Monday, April 11, 2011

تعلیم کے لئے جنگ

 یہ صرف چار سال پہلے کی بات ہے , مجھے وفاقی اردو یونیورسٹی میں  پڑھانے کا اتفاق ہوا۔ یہ یونیورسٹی پہلے کالج تھی جہاں پوسٹ گریجوایٹ کی سطح پہ تعلیم دی جاتی تھی۔ بعد میں شاید اسے یہ سوچ کر یونیورسٹی کی سطح تک ترقی دی گئ کہ یہ پاکستان کی واحد یونیورسٹی ہوگی جہاں ذریعہ ء تعلیم اردو میں ہوگا۔
مگر ہوا کیا؟  یونیورسٹی کے بیشتر اساتذہ وہی تھے جو کالج کے زمانے سے پڑھا رہے تھے۔ تقریباً سبھی ماسٹرز کی ڈگری رکھتے تھے۔ تقریباً سبھی کسی علمی تحقیق سے وابستہ نہ تھے، کسی نے کبھی کسی سیمینار یا کانفرنس میں شرکت نہیں کی تھی۔ انکا کوئ تحقیقی مقالہ موجود نہ تھا۔ در حقیقت انکی اکثریت اس بات سے واقف ہی نہ تھی کہ تحقیقی مقالہ ہوتی کیا بلا ہے۔ انہیں صرف اس بات پہ ناز تھا کہ انکی مدت ملازمت کو اتنا عرصہ ہو چکا ہے۔
یونیورسٹی کے اوپر چند مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا راج بلکہ قبضہ تھا۔ انکی پسند کے شخص کے علاوہ کسی کا ٹہرنا نا ممکن تھا۔ یہ اساتذہ تدریسی سرگرمیوں میں کم اور سازشی سرگرمیوں میں زیادہ مصروف رہتے۔ اس مذہبی گروہ کے افراد بات بے بات پہ خدا کو یاد کرتے اور اخلاقی حالت یہ کہ یونیورسٹی کے پتے پہ اگر کسی کا کوئ خط آتا تو انکے پاس  سے گذر کر آتا۔ وہ اسے کھولتے، پڑھتے اور مناسب سمجھتے تو وہ متعلقہ شخص کو ملتا ورنہ جیسے دل چاہے اسکی اطلاعات کو استعمال کرتے۔
 اسے یونیورسٹی کا درجہ ملے ہوئے پانچ سال کا عرصہ ہو رہا تھا۔ مگر فارمیسی کی پریکٹیکل لیبز ہونے کا سامان نہ تھا۔  کیمسٹری کی لیب میں کیمیکلز نکالنے کے وہ چھوٹے چھوٹے چمچے موجود نہیں تھے جو اسپےچولا کہلاتے ہیں حقیر ترین چیز جن کی قیمت اس وقت دس پندرہ روپے ہوگی۔ ساٹھ اسٹوڈنٹ کی لیب میں دو اسپے چولا اور تین برنرز۔ باقی سامان کا بھی یہی حساب، لٹمس پیپر جیسی روز کے استعمال کی سستی ترین شے کیمسٹری کے چیئر مین سے مانگ کر لائ جاتی۔ 
میری اس طرف بار بار توجہ دلانے پہ ہماری چیئر پرسن جو کیمسٹری ڈپارٹمنٹ سے لا کر یہاں مقرر کی گئ تھیں۔ اور جو کسی بھی قسم کی تحقیق تو دور تدریسی عمل میں بھی کئ سالوں سے شامل نہ تھیں۔ سخت آگ بگولہ ہوئیں اور کہنے لگیں کہ پچیس سال سے ہم پڑھا رہے ہیں ہمیشہ کیمیکلز نکالنے کے لئے کاغذ پھاڑ کر اسکی ڈوئ بنائ آپکے بڑے نخرے ہیں اسپے چولا ہونا چاہئیے۔ میرے جیسے جونیئر استاد نے یہ احمقانہ دلیل سنی اور خاموش ہو گیا۔
ماں باپ اپنی جان مار کر اپنے بچوں کو ان یونیورسٹیز میں بھیجتے ہیں۔ یونیورسٹی میں پڑھنے والے کراچی کے بیشتر نوجوان  گھر واپس جا کر ٹیوشن پڑھاتے ہیں اور تب اپنے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ لیکن میں آپکو یہ بات وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ جس طرح کا معیار تعلیم میں نے اس یونیورسٹی میں دیکھا اور جو لیبز کی حالت تھی۔ یہاں  دی جانے والی ڈگری، جعلی ڈگری کے برابر ہی تھی۔ 
ماسٹرز ڈگری کے حامل یہ اساتذہ، اپنے سالوں پرانے لیکچرز پڑھا رہے تھے۔ شعبے کے ایک سینیئر ٹیچر نے انتہائ ناقص کتابچہ کیمسٹری کی رہنمائ کے لئے تحریر کر رکھا تھا اور نئے آنے والے تمام ٹیچرز پہ فرض تھا کہ وہ اسی کتابچے سے تجربات کی تھیوری اور طریقہ لکھوائیں۔  میں نے اسے ایک طرف رکھا اور ذاتی طور پہ اپنی لیب کے لئے ایک کتابچہ خود تیار کیا اس اطلاع پہ ان سینیئر ٹیچر نے فوری ایکشن لیا۔ چیئر پرسن نے فوراً طلب کر کے  کہا، آپ اپنے کتابچے کو ابھی رہنے دیں۔ اگلے سال اسے دیکھیں گے۔ ابھی پرانے کتابچے  کو ہی استعمال کروائیے۔ انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ بحیثیت یونیورسٹی ٹیچر وہ اس بات کا حق نہیں رکھتیں کہ سلیبس کے علاوہ میرے طریقہ ء تدریس میں دخل دیں اور مجھے کسی خاص کتاب کے استعمال پہ مجبور کریں۔ مجھے معلوم تھا لیکن ہر دفعہ کی طرح پھر خاموش ہوئے۔
یونیورسٹی کا نام اگرچہ اردو یونیورسٹی تھا مگر یہاں اردو میں تعلیم نہیں دی جا سکتی تھی۔ کیونکہ اردو میں سائینس کی کتب ہی کتنی موجود ہیں۔ سو اسکے قیام کا بہانہ، دراصل بش کے اس بہانے کی طرح تھا جو اس نے عراق پہ حملے کے لئے کیا تھا۔
خیر، ایک ایسی ناگفتہ بہ حالت میں جبکہ  تعلیمی سرگرمیوں پہ خرچ کرنے کے لئے پیسے نہ تھے۔  ہمارے مذہبی ٹولے کی ملی بھگت سے یونیورسٹی میں انکے پسندیدہ با ریش وائس چانسلر کی آمد ہوئ تو انہوں نے پہلا اور آخری کام اپنی سوابدید پہ   یہ کیا کہ  وائس چانسلر آفس کے لئے نئے گلاس منگوائے کیونکہ پرانے گلاسوں کی شکل انکے خیال میں ان گلاسوں سے مشابہ تھی جن میں شراب پی جاتی ہے۔ یعنی وہ جام جیسے تھے۔ ان گلاسوں کی تبدیلی کے بعد وائس چانسلر اپنی عاقبت سنوارنے کے مشکل مرحلے سے نکل کر عالم سکون میں آگئے۔ باقیوں کا رقص بے خودی بھی شروع ہوا، اس دھن پہ، سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا۔
ایسا نہیں ہے کہ صرف مذہبی طبقہ ہی ایسی کرپشن کرتا ہے ۔ غیر مذہبی بھی کرتے ہیں۔ لیکن یہ چیز اس وقت اتنی بد تر مذاق کی صورت لگتی ہے جب ایک شخص اپنے آپکو زیادہ مذہبی ثابت کر رہا ہو، اس پہ فخر کرتا ہواور دوسروں پہ نفرین بھیج رہا ہو پھر اس ساری نفرین کے بعد وہ وہی کرپشن زور و شور سے کرے جو دوسرے لوگ بغیر مذہبی و اخلاقی پند و نصائح کے کرتے ہیں۔
اب لیبز تو سامان کی کمی کی وجہ سے ہو نہیں پاتی تھیں۔ لے دے کر تھیوری کی کلاسز ہی منعقد ہوتیں اس کے بعد ہمارے پاس خاصہ وقت ہوتا۔ گیارہ بارہ گھنٹے ہر ہفتے کے کریڈٹ آرز کے بعد تو خاصہ وقت ہوتا ہے۔  ایکدن میں نے اپنی چیئر پرسن سے کہا کہ میرے پاس خاصہ وقت ہوتا ہے اور میں سوچتی ہوں کہ فارغ ہونے کے بعد کچھ اس طرح ورک شیڈول ترتیب دوں کہ کراچی یونیورسٹی جا کر کسی تحقیقی پروجیکٹ پہ کام شروع کردوں۔ اس طرح جو پبلیکیشن بنے گی اس میں اردو یونیورسٹی کا نام بھی آئے گا۔ میری ماسٹرز کی ہوئ پچیس سالہ تجربے کی حامل سینیئر استاد نے اپنے سر کا اسکارف صحیح کیا اور کہنے لگیں جب آپکو اپائینٹمنٹ لیٹر ملا تو اس پہ کیا لکھا تھا؟ پھر میرے سوالیہ تائثر پہ انہوں نے بیان کیا کہ اس میں  یہ لکھا تھا کہ یونیورسٹی کو ایک استاد چاہئیے یا یہ لکھا تھا کہ انہیں ایک تحقیق داں چاہئیے۔ یہ ایک تحقیقی ادارہ نہیں یونیورسٹی ہے۔ اب آپ ریسرچ  کو بھول جائیں۔
آپ میں سے کچھ لوگوں کو اب  سمجھ آئے گا صرف بلاگی دنیا میں ہی اس قبیل کے لوگوں  نہیں بلکہ اس مملکت خداداد میں جہاں نکل جائیں وہاں یہ اسپی شی موجود ہے۔
ایک مایہ ناز یونیورسٹی کی، ایک اہم ڈپارٹمنٹ کی چیئر پرسن، یہ کہتی ہے کہ یونیورسٹی کا تحقیق سے کیا تعلق تو اس چیئر پرسن کو کسی کالج یا اسکول میں ہونا چاہئیے، یونیورسٹی میں نہیں۔  یونیورسٹی کی بنیاد کا مقصد ہی تحقیق کو تعلیم سے جوڑنا ہوتا ہے۔
آخر یونیورسٹی کی اس دگرگوں حالت کا کون ذمہ دار تھا۔ کون اس بات کا ذمہ دار تھا کہ وہ یونیورسٹی کے معیار پہ نظر رکھے، وہ اس بات کو جانچے کہ یونیورسٹی اپنے طلبہ کو جن سہولیات کو پہنچانے کا دعوی کر رہی ہے آیا وہ ایسا کر پا رہی ہے یا نہیں، اتنے عرصے میں یہاں سے جتنے طالب علم اپنی تعلیم مکمل کر کے نکلے یقیناً وہ تعلیمی سطح پہ انتہائ گھٹیا معیار رکھتے تھے۔ بیرون ملک تو کیا اپنے ہی ملک کی کسی بہتر یونیورسٹی کے طالب علم سے مقابلہ نہ کر پاتے۔ لیکن اس میں کس کا قصور تھا۔ کیا اس طالب علم کا یا اس بات کا کہ اس یونیورسٹی کے اندر موجود لوگوں کے ایک گروہ کو پتہ تھا کہ وہ جو دل چاہے کرتے رہیں۔ ان سے پوچھ گچھ کرنے والا کوئ نہ ہوگا۔
یہ کوئ واحد یونیورسٹی نہ ہوگی، مشرومز کی طرح اگ آنے والی یونیورسٹیز کی ایک تعداد اسی قطار میں کھڑی ہوگی۔
یونیورسٹیز کے معیار کو کیسے جانچنا چاہئیے؟ یونیورسٹیز کو کیسے اس بات کا پابند بنانا چاہئیے کہ وہ بہتر نتائج دیں؟ یونیورسٹیز کے اساتذہ کو کیسے مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے آپکو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کریں؟ یونیورسٹیز کو آزاد تعلیمی ماحول دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ امر کیسے باور کرایاجائے کہ یونیورسٹیز کو سچی اور معیاری تحقیق سے جڑا رہنا چاہئیے؟
میں نے کچھ ہنگامہ بپا کرنے کے بعد یونیورسٹی چھوڑ دی۔ اس دوران بارہا مختلف صاحب علم لوگوں سے پوچھا اور یہ سوال میں اب بھی اپنے ملک کے اس دانشور طبقے سے پوچھنا چاہتی ہوں جو اس ملک میں تعلیم کی حالت پہ  فکر مند رہتے ہیں۔ کیا آپ واقعی تعلیمی زبوں حالی پہ فکر مند ہیں؟
آج ایچ ای سی کو ختم کرنے پہ احتجاج جاری ہے۔
ایچ ای سی کے دامن پہ داغ بھی ہیں اور کامیابیاں بھی۔ 
ملک میں زیادہ تعداد میں یونیورسٹیز کھولنے اور زیادہ سے زیادہ طلباء کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دینے کے چکر میں معیار کا کوئ خیال نہیں رکھا گیا۔  یونیورسٹیز میں تحقیقی سہولیات مہیا کرنے کے بارے میں کوئ دلچسپی نہیں لی گئ۔ جہاں تھوڑی بہت ہو رہی ہے،  انہیں اس بات پہ مجبور کرنے کے لئے کوئ منصوبہ نہیں بنایا گیا کہ وہاں ایسی تحقیق کو پذیرائ ملے جو ہمارے ملک کے لئے کار آمد ثابت ہو۔ باہر سے آنے والی فنڈنگ بشمول اسکالر شپس کو منظور نظر افراد اور اداروں کی نذر کیا گیا۔ ملک میں پی ایچ ڈی کرنے والے افراد کو کھپانے کے لئے کوئ منصوبہ بندی نہیں کی گئ۔
ان میں سے بیشتر باتوں کو یہ کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ کرپشن ہمارے ملک کا مزاج ہے۔ بہت کم ایسا ہو پاتا ہے کہ حق دار کو اسکا حق ملے۔ اور کچھ  نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ غریب ممالک میں، تبدیلی یک لخت نہیں آتی۔ ادارے جیسے جیسے پختگی کی طرف بڑھتے ہیں زیادہ بہتر ہو جاتے ہیں۔
 اسکے ساتھ ایچ ای سی کے حصے میں تمغے جاتے ہیں۔ بیرون ملک سے پاکستانی طلباء طالبات کے لئے اسکالر شپس حاصل کی گئیں، ریسرچ کے لئے فنڈنگ ملی۔ سب سے بڑھکر یہ کہ بیرون ملک سے غیر ملکی اساتذہ آئے جنکی وجہ سے یہاں طلباء طالبات کو مہمیز ملی اور اندازہ ہوا کہ باہر کس طرح اساتذہ اپنی تدریسی سرگرمیوں کو دلچسپ بناتے ہیں اور کیسے انہیں اپنی تحقیق کے ساتھ جوڑتے ہیں۔
پاکستان سے کثیر تعداد میں طلباء طالبات باہر گئے، انہیں ایک نئ، مختلف دنیا دیکھنے کو ملی۔  وہ نئ ثقافتوں کو دیکھ کر
 واپس آئے اور لازماً یہ صورت  ملک میں پھیلتی ہوئ انتہا پسندی کو روکنے میں سازگار ہو سکتی ہے اور کسی قوم کی بالغ نظری کی بنیاد بن سکتی ہے۔
ان اسکالرشپس سے  ملک کے دوردراز کے علاقوں کے لوگ بھی مستفید ہوئے۔ ایسے لوگ بھی باہر اعلی تعلیم کے لئے گئے جو کبھی تصور بھی نہ کر سکتے تھے کہ وہ وظیفے پہ اتنی اعلی تعلیم حاصل کر پائیں گے۔
اب بجائے یہ کہ ایچ ای سی کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے اقدامات کئیے جاتے۔ حکومت نے ہمیشہ کی طرح اپنی ناعاقبت اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ انکا کہنا ہے کہ وہ اسے صوبوں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔
پیپلز پارٹی جو اپنے آپکو ایک وفاقی جماعت کہتی ہے وہ خدا جانے دن بہ دن ایسےفیصلے کیوں کر رہی ہے جو اسے ایک وفاقی جماعت کے بجائے ایک علاقائ جماعت بنائے دے رہے ہیں۔
اب شاید وہ لمحہ آن پہنچا ہے کہ ہم اپنے کچھ مسئلوں کو جنگی نوعیت کا قرار دے کر ان پہ پورے جذبے کے ساتھ کام کریں اور ان میں سب سے پہلا مسئلہ تعلیم کا ہے اسلام کا نہیں۔ صوبوں کو اسکول کی تعلیم کا حق حاصل ہے انہیں اسکی ترویج کے لئے جان لگانی چاہئیے۔
پولیو کے ٹیکوں کی طرح پرائمری سطح کی تعلیم کے لئے ایک ٹارگٹ مقرر کرنا چاہئیے کہ آئیندہ پانچ  سال میں ہمارا ہر بچہ اسکول کی اتنی تعلیم حاصل کرے گا اخبار پڑھ سکے اور اپنی زبان میں خط لکھ سکے۔ جب صوبے اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو جائیں تو انہیں ہائیر ایجوکیشن کی ذمہ داری دی جائے۔ فی الوقت تو یہ فیصلہ صرف دو پس منظر رکھتا ہوا لگ رہا ہے۔ ایک جعلی ڈگری کی شناخت کی وجہ سے ایچ ای سی پہ عتاب اور دوسرے صوبوں کو تعلیم کی مد میں ملنے والے فنڈ میں زیادہ خرد برد کے آسان مواقع حاصل کرنا۔ صوبوں کی سطح پہ جہاں علاقائ اثر زیادہ گہرا ہو گا، خرد برد اور غبن کے مواقع زیادہ آسان ہونگے۔

8 comments:

  1. جامعہ کراچی کا حال بھی خاصا برا ہے۔ وہ اساتذہ جو جامعہ کے سنہری دور میں ملازمت حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے جب بھرتی کا طریقہ کار زیادہ شفاف اور کڑا نہیں تھا (اگرچہ اب بھی اتنا نہیں ہے)، وہ اپنی کرسیوں پر اسی حالت میں قابض ہیں جس حالت میں آئے تھے بل کہ شاید اب اُن کی حالت پہلے سے بھی بری ہوگئی ہے۔ عرصے سے نہ کوئی ورک شاپ/ ٹریننگ کی توفیق ہوئی ہے نہ ریفریشر کورس کی زحمت فرمائی گئی ہے۔ لہٰذا جو چاہتے ہیں جیسا چاہتے ہیں پڑھاتے ہیں۔ میرا بہت دل ہے کہ ایک اپنے شعبۂ تعلیم کی کچھ معلمات اور ایک شعبۂ سیاسیات کے موصوف استاد صاحب کی کہانی لکھوں کہ اُنھوں نے ہمیں کیا پڑھایا۔ اساتذہ کو بھرتی ہونے کے بعد آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ جو جی چاہیں کرتے پھریں، اُن کی کارکردگی کی کوئی نگرانی نہیں ہوتی۔ پھر تحقیقی مقالات کے نگرانوں کا حال۔۔۔ اللہ معاف کرے۔

    ReplyDelete
  2. HEC is a threat to such teachers as the chairperson you mentioned. Without any research credentials, its an insult to be a professor at university. HEC has brought many positive changes, lets hope it survives.

    ReplyDelete
  3. ہمارے ایک دوست نے ایچ ای سی کے سکالرشپ پر چائنہ سے پی ایچ ڈی کی ۔ واپس آنے کے بعد اس نے بہت سارے پروپوزل ایسے بنا کر اپنے ناخدا کے حضور پیش کءے جس سے ادارے کو ہر سال کروڑوں کی بچت ہو سکتی تھی مگر وہ منظور نہ ہوئے اور انتہائی حساس نوعیت کا سوفٹ باہر سے بنوایا اور خریدا جاتا رہا ۔ تنگ آ کر ساس نے اپنی ذاتی حیثیت میں غیر ممالک سے ٹھیکے اٹھانا شروع کر دیے ۔ اب اگرچہ وہ لاکھوں کما رہا ہے مگر اس کا اپنا ملک اس کی صلاحیتوں سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھا پا رہا ۔ وجہ گھر کی مرغی دال برابر

    ReplyDelete
  4. آپ کی اس تحریر کو میں نام دوں گا
    تعلیم کا نوحہ

    ReplyDelete
  5. یہ وہ موضوع ہے جس پر آپ کو مہینے میں کم از کم ایک دفعہ لکھنا چاہیے اور آپ ہیں کہ چھ ماہ بعد اس طرف آتی ہیں۔ بہرحال ..
    پاکستانی یونیورسٹی کے بارے میں میرا ذاتی تجربہ تو گورنمنٹ کالج لاہور تک ہی محدود ہے۔ ان دنوں یہ ابھی نیا نیا یونیورسٹی بنا تھا۔ تدریس کے شعبے میں تو حالت باوجود کچھ خامیوں کے بہت بہتر تھی۔ البتہ ڈسپلن کے نام پر فوجی اکیڈمی جیسا ماحول قائم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تحقیق ابھی خاطر خواہ نہیں تھی کہ نومولود یونیورسٹی تحقیق کے میدان میں ابھی ہاتھ پاؤں مارنے کے مراحل میں تھی۔ لیکن بعد میں اس طرف کافی کام ہوا خاص طور پر جب سابقہ دور حکومت میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ وہاں ریاضی اور شماریات کے شعبہ جات میں اس ادارے کے توسط سے بہت ترقی ہوئی۔ ریاضی میں بین الاقوامی معیار کی تحقیق کے واسطے ایک ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مشرقی یورپ اور روس سے کچھ غیر ملکی ریاضی دان تحقیق کے واسطے بلوائے گئے۔ اس تمام کام کی مالی اور پیشہ ورانہ معاونت ہائر ایجوکیشن کمیشن ہی انجام دیتا تھا۔ وہ الگ بات ہے کہ غیر ملکی فیکلٹی کا بڑا حصہ دہشت گردی کے ہاتھوں پریشان ہو کر چند سال بعد ہی واپس چلا گیا۔ اس ادارے سے اگرچہ کچھ غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں تاہم اس نے پاکستان کے تعلیمی نظام کو بہت تقویت دی ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے توسط اور مشاورت سے پاکستان کے تعلیمی بجٹ میں کئی گنا اضافہ کیا گیا جو اب پھر کم کردیا گیا ہے۔ غالبا ۴۰ ارب سے گرتا ہوا ۱۱ ارب روپے پر آ گرا ہے۔ ایسے میں تحقیق و تدریس کے لئے بجٹ کہاں سے آئے .. جب دفتری خرچہ ہی پورا نہ ہو۔
    ایک عزیز دوست لاہور کی انجینئرنگ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ ان کے منہ سے بھی اپنی یونیورسٹی کی دگرگوں حالت کا بہت نوحہ سنا ہے۔ موصوف اب سویڈن میں سٹاک ہام یونیورسٹی سے ایم ایس سی کررہے ہیں۔ پاکستان میں ناقص معیار تعلیم اور تحقیق میں کوئی تربیت نہ ہونے کے سبب ایم ایس سی میں اضافی وقت صرف کرنا پڑ رہا ہے۔
    پاکستانی یونیورسٹیوں کے متعلق کافی عرصہ قبل ڈاکٹر عطاالرحٰمن ہی کو ٹی وی پر کہتے سنا تھا کہ یہ یونیورسٹی نہیں ہائی سکولز ہیں کہ یونیورسٹی وہ جگہ ہے جہاں تحقیق ہوتی ہو۔
    ساتھی بلاگر کاشف نصیر ماضی میں وفاقی اردو یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہ چکے ہیں۔ ان کا نوحہ بھی پیش خدمت ہے

    ReplyDelete
  6. بہت عمدہ لکھا ہے آپ نے ۔۔۔۔۔۔ اور میرے خیال سے آپ جیسی علمی خاتون کو شعبہ تدریس سے مستقلاً منسلک رہنا چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ کچھ تو بہتری آسکے ۔۔۔۔۔۔۔ اور اچھا اچھا ہی لکھا کریں کیوں کے بہت سارے لوگ اپکی تحاریر کو پڑھتے ہیں

    ReplyDelete
  7. عثمان، میں نے جو احوال بیان کئیے ہیں وہ سائینس کے حصے کے ہیں۔ اردو یونیورسٹی کی عمارت دو حصوں میں ہے معاشیات اور آرٹس کی عمارت شہر کے مرکزی حصے میں ہے اور سائینس سے متعلقہ عمارت جامعہ کراچی سے تھوڑے فاصلے پہ ہے۔ یوں ان دونوں عمارتوں کے درمیان شاید دس میل کا فرق ہوگا۔
    یونیورسٹی میں کراچی سے زیادہ دیگر صوبوں کے طلباء پائے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ اپنے اہل سرحد لوگوں سے معذرت کے ساتھ، اردو یونیورسٹی کے ماحول میں سب سے زیادہ خرابی پٹھان طلباء کی وجہ سے زیادہ ہے۔ طلباء کے ان گروہوں کو سینیئر اساتذہ دوسروں پہ حملے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔اگر جامعہ کراچی سے اس کا مقابلہ کیا جائے تو انتہائ پسماندہ ہے۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ جامعہ کراچی میں بھی ہوتی ہیں مگر وہاں ہراس نہیں کیا جاتا۔ خاص طور پہ خواتین اساتذہ کو۔ اس حساب سے جامعہ کراچی کا ماحول خاصہ کھلا اور ترقی پسند ہے۔
    بہرحال، میں یہ قصہ آج کا نہیں آج سے چار سال پہلے کا بتا رہی ہوں جب ایچ ای سی بالکل سرگرم تھی۔ ایسے نام کی یونیورسٹیز اور ان سے ڈگری یافتہ طالب علم کس کام کے ہونگے۔ لازماً انہیں باہر جا کر زائد وقت لگانا پڑے گا۔ باہر تو الگ ایک قصہ ہے۔ یہاں سے نکلے ہوئے طالب علم، جامعہ کراچی کے طالب علموں کے سامنے احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی طالب علم آگے ترقی کرنے کے لئے چور راستے نکالتے ہیں، کیونکہ اپنی بقاء تو انہیں بھی چاہئیے ہوتی ہے یوں کرپشن کا نظام چلتا رہتا ہے۔
    بالکل اسی طرح، اسکالرشپس کا بٹوارہ بھی بہت کم میرٹ پہ ہو پاتا ہے۔ اسکی اپنی ہولناک کہانیاں ہیں۔ انہیں میں یہاں لکھ کر ضائع نہیں کرنا چاہتی۔
    اسی لئے میں ایسے موضوعات پہ کم لکھتی ہوں۔ وہ الگ رکھا ہے جو مال اچھا ہے۔
    ریاض شاہد صاحب، یہی تو مسئلہ ہے کہ محض کاغذوں پہ پی ایچ ڈی افراد کی گنتی دکھانا ہی اصل چیز نہیں۔ اس سے آگے کا مرحلہ سب سے اہم ہے اور وہ یہ کہ جن لوگوں پہ وسائل خرچ ہو رہے ہیں انکی صلاحیتوں کو استعمال بھی تو کیا جائے۔ کیاہم دوسرے ممالک کے لئے انسانی خام مال تیار کر رہے ہیں۔ اپنے ملک میں تو ہم انہیں پنپنے کا کوئ موقع نہ دیں۔ ان میں سے کوئ اگر قسمت سے باہر نکل جائے تو اپنی قیمت وصول کر لے۔ یہاں وہی حساب چلے کہ اندھا بانٹے ریوڑھیاں، اپنے اپنوں کو۔
    عمار ابن ضیاء۔ ہمم آپکی باتیں ساری درست ہیں میں نے نہ صرف جامعہ سے تعلیم حاصل کی ہے بلکہ وہاں بھی کچھ عرصے پڑھا کر شواہد اور حقائق کا ذاتی تجربہ لیا ہے۔ نہیں معلوم کہ جب اساتذہ کا سیلیکشن کیا جاتا ہے تو سلیکشن بورڈ کیا دیکھتا ہے۔
    تعلیم میں یہ تنزلی آہستہ آہستہ ہی آئ ہے۔ ورنہ ایک زمانے میں جامعہ میں باہر سے پڑھے ہوئے افراد کی بڑی تعداد تھی حتی کہ یہاں باہر سے لوگ پڑھنے کے لئے آتے تھے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ