Wednesday, April 6, 2011

دریافت نایافت

بچے انسانی سوچ و فکر کے ارتقائ سفر کا بہترین مطالعہ بن سکتے ہیں۔ آجکل میں دیکھتی ہوں کہ کیسے میری چار سالہ بیٹی اپنے مشاہدے اور ضروریات کے مطابق اپنے خدا اور اسکی صفات کا ادراک حاصل کر رہی ہے۔
اس نے اب سے چند مہینے پہلے جب مونٹیسوری اسکول کا سفر شروع کیا تو وہ گھر سے جس اللہ کا تصور لے کر وہاں گئ تھی وہ اس سے محبت کرنے والا تھا۔ تحفے تحائف دیتا تھا اور اسکی ماں کی کسی بات سے خوش ہو کر تحفے میں انہیں اس جیسی پیاری بٹیا تحفے میں دے ڈالی۔ وہ جانتی ہے وہ خدا کا تحفہ ہے۔
لیکن اس خدا کے ساتھ مسائل تھے۔ اول ، وہ اسے نظر نہیں آتا تھا، دوئم اس نے ذاتی طور پہ اسے کچھ نہیں دیا تھا۔ وہ صرف ماما کے ذریعے اطلاع دیتا تھا کہ وہ مشعل کو پسند کرتا ہے۔ اس کے لئے روزانہ چاند، سورج ، ستارے نکالتا ہے، مگر یہ سارے کام بہت خفیہ طریقے سے ہوتے ہیں۔
ماما کہتی ہیں کہ کھانا اللہ دیتا ہے لیکن اس میں بھی جان نہیں لگتی کیونکہ بظاہر تو یہ ماما ہوتی ہیں جو بازار سے چیزیں لے کر آتی ہیں، گھر میں پکاتی ہیں اور میز پہ سجاتی ہیں۔ ایسے اللہ کو زیادہ یاد رکھنے کا کیا فائدہ، جو دوسروں سے پتہ چلتا ہے۔ پھر یہ کہ اس نرم خو، بے ضرر اللہ کا اوروں پہ رعب نہیں پڑتا۔
اسکول جانے کے کچھ عرصے بعد اسے ایک اور طرح کے اللہ میاں کا پتہ چلا۔ یہ وہ اللہ تھا جو گناہ دیتا ہے شرارتی بچوں کا، برے لوگوں کا دماغ صحیح کر دیتا ہے اور جو اچھے لوگ ہیں ان پہ بھی نظریں رکھتا ہے کہیں کوئ بد تمیزی نہ کر دیں۔  یہ اللہ مشعل کے مزاج سے میل کھاتا تھا۔ انہیں پسند آیا۔
شروع  شروع میں انہوں نے اسے خاطر میں نہ لانے کا خیال کیا اور گناہ دینے کی ذمہ داری خود اٹھانے کی کوشش کی۔ اور جب بھی انہیں لگتا کہ انکی شان میں گستاخی کی گئ ہے وہ فوراً وارننگ دیتیں کہ صحیح ہو جائیں ورنہ میں گناہ دے دونگی۔ آپ نے مجھے ڈانٹا، میں آپکو بہت گناہ دونگی۔
چند دنوں میں انہیں اندازہ ہوا کہ انکے  خود گناہ دینے سے لوگوں پہ کچھ ایسی دہشت طاری نہیں ہوتی، الٹا لوگ ہنستے ہیں۔
اللہ کا رعب اور دبدبہ، اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے کا نسخہ ء کیمیاء انہیں بھی سمجھ میں آ گیا۔ اب وہ کسی سے ناراض ہوتیں تو اپنی دو ہتھیلیاں جوڑ کر اٹھاتیں اور زور سے کہتیں کہ اللہ میاں انہیں گناہ دے دیں۔ اگر کوئ ان کی اس ادا پہ مسکراتا تو اسے زیادہ سخت گناہ کی وعید ملتی۔ زیادہ تر لوگوں نے انکی اس ادا پہ توجہ دی۔ یعنی اس طریقہ میں کامیبای کے آثار نظر آئے۔
پھر کسی نے ایک دن ان سے دریافت کیا  کہ گناہ کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے اپنی تھوڑی کو کھجایا، سر پہ شہادت کی انگلی سے کئ دفعہ دستک دی پھر آنکھیں پھیلا کر جواب دیا، گناہ ایک زخم ہوتا ہے۔  اشفاق احمد بھی شاید اسی طرح کی بات کہتے۔ مزید پتہ چلا کہ جو لوگ بات نہیں مانتے انہیں اللہ میاں زخم لگا دیتا ہے اور اس میں سے پھر بہت خون نکلتا ہے۔ بہت تکلیف ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے چہرے پہ انتہائ کربناک تائثر پیدا کرے ہوئے کہا۔
لیکن پھر یہاں سے کہانی میں ٹوئسٹ پیدا ہوا۔ اگر مشعل اللہ میاں کا تحفہ ہے اور اللہ میاں اس سے محبت کرتے ہیں اور اللہ میاں ماما سے بھی محبت کرتے ہیں تو اللہ میاں ایک اتنا تکلیف والا، خون بہنے والا زخم کیسے دے سکتے ہیں۔
اس خیال کے اظہار کے  بعد مشعل ، ناراض ہوئیں اور گناہ کی نوید دیتی ہوئ چل گئیں، لیکن کچھ ہی دن گذرے تھے کہ انہوں نے اپنی کہانی میں ایک کردار کا اضافہ کیا۔
اور یہ کردار تھا شیطان کا۔  کھانے کی میز پہ جب سب کسی ایسی گفتگو میں لگ جاتے جو انکی دلچسپی کی نہ ہوتی تو اب وہ خدا سے گناہ دینے کی درخواست کے بجائے زورزور سے کہتیں، سب خاموش ہو جائیں، جو کھانے کے دوران بات کرتا ہے اسکا کھانا شیطان کھاتا ہے۔ پھر شیطان بڑا کار آمد ثابت ہونے لگا۔  تیز نہیں چلنا چاہئیے، ورنہ شیطان ساتھ چلتا ہے۔ دن میں بستر پہ نہیں لیٹنا چاہئیے شیطان بھی ساتھ لیٹ جاتا ہے۔ ہر وہ کام جو وہ چاہتی تھیں کہ انکے منسلکہ لوگ نہ کریں اس سے براہ راست منع کرنے کے بجائے شیطان سے وابستہ کر دیتیں۔ اس طرح وہ خود بچ جاتیں اور جس کسی کو لعنت دینی ہوتی وہ شیطان کو دیتا۔
ہر وقت شیطان کے ذکر سے گھبرا کر، ایک دن دادی اماں نے پوچھا آخر یہ شیطان کون ہے کیوں ایسا کرتا ہے؟ انہوں نے اپنے نگٹس کو کیچپ میں ڈبوتے ہوئے نہایت تشویشناک سنجیدگی سے کہا دادی اماں، شیطان بہت برا 'شخص' ہوتا ہے۔ کیا برا کام کرتا ہے؟ جواب ملا، آپکو نہیں پتہ بہت برے کام کرتا ہے۔ مثلاً کیا کرتا ہے؟ وہ ناں انہوں نے نگٹ کے اوپر سے کیچپ کو چاٹا۔ وہ ناں ، دوسروں کے نگٹس کھا جاتا ہے، کیچپ میں پانی ملا دیتا ہے، صوفے پہ پانی گرا دیتا ہے، کھانے کی ٹیبل پہ پانی گرا دیتا ہے اور پانی کے گلاس میں اسٹرا ڈال کر گُڑ گُڑ کرتا ہے۔ بہت خراب ہوتا ہے بالکل بد تمیز۔
لیکن جیسا کہ  بیان سے لگ رہا ہے اور اسے جلد ہی مشعل نے بھی محسوس کر لیا کہ شیطان کی عادات و اطوار بہت کچھ انکی عادت و اطوار سے ملتی جلتی ہیں۔ ایک دفعہ پھر انہیں اللہ میاں کی طرف رجوع کرنا پڑا۔  اس دفعہ عقلمندی دکھاتے ہوئے انہوں نے اللہ میاں کے دو حصے کر دئیے۔ ایک اچھے اللہ میاں ہیں۔ جو تحفے وغیرہ دیتے ہیں اور دوسرے اللہ میاں بہت خطرناک ہیں وہ تیر کی طرح سیدھا رکھتے ہیں گناہ وغیرہ دے کر۔ گناہ تو اب آپ سمجھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ سو اب وہ اپنے عقائد میں زرتشتوں سے خاصی قریب ہے یعنی خدا دو طرح کے ہوتے ہیں ایک نیکی کا خدا یزداں اوردوسرا بدی کا خدا اہرمن۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلمانوں کے خدا تک انکی رسائ کیسے ہوتی ہے۔


13 comments:

  1. مشعل کی باتیں بڑی دلچسب ہیں :D

    ویسے مشعل نے مجھے ایک نیا آئیڈیا دے دیا ہے، آج میں بھی خدا کو ڈھونڈنے نکلتا ہوں، دیکھتا ہوں ملتا ہے کہ نہیں..

    ReplyDelete
  2. مشعل سو سوئیٹ!
    :)
    لگی رہو بیٹا،ایک دن صحیح اللہ میاں اور واقعی شیطان کو بھی جان لوگی!

    ReplyDelete
  3. چلنے دیں اسے خود ہی پتہ چل جائےگا کہ خدا اور شیطان انسان کے اپنے اندر ہی ہوتے ہیں.

    ReplyDelete
  4. ماشاءاللہ۔۔۔ بہت عمدہ۔۔۔ آپ مشعل کی بہت اچھی تربیت کر رہی ہیں۔۔۔ بہت اچھا لگا یہ جان کر کہ مشعل بیٹی ابھی سی اپنی ماما کی طرح بہت سوچ بچار کرتی ہیں۔۔۔
    میری دعا ہے کہ مشعل بیٹی کی اللہ میاں سے دوستی ہو جائے۔۔۔ اور شیطان سے جان پہچان بھی ہو جائے تاکہ اللہ شیطان کے چنگل سے انہیں ہمیشہ محفوظ رکھے۔۔۔ آمین۔۔۔
    بہت پیار دیجیے گا مشعل کو۔۔۔

    ReplyDelete
  5. اللہ اتنی معصوم بچی کو تا حیات اپنے حفظ و امان میں رکھیں آمین۔

    ReplyDelete
  6. گویا لوگوں کا تصور خدا ان کے جذبات ، خواہشات اور خوف کے تابع ہے۔

    ReplyDelete
  7. مکی صاحب نے اپنی تحریر میں خدا صاحب کی تقریباً چھٹی ہی کرا ڈالی ہے۔
    :)
    اس بلاگستان کے قارئین کے جذبات اور خیالات پہلے ہی اتنے نازک اور دبلے پتلے ہیں۔ اوپر سے آپ خواتین و حضرات تصور خدا کی سرجری کے درپے ہیں۔ خدارا خدا کا نہیں تو خلق خدا کے جذبات ہی کا کچھ خیال کریں۔
    (: (:

    ReplyDelete
  8. عمران اقبال صاحب اگر بچوں کی باتوں کو صبر سے سنا جائے اور ان پہ بے جا سختی کے ذریعے چیزیں نافذ نہ کی جائیں تو عموماً وہ بہت نادر اور اچھوتے خیالات سامنے لاتے ہیں۔ ہر بچے کو خدا نے نئ امید کے ساتھ دنیا میں بھیجا ہے۔ یقین نہ ہو تو اپنی بچی کو دیکھئیے گا۔
    اللہ میاں سے دوستی تو کرنی ہی پڑے گی بھئ۔ اس طرح انتشار سے بچ کر توانائیاں کسی مثبت سمت میں لگتی ہیں۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے طور پہ اس سے رشتہ بنائیں بجائَ اسکے کہ ہم انہیں زور دے کر کہیں کہ جس طرح ہم خدا کو جانتے ہیں بعینہ تمہیں بھی اسی طرح جاننا ہے۔ خدا کو وراثت میں نہیں دیا جا سکتا۔ ہر انسان اپنے طور پہ اس کا ادراک حاصل کرتا ہے۔
    عثمان، اگر لوگوں کا تصور خدا انکی خواہشات کے مطابق نہ ہو تو ایسا کیوں ممکن ہو کہ اس خدا کے محبت کے پیغام کو عام کرنے سے تو ہم ہچکچائیں مگر اس خدا سے اپنے مفاد کے احکامات نکلوانے میں کامیاب رہیں۔
    پمم، یہ تو میں بھی دیکھ رہی ہوں کہ مکی صاحب آجکل لگتا ہے بھینس کا دودھ رج کر پیتے ہیں اور پھر لکھتے ہیں۔
    :)
    ریاض شاہد صاحب، میں تو اس خیال سے آپکے بلاگ پہ تبصرہ بھی نہیں کر رہی کہ کہیں آپ پھر فرار نہ ہو جائیں۔
    عبداللہ اور فکر پاکستان آپ کا شکریہ۔
    مکی صاحب، ہمم، آپ نے تو رسل کو ڈھونڈھ نکالا۔ اچھا تو آپکی تحاریر کے تبصرے کیوں نظر نہیں آرہے۔

    ReplyDelete
  9. ایک عرصہ کے بعد بہت شگفتہ اور دلچسپ تحریر پڑھی ہے اور ختم ہونے پر مزید نہ ہونے کا افسوس بھی ہوا۔

    میری نظر میں آپ کی اب تک کی لکھی گئی تمام تحاریر میں یہ تحریر سب سے عمدہ ہے جس میں آپ کی بیٹی مشعل کا ہاتھ نمایاں ہے۔

    مکی کی پوسٹ پر ایک عدد تبصرہ میں نے بھی کیا ہے دیکھتے ہیں کہ جواب آتا ہے یا نئی پوسٹ :)

    ReplyDelete
  10. تبصرہ نہ ٹھرا لاحول ہو گئی

    ReplyDelete
  11. معمول کے مطابق نشو و نما ہو تو بچے ايسی ہی باتيں کرتے ہين ۔ ميں مسکرا مسکرا کر بڑی دلچسپی سے سب پڑھتا رہا ۔ بچے پاکيزہ اور ذہين ہوتے ہيں ۔ ان کی بے راہروی کے ذمہ دار بنادی طور پر ان کے بڑے ہوتے ہيں ۔ مجھے اُن والدين سے چِڑ ہے تو بچے کے ساتھ اس طرح کی گفتگو کرتے ہيں "يہ کيا کيا ؟ ادھر بيٹھو ۔ وہ نہ کرو ۔ آرام سے نہيں بيٹھ سکتے ؟" وغيرہ وغيرہ

    ReplyDelete
  12. عثمان صاحب، ایسی تحریروں میں میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو اگر میری کسی تحریر سے آپ کی دل آزاری ہوئی ہے تو معافی چاہتا ہوں :)

    عنیقہ بہن، تبصرے ہو بھی رہے ہیں اور نظر بھی آرہے ہیں، آپ کو کیا مسئلہ درپیش ہے؟

    محب علوی صاحب، جواب پیشِ خدمت ہے :)

    ReplyDelete
  13. عنیقہ مکی کے بلاگ پر آپ کے تبصروں کا انتظار ہے!
    تبصرہ کریں
    Click here to cancel reply.
    تبصرے کرنے کے لیے آپ کو لاگ ان ہونا چاہیے.

    یہاں سے آپکو لاگ ان ہونا پڑے گا،
    ورڈ پریس،یاہو،جی میل یا ٹویٹر کے زریعے

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ