Wednesday, April 13, 2011

الم نشرح

ایم کیو ایم  کے پنجاب میں جلسہ کرنے کے بارے میں مختلف قیاسات جاری تھے۔ میں اتوار بازار میں سبزی لے رہی تھی جب دو دوکانداروں کو جوش و خروش سے اس پہ  بات کرتے سنا کہ آج دیکھو پنجاب میں کیا ہوتا ہے۔ دماغ پہ زور ڈالا ، پنجاب میں ایسا کیا ہونے جا رہا ہے جس سے کراچی کے سبزی فروشوں کو دلچسپی ہو۔
جلسہ ہو گیا۔ اس بارے میں بھی مختلف خیالات ہیں۔ کچھ کے نزدیک ناکام تھا اور کچھ اسے کامیاب کہتے ہیں۔ ناکام کہنے والوں کے نزدیک اس میں لوگوں کی تعداد اتنی نہ تھی اور کامیاب کہنے والوں کے نزدیک اس جلسے سے ایم کیو ایم نے اپنی آواز تو پنجاب تک پہنچا دی ہے اور دوسرا یہ کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں اپنے علاقوں میں محدود ہوتی جارہی ہیں اور وفاق کی ترجمانی کرنے کے بجائے لسانی طبقوں کی نمائمندگی کرتی ہوئ نظر آتی ہیں۔ یہ ایک مثبت قدم ہے کہ ایم کیو ایم اپنی جنم بھومی سے نکل کر دوسرے علاقوں میں بھی قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے دوسری سیاسی جماعتوں کے بر عکس  لسانی سیاست سے آغاز کیا تھا۔
میں اس جلسے کی کامیابی یا ناکامی کے بارے میں کچھ کہنا نہیں چاہتی اور نہ ہی میں ایم کیو ایم کی اس حالیہ سرگرمی میں کوئ خاص دلچسپی رکھتی ہوں ۔ لیکن بحیثیت ایک  پاکستانی میں یہ ضرور جاننا چاہتی ہوں کہ ایم کیو ایم نے اپنے اس جلسے میں ایسی کون سی کشش  اپنے نئے متوقع ووٹروں کے لئے رکھی ہے جس سے وہ اپنے پرانے نظام کے پرانے گھاگ اور لسانی طور پہ قریب رہ نماءووں کو چھوڑ کر انکے پیچھے ہو لیں۔
سیاسی پارٹیاں ایسی کشش اپنے منشور کے ذریعے پیش کرتی ہیں۔
 پارٹی مینیفیسٹو یا منشور ایک بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ جس کی بد قسمتی سے ہمارے یہاں کوئ شناخت نہیں۔ ہماری سیاست، پارٹی منشور کے گرد گھومنے کے بجائے شخصیات کے گرد گھومتی ہے۔ سیاست کی اس طرز کی بناء پہ ہم جمہوریت کی اصل روح سے اب تک دور ہیں اور اس چلن پہ ہمیشہ دور رہیں گے۔
عوام کے ذہن کو چند رہ نماءووں کی شخصیت کا اسیر بنا لیا جاتا ہے اور اسکے بعد عوام کے  لئے ہر دروازہ بند اور رہنماءووں کے لئے ہر دروازہ کھلتا جاتا ہے۔
پاکستانی سیاست میں یہ چلن شاید ذوالفقار علی بھٹو کی 'شہادت' کے بعد زیادہ واضح طور پہ شروع ہوا۔ اس سے پہلے تحریک پاکستان میں قائد اعظم کی شخصیت  مرکز بنی رہی۔ قیام پاکستان کے وقت ہمارے پاس واضح طور پہ ایک منصوبہ موجود نہ تھا کہ نئ مملکت کس طرح کام کرے گی۔ قائد اعظم موجود تھے۔  نئ مملکت کے قیام کے تقریباً تیرہ ماہ بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور اسکے ساتھ ہی ہمارا شیرازہ بکھرگیا۔
آج کے پاکستان میں ہم اس بات سے واقف نہیں کہ مختلف پارٹیز کے منشور کیا ہیں۔ لیکن ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اس پارٹی کا کون سا شخص وہ طوطا ہے جس میں پارٹی کی جان ہے۔
یہ پیپلز پارٹی ہے۔ اسکے سربراہ زرداری ہیں جو سب پہ بھاری ہیں۔ انکا پلہ بھاری ہے کیونکہ خوش قسمتی یا بد قسمتی سے جسکا فیصلہ ہم آسانی سے نہیں کر سکتے انکے پچھلے تمام بڑے رہنما شہید ہو چکے ہیں۔ ان شہید رہنماءووں کے مزار پہ نئ سیاسی امنگیں رکھنے والے آشیرباد کے لئے حاضریاں دیتے ہیں۔ عوام اپنے ازلی مسائل کے حل کے لئے ان مزاروں پہ حاضر ہوتے ہیں شاید انہیں یاد دلاتے ہیں کہ کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ میرا اندازہ تو کہتا ہے کہ مردہ لوگ اپنے جسم کے ساتھ اپنی یادداشت بھی بھلا دیتے ہیں۔ لیکن اس بات کے لئے میرے پاس  کوئ ثبوت نہیں۔ وہ شاید یہ بھی یاد دلانا چاہتے ہیں کہ  جو مسائل اپنی زندگی میں حل نہیں کر سکے اسکے لئے اب آپکے پاس وقت ہوگا اب ذرا کوشش کر لیں۔ اس سے بہرحال ایک بات ثابت ہوتی ہے، عوام موت کے بعد کی زندگی پہ یقین رکھتے ہیں جبکہ رہ نما نہیں رکھتے۔
یہ مسلم لیگ ہے، اسکے اتنے ٹکڑے ہیں اوریہاں، وہاں، جہاں، تہاں گرے ہوئے ہیں کہ انہیں بھی شخصیات کی وجہ سے پہچانا جاسکتا ہے منشور کی وجہ سے نہیں۔ یہ مسلم لیگ نون ہے اسے پہلے ابا جی چلایا کرتے تھے آجکل سعودی حکومت کے تعاون سے چل رہی ہے۔ خوف خدا کوٹ کوٹ کر بھر دیا گیا ہے اس لئے پنجاب کی مڈل کلاس جو کہ مذہبی رجحان زیادہ رکھتی ہے انکی طرف مائل ہے۔ رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماعات کی برکت سے یہ جماعت اب تک پاکستان میں جمہوریت کا عمل سازگار رکھنے کی کوششوں میں سرگرداں فرینڈلی اپوزیشن کا کردار بحسن و خوبی ادا کر رہی ہے یہ جماعت  اپنے دو شریف بھائیوں کے اتحاد کا اعلی نمونہ پیش کرتی ہے۔ اس لئے ان سے امیدیں لگانے میں اتحاد پاکستان کی امید نظر آتی  ہے۔
یہ مسلم لیگ قاف ہے۔ پہلے اسے مشرف کی جماعت سمجھا جاتا تھا۔ پھر مشرف کو اڑنگا لگا کر گرانے والی جماعت سمجھا گیا، پھرقاتل لیگ کے نام سے مشہور ہوئ۔ آجکل نہ تین میں ہے نہ تیرہ میں۔ اسکی پہچان الہی خاندان کے دو سپوت ہیں۔ مشاہد حسین صاحب نے بڑی کوشش کی کہ انکا نام بھی ہوجائے، لیکن انکی گوری رنگت اور اچھے خاصے نین نقش کے باوجود دلہن وہی جو پیا من بھائے۔ ہر کسی کو خدا ایسی سحر انگیز شخصیت نہیں دیتا کہ لوگوں کا دماغ ماءوف ہو جائے۔ یہ امتحان بھی کسی کسی کا ہوتا ہے۔
یہ مسلم لیگ فنکشنل ہے، اسکے اس نام کی وجہ شاید پیر پگارا صاحب کی ذات ہے۔ اسّی سال کی عمر میں انکے سب سے چھوٹے جڑواں بچوں کی عمریں شاید پانچ چھ سال ہیں اس لئے اس کا نام فنکشنل رکھا گیا ہے۔ اپنے مریدوں کو جب زیارت کا موقع دیتے ہیں تو دیدار کا ٹیکس لیتے ہیں۔ مرید تحفوں سے لدے پھدے آتے ہیں اور دعاءووں سے سر سبز جاتے ہیں۔ اپنے بنیادی مسائل کو وہ پیر صاحب کی کرامت سے خدا کا لکھا سمجھ کر آسانی سے جھیل جاتے ہیں۔ جبکہ پیر صاحب نئے تعلقات استوار کرتے ہیں۔ مرید پیج پگارا کے نعرے لگاتے ہیں۔
یہ اے این پی ہے۔ کسی زمانے میں بائیں بازو کی سیاست کرنے والوں میں شامل تھی آج اسمگلرز اور مافیا کے مفاد کی نگرانی کرتی ہے۔  انکے پاس باچہ خان کی یادوں کے سوا کچھ نہیں بچا۔ سب اسمگلرز اور مافیا سمیٹ لے گئے۔ افسوس، باچہ خان شہید نہ ہوئے۔ اب انکی تصویر کسی رقّت آمیز نعرے کے بغیر استعمال ہوتی ہے۔
یہ تحریک انصاف ہے، سنا ہے کہ پنجاب کے نوجوانوں میں مقبول ہونے والی جماعت ہے۔ اگرچہ کہ اسکے لیڈر پنجاب یونیورسٹی میں پنجاب کے نوجوانوں کے ہاتھوں دھوکے سے پٹ گئے۔ لیکن  پھر بھی اپنی والدہ کی یاد میں بنائے جانے والے ہسپتال کو کامیابی سے چلانے اور کرکٹ میں پاکستان کو ایک دفعہ ورلڈ کپ دلانے کے احسان میں ان سے یہ مضبوط امید کی جاتی ہے کہ وہ پاکستان کی سیاست کا بھی نقشہ بدل دیں گے۔ انکا منشور تو دور انکی جماعت کے کسی اور عہدے دار سے بھی ہم واقف نہیں۔ عمران خان کی سحر انگیز شخصیت نے کسی اور کو سامنے آنے کا موقع ہی نہیں دیا۔
یہ ایم کیو ایم ہے، کراچی میں مڈل کلاس کی نمائیندہ جماعت۔ یہ پہلے مہاجر قومی مومنٹ تھی۔ اسکے وجود میں آنے کی وجہ یہ تھی کہ اس مملکت خداداد  کے جتنے بھی فرزند زمین تھے وہ وقتاً فوقتاً اپنی اپنی باری پہ یہ کہہ چکے تھے اور کہتے ہیں  کہ یہ ہم تھے جنہوں نے ان مہاجروں کو پاکستان میں جگہ دی، پناہ دی، احسان کیا۔ ان سب کو یہ یاد دلانے کے لئے کہ پاکستان اپنے وجود میں آنے سے پہلے ہندوستان تھا۔ اور اسے پاکستان بنانے کے لئے ایک لمبی جنگ لڑی گئ۔ ان علاقوں میں جہاں پاکستان نہیں بنا۔ تو اس بھولی بسری یادداشت کا ایک حصہ اس جماعت کی شکل میں آگیا۔  جب اسلحے، دنگے فساد اور طاقت میں یہ جماعت پاکستان کے دیگر فرزند زمین کے برابر آ گئ تو اب یہ چکر شروع ہوا کہ یہ تو لسانی جماعت ہے اور ہم تو سیاست کے ڈگری ہولڈرز۔  ایک دفعہ پھر اس جماعت کے مہاجروں نے قربانی دی اور اسکا نام متحدہ رکھنے پہ متحد ہو گئے۔ مسئلہ اب بھی حل نہیں ہوا۔ فریقین کے درمیان اب جھگڑا اس بات کا اٹھ کھڑا ہوا کہ نشانہ کس کا اچھا ہے۔ استاد کا یا شاگرد کا۔
اس جماعت کے اس نعرے سے مجھے بالکل تکلیف نہیں ہوتی کہ جفا کروگے، جفا کریں گے، وفا کروگے، وفا کریں گے، ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے جو تم کروگے وہ ہم کریں گے۔ کیونکہ سماجی سائینسدانوں کا یہ کہنا ہے کہ انسان سماجی جانور ہے۔  لیکن جب میں یہ نعرہ دیکھتی ہوں کہ ہم کو منزل نہیں رہنما چاہئیے۔ تو پھر یہ کہنے کو دل چاہتا ہے کہ اتنے وزن  کا نہیں چاہئیے۔ بات میں وزن ہونا چاہئیے، لیڈر میں نہیں۔ دوسرے یہ کہ جب تقریر کرے تو یہ فرق واضح ہونا چاہئیے کہ کوئ شیعہ ذاکر وعظ کر رہا ہے یا پاکستان میں انقلاب کی بات ہورہی ہے۔ تقریر کے درمیان دو جملوں میں اتنا لمبا وقفہ ہوتا ہے کہ لوگ کہتے ہیں قدرتی ضرورت سے فارغ ہونے گئے تھے۔ مجھے امید ہونے لگتی ہے اگلے جملے تک انقلاب برپا ہو چکا ہوگا۔ اس لئے فوراً رفو چکر ہو جاتی ہوں۔ ہمیشہ اگلے دن کے اخبار سے تقریر کا متن پتہ چلتا ہے۔  یوں دستک انقلاب، صرف الطاف پہ میں راضی نہیں۔ خیر،  آجکل انہیں بھی نعرہ انقلاب لگانے سے فرصت نہیں۔ انقلاب کیسے آئے گا اسکی کیا ترجیحات ہونگیں ، اس سے ہم لا علم ہیں۔
اچھا، یہ پاکستان کی مذہبی جماعتیں ہیں، ان کی خوشش قسمتی یہ ہے کہ انہیں منشور بنانے کی قطعاً کوئ ضرورت نہیں انکا منشور صرف اسلام ہے۔ بجلی کی کمی ہو، تعلیم کا بحران ہو، بے روزگاری ہو،، عوام کے لئے کسی صحت پالیسی کی عدم موجودگی، فضائ آلودگی، سیلاب و زلزلہ، پاکستانی خواتین کی بڑھتی ہوئ فحاشی، پاکستانی مردوں کا لمحہ ء فکر و پریشانی،    پاکستانی خواتین کا کاروکاری میں مرنا ہو  یا ایک بڑی تعداد کا چھاتی کے کینسر سے مرنا ہر مسئلے کا ایک جواب۔ الحمد للہ ہم نے ماضی میں بھی، ماشاللہ سے حال میں بھی اور انشاءاللہ مستقبل میں بھی اس عزم کا اظہار کیا ہے، کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے کہ صرف اسلام ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔ الحمد للہ، غیرت مند مسلمان ہمارے ساتھ ہیں۔
خوش قسمتی سے یا بد قسمتی سے وطن عزیز میں صرف طالبان ایسے ہیں جن کے منشور سے ہمیں آگہی حاصل ہے یعنی ہم تو دھماکے سے مر جائیں گے صنم تجھ کو بھی نہ چھوڑیں گے۔ یہ وہ ہیں جس پہ مرتے ہیں اسے مار رکھتے ہیں۔ انکی اس ادا پہ ایک طبقہ نثار ہے۔ لیکن ایک دفعہ پھر خوش قسمتی سے یا بد قسمتی سے طالبان اس سیاسی عمل پہ یقین نہیں رکھتے جسکے لئے منشور کی ضرورت پڑے۔
یہ سب باتیں آپکو پہلے سے پتہ ہونگیں۔ اپنے اپنے رجحان کے باعث کچھ کم ، کچھ زیادہ۔ لیکن اس مختصر جائزے کے بعد یہ اندازہ لگانے میں مشکل نہیں ہوتی کہ پاکستانی عوام کے بھولپن کی وجہ سے شخصیات کا تسلط قائم ہے اور اس طرح وہ چیز جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوئ سیاسی پارٹی عوام کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے کیا اسٹرٹجی اپنانا چاہتی ہے اسکی طرف جانے سے ان پارٹیز کی بچت ہو جاتی ہے۔
 ایسے ہی آج خیال آیا کہ کہ پارٹیز تو منشور بتانے سے قاصر ہیں کیوں نہ ہم عوام ہی ایک منشور ترتیب دے ڈالیں اور انکے حضور پیش کریں کہ جناب سوئیمبر رچانے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ ہمیں کیا چاہئیے۔ اس لئے شروع کرتے ہیں خدا کے با برکت نام سے۔  ایک دو تین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

16 comments:

  1. پاکستان میں ایک عدلیہ پارٹی بھی ہے جس کا منشور ہے سوموٹو۔۔ ان کے بارے میں کسی گلوکار نے کئی برس پہلے ایک گیت گایا تھا کہ
    ان سے نین ملا کے دیکھو
    یہ دھوکا بھی کھا کے دیکھو

    باقی تو جی آپ نے منظر کشی کر ہی دی ہے۔

    ReplyDelete
  2. زیادہ مزہ زبان اور انداز بیاں کا آیا۔

    ReplyDelete
  3. اوہ ہو آنٹی یہ کیا بات کر دی آپنے قائد کے بارے میں ، ابھی مصطفیٰ کمال آرہے ہیں آپ گھر سے باہر نہیں نکل سکیں گی ۔۔ قائد کی گستاخی۔۔ توبہ توبہ
    جو قائد کا گستاخ ہے وہ موت کا حق دار ہے

    ReplyDelete
  4. مضمون تو زبردست لکھا ہے،
    اور تمام سیاسی جماعتوں کا نقشہ بھی خوب کھینچا ہے،
    خاصکر اپنے لیڈر کے تقریر کرنے کے انداز پر مجھے بھی اعتراض ہوتا ہے مگر پھر سوچتا ہوں کیا کہہ رہا ہے اس پر غور کرنا چاہیئے کیسے کہہ رہا ہے کو چھوڑو!
    اگر بندہ سنسیئر ہو تو انداز تقریر کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے،کیا خیال ہے!
    :)

    ReplyDelete
  5. ننھے انکل ٹام، ابھی تک وہ نہیں آئے۔ اور اگر اگلے دو دن بھی نہ آئے تو کیا آپ انکی جماعت میں شامل ہونے جانے رہے ہیں۔ کیونکہ پھر بیشتر باتیں تو غلط ثابت ہو جائیں گی۔

    ReplyDelete
  6. راشد کامراں صاحب

    یہ دھوکا بھی کھانے والے کھا رہے ہیں۔ کچھ لوگ بسیار خوری کا شکار ہوتے ہیں۔ سوموٹو منشور تو مشرف کے استعفی دینے کے ساتھ ہی لپیٹ کر رکھ دیا گیا تھا۔ اب تو انہیں ہلا بھی ڈالیں تو آنکھ نہیں کھولتے۔ لگتا ہے دو گز زمین ملی ہوئ ہے یا اسکی دھمکی۔

    ReplyDelete
  7. پنجاب کی بھوکی ننگی عوام کو مشرف دور میں تو میں خود دیکھ چکا ہو کہ جوان بچَے دفاتر سے آٹے کے توڑے اور ڈالڈے کے ڈبے اٹھا لاتے ہیں۔ جس پر بھائی ڈنٹونک کا اشتہار بنے ہوتےہین۔ جہالت کی انتہا دیکھئے بعد میں بھائی کہیں کوڑے کا ڈبہ بنے ہوتے ہیں تو کہیں تپڑی۔
    باقی پارٹیوں کی طرح اگر بھتے کا پیسہ بجائے پنجاب کی عوام کو ڈالڈے اور آٹے دینے کے بجائے اگر خود پر ہی صرف کر لیا جائے تو کیا مضائقہ ہے؟
    باقی آجکل امریکہ میں بڑا شور سن رہے ہیں کہ اندر خانہ کھچڑی پک رہی ہے۔ عمران خان کی ایم کیو ایم سے ڈیل کرا دی گئی ہے بس اعلان باقی ہے۔ نہ جانے نہ جانے پنجاب سے پٹ جانے والا یہ بہادر اپنے شہسواروں کہ حلق سے کیسے نیچے اترے گا اگر کل کو ایم کیو ایم ہمیشہ کی طرھ اس کے ساتھ بھی مل گئی؟

    ReplyDelete
  8. :-)...

    شکر ہے کفر تو ٹوٹا۔۔۔

    ReplyDelete
  9. س کے پتے جھڑ گئے سارے
    شیدے شوکی ڈر گئے سارے
    دعوے سان پے چڑھ گئے سارے
    جسٹس وسٹس وڑ گئے سارے

    تو اے بھولے پاکستانی
    بھول کے سب کچھ کھوجا اب تو
    بند کر ٹی وی سو جا اب تو!

    ReplyDelete
  10. کاشیف نوازApril 14, 2011 at 7:55 PM

    اب جبکہ متّحدہ قومی موومنٹ نے پنجاب میں اپنی بھرپور موجودگی ناصرف دکھا دی ھے بلکہ اپنی عوامی مقبولیت اور پزیرائی بھی ثابت کردی ھے تو متّحدہ قومی موومنٹ کے نقّاد کیا کہتے ھیں اس بارے میں? . پہلے تو یہ الزام تھا کہ متّحدہ ایک لسّانی جماعت ھے اور کراچی سے باھر اسکا کوئی وجود نہیں۔ ...

    ReplyDelete
  11. ميں نے ساری تقارير سُنيں ۔ پڑھے لکھے لوگ ہيں اور درميانے طبقہ کی نمائندگی کا دعوٰی ہے جو کسی حد تک درست بھی ہے مگر ان لوگوں نے مايوس کيا ۔ وڈيرو کارخانہ دارو اب پيچھا چھوڑ دو کہنے سے تو کچھ نہ ہو گا ۔ پھر پنجاب والوں سے کہنا کہ بلوچستان کو بچا لو ۔ کيا کراچی بچا ليا گيا ہے جہاں وہ رہائش رکھتے ہيں ۔ کچھ دن قبل تک پنجاب اور پنجابی کو گالی بنايا ہوا تھا ۔ اب اس کا کيا مداوا کيا ہے ؟
    بات وہيں پر آ جاتی ہے کہ سياست ہے گندی چيز ۔ ہر ايک عوام کو بيوقوف بنانے پر تُلا رہتا ہے

    ReplyDelete
  12. آنٹی میں نے تو اسی قسم کے الفاظ استعمال کیے ہیں جو مصطفیٰ بھای نے ایک ٹاک شو میں ایک پنجاب کے شخص کو کہا تھا بلکہ کچھ تو ایسے تھے کہ میں استعمال بھی نہیں کر سکتا ، اور مصطفیٰ بھای نے تو یہ بھی کہا تھا کہ پنجاب میں تمہارے گھر کے باہر تم نکل نہیں سکو گے تم کراچی آو گے تو ایر پورٹ سے باہر نہیں جا سکو گے ۔

    اور میں تو مولویوں سے جتنا دور ہو سکتے رہنے کا سوچ رہا ہوں اور چونکہ قائد کے دادا مفتی تھے اسی لیے میں اس جماعت میں شامل نہیں ہو سکتا جسکے قائد کا دادا مفتی ہو ۔

    ReplyDelete
  13. پیارے انکل ٹام مجھے آپکی جماعتی وابستگی سے زیادہ ایک اور بات جاننے کی خواہش ہے۔ سچ سچ بتائیے گا۔ آپ پاکستان کے کس علاقے کو لندن کہتے ہیں جہاں آپکی پیدائیش ہوئ اور پرورش ہوئ ؟ امید ہے مایوس نہیں کریں گے۔

    ReplyDelete
  14. میں نے تو یہ کبھی نہیں کہا کہ میری پیدائش پاکستان میں نہیں ہوی ، بلکہ میری پیدائش پاکستان میں ہی ہوی ہے اور ایک بڑا حصہ زندگی کا پاکستان میں ہی گزرا ہے ۔

    ReplyDelete
  15. انکل ٹام، ہمارے چاند، آپ نے یہ بیان میری پوسٹ شکریہ پہ لکھا تھا۔

    جناب عبداللہ صاحب میں اصل میں پلا بڑھا ہی مغرب میں ہوں، اور تعلیم بھی یہیں سے حاصل کر رہا ہوں۔ معاشرے کی تبدیلی تو میرے اندر پاکستان جا کر آے گی ۔

    اس سے لگا کہ آپ نے اب تک پاکستان دیکھا نہیں۔ ورنہ شخصیت سازی کے عمل سے یہاں گذر چکے ہوتے۔ اب آپ کہہ رہے ہیں کپ آپکی زندگی کا بڑا حصہ یہیں گذرا ہے۔ کس کا یقیں کیجئیے کس کا نہ کیجیئے، لائے ہیں اسکی بزم سے یار خبر الگ الگ۔ لیکن مشکل ہی ہے کہ یہ یاروں کی لائ ہوئ نہیں آپکی کہی ہوئ ہے۔

    ReplyDelete
  16. وہاں پر میری مراد مخصوص موضوع سے متعلق شعوری تھی۔ شاید میں نے الفاظوں کا چناو ٹھیک سے نہیں کیا۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ