹ گردی سے بڑا فائدہ اٹھایا اور آج بھی اٹھا رہی ہوں۔ 
بچوں کے سامنے چیزیں دوہراتے رہنے سے وہ اسے یاد کر لیتے ہیں۔ پھر انہیں رٹوانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کمپیوٹر پہ چیزوں کو دوہرانا آسان ہوتا ہے۔  بچوں کو چیزیں یاد کروانے کے بجائے انکے سامنے چیزیں دوہرائیں، ایک ہی ویڈیو بار باردکھائیں۔ مگر اس میں وقفہ رکھیں۔ ایکدن ایک چیز کروالی اور دوسرے دن دوسری۔ کتاب کو بار بار انکے سامنے رکھ کر پڑھیں۔ انہیں مارنے پیٹنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ لیکن اسکے لئے آپکے اندر ایک خوبی کا ہونا ضروری ہے اور وہ ہے صبر۔ 
میں نے اپنی بیٹی باقاعدہ تعلیم شروع کرنے کے لئے ڈیڑھ سال کی عمر میں اس لنک کا انتخاب کیا۔ اس سے پہلے وہ چھوٹے بچوں کے پزل کرتی تھی۔ یہ پزلز ابتدا میں تو مجھے  بیرون ملک سے آنے والے مہمانوں نے لا دئیے تھے۔  لیکن اب کراچی میں لکڑی کے یہ پزل بآسانی دستیاب ہیں۔ یہ مخلتف ساختیں کٹی ہوتی ہیں اور ان میں پلاسٹک کی میخ لگی ہوتی ہے جس سے بچے انہیں اٹھا کر دئیے ہوئے بورڈ پہ جما لیتے ہیں۔ لکڑی کے یہ پزل مختلف جانوروں سے لے کر انگریزی اور اردو کے حروف اور گنتی کے اعداد میں بھی مل جاتے ہیں۔ اعداد یا حروف کی باری تو بہت بعد میں آتی ہے پہلے بچوں کو بالکل سادہ سے پزل سے شروع کرائیں۔ جن کی بیرونی ساخت کم پیچیدہ ہو۔ جیسے جیسے وہ اسے کرنے میں مہارت حاصل کر لیں پیچیدہ پزل کروانا شروع کر دیں۔
ڈیڑھ سال کی عمر میں، مشعل نے بارنی شو دیکھنا شروع کیا۔ اور اسکی ایک ویڈیو سانگز ان دا پارک اسکی پسندیدہ ویڈیو تھی۔ یہ ویڈیوز کسی بھی اچھے ویڈیو سینٹر سے بآسانی دستیاب ہیں۔ کراچی میں رینبو سینٹر میں صرف پچاس روپے میں ایک ڈی وی ڈی مل جاتی ہے۔ ہمم، لیکن یہ پائیریٹڈ ہوتی ہیں۔
جب ہم سب گھر والوں کو بارنی کی موجود ساری ویڈیوز یاد ہو گئیں اور ہم اس قبل ہو گئے کہ اسکے گانوں کی دھن ترتیب دے سکیں اور اسکے گانے آئ لو یو پہ ہم ہرروز مشعل کے ساتھ دن میں چھ دفعہ پرفارم کرتے تو اس وقت ڈورا دی ایکسپلورر نے زندگی کی اس گتھی کو سلجھایا۔ بارنی نے جہاں مشعل کو انگلش زبان سے واقفیت دی بچوں کے ناز و انداز سکھائے وہاں ڈورا نے مسائل  اور انکے حل کی طرف مشعل کی توجہ مبذول کروائ۔ مجھے بھی یہ ویڈیوز خاصی پسند ہیں یہ نہ صرف بچوں کی دماغی صلاحیتوں کو مہمیز کرتی ہیں بلکہ انہیں کافی کچھ سیکھنے میں مدد کرتی ہیں۔ یہیں سے مشعل کی زندگی میں یہ جملہ داخل ہوا , آئ ڈِڈ اٹ۔ اسکے بعد مشعل نے کافی انگریزی اس سے سیکھی بلکہ اسپینش بھی۔ اسے اسپینش گنتی بھی دس تک یاد ہو گئ تھی۔ انکی پسندیدہ ڈورا سیوز مر میڈ کنگ ڈم بلا مبالغہ دو مہینے تک روزانہ دو دفعہ چلتی تھی۔ اور اسے دیکھنے کے دوران انکی کمنٹری بھی، اب یہ ہونے والا ہے۔ اس میں مشعل کا پسندیدہ سین ڈورا کا ایک مرمیڈ میں تبدیل ہونا تھا۔
لیکن اس دوران ہمارا باقاعدہ تعلیمی سلسلہ بھی جاری رہا۔ اینیمل زو سے ہم نے انگریزی کے بڑے حروف سیکھے۔ جبکہ مونٹیسوری میں پہلے چھوٹے حروف سکھائے جاتے ہیں یہ پتہ چلتے ہی میں نے چھوٹے حروف کی ویڈیو تلاش کی اور میں ایک اور مزے کی سائیٹ پہ پہنچی جسکا نام ہے سپر سمپل سونگز۔ یہاں پہ گنتی کے اعداد سکھانے  کے لئیے مدد ملی۔ اور یہیں سے دنوں کے نام سیکھے۔ یہاں بچوں کے لئے مزے کی انگلش نظمیں اور سرگرمیاں موجود ہیں۔  انگلش نظموں کے لئے مجھے ایک اور سائیٹ بے حد پسند ہے جو ہے کلّن کی سائیٹ۔
ہمم، لیکن مونٹیسوری کی جس چیز سے اکثر والدین بڑے مرعوب ہوتے ہیں اور انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اسے بچوں کو کسطرح سکھائیں۔ وہ ہیں انگریزی حروف کی آوازیں یعنی فونیٹک ساءونڈز۔ اسکے لئے بہت ساری سائیٹس موجود ہیں ابتداً جو سائیٹ مل وہ ایک ایسی خاتون کی تھی جو اشاروں کی زبان بھی اپنی بچی کو ساتھ ساتھ سکھا رہی تھیں۔ اس طرح مشعل نے بھی کچھ اشارے سیکھے۔ یوں آوازوں والا مرحلہ نہایت ہمواری سے طے ہوا۔ مونٹیسوری جانے والے بچوں کی ماءووں کو یقین نہیں آتا تھا کہ مشعل نے حروف کی آوازیں گھر پہ سیکھی ہیں۔   
رنگوں کی پہچان، مہینوں کے نام اور چھوٹے چھوٹے انگریزی سوال و جواب کے لئے ایک اور دلچسپ سائیٹ ہے نام ہے اسکا بزی بیورز۔ اسی طرح ایک اور دلچسپ سائیٹ ہے نام ہے اسکا، لیٹس اسٹارٹ اسمارٹ۔
اردو حروف کے لئے پریشانی ہوئ۔ جو ایک آدھ سائیٹ ملیں وہ اتنی دلچسپ نہ تھیں۔ اگرچہ کہ میں نے انہیں پھر بھی مشعل کو دکھایا۔ اسکے لئے ایک ویڈیو میں نے خود بھی بنائ جو اس لنک پہ موجود ہے۔
یہ تو تھی اس نیٹ گردی کی ایک مختصر داستان، جو کہ خاصی طویل ہے لیکن یہ پوسٹ اس سے زیادہ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔  آجکل ہم  تصویروں میں فرق معلوم کرنا، ،جگسا پزل اور بھول بھلیاں کر رہے ہیں۔ یہ نیٹ پہ بھی موجود ہیں۔ نیٹ پہ بچوں کے لئے ایکٹیویٹیز کا ایک خزانہ موجود ہے۔ بس اسے آپکا وقت اور دلچسپی چاہئیے۔
ان تمام چیزوں کے ساتھ میں نے جس چیز کا خیال رکھا وہ یہ کہ بچی کے سوالوں کے آسان مگر صحیح جوابات ہونے چاہئیں۔ جو کچھ بھی ہم اپنی زندگی میں کر رہے ہوتے ہیں اسے آسان الفاظ اور آسان خیال میں بتاتے رہیں۔
میں سوچتی ہوں کہ  سوائے اسکے کہ بچوں کو اسکول میں دوسرے بچوں کی سنگت ملتی ہے اور وہ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اگر آپ پڑھے لکھے والدین ہیں اور آپ کے پاس وقت ہے تو اس عمر میں بچوں کو اسکول بھیجنا بالکل ضروری نہیں۔  اپنی عمر کا یہ حصہ ہم میں سے بہت کم کو اور بہت ٹوٹا پھوٹا یاد ہوتا ہے۔ مگر اپنے بچوں کے ساتھ مونٹیسوری پڑھنا اسے سحر انگیز بنا دیتا ہے۔

یہ تحریر امن ایمان کی فرمائیش پہ لکھی گئ ہے۔ امن ایمان میرا خیال ہے کہ آپکے سوال کا جواب آپکو مل گیا ہوگا۔     

16 comments:

  1. خود پڑھے لکھے ہونے کے باوجود اور گھر میں انٹرنیٹ ہو تو بھی بہت ہی کم والدین بچے کے ساتھ اس قدر محنت کر نے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ اتنا وقت بچے کے لیے نکالنا ہی نامناسب سمجھتے ہیں اور د وسرا ان میں اس صبرکا شدید فقدان ہوتا ہے جس کا ہونا بچے کے ساتھ انٹریکشن کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔
    کچھ اس لیے اور کچھ اپنے سوشل سرکل میں اپ ٹو ڈیٹ رہنے کے لیے محض دیکھا دیکھی والدین بچوں پر خود محنت کرنے کی بجائے ان کو دوسروں ۔۔۔سکول، ٹیوشن، قاری صاب وغیرہ۔۔۔ کے حوالے کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔

    ReplyDelete
  2. يہ آپ نے بالکل درست لکھا ہے
    بچوں کی پہلی انسپیریشن انکے ماں باپ ہوتے ہیں

    اور اس پر عمل کرنے کيلئے والدين کو اپنے ہر عمل پر نقاد کی نظر اور مصلح کا کردار رکھنا ہوتا ہے جو کہ آسان بات نہيں ہے مگر ايسے والدين ہيں جو اس پر عمل کرتے ہيں خواہ وہ کمپيوٹر چلانا نہ جانتے ہوں اور ٹی وی بھی نہ ديکھتے ہوں ۔
    آج کا معاشرہ آزاد خيال ترقی پسند والدين کی لاپرواہی يا غلط تربيت کا خميازہ بگھت رہا ہے اور موردِ الزام خود کو نہيں دين کو ٹھہراتا ہے ۔ جس دن ہر شخص دوسروں پر اُنگلی اُٹھانے کی بجائے اپنے کيڑے چُننے شروع کر دے گا معاشرہ خود ہی صحتمند ہونے لگے گا مگر ايسا ہوتا نظر نہيں آتا

    ReplyDelete
  3. پلے سکول اتنا برا بھی نہیں ہے۔ اس کے کم از کم دو فائدے ضرور ہیں۔ ایک تو بچوں کو گھر سے باہر ایک مختلف ماحول میں بھی سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اور پھر یہ کہ وہ دوسرے بچوں کے ساتھ بھی کچھ وقت شئیر کرتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں گھر میں میسر نہیں آسکتیں۔
    ہاں البتہ یہ بات آپ کی درست ہے کہ والدین اپنے کم سن بچوں کو مکمل طور پر سکول کے حوالے کرکے ذمہ داریوں سے دستبردار نہ ہوجائیں۔ میرے خیال سے ہفتے میں دو تین دن پلے سکول کے لئے ٹھیک ہیں۔ باقی ذیادہ وقت والدین کے ساتھ سیکھنے میں ہی گذرنا چاہیے۔ کم از کم میں نے تو اپنے اردگرد یہی دیکھا ہے۔
    اور یہ شاگرد صاحب کی فرمائشیں کب پوری ہو رہی ہیں جی ؟

    ReplyDelete
  4. بچوں کی پرورش میں والدین کی خواری سے ذیادہ امپورٹنٹ انسرٹینیٹی ہوا کرتی ہے جسکا سامنا بچوں کو سکول اور گھر سے باہر کرنا پڑتا ہے ۔ سکول اور گھر کا ماحول جتنا بھی بہتر کریں میکاولین اپروچز کے استعمال کرنے والوں کا ہی فاعدہ ہوگا ۔ آپ خود آبزرو کر کے دیکھ لیں کہ نان میکاولین اپروچز کے فاعدے ہی بیاں کیئے جاتے ہیں اور نیگیٹیو ایفیکٹس ایون پازیٹیو ایکسپلائيٹیشن کیلئے بھی ڈاکومنٹ نہیں کیئے جاتے ۔ رہ گئی بات نیگیٹیو ایکسپلائيٹیشن کی تو وہ تو شروع ہی اپنے حصے کا کام دوسروں سے کم مزدوری میں کروا لینے سے ہوا کرتی ہے ۔ کسی بھی دور میں ایکسپلائيٹیشن سے بچنا ایکسپلائيٹیشن سیکھنے سے ہی پاسیبل ہوا کرتا ہے ۔ وہ کہتے نہیں کہ ہر بات گیم سے شروع ہوکر گیم پر ہی ختم ہوا کرتی ہے اور گیم میں تو اوفنس ہی بیسٹ ڈیفنس ہوا کرتا ہے ۔

    ReplyDelete
  5. آپ نے والدین کو اچھے لنکس فراہم کئے ہیں ۔ لیکن والدین کو پتہ مارناہوگا ،قرُبانی دینی ہوگی، اپنے ذہن کو بچہ کی ذہنی سطح کی لیول تک نیچے لانا ہوگا۔ سب سے بڑھکر صبر اور غصہ پر قابو پانا ہوگا ۔ یہ تو بُہت مشکل کام ہے !کل ارُدو بازار گیا تھا ،دشت سوس لے آیا25صفحے پڑھ ڈالے ہیں ۔ یہ تو اُسی موضوع پر ہے کہ جس پر میں ۔محدود کو لا محدود ۔ ۔ ۔ لکھ رہا ہوں ۔ اسی لئے مزہ آیا ۔بُہت شُکریہ

    ReplyDelete
  6. افتخار اجمل صاحب، سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستان کی آبادی کا چالیس فی صد حصہ پڑھا لکھا ہے اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنا نام لکھ سکتے ہیں۔ اگر ان سب لوگوں کو ہم واقعی پڑھا لکھا تصور کر لیں تب بھی ساٹھ فیصد آبادی ان پڑھ ہے۔ ان چالیس فی صف میں سے کتنے آزاد خیال اورترقی پسند ہیں یہ کوئ ایسی مشکل بات نہیں۔ صرف ایک پول کروالیں، کیا قہام پاکستان کا مقصد اسلامی شریعت کا نفاذ تھا یا مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ مملکت کا قیام۔ پھر اسکے نتائیج دیکھ کر اندازہ ہوگا کہ پاکستان میں آزاد خیال یا ترقی پسند والدین کی تعداد کتنی ہے۔
    ساٹھ فی صد جاہل آبادی، اور چالیس فی صد پڑھی لکھی آبادی میں سے بھی ایک بڑا حصہ اپنی عقل اور شعور کو استعمال کرنے سے عاری ایسی صورت میں سارا الزام محض آزاد خیال اور ترقی پسند والدین پہ ڈال دینا میرے ذاتی خیال میں تو نا انصافی ہے۔
    تعلیم اورتربیت کے فقدان کی دیگر بہت سی وجوہات ہیں جو فی الوقت ہمارا موضوع نہیں ہے۔
    عثمان ،آپکی فرمائیشیں بھی تو اتنی مشکل ہوتی ہیں۔ میں افلاطون ہوں آپ سقراط بن جائیے۔ میں کینیڈیئن ہوں آپ اسکیمو بن جائِیے۔
    :)
    کینیڈا کے بارے میں، میں نے سنا کہ کمیونٹی کی بنیاد پہ کچھ والددین گروپس بنا لیتے ہیں اور ہفتے دو تین دن انکے بچے ایک جگہ جمع ہو کر پلے اسکول قسم کی چیز کر لیتے ہیں ورنہ ترقی یافتہ ممالک میں پلے اسکول اور مونٹیسوری کافی مہنگا ہوتا ہے۔ ہر شخص افورڈ نہیں کر سکتا اور یوں بچوں کی تعلیم پانچ یا چھ سال کی عمر میں شروع ہوتی ہے۔
    کیا کینیڈا میں سوا سال اور ڈیڑھ سال کے بچے پلے اسکول جاتے ہیں؟ اکثریت کے نہیں جاتے۔
    ادھر امریکہ میں تو بعض اسٹیٹس میں انہوں نے والدین کو آزادی دی ہے کہ وہ چاہیں تو اپنے بچوں کو ہائیر اسکول لیول تک اسکول نہ بھیجیں۔ لیکن انہیں مقررہ اسکول سلیبس مکمل کروائین جسکے ٹیسٹ ہونگے اور یوں وہ اگلے لیول میں جائیں گے۔
    ایک خیال مجھے اور ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اسکول کا ڈسپلن بچوں کی فطرت کو ، قدرتی نہیں رہنے دیتا۔ ایک بچہ ادب میں یا زبان میں نبالکل دلچسپی نہیں رکھتا مگر اسے وہ پڑھنا پڑتا ہے۔ کیونکہ وہ اسکول ڈسپلین کا حصہ ہوتا ہے۔ یوں موجودہ ترقی کے دور میں بچوں کو کچھ زیادہ پابند کر دیا گیا ہے اور انکی فطری صلاحیتیں اس سے متائثر ہوتی ہیں۔ مگر اب آپ یہ سوال کریںگے کہ موجودہ نظام کو ہٹا کر پھر کون سا نظام لانا چاہئیے۔ تو اسکا جواب میرے پاس نہیں ہے۔
    ایم ڈی صاحب، آپ نے دشت سوس خرید لی بڑی اچھی بات ہے۔ اب اسے مکمل پڑھ کررائے دیجئیے گا۔
    جاہل اور سنکی، میں آپکی اس بات سے متفق ہوں کہ اس وقت انسانی رویوں کا جو نظام چل رہا ہے اس میں بہترین دفاع حملہ ہے۔ یا کم از کم مد مقابل کو پتہ ہونا چاہئیے کہ آپ حملے کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔، اور کچھ بعید نہیں کہ سر پھرا پن دکھا دیں۔
    احمد عرفان شفقت صاحب، دینی تعلیم کے لئے میں نے سوچا ہے کہ قاری صاحب کے بجائے میں خود دونگی۔ آپ نے بجا کہا کہ بعض والدین بچوں کی تعلیم کو بھی سوشل اسٹیٹس کا مسئلہ بنا دیتے ہیں۔ کیونکہ نمود نمائیش ہمارے مزاج کا حصہ ہے اس لئے اکثر لوگ اپنے بچو٘ں کی اسکول فیس بتانے میں خاصے مستعد ہوتے ہیں/

    ReplyDelete
  7. ہمارے یہاں بھی پروفیسر مکی، بارنی، ڈورا اور ایلمو وغیرہا نے ہی بچیوں کو ابتدائی تعلیم دی ہے۔ نور اب الحمدللہ پری کنڈرگارڈن میں جاتی ہیں۔ خدیجہ بھی گنتی وغیرہ اب انہی پروفیسروں سے سیکھ رہی ہیں اور پھر دونوں بہنیں سارا دن ان کی مشق کرتی رہتی ہیں۔

    ReplyDelete
  8. اہمیت کے لحاظ سے بہت اچھا موضوع ہے اور تکنیکی اعتبار سے نہایت عمدہ پوسٹ ہے. بچوں کی ذہنی صلاحیت کو ابھارنے میں ان ویڈیوز کا بڑا عمل داخل ہے . میں نے اپنی بیٹی کو جو ابھی پلے سکول یا پری سکول میں ہے کاؤنٹنگ میں بہت مشکل آرہی تھی. میں نے یو ٹیوب سے ایک کاؤنٹنگ والی کومک سٹائل ویڈیو ڈاؤن لوڈ کی اور بیٹی کو دکھایا ٢ سے ٣ دن میں اسنے صحیح کاؤنٹنگ سیکھ لی. اسی طرح الفا بیٹس بھی سیکھ لیے تیزی سے اور ساتھ ہی ساتھ رنگوں کی پہچان بھی .پچھلے دو مہینوں سے میں بچوں کو سکھانے والی سائٹس سرچ کر رہا ہوں . اگر آپ یو ٹیوب پر ڈھونڈیں گے تو آپکو بہت سارے لینکس مل جائیں گے.
    لیکن ان سب چیزوں میں ایک مشکل ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ بہتر تعلیم دینے کی خواھش میں بچے کو اپنی ثقافت ، زبان اور خاص طور پر دین سے دور کر دیتے ہیں. آپکے سلیبس میں ایک اچھا بچہ وہ ہوتا ہے جو صبح ٧ بجے اٹھہ کر منہ ہاتھہ دھوتا ہے اور دانت برش کرتا ہے نہ کہ وہ جو فجر میں اٹھتا ہے اور وضو کر کے فجر کی نماز پڑھتا ہے.
    پتہ نہیں ہم کالے بھورے انگریزوں کی آگے آنے والی نسل کیسی ہوگی . جو پیزا اور برگر کھاتی ہے سوفٹ ڈرنک پیتی ہے،سلینگ سے بھرپور انگریزی بولتی ہے. صحیح اردو بول نہیں سکتی ، دین کے بارے میں معلومات کا تو کیا ہی کہنا...

    ReplyDelete
  9. یہاں پبلک سکولوں میں چھوٹے بچوں کے لئے ہفتہ میں ایک دو دن کے لئے کلاسز کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر علاقے کی لائبریری میں بچوں کا ایک باقاعدہ سیکشن ہوتا ہے۔ جہاں مختلف پروگرام اور لرننگ سرکلز منعقد ہوتے ہیں۔ باقاعدہ سکول تو خیر پانچ سال کی عمر ہی میں شروع ہوتا ہے۔
    کچھ پرائیوٹ بورڈنگ اسکول بھی ہوتے ہیں۔ تاہم مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کہ ان کا مقصد کیا ہے سوائے اس کے کہ اگر ماں باپ کے پاس پیسہ ہے تو وہ مزید خرچ کریں۔ ورنہ سرکاری سکولوں کا معیار اچھا خاصا ہوتا ہے۔
    یہاں سکولوں میں ڈسپلن وغیرہ پر اتنا زور نہیں دیا جاتا۔ یہ عجیب و غریب چیز میں نے پاکستان ہی میں دیکھی ہے جہاں تعلیمی اداروں میں پورا زور ڈسپلن نافذ کرنے میں ہی صرف کیا جاتا ہے۔ اور ستم ضریفی دیکھئے کہ قوم میں پھر بھی ڈسپلن پیدا نہیں ہوتا۔ سکول تو ایک طرف اچھے کالج و یونیورسٹیز بھی اس بات پر اتراتے ہیں کہ ان کے ہاں ڈسپلن بہت ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں اسکا بہت پرچار کیا جاتا تھا۔ حالت یہ تھی کہ آپ ٹائی ڈھیلی نہیں کرسکتے تھے۔ غلط سیڑھیاں نہیں اتر سکتے تھے۔ تین دن کی غیر حاضری آپ کو کالج سے باہر کرسکتی تھی۔ یونیورسٹی نہ ہوگئی ، ملٹری اکیڈمی ہوگئی۔ شائد کچھ لوگوں کو یہ بات عجیب لگے لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں کی ناکامی میں اس بے جا ڈسپلن کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ تحقیق اور سوال کرنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ جبکہ یونیورسٹی ایسی جگہ ہے کہ ناصرف خیالات کی مکمل آزادی ہو بلکہ اٹھنے بیٹھنے میں بھی لوگوں چھوٹ ملنی چاہیے۔ تاکہ آزدی کا احساس ہردم برقرار رہے۔
    تو بات ہورہی تھی بچوں کے سکول کی۔ تو بچوں کو سکول میں اس طرح باقاعدہ مضامین نہیں پڑھائے جاتے جیسے روایتی سات آٹھ مضامین پاکستان میں پڑھائے جاتے ہیں۔ بلکہ بچوں کو ٹیم ورک سکھانا ، پروجیکٹ بنوانا اور پریزینٹیشن دینا سکھایا جاتا ہے۔ بچے بھاری بھرکم بستہ لے کر گھر نہیں آتے۔ نہ ہی کوئی اتنا ذیادہ ہوم ورک ملتا ہے۔ یہ بات عموما یہاں دیسی والدین کو بہت پریشان کرتی ہے کہ ان کی کھوپڑی میں وہی بات بیٹھی رہتی ہے کہ بچے کو ڈھیروں ڈھیر ہوم ورک ملے گا تو بات بنے گی۔
    ہائی سکول میں ماحول تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔ میں جب کینیڈا نیا آیا تھا تو فوری طور پر یونیورسٹی جوائن کرنے سے گھبرا رہا تھا۔ لہذا جز وقتی ملازمتوں کے ساتھ ساتھ دو سمیسٹر یہاں کالجیٹ میں گذارے۔ بارہویں جماعت کے طلبہ کے ساتھ۔ کچھ انگریزی بہتر کی۔ ماحول سے شناسائی حاصل کی۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد یونیورسٹی کا رخ کیا۔ اس دوران کافی کچھ سیکھا۔ مغربی سکولوں میں پڑھائی کے تجربے سے گذرنا ہوا۔ دو ماہ ایک کیتھولک سکول میں بھی گذارے۔ اس عرصہ میں۔۔۔
    لیکن یہ سب میں آپ کے بلاگ پر کیوں لکھوں جی؟
    شاگرد عزیز نے پاکستان کے سرکاری سکولوں کے کرخت طبعیت ماسڑوں سے ڈنڈے بھی کھائے۔
    حسین جمیل گوری استانیوں سے سٹار بھی لئے۔
    لہذا شاگرد صاحب یہ سب کچھ لکھیں گے اپنے بلاگ پر۔ اپنی آ بیتیوں کی صورت میں۔
    بلاگراعظم کی آپ بیتیاں اردو بلاگستان میں بہت مشہور ہیں۔
    لوگ اپنی پوسٹوں میں ان کا تذکرہ کرتے ہیں۔
    یہ کوئی مذاخ نئیں اے۔
    آہو!

    ReplyDelete
  10. سمجھ نہیں آرہا کے آپکی اس تحریر پر آپکی تعریف کروں یا آپ کے والدین کی۔

    ReplyDelete
  11. عثمان، اب سمجھے، تو یہ گوری استانیوں کا خمار ہے۔
    :)
    ڈسپلن پہ میرے پاس بھی ایک آپ بیتی ہے لیکن پوسٹ کی صورت میں۔ آخر ذہین استاد اپنے شاگردوں سے بہی سیکھتا ہے۔
    ڈاکٹر جواد احمد خان، میں یہ سب کارٹونز اپنی بیٹی کے ساتھ دیکھتی ہوں اور مجھے ان میں کبھی ایسی کوئ قباحت نہیں نظر آئ۔ یہ سارے پروگرام بالکل سیکولر ہیں اور ان میں کسی بھی مذہب کی ترویج نہیں ہوتی۔ باقی رہا دینی تربیت تو میرا خیال ہے کہ وہ بنیادی دینی سمجھ جسکا مذہب ہم سے مطالبہ کرتا ہے گھر سے شروع ہوتی ہے۔ گھر میں سب لوگ صبح سویرے اٹھیں گے تو بچوں کو بھی عادت ہو جائے گی۔ اگر آپ گھر میں اردو استعمال کرتے ہیں تو بچے لامحالہ اردو میں بات کریںگے۔ اسی طرح ثقافت کا ہے جو آپکے گھر کا ماحول ہے بچے پہ اسی کا اثر آتا ہے۔ اگر گحر میں سب ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں تو بحی وہی کرے گا۔ اگر اسکے والدین اپنے والدین سے بد تمیزی نہیں کرتے تو اس کے ذہن میں بھی کبھی اسکا خیال نہیں آئے گا۔
    دوسری طرف، دنیا اتنی چھوٹی ہو چکی ہے کہ یہ توقع رکھنا کہ ہمارے بچے کو ہمارے مذہب، ہماری ثقافت کے علاوہ کچھ پتہ نہ ہو ، بے کار ہے۔ بلکہ ایک طرح کی سادگی ہے۔ اس زمانے میں ہمیں اپنے بچوں کو اس طرح تیار کرنا چاہئیے کہ بیرونی دنیا انکے لئے یا وہ بیرونی دنیا کے لئے وہ ایک خلائ مخلوق بن کر نہ رہ جائیں۔ ہر دو کو ایک دوسرے کی آگہی ضروری ہے۔

    ReplyDelete
  12. ہاہاہا۔۔ہا۔۔ہاہا۔۔ہا۔۔۔

    سیانے کا کہنا تھا کہ دنیا کے تمام اساتذہ کا ایک مخصوص مزاج ہوتا ہے۔ اور اس مخصوص مزاج کے منفی اثرات سے بچنے ، مثبت اثرات سے مستفید ہونے اور اساتذہ بالخصوص استانیوں سے اچھے روابط رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ فی الفور ان کی شاگردی اختیار کرلی جائے۔ اور پھر تمام تائیدو اختلاف بحثیت شاگرد کیا جائے۔ ہمیشہ کامیاب رہوگے۔
    اور بے شک کونسی ایسی استانی ہیں کہ فدوی جنکا شاگرد عزیز نہیں رہا۔
    ویسے آپ بڑی مشکل استانی ہیں۔ یا پھر مجھے ہی دیسی استانیوں کا ذیادہ تجربہ نہیں۔ کوئی بات نہیں میں بھی ہونہار اور ذہین شاگرد ہوں۔ اور آخر ذہین شاگردوں سے سیکھنے والے اساتذہ ہی ذہین ہوتے ہیں۔
    :)
    اور میں بھی اپنے سارے کارڈز کیوں دیکھاؤں جی ؟
    باقی پھر کبھی کسی پوسٹ میں۔ فی الحال آپ کارٹونوں کو مشرف بااسلام کریں۔
    (:

    ReplyDelete
  13. حسب معمول میں نے صرف پہلی دو تین لائنیں پڑھیں ہیں اور میں کہہ سکتا ہوں کہ جیسا رویہ اختلافی بحث کے دوران آپ کا ہوتا ہے یا آپ کے بلاگ پر دنگل مچانے والوں بشمول آپ مجھے جنکا حامی و مددگار گردانتی ہیں
    جی ہاں ہمارے بچوں کو ہمارے ان کرتوتوں کی کچھ نہ کچھ سزا بھگتنی پڑے گی چاہے وہ سو فیصد ہم سے مختلف کیوں نہ ہو۔

    ReplyDelete
  14. بد تمیز، میرا خیال ہے کہ صرف میرا بلاگ ہی نہیں آپ نے باقی پڑھنے والی چیزوں کی بھی صرف دو یا تین لائینیں پڑھی ہیں۔ اس صورت میں اختلافی یا حمائیتی دونوں کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔
    اے کاش، آپ کچھ پڑھنے کے قائل ہو جائیں اور اپنے زعم سے باہر نکل کر دیکھیں کہ دنیا میں بہت ساری چیزیں سے آپ نالکل لطف اندوز نہیں ہو پائے۔
    عمان، نہیں اگر یہ تائید و اختلاف آپ اسکے بغیر بھی میرے ساتھ کرتے تو کامیاب رہتے۔ پوری پوری کتابیں پڑھنے کے بعد مجھے اس چیز کا اندازہ بہت اچھی طرج ہو جاتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔

    ReplyDelete
  15. عنیقہ،تایا ابو کے بیٹے کی اچانک وفات کی وجہ سے میں آنلائن نہیں آسکی۔۔۔ان کا گھر بھی ہمارے برابر میں ہے۔۔اس لیے دکھ اور مصروفیت بہت زیادہ ہے
    آپ کا بہت بہت بہت شکریہ آپ نے میری فرمائش پوری کردی۔۔۔۔آپ کی کئیر اور خلوص بہت اچھا لگا۔۔۔مجھے جیسے ہی ذہنی یکسوئی ملی تفصیلا اس پر جواب لکھوں گئ۔۔۔مجھے کافی سارے سوالات کا جواب مل گیا ہے۔
    آپ ورکنگ وومن ہیں۔۔۔ابھی مجھے آپ سے ٹائم مینجمینٹ سیکھنا ہے کہ آپ مشعل گھر اور کام کو ایک ساتھ کیسے مینج کرتی ہیں۔۔۔میں بس کچھ ریلکس ہوجاؤں۔ ایک بار پھر بہتتتت شکریہ۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ