Sunday, November 21, 2010

نو سے پانچ

میں اپنی ایک عزیزہ سے ملنے انکے گھر رات کو نو بجے پہنچی پتہ چلا کہ ابھی تک آفس سے واپسی نہیں ہوئ۔ وہ ایک سوفٹ ویئر انجینیئر ہیں اور ایک سوفٹ ویئر ہاءوس میں کام کرتی ہیں۔ رات کو دس بجے انکی واپسی ہوئ۔ لیکن آفس ٹائم ختم نہیں ہوا تھا کہ اب وہ گھر میں رات کو دیر تک بیٹھ کر کام کریں گی۔ وہ بتانے لگیں کہ اگر چار گھنٹے کی بھی نیند مل جائے تو عیاشی سمجھی جاتی ہےاور یہ انکا روز کا معمول ہے۔ اسکی وجہ سے صحت پہ جو اثرات ہیں وہ الگ ہیں۔ آپ تصور کر سکتی ہیں کہ جو شخص میرے ما تحت کام کرتا ہے وہ آفس چھ بجے چھوڑدیتا ہے اور اسکی تنخواہ مجھ سے بیس ہزار روپے زیادہ ہے۔ انہوں نے جھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔ در حقیت میرے ماتحت پانچ لڑکے کام کرتے ہیں۔اور وہ سب شام کو چھ بجے کے بعد نہ صرف کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے بلکہ کام کا معیار ایسا ہوتا ہے کہ مجھے ہی اسے بھگتنا پڑتا ہے۔ لوگ بڑے بڑے ادروں سے پڑھ کر آرہے ہیں بڑے مطالبات ہیں انکے مگر کام کے نام پہ ایک چھوٹے سے مسئلے سے نہیں نبٹ سکتے ایک پریزینٹیشن کا کہہ و جان نکل جاتی ہے انکی اور یہ سب میرے ہم عمر لوگ ہیں۔ میں ٹیم لیڈر ہوں اور نتیجے میں کام کا سارا لوڈ میرے اوپر پڑ جاتا ہے۔
 میری ایک اور دوست جو کہ کسی اور سوفٹ ویئر ہاءوس میں کام کرتی ہیں انکی کہانی بھی یہی کہ رات کو نو دس بجے گھر سے واپسی ہوتی اور صبح ساڑھے سات بجے تک گھر سے نکل جاتی ہیں۔ یہ بتاءو تمہاری اب شادی ہونے والی ہے تب یہ سب کیسے چلے گا۔ میں نے پوچھا۔ ایسے ہی چلتا ہے۔ جو شادی شدہ کولیگز ہیں وہ بھی تقریباً اسی وقت تک جا پاتی ہیں۔ 
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک کی جاب کا کوئ تصور نہیں رہا۔ سوائے سرکاری داروں کے تمام غیر سرکاری ادارے اپنے تنخواہ دار طبقے کا خون چوس لینا چاہتے ہیں۔ مقررہ وقت سے الگ رک کر زیادہ کام کرنے والوں کے لئے یعنی اوور ٹآئم کا کوئ تصور نہیں اور یوں اب زائد کام، زائد تنخواہ کا کوئ تصور نہیں رہا۔ ان کام کرنے والوں کے کوئ بنیادی حقوق نام کی چیز نہیں۔
حتی کہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگ جو معاشرے کی زبوں حالی کا رونا روتے نہیں تھکتے۔معاشرے کو کرپشن سے پاک کرنے کا عزم دوہراتے ہیں، نا انصافیوں کو دور کرنے کی باتیں کرتے ہیں  وہ خود بھی ان سوفٹ ویئر ہاءوسز کو چلا رہے ہیں مگر انکے یہاں کام کرنے والوں کے ایسے کسی حق کا خیال نہ کرنا انکی شخصی دوہریت کو ظاہر کرتا ہے جو ماشااللہ ہمارے معاشرے میں کثرت سے پائ  جاتی ہیں۔ چار لوگوں کے سامنے بیٹھ کر اخلاقی تقاریر کرنے میں کسے مزہ نہیں آتا۔ عملی طور پہ وہ انہی اخلاقی اصولوں کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں۔


خاص طور پہ جب وہ خواتین کو اتنے طویل وقت کے لئے روک رکھتے ہیں تو کیا انہیں خیال ہوتا ہے کہ یہ عورت ایک ماں بھی ہے، اسے اپنی گھریلو ذمہ داریاں بھی دیکھنا ہونگیں اور دیکھنا چاہئییں۔ گھر کسی معاشرے کی اکائ ہوتا ہے۔ اس اکائ کی ساخت کو محفوظ اور بہتر بنانے کے لئے ہمارے یہاں کیا ہو رہا ہے۔ جواب یہ ہے کہ کچھ نہیں۔ خواتین کو ملازمت میں ترجیح دی جاتی ہے اس لئے کہ وہ خاموشی سے گدھے گھوڑے کی طرح کام کرتی رہیں گی۔ ادھر خواتین کے لئے سب سے زیادہ اہمیت نوکری اور تنخواہ ہی کی نہیں ہوتی بلکہ ادارے میں اگر انہیں ماحول محفوظ لگے تو وہ جاب سوئچ کرنے سے گریز کرتی ہیں کہ اگلی جگہ خدا جانے کیسا ماحول ملے یوں وہ رسک لینے سے گھبراتی ہیں۔ دوسری طرف ہماری خواتین کو پیشہ ورانہ میدان میں داخل ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گذرا تو وہ اپنی حق تلفی کے سلسلے میں بلکہ کسی بھی سلسلے میں زبان کھولنے سے گھبراتی ہیں۔ یوں کام کا ایک غیر ضروری بوجھ اٹھاتی ہیں اور دب کر بھی رہتی ہیں۔ تیسری طرف جب سے عالمی مارکیٹ میں کساد بازاری کا رجحان پیدا ہوا ہے۔ آجر، اپنے اجیروں کی تعداد کو کم سے کم رکھتے ہوئے اتنا ہی کام کروانا چاہ رہے ہیں۔تاکہ انکا سرمایہ زیادہ خرچ نہ ہو اور منافع کی شرح برقرار رہے یوں انکی اس ڈریکولا والے انداز کے خلاف بولنا اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے۔
کیا ترقی یافتہ ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ مجھے آسٹریلیا میں کچھ وقت گذارنے کا موقع ملا اور یہ دیکھ کر حیرانی ہوئ کہ تقریباً تمام مارکیٹ سات بجے شام کو بند ہوجاتی ہے۔ آفس کے اوقات صبح نو سے پانچ۔ کبھی ہی ایسا موقع ہوتا ہے کہ دیر تک رکنا پڑے۔ ہفتے میں دو دن کی چھٹی۔ جس میں ایک خاندان کے تمام لوگ سیر و تفریح کا پروگرام بناتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے یہ سب کچھ کیوں۔ اس لئے کہ خاندان کو ایک ساتھ وقت گذارنے کا موقع ملے اور اس طرح معاشرے کی اکائ یعنی ایک خاندان مطمئن اور توازن سے بھر پور زندگی گذارے۔
میری وہی عزیزہ، ابھی چند مہینے پہلے  امیگریشن کے بعد کینیڈا چلی گئیں۔ ایک چیز سے خوش ہیں کہ  وہ شام کو چھ بجے اپنے گھر میں ہوتی ہیں، کھانا بناتی ہیں، ٹی وی دیکھتی ہیں۔ رات کا کھاناہم سب مل کر کھاتے ہیں۔ یہاں زندگی بہت ریلیکس ہے۔ ہر ہفتے کو ہم کہیں نہ کہیں گھومنے جاتے ہیں۔
حتی کہ تھائ لینڈ جیسے ملک میں جو کہ ترقی یافتہ ممالک مِں شامل نہیں اور شہروں میں شاید ہر عورت کام کرتی ہوگی۔ اس بات پہ توجہ دی جاتی ہے کہ خواتین اپنے آپکو آفس میں ہی نہ خرچ کر ڈالیں بلکہ اپنے گھر کے لئے بھی خود کو بچا کر رکھیں۔
ہمارے یہاں ایسا کوئ تصور نہیں۔ کوئ ایسی دستاویز جس میں کام کرنے کے زیادہ سے زیادہ اوقات بیان کئے گئے ہوں۔ کسی کو اس بات کی چنداں فکر نہیں کہ ملازمت پیشہ خواتین  کے مسائل کی طرف بھی نظر کرے۔ ظاہر ہے جہاں بات روٹی کے گرد ہی گھوم رہی ہو وہاں اس قسم کے مسائل میں کس کو دلچسپی ہو سکتی۔ اور خواتین کے مسائل کو تو کسی گنتی میں ہی نہیں رکھا جاتا، زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیا جائے گا کہ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ خواتین کام نہ کریں انہیں گھر کی ملکہ بن کر رہنا چاہئیے۔ یہ انکا کام نہیں۔ حالانکہ ملازمت پیشہ خواتین کا بڑا حصہ اپنے خاندان کی معاشی کمزوریوں کی بناء پہ کام کرنے پہ مجبور ہوتا ہے۔مگر یہ سب کہنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ جب روٹی نہیں خرید پاتے تو کیک خریدنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی۔ جب زراعت کا زمانہ تھا عورت گھر کی کھیتی باڑی میں اپنے حصے کا کام کرتی تھی اور برابر سے کرتی تھی۔ اب انڈسٹریئل زمانہ ہے اس میں بھی کسی کے لئے رعایت نہیں اور سب کو کام کرنا پڑتا ہے۔
کس کو فکر کہ ایک کام کرنے والے پہ کام کا کتنا بوجھ ڈالا جا سکتا ہے۔  ان  پریشان لوگوں کا کوئ پر سان حال نہیں اور نہ شاید کوئ اسکا احساس کرتا ہے۔  حکومتی عناصر اور ہمارے پالیسی ساز ذہن معاشرے کے استحکام کے لئے پالیسیاں بنانا کب شروع کریں گے۔جس طرح معاشرے میں اور ظلم اور زیادتیوں کو قبول کر کے بس زندہ رہنے کی رسم نبھانے کی عادت ڈال لی گئ ہے وہیں اس ظلم کے خلاف بھی کوئ آواز اٹھانے والا نہیں ۔

20 comments:

  1. میں تو آپ کا پہلا جملہ پڑھ کر ہی حیران ہوں کہ آپ کسی کے گھر رات نو بجے ملنے کے لئے پہنچی ؟ اتنی دیر سے ؟
    تو پھر باقی پوسٹ سمجھنا چنداں مشکل نہیں۔ مجھے چند ہفتوں پہلے کوئی بتا رہا تھا کہ پاکستان کے بڑے شہروں بشمول کراچی کے لوگ رات تین چار بجے تک جاگتے اور سڑکوں پر چہل قدمی کرتے نظر آتے ہیں۔ اب جب یہ حال ہو تو کاروباری ادارے بھی اسی معاشرے کے ہیں۔ ظاہر ہے وہ بھی بلا کسی نظام کے اپنے ملازمین کا خون نچوڑنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے۔ آفس کے اوقات کار جان کر لگتا ہے کہ پاکستان انیسویں صدی کے یورپی معاشرے سے گذر رہا ہے۔
    آسڑیلیا کے بارے میں آپ کا مشاہدہ درست ہے۔ ادھر شمالی امریکہ میں بھی اسی طرح ہے۔ جب ہفتہ وار دو چھٹیاں آتی ہیں تو رات کو رونق دیکھائی دے گی۔ ورنہ دوسرے دنوں میں رات آٹھ بجے کے بعد بس بڑی سڑکوں پر ہی ٹریفک دیکھائی دے گی۔ باقی شہر کے اکثریتی حصے میں ہو کا عالم ہوگا۔ جہاں تک ملازمت کے اوقات کار کا تعلق ہے تو قوانین بہت سخت ہیں۔ ملازم کا حق مارنا ممکن نہیں۔

    ReplyDelete
  2. لیکن ان تمام آسانیوں کے باوجود بھی وہاں بھی خاندان توٹ پھوٹ کا شکار ہے، کیوں؟
    بہرحال میں متفق ہوں۔

    ReplyDelete
  3. بجا فرمایا، مگر اس بات کا اضافہ کرتا چلوں کہ میں ایک سرکاری ملازم ہوں اور مجھے بھی بعض اوقات بنا اجرت کے طویل دورانیہ تک دفتری کام کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں کوئی ایسا نظام نہیں جس میں ملازمت پیشہ افراد بالخصوص خواتین اپنی فریاد لے کر جا سکیں۔ رہی بات آسٹریلیا یا دیگر ممالک کی تو یہ لوگ زندگی کو بھرپور انداز سے جیتے ہیں کام کے اوقات میں مکمل کام اور اسکے بعد دفتری کام ایک طرف رکھ کر اپنی ذاتی مصروفیات میں مگن ہو جاتے ہیں یوں ایک اطمینان اور سکون کا ماحول جنم لیتا ہے جو ہمارے یہاں مفقود ہے۔

    ReplyDelete
  4. عثمان، کراچی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کبھی نہیں سوتا۔ اس لئے اچھے حالات میں ہم بھی رات کو تین چار بجے شہر کے دوردراز علاقوں میں گھومنے نکل جاتے ہیں۔ میرے بچپن میں ہمارے کچھ رشتےدار رات کو دو تین بجے حاضری دیا کرتے تھے۔ تو یہ ایک معمول کی کارروائ ہے۔ اب اگر لوگ رات کو آفس سے واپس آرہے ہوں اور ہمیں ان سے ملنا بھی ضرور ہو تورات کو ہی جانا پڑے گا۔ اس میں حیرانی کی کیا بات ہے۔
    ذہن میں رکھیں کہ ہمارے یہاں ہفتہ واری تعطیل صرف ایک ہوتی ہے۔ کراچی میں زندگی پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں تیز رفتار اور ملٹی اوریئنٹڈ ہے۔
    اس شہر کی آبادی پونے دو کروڑ ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے۔ رات کو روڈز پہ اگر رات کی شفٹ میں کام کرنے والے لوگ نظر آتے ہیں تو رات ہی میں دودھ والے، سبزی والے، پھل والے منڈی سے خریداری کر کے لوٹتے ہیں۔ رات ہی میں شہر میں زیادہ تعداد میں ٹرکس اور ٹرالرز ملک کے باقی حصوں سے داخل ہوتے ہیں اوررات ہی میں پورٹ سے ملک کے باقی حصوں کی طرف سفر کرتے ہیں۔ ہمارا شہر کبھی نہیں سوتا۔
    لیکن ہر وہ جگہ جہاں لوگ پیسوں کے عیوض کام کرتے ہیں وہاں کے لئے قوانین ہونے چاہئیں اور انکا نفاذ بھی۔ عالم یہ نہیں ہونا چاہئیے کہ کما تو بہت لیا لیکن اس کمائ ہوئ دولت کو خرچ کرنے کے لئے وقت ننہیں ہے۔ اس لئیے کہ آجر اتنا وقت نہیں دیات کہ اسکے غلام کچھ مزہ زندگی کا بھی چکھ لیں۔ یہ چیز لوگوں کے روئیے اور مزاج پہ اثر انداز ہوتی ہے۔
    کاشف نصیر صاحب، جہاں تک آسٹریلیا کا تعلق ہے وہاں خاندانی حالت باقی مغربی ممالک سے بہتر ہے۔ تین سے زیادہ بچے ہونے کی صورت میں حکومت سپورٹ کرتی ہے۔ ادھر تھائ لینڈ میں مشترکہ خاندانی نظام ابھی تک موجود ہے کہ خاندان کے بزرگ ان بچوں کو سنبھال لیتے ہیں جنکی مائیں ملازمت کرتی ہیں۔
    آسٹریلیا کے حوالے سے ایک بات بتاتی چلوں کہ خاندان سے وہاں یہ مراد نہیں کہ دادا دادی، سارے چچا اور انکے خاندان ایک ہی چھت کے نیچے زندگی گذاریں۔ جیسا کہ ہمارے یہاں جوآئینٹ فیملی سسٹم میں ہوتا ہے۔ اس سے مراد وہ اکائ ہے جس میں ماں باپ اور بچے شامل ہوتے ہیں۔ اور یہ حالت باقی مغربی ممالک کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔ انکے یہاں طلاق کی شرح بھی نسبتا بہتر ہے۔ بعض مغربی ممالک کے لئے ہم سنتے ہیں کہ وہاں بچے نظر نہیں آتے۔ آسٹریلیا میں بچے آپکو ہر جگہ نظر آئیں گے اور انکو دانٹتی سمجھاتیں مائیں بھی۔

    ReplyDelete
  5. ہائیں۔۔
    حیرانی کی کیا بات ہے؟
    اوجی مہمان کا رات تین بجے دروازے پر دستک دینا حیرانی ہی نہیں پریشانی کی بھی بات ہے۔ تو جو لوگ رات تین بجے رشتہ داروں سے مل رہے ہیں یا اڑھائی بجے رات کھانے اور آؤٹنگ پر نکل رہے ہیں تو وہ صبح بروقت کام کاج کے لئے کیسے اٹھتے ہیں؟ میرے نزدیک یہ سب ایک مصروف نہیں بلکہ بے ہنگم شہر کی علامت ہے۔ خود آپ کی پوسٹ اس مسئلے کی نشاندہی کررہی ہے۔
    جہاں تک فکر معاش کے لئے رات کو اٹھنے کا تعلق ہے تو وہ اور بات ہے۔ ایسا ہر بڑے شہر میں ہوتا ہے۔ جہاں لوگ متعلقہ پیشوں سے وابستہ ہوں مثلا صنعت یا کچھ اقسام کی تجارت۔ تاہم میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا کے وہ بڑے شہر جو ناصرف اپنی بلکہ دنیا بھر کی معشیت ترتیب دیتے ہیں ان کے اکثریتی حصے رات کو سو جاتے ہیں۔ اور جو رات کو جاگتے ہیں وہ صبح بروقت سو جاتے ہیں۔ وجہ اس کی منظم مصروفیت ہے۔
    کراچی سوتا نہیں ہے۔ ہمم۔۔۔اسی لئے بیقرار ہے۔

    ReplyDelete
  6. عثمان، میں آسٹریلیا میں رہی تو اندازہ ہوا کہ کراچی در اصل کتنا بڑا ہے پورے آسٹریلیا کا رقبہ پاکستان کے مقابلے میں سات گنا زیادہ اور آبادی کراچی کی جتنی۔ جی ہاں اس شہر میں بے ہنگمیت ہے، چاہے وہ آبادی کا پھیلاءو ہو یا شہر کا پھیلاءو۔ اسکی بہتساری وجوہات ہیں جو سر دست ہمارا موضوع نہیں۔
    لیکن اس خاص مسئلے کا تعلق اس سے نہیں ہے۔ شہر میں مارکیٹس دن میں بارہ بجے کے بعد ہی کھلتی ہیں لیکن آفسز صبح نو بجے شروع ہو جاتے ہیں خاص طور پہ پرائیویٹ ادارے۔ تو یہ تو زیادتی ہے کہ ایک شخص صبح ساڑھے سات بجے یا آٹھ بجے اپنا گھر چھوڑے، واپس رات کو دس گیارہ بجے گھر پہنچے۔ پھر جلدی جلدی دو چار نوالے ڈالے اوردوبارہ کمپیوٹر کے آگے حاضر ہو جائیے۔ اور صبح چار بجے جا کر تین چار گھنٹوں کی نیند لے۔ اور اس سارے بیان میں قطعا کوئ مبالغہ آرائ نہیں ہے۔ لوگ بیمار ہیں مگر ڈاکٹر کے پاس جانے کا وقت نہیں ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ آجر اور اجیر کے درمیان کوئ اس قسم کا معاہدہ نہیں کہ کام کے اوقات کیا ہونگے۔ حتی کہ چھٹی کا جو ایک دن ملتا ہے اس میں بھی خلقت اپنے آفس میں ہوتی ہے۔ ایسا اس لئے ہو رہا ہے کہ ان پرائیویٹ فرمز پہ کوئ حکومتی دباءو نہیں کہ کہ آپکو اپنے ادارے میں کام کے یہ اوقات یہ رکھنے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف زیادہ تر سرکاری اداروں میں وقت کی پابندی کوئ چیز نہیں۔ بندہ آفس دو گھنٹے بھی دیر سے پہنچے جائے لیکن اٹھتا بالکل صحیح پانچ بجے ہی ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ حکومت نے ان پرائیویٹ اداروں کو چھوٹ دی ہوئ ہے۔

    ReplyDelete
  7. کراچی پورے ملک کو ستر پرسنٹ ریونیو دے رہا ھے یہ یہ سب سے بڑی دلیل ھے اس بات کی کے چاہے کراچی جاگے یا سوئے وہ اپنا کام کر رہا ھے پورے ملک کو ڈلیور کر رہا ھے بفضل اللہ۔ اور عنیقہ صاحبہ نے جس مسلے کی طرف اشارہ کیا ھے وہ سو فیصد درست ھے یہاں پرائیویٹ اداروں کے لئیے کوئی قانون وضع نہیں کیئے گئے ہیں، یہاں تک کے ابھی جو ہفتے کی چھٹی دی گئی تھی وہ بھی صرف گورنمنٹ یا پھر مالیاتی اداروں کے لئیے ہی تھی پرائیویٹ ادارے باقائیدگی سے کھل رہے تھے کیا یہ امتیازی سلوک نہیں ھےِ؟

    ReplyDelete
  8. واقعی یہ مسئلہ توبہت اہم ہےاورآپ نےبہت اچھےطریقےسےاس مسئلہ کوبیان کیاہے۔دراصل واقعی ہم لوگوں نےہرجگہ پراپنی اجارہ داری قائم کرلی ہےاوریہی وجہ ہےکہ عورتوں کےحقوق کی کوئی بات نہیں کرتاہےلیکن یہ معاملہ آہستہ آہستہ بہتری کی طرف گامزن ہے۔

    ReplyDelete
  9. دفاتر میں سب سے زیادہ ان لوگوں کا حال برا ہے جو کام کو اچھے طریقے سے کرنا جانتے ہیں۔ اوسط درجے کا کام کرنے والے اور غیر ذمہ دار افراد کو تو افسران یاد ہی نہیں کرتے، انہیں صرف ذمہ دار افراد یاد ہوتے ہیں اور پھر ان کی خیر نہیں ہوتی۔ پھر معاملہ چاہے دیر تک بیٹھنے تک جا کر ٹھیرے یا پھر رات کو گھر نہ جانے تک۔ ان کی خیر نہیں ہوتی۔

    ReplyDelete
  10. میں خود سافٹ ویئر ہائوس میں کام کرتا ہوں، اس لائن میں ایسے ہی ہوتا ہے۔ بہت کم جگہیں ایسی ہیں جہاں لوگ شام پانچ بجے چھٹی کرتے ہیں ورنہ تو سات آٹھ نو بج جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ اب اگر آپکی دوست ٹیم لیڈ ہوتے ہوئے اپنے ماتحتوں کو بٹھا نہیں سکتی یا ان سے معیاری کام نہیں لے سکتی تو یہ اسکی پیشہ ورانہ کمزوری ہے۔
    ویسے یہ صبح ساڑھے سات بجے والی بات ہضم نہیں ہوئی، میرے خیال میں آپ تھوڑا اوور ایگزیجیریٹ کر گئی ہیں۔ خواتین کو تنگ تو بلاشبہ کیا جاتا ہے، میری ایک کلاس میٹ ایک بڑے مشہور سافٹ ویئر ہائوس میں پروگرامر تھی۔ اس بیچاری کو بھی ایک مرتبہ دو مہینے تنخواہ ہی نہیں دی، کیونکہ انہیں پتہ تھا اس نے کونسا چھوڑ کے جانا ہے۔ جب دوسری مرتبہ اسکے ساتھ یہی واردات ہوئی تو تنگ آ کر اس بیچاری نے جاب ہی چھوڑ دی۔
    میرا برطانیہ والوں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے، وہ کمینے بھی پانچ بجے کے بعد دس منٹ نہیں بیٹھتے، او کے ببائے کہہ کر یہ جا وہ جا۔ البتہ ایک امریکن کمپنی تھی اسکا سی ای او بڑا سر سڑا تھا، وہ کافی لیٹ سٹنگ کرتا تھا۔ لیکن سال میں دو ہفتے کی لانگ لیو پر لازمی جاتا تھا۔ ایک بندے سے تین بندوں کا کام لینا تو ہمارے پرائیوٹ سیکٹر کا شیوہ ہے۔ بہرحال۔۔۔
    اور امین صاحب نے ویسے بڑا لطیفہ سنایا، کہ گورنمنٹ کے دفاتر میں بھی لوگ دیر تک بیٹھے رہے ہیں۔
    کوڈ آف کنڈکٹ تو یہاں کوئی نہیں ہے۔ سافٹ ویئر ہائوسز کی آمدنی ٹیکس فری، اور ملازموں کی آمدنی پر ٹھوک کر ٹیکس۔

    ReplyDelete
  11. جس قوم کے حکمران نا اہل بے حس اپنے منصب کی اہمیت سے بے بہرہ اللہ کے سامنے جوابدہی کے خوف سے آزاد ہوں طاقت جن کا مقصد حکمرانی جن کا نصب العین اور دولت جن کا خدا ہو ایسے ملکوں میں یہی رواج روز و شب دکھائی دیا جاتا ہے
    عوام بھی بے حس ہے خواص کیا کیا کہنا
    اسلامی اقدار کو بھولنے والوں اسلامی معیار زندگی کو ترک کرنے والوں دکھاوے اور ریاکاری کے سیلاب میں بہنے والوں میں اور بس میں کے لئے لڑنے والوں کے ساتھ ایسے ہی ہوا جاتا ہے
    حقوق اللہ کی کیا نبہانا یہاں حقوق العباد پورے کیا ان کو پامال کیا جاتا ہے اللہ کو مانتے ہیں اللہ کی نہیں مانتے رسول کو مانتے ہیں پر رسول کی نہیں مانتے ماننے کی حد یہاں کے کٹ مریں گے کوئی ان کا نام کے ساتھ یا لگائے یا نہیں اس بات کے لئے مگر انہوں نے کہا کیا وہ بھول گئے

    ؎ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

    نہ ہو جس کو خیا ل آپ اپنی حالت کے بدلے کاآمین

    ReplyDelete
  12. جس قوم کے حکمران نا اہل بے حس اپنے منصب کی اہمیت سے بے بہرہ اللہ کے سامنے جوابدہی کے خوف سے آزاد ہوں طاقت جن کا مقصد حکمرانی جن کا نصب العین اور دولت جن کا خدا ہو ایسے ملکوں میں یہی رواج روز و شب دکھائی دیا جاتا ہے
    عوام بھی بے حس ہے خواص کیا کیا کہنا
    اسلامی اقدار کو بھولنے والوں اسلامی معیار زندگی کو ترک کرنے والوں دکھاوے اور ریاکاری کے سیلاب میں بہنے والوں میں اور بس میں کے لئے لڑنے والوں کے ساتھ ایسے ہی ہوا جاتا ہے
    حقوق اللہ کی کیا نبہانا یہاں حقوق العباد پورے کیا ان کو پامال کیا جاتا ہے اللہ کو مانتے ہیں اللہ کی نہیں مانتے رسول کو مانتے ہیں پر رسول کی نہیں مانتے ماننے کی حد یہاں کے کٹ مریں گے کوئی ان کا نام کے ساتھ یا لگائے یا نہیں اس بات کے لئے مگر انہوں نے کہا کیا وہ بھول گئے

    ؎ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

    نہ ہو جس کو خیا ل آپ اپنی حالت کے بدلے کاآمین

    ReplyDelete
  13. نعیم اکرم ملک صاحب، میرا خیال ہے کہ ٹیم لیڈ کے طور پہ کوئ کسی کو اکم اسائن کر سکتا ہے اور اسکے معیار کو دیکھ سکتا ہے لیکن یہ کہ ماتحت اپمے ٹیم لیڈر کے ساتھ تعاون کریں اس میں مینیجر کا خاصہ عمل دخل ہوتا ہے۔
    مجھے نہیں معلوم کہ آپ کراچی میں رہتے ہیں یا نہیں۔ لیکن کراچی کے شمال میں رہنے والوں کو جنوب میں جانے کے لئے پبلک ٹرابسپوڑت سے تقریباً سوا سے ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے۔ اگر کوئ وین لگوالی جائے تو بھی کم سے کم ایک گھنٹہ ضرور لگ جاتا ہے کہ آپ شہر کے ایک سرےس سے دوسرے سرے پہ پہنچیں۔
    ابو شامل آپ نے درست کہا کہ ذمے دار افراد کو زیادہ بھگتنا پڑتا ہے۔ اس لئے کاہل خواتین بھی یہ کہہ کر بیشتر گھریلو امور سے چھٹی پاتی ہیں کہ ہمیں نہیں آتا۔

    ReplyDelete
  14. شادیوں کے ہاتھوں یرغمال۔

    ReplyDelete
  15. اوجی یہ نئی پوسٹ کا موضوع ہے جی؟
    بہت فٹ ہے۔ وہ جی ایک مؤدبانہ التجا ہے کہ اگر شادی پر کوئی چنگی سی بی بی نظر آئیں تو انھیں میرا ای میل ایڈریس فارورڈ کردیجئے گا جی۔ آپ کو تو پتا ہے کہ میں ایک ہونہار منڈا ہوں۔ اور صحیح ذہنی حالت کے ہونہار منڈے آجکل کہاں ملتے ہیں۔ تو بس آپ میری بات کہیں پکی کرادیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنی شادی میں ضرور بلاؤں گا۔

    ReplyDelete
  16. چنگی سی لڑکی سے کیا مراد ہے؟ مثالوں سے واضح کیا جائے۔
    اور صحیح ذہنی حالت کی لٹکیاں کیا آسانی سے مل جاتی ہیں یا چنگی سی لڑکی کے لئے صحیح ذہنی حالت میں ہونا کچھ لازمی نہیں۔ شادی پہ آپ بلائیں گے اسکا مجھے یقیں ہوا۔ لیکن ایک کہانی بھی یاد آرہی ہے سارس اور بطخ والی۔ کیا کینیڈا کا ویزہ اور ٹکٹ بھی بھیجیں گے یا صرف بلاوا؟

    ReplyDelete
  17. اوجی چنگی لڑکی کا نقشہ تو میرے ذہن میں بھی کوئی واضح نہیں ہے۔ بے شک صحیح الذہن چنگی لڑکی ملنا آسان نہیں لیکن آپ کی وسعت انظری اور عقابی نگاہ کس دن کام آئے گی۔ مزید برآں یہ کہ لڑکی کراچی میں ہوگی تو شادی بھی وہیں ہوگی۔ تو پھر ویزے ، ٹکٹ کی ضرورت کہاں۔ بلکہ جمع تفریق کی جائے تو ایک دعوت کا ادھار آپ کی طرف نکلتا ہے نئے جوڑے کے لئے۔
    لہذا بطخ اور بگلے کے مسائل چھوڑیں۔ لڑکی ڈھونڈیں اور بریانی پکائیں۔ میں آلو بخارے کی چٹنی ساتھ لیتا آؤں گا۔

    ReplyDelete
  18. مجھے تو حیرت ہو رہی ہے ایک تو خواتین نے جب مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا شروع کیا ہے تو آپ لوگوں کو مسلہ ہو رہا ہے کہ گھر کے لیے وقت دو ۔ یہ کیا دقیانوسیت ہے شوہر کو چاہیے کہ گھر کا بھی کام کیا کرے ۔ میں تو انڈیا کو اس معاملے میں اچھا ملک مانتا ہوں ۔ وہاں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ اس حد تک کام کرتی ہیں کہ گٹر وغیرہ کی صفای میں بھی ہاتھ بٹاتی ہیں ۔

    ReplyDelete
  19. انکل ٹام، آپ دماغ پہ زیادہ زور ڈالنے کے قائل نہیں۔ ذرا پھر سے یہ تحریر پڑھیں اور غور کیجیئیے کہ ہر نظام کو چلانے کے لئے کچھ قوانین کی ضرورت ہوتی ہے ہم اسی کی بات کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر ہم یہ کہیں کہ خواتین بھی اپنی صلاحیتیں استعمال کر سکتی ہیں اور انہیں کرنا چاہئیے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ انہیں سزا کے طور پہ گدھا گھوڑا بنا دیا جائے۔ یہ آپ جیسا ذہن ہی سوچ سکتا ہے۔
    ادھر انڈیا ہی نہیں تھائ لینڈ جیسا چھوٹا سا ملک اپنی خواتین کی وجہ سے ترقی کر رہا ہے اور ملک کے بادشاہ کو کہنا پڑا کہ ہم اپنی خواتین پہ فخر کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ وہ ایک معتدل ذہن کے مالک ہیں اس لئے وہ باقی چیزوں پہ بھی نظر رکھتے ہیں
    یہ نہیں کہ یا تو گھر کی دیواروں میں دفن ہو جاءو ایسے کہ گھر سے باہر تمہاری آواز بھی سنائ نہ دے یا دوسری انتہا یہ کہ گھر کا وجود ہی نہ رکھو۔
    ایاتہا پہ آپ خود ہیں اوردوسری انتہا کو آپ مقام عبرت بنا کر دکھاتے رہتے ہیں۔ درمیان کی بھی کوئ راہ ہوتی ہے۔ مگر چونکہ اس سے معاشرہ میں استحکام آتا ہے اس لئے وہ آپکو سمجھ میں نہیں آئیں گی۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ