Tuesday, May 3, 2011

سمندر سے آگے

ہر دفعہ ریسائکلنگ پہ دل جمعی کے ساتھ یکسو ہو کر کچھ لکھنے بیٹھ ہوتی ہیں۔ حالات حاضرہ میں کچھ ایسی ری سائکلنگ ہوتی ہے کہ دل جمع ہو تو ہو خیالات منتشر ہو جاتے ہیں۔ اور ہر انتشار سے گذرتا لمحہ کہتا ہے یہاں سے پہلے یہاں سے پہلے۔ میں ایک کمزور انسان ہوں ، ابھی کچھ عرصے پہلے تک چالیس کلو اور آجکل بیالیس کلو وزن پہ رہتی ہوں۔ اس صورت میں ہر چھٹانک بھر ترغیب بھی انتشار پھیلا دینے کے لئے کافی ہوتی ہے۔
یوں دن کے ساڑھے بارہ بجے جب پتہ چلا کہ اسامہ بن لا دین اب قصہ ء پارینہ بن چکے ہیں تو ایک مثالی مسلمان کی طرح اختتامیہ کلمہ پڑھنے کے بجائے یہ سوچنے بیٹھ گئ کہ آخر اس لمحہ ء موت کی مہورت کیسے نکالی گئ۔ کیوںکہ اس واقعے میں مقام کی اہمیت اپنی جگہ لیکن وقت کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔
حکومت پاکستان کا ایک کھوکھلا سا دعوی ہے کہ اسے اس آپریشن سے آگہی نہیں تھی۔ ایک معمولی سی ذہنی ورزش بھی اس ڈھول کا پول کھول دینے کے لئے کافی ہے۔ 
خوش امید لوگ جنہیں اسامہ سے اسلام کی سر بلندی اور مسلمانوں کی فتح کی امیدیں وابستہ تھیں وہ امید کرتے ہیں کہ ابھی کچھ دن گذریں گے اسامہ پھر ایک ویڈیو بیان جاری کر کے اس دعوے کی دھجیاں اڑا دے گا۔
میں ان خوش امیدوں میں نہیں ہوں۔ میرا تو خیال ہے کہ اسامہ  کافی عرصے پہلے مر چکا تھا۔  اب امریکنز اسکی باقیات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ڈی این اے ٹیسٹ سے جب یہ بات پایہ ء ثبوت کو پہنچ چکی تو انہوں نے ایک ڈرامہ اپنی قوم میں جان ڈالنے اور اپنے آپکو فاتح قرار دینے کے لئے انجام دے ڈالا۔ اب ان باقیات کو خاک بنا کر ماءونٹ ایورسٹ پہ اڑایا جائے یا سمندر کے حوالے کیا جائے لیکن اسکی تصاویر اور ویڈیو جاری نہیں کی جا سکتیں۔
اسامہ کے نجانے کب کے انتقال پہ میں نے اب شاعری کرنے کی کوشش کی۔ اساتذہ سے درخواست ہے کہ دل تھام کر پڑھیں اور چاہیں تو اس میں اصلاح کر دیں۔ شاعری میں،  میرے قابل اصلاح ہونے میں اتنے ہی شبہات ہیں جتنے اسامہ کے زندہ یا مردہ ہونے پہ۔ کلام حاضر ہے۔
اسامہ مر گیا لیکن ابھی بھی یاد آتا ہے
وہ ہر بات پہ کہنا کہ یہ ہوگا تو یوں ہوگا

پیدا ہوا عرب میں رہا امریکہ اور افغان میں
روٹھا جو امریکہ سے تو لڑا پھر جا کے افغان میں
مرنے میں اسکے ایک راز ہے چھپا ہوا
مدفن چنا سمندر کوجو مر گیا پاکستان میں
تم بھی مرے وہ بھی مرا، ہو گیا انصاف پر
ہم کیوں مرے ایسے صنم، ہم تھے وزیرستان میں


ادھر ایک گروہ کا خیال ہے کہ  دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تمام فریقوں کے درمیان ڈیل ڈن ہو گئ ہے۔ اسامہ ، امریکہ میں کہیں دنیا کی  جنت کے مزے لے رہے ہونگے ، افغان طالبان اب سکون کا سانس لیں گے دولت بھی ملی ہوگی، امریکہ فاتح کی حیثیت سے سرخرو واپس جائے گا۔ پاکستانی طالبان بھی اپنا حصہ پائیں گے۔ انکے حامی بھی خوش رہیں گے یہ سوچ کر کہ امریکہ جھوٹ کہہ رہا ہے اسامہ زندہ ہے اور اگر مر بھی گیا تو کیا ہوا شہادت کی موت ہوئ، لڑتے ہوئے مرا۔ پاک فوج بھی دامن پہ کوئ داغ نہ خنجر پہ کوئ خوں، ایک مستحکم حالت میں۔ انہوں نے یا آئ ایس آئ نے کچھ نہیں کیا۔ حکومت پاکستان سارے واقعے سے لا علم۔ دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں ایک اور مظلوم حاصل کرنے میں کامیاب۔
اس سارے سلسلے میں کون نقصان میں رہا۔ وہ لوگ جنہیں ایک عام انسان کی طرح اولادوں کی شادیاں کر کے ان سے خدمت کرواکے طبعی موت مرنے کی خواہش تھی وہ شہید بالجبر نہیں ہونا چاہتے تھے۔ میں اور اس معاشرے کے وہ  لوگ نقصان میں رہے جو یہاں اقتصادی استحکام اور خوشحالی چاہتے تھے۔ اس لئے کہ وہ دنیا کے کسی بھی سہولت سے آراستہ ملک کے بجائے اپنے ملک میں رہنا چاہتے ہیں۔ جو  اپنے بچوں کے لئے ایک پر امن مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں جہاں وہ سائینس، آرٹ اور انجینئرنگ پڑھیں اور اپنی صلاحیتوں کو اور اپنے آپکو خوف سے آزاد رہ کر جانیں۔ دنیا کی اور قوموں کے سامنے ثابت کریں گے پاکستانی مائیں بھی اپنے بچوں کی شاندار تربیت کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں وہ انکی صلاحیتوں کا اجاگر کرنا جانتی ہیں۔ وہ لڑکیاں نقصان میں رہیں جنکے اسکول اڑائے گے اور جنہیں انسانیت سکھانے کے بجائے نسوانیت سکھانے پہ زور رہا۔ یا وہ لڑکے نقصان میں رہے جنہیں ستاروں پہ کمندیں ڈالنے کے بجائے بموں کی گرد بنا دیا گیا، جنکے دلوں میں امید کی جوت جگانے کے بجائے موت  کے رمز یاد کرائے گئے۔
وہ والدین نقصان میں رہے جنہوں نے اپنے بڑھاپے کے سہاروں کو پھلتے پھولتے دیکھنے  کے بجائے قبر تک پہنچایا۔ اور آج اپنے ویران گھروں میں آسیب کی طرح پھرتے ہیں۔
رسم دنیا یہ ہے کہ جب کوئ مسلمان دنیا سے گذر جائے تو اختتامیہ کلمات کہے جائیں۔  لیکن میں سوچتی ہوں کہ اگر ہر صبح ہم اپنے آپکو کہیں ، اپنے آپ کے لئے اختتامیہ کلمات کہیں، انا للہ و انا الیہ راجعون۔  بے شک ہم اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور لوٹ کر اسی کی طرف جانا ہے، تو ہمارے لئے کتنا آسان ہو جائے ہر مسلمان کے واسطے انہیں ادا کرنا۔ چاہے وہ اسامہ ہو یا سلمان تاثیر۔
لیکن ہمیں ایمان تازہ کرنے کی مصروفیت میں اسکی فرصت نہیں۔ خدا کو بھی اسکی فکر نہیں۔ ہم نہیں جانتے، ہمارا مدفن زمین ہو یا سمندر، اس سے آگے کیا ہے؟ صرف یہ معلوم ہے۔  اللہ الصمد۔ اللہ بے نیاز ہے۔ 

19 comments:

  1. ہمارے نظریاتی اختلاف چاہے کچھ بھی ہوں میں یہ پہلے بھی کہہ چکا اور اب بھی یہی کہوں گا ۔۔۔۔ کہ آپ کمال کا لکھتی ہیں اور بعض مرتبہ تو بہت ہی کمال کا لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ReplyDelete
  2. دو گز زمیں بھی نہ ملی، دہشت کے بادشاہ کو
    دو گز ۔۔۔۔۔۔۔!
    زمیں بھی نہ ملی
    دہشت کے بادشاہ کو
    نفرت کا جواب
    نفرت سے ملا
    زمین پر
    آگ لگانے والے کو
    لاکھوں کی
    جان لینے والا
    اپنی جان کا محتاج بنا
    مسلسل خدا کے نام پر
    قیامت برپا کرنے والے کو
    کسی اپنے کا ایک
    کندھا بھی نہ ملا

    ReplyDelete
  3. تصویر اور ویڈیو کی غیر موجودگی نے معاملے کو مشکوک بنایا ہے۔اگر فرض کریں کہ یہ واقعہ محض ڈھونگ ہے تو امریکہ کی طرف سے تو یہ ڈرامہ سمجھ آتا ہے لیکن پاکستانی حکومت اور فوج کیوں اس ڈرامے میں شریک ہے؟ ڈرامے کی سیٹنگ کسی گمنام پہاڑی غار میں بھی رکھی جاسکتی تھی تاکہ پاکستان بدنامی سے بچ جاسکے۔ لیکن دارلحکومت کے نزدیک ایک اہم شہر میں ملٹری اکیڈمی کے پچھواڑے میں ؟
    پھر پاکستانی ادارے جس طرح شرمو شرمی اعترافی بیانات دے کر آپریشن کی تصدیق کررہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ محض ڈرامہ نہیں ہے۔ اگر ڈرامہ نہیں ہے تو کیا واقعی حکومت ، فوج اور حساس اداروں کو معلوم نہیں تھا کہ اُن کی ناک کے عین نیچے دنیا کا مطلوب ترین شخص مزے سے رہائش پذیر ہے؟ یعنی پاکستان کے ریاستی ادارے اتنے ہی غیرذمہ دار ، بے خبر اور بُدھو ہیں ؟ یا پھر دنیا کا وہ بظاہر پروپگینڈا سمجھا جانے والی بات درست ہونے کو ہے کہ پاکستانی ریاست ، فوج اور ایجنسیاں ہر قسم کے ان دہشت گردوں کو مسلسل سپورٹ کرتی رہی ہیں۔ ہر دو صورتوں میں پاکستان کی ساکھ کیا رہ گئی۔ اب دنیا کا ہر ایرا غیرا اپنا دہشت گرد تلاش کرنے کے لئے پاکستان پر انگلی اُٹھائے گا تو پاکستان کے پاس اپنی صفائی میں کہنے کو کیا ہے؟
    سادہ لوح ہیں وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ قصہ ختم۔ میرے خیال سے تو پاکستان کے برے اور بڑے دن خدا نخواستہ مزید طویل ہوگئے ہیں۔

    ReplyDelete
  4. پھر اگر لادین کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اُس نے رپوشی کے لئے کسی خفیہ ترین مقام مثلا کسی قبائلی پناہ گاہ یا پہاڑی غار کا انتخاب کیوں نہیں کیا؟ پورا پاکستان چھوڑ کر اُسے ملٹری اکیڈمی کی بغل میں یہ لمبا چوڑا مکان ہی "خفیہ" نظر آیا تھا جہاں وہ برسوں سے مقیم تھا؟ کیا ایک مفرور اشتہاری پولیس سے چھپنے کے لئے پولیس سٹیشن کی بغل کا انتخاب کرے گا؟
    ڈرامہ ہے تو ڈرامہ تو اپنی ناک بچانے کے لئے کیا جاتا ہے نا کہ ناک کٹوانے کے لئے؟ ، اپنے اوپر سے نظریں ہٹانے کے لئے کیا جاتا ہے نا کہ اپنے پر انگلیاں اُٹھوانے کے لئے؟
    ڈرامے نہیں ہے تو پاکستانی حساس ادارے ، فوج ، حکومت اور میڈیا کی گھسیارے ہیں ؟
    پوری دنیا دیدے پھاڑے پاکستان کو مشکوک نگاہوں سے تک رہی ہے۔ اور پاکستانی تجزیہ کار غیرت کے ماتم میں مصروف ہیں۔
    کیا بکواس ہے۔

    ReplyDelete
  5. خاصی نثری نظم ہے آپ کی :)

    لیکن جو بات آخری دو سطور میں کہی گئی ہے وہ بہت زبردست ہے۔دلگیر کرنے والی ہے۔

    ReplyDelete
  6. آپ نے ايک اچھا افسانہ لکھا ہے

    کيا ايسا نہيں ہو سکتا کہ ہم اوسامہ ۔ القاعدہ اور طالبان کو چھوڑ کر اپنے گريبانوں ميں جھانکيں ۔ ميرے جيسا شخص ہواؤں ميں اُڑنے کی کوشش کی بجائے پاؤں زمين پر جمائے کو ترجيح ديتا ہے کہ يہی سب سے زيادہ محفوظ طريقہ ہے ۔ ايسی صورت ميں اوسامہ ہو يا اوبامہ ۔ وہ مرے يا زندہ رہے ميری صحت پر کچھ اثر نہيں پڑتا

    ميری نظر اور فکر اس پر مرکوز ہے کہ سستی دال بھی اب 100 روپے فی کلو کے قريب ہے ۔ پٹرول بھی 100 روپے فی لٹر ہوا چاہتا ہے ۔ کدو 40 سے 60 روپے فی کلو ہے ۔ بھنڈی کو ہاتھ لگاتے دل ڈرتا ہے ۔ اب پچھلے 3 دنوں ميں صدر صاحب نے جو کيو ليگ کے 14 اور ايم کيو ايم کے 4 وزراء تيار کئے ہيں ان کے اخراجات جو ايک کروڑ روپيہ ماہانہ فی کس کہے جاتے ہيں [18 کروڑ ماہانہ يعنی 2 ارب 16 کروڑ سالانہ ظاہر اور اس سے کئی گنا مخفی] پورا کرنے کيلئے بجلی ۔ گيس۔ پٹرول ۔ دالوں اور سبزيوں کی قيمتيں مزيد کتنی بڑھيں گی ؟

    کيو ليگ والے تو لٹيرے مشہور ہيں مگر حق پرست ايم کيو ايم جس کے ليڈر خدمتِ خلق کے سوا کچھ نہيں کرتے وہ بھی وزارتيں فتح کر کے خراماں خراماں گھروں کو لوٹے ہيں ۔ اعداد و شمار کے مطابق باقی تو سب لُٹيرے ہيں ہی متعدد ايم کيو ايم کے ممبران پارليمنٹ کا بزنس اتنا چمکا کہ اُن کے اثاثے 2009ء سے 2010ء کے ايک سال ميں دو گُنا سے تين گُنا ہو گئے

    ہم عوام کا حال يہ ہے کہ دہشتگرد دھماکے کر کے ہميں ہلاک کرتے ہيں اور ہم اُن کا مقابلہ کرنے کی خاطر خود اپنے آپ کو ہلاک کرتے رہتے ہيں اور بسيں جلاتے ہيں تاکہ کہہ سکيں "ہم کسی سے کم ہيں کيا ؟"

    اللہ بلاشُبہ يکتا اور بے نياز ہے ۔ اللہ ہم سب کو درست سوچ عطا فرمائے اور سيدھی راہ پر چلنے کی توفيق عطا فرمائے

    ReplyDelete
  7. اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس دہشت گردی اور انتہا سپندی کے بھوت پہ قابو پائے بغیر آپ دال اور چاول کی قیمت قابو میں لے آئیں گے تو یہ آپ کی بھول ہے۔ ساری دنیا اپنی معیشت درست کرنے میں لگی ہوئ ہے اور ہم جہاد کا فلسفہ پھیلا کر جان دینے اور لینے کی فکر میں۔
    کیا یہ بات حیرت ناک نہیں کہ جس فوج پہ ملکی بجٹ کا تیس فی صد حصہ خرچ ہوتا ہے اسے یہ تک نہیں معلوم کہ اسکی بغل میں دنیا کا سب سے مطلوب دہشت گرد رہ رہا ہے۔
    آپ عوام کے فاقے کی فکر کر رہے ہیں جبکہ آپ سب لوگ ہمہ وقت غیرت اور حمیت کے جھنڈے اٹھائے پھرتے ہیں۔ یہ آپ لوگ جو آج تک اس بات کو تسلیم نہیں کر پائے کہ عوام کو بموں کا نشانہ بنانے والے وہ ہیں جنکی محبت میں آپ مبتلا ہیں۔
    دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے وہ ہیں جن سے دستبرداری کا آپ اعلان تک نہیں کر پاتے۔ ہمیشہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ سب کچھ امریکہ کا کیا دھرا ہے۔
    آج کے دن دراصل ہم تاریخ کے عجیب موڑ پہ کھڑے ہیں۔ ہم کہتے ہیں ہمارے نیوکلیئر اثاثے محفوظ ہیں، ہم کہتے ہیں کوئ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے نہی دیکھ سکتا، ہم وہ ہیں جنہوں نے روس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ اور ہماری سرحدوں کے اندر امریکہ کی فورسز اپنا کامیاب آپریشن کر کے نہ صرف جا چکتی ہیں بلکہ ان کا صدر اپنی قوم کو جشن منانے کی خبر بھی دے دیتا ہے اور ہم سوچ رہے ہیں کہ ہوا کیا ہے۔
    آپ سب تو کہتے ہیں کہ اکثریت اسی طرح سوچتی ہے جیسے ہم سوچتے ہیں پھر ایسا کیوں کہ جب آدھی رات کو امریکہ اپنا آپریشن آرمی کے پہلو میں انجام دے رہا تھا عوام کی اکثریت اس فکر میں تھی کہ نئ حکومتی وزراء کون ہونگے۔
    کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ دال چاول تو الگ پاکستان اب واضح طور پہ وہ ملک بن گیا ہے جہان دہشت گردوں کی حمایت موجود ہے، جہاں عوام دہشت گردوں پہ نہ صرف پھول برساتی ہے، انہیں شہید کہتی ہے، انکے تحفظ کے لئے اپنی جان تک دینے ے اور دوسروں کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتی۔
    جب ہم یہ سب کچھ کرتے ہیں تو ہم کیوں فکر کر رہے ہیں کہ فلاں کرپشن کرتا ہے ، عوام کو دال روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں۔ صبر کریں، صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ یقیناً خدا انکو نیست و نابود کرے گا جنہوں نے آدھی رات کو یہ کارنامہ ہمیں بتائے بغیر انجام دیا۔
    ایک اسامہ کے مرنے سے کیا ہوتا ہے۔ ہر گھر سے اسامہ نکلے گا تم کتنے اسامہ ماروگے۔
    جب جنگ، اس مرحلے پہ ہو کہ مارو یا مرجاءو تو وہاں دال روٹی کی بات کرنا، غداری کے ضمن میں نہیں آتا۔

    ReplyDelete
  8. Aik Boht Taweel, sabr azma aur musalsal jad o jehd ki zaroorat hy.
    Suicidal fauj aur mafadparast siysatdaan nay humari zindagioun ko jahnam bana di hy. balkay es dunya mein dozakh koi hy tho Pakistan hy. and ironically yaheen pe jannat kay Ticket bantay jatay hein. Likhte rahye.

    ReplyDelete
  9. یہ سارا کنفیوژن کریئیٹ ہی اس لیئے کیا گیا ہے کہ
    مرے تھے جن کےلیئے وہ رہیں وضو کرتے۔۔۔۔۔۔۔!!!
    جو لوگ اس کے مرنے کی خوشیان منارہے ہیں ان کی خوشیاں بس اس وقت تک ہی ہیں جب تک امریکا کی پاکستان کے حوالے سے نئی اسٹریٹیجی سامنے نہیں آتی،
    یوں جوسکون کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں انکا انتظار طویل بھی ہوسکتا ہےکتنا یہ تو اللہ ہی بہتر جانتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ReplyDelete
  10. تاریخ شاہد ہے کہ قریش مکہ کے سامنے اللہ کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اللہ کی آخری کتاب قرآن حکیم کی آیات سنائیں توانہوں نے اسے شاعری کہہ کر ردکردیا،قرآن حکیم میں دعوت حق کاانکار کرنے والے انہی مجرمین کے بارے میں ارشادہے کہ.......
    ترجمہ:''بے شک جب ان سے کہا جاتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں تو تکبر کرتے تھے
    اور کہتے تھے کہ کیا ہم ایک دیوانے شاعر کے کہنے پر اپنے معبود کو ترک کر دیں''۔(الصٰفٰت:٣٦)

    دراصل مشرکین مکہ نے آیات الٰہی کو سننے کے بعداس کا انکاراس وجہ سے کیاکہ انہوں نے آیات الٰہی کو حروف کے ظاہری خدوخال میں دیکھا۔ان حروف کے پس پردہ کام کرنے والی علم کی روشنی،قدرت کے قوانین اور ان کی حکمتیں سمجھنے سے وہ قاصر رہے اور نہ ہی انہوں نے اسے سمجھنے کی کوشش کی بلکہ وہ اسے حروف کے جوڑتوڑسے بننے والی شاعرانہ تک بندی ہی سمجھتے رہے۔ہاں ایسے لوگ جو قرآن کے الہامی الفاظ کے پس پردہ کام کرنے والے مفاہیم کو اپنے Inner میں محسوس کرلیتے تھے انہیں پیغام توحیدکااقرارکرنے میں ذرابھی دیر نہ لگتی تھی۔

    قرآنی آیات کے اندر پنہاں علوم کے حصول اوروہ علوم جن کی طرف قرآن میں نشاندہی فرمائی گئی ہے ،کے حصول کی بطورخاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے ۔ ارشادنبوی ہے.....
    ترجمہ:''جو شخص قرآن کواس کے اعراب کے ساتھ پڑھے تو اس کے لیے ہر حرف کے بدلے میں دس نیکیاں ہیں''۔

    اب اگر کوئی سطحی ذہن کے ساتھ اس حدیث مبارکہ کے ظاہری الفاظ پر ہی توجہ دے تو اس سے یہی نتیجہ اخذ کرے گا کہ اعراب سے مراد زیر،زبراورپیش ہیں۔لیکن اگرتاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آجائے گی کہ قرآنی آیات پر اعراب یعنی زیر،زبر،پیش لگانے کاطریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رائج ہی نہ تھااور نہ عربی زبان میں اس کا کوئی تصور موجود تھا۔حدیث مبارکہ میں قرآن کے اعراب سے مراداس کے الفاظ کے مفاہیم کا حصول ہے،نحوی اصطلاح کے اعراب مراد نہیں ہیں۔
    اسی طرح کی ایک مثال اللہ پاک کے اسمائُّ الحسنٰی کی بھی ہے ۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ.......

    ترجمہ:''اللہ کے ٩٩نام ہیں ،سومیں سے ایک کم۔جس شخص نے ان کاشمارکیاوہ جنت میں داخل ہوگا''۔

    یہاں بھی مراد ظاہری نہیںہے ، یعنی زبانی طور پر شمار کرنا مقصود نہیں بلکہ کائنات میں غورفکرکرکے اس میں کام کرنے والی قدرت کی صفات کی تلاش ہے،جو قومیں ان صفات کو تلاش کرلیتی ہیں ان کی دنیاوی زندگی ہی جنت کا نمونہ بن جاتی ہے۔اس کے برعکس جو افراد یا اقوام کائنات میں تفکرکرکے قدرت کی صفات کو تلاش نہیں کرتیں اور قدرت کی ان صفات کے مزاج کو سمجھنے اور سمجھ کران کے مطابق اپنی انفرادی واجتماعی زندگی کو سنوارنے کے لیے'' جہاد'' نہیں کرتیں ان کی دنیاوی زندگی بھی جہالت،پسماندگی، تفرقہ،انتشار،نا انصافی،تشدد، حرام خوری اور اس جیسے دیگربھیانک جرائم کے باعث جہنم کامنظر پیش کرتی ہے اور آخرت میں تو انہیں اپنے اعمال کا حساب دینا ہی ہے۔

    یاد رہے ''جہاد'' سے مرادبعض شدت پسندوں کا قتال اور فساد ہرگز نہیں،جس کا فائدہ ہمیشہ سے ہی سامراجی قوتوں کو پہنچتا رہا ہے،بلکہ اس سے مراد ہر وہ جدوجہد،کوشش،Effortاور Struggle ہے جس سے انسانیت کی فلاح کاراستہ کھلتاہو۔
    بات الفاظ کے پس پردہ ان کی معنوی حقیقت کی ہورہی تھی ،جس طرح ہم ''شیر''اور''شیر''کے فرق سے واقف ہیں یعنی اس کی حقیقت کو جانتے ہیں اور شیر بمعنی درندہ اور شیر بمعنی دودھ کے ہی سمجھتے ہیں اور مخاطب کے بیان کو اس کے مفہوم کی صورت میں ہی قبول کرتے ہیں ،اسی طرح زندگی کے تمام معاملات ہم سے اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہم ان کی بنیادی حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں،کیونکہ پس پردہ حقائق کو سمجھے بغیران کی حیثیت ایک بے جان شئے کی مانند ہوگی۔

    ReplyDelete
  11. ميں نے صرف اس خبر کی بات نہيں کی تھی پوری خبروں کو ہی افسانہ قرار ديا تھا ۔ ويسے يہ آپ کو کس نے بتايا ہے کہ افسانہ کا مطلب جھوٹ ہوتا ہے ؟
    ہماری قوم کيلئے دہشتگری کے خلاف جنگ بھی ايک بہت بھيانک افسانہ ہے مگر نامعلوم قوم کب سمجھے گی ؟ جب بھوک پياس سے ہلنے اور بولنے کی بھی سکت نہيں رہے گی ؟
    يہ حقيقت "امریکی البتہ جاتے ہوئے اوسامہ رشتے دار پاکستانیوں کے حوالے کر گئے ہیں" جو آپ نے ميرے بلاگ پر بيان کی ہے ہمارے لئے مستقبل ميں بہت مسائل کھڑے کرنے والی ہے ۔ آج مجھے طالبان کے پاکستان ميں سفير مُلا عبدالسلام ضعيف کا وہ بيان ياد آيا ہے جس ميں اس نے کہا تھا "افغانستان پر حملہ دراصل پاکستان پر قبضہ کی تياری ہے"۔

    ReplyDelete
  12. عثمان، فوج کی بغل میں اسامہ نہیں اس کا خاندان رہائیش پذیر تھا۔ جہاں پاکستان میں مختلف صحافی اپنے اپنے باباءوں کی پیشنگوئیاں بتا رہے ہیں جیسے اوریا مقبول جان، وہاں میں بھی عالم غیب سے بتانے کا دعوی کر سکتی ہوں کہ اسامہ عرصے پہلے مر چکا تھا۔ یہ بات القاعدہ کو پتہ تھی اور پاکستان کے حساس اداروں یعنی فوج کو معلوم تھی۔ اب جناب، امریکہ کو سن گن ملی مگر ثبوت نہیں تھا۔ اب انہیں ثبوت مل گیا۔ انہوں نے ایک شاندار ڈرامہ بنایا اور کریڈٹ خود لے گئے۔ پاکستانیوں کو ان سے یہ امید نہیں تھی۔ زور کا جھٹکا زور سے ہی لگا۔ یہ تو جیمز بانڈ زیرو زیرو سیون کی کہانی بن گئ ہے۔ لگتا ہے اگلا سیکوئیل اسی پہ بنے گا۔
    اب مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی کچھ عجیب صورت حال میں پھنسے ہوئے ہیں اور یہ وہ چھچوندر بن گئ ہے جو نہ اگلتے بنے نہ نگلتے بنے۔
    لوگ اس دہشت میں ہیں کہ امریکہ کہیں پاکستان پہ حملہ نہ کر دیں۔ امریکہ ، اب افغانستان سے اس طرح نکلے گا کہ پاکستان پہ اس کا دباءو رہے۔ کیونکہ یہ تواسامہ کے مارے جانے سے ظاہر ہو گیا کہ پاکستانی کس قدر دہشت پسند ہیں۔
    اسے ایک تیر دو شکار نہیں کہتے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی کیا کریں گے۔ کیا اوریا مقبول جان کی طرح کرامتی بزرگوں کی مزید کہانیاں منظر عام پہ آئیں گی، کیا دیگر صحافی بی بی سی کی خبروں کا کاپی اینڈ پیسٹ کریں گے۔ کیا فوج پہ لعن طعن کریں گے، حکومت کی نااہلی اور کرپشن پہ سینہ پیٹیں گے۔ یا جنگ اور دہشت گردوں پہ لعنت بھیجیں گے۔

    ReplyDelete
  13. افتخار اجمل کا تبصرہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کی اعلی مثال ہے!
    میرا سوال تو بس اتنا ہے کہ پاکستان کے ایک بڑے حصے کا جاہل رہنا،بھوک و افلاس میں مبتلا رہنا،کس کی وجہ سے اور کس کے مفاد میں؟؟؟؟؟؟؟؟
    کیا یہ بھی امریکا کی سازش تھی؟؟؟؟؟
    پاکستان کی ستاون فیصد معیشت پر ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا،
    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرا گمان یقین میں بدلتا جارہا ہے،
    اور ان کی تمام تحاریر اس کی گواہ بھی ہیں!
    ایم کیو ایم کایجینڈہ جو کل تھا وہی آج ہے فرق صرف اتنا ہے کہ کل وہ صرف اردو بولنے والون کے حقوق کی جد وجہد کررہی تھی آج پورے پاکستان کے لیئے کر رہی ہے!!!
    ایم کیو ایم کے جن نمائندوں کے کاروبار کی ترقی جناب کے کلیجے پر سانپ بن کر لوٹ رہی ہے ،کیا وہ اپنی آمدنی پر ٹیکس ادا نہیں کرتے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
    خون دل دے کر نکھاریں گےرخ برگ گلاب
    ہم نے گلشن کے تھفظ کی قسم کھائی ہے
    کراچی کے لوگ کیا چاہتے ہیں؟؟؟؟؟؟
    پاکستان میں دس فیصد غریب ترین طبقہ قومی پیداوار کا صرف چار فیصد حصہ حاصل کرپا تا ہے جبکہ دس فیصد امیر تر ین لوگ ستائیس فیصد۔
    گزشتہ 63 سالوں میں کئی مارشل لا،سر براہوں کی تبدیلی،حکومتوں کی تبدیلی جیسے مختلف حالات کے باوجود پاکستان میں جی ڈی پی کی شرحِ نمو اوسطاً پانچ فیصد سالانہ رہی ہے۔ملک میں آج زرِ مبادلہ کے ذخائر بلند ترین سطح پر ہیں جو 17.5 بلین ڈالر ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ سر پلس، تارکین وطن کی ماہانہ ایک بلین ڈالر کی ترسیل کی بدولت ہے۔زرعی معیشت مضبوط ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود گندم اور چاول کی برآمد ہوئی ۔ کپاس کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا جس سے کاشتکار کو فائدہ ہوا۔ دنیا کی چھٹی بڑی آبادی اور بہترین وسائل یعنی افرادی قوت، زراعت اور معدنیات۔ کوئلہ۔ تانبا۔ چاندی۔ سونا۔ وغیرہ کے باوجود ” بدترین امتزاج“ نے پاکستان کی اقتصادی صلاحیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سماجی، سیاسی اور معاشی حالت بدستور ہے۔
    گلوبلائزیشن کے بجائے گلو کلا ئزیشن پر عمل کر کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی ارتقا ممکن ہے۔پاکستان میں لا قانونیت کی وجہ سے اس امر پر عملدر آمد نہیں ہو سکا۔ قانون ساز عدلیہ کے خلاف ہڑتالیں کر رہے ہیں۔وکلا اپنے موکلوں سے فیس لے کر بھی عدالت میں حاضر نہیں ہوتے ۔ اب تو ڈاکٹر بھی، جو اس پیشے میں انسانیت کی خدمت کرنے کا حلف اٹھا کر آتے ہیں، اپنے مریضوں کی زندگی سے کھیل رہے ہیں۔ اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کو صرف اپنی فیس سے غرض ہے نہ کہ قومی صحت سے۔ سرکاری ملازمین جن کا کام انتظام چلانا ہے وہ خود سڑکوں پر ہوتے ہیں۔ ”قومیں لا دینیت پر تو زندہ رہ سکتی ہیں مگر نا انصافی پر نہیں“۔ملک میں ہر جگہ خود کش حملے ہو رہے ہیں۔ مسجد، مزار نہ مندر!کچھ بھی محفوظ نہیں۔اغوا اور گاڑی،فون یا پرس چھیننے کے واقعات عام ہیں اور اگر کوئی مزاحمت کرے تو قتل کردیا جاتا ہے۔ صاحب استطاعت لوگ اپنے گھروں اور گاڑیوں میں گارڈ رکھتے ہیں۔ فیکٹریوں میں پولیس کی گاڑیاں اور ہر جگہ رینجرز موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہاہے اور کون کر رہا ہے !کام کرنے کے ایام کم ہوتے جارہے ہیں۔ مذہبی تہواروں یعنی محرم،چہلم،عید،بقر عید،کرسمس،نیا سال اور قومی ہیروز کے یومِ پیدائش اور یومِ وفات پر چھٹیاں ہوتی ہیں جو دنیا میں کہیں نہیں -

    جمیل خان صاحب کا تبصرہ بھی قابل غور ہے!

    ReplyDelete
  14. کراچی میں بدامنی کی تازہ لہر!
    کراچی میں بدامنی کی تازہ لہر نے کئی روز سے عملاً شہری زندگی مفلوج کر رکھی ہے۔ پیر کے روز متحدہ قومی موومنٹ کے مقامی رہنما سمیت 6/افراد قاتلوں کا نشانہ بن گئے ۔ قبل ازیں چند ماہ کے دوران تقریباً تمام ہی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کی بڑی تعداد کو لقمہ اجل بنایا گیا۔ ان حالات میں عوامی سطح پر پائے جانے والے یہ شکوک وشبہات بے وزن نہیں ہیں کہ وطن دشمن عناصر ایک جانب قتل و غارت کے ذریعے ملک کے سب سے بڑے تجارتی و صنعتی شہر میں خوف اور افراتفری کی کیفیت پیدا کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو دوسری جانب سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کو راستے سے ہٹا کر شہریوں کو منظم کرنے والی قوتوں کو کمزور کررہے ہیں۔ پیر کے روز ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بعد شہر میں جس انداز سے افواہوں کے ذریعے کشیدگی کی فضا پیدا کی گئی اور نامعلوم افراد نے فائرنگ اور جلاؤ گھیراؤ کے ذریعے خوف و دہشت کی فضا پیدا کی وہ حد درجہ تشویشناک ہے ۔چند گھنٹوں کے دوران 40سے زیادہ گاڑیوں کا نذر آتش کیا جانا کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ اس سے ایک جانب ٹرانسپورٹروں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا تو دوسری جانب ٹرانسپورٹ کی کمی سے دوچار شہریوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔ کاروباری مراکز کی بندش اور سڑکوں پر بدترین ٹریفک جام نے لوگوں کو کئی کئی گھنٹے سڑکوں پر گزارنے پر مجبور کردیا۔ یہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ متعلقہ حکام حالات کا درست طور پر تجزیہ کریں۔ ارباب حکومت سمیت تمام سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں کے سرجوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت بطور خاص بڑھ گئی ہے۔ تاکہ کراچی کی سماجی و کاروباری زندگی کا پہیہ رواں رکھا جاسکے۔ کیونکہ اس شہر کے امن و امان پر ہی قومی معیشت کا دارومدار ہے۔

    ReplyDelete
  15. usama jub zinda tha tab wo 1 behtarin mouzu tha bat karnay kay lia or aub marnay k bad bhi electronic media kay zariye kaan mutasir karnay or print media kay zaria basarat mutasar karnay ka bhi 1 mustaqil mouzu hai,
    10 sal hum nay dehshat gardi k khilaf jung mai jhuk mara hai,asal imtehan tou aub shuru hoa hai,
    yeh 1 kamal ki tehreer hai aniqa sahiba.

    ReplyDelete
  16. مذہب پرستوں کا کُل فلسفہ و دانش یہ ہے کہ اگر شیطان ابلیس بھی امریکہ کے خلاف ہو جائے تو یہ لوگ شیطان کی بھی چُمی لے لیں گے۔

    ReplyDelete
  17. اسامہ مر گیا لیکن ابھی بھی یاد آتا ہے
    وہ ہر بات پہ کہنا کہ یہ ہوگا تو یوں ہوگا

    پیدا ہوا عرب میں رہا امریکہ اور افغان میں
    روٹھا جو امریکہ سے تو لڑا پھر جا کے افغان میں
    مرنے میں اسکے ایک راز ہے چھپا ہوا
    مدفن چنا سمندر کوجو مر گیا پاکستان میں
    تم بھی مرے وہ بھی مرا، ہو گیا انصاف پر
    ہم کیوں مرے ایسے صنم، ہم تھے وزیرستان میں
    _____________________________________________

    ماشا اللہ !
    آپکی شاعری پڑھ کر شاعر لندن حضرت علامہ الطاف حسین یاد آگئے. انھیں بھی ایک بار شاعری کا شوق ہوا تھا. جس پر یار لوگوں نے بڑا مزاح پیدا کیا لیکن آپ حاسدوں کی پرواہ نہیں کیجئے گا ورنہ قوم ایک شاعرہ مشرق سے محروم ہو جائے گی .

    ReplyDelete
  18. ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب،
    :)
    یہ شاعری تو ہے ہی حاسدین کی دل پشوری کے لئے۔ میں حاسدین کو بھی خوش رکھنا چاہتی ہوں مگر ایسا ہو نہیں پاتا۔ کر کے دکھائ ہم نے انہیں شاعری بھی، انکا دل جیتنے کو کیا کیا نہیں کیا۔ لیکن ڈھاک کے وہی تین پات۔ آپ اس پہ راضی نہیں لگتے۔
    یہ بتائیے کہ آپکا دل لندن میں کیوں اٹک جاتا ہے جب کہ میں سو فی صد کراچی میں راہئش پذیر ہوں آپکی انٹیلیجنس کا رڈآر لندن کی طرف کیوں مقرر رہتا ہے۔
    اسی وجہ سے مزے کی دیسی چیزیں آپکے رڈآر کے بلائینڈ اسپاٹ سے نکل جاتی ہیں۔
    بین السطور ہی نہیں، ظاہراً بھی یہ الل ٹپو شاعری ایکدم مزاحیہ ہے۔ اور اگر اس سے مزاح پیدا ہوا تو یہی ہمارا مقصود تھا۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ