Tuesday, April 19, 2011

تُف ہے

خبر محض خبر نہیں ہوتی۔ ہر خبر اپنے معاشرے کی بہترین عکاس ہوتی ہے۔ جیسے آدم خور خاندان کی خبر۔ رپورٹ کہتی ہے کہ صرف دو تین لوگ نہیں بلکہ پورا خاندان مردہ انسانوں کو کھانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ عرصے سے یہ فعل انکے یہاں جاری تھا۔   خاندان کے ایک بچے نے کہا کہ ماں باپ کی علیحدگی کے بعد میرا باپ میرے جسم کے نازک حصوں کو مجروح کرتا تھا۔ بڑے ہو کر اسے لگا کہ اسکی مردانہ قوت کم ہے سو اس نے مردہ انسانوں کا گوشت کھانا شروع کیا۔ بہر حال  رپورٹ لکھنے والے صحافی کے خیال میں ابھی بھی یہ ایک معمہ ہے کہ وہ مردہ انسانی گوشت کیوں کھاتے تھے اور کیوں انکے ارد گرد کے لوگوں نے اتنے لمبے عرصے سے پولیس کو اسکی رپورٹ نہیں کی۔
 دوسری خبر اپنے بلاگستان سے ملی یہ لڑکیوں کے کنوارے ہونے سے متعلق ہے۔ جیسا کہ مجھے توقع تھی کہ یہاں پہ یہ ، یہ لوگ موجود ہونگے اور یہ تبصرے ہونگے۔ عین وہی ہوا۔ لیکن حیرانی مجھے وہاں موجود دو تبصروں پہ ہوئ۔
ایک عبداللہ نامی مبصر، جنہوں نے ایک دلچسپ سوال رکھا کہ خواتین کے کنوارے ہونے پہ جتنی دلچسپی دکھائ جارہی ہے اتنی مردوں کے کنوارے ہونے کے ٹیسٹ کے بارے میں کیوں نہیں ہے۔  یہ مخصوص قبائلی مزاج کا طبقہ اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ کیونکہ بات ہے سمجھ کی یہ وہی طبقہ ہے جو مردوں کی بے راہروی پہ تو فخر فرماتا ہے اور عورت کے حیادار ہونے پہ زور ڈالتا رہتا ہے۔
تف ہے ایسی ذہنیت پہ اور اسکو پروان چڑھانے والوں پہ۔ اور اگر کوئ منصف خدا موجود ہے تو اسے ایسے لوگوں کو انکے قرار واقعی انجام کا مناسب بندو بست کر کے رکھنا چاہئیے۔
خواتین کے کنوارپن کی شادی کے وقت تصدیق ہونی چاہئیے اور مردوں کی نہیں۔ انہیں چھوٹ ہے  وہ جتنے استعمال شدہ ہوں چاہے جائز یا ناجائز طریقے سے انکا کنوارہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ واہ، جناب واہ ، آپکی انہی اداءوں پہ درے لگانے کو دل کرتا ہے۔
دوسرا تبصرہ ایک ڈاکٹر صاحب کا ہے۔ حیرت ہے انہوں نے کس ادارے سے میڈیکل کی ڈگری لی ہے۔ میں پی ایم اے والوں سے گذارش کروں گی کہ وہ ایسے ڈاکٹرز کو جو مسیحا ہونے کے نام پہ دھبہ ہیں اور جو انسانیت تو دور اپنے علم سے ہی پوری طرح واقف نہیں انہیں اس طرح کی اہم ڈگریاں دینے سے گریز کرے۔
در حقیقت یہ بات کوئ بھی ڈاکٹر بتا سکتا ہے کہ خواتین کےکنوارے ہونے کے لئے جو خصوصیت بتائ جاتی ہے وہ جہالت پہ مبنی ہے اور بعض خواتین میں یہ محض معمولی بھاگ دوڑ سے ختم ہو سکتی ہے۔
 میرے علم میں بھی یہ بات داکٹر شیر شاہ کے ایک مضمون کے حوالے سے آئ جو نہ صرف پاکستان کے مایہ ناز گائناکولوجسٹ ہیں بلکہ دنیا کے ان بہترین سو گائناکولوجسٹس میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی کمیونٹی کی خواتین کی صحت اور ترقی کے لئے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔
اگر ڈاکٹر شیر شاہ جیسے لوگوں سے دنیا واقف نہ ہوں اور صرف اس بلاگ کے لکھنے والے سے یا اس  پہ تبصرہ کرنے والے مردوں سے ملے ہوں تو انکے نزدیک پاکستان صرف ایسے مردوں پہ مشتمل ہوگا جہاں حیوان رہتے ہیں۔
پردہ ءبکارت یا اس سے منسلکہ تمام متھس، قبائلی اقوام کی خصوصیت ہیں۔ صرف یوروپ کے قبائل ہی نہیں ، عرب کے بیشتر قبائل اور پاکستان کے بھی قبائلی علاقوں میں عورت کو اس امتحان سے گذرنا پڑتا ہے۔
البتہ جیسا کہ قبائلی اقوام کی شان ہوتی ہے مردوں کو نیکی کے کسی ایسے امتحان سے نہیں گذرنا ہوتا۔ وہ خدا کے پاس ایڈوانس میں نیکیاں جمع کرا کے آئے ہوتے ہیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ تم کنوارے ہوں تو جواب ملے گا کہ ہماری مرضی ہم بتائیں یا نہ بتائیں۔ سوال پوچھنے والا البتہ روشن خیال کی گالی سے نوازا جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ ان تمام قبائلی علاقوں کے مرد تو ہر طرح کی عیاشی کر سکتے ہیں مگر انکی عورتیں قابل ترحم زندگی گزارتی ہیں۔ وہ اپنے پوشیدہ امراض کے متعلق کسی عورت تک کو بتانے سے گھبراتی ہیں۔ کیا یہ بات قابل ترحم نہیں کہ ایک عورت اپنے پردء بکارت کا آپریشن کرانے بیٹھی ہو تاکہ اسکی قدر و قیمت برقرار رہے چاہے اسکے حصے میں آنے والا مرد دنیا کا اوباش ترین مرد ہو۔
اگر زانی مرد کسی عورت کے حصے میں آتا ہے تو قرآن کی یہ آیت دہرا دی جاتی ہے کہ زانیوں کے لئے زانی۔ حالانکہ زندگی کا ہلکا سا تجربہ رکھنے والے لوگ بی جانتے ہیں کیسی کیسی پردے دار متقی عورتوں کے شوہر کس قدر آوارہ نکلے۔ اور کیسے کیسے متقی مرد عورت کے معاملے میں آزمائے گئے۔ کیا واقعی یہ لوگ تفیہم قرآن سے واقف ہیں؟
  میں اس بلاگ کو پڑھ کر اسکے تبصروں کو جان کر اب تک حیران ہوں کیا جہالت کی کوئ انتہا ہو سکتی ہے۔ کوئ نہیں ہو سکتی۔ نیکی کی انتہا ہو سکتی ہے مگر بدی کی نہیں۔
حضرت عمر کے پاس ایک صاحب آئے اور کہنے لگے کہ میری بیٹی کنواری نہیں ہے اسکی شادی ہونے جارہی ہے کیا میں اسکے ہونے والے شوہر کے علم میں یہ بات لے آءوں۔ آپ نے فرمایا جس بات کا پردی اللہ نے رکھا اسے تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں۔ حتی کہ رسول اللہ نے اپنے آخری خطبے میں کہا کہ بچہ جسکے بستر پہ پیدا ہو گا اس کا کہلائے گا۔
صاحب بلاگ کی اس تحریر اور اسکے اعلی تبصروں کی وجہ سے اگر کسی عورت کی زندگی تباہ ہوتی ہے تو یقیناً اسکا گناہ ان سب لوگوں کے سر ہوگا۔ خدا ہمیں انفرادی دین کی اس برتری کے جذبے سے محروم رکھے جو معاشرے کو بدی کا گڑھ بنادیں۔   اللہ ہمیں لوگوں کی زندگی میں آسانی پیدا کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔
یہ وہ دعا ہے جو اکثر اشفاق احمد مرحوم مانگا کرتے تھے اور عجیب بات یہ ہے کہ اسکے سنگین تبصرہ نگاروں میں بابا اشفاق احمد کے چاہنے والے بڑی تعداد میں ہیں۔ ہائے نام نہاد عاشق، عاشق تو دور صرف انسان ہی بن جائیں تو بہت۔
اور ہاں،  اب ہمیں اس بات پہ تو قطعاً حیران نہیں ہونا چاہئیے کہ اس آدم خور گھرانے کی خبر ایک لمبے عرصے تک کیوں نہیں ہو سکی۔

26 comments:

  1. میں تو صرف یہی کہوں گا کہ قرآن کی آیت کے بعد نہ کسی اور ٹیسٹ کی ضرورت ہے نہ اہمیت۔ اگر آپ کو اپنی بیوی کے کنوار پن پر شک ہے تو قرآن کی آیت کی رو سے اپنے کردار کا جائزہ لے لیں اور پھر جس معافی کے خود خواستگار ہیں، اس میں اپنی بیوی کو بھی شامل کرلیں۔ اور عنیقہ بہنا سے یہ اختلاف بھی کروں گا کہ قرآن کی آیت جو ہے وہ برحق ہے۔ زانی کا نکاح زانیہ سے اور پاکیزہ کا نکاح پاکیزہ سے ہی ہوگا۔ زنا کی قسم میں اختلاف ہو سکتا ہے البتہ۔

    ReplyDelete
  2. آنٹی بہت معذرت کے ساتھ ۔ لیکن میں اس پوسٹ کا مقصد سمجھ نہیں سکا ۔ کہ آپ نے یہ پوسٹ کیوں کی ۔ کیونکہ وہاں پر موجود سب نے بارہ سنگھا سے الٹے کمنٹ کرنے پر ہی بات کی ہے ۔ کسی نے بھی ایسا کرنے یا عورت کو اس بنا پر ڈی گریڈ کرنے کی پزیرای نہیں کی ۔ بلکہ اسکی مذمت کی گئی ہے ۔ تو پھر آپ یہ پوسٹ کر کے کیا ثابت کرنا چاہ رہی ہیں ؟؟؟؟

    ReplyDelete
  3. مذکورہ پوسٹ بی بی سی کی سال پرانی خبر ہے جو غالباً حالیہ اعتراف زنا والی ویڈیو اور ننگے عربوں والی پوسٹ کو "کاؤنٹر" کرنے لگائی گئی ہے تا کہ وہ لوگ جو شرمو شرمی زانی والی پوسٹ پر چند جملوں میں کھسیانے تبصرے کر آئے ہیں .. انھیں کچھ ہلا گلا کرنے کو ملے۔ اب جہاں عورت کی شخصیت ، عصمت اور کردار کا ذکر آئے وہاں کیا بچہ کیا بوڑھا .. ہر آدمی چیمپئن ہے۔ چسکے کا الزام خواتین پر دھرنے والے خود مزے لینے میں شیر ہیں۔ جنسی جگت بازی میں وہ سب سے آگے ہے جس کے اپنے ہاں اولاد نہیں ہے۔ یہ صورتحال افسوسناک نہ ہوتی تو میں ان پہ قہقہے ضرور لگاتا۔
    خواتین کا ہائمن کس آسانی سے ضائع ہوسکتا ہے اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا ہے کہ ادھر مغرب میں مخصوص ساخت کی نشست والی ایسی زنانہ سائیکلیں فروخت ہوتی رہی ہیں کہ جو کم سے کم ضرب دیں۔ سکول کے ٹین ایجر بچوں کو سیکس ایجوکشن ورکشاپس میں جنسیات سے متعلقہ توہمات اور متھس سے آگاہ کردیا جاتا ہے۔ مجھے حیرت ہے ادھر بال بچوں والے درمیان عمر کے حضرات ان باتوں سے ناواقف ہیں ؟ قبائلی معاشرے کی تو بات ہی نہ کریں کہ جہاں سچ کو پرکھنے کے لئے دہکتے کوئلوں پر چلنے کی کسوٹی کا تصور ہو وہاں کسی جہالت پر حیرانی باقی نہیں رہتی۔ شمال مشرقی افریقی معاشروں بالخصوص صومالیہ کے مسلمانوں میں خواتین کے "ختنے" کروانے کی ایک ناقابل یقین قبیح رسم ہے۔ یہاں تک کے بیرون ملک مقیم والدین اپنی نومولود بچیوں کو صومالیہ لے جاکر اس فریضہ کا اہتمام کراتے ہیں۔ چھوٹی بچیوں کی شرمگاہ کے مقام پر ٹانکہ لگا دیا جاتا ہے۔ صومالی حضرات کے لئے اگر سہاگ رات کو خاتون کی شرمگاہ پر ٹانکہ ہوگا تو وہ کنواری اور باعصمت گنی جائے گی۔ بصورت دیگر ...!
    صومالی حضرات نے ابھی تک عضو تناسل کی عصمت کا کوئی ٹانکہ دریافت نہیں کیا۔
    رہا سوال زنا کا تو جس معاشرے میں زانی موجود ہے وہاں زانیہ موجود ہے ، زانیہ موجود ہے تو زانی موجود ہے۔ اس گناہ کی حثیت محض انفرادی نہیں بلکہ مرد عورت پر مشتمل معاشرے سے متعلقہ ہے۔ دین میں جہاں جہاں زانیہ کو تنبیہات ہیں وہیں زانی کا بھی ذکر ہے۔ لیکن ایک طبقہ اپنے تہذیبی اور مذہبی تصورات کو ایسے ترتیب دینے کے چکر میں رہتا ہے کہ جس سے اپنے فرائض سے صرف نظر کرتے ہوئے محض کمزور کو محکوم بنائے۔ مذکورہ طبقے کی ذہنیت کا کھرا یہیں جا کر کھلتا ہے جہاں اس کی بنیاد عورت کمپلیکس میں ہے۔ عورت کے عصمت و کردار پر ہردم گھلنے والے اپنے نفسیاتی تحفظات اور عورت کمپلیکس کا شکار ہیں۔ بندہ پوچھے .. پردے کا حکم اللہ نے قرآن میں خواتین کو مخاطب کرتے دیا ہے۔ خاتون کے کرنے نہ کرنے کا بار اُسی پر ہے .. کچھ غیر مرد کیوں ہردم اسی پر گھلتے ہیں؟ اپنی محرم خواتین کو سبق پڑھائیے باقی کی فکر بند کیجئے۔ مرد مسلم ہے تو عورت مسلمہ ہے۔ حقوق و فرائض دونوں کی طرف ہیں۔
    اسی بی بی سی کے سائٹ پر دو تازہ خبریں بھی توجہ کی منتظر ہیں۔ ایک جہاں پاکستان آرمی کی بنگالی عورتوں کے ریپ کا تذکرہ ہے اور دوسرے پچاس افراد کی بوٹیاں اُڑانے والے طالبانی مجاہدین کا انٹرویو۔ یہ دونوں خبریں ان کے سامنے رکھیں تو یہی لوگ اسی بی بی سی پر صہیونی ماخذ کا نعرہ بلند کرکے واقعات کے وجود ہی کا انکار کردیں گے۔
    مذکورہ ذہنیت کے منہ پر گرچہ وقتاً فوقتاً اس طرح طماچہ رسید کرنا ضروری ہے لیکن یہاں اس سے کہیں ذیادہ گھمبیر مسائل درپیش ہیں۔ لہذا تف کے ساتھ لعنت بھیجیں اور آگے پیش قدمی کریں۔

    ReplyDelete
  4. انکل ٹام، بہت خفیہ طریقے سے اسکی مذمت کی گئ۔ اس کا پتہ آپکو یہاں وہاں موجود جماعت کو ہی پتہ چلا۔ دیگر پڑھنے والوں نے سوچا کہ ایسا کیا اہم موضوع ہے کواتین کے متعلق کہ آدھے درجن مومن مرد اس پہ اپنی معلومات کا اظہار کر رہے ہیں، روشن خیالوں کو گالیاں دت رہے ہیں اور ایک اور مبصر کو کہہ رہے ہیں کہ تم کر لو ایسی عورت سے شادی جو کنواری نہ ہو۔
    اور کچھ لرکوں کے ساتھ آپ جیسے بچوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ تو مرد بچوں کے لئے ایسی گفتگو میں حصہ لینا ایک دم عین اسلام ہے۔
    میں کیا کرونگی جو اس پوسٹ کو پڑھے گا اسی پہ ثابت ہوگا کہ ایک خاص طبقے کی عمومی سوچ کیا ہے۔

    ReplyDelete
  5. خرم صاحب، قرآن کی یہ آیت خاصی لمبی ہے اور مختصراً یہ کہا جاتا ہے کہ برے مردوں کے لئے بری عورتیں ہیں۔ لیکن عام زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک نیک مرد یا نیک عورت کی شادی بھی کسی بد کردار شخص سے ہو جاتی ہے۔
    سو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اگر ایک شخص برا ہے تو اسکے حصے میں ایک برا شخص آئے گا یہ درست نہیں ہے۔
    دوسری طرف عثمان کی یہ بات بالکل درست ہے کہ زنا کا عمل دو فریقوں کے ساتھ مکمل ہوتا ہے۔ معاشرہ اگر ایک فریق کو کھلی چھٹی دے اوردوسرے کو باندھ کر رکھے تو اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا۔
    بالخصوص ایسے حالات میں جہاں خواتین، کو جان بوجھ کر اپنے ماحول سے اور خود اپنے آپ سے بے خبر رکھا جاتا ہے وہاں خواتین کے بے وقوف بننے یا نقصان میں رہنے کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔
    اس خبر سے صرف عرب معاشرے کی تنزلی سامنے آتی ہے۔ عرب مرد دنیا بھر میں اپنی عیاشیوں کے لئے مشہور ہیں وہاں اگر عورتیں ایسا آپریشن کرانے کو بیٹھی ہیں تو یہ اس معاشرے کے دوغلے پن کو ظاہر کرتا ہے۔
    اس پہ تو کسی نے حرف نہ اٹھایا، اگر انہیں بات کرنے کا شوق تھا تو اس پہ حرف اٹھاتے۔ نہیں جناب۔ کسی نے یہ تک زور نہ دیا کہ یہ بنیادی طور پہ یہ جہالت ہے۔ اور ہر جاہل معاشرے کی علامت۔ سب اپنی اپنی جانبدار معلومات کے خزانے لٹانے بیٹھ گئے۔

    ReplyDelete
  6. اور ابھی ابھی میں اردو سیارہ پہ پاکستانی اسکولوں میں سیکس ایجوکیشن پہ پڑھ کر آرہی ہوں۔ اول تو اپکستانی اسکولوں میں کس جگہ سیکس ایجوکیشن ہوتی ہے اس سے میں کراچی کی حد تک تو لا علم ہوں دوسرے اپنی بلاگی دننیا کہ ان ہیروز کی معلومات کو دیکھوں ، یہ بغیر سیکس ایجوکیشن کے اتنی شاندار ہیں کہ انہیں باقاعدہ تعلیم کی کیا ضرورت ہے۔ ان میں سے ہر ایک اس موضوع پہ بولنے اور لکھنے کو بے تاب ہر ایک کے پاس شاندار معلومات اور شور اس بات کا کہ جناب اسکولوں میں اسکی تعلیم نہ دی جائے۔ دوغلا پن تو یہاں آ کر نجانے شروع ہوتا ہے یا ختم۔

    ReplyDelete
  7. آپ کی يہ تحرير کيتلی ميں اُبال کو طوفان کہنے کے علاوہ کچھ نہيں ۔ آپ تبصرے لکھنے والوں کے نام ديکھ کر حواس کھو بيٹھيں کيونکہ وہ لوگ آپ کی تحارير کی غلطياں عياں کرتے ہيں ۔ جو کچھ آپ نے ڈاکٹر شير شاہ کے حوالے سے لکھا ہے اس کی اساس وہاں تبصروں ميں موجود ہے ۔ ڈاکٹر جواد صاحب کو آپ نے جاہل قرار دے کر پی ايم اے والوں کو ان کے خلاف کاروائی کا حکم بھی دے ديا ۔ آپ نے اتنا سوچنا بھی مناسب نہ سمجھا کہ ڈاکٹر جواد کی تعليمی اور تجرباتی قابليت کيا ہے اور وہ رہتے کہاں ہيں ؟
    اپنے اعتقادات اور غصہ کو ٹھنڈا رکھ کر پڑھا کيجئے تاکہ آپ کو سمجھ آئے کہ لکھا کيا ہے ۔ آپ دوسروں کے لکھے کو بھول کر اپنے دماغ کا غُبار نکانے کی عادی ہيں ۔ ايسا طريقہ پڑھے لکھے آدمی کو زيب نہيں ديتا

    ReplyDelete
  8. بہت ادب کے ساتھ عرض ہے کہ مجھے اپکی ایک بات سے اختلاف ہے۔
    "خرم صاحب، قرآن کی یہ آیت خاصی لمبی ہے اور مختصراً یہ کہا جاتا ہے کہ برے مردوں کے لئے بری عورتیں ہیں۔ لیکن عام زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک نیک مرد یا نیک عورت کی شادی بھی کسی بد کردار شخص سے ہو جاتی ہے۔
    سو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اگر ایک شخص برا ہے تو اسکے حصے میں ایک برا شخص آئے گا یہ درست نہیں ہے۔"

    پہلے تو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ معافی کا دروازہ ہر کسی پر کھلا ہے اور ہم نہیں سمجھ سکتے کہ جب کسی لڑکی اور لڑکے کی شادی ہوئی تو اس وقت کون بد کردار ہے اور کون نہیں۔۔
    اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ اللہ کسی بد کردار کو شادی کی پہلی ہی رات با کردار کر دے چاہے لڑکی ہو یا لڑکا۔۔
    میں کون ہوں جو ایسا فیصلہ کر سکوں کہ فلاں بد کردار تھا اور اس کی شادی فلاں با کردار سے ہو گئی
    اللہ کی مصلحتیں بھی ہوتی ہیں۔۔
    اور لوگوں کے کردار کو ہم اپنے معیار پر جج کرتے ہیں ، سنی سنائی باتوں پہ ۔۔ اور اکثر تو انکھوں دیکھی بھی غلط ہوتی ہیں ۔ اور اسکی بنیاد فقط ہمارے زاتی معیار ہوتے ہیں

    لیکن مجھے اعتراض اپ کی اس بات پہ ہے کہ آپنے کہا کہ بظاہر ایسا نہیں لگتا ، قرآن حرف آخر ہے ، اور حرف آخر کے سامنے بظاہر بہت معمولی لفظ ہے۔۔
    اگر ہماری اپنی دانست اتنی اونچی نہیں ہوئی کہ وہ الہامی باتوں کو سمجھ سکے تو اس کا قطعآ یہ مطلب نہیں کہ ہم انکو یہ کہنا شروع کر دیں کہ ہمیں نہیں لگتا ایسا۔۔
    مجھے معلوم ہے کہ اپ کے زہن میں کچھ غلط نہیں ہے لیکن کچھ مجھ جیسے کم فہم بھی اپکے بلاگ پہ آتے ہیں
    جو ایسی باتوں سے با آسانی گمراہ ہو سکتے ہیں۔ اور اپنے مشاہدے کی بنیاد پر عقائد کو رد کرنا شروع کر سکتے ہیں۔۔

    اگر اپکے موقف کو سمجھنے میں غلطی کی ہو تو معزرت ۔۔
    لیکن میں اگر اس بلاگ کا قاری ہوں اور کوئی بات غلط انداز میں سمجھ رہا ہوں تو صاحب بلاگ کو ایسی زبان اختیار کرنی چاہیے کہ مجھ سا جایل بھی بات کو صحیح طور سمجھ سکے

    ReplyDelete
  9. بلا امتیاز صاحب، میں نے یہی کہنے کی کوشش کی ہے کہ لوگ اس آیت کا یہ مطلب نکالتے ہیں وہ دسرست معلوم نہیں ہوتا۔ سو میں اسکے الہامی نہیں انسانی ذریعے کی بات کر رہی ہوں۔
    افتخار اجمل صاحب، میں نے خواتین کے بارکرہ ہونے پہ کیا چیز لکھی جو میری غلطیاں نکالی گئیں اور اس پہ مجھے ابال آیا۔ آپ سمیت کون لوگ ہیں جو میری غلطیاں بڑی کامیابی سے نکالتے ہوں۔ یہ لوگ نکالیں گے جو آج بیوی کے شرعی فرائض، عورت کے کنوارے پن، عورتوں کے پردے، عورت کی وجہ سے بے حیائ، عورت کے لباس اور اسکے اسکارف سے باہر کچھ نہیں لکھ پاتے۔
    ان جیسے لوگوں کو دراصل مجھے موضوع گفتگو بھی نہیں بنانا چاہئیے۔ میں تو صرف اس لئے بناتی ہوں کہ ابھی یہ روش خیالی کو رو رہے تھے اور اب ایسی باتوں پہ بحث کر رہے ہیں کہ روشن خیال انکے شاگرد ہو جائیں۔
    آدھے درجن مرد جنکی اکثریت غیر شادی شدہ ہے اور جن میں ایک صاحب تو اپنے آپکو نابالغ حدوں میں شامل رکھتے ہیں یہ سب مل کر خواتین کی بکارت جیسے اہم موضوع پہ بیٹھ کر ڈسکشن فرمائیں اور اس میں غلط باتوں کو حوالے دیکر روشن خیالی پہ افسوس فرمائیں آپکو یہ بالکل درست عمل لگتا ہے۔
    قبلہ، آپکی بات تو لگتا ہے مذاق میں کہی گئ ہے۔ کیا میں آپ سے پوچھ سکتی ہوں کہ اس اپنے تئیں دیندار طبقے کو ایسی کون سی مصیبت آ پڑی کہ ایسے اہم موضوع کو چنا گیا۔ بات یہی تک ہوتی تو واہ۔ مزہ تو اس وقت آیا کہ جب یہ اپنے رنگ میں بھنگ ڈالنے والے مبصر کی بات برداشت نہ کر سکے۔ اور اس بے چارے کو بھی ہمیشہ کی طرح رگیدنے کے لئے تیار ہو گئے۔ یہ مبصر تو اب ایک خآص طبقے کو پہچاننے کے لئے ایسڈ ٹیسٹ بنتا جا رہا ہے۔
    اور یہ میں نے ڈاکٹر جواد احمد خان کے متعلق نہیں کہا اور بھی ڈاکٹر ہیں ہماری اس دنیا میں۔ اگر وہاں ڈاکٹر جواد احمد خان بھی شامل ہیں تو مجھے ان پہ بھی افسوس رہے گا۔
    آپ بھی ان لوگوں میں ہیں جنہیں اس معاشرے میں پھیلتی ہوئ بے حیائ کی بڑی فکر ہے۔
    جب یہ بچے اور جوان پروفیسر گوندل سے سیکسوئل تعلیم حاصل کرتے ہیں اور انکی ایسی باتوں پہ مرحبا کہتے ہیں تو آپ مجھے بتائیے کہ اگر حکومت پاکستان تعلیمی اداروں میں سیکسوئل تعلیم دینے کا عندیہ دیتی ہے تو پھر اس طبقے کو پھیلتی ہوئ بے حیائ کیوں نظر آتی ہے۔
    میں جن بنیادی باتوں پہ معترض ہوتی ہوں وہ یہ کہ دنیا بھر کی باتوں کو چھوڑ کر آپ خواتین سے متعلق ایسی چسکے دار باتوں میں ایک مزہ حاصل کریں اور دوسری طرف آپ دین کے ٹھیکے دار بھی بنے رہیں۔
    خوب۔
    ایک طرف خواتین کی عصمت جیسے نازک موضوع کو کھول کر بیٹھیں اور دوسری طرف مردوں کے جنسی بے راہ روی کو موضوع گفتگو نہ بنانا چاہتے ہوں۔ یہ بھی خوب۔
    ان آدھے درجن مردوں اور ان سے اتفاق رکھنے والے لا تعداد دوسرے مردوں کو خواتین کے متعلق بات کرتے وقت کم از کم ایک پاکستانی خاتون کا مءوقف سننا پڑے گا اور وہ میں ہوں۔

    ReplyDelete
  10. عنیقہ .. آپکی لکھی ہوئی تحریریں میں بہت پسند کرتی ہوں .. مجھے نہیں معلوم لڑکوں کو آپ سے کیا ویر ہے . مگر میں نے نوٹ کیا ہے آپ صیح اور سچ لکھتیں ہیں .. مجھے بھی آپ اپنے ساتھ .. عبداللہ . اور عثمان کے ساتھ سمجھئیے ..
    آپ بہت اچھا لکھتیں ہیں ... دعا ہے کہ لکھتی رہئیے :)

    ( b)

    ReplyDelete
  11. میں تو صرف یہ ہی کہوں گا کہ میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں نابالغ ہوں اور آپ میرا وہاں تبصرہ پڑھیں پھر بات کریں ، بغیر میری بات کو پڑھے اندازے لگانا ٹھیک نہیں ہے ۔

    ReplyDelete
  12. خواتین اور مرد حضرات میں جنسی تحریک کی ترغیب، ماخذ اور طریقے دونوں جنسوں میں مختلف ہیں۔ جسم پہ انکا اثر بھی مختلف ہے۔
    یہ ایک عذر لنگ ہے جو کچھ مرد اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لیئے تراشتے ہیں،
    ورنہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم مرد نہیں تھے یا ان کے صحابہ اکرام مرد نہیں تھے؟؟؟؟؟
    میرے والد اور مجھ سمیت میرے بھائی مرد ہیں،مگر ان سے کوئی شیطانی حرکت محض اس لیئے سر زد نہیں ہوئی کہ ان کے والدین اور ہمارے والدین نے ہمیں وہی شرم و حیا کا سبق پڑھایا جو ہماری بہنوں کو پڑھایا گیا،اور الحمد للہ ہمارے کوئی چچا ماموں یا بڑے بھائی کبھی اپنے رتبے سے نیچے نہیں گرے،اس لیئے
    حقیقت یہی ہے کہ لڑکا یا لڑکی جب ہی برے ہوتے ہیں جب انہیں برائی کی سنگینی کا اور اس کی جواب دہی کااحساس نہیں رہتا،باقی سب عذرلنگ ہے اوربقول عنیقہ قبائلی ذہنیت کی باتیں ہیں!!!!!
    ضیاء ایک عورت اگر اس قسم کے آپریشن کروا رہی ہے تو اس کے ذمہ دار بھی ہم مرد ہی ہیں، ہم عورتوں کے لیئے پاکی کے وہ میعار مقرر کرتے ہیں جن پر ہم خود پورا اترنا نہیں چاہتے،
    کچھ احمقوں کا‌خیال ہے کہ عورت ایک نازک چیز ہے اور یہ نزکت اس کی خرابی ہے،
    عورت کی نزاکت کو اس کی کمزوری سمجھ کر ہی قبائلی معاشرے وہ تمام قوانین وضع کرتے ہیں جو رفتہ رفتہ پورے معاشرے کو تباہی کی راہ پر ڈال دیتے ہیں اور اس کی بڑی مثال ہمارا معاشرہ ہےکہ جہاں اسلا م کا ڈھنڈھورا پیٹنے والے عورت کے ساتھ ساتھ کس طرح اسلام کو بھی ایبیوز کررہے ہیں،اوراس پر فخر بھی فرماتے ہیں!
    عنیقہ کچھ لوگ اس سارے معاملے کو لڑکوں اور لڑکیوں کے ہارمونز میں فرق پر ڈال کر بری الزمہ ہوجانا چاہتے ہیں،ذرا ایک سائنسداں ہونے کی حیثیت سے آپ اس پر کچھ روشنی ڈالیں گی

    ReplyDelete
  13. آپ "ہم چناں ديگرے نيست" کی مجسم مثال ہيں ۔ آپ مايوس کُن حد تک تعصب اور گمراہی کا شکار ہيں اور نفسياتی مريض محسوس ہوتی ہيں ۔ ميں دين کے حوالے سے نہيں کہہ رہا
    آپ کو عبداللہ صاحب کی بات پر تنقيد نے پريشان کر ديا اور آپ آپے سے باہر ہو گئيں ۔ يہ کوئی پہلی بار نہيں ماضی ميں بھی بہت دفعہ ايسا کر چکی ہيں ۔ اگر عبداللہ صاحب کا سوال درست ہے تو آپ بتا ديجئے کہ شادی سے پہلے کيسے بتايا جائے کہ مرد کنوارہ ہے ؟
    آپ يہ بھی نہيں سوچ سکتيں کہ اسلامی معاشرہ بن جائے تو جب عورت بدکاری کی وجہ سے پکڑی جائے گی تو اُسے بتانا پڑے گا کہ اس کا کنوار پن ختم کرنے والا مرد کون ہے ۔ اس کے نتيجہ ميں کم از کم ايک مرد زانی ثابت ہو جائے گا ۔ مگر آپ تو اسلامی فلسفہ حتٰی کہ قرآن شريف کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتی ہيں
    اب آپ جاويد گوندل صاحب پر برس پڑی ہيں ۔ آپ کو احساس ہی نہيں ہوتا کہ آپ کہہ کيا رہی ہيں ۔ کيا جانتی ہيں آپ جاويد گوندل صاحب کے علم و عمل کے بارے ميں ؟ کچھ بھی نہين ورنہ آپ اتنی زبان درازی نہ کرتيں

    اللہ آپ کو بغز سے پاک کرے اور عقلِ سليم عطا فرمائے ۔ وما علينا الابلاغ

    ReplyDelete
  14. افتخار اجمل صاحب،آپکی دلیل کو سامنے رکھوں تو آپکو اس لئے افسوس ہوا کہ آپکے عالم گوندل صاحب کی شان میں گستاخی ہو گئ۔ آپ ہی کی دلیل کو سامنے رکھوں تو آُ میرے متعلق کیا جانتے ہیں کہ اتنے گمراہ کن بیانات دیتے ہیں اور آپکے متوقع جواب کو سامنے رکھوں تو کہہ سکتی ہوں کہ گوندل صاحب کے علم اور انکے عمل کو ایک عرصہ دیکھنے کے بعد انکی شان میں یہ گستاخی کی ہے۔
    عبداللہ نہ ہوئے، غالب ہو گئے کہ انکی شاعری کو برا کہنے والے سے ناراض ہو جاءووں۔ میرا خیال ہے کہ ہم سب ان خیالات کے لئے کافی بڑے ہو گئے ہیں۔ سوائے ان لوگوں کو جو کبھی بڑا نہیں ہونا چاہتے۔
    کیا آپکی لغت میں زبان درازی اور اس قماش کے الفاظ میرے لئے مخصوص ہیں۔ اگر آپکے اس روئے کو دیکھوں اور آپکی لغت استعمال کروں تو آپ ہمیشہ کی طرح ایک دفعہ پھر اپنے تعصب کا اظہار کر رہے ہیں اور جذباتی ہو گئے ہیں۔
    مجھے ہی نہیں کسی بھی عام اوسط درجے کے مسلمان کو اس اسلام سے دلچسپی نہیں ہو سکتی جو عورت، اسکی حیا اور اس سے پیدا ہونے والے زنا کے گرد گھومتا رہے۔ میں تو سمجھتی ہوں انگریزی، انڈین فلموں یا فحش رسائل کی جگہ یہ دین کا سہارا لینے والے ہوتے ہیں جو زنا اور اسکے لوازمات کا سب سے زیادہ تذکرہ کرتے ہیں۔
    جی ہاں میرے لئے یہ دلچسپی کا امر ہے کہ جب بات مرد اسکی حیا اور اس سے ہونے والے زنا پہ آتی ہے تو کیسے ریورس گیئر لگتا ہے اور جواب دینے والے یہ کہتے ہیں کہ تم لے آءو ایسی عورت شادی کر کے اپنے گھر جو باکرہ نہ ہو۔
    مجھے تسلیم کرنا چاہئیے کہ عورت کی بکارت ایک اہم موضوع ہے۔ خاص طور پہ نوجوان غیر شادی شدہ مردوں کو اس سے آگاہ ہونا چاہئیے کہ کس طرح ایک بے کار اور غلط نظریہ غیرت کا مسئلہ قرار پاتا ہے۔ اور گوندل صاحب کی اس خدمت کے عیوض ایک بلاگ انکے علمی کام پہ بنا دینا چاہئیے۔
    لیکن مجھے ہمیشہ کی طرح کچھ لایعنی اعتراضات ہیں۔ مثلاً یہ کہ کیا پاکستان اور عالم اسلام میں ان عورتوں کی ایک معقول تعداد پیدا نہیں ہو گئ ہے جو اپنے مسائل کو جان سکیں اور انکے حل کے لئے کوشاں ہوں۔ کیا ایک عورت اپنے جسمانی اور روحانی مسائل کو زیادہ سمجھتی ہے یا خود ساختہ دیندار مردوں کا ایک طبقہ اسے زیادہ جانتا ہے۔
    جبکہ اگر ہم پاکستان کے شہروں کی دیواروں پہ نظر ڈالیں تو وہ مردوں کے زیادہ سنگین مسائل پیش کرتی نظر آتی ہیں جن پہ اب تک حکیموں کے علاوہ کسی کی نظر نہیں گئ۔ یہ حیا سوز منظر نہ کسی کو مٹانے کی توفیق ہوتی ہے اور نہ ان مردوں کے مسائل حل کرنے کی کسی کو توفیق ہوتی ہے۔ کیا ہم امید کریں کہ ان مردوں کے مسائل پہ بھی انکے طبقے کی نظر جائے گی یہ مسائل بھی کچھ کم چٹپٹے نہیں ہیں۔
    آپ اپنے اس طبقے کے متلعق کبھی منفی رائے نہیں دے پاتے۔ کیا اسکی وجہ سے میں بھی آپکو متعصب قرار دے ڈالوں۔ نہیں میں ایسا نہیں کرتی۔ آپ اس طرح کر کے ہمیشہ حق رفاقت ادا کرتے ہیں جو کہ ایک خاصی مثبت چیز ہے۔
    کیا آپ یہ تحریر اپنی قریبی خواتین کو فارورڈ کرسکتے ہیں اگر ہاں تو انکی رائے ضرور جانئیے گا۔ کیا اس پہ موجود علمی تبصرے سے آپ چاہتے ہیں کہ آپکا قریبی نو عمر لڑکا ضرور واقفیت حاصل کرے۔ کیونکہ یہ اسکی زندگی میں مثبت تبدیلیاں پیدا کرے گی۔
    اگر نہیں تو پھر اپنے تعصب سے باہر آجائیں۔
    گمنام خاتون، ان لڑکوں کو مجھ سے کیوں بیر ہے۔ وہ تو یہ تائثر دیتے ہیں کہ وہ دیندار ہیں جبکہ میں نہیں۔ وہ حیا پہ یقین رکھتے ہیں اور میں بے حیائ پہ۔ وہ معاشرے میں صالح خصوصیات چاہتے ہیں اور میں نہیں۔ تو یہ بیر کافی نظریاتی قسم کا لگتا ہے۔
    یہی وجہ ہے کہ مہینہ بھر پہلے وہ حجاب دار خواتین کے لئے اپنے دلی احترام کا اظہار کرتے ہیں اور مہینہ بھر یہ سب مل کر خواتین کی بکارت جیسے اہم مسئلے پہ تبادلہ ء خیال۔

    ReplyDelete
  15. ویسے تو آپ نے بابا جی کو خاصا آئینہ دکھادیا ہے جس میں انہیں اپنی ذہنی بدصورتی صاف نظر آجانی چاہیئے ،
    کہ وہ جو کچھ دوسروں کے بارے میں ارشاد فرمارہے ہوتے ہیں وہ تمام برائیاں خود ان میں سامنے والےسے کئی درجہ زیادہ موجود ہیں،مگر مسئلہ وہی ہےکہ اب اس عمر میں کیا خاک مسلماں ہوں گے،
    ان سے تو ان کی اپنی اولاد مایوس ہوچکی ہے،پہلے انکا بیٹا ان کی غلط باتوں کی تصحیح کیا کرتا تھا ،اب تو اس نے بھی انہین ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے،
    ضیاء کی تحریر پر موجود گھٹیا اور غلیظ تبصروں پر انہیں کوئی اعتراض نہ تھا ،مگر میرے پوچھے گئے سوالات پر اسقدر اعتراض تھا کہ ایک عدد گھٹیا سا لطیفہ لکھنا لازمی سمجھا جو ان ہی پر ہو بہو فٹ ہوتا ہے اور اس وقت انہیں نہ اپنی عمر یاد آئی نہ بزرگی،
    جب بزرگ ایسے ہوں توان کی پیروی کرنے والے نوجوان تو ویسے ہی ہوں گے نا،
    گوندل اوریہ صاحب کی مثال، میں تیرا حاجی بگوئم تو میرا حاجی بگو والی ہے،
    ،اگر کوئی حاجی کی جگہ پاجی پڑھنا چاہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں،
    :)
    باقی تفصیلات جنہیں درکار ہوں وہ اس لنک پر جاکر حاصل کر لیں
    http://zhasankhan.blogspot.com/2011/04/blog-post_18.html

    ReplyDelete
  16. افتخار صاحب کا تحریر کردہ لطیفہ پڑھہ کر مجھے بھی افسوس ہوا، یہ ہی بات کوئی اور بیہودہ انسان کرتا تو مجھے تعجب نہ ہوتا کے کچھہ لوگوں کی ذہنی سطح اتنی محدود ہوتی ہے کہ وہ انہیں بیہودگی سے اوپر اٹھنے ہی نہیں دیتی، جس جس نے بھی وہاں جو جو تبصرے کیئے ہیں وہ خود اپنا احتساب کرلے کے اگر یہ تبصرے اسے اپنی اولاد، بہن، بھائی، یا ماں باپ کو پڑھوانے پڑ جائیں تو کیا وہ پڑھوا سکے گا؟ اگر کسی کے اپنے گھر والے اسکا بلاگ یا تبصرے نہیں پڑھتے تو کم از کم اس بات کا ہی خیال کرلے کو دوسروں کے گھروالے ضرور انکا بلاگ اور تبصرے پڑھتے ہیں۔ غالب بچپن میں محلے کی گلی میں کنچے کھیل رہے تھے کہ اچانک وہ بھاگے تو بھاگتے ہوئے ایک صاحب سے ٹکرا گئے جو کے کافی ضعیف تھے، وہ صاحب لگے غالب کو گالیاں دینے اور اول فول بکنے کے اندھے ہو دیکھہ کر نہیں چلتے بزرگوں کا احترام نہیں کرتے، غالب نے سر سے پاوں تک بغور انکا جائزہ لیا اور کہا کے بڑے میاں بوڑھے ہوئے ہو بزرگ نہیں۔

    ReplyDelete
  17. بابا جی کا سوال تھا،
    اگر عبداللہ صاحب کا سوال درست ہے تو آپ بتا ديجئے کہ شادی سے پہلے کيسے بتايا جائے کہ مرد کنوارہ ہے ؟

    انتہاء ہے ،کس کی ،یہ آپ خود سمجھ لیں!
    یہاں سوال مردوں کا کنوار پن جانچنے کا نہیں بلکہ عورتوں کو کنوار پن کی جانچ کی سولی پرلٹکانے کا ہے،
    جس پاکیزگی کی ڈیمانڈ ہم عورتوں سے کرتے ہیں،ہمیں خود بھی اس پرکاربند ہونا لازم ہے،اور اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہمیں دوسروں پر انگلی اٹھانےکا بھی کوئی حق حاصل نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
    آگے فرماتے ہیں،
    آپ يہ بھی نہيں سوچ سکتيں کہ اسلامی معاشرہ بن جائے تو جب عورت بدکاری کی وجہ سے پکڑی جائے گی تو اُسے بتانا پڑے گا کہ اس کا کنوار پن ختم کرنے والا مرد کون ہے ۔ اس کے نتيجہ ميں کم از کم ايک مرد زانی ثابت ہو جائے گا ۔ مگر آپ تو اسلامی فلسفہ حتٰی کہ قرآن شريف کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتی ہيں
    سوال یہ ہے کہ عورت ہی کیوں بدکاری کیوجہ سے پکڑی جائے مرد کیوں نہیں؟؟؟؟
    کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس معاملے میں اصل قصوروار ہمیشہ مرد ہوتا ہے خواہ یہ کام عورت کی رضا سے ہی کیوں نہ ہوا ہو ،مومنین کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی،
    جنکے رتبے ہیں سوا انکو سوا مشکل ہے!
    اگر میں قوام ہونے کا دعوہ کرتا ہوں تو مجھے ہر معاملے میں اپنی قوامیت کو تسلیم کرنا چاہیئے ،یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ جہاں میرے نفس کی بات آئے وہاں میں ساری بات عورت پر ڈالکر خود بری الذمہ ہو جاؤں؟؟؟

    ReplyDelete
  18. تازہ ترین خبر یہ ہے کہ مختاراں مائی کے پانچ ریپسٹ میں سے چار بری کردیئے گئے ہیں اور صرف ایک کوعمرقید کی سزادی گئی ہے،
    اس مین سے بھی یقینا وہ سال نفی کردیئے جائیں گے جو اس نےمقدمے کی سنوائی میں گزار دیئے،یہ ہے بابا جی کا اسلامی جمہوریہ پنجاب!

    ReplyDelete
  19. نجانے کیوں میری سمجھ نہیں آرہا کہ اس پوسٹ کو کیوں تحریر کیا گیا ہے
    شاید لکھنے کو کچھ باقی نہیں رہا تو چلو ایک فضول بحث کو قیمتی بنا کر پیش کیا جائے
    لوگوں کو تبصرے کا شوق ہے اور ایسے موضوع پر بات ہو جائے تو چٹخارے الگ
    موضوع کو سنجیدہ کرنے کے لئے اسلامی حوالوں کو درمیان میں لایا جائے تو موضوع شرعی بن جائے گا

    میرے نزدیک تو بس چٹخارے لینے کے لئے چٹخارے پسند لوگوں کی پسندیدہ تحریر ہے یہ

    ReplyDelete
  20. لو جی موجودہ صورتحال میں فارسی کا وہ مقولہ یاد آرہا ہے:
    بزرگی بہ عقل است نہ بہ سال
    یعنی
    بزرگی عقل سے ہوتی ہے نا کہ عمر سے۔
    ایسا فحش لطیفہ تو میں نہ کبھی تحریر کروں۔ لیکن فیر وی واہیات بلاگر گنا جاتا ہوں۔
    :)
    لیکن عظیم ترین لطیفہ درحقیقت یہ ہے کہ یہ مذہب پرست طبقہ ہر قسم کی بیہودگی مچا کر ہاتھ جھاڑ کر اُسی طرح لوگوں کو اپنے تئیں اسلام سکھانے چل پڑتا ہے۔
    تُف ہے!

    ReplyDelete
  21. taking hymen as prove of virginity is stupid. this stupid notion has increased so much that some stupid young couples are simply agreeing to conduct sodomy instead of normal sex. So some one who thinks that hymen is proof of virginity should think again.

    ReplyDelete
  22. رفتہ رفتہ یہ بلاگ ایسی جگہ بن گیا ہے جہاں سارے جہاں سے پٹ پٹا کر لوگ آ کر اپنی چوٹیں سہلاتے چاٹتے نظر آتے ہیں۔

    میں تمام فضول بحث سے قطع نظر اس بات میں دلچسپی رکھتا ہوں کہ مجھے اجمل صاھب کا لطیفہ سمجھا دیا جائے کہ اس میں کیا واہیات فحش لچر لٹریچر ہے۔

    جناب بارہ سنگھا صاھب قبلہ اول تو آپ دماغی طور پر ریٹارڈ ہیں ہی اگر جسمانی طور پر بھی ہوئے تب بھی کسی گوانڈی کے بچے ہی نے آپ کی بزرگی پر آپ کی تصیح کیا کرنی ہے جیسی اجمل صاحب کا لڑکا کرتا ہے۔ اور آگر اپ نے اس کو بھی زیادہ پڑھا لکھا لیا تو یقینا آپ کی سینگ کاٹ ڈالے گا کہ ابا جی سارے جہاں میں پنجاب پنجاب کرتے پھرتے ہو اور پارٹی تمہاری پنجاب جانے کو تڑپتی پھرتی ہے۔ ایک طرف پنجاب کو بچانا ہے اور دوسری طرف کاپی پیسٹ اسی طبقے کا کرتے ہو جس کو بچانے جا رہے ہو۔

    جناب پریشان خان خٹک صاب آپ کی آل اولاد آپ کے کرتوت اور تحاریر سے پردہ کرے گی؟ جناب آپ بھی اپنے کئے کرائے پر غور کیا کریں دوسروں پر تنقید بند کریں زیادہ تنقید بکواس بن جاتی ہے۔

    عثمان صاھب آپ کا تو میں نے کچھ اور نام پڑتے سنا تھا۔ خیر بندہ خود بھی اپنے کرتوت کے ھساب سے نام رکھ لیتا ہے۔

    ReplyDelete
  23. بد تمیز صاحب،
    آپ نے لکھا،
    رفتہ رفتہ یہ بلاگ ایسی جگہ بن گیا ہے جہاں سارے جہاں سے پٹ پٹا کر لوگ آ کر اپنی چوٹیں سہلاتے چاٹتے نظر آتے ہیں۔
    آپکی آمد کو کس کھاتے میں ڈالا جائے۔ آپ کہاں کی چوٹیں سہلانے آئے ہیں۔ ایک بالکل سامنے کی بات یہ ہے کہ بلاگرز نے لسانی اور مذہبی بنیادوں پہ اپنے بلاکس بنائے ہوئے ہیں اور وہ اسکی بناء پہ دوسروں کو بلی کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا کرتے وقت ان میں کوئ اخلاقی اور مذہبی پاسداری کی جھلک تک نہیں آتی۔ وہ اپنی اس جہالت کو اپنی کوئ فتح سمجھتے ہیں۔ کیا وہ کسی دوسرے کو برداشت کر سکتے ہیں ، نہیں تو پھر انہیں کیوں توقع ہے کہ انہیں سیر کے بدلے میں سوا سیر نہ دیا جائے۔
    میری بھی دوسرے بلاگز کے بارے میں بالکل یہی رائے ہے کہ وہاں دوسرے قبیل کے لوگ اپنی چوٹیں سہلانے جاتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہ سب بلاگز کسی اور موضوع پہ لکھ نہیں سکتے۔ یہ کسی بھی قسم کی تعمیری سرگرمی کا حصہ نہیں بن سکتے، یہ سب اپنی رائے سے الگ کسی اور رائے کو برداشت نہیں کر سکتے۔ بات صرف یہیں تک نہیں ، یہ سب اگر چاہیں تو اپنے کام سے کام رکھیں لیکن نہیں یہ سب اپنے اپنے الفاظ کی گندگی کو پھیلانے سے بھی باز نہیں آتے جبکہ یہ سب ہر وقت دین کا حوالہ بھی دیتے رہتے۔ حیرت ہوتی ہے۔ انکے بیان اور اعمال کے درمیان تفاوت دیکھ کر۔
    اول تو میں نے اجمل صاحب کا لطیفہ نہیں پڑھا، مجھے اس سے دلچسپی نہیں ضیا ءالحسن خان صاحب کے بلاگ پہ میں اسکے بعد دوبارہ نہیں گئ۔ اگر انہوں نے مہینہ بھر پہلے حجاب دار خواتین کے لئے اتنی رطب للسانی کر کے مجھے مسخ کرنے کی کوشش نہ کی ہوتی تو مجھے اس پہ حیرت نہ ہوتی کہ یہ انہوں نے کیا لکھا ہے۔ لیکن افسوس وہ اپنی نظریاتی اساس کو صرف مہینہ بھر قائم نہیں رکھ سکے۔ کیا مجھے انکی اس غلطی کو انہیں نہیں بتانا چاہئیے۔ کیا مجھے اس گروہ کے دیگر لوگوں سے نہیں کہنا چاہئیے کہ کس چیز کا واویلہ ہے جو آپ مچاتے ہیں جبکہ آپ اندر سے دوسروں سے کہیں زیادہ حیا سے عاری ہیں۔
    میں تو صرف بار بار پوچھ رہی ہوں کہ روشن خیالی کیا ہے،؟ بے حیائ کیا ہے، غیرت کسے کہتے ہیں؟ دوسرے لوگوں کو تو بے حیا، بے غیرت، کافر، روشن خیال کی گالی دینے والے ہر قسم کی گفتگو کو اپنے لئے درست کیوں سمجھتے ہیں۔؟ انکے لئے کوئ پرہیز نہیں۔ انکی غیرت بکارت سے شروع ہو کر عورت پہ کیوں ختم ہو جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ ایک شخص خواتین کی شرم حیا اور حجاب پہ تبلیغ فرمائے اور اسکے تھوڑی دیر بعد تمام لوگ اس چیز پہ اظہار خیال کر رہے ہوں کہ خاتون کے کنوارے ہونے کی کیا نشانی ہے؟
    یعنی خاتون نہ ہوئ آپکے فارم ہاءوس کی بھینس ہو گئ۔
    یہ کوئ عورت اور مرد کے امراض مخصوصۃ نہیں کہ ہر مرد کا بالخصوص وہ جو اپنے آپکو دیندار کہتے ہیں اس میں حصہ ڈالنا ضروری ہو۔
    میں نہیں سمجھتی کہ اجمل صاحب کو وہاں کسی بھی تبصرے میں حصہ لینا چاہئیے تھا۔ یہ انکی بزرگی کے تقاضوں کے منافی ہے۔ یہ انکی نظریاتی اساس سے مختلف ہے۔ اگر عالم دین یہ سمجھتا ہے کہ خواتین کے مسائل پہ گفتگو کرنا اس کا حق ہے اور اس پہ مذاق کرنا اس کا حق ہے تو کوئ یہ بتلا دے کہ کیا حیا صرف خواتین کا خاموش گائے بکریوں کی طرح خاموش رہنا ہے۔
    یہاں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ کہاں حضرت عثمان اپنی شہادت سے پہلے اپنے لئے تہہ بند منگواتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب ان پہ حملہ ہو تو امکا جسم کھل جائے اور کہاں خواتین کے جسم کے متعلق غیر ضروری طور پہ مرد بیٹھے ایک اجتماع کر رہے ہوں۔ کون ہے بے غیرت روش خیال؟
    یہ وہی لوگ ہیں ناں جو وینا ملک پہ ناراض ہو رہے تھے جو پاکستانی ماڈلز کے فیشن شوز پہ اعتراض کرتے ہیں تو اب کیا ہوا۔ کہاں گئ حیا، کہان گئ غیرت۔ کہاں گئ روح کی پاکیزگی، کہاں گئ وہ شرم جو ایمان کا حصہ ہے ہر مرد اور عورت کے لئے۔
    کیا دنیا بھر کے پورنو مواد کے آگے پیچھے غیرت کے الفاظ لگا دینے سے انکا تفصیلی بیان جائز ہو جاتا ہے۔
    دوسری طرف خواتین کی بڑی تعداد ان بیماریوں کا شکار ہو کر خاموشی سے مر جاتی ہے مگر اسے عوای سطح پہ بیان نہیں کیا جاتا کہ یہ شرم و حیا کے منافی ہے۔ محض ان جیسے منافقین کی وجہ سے۔ یہ سب منافقین خواتین کے اصل مسائل نہ جانتے ہیں نہ ان میں دلچسپی رکھتے ہیں نہ انہیں سامنے آنے دیتے ہیں۔ لیکن اس طرح کی لغو باتوں میں ایک اشادہ دیجیئے سب حاضر۔ وہ باتیں جن سے انکے نفس کو تسکین ملتی ہے۔

    ReplyDelete
  24. محترم جناب بدتمیز صاحب ،
    آپ نے فحاشی کی بابت دریافت کیا ہے۔ ویسے تو بقول ایک امریکی سیانے کے فحاشی وہ چیز ہے جو بیان تو نہیں کی جاسکتی البتہ دیکھ کر تصدیق کی جاسکتی ہے لیکن شائد آپ کے کیس میں یہ بھی ممکن نہیں رہا کہ آپ تو اپنے بلاگ پر فحاشی اور لُچر پن کبھی تلاش نہ کر پائے .. ایک معمولی لطیفہ کیا کام دے گا؟ لیکن بہرحال از راہ ہمدردی آپ کو ایک مفید ٹِرک بتائے دیتا ہوں۔ کسی بھی تحریر ، تصویر یا فلم میں فحاشی کو پرکھنے کا سہل ترین طریقہ یہ ہے کہ اسے اپنے اہل خانہ سے شئیر کرنے کی کوشش کیجئے۔ اگر آپ کر پاتے ہیں تو آپ کے لئے وہ شے فحش نہیں ہے ، بصورت دیگر فحش ہے۔
    بہرحال میں فحاشی کا دشمن یا پاسداران حیا کا علمبردار نہیں۔ جس نے جو لکھنا ہے لکھے۔ میں تو اس بات کو لطیفہ عظیم کہہ رہا ہوں کہ لوگ ایک لمحہ فحاشی میں شریک ہوتے ہیں اور اگلے ہی لمحے اسی فحاشی اور بے حیائی کے خلاف تبلیغ میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ایک ہی تبصرے میں بیہودگی مچائی جاتی ہے ، تبصرہ ختم ہونے سے قبل ہی بیہودگی کے خلاف تبلیغ کردی جاتی ہے۔ لوگ خواتین کو تمیز اور تہذیب سکھانے کے لئے پے درپے تحاریر لکھتے ہیں ، انہی تحاریر کے تبصروں میں خاتون پر کیچڑ اُچھالا جاتا ہے۔ ایک تحریر اسلام سکھانے پر آتی ہے ، اُسی بلاگ پر اگلی تحریر مخالف نقطہ نظر کے افراد کو اپنے تئیں لتاڑنے کے لئے لگا دی جاتی ہے۔ آپ اس فیلڈ کے پرانے کھلاڑی ہیں کچھ آپ ہی روشنی ڈالیے ، کہ اس صورتحال پر ہنسیں یا روئیں؟
    ایک ٹِرک میں آپ کو اُس متنازعہ تبصرہ نگار سے بچاؤ کے لئے بتا سکتا تھا لیکن شائد آپ کافی آگے نکل چکے ہیں۔ میں تو یہی دیکھ کر دنگ ہوں کہ کیسے ایک شخص محض اپنے چند جملوں پر مشتمل بے ڈھنگ اور بے تُکے تبصروں سے درجن بھر افراد کو ایسا زِچ کئے ہوئے ہے کہ وہ نہ صرف اس کے تبصرے بغور پڑھنے پر مجبور ہیں بلکہ اسے متواتر جواب دینے کے لئےتوانائی بھی صرف کرتے ہیں۔ پھر بھی تسلی نہیں ہوتی تو اپنی مصروفیات زندگی سے وقت نکال کر اس کے لئے ٹھٹھہ باز تحاریر لائی جاتی ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ پھر بھی قرار نہیں آتا اور کڑھنے کے لئے مزید سامان تیار کرتے ہیں۔ چند دنوں بعد دھول بیٹھتی ہے تو وہ تبصرہ نگار پھر ایک کِک لگاتا ہے اور وہی سائیکل پھر شروع ہوجاتا ہے۔
    کیا یہ صورتحال دلچسپ نہیں؟
    کیا یہ محظوظ کن نہیں کہ مذکورہ تبصرہ نگار اور صاحبہ بلاگ درجن بھر افراد کے اعصاب پر ایسے سوار ہیں کہ وہ شعوری اور لاشعوری طور پر کوئی جملہ خاتون یا تبصرہ نگار کا تذکرہ کئے بغیر ٹائپ کرنے سے قاصر ہوچکے ہیں۔ غالباً یہ لوگ جب بلاگستان سے رُخصت ہوتے ہیں تب بھی اپنی سوچیں یہیں گروی رکھوا جاتے ہیں۔
    واللہ ایسا نفسیاتی تھیسس کبھی مطالعہ سے نہیں گزرا۔ تحقیق کا کافی سامان موجود ہے۔ آپ کا البتہ تعاون درکار ہے۔

    ReplyDelete
  25. عنیقہ چونکہ اردو بلاگر آپ کو کبھی کوئی خوشی فراہم نہیں کر سکے لہذا میری آمد کو "حسب معمول" جہاں دل چاہے فٹ کر کے دل خوش کریں۔ شکریہ چونکہ آپ نے لطیفہ نہیں پڑھا لہذا میرے سوال کا جواب آپ کے پاس نہیں اور لہذا میں نے بھی آپ کا پورا کمنٹ نہیں پڑھا کہ میں اس تمام معاملے پر بحث نہیں کرنا چاہ رہا جہاں فیر "حسب معمول" آپ کہاں کی چیز کہاں لے گئی۔

    جناب عثمان صاحب
    پہلی بات چونکہ آپ جمعہ جمعہ آٹھ دن کے کاکے تھے لہذا آپ کو نہیں معلوم میرا بلاگ ریٹڈ آر تھا اور اس میں دنیا جہاں کا فحش اور لچر مواد شامل تھا۔ جیسے میرے پچھلے کمنٹ میں بھی ایک نہایت فحش بات تھی۔ ہوئی تسلی؟
    جناب آپ کو یہ مفید مشورہ شائد اجمل صاحب نے ہی کسی بی بی کے بلاگ پر دیا تھا تب تو جناب بڑا اچھلے تھے ہن کی ہویا؟ اطلاعا عرض ہے میں یہ لطیفہ ضرور گھر سنا دوں ویسے آپ کا کیا خیال ہے گندہ دماغ گندی بات تلاش کر ہی لیتا ہے؟
    جناب آپ نے نہ جانے کہا میری فیلڈ چیک کی جہاں میں نے پہلے اسلام اسلام کی ہو بعد میں فحاشی پھیلائِ ہو۔ آپ حد درجہ کنفیوز لگ رہے ہیں کہیں خود کو واہیات ترین کا خطاب دیا جا رہا ہے کہیں مجھے فحش ترین بلاگ کا اور پھر گھوم کر فیلڈ؟ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اور خالی ہاتھ سے صرف چنڈ میری فیلڈ سب کو معلوم ہے یہ تالی والی ہرگز نہیں۔
    تالی سے یاد آیا میں اپنے گروپ کی اکثر باتوں سے متفق نہیں لہذا میں اس بات سے بھی متفق نہیں تھا کہ آپ اور بارہ سنگھا جناب ایک کیٹگری کے ہیں۔ مگر اب معلوم ہوا کیوں؟ آپ جناب اور بارہ سنگھا صاھب میں قدر مشترک ہی صاحبہ بلاگ کے پیچھے پیچھے تالی مارنا ہے۔ آپ کی یہ سوچ غلظ ہے کہ درجن بھر بلاگر ہاتھ دھو کر ان دونوں کے پیچھے پڑے ہیں۔ میرا مشاہدہ تو ہے کہ جب تک عنیقہ ان کے بلاگ پڑھ کر پوسٹ اور بارہ سنگھا سینگ پھنسا نہ لے تب تک ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ یہ دونوں کیوں اپنے مخالف بلاگز پر پٹ کر ادھر آ کر آہیں بھرتے ہیں؟ عنیقہ اچھی بھلی پوسٹیں کرتی کرتی پٹڑی سے اتر کر بدمزہ کر دیتی ہے۔ بارہ سنگھا تو ہے ہی ایک لاسٹ کاز۔ وہ لوگ باز نہیں آتے تو یہ ننھی فرشتی اور بارہ سنگھا کونسا کم ہے؟ میرا خیال ہے کہ یہ لطیفہ زیادہ محظوظ کن ہے کہ ایک پڑھی لکھی عورت جاہلوں جیسی بات کرتی ہے جس پر آپ جیسے عقل مند تالیاں پیٹتے ہیں کہ بی بی تم اپنے ہنر اپنی اردو دانی اپنی تعلیم اور سب سے بڑھ کر اپنے دلچسپ انداز والی ادبی پوسٹوں کو چھوڑ کر فضول بحثوں اور ذاتیات میں الجھوں
    میں نے صرف لطیفے کا پوچھا تھا آپ نے کدھر کدھر کے گڑے مردے اکھاڑ لئے۔ ابھی بارہ سنگھا صاحب آپ کے دوالے بھی ہونگے کہ آپ اس کے مخالف نکل آئے۔ خیر تعاون کے معاملے میں میں نہایت غلط آدمی ہوں۔ میرے تعاون کے بعد آپ کہنیاں گھٹنے چھلوا کر ادھر ہی پڑے ہونگے میں زیادہ بہتر نفسیاتی تھیسس بتاتا ہوں۔ پہلا یہی آپ کی آپا استانی۔ اس پر غور کریں تالی بج رہی ہے کہ چنڈ؟
    دوسرا ایک بندہ تھا۔ یہی روتا پیٹتا سنا تھا میں نے کہ میں چلا اب نہیں آںے کا نہ کہیں کمنٹ کرنے کا نہ بلاگ لکھنے کا نہ کسی کا بلاگ پڑھنے کا بس استانی سے اصلاح لونگا۔ اور اللہ اللہ کرونگا۔

    اب آپ کے چند الفاظ

    غالباً یہ لوگ جب بلاگستان سے رُخصت ہوتے ہیں تب بھی اپنی سوچیں یہیں گروی رکھوا جاتے ہیں۔
    واللہ ایسا نفسیاتی تھیسس کبھی مطالعہ سے نہیں گزرا۔ تحقیق کا کافی سامان موجود ہے۔

    اور اب آپ کا تعاون درکار ہے۔ امید ہے مایوس نہیں کرینگے۔ ذرا نفسیاتی تھیسس کو مکمل کر کے یہی ڈال دیجئے گا کہ اس شخص کو تب کیا مرض ہوا تھا اور اب کیوں وہ تمام جہاں کے بلاگ اور لطیفے پڑھ کر یہاں پرائے پھڈے میں تالیاں پیٹ رہا ہے؟

    ReplyDelete
  26. بد تمیز صاحب، بس آپکی اور آپکے گروہ کی اس بات سے مجھے شدید اختلاف ہے کہ جب آپکے پیش کردہ نظریات کے آپ ہی کی باتوں کی مدد سے دھجیاں اڑیں تو اسے ذاتی جنگ کہہ دیا جائے۔ میں آپ سمیت ان میں سے کسی کے پروفائل سے واقف نہیں۔ نہ دلچسپی ہے۔
    ایک پڑھے لکھے شخص کو ہمیشہ کسی پڑھے لکھے شخص کو ہی نہیں تلاش کرنا چاہئیے ایک ایسے ملک میں جہاں شرح تعلیم بمشکل تیس فی صد ہے۔ اسے بہرحال جہالت کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے کہ یہ ہمارے ان لوگوں میں بھی ہے جو پڑھ لکھ کر ہی یہ لائینی لکھنے بیٹھتے ہیں۔
    میں اسے اپنا حق انتخاب سمجھ کر کرتی ہوں۔
    یہی تو ہمارے معاشرے کا تحت الشعور ہیں جہاں سے ہمارے عظیم روئیے سامنے آتے ہیں۔
    کوئ بھی شخص جو کشادہ دلی کے ساتھ ان پوسٹس پہ گذرتا ہوگا۔ اسے یقیناً ان پوسٹس میں بھی دلچسپی ہوتی ہوگی۔ جسکے بعد سب اپنی ذات کے خفیہ گوشے نہایت فخر سے کھولتے ہیں۔
    کیا عثمان کا کہنا غلط ہے کہ یہ ایک نفسیاتی کتھارسس ہے۔
    آپ آرام سے اپنے گروہ کے ساتھ ٹاس کریں کہ کیا بج رہا ہے یا کتنے بج رہے ہیں؟ ہم تو اپنے دیگر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس پہ بھی ٹاس کریں کہ کون کس جگہ رکا ہوا ہے اور کون چلا جا رہا ہے؟ اس سے بھی بڑے دلچسپ نتائج ملیں گے آپکو۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ