Friday, April 22, 2011

صومالی قزاق اور لیلی

لیلی ایک دس سالہ بچی کا نام نہیں بلکہ خوف اور بے بسی کی کیفیت کا نام ہے۔ وہ ایک عام بچی نہیں، بلکہ   جدو جہد اور امید کے مابین ڈولتی  ہمت کی علامت ہے۔ اس نے شاید سند باد جہازی کی کہانیوں میں ہی سمندری قزاقوں کے بارے میں پڑھا ہوگا اور اسے گمان بھی نہ ہو گا کہ وہ زمین پہ رہتے ہوئے انکے ظلم کا شکار ہو جائے گی۔
وہ سنڈریلا ، باربی, کوہ قاف کی دیومالائ کہانیوں کی عمر سے ابھی باہر نہیں آئ اس لئے خواب دیکھ رہی ہے کہ اسکے ارد گرد کے لوگ، اسکی قوم کے لوگ اسکے باپ کے موت کے پنجے سے چھڑا لائیں گے۔ اور وہ صرف خواب ہی نہیں دیکھتی بلکہ اس چیز کے لئے بھی تیار ہے کہ اپنے باپ کی رہائ کے لئے اپنا گردہ بیچ دے۔
اسکے باپ کی صومالی قزاقوں سے رہائ کے لئے اب صرف پانچ کروڑ روپے چاہئیں۔ وہ اس حادثے میں اکیلے نہیں جہاز کے دیگر عملے میں مصری اور انڈینز بھی شامل ہیں۔ تاوان کی کل رقم تقریباً بیس کروڑ بنتی ہے جس میں سے مصری اور انڈیئنز اپنا حصہ ادا کر چکے اور اب پاکستان کی باری ہے۔
لیلی کے رشتے دار سوال کرتے ہیں کہ ایک کھلاڑی کی شادی پہ ہماری ایک وزیر سونے کا تاج دے سکتی ہیں مگر پاکستانیوں کی رہائ کے لئے حکومت کوئ دلچسپی نہیں لے رہی۔
ایک ایسے ملک میں جہاں اربوں روپوں کا غبن اور کرپشن ہوتا ہو جہاں لوگوں کو اپنا بینک بیلینس تک یاد نہ ہو۔ وہاں میں اگر صرف پانچ کروڑکہا جائے تو کیا غلط ہے۔ اگر ایسے دس لوگ صرف پچاس پچاس لاکھ روپے دے دیں تو لیلی کو  میڈیا کے سامنے آنسو نہ بہانا پڑیں۔
پتہ نہیں کیوں میں بھی لیلی کی اس  کوہ قاف کا حصہ ہوں مجھے۔ مجھے بھی یقین  ہے اس کے والد کیپٹین وصی حسن صومالی قزاقوں کے پنجہ ء موت سے نکل آئیں گے اور وہ ایک دفعہ پھر ہنسی خوشی  نئے خواب بُنے گی۔
آپ بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ مندرجہ ذیل معلومات استعمال کر کے، قزاقوں کی دی گئ مدت اب ختم ہونے کے قریب ہے۔
 اکاءونٹ نمبر؛
1066-0081-009278-01-9
بینک الحبیب لمیٹڈ
بفرزون برانچ ، کراچی
 صومالی قزاقوں کی یہ سرگرمیاں پچھلے کئ سالوں سے جاری ہیں۔  یہ قزاق، بنیادی طور پہ صومالیہ سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ بر اعظم افریقہ کا حصہ ہے۔ قزاقوں کی اس سرگرمی کا باعث کئ باتوں کو بتایا جاتا ہے۔ مثلاً ملک میں سیاسی عدم استحکام اور  کئ سالوں تک جاری خانہ جنگی جسکی وجہ سے عملاً کوئ حکومت نہیں۔ یا صومالی مچھیروں کی انتقامی کارروائ ان غیر ملکی ٹرالرز کے خلاف جو کہ انکے سمندری حصے میں  آکر اتنی زیادہ مچھلیاں پکڑتے تھے کہ انہوں نے سمندر کو مچھلیوں سے خالی کر دیا اور اس سے مقامی مچھیروں کا ذریعہ ء روزگار ختم ہو گیا۔
ان قزاقوں میں تین طرح کے لوگ شامل ہیں۔
مقامی مچھیرے، جنہیں سمندر سے پوری واقفیت ہے اور یہ قزاقوں کا ماسٹر مائینڈ ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ باہر کی بوٹس کو انکے ساحل کے قریب سے گذرنے کا کوئ حق نہیں۔
 سابق فوج کے افراد جو پہلے اپنے جنگی سرداروں کے لئے لڑا کرتے تھے اب اس کام میں شامل ہو گئے۔
تیکنیکی مددگار جو تیکنیکی آلات کو دیکھتے ہیں مثلاً جی پی ایس۔
یہ صومالی قزاق اپنی سمندری حدودوں کے قریب سے گذرنے والے پانی کے جہازوں پہ قبضہ کر لیتے ہیں اور پھر لاکھوں ڈالر تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں۔

صومالیہ ایک مسلمان اکثریتی ملک ہے  لیکن غربت یہاں کا بنیادی مسئلہ ہے۔ قزاقوں کو ایک لمبے عرصے سے اتنی کامیابی سے حملہ کرتے دیکھ کر ذہن میں کئ سوال پیدا ہوتے ہیں۔   پہلا سوال تو ذہن میں یہی آتا ہے کہ ان قزاقوں کو اسلحہ کہاں سے ملتا ہے۔ اندازہ ہے کہ اسلحہ انکے پاس یمن اور موغادیشو کے رستے سے آتا ہے۔ دوسرا خیال یہ آتا ہے کہ تاوان کی رقم ادا کیسے کی جاتی ہے۔ تاوان کی رقم ڈالرز کی شکل میں ادا کی جاتی ہے اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے جہاز تک پہنچائ جاتی ہے۔

قزاقوں کے ذریعے آئ آمدنی نے علاقے کے معاشی حالات کو بہت بہتر کر دیا ہے۔ بہترین گھر بنے، تفریحی مقامات وجود میں آئے، مختلف اشیائے زندگی کی ڈیمانڈ بنی انکی مارکیٹ وجود میں آئ اور یوں خوشحالی نے جگہ بنائ۔ خوش شکل لڑکیوں کو بھی مالدار بحری قزاقوں کی رفاقت ملی۔
مقامی آبادی کے لوگ اس چیز سے خوش ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انکے سمندر کے ماحول کو جو نقصان پہنچایا گیا اس طرح وہ اسکی قیمت وصول کر رہے ہیں۔ لیکن انہیں بھی چند شکایات ہیں اور ان میں سر فہرست قزاقوں کا  نشہ آور اشیاء  اور اسلحے کا بے دریغ استعمال۔
قزاقوں کی اس مصیبت سے وہاں سے گذرنے والے جہاز خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔ اس علاقے کی پوزیشن ایسی ہے کہ یہاں سے ہر سال ہزاروں پانی کے مال بردار اور مسافر جہاز گذرتے ہیں۔ یوں یہ منظر بیک وقت قزاقوں کے لئے خوشحال زندگی کی نوید بنتے ہیں اور پانی کے جہاز سے وابستہ لوگوں کے لئے ایک مسلسل خطرہ۔ اسکے علاوہ کاروباری حلقوں کی سرگرمیاں بھی اس سے متائثر ہوتی ہیں اور اعتماد دگرگوں ہوتا ہے۔
اس ساری بظاہر دہشت ناک صورت حال کے باوجود ان قزاقوں کی پیدائیش کا ایک مثبت اثر محسوس ہو رہا ہے اور وہ صومالیہ اور اسکے ارد گرد کے سمندر کی ماحولیاتی زندگی  کی بحالی ہے۔ صومالیہ سے منسلک کینیا میں رواں سال  مچھلی کی بہترین پیداوار رہی۔  اسکی وجہ،  بحری قزاقوں کے خوف کی وجہ سے باہر کے ٹرالرز کا شکار سے دور رہنا ہے۔
خوف، شکار ہو جانے والوں کو کمزور بنا سکتا ہے مگر استعمال کرنے والوں کو مضبوط۔ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا اس دہشت گردی پہ قابو پانے کے لئے کیا راستہ نکالتی ہے۔
ایک دفعہ پھر لیلی کو اس خوف سے باہر نکالنے کے لئے آگے آئیے۔

8 comments:

  1. عوام کے گردے تو ملٹری پہلے ہی کھا چکی ہے .. اب کیا باقی ہے جو عوام سے مزید مانگا جارہا ہے۔ ملٹری کیوں نہیں مدد کرتی کپتان صاحب کی؟ کتنے ہی لاچار بلڈی سویلینز ہیں جن کی دردناک داستانیں روزانہ اخبارات کی زینیت تک بننے کے قابل نہیں۔
    خیر یہ تو ماری ہے میں نے چول ..
    سنجیدہ نوٹ پر یہ ہے کہ دردمند قارئین میری بکواس کی بجائے استانی محترم کی اپیل پر کان دھریں۔

    ReplyDelete
  2. پانی کے جہازوں

    تصحیح فرما لیں۔
    بحری جہاز

    ReplyDelete
  3. Jazak Allah Aniqa,and thanks for the account number,
    we will do our best InshaAllah!!!
    May Allah save them all,Aameen.

    ReplyDelete
  4. جب پہلے دن ميں نے انٹرنيٹ پر ايک اور بحری جہاز کے اغواء اور اس ميں پاکستانيوں کی موجودگی کا پڑھا تھا تو دل پريشان ہوا تھا کہ ہمارے ہموطنوں ميں زندہ رہنے کا حق صرف بے شرم اور بے غيرت سياستدانوں يا جرنيلوں کو حاصل ہے ۔ جس کی تجوری سے آپ مانگ رہی ہيں وہ تو ہماری پوٹلياں خالی کرنے پر تُلے ہيں

    يہ دنيا ہے ہی ڈاکوؤں اور بحری قزاقوں کی ۔ سوائے اُن علاقوں کے جہاں اللہ کے بندوں کی حکمرانی رہی باقی علاقوں اور وقتوں ميں ڈاکوؤں اور بحری قزاقوں کی حکومت رہی ۔ برطانيہ کے موجودہ حکمرانوں کے آباؤ اجداد بحری قزاق ہی تھے ۔ امريکا اور آسٹريليا کے سفيد فام بھی لُٹيروں اور بحری قزاقوں کی اولاد ہيں

    ويسے ذرا غور سے ديکھيئے تو موجودہ اور سابقہ امريکی حکومت بھی لُٹيروں سے بھرپور ہے ۔ صرف طريقہ واردات فرق ہے ۔ ميں آجکل اعداد و شمار اکٹھے کر رہا ہوں اِن شاء اللہ جلد اس کی وضاحت کروں گا کہ بظاہر امن اور انسانيت سے پيار کا دعوٰی کرنے والے دراصل دہشتگرد ہيں

    ReplyDelete
  5. کاشیف نوازApril 23, 2011 at 11:07 AM

    کاش لیلی کے والد کپٹین وصی حسین امریکن شہری ھوتے ۔۔

    ReplyDelete
  6. thanks god, i was not born there :)

    ReplyDelete
  7. میری بھی تمنا کاشف صاحب کی طرح یہی ہے کہ کاش کیپٹن وصی امریکی شہری نہ سہی کم ازکم انڈین ہی ہوتے تو شاید ان کے ساتھ ایسا نہ ہوتا۔۔۔۔۔۔۔

    ReplyDelete
  8. مجھے تو اپنی حکومت کی سمجھ نہیں آتی کہ وہ ورلڈ کپ کا سیمی فائنل ہارنے والی ٹیم کے کھلاڑیوں تو 35/35لاکھ روپے تو دے سکتی ہے ۔ لیکن ایک طرف پاکستانی مصیبت میں گرفتار ہیں ان کی رہائی کی ان کو پرواہ ہی نہیں ۔ شائد انہیں آخرت کا خوف نہیں یا پھر یہ اللہ کے خوف سے آزاد ہوچکے ہیں

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ