Sunday, May 22, 2011

عِمّی ڈارلنگ

 میں سگنل کے سرخ ہونے کی وجہ سے رکی ہوئ اپنی لین کے کھلنے کا انتظار کر رہی تھی کہ میرے کانوں سے میگا فون پہ ابھرنے والی آواز ٹکرائ۔ آج ہمیں پاکستان کو بچانے کے لئے نکلنا ہے۔ ڈرون حملے پاکستان کی سالمیت پہ حملہ ہیں۔ تقریباً دس گز لمبائ پہ پھیلے شامیانے، چار میزوں اور آٹھ کرسیوں کے ساتھ تین افراد موجود تھے۔ پیغام دینے والا، پشتون لب و لہجے میں عوام کے جذبات ابھارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور رات کے ساڑھے آٹھ بجے سگنل کے اطراف میں موجود درجنوں منی بسوں میں اور انکی چھتوں پہ سوار  چند افراد اسے خالی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ یہ سب دن بھر کی تھکن لے کر گھر جا رہے تھے اور اس خیال سے لرزاں تھے کہ گھر میں ایک مہیب اندھیرا، بچوں کا رونا دھونا، پانی کا نہ ہونا، کھانے کی فکرات یہ سب انکی آمد کی منتظر ہونگیں۔
میرے سامنےبالکل آگے ایک سوزوکی میں کسی گارمنٹ فیکٹری سے واپس آنے  والی مفلوک الحال خواتین  بھی اسی اس فکر میں غلطاں تھیں۔ تھکن انکے چہرے کا مستقل حصہ تھی۔ ان میں سے کسی نے جھانکنے کی بھی زحمت نہیں کی کہ کیا اعلان ہو رہا ہے کون پاکستان کی سالمیت پہ سودا نہیں ہونے دے گا۔ انکا مسئلہ یہ نہیں ہے۔
اس سے ایکدن پہلے بھی میں اس سگنل پہ موجود تھی۔ اس دن جیسے ہی میں نے سگنل کھلنے پہ اپنا راستہ لیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ آگے ٹریفک جام ہے۔ اس روڈ پہ عام طور پہ کم ٹریفک ہوتا ہے اس وقت۔ میں نے خطرہ محسوس کرتے ہی گاڑی کو روڈ کے بائیں جانب کیا۔ اور جو پہلی گلی نظر آئ اس میں لے لی۔ آگے جا کر پتہ چلا کہ آگے بنارس چوک پہ شدید احتجاج جاری ہے۔ بنارس چوک کے چاروں طرف پشتون آبادی ہے۔ وہ احتجاج کر رہے تھے  پاکستان کی سالمیت  یا ڈرون حملوں کے لئے نہیں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف۔ چوبیس گھنٹوں سے بجلی نہیں تھی۔
لوڈ شیڈنگ، کراچی جیسے صنعتی شہر کے لئے ڈرون حملوں جیسی حیثیت رکھتی ہے۔ اور یہ حملے امریکہ کی طرف سے نہیں ہماری معیشت کی بد حالی اور ہماری ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔
چونکہ بعض حلقوں کی طرف سے یہ پیشن گوئ شدو مد سے کی جا رہی ہے کہ اگلا الیکشن عمران خان بھاری اکثریت سے جیت جائیں گے۔ خود عمران خان بھی اس بارے میں خاصے پُر یقین ہیں کہ وہ بھٹو کی طرح الیکشن کا منظر نامہ تبدیل کر دیں گے۔ اب یہ تو مستقبل بتائے گا۔ لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ  بھٹو کے بر عکس عوام سے زیادہ خواص میں مقبولیت رکھتے ہیں۔ وجہ انکی غیر دیسی شہرت ہے۔ خواص کو دیسی نہیں غیر دیسی چیزیں زیادہ پسند آتی ہیں۔
 میری دلچسپی بھی اس میں تھی کہ عمران خان کراچی میں کیسا دھرنا دینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اگرچہ مجھے اس بات پہ بھی حیرت ہوتی ہے کہ ڈرون حملوں پہ دھرنا دینے والے رہنما خودکش حملوں پہ ایک بھی ریلی نہیں نکال پاتے۔
میرے ایک عزیز فیصل آبادی  دوست نے پوچھا کہ آخر آپ عمران خان کو کیوں ووٹ نہیں دینا چاہتیں۔ نیو جنریشن، آجکی یوتھ اسکے ساتھ ہے۔؟ نیو جنریشن، میں نے ان سے کہا۔ نیو جنریشن اگر پرانی جنریشن کی ڈکٹو کاپی ہو تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کوئ ابا جی، چا چا جی موجود ہیں یا کوئ  علی  اور عِمّی موجود ہے۔ ابا جی اور چاچا جی کو جماعت اسلامی اور نواز شریف پسند تھے ، اپنے دینی رجحان کے باعث۔ بچوں کوعمران خان پسند ہے اسی قسم کے دینی رجحان کے باعث البتہ یہ کہ وہ ظاہراً ایک ماڈرن حلیہ رکھتے ہیں۔ آخر یہاں یوتھ ، زید حامد پہ بھی اسی وجہ سے فدا ہے۔
اچھا انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا تو پھر کس چیز سے فرق پڑتا ہے۔؟  فرق پڑتا ہے پارٹی ایجینڈا سے۔ اور معاف کیجئیے گا کہ انکے پاس سوائے اس نعرے کہ کہ یوتھ ہمارے ساتھ ہے اور کوئ قابل ذکر نعرہ نہیں۔
وہ کرپٹ نہیں ہے'۔ یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ابھی انہیں اتنا اختیار کہاں ملا ہے۔  سوائے اسکے کہ وہ اپنا ذاتی ہسپتال کامیابی سے چلاتے ہیں. اور کیا آپ نہیں سمجھتے کہ پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنا کاروبار بہترین طریقے سے چلاتے ہیں۔  اپنی انفرادی حیثت میں کرپٹ نہیں ہیں اور معاشرے کے پریشان حال لوگوں کے لئے کوشاں ہیں مثلاً ایس آئ یو ٹی کے ڈاکٹر ادیب رضوی۔
کہنے لگے کہ ایجینڈا کیا ہوتا ہے؟ وہ امریکہ کے خلاف ہیں، اسلام کے نفاذ میں دپچسی رکھتے ہیں، کرپشن ختم کرنا چاہتے ہیں، تعلیم یافتہ ہیں ۔ آکسفورڈ سے پڑھے ہوئے ہیں، دنیا دیکھی ہے۔ میں ہنستی ہوں، آکسفورڈ کی پڑھی ہوئیں تو بے نظیر بھی تھیں انکا بیٹا بھی وہیں پڑھ رہا ہے ہمارے طبقہ ء اشرافیہ کے بچے ملک سے باہر ایسے ہی اداروں میں پڑھتے ہیں۔
دنیا دیکھنے کے باوجود انکی ذہنی کیفیت ایک ٹین ایجر لڑکے جیسی ہی ہے۔ پیغمبری حاصل کرنے والی عمر میں انہیں اسلام یاد آیا وہ بھی وہ اسلام جو انکی والدہ نے انکے اندر بچپن میں ڈالا تھا۔ اور اب پچھلے کچھ عرصے سے امریکہ سے نفرت بھی کر رہے ہیں کچھ اس طرح کے اپنے ہسپتال کے لئے فنڈ وہیں سے جمع کر کے لاتے ہیں۔ امریکہ سے نفرت کا اظہار دائیں بازو کی سیاست کا اہم حصہ ہے۔ اس میں کوئ ویژن نہیں ہے۔ ملک میں اس وقت اتنے زیادہ لوگ اسلام کے نفاذ کے لئے کام کر رہے ہیں اس میں سے ایک وہ بھی سہی۔ چلیں سب ذاتی اعمال، کمزوریاں اور جھکاءو ایک طرف رکھ دیں۔ ان کا پارٹی ایجنڈا کیا ہے؟ کیا آپکو معلوم ہے؟
اسکے بعد ہماری گفتگو ایک دوسرے کو کچھ اخلاقی پند و نصائح پہ ختم ہو جاتی ہے۔
میں دھرنے والے دن کافی منتظر رہی کہ کوئ اطلاع آئے۔ چینلز خاموش رہے اگر اطلاع آئ تو یہ کہ پاکستان کی تاریخ میں واحد دھرنا جس میں ڈیزائینر کے کپڑے پہننے والوں نے سب سے زیادہ شرکت کی۔ لیکن انکی یہ شرکت بھی مغرب کے بعد ہی ممکن ہو سکی۔
کل کراچی میں چوالیس ڈگری درجہ ء حرارت تھا۔ ہماری یہ مار ڈالنے والی مرطوب گرمی بڑی شہرت رکھتی ہے۔ اس میں ڈیزائینر کے کپڑے پہننے والے اشرافیہ کے طبقے سے تعلق رکھنے والے  مغرب کے بعد بھی اپنے ایئر کنڈیشنڈ گھروں کو چھوڑ آنا اہمیت رکھتا ہے۔ ادھر سنی تحریک نے بھی اپنی حمایت کا اعلان کیا۔ اسکے علاوہ مذہبی جماعتوں  مثلاً جماعت اسلامی  نے بھی شرکت کی۔ اور یوں اندازہ ہے کہ رات دس بجے دھرنے میں پانچ سے آٹھ ہزار لوگوں موجود تھے۔ یہ اندازہ ڈان چینل نے لگایا۔ صبح دس بجے پنڈال خالی تھا ایک دم غریب کی جیب کی طرح۔ اطلاع ہے کہ شام کو چار پانچ بجے گرمی کم ہونے پہ دھرنا دوبارہ شروع ہوگا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈرون حملوں میں مرنے والوں کی زندگی ، دھرنا دینے والوں کے لئے کتنی اہمیت رکھتی ہے۔
پونے دو کروڑ آباد رکھنے والا شہر، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ چالیس لاکھ کی پشتون آبادی رکھتا ہے۔ وہ پشتون آبادی جو ڈرون حملوں سے براہ راست متائثر ہے۔ وہ پشتون آبادی جسکے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ زیادہ مذہبی رجحان رکھتی ہے وہ پشتون آبادی جسکے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ زیادہ امریکہ مخالف ہے۔ اس میں سے اگر ایک فیصد لوگ بھی اس میں شامل ہوتے تو مجمع چالیس ہزار سے زائد کا ہوتا۔
اگر دھرنا دینے والے سنجیدہ ہوتے تو دھرنا نیٹِو جیٹی کے پل پہ نہیں نیٹو سپلائ کے راستے پہ ہوتا۔ جو اس پل سے زیادہ دور نہیں۔ 
عمی ڈارلنگ کا بیان آیا کہ آج ثابت ہو گیا کہ پاکستان کے عوام خود مختار پاکستان چاہتے ہیں۔
پاکستان کے عوام کون ہیں وہ جو منی بسوں کی چھتوں پہ سفر کرتے ہیں جنکے گھروں میں چوالیس ڈگری کی گرمی پہ دو دن سے بجلی نہیں ہے یا وہ جنکے متعلق یہ کہا جائے کہ تونے دیکھے ہیں کہاں لوڈ شیڈنگ کے رنگ، تو کبھی میرے گھر اتر شام کے بعد۔ وہ جنکے لئے دھرنا ایک ایڈوینچر ہوگا۔ یا وہ مزدور جنہوں نے دھرنے میں کرسیاں لگا کر مزدوری نہ ملنے پہ ٹھیکے دار کی پٹائ لگادی۔

 عِمّی ڈارلنگ کہتے ہیں کہ عوام خود مختار پاکستان چاہتے ہیں۔
جبکہ  عِمّی ڈارلنگ عوام اس وقت اس عورت کی طرح ہو گئے ہیں جو زندگی کی جنگ میں اپنی عزت اور عصمت بیچنے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ جو خودکشی کرنے کے لئے تیار بیٹھا ہو اسے ڈرون حملوں میں مرنے پہ کیا اعتراض۔ 

15 comments:

  1. گو کہ مجھے عمران خان اور اسکی فضول سرگرمیوں میں آپ جتنی دلچسپی نہیں لیکن کراچی کی ایک نامی گرامی دہشت پسند جماعت کے بے ڈھنگے اور بے مقصد جلسوں سے عوام الناس کی دلچسپی اور عدم دلچسپی پر آپ نے کبھی نہیں لکھا؟

    عوام بے حس ہی بے غیرت اور بے حمیت بھی ہے اسی لئے پریشان ہے اور سدا روٹی کپڑے کے لئے پریشان ہی رہے گی ۔

    ReplyDelete
  2. شيباز شريف عوام کے ليئے بيرونی امداد بند کروا کر خود علاج کے ليئے بيرون ملک تشريف لے گئے؛
    http://www.jang.com.pk/jang/may2011-daily/22-05-2011/updates/5-22-2011_71395_1.gif

    اس صوبے کے حکمرانوں کی منافقت کا جواب نہيں-

    ReplyDelete
  3. 1- There is a huge difference between SIUT and Shaukat Khanum Cancer Hospital. Dr Adeeb, without any iota of reservation, is an honest and very talented asset, but he has not built SIUT. The scope is much smaller than cancer hospital (Urology).
    2- Imran is the finest and best of current lot. Who would you choose among PMLN, PPPP, MQM and tehreek Insaf?

    ReplyDelete
  4. یہ پشتون لب و لہجے والا شخص ہے، یہ پشتون آبادی ہے، یہ اردو بولنے والوں کی بستی ہے، پنجاب میں پنجابی رہتے ہیں، سندھ میں سندھی رہتے ہیں۔ یہ مذہبی جماعت ہے یقناً شدت پسند ہوگی۔ یہ لسانیت اور تعصب کی عینک جان ہی نہیں چھوڑتی۔

    نہ جانے پاکستانی کہاں ہیں۔ پاکستان کے لئے کون بات کرے گا۔ ڈرون حملے اگر اتنے ہی اچھے ہیں تو حکومت نہ جانے کیوں روز ڈرون حملوں کی مذمت کرتی ہے اسے ملکی خود مختاری کے خلاف کہتی ہے۔

    دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری نہیں امریکہ کی ہے۔ ہم کس کے ہیں ہم بھی تو امریکہ کے ہیں سو یہ جنگ ہماری ہی ہوئی نا!

    جب امریکہ عراق میں آیا تو وہاں خود کش حملے شروع ہوئے۔ پہلے نہیں ہوتے تھے، پھر افغانستان میں آیا وہاں خود کش حملے شروع ہوئے۔ وہاں بھی پہلے نہیں ہوتے تھے ۔ پھر ہم امریکہ کی جنگ میں کود گئے، یہاں بھی خود کش حملے شروع ہوگئے۔ کیا اس سے پہلے بھی ایسا ہی تھا؟

    امریکہ نے افغانستان سے مل کر روس کو ختم کر دیا، کسے استعمال کیا گیا پاکستانیوں کو اور افغانیوں کو۔ ہم نے بہت برا کیا ہمیں افغانستان کی جنگ میں امریکہ کا ساتھی نہیں بننا چاہیے تھا، آج وہی لوگ جو ہم نے روس کو بھگانے کے لئے اور امریکہ کی مدد کے لئے تیار کئے تھے آج وہ ہمارے لئے عذاب بن گئے ہیں۔ اس بات سے کس کو انکار ہے۔

    ہم پھر امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں اپنے لئے نئے دشمن بنا رہے ہیں۔ پچھلے تجربے سے ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔

    بالکل ایسے ہی جیسے خود کش حملہ آوروں کی مذمت کرتے ہوئے مذہبی انتہا پسند جماعتوں کا منہ ٹوٹتا ہے ۔ اسی طرح نام نہاد روشن خیال لوگ امریکہ کے خلاف ایک لفظ تک نہیں کہتے۔

    ہم یہ نہیں کہیں گے کیونکہ یہ ہماری مخالف جماعت کا ایجنڈا ہے۔ اگر اس میں پاکستان کا نقصان ہے تو ہوتا رہے۔ یہ ہماری جماعت کی پالیسی نہیں۔ ہم وہ نہیں کہیں گے کیونکہ یہ بات تو ہمارے مخالف کہتے ہیں۔ ذاتی مفاد، مصلحت اندیشی، سیاسی جوڑ توڑ ، اپنے دس روپے کے فائدے کے لئے ملک کو بڑے سے بڑا نقصان پہنچتا ہے تو پہنچتا رہے۔

    ہم سب کچھ کس کے لئے کر رہے ہیں۔ پاکستان کے لئے؟ یا اپنے لئے؟

    اگر آپ کو عمران خان پسند نہیں نہ سہی۔ تب آپ خود کچھ کریں کہ پاکستان کو اس مشکل گھڑی سے نکالیں۔ یہ رحمان ملک والی پالیسی کب تک چلے گی کہ کچھ بھی ہوجائے طالبان پر الزام لگا دیا جائے اور آپ کی تمام کمزوریاں طالبان کی دیو ہیکل تصویر کے پیچھے چھپ جائیں۔ اگر امریکہ ہمارا دوست ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ اب ہماری ہے (جو پہلے نہیں تھی) تو پھر لوگوں کو ایجوکیٹ کریں۔ امریکہ سے برابری کی بنیا د پر شراکت کریں۔ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ اگر ہم امریکہ کے مفادات کے تحفظ میں لگ جائیں گے تو پاکستان کے مفاد کا تحفظ کون کرے گا۔

    خدارا پاکستانی بن کر سوچیں، خود کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم نہ کریں۔ امریکہ تو طالبان سے مذاکرات تک کے لئے تیار ہے اور ہمارے قومی رہنما ایک دوسرے کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتے۔ ہمارے رہنما اگر آپس میں ملتے بھی ہیں تو اقتدار کی بندر بانٹ کے لئے۔ عوامی مسائل کے حل کے لئے ، دہشت گردی کی روک تھام کے لئے بھی کوئی گٹھ جوڑ ہوتا ہے؟ کیا عوامی مسائل کے لئے بھی ہمارے رہنماوں کے پاس وقت ہے؟

    ساری غلطیاں مخالف جماعتیں ہی نہیں کرتیں ۔ ہماری پسندیدہ جماعتیں بھی غلطیاں کرتی ہیں اور کر سکتی ہےہیں۔ اُن کی غلطیوں کی نشاندہی کون کرے گا؟ کب تک ہم اندھی حمایت اور اندھی مخالفت کرتے رہیں گے۔

    ReplyDelete
  5. تو گویا شہباز شریف اپنے علاج کا بھی بائیکاٹ کردیں
    اور جو لندن کے مزے لے رہے ہیں انہوں نے کیا کیا ہے

    ReplyDelete
  6. کاشف نصیر یہ کیا۔ جب ہم لکھتے ہیں کہ عوام دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتی ہے تو آپ فخر سے لکھتے ہیں کہ دیکھ لیں عوام کی اکثریت ہمارے ساتھ ہے۔ پاکستان میں وہ ہونا چاہئیے جو عوام چاہتی ہے۔ جب ہم یہ ثبوت پیش کرتے ہیں کہ عوام کو اسکی کھکھ بھی پرواہ نہیں کہ انکے ملک میں کیا ہو رہا ہے تو اسی بھولی عوام کو آپ بے غیرت بنا دیتے ہیں ۔ شاید اسی وجہ سے عوام بھی آپکے نظریات کی طرف توجہ نہیں رکھ پاتی۔ ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں۔
    باقی آپ آرام سے بیٹھ کر اپنی حریف جماعت کی تسبیح پڑھیں میں بالکل مخل نہیں ہونگی۔
    فارغ صاحب، مجھے نہیں معلوم کہ شوکت خانم ہسپتال اگر ایس آئ ٹی یویو ٹی سے بڑا ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ملک میں اس نوعیت کا سب سے بڑا سینٹر ہے۔ ڈاککٹر ادیب کی کوششوں سے اعضاء کی منتقلی کا بل بھی اسمبلی سے پاس ہوا۔
    ہسپتال کا عمران خان کے ویژن سے کیا تعلق ہے اس بات سے کیا تعلق ہے کہ انکی اپنی سیاست ملک کی پر اسرار قوتوں کی منظوری کے بغیر نہیں ہے۔ اس بات سے کیا تعلق ہے کہ انکے پاس باقی تمام جماعتوں سے ہٹ کر کوئ نیا منصوبہ، اسٹریٹجی یا ویژن موجود ہے۔ یہ تو آپ بھی کھڑے ہو کر کہہ سکتے ہیں کہ میں ایک ایماندار آدمی ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ مجھے اقتدار ملے تو نوے دن میں کرپشن ختم کر دونگا۔
    میں کسی نئے شخص کے لئے کام کرنا چاہونگی۔ مثلاً راشد کامران ، ایماندار لگتے ہیں صرف خریدی ہوئ کتاب پڑھتے ہیں۔ عمر بنگش بھی برے نہیں بس متنازع صورت سے بھاگتے ہیں جبکہ ملکی معاملات چلانے میں ایسی صورتیں تو اکثر آتی ہیں۔ ویسے اس حساب سے مکی بھی چلیں گے، متنازع صورتوں کا اتنا عادی بنا دیں گے کہ برداشت پیدا ہو کر رہے گی۔ مگر نان سیکولر کو ان سے بڑا مسئلہ ہوگا۔

    ReplyDelete
  7. محمد احمد صاحب، سندھ میں سندھی رہتا ہے پنجاب میں پنجابی، یہ تعصب ہماری درسی کتابوں سے شروع ہوتا ہے اور عملی زندگی میں یہ مختلف مقامات پہ واضح ہو کر سامنے آتا ہے جب محض ڈاکخانہ ایک ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے لئے دل نرم ہو جاتے ہیں۔ آپ اگر یہ سوچیں کہ یہ تعصب ختم ہو جائے تو یہ ختم نہیں ہو گا۔ یہ خاصی آئیڈیئل دنیا مین رہنے والی بات ہے میں بھی کبھی کسی سے اس چیز کی امید نہیں رکھتی کہ کوئ اس چیز سے مبرا ہو جائے گا۔
    میں نے تو ہمیشہ یہی کہا کہ ہماری بربادی کی جنگ اس وقت شروع ہوئ جب ہم نے امریکہ کے ساتھ ضیا الحق کا جہاد شروع کیا۔ امریکہ کے ایماء پہ ہم نے طالبان کو پیدا کیا تو اب امریکہ تو ان سے بات کرے گا۔ لیکن طالبان کے لئے آپ امریکہ نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان میں کسی امریکی کو نہیں مارتے پاکستانیوں کو مارتے ہیں۔ اگر وہ صرف چن چن کر امریکیوں کو مارت رہیں تو چاہے ساری دنیا ہماری مخالف ہوتی ہم سب انکے اس عمل پہ داد دے رہے ہوتے۔ مگر ایسا تو نہیں ہوا۔
    در حقیقت، القاعدہ بھی امریکہ کی پیداوار ہے ورنہ ایسا کیوں کہ امریکہ لیبیا میں تو القاعدہ کے ہاتھ مضبوط کرے لیکن پاکستان اور افغانستان میں انکے پیچھے پڑا ہو۔ کیا لیبیا اور پاکستان میں الگ الگ القاعدہ ہے۔ یہ امریکی سیاست کا انداز ہے۔
    انکے لئے انکے مفادات اہمیت رکھتے ہیں کسی اور کے نہیں۔ جبکہ ہمارے پاکستان میں اس کا الٹ ہے۔ جبھی اسامہ کے یہاں پائے جانے پہ ہمیں تشویش نہیں ہوتی۔
    بلکہ امریکہ کے ہاتھوں مارے جانے پہ ہمیں غصہ آتا ہے۔ آپ شاید یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ایم کیو ایم میری پسندیدہ جماعت ہے۔ میں نے تو آج تک انکو ووٹ نہیں دیا۔ میں تو ہمیشہ یہ کہنا چاہتی ہوں کہ لسانیت پہ مبنی بغض اکثریت کے روئیے میں شامل ہوتی ہے انکے بھی جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم متعصب نہیں۔ میں نے تو ہمیشہ اسی مد میں ثبوت پیش کئیے ہیں۔
    مجھے نہیں معلوم کہ میری کون سی ایسی تحریک ہے جو امریکہ حمایت میں لکھی گئ ہو۔ لیکن یہ رویہ بھی ختم ہونا چاہئیے کہ طالبان یا دہشت گردی کے خلاف کچھ کہنے والا امریکہ کا حامی ہے۔ امریکہ کے حامی صرف امریکن ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہماری ہر خرابی امریکہ کی مرہون منت نہیں ہے۔ یہ کہنا امریکہ کا حامی ہونا نہیں ہے۔
    ہمارے یہاں آج جو بھی ہو رہا ہے وہ پچھلے دس برس نہیں تیس سالوں کا حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک پوری نسل کی اکثریت ان انتہا پسند خیالات سے متائثر ہے۔
    میں خود کیوں نہیں آجاتی، پیسے نہیں ہیں، کسی فیوڈل خاندان سے تعلق نہیں، کسی وزیر کی بیوی یا بیٹی یا ہمشیرہ نہیں، خواتین کی حکمرانی خلاف مذہب ہے۔ اسکے علاوہ اپنی ذاتی حیثیت میں لوگوں کی بھلائ کے لئے جو کر سکتی ہوں کرتی ہوں۔ پیسے موجود ہوں تو روائیتی مدرسوں کو چندہ دینے کے بجائے اگر کوئ بیمار ہو یا کسی بچے کے اسکول کی تعلیم پیسوں کی وجہ سے رکی ہوئ ہو تو اسے ترجیح دیتی ہوں۔ اس طرح جن اصولوں پہ یقین رکھتی ہوں ان پہ عمل بھی کرتی ہوں۔
    اگر آپ سمجھتے ہوں کہ میں اور آپ کچھ اور لوگوں کے ساتھ مل کر کچھ اور بہتر کام کر سکتے ہیں تو مجھے ضرور بتائیے۔ میں اپنے ہاتھ پیروں اور ذہن کے ساتھ جو کچھ کر سکتی ہونگی ضرور کرونگی۔

    ReplyDelete
  8. مذہبی لوگوں کی بڑی تعداد مجاہدین سے ہمدردی رکھتی ہے لیکن عام عوام کا کوئی دین مذہب نہیں، کبھی ادھر کبھی ادھر، جدھر میڈیا اور سیاست دان لیں جائیں۔

    ReplyDelete
  9. مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ یہ ساری تقریریں ان کے بلاگ پر کیوں نہیں کی جاتیں جو تعصب کے بابا آدم ہیں،
    اب یہاں ہی دیکھ لیں،
    http://www.theajmals.com/blog/2011/05/%d8%ae%d8%b3%d8%a7%d8%b1%db%81-10-%da%a9%da%be%d8%b1%d8%a8-%db%94-%d8%b9%d9%8a%d8%a7%d8%b4%d9%8a%d8%a7%da%ba-%d8%ac%d8%a7%d8%b1%db%8c/comment-page-1/#comment-24030
    فرماتے ہیں،
    پی پی پی ۔ ق ليگ ۔ ايم کيو ايم اور اے اين پی سب ميلہ لُوٹ رہے ہيں اور نام نہاد عوام ان کيلئے آپس ميں لڑ لڑ کے مرتے جا رہے ہيں
    یہاں پنجاب میں حکمراں نون لیگ کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے،
    اور جب میں نے تبصرہ کیا کہ
    اور جی آپکی نون لیگ کے کرتا دھرتا نہ تو عیاشیاں کررہے ہیں،نہ میلے لوٹ رہے ہیں وہ تو پیٹ پر دو دو پتھرباندھ کر گھوم رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
    تو میرا تبصرہ شائع نہیں ہونے دیا،یہ ہے قوم کا درد جو ان کے پیٹ میں اٹھتا رہتا ہے!

    ReplyDelete
  10. خرم بشیر بھٹی نے ان کی پوسٹ پتھردل اورخسارہ دس کھرب عیاشیاں جاری پرزبردست جواب دیا ہے،
    کہ ٹیکس دیتے سب کا دم نکلتا ہے،اورباتیں بڑی بڑی،
    اپنی عیاشیاں تو فوج کے دم پر جاری اورساری ہیں،
    اب دیکھنا یہ ہے کہ کچھ شرم کرتے ہیں یا اسی طرح اپنی ڈھٹائی پر اڑے رہتے ہیں جیسے ہمیشہ کیاہے۔

    ReplyDelete
  11. فکر پاکستان بھائی یہ ان دہشت گردوں کے ہمدردوں کا اصول ہے کہ جب بھی انہیں کچھ کہو ،یہ بات کا رخ ایم کیو ایم اوراس سے جوڑی گئی دہشت گردیوں کی طرف موڑ کر سامنے والے کو چپ کروانے کی کوشش کرتے ہیں،(کیونکہ وہ کھلم کھلا ان کی دہشت گردیوں پر آواز بلند کرتے ہیں)
    یہ ہر بات میں جہاد اور اسلام لا کر اپنے گھناؤنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوششیں کرتے ہیں،
    آج بھی ان نام نہاد مسلمین کے ہیروئن سے بھرے دو ٹرک کراچی سے پکڑے گئے ہیں پٹھانوں اور پپنجابیوں کے گڑھ سے،محمو د آباد ،ماڑی پوراور قائد آباد
    فیصل بیس پر حملہ کرنے والے شاہ فیصل کولونی سے داخل ہوئے،شاہ فیصل کالونی میں کن کی اکثریت ہے یہ بتانےکی ضرورت نہیں ،یہ دہشت گرد جرائم پیشہ اپنے ہم قوم لوگوں میں چھپ کر،اپنی مزموم کوروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں،
    اور ان ہی میں سے بہت سے بلاگس کے ذریعے ہمدردیاں بٹورنےکی کوششیں کررہے ہیں!
    ایک ایک آدمی نے کئی کئی ناموں سے بلاگ بنائے ہوئے ہیں ،
    جب اس پر بس نہیں چلتا تو خواتین کے ناموں سے بلاگ اور تبصرے شروع کردیتے ہیں ،
    یہ تاریک ذہن پاکستان اوراسلام دشمن،ان سے محتاط رہنا اور ان کی چالوں پر گہری نظر رکھنا بے حد ضروری ہے!


    یہ تبصرہ کاشف نصیر کے نام سے بنائے گئے دہشت گردوں کے بلاگ پر کیا گیا ہے
    اور کیوں کہ مجھے یقین ہے وہا ں اس کو چھپنے نہیں دیا جائے گا ،
    اس لیئے فکر پاکستان کے اورآپکے بلاگ پر بھی چھاپ دیا ہے!
    http://kashifnaseer.co.cc/2011/05/%d8%b3%d8%a8-%d8%b3%db%92-%d9%be%db%81%d9%84%db%92-%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86/

    ReplyDelete
  12. عنیقہ صاحبہ،

    آپ کی طرف سے متوازن جواب پا کر خوشی ہوئی۔ آ پ کی بات ٹھیک ہے کہ تعصب ہماری رگ رگ میں بس گیا ہے اور اس سے کلی طور پر چھٹکارہ ممکن نہیں لیکن کسی نہ کسی حد تک ہم کوشش تو کر ہی سکتے ہیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جو لکھنے لکھانے سے وابسطہ ہیں اور لوگ اُنہیں پڑھ کر اپنے طور طریقے متعین کرتے ہیں وہ اگر کوشش کریں تو کچھ نہ کچھ بہتری کی اُمید کی جا سکتی ہے۔

    رہی آپ کی ایم کیو ایم سے وابستگی کی بات تو تمام بلاگستان ہی آپ کو ایم کیو ایم سے منسوب کرتا ہے بلکہ اکثر لوگ تو ایم کیو ایم کو آپ سے منسوب کرتے ہیں۔ آپ نے ایم کیو ایم کو ووٹ دیا یا نہیں دیا لیکن ایم کیو ایم کی ہمدردی اور حمایت میں آپ کے بلاگ پر بہت سی تحریریں موجود ہیں۔ اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ خود میں بھی کسی نہ کسی حد تک ایم کیو ایم کو ایک اچھی جماعت سمجھتا ہوں لیکن میں اپنی طبیعت سے مجبور ہوں کہ کسی ایک جماعت کی غیر مشروط حمایت یا مخالفت میرے بس کا روگ نہیں ۔ سو جس کی جو بات اچھی لگتی ہے اُسے سراہتا ہوں اور جو بُری لگتی ہے اس پر تنقید بھی کرتا ہوں۔ میں مخالفت برائے مخالفت کا قائل نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ تنقید بھی خیر خواہوں کا ہی حق ہوتی ہے۔

    پچھلے کچھ دنوں سے مسلسل پاکستان میں حالات و واقعات کچھ ایسے ہیں کہ کسی نہ کسی بہانے پاکستانیوں کا مورال گرتا ہی چلا جا رہا ہے، میرا خیال ہے کہ ایسے میں پریشان ہونا اور اربابِ اختیار کی طرف دیکھنا غیر فطری نہیں ہے۔

    رہی بات یہ کہ آ پ پاکستان کے لئے کیا کر سکتی ہیں تو کم از کم پیمانے پر میری خواہش ہے کہ مجھ سمیت تمام پاکستانی بلاگرز جو بھی کچھ لکھیں اس میں پاکستان کے وسیع تر مفاد کو پیشِ نظر رکھا جائے اور چھوٹے چھوٹے اختلافات پر وقت ضائع کرنے کے بجائے بہتر معاشرے اور اعلیٰ اقدار کی ترویج پر زور دیا جائے۔

    بہت معذرت کے میں نے اس قدر طویل تبصرہ آپ کی تحریر پر کیا کہ جو کچھ دوستوں کو اچھا نہیں لگا اگر آپ کو بھی کوئی بات نا گوار گزرے تو پیشگی معذرت۔

    ReplyDelete
  13. محمد احمد صاحب، میری بھی بلاگستان کے بلاگرز کی اکثریت کے بارے میں ایک رائے ہے اور وہ یہ کہ ان میں نہ صرف اپنی اپنی نسل کا تعصب شدت سے پایا جاتا ہے بلکہ مذہبی تعصب اور احساس برتری بھی اچھی طرح موجود ہے۔
    کیا ایسے لوگوں کو مجھے کسی خاطر میں لانا چاہئیے جو خود تعصب میں گوڈوں گوڈوں ڈوبے ہوئے ہیں۔
    ان میں سے ہر ایک کو اس وقت تک یہ چیز سننی پڑے گی جب تک وہ اپنے اس روئیے کی اصلاح نہیں کرتے۔ جو کہ وہ نہیں کریں گے۔ اس لئے اس پہ بات بےکار ہے۔
    وہ مجھ سے ایم کیو ایم سمجھتے ہیں اور میں یہ سمجھتی ہوں کہ پاکستان کی تباہی ان جیسے لوگوں کی ہی وحہ سے ہے۔
    ایم کیو ایم کی تخلیق بھی انکی وجہ سے تھی۔ نہ یہ متعصب ہوتے نہ یہ سب کچھ ہوتا۔ میں تو ضرور یہ جاننا چاہتی ہوں کہ ایک پنجابی، ہر قسم کے پٹھآنوں کو گلے لگانے کو تیار رہتا ہے وہ اس پٹھان کی بھی عزت کرتا ہے حو منشیات بیچتا ہے، اسلحے کی اسمگلنگ کرتا ہے، بم دھماکے کرتا ہے خود کش حملہ کرتا ہے۔ مگر جب ایم کیو ایم کی باری آتی ہے اسے تمام اخلاقی سبق یاد آنے لگتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ آخر ان پنجاب سے تعلق رکھنے والوں لوگوں کی وطن سے محبت اس وقت کیوں سو جاتی ہے۔
    یہی پنجابی، کراچی کے حالات کو سمجھے بغیر اس کی ہر خرابی کا ذمہ دار صرف ایم کیو ایم کو گرداننے میں کوئ کسر نہیں چھوڑتے۔ حالانکہ اب تو وکی لیکس بھی یہ کہہ رہی ہیں کراچی میں ہر سیاسی پارٹی کے گینگز کام کر رہے ہیں۔ اور مافیاز الگ۔
    مگر میں نے آج تک کم از کم ان میں سے کسی سے عقل اور انصاف کی بات اس سلسلے میں نہیں سنی۔ ہر ایک کی ایک منتخب، متعصب یادداشت اور معلومات ہیں۔
    حالانکہ یہ معاملہ مہاجروں کی اکثریت کے ساتھ نہیں ہے۔ ذاتی سطح پہ لوگ ایم کیو ایم پہ بھی بڑی تنقید کرتے ہیں میں بھی کرتی ہوں۔ مگر جب میرے سامنے متعصب قوم پرستوں کی ٹولیاں بیٹھی ہوں تو میں بالکل حرج نہیں سمجھتی کہ میں انہیں متعصب کہوں چاہے وہ مجھے ایم کیو ایم کا سمجھیں یا ایم کیو ایم مجھے سمجھیں۔
    یعنی انہیں راضی کرنے کے لئے انکے سامنے ایم کیو ایم کی برائیاں شروع کر دوں، لیکن انکی برائیاں نہ کروں۔ وہ اس سے زیادہ برے ہیں کیونکہ وہ ایسے حالات پیدا کرنے کے ذمہ دار بنتے ہیں جہاں لوگ عصبیت میں پناہ تلاش کرتے ہیں۔ یعنی اصل مجرم وہ ہیں۔
    کیا متعصب لوگوں کے ٹولوں کے سامنے عصبیت کا مظاہرہ کرنا غیر اخلاقی بات ہے؟ کیونکہ میں تو اس عیسائ فلسفے پہ یقین نہیں رکھتی کہ کوئ تمہارے گال پہ ایک تھپڑ مار دے تو اپنا دوسرا گال اسکے آگے کردو۔ میں الحمد للہ، مسلمان ہوں، آنکھ کے بدلے آنکھ۔ آخر انہیں بھی تو پتہ ہونا چاہئیے کہ مصنوعی اخلاقی اسباق کے پیچھے وہ خود کیا ہیں؟
    انتہائ معذرت کے ساتھ میں یہ نہیں کر سکتی کہ میں اپنے سامنے والے سے نسلی عصبیت رکھتی ہوں مگر اسے دل میں چھپا کر اوپر سے مصنوعی ڈائیلاگز جھاڑتی رہوں۔ یوں جب اصل مساءئل کا سامنا ہو تو میں اپنے نسلی تعصب کو برتتے ہوئے ایسے حل کو ترجیح دوں جس میں میرا جھکاءو جس طرف ہے اسے فائدہ پہنچے مگر سب کے سامنے اخلاقی دروس دیتے ہوئے کسی کو اختلاف کا موقع نہ دوں اور دوسروں کو اس اخلاقی دباءو میں رکھوں۔ اور یہی کہتی رہوں کہ عصبیت نہیںکرنی چاہئیے عصبیت کرنے والا ہم میں سے نہیں۔ سو بعض حالات میں نشتر کا استعمال ضروری اور جائز ہوتا ہے۔
    پاکستان کے وسیع تر مفاد میں یہ بات ضروری ہے کہ ہر ایک کو اپنے گریبان میں جھانکنے پہ مجبور کیا جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ آپکے ساتھ بھی سنگین مسائل ہیں اور وہ یہ ہیں۔
    لوگوں کی اکثریت عصبیت پہ یقین رکھتی ہو اسے برتتی ہو مگر وہ اسے عصبیت نہ سمجھتی ہو۔ البتہ کسی دوسرے کو اسکی وجہ سے گھسیٹتی ہو۔ تو مجھے تو اس میں اکثریت کے ساتھ مسئلہ لگتا ہے۔
    یہ آپ جانتے ہونگے کہ اکثریت ہمیشہ درست نہیں ہوتی۔ بلکہ اکثر درست نہیں ہوتی۔ جسیے دنیا کی اکثریت پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک سمجھتی ہے مگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پروپیگینڈہ ہے اور امریکن سازش۔

    ReplyDelete
  14. فرض کریں عمران خان کو وقعی حکومت بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔ فرض کریں وہ حکومت ملنے کے بعد بھی مثالی دیانت داری اور نیک نیتی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ تو بھی میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کی دیانت داری اور نیک نیتی پاکستان کو اتنا نقصان پہنچائے گی کسی کرپٹ حکمران کی کرپشن ہزار سال میں بھی نہیں پہنچا سکتی۔
    ضیاالحق کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اُس پہ کرپشن اور بدنیتی کے تو الزامات نہیں لگے۔ لیکن یہ بھی طے ہے کہ پاکستان کا جو حشر نشر ضیاالحق نے کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ پاکستان کی نسلیں ہی تباہ کردیں اُس نے اور نہ جانے کب تک ہم ضیاالحق کو بھگتیں گے۔
    اسی طرح عمران خان جتنا بھی ایماندار ہوجائے، جتنا بھی نیک نیت ہوجائے، اِس کا تعلق ضیاالحق کے نظریاتی قبیلے سے ہی ہے۔

    ReplyDelete
  15. صفدر صاحب ، جی ہاں عمران خا ن کے حامی نوجوان اکثر وہی ہیں جنکے والدین ضیا اءلحق کے نظریاتی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔
    یوں وہ یہ بات نہیں سمجھ رہے کہ عمران خان کی جدو جہد میں انہیں کوئ نئ چیز نہیں ملنے والی۔ یہ مزید ایک چہرے کا اضافہ ہے۔ جو اس لئے ہے کہ فضا میں تھکے ہوئے چہرے ہٹ جائیں۔ اس طرح سے نواز شریف کو ہٹا کر عمران خان کو لے آیا جائے گا۔ شریف برادران ویسے بھی خاصی حد تک اپنا اعتبار کھو چکے ہیں۔
    اس سارے کھیل کی ڈوریان چلانے والے وہی لوگ ہیں جو عرصے سے پاکستان میں سیاسی میدان میں سامنے نہیں آتے مگر چلاتے اسے وہی ہیں۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ