Saturday, May 28, 2011

نیا پاکستان، آدھا طالبان

اگر آپ عنوان دیکھ کر یہاں آئے ہیں تو مایوسی ہوگی۔ میں اس پہ کچھ نہیں لکھ رہی۔ محض دل پشوری ہے۔ جسٹ اے مارکیٹنگ ٹِرک۔ مجھ سے پہلے بھی کچھ لوگ یہ حرکت کر چکے ہیں۔ اس لئے اس میں کوئ تخیل کی پرواز نہیں ہے۔  کوئ وعظ بھی نہیں ہے۔
اور اگر اس عنوان کے سہارے کچھ بھی پڑھنے کے لئے تیار ہیں تو یقین رکھیں کہ آج آپکو کچھ مزے کا پڑھنے کو ملے گا۔ کیونکہ آج جن صفحات میں آپکو شریک کرنا چاہ رہی ہوں۔ وہ منٹو سے متعلق ہیں۔ لکھا ہے اسے منشا یاد صاحب نے ادبی سلسلے دنیا زاد کے  بائیسویں شمارے ،  سیاہ تارہ میں یہ شائع ہوا ہے۔ اسکے ایڈیٹر ہیں جناب ڈاکٹر آصف فرخی۔
یہ مضمون اپنے اسلوب میں مزاح اور طنز رکھتا ہے۔ لیکن جس چیز کی طرف میری توجہ زیادہ گئ۔ وہ منٹو کی ایک معصوم سی فرمائیش ہے ایک چھوٹےسے ایٹم بم کی۔ کس واسطے؟
اب دیکھیں منٹو صاحب نے جس سلاست اور روانی سے یہ فرمائیش کی ہے۔ اگر میں لکھوں تو، زن آزاد، روشن خیال کافر اور پڑھی لکھی جاہل قرار پاءوں۔ اس سے اشارہ سمجھنے والے سمجھ جائیں گے کہ بڑا ادیب  آخر کیسے جنم لیتا ہے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ انیس سو اسّی سے پہلے کا پاکستان کیا زیادہ ترقی یافتہ تھا۔  ترقی یافتہ تھا یا نہیں، البتہ  اس زمانے میں مرد لکھاریوں کا پسندیدہ موضوع خواتین کا پردہ اورانکے شرعی فرائض  نہیں ہوتے تھے۔
منٹو صاحب کا یہ خط اس میں انگریزی میں موجود ہے۔ اسکے مطابق انہیں ایک چھوٹا سا ایٹم بم چاہئیے ان مردوں کے لئے جو سڑک کے کنارے قدرتی ضرورت سے فارغ ہوتے ہیں۔ اسکے لئے وہ کیا اہتمام کرتے ہیں اسے میں اردو میں ترجمہ نہیں کرنا چاہتی۔ لیکن اپنے چند نامی گرامی بلاگرز سے جنہیں ان موضوعات سے دلچسپی ہے درخواست کرونگی کہ ایک نظر ادھر بھی۔  اس کا ترجمہ وہ اپنے بلاگ پہ شائع کر سکتے ہیں۔ اس سے حاصل ہونے والی شہرت پہ میں کوئ دعوی نہیں کرونگی۔ اس کا اعجاز منٹو صاحب کو جاتا ہے یا منشا یاد کو۔ میری حیثیت تو محض پیمبر کی سی ہے۔ وہ بھی وہ، جسکے بارے میں شاعر کہتا ہے کہ
پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے
  آئیے ، پڑھتے ہیں۔
۔



17 comments:

  1. اچھا کیا اس کا ترجمہ نهیں کیا
    لیکن جی
    ان کے متعلق کیا خیال هے جو
    وٹوانی کے طور پر دیوار کو استعمال کرتے هیں اور وه بھی سر عام
    فحاشی جی سرسر فحاشی
    سب کو مشک کافور کھلا دینا چاهیے
    لیکن
    پھر بن نوع انسانی کی ابادی کو بڑھانے کا کام کون کرئے گا جی
    یه منٹو صاحب نے ان مولویوں کا ذکر کیا هے غالباً جو جمعه کی تقریر کے احری پندره منٹ
    بقول شخصے
    ٹوٹے چلاتے هیں

    ReplyDelete
  2. Pakistani Muslim rapist admits women have no rights or opinions in Islam
    http://freethoughtnation.com/contributing-writers/63-acharya-s/535-pakistani-muslim-rapist-admits-women-have-no-rights-or-opinions-in-islam.html

    ReplyDelete
  3. مذکورہ لوگ ٹشو پیپر کے استعمال سے کیوں خائف رہتے ہیں ؟
    حقیقت نگاری پر جو سید عبداللہ کی رائے ہے ، اس پر بحثیت افسانہ نگار آپ کی کیا رائے ہے ؟
    منٹو کا افسانہ "دس نمبری" سکین کر کے ارسال کیا جائے۔

    ReplyDelete
  4. اس تحریر کو کاپی کر کے چھاپنے کا شکریہ۔

    ReplyDelete
  5. مذکورہ افراد گندا مٹی پتھر استعمال کریں تو عین "اسلامی" ٹھہریں۔
    اور آج کل اگر کوئی صاف ستھرا ٹشو پیپر استعمال کرے ، تو کافر ، روشن خیالیہ اور مغرب ذدہ ٹھہرے۔ یہ عجیب بات ہے۔ مغرب کے حصے ہمیشہ گالیاں کیوں آتی ہیں؟

    ReplyDelete
  6. better to post on scribd as pdf so that we can read it

    ReplyDelete
  7. منٹو کے بارے میں میری اپنی رائے بھی ڈاکٹر سید عبداللہ کی رائے سے مطابقت رکھتی ہے۔ عظیم صلاحیت لیکن ان کی بیان کی تلخی میں مجھے انکی ذاتی زندگی کی ناکامیوں کی کڑواہٹ محسوس ہوتی ہے۔ جیسے وہ اصلاح نہیں چاہتے بلکہ طنز کررہے ہیں اورجی ہی جی میں ڈر بھی رہے ہیں کہ اگر سب ٹھیک ہوگیا تو "تیرا کیا بنے گا رے کالیا" :)

    ReplyDelete
  8. Asma Jahangheer on Military Generals
    http://youtu.be/ZlbSyaCH3C8

    ReplyDelete
  9. عثمان، کہتے ہیں کہ حقیقت فکشن سے زیادہ تلخ ہوتی ہے۔ اتنی کہ اگر حقیقت نگاری کی جاءَ تو لوگوں کو یقین بھی نہ آئے کہ یہ حقیقت ہے۔ اسکی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ فکشن امکان کی دنیا ہے جبکہ حقیقت میں امکانات نہیں ہوتے۔
    یوں میں سید عبداللہ کی طرح حقیقے نگاری کے خلاف نہیں۔ لیکن حقیقت نگاری کو ایسا ہونا چاہئیے کہ پڑھنے کے بعد آپکو بغیر کسی موضوع پہ براہ راست وعظ کے بری چیز سے نفرت محسوس ہونے لگے۔
    جیسے فلموں میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہیروئین کے حوالے سے ہیرو اور ولن کے جذبات کم و بیش ایک جیسے ہوتے ہیں۔ مگر کہانی کا تانا بانا ایسا بنا ہوتا ہے کہ ہیرو کے ہر منفی عمل میں ہم کوئ مثبت پہلو تلاش کرتے ہیں اور ولن کے ہر عمل میں اسکے شعور اور تحت الشعور کی برائیاں۔
    ایک ہیجان خیز منظر کو پڑھنے کے بعد اگر کسی انسان کا دل مزید ہیجان خیزی سے گذرنے کا چاہے تو یہ حقیقت نگاری اپنا مقصد کھو دیتی ہے جبکہ تمام ہیجان خیزی میں گھسنے کے بعد قاری کو لگے کے ایسا تھپڑ پڑا کہ دماغ روشن ہو گیا تو ادیب کامیاب رہتا ہے۔
    ایک ادیب اور پورنو لکھنے والے میں یہ ایک واضح فرق ہوتا ہے۔ یہ آپکو ہیجان میں لاتا ہے مگر اسکے ساتھ ہی آپکو اس صورت سے، اسکے پیدا کرنے والے سے اتنی نفرت ہوتی ہے کہ آپ خود اپنے اعمال پہ بھی ایک چوری چھپے کی نظر ڈالتے ہیں کہ کہیں میں بھی تو ایسا نہیں کرتا۔
    دیکھنا پڑے گا کہ منٹو کا یہ افسانہ اگر تین یا چار تصاویر میں آجائے تو کسی وقت ضرور پڑھنے کو دیا جاوے۔ وعدہ نہیں کرتی۔
    خرم صاحب، میں دنیا کے کسی ایسے ادیب سے واقف نہیں، جو حقیقت نگاری لکھتا ہو لیکن ذاتی سطح پہ ایک خوشحال اور کامیاب زندگی گذار چکا ہو۔ در حقیقت۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ حقیقت نگاری وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اس چیز کا مشاہدہ بالکل قریب سے ر چکے ہوں۔ ایک خوش باش، خوشحال شخص بھی لکھتا ہے مگر ادب کی دیگر اصناف پہ۔ یہ اسکے بس کا کام نہیں۔ بھلا جس نے بارش میں ٹپکتی چھت کی تکلیف نہ اٹھآئ ہو اسے کیسے اندازہ ہو گا کہ بارش صرف رومانس نہیں دکھ کی چادر کا نام بھی ہے۔ ادب برائے اصلاح تو مولوی صاحب کا وعظ بن جاتا ہے۔ دنیا بھر کے بہترین ادب میں اس سے گریز کیا جاتا ہے۔ ادب انسان کو سوچنے کی لت لگا دے تو یہ اسکی کامیابی ہے۔ ورنہ تو پھر انسان لکیر کے فقیر بن جائیں۔ یعنی ایک کایاب انسان کو بظاہر ایسا نظر آنا چاہئیے، ایک نیک شخص اس طرح رہتا سہتا ہے۔ مگر کیا ہم اس سے انکار کر سکتے ہیں کہ ایسا عام زندگی میں نہیں ہوتا۔

    ReplyDelete
  10. ہمم.. تو منٹو کو آپ کہاں دیکھتی ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں وہ ایک کامیاب حقیقت نگار ہے یا کہیں کہیں اس کی گرفت کمزور بھی ہے؟
    میری ناقص رائے میں اس کی کامیابی میں کوئی شک ہی نہیں ، البتہ کچھ افسانے ایسے ہیں جنہیں پڑھ کر لگتا ہے کہ منٹو صاحب نے یہاں بس چول ہی ماری ہے۔ مثلا ان کا ایک افسانہ "مسڑ حمیدہ"۔ اس افسانے کا اختتام بس .. چول نگاری ہے۔
    اور افسانہ تو آپ کو مہیا کرنا پڑے گا۔ ورنہ میں تبصرہ کرکر کے بلاگ سر پر اٹھا لوں گا۔

    ReplyDelete
  11. عثمان،
    منٹو کے بارے میں چند دلچسپ باتِن گردش میں رہیں۔ مثلا یہ کہ جو کچھ انہوں نے لکھا وہ سارے کا سارا انکا لکھا ہوا نہیں ہے۔
    منٹو کی آمدنی کا کل ذریعہ انکی تحاریر تھیں۔ اسکے ساتھ وہ شراب کے بھی رسیا تھے، اسکے لئے بھی پیسے چاہئیے ہوتے ہیں۔ اس لئے انہیں تواتر سے لکھنا پڑا۔ اور کہنے والوں کے نزدیک یہ بھی ہوا کہ انہوں نے شقیہ لکھنے والوں کی تحاریر کو اپنے نام سے شائع کرا کر پیسوں میں حصہ لے لیا۔ اس طرح دونوں کا بھلا ہو گیا۔ اس طرح انکی تحاریر میں کچرے کی بھی کمی نہیں۔
    لیکن میرا خیال ہے کہ منٹو نے اس زمانے کے ادب میں تبدیلی کا عنصر دیا۔ یہ انکی بڑی کامیابی ہے۔

    ReplyDelete
  12. کیا یہ محض خیال آرائی ہے یا کوئی باقاعدہ تحقیق بھی موجود ہے؟ یہ تو بڑا دلچسپ موضوع ہوسکتا ہے۔ ماہرین کے لئے یہ جانچنا کوئی اتنا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔
    زندہ قومیں تو اپنے عظیم لکھاریوں کے ایک ایک لفظ کی سرجری کرتی رہتی ہیں۔

    ReplyDelete
  13. ہممم،
    یہ تو میرے لیئے نئی اطلاع ہے کہ منٹو نے دوسروں کے لکھے کو بھی اپنے نام سے شائع کروایا،

    سیدعبداللہ جیسوں کی رائے سے تو میں بھی ہر گز متفق نہیں حالانکہ پورنو گرافی کے سخت خلاف ہوں،مگر جب زندگی پورنو گرافی سے زیادہ ننگی ہو تو چیرا لگانے والی پورنو جائز ہے!

    Abdullah

    ReplyDelete
  14. یہ مجھے دیکھنا پڑے گا ان مضامین کو جو منٹو پہ لکھے گئے ہیں۔ میں بھی پڑھی ہوئ بات کہہ رہی ہوں۔ ایسی کوئ تحریر ملنے پہ یہاں ضرور دی جائے گی۔

    ReplyDelete
  15. ابن صفی پر تحقیقی مضامین لکھتے لکھتے ایک افسانہ لکھ بیٹھا
    زندگی کا پہلا افسانہ!
    اور اتفاق تو دیکھو کہ دنیازاد کے تازہ ترین 31ویں شمارے میں شائع ہوا
    ڈاکٹر آصف فرخی سے ایک مرتبہ دنیا زاد سے مواد اسکین کرنے کی اجازت چاہی تھی لیکن وہ تذبذب کا شکار ہوئے اور کہا کہ فی الحال وہ ایسا نہیں چاہتے
    کیا اس ویب سائٹ پر شامل کردہ دنیازاد کے مضامین کی ڈاکٹر صاحب سے اجازت لی گئی ہے ? اگر ہاں تو آگاہ کیجیے
    رضا علی عابدی کی حالیہ خودنوشت نوشت پر تبصرہ شوخی تحریر کی زینت بنانا چاہوں تو کیا طریقہ ہے ? فائل ان پیج میں ہے
    زندگی کے پہلے افسانے کو اسکین کرکے یہاں شامل کیا جائے گا تو ممنون رہوں گا - اس کا عنوان ہے "جنت سے آگے"

    خیر اندیش
    راشد اشرف
    نگراں کار
    www.wadi-e-urdu.com
    ابن صفی پر ایک غیر تجارتی ویب سائٹ
    zest70pk@gmail.com

    ReplyDelete
  16. راشد اشرف صاحب، اسکی اجازت آصف فرخی صاحب سے نہیں لی گئ ہے۔ آپ کے استفسار پہ سوچ رہی ہوں کہ لینی چاہئیے۔ کیونکہ میں نے سوچا کہ یہ رسالے کی خاصی پرانی اشاعت ہے۔ اس لئے مسئلہ نہیں ہوگا۔ لیکن اب آپ کی بات پہ انہیں مطلع کرنا پڑے گا۔
    تبصرہ آپ بھیج دیجئیے۔ میں اسے آپکے نام سے ڈال دونگی۔ لیکن اسکے تبصروں پہ جواب دینے کے لئے آپکو تیار رہنا پڑے گا۔

    ReplyDelete
  17. راشد اشرف صاحب، دنیا زاد کا تازہ رسالہ میں نے ابھی نہیں پڑھا۔ کیا یہ آپکا ذاتی افسانہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو اسے اسکین کر کے ڈالا جا سکتا ہے۔ مگر میں اس کا موضوع دیکھنا چاہونگی۔
    دوسرے یہ کہ مجھے ابھی ابھی خیال آیا کہ آسف فرخی صاحب کو مشورہ دینا چاہئیے کہ وہ اپنے رسالے کی ویب سائیٹ بنا لیں جہاں پرانکے پرانے رسالے کی تحاریر موجود ہوں اور انکے لنک استعمال کیا جا سکیں۔
    ابھی میرے ہاتھ ادبی رسالے آج کا کراچی نمبر ہاتھ لگا۔ اس مِن کراچی کے پرانے ترین نقشے ہیں۔ ظاہر ہے وہ بھی انہوں نے کہیں سے لئے ہیں۔ میرے ذہن میں تھا کہ کسی مناسب وقت پہ انہیں اسکین کر کے ڈال دونگی۔ لیکن اب سوچتی ہوں کیا ایسا کرنا غیر مناسب ہوگا۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ