Saturday, December 24, 2011

مریم کا بیٹا اور میری بیٹی

بوہری بازار سے گذرتے ہوئے میری نظر ایک  بڑے سے ہرے رنگ کے درخت پہ پڑی جس پہ سجاوٹ کی اشیاء ٹنگی ہوئ تھیں۔ اوہ کرسمس آنے والا ہے مجھے خیال آیا۔ یہ منظر آنکھوں کو بڑا بھلا لگا۔ میری بیٹی بھی شور مچاتی ہے 'کرسمس ٹری' نظر آرہا ہے کہیں سانتا کلاز بھی تحفے لئے کھڑا ہوگا۔ بچوں کو ہر الف لیلوی چیز میں کشش محسوس ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے یر سال اسکی سالگرہ ایکدن پہلے پچیس دسمبر کو منانا پڑتی ہے، اس دن ہمارے یہاں قائد اعظم ڈے جو ہوتا ہے۔ حضرت عیسی کی طرح یہ بات بھی یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ یہ قائد اعظم کی صحیح تاریخ پیدائیش ہے۔
کراچی کا یہ حصہ بالخصوص مجھے بہت پسند ہے۔ یہاں جو ثقافتی رنگا رنگی نظر آتی ہے وہ شاید ہی ملک کے کسی حصے میں نظر آتی ہو۔ عیسائ، ہندو، پارسی، آغاخانی، ، بوہری اور بھانت بھانت کے دیگر مذاہب اور زبانیں بولنے والے خرید و فروخت میں مصروف۔ خواتین اسکرٹس، ساڑھی، شلوار قمیض، دوپٹہ، بغیر دوپٹہ، برقعہ، بغیر برقعہ ہر طرح کے کپڑوں میں ملبوس اور موجود۔ یہیں ، چند غیر ملکی بھی نظر آسکتے ہیں جو سستی، عوامی  اور اچھی خریداری کے لئے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
یہاں کی عمارتوں پہ گوتھک اثر نظر آتا ہے کہ بیشتر خوبصورت عمارتیں انگریزوں کے دور میں بنی ہیں۔ لوگوں کا ہجوم جس سے میں بچپن میں خوفزدہ ہو جاتی تھی اور گاڑیوں کا ہجوم جن سے میں اب خوفزدہ ہو جاتی ہوں۔
کراچی  کے بازار میں کراچی پہ صدقے واری ہونے کے بعد جب میں رات کو اپنا کمپیوٹر کھولتی ہوں تاکہ اپنے فیس بک دوستوں کی سرگرمیاں دیکھ سکوں تو سائیڈ پہ ایک اشتہار نمودار ہوتا ہے۔ بائیکاٹ کرسمس یہ مسلمانوں کا تہوار نہیں۔  کچھ اس طرح کی تصاویر شیئر کی ہوئ نظر آتی ہیں جن پہ لکھا ہے کہ 'میری کرسمس' نہ کہیں یہ کہنے سے آپ دائرہ اسلام سے باہر ہو جائیں گے۔
میں دائرہ اسلام سے باہر نکالے جانے کے خوف میں جلدی سے 'میری کرسمس' کے معنی ویکیپیڈیا پہ چیک کرتی ہوں۔ یہاں بڑی دلچسپ معلومات ہیں۔ مثلاً حضرت عیسی کی پیدائیش کا سال یقین کے ساتھ متعین نہیں یہ سن دو یا سات  قبل از عیسی ہے۔
چوتھی صدی میں پہلی دفعہ حضرت عیسی کی پیدائیش کا دن پچیس دسمبر رکھا گیا۔ اسکے  انتخاب کے بارے میں متضآد رائے ہیں۔ مثلاً یہ حضرت عیسی کے حمل قرار پا جانے کی تاریخ سے ٹھیک نو مہینے بعد رکھی گئ۔ صدیوں پرانے دیہاتی میلے کی تاریخ کو سامنے رکھ کر نکالی گئ۔ یا پھر یہ کہ رومن  موسم سرما کے تہوار کے مد نظر تجویز کی گئ۔
خود اس تاریخ میں اتنے اختلاف ہیں کہ اکثریت اسے پچیس دسمبر کو مناتی ہے، ایک اور بڑی تعداد چھ جنوری کو جبکہ بعض ممالک میں سات اور انیس جنوری کو مذہبی جوش و جذبے اور احترام سے گذاری جاتی ہے اور اس سلسلے میں چھٹی ملتی ہے۔
اسکے پس منظر کو سامنے رکھیں تو یہ دراصل ایک ایسا تہوار بن گیا ہے جس میں حضرت عیسی سے پہلے کو تہوار کو ضم کر کے عیسائیت اور سیکولیرزم کا ملغوبہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ 
جدید صنعتی دور میں اسکی اہمیت یوں ہے کہ چھٹی ملتی ہے،اچھا کھانا کھایا جاتا ہے، خاندان جمع ہوتے ہیں، تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے اور کاروباری مواقع بڑھتے ہیں۔

اب میری کرسمس کے معنوں کی طرف آئیں۔ وکیپیڈا کے مطابق،
The word "Christmas" originated as a compound meaning "Christ's mass". It is derived from the Middle English Cristemasse, which is from Old English Crīstesmæsse, a phrase first recorded in 1038.[6] Crīst (genitive Crīstes) is from Greek Khrīstos (Χριστός), a translation of Hebrew Māšîaḥ (מָשִׁיחַ), "Messiah"; and mæsse is from Latin missa, the celebration of the Eucharist. The form "Christenmas" was also historically used, but is now considered archaic and dialectal;
سادہ سی اردو میں یہ کہ کرسمس دراصل دو الفاظ کا مجموعہ ہے جس کا مطلب ہے کرائسٹ کا کھانا یعنی 'میری کرسمس' کا مطلب خدا کا کھانا مبارک ہو۔ اور اس سارے چکر میں مجھے کہیں بھی یہ بات پڑھنے کو نہیں ملی کہ'میری کرسمس' کا مطلب ہے خدا نے کرائسٹ کو جنا۔ جبکہ کرائسٹ کا مطلب ہے مسیحا۔
تو جناب، ہمارے مذہبی جذبے میں بڑھے ہوئے لوگ کچھ کہنے سے پہلے اس چیز کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے کہ اپنی بنیادی معلومات درست کر لیں۔ دائرہ اسلام سے خارج کرنے سے پہلے یہ تو سوچنا چاہئیے کہ اسلام کا دائرہ آخر کتنا چھوٹا یا کتنا بڑا ہے۔ اگر وہ نہیں سوچیں گے تو جسے باہر نکال رہے ہیں وہ ضرور سوچے گا۔
اسکے ساتھ ہی 'میری کرسمس' ان لوگوں کو جو اسے منا رہے ہیں۔ خدا اس زمین پہ انسانوں کو خوشیوں کے ہر گذرتے لمحے سے محظوظ ہونے کی نعمت دے اور میری بیٹی کو پانچویں سال گرہ مبارک ہو۔ وہ مجھ سے پوچھتی ہیں کہ آپ اللہ میاں کے تحفے کو کیا تحفہ دیں گی؟
میں اپنے بچے کو ایک ایسی دنیا تحفے میں دینا چاہتی ہوں جہاں لوگوں میں بنیادی برداشت ضرور ہو کہ یہی محبت اور امن کی ضرورت ہے۔ یہ بات انہیں سمجھ میں نہیں آتی لیکن یہ انہیں سمجھنا پڑے گی۔
مریم کا بیٹا محبت کا پیغام لے کر آیا تھا اور یہ ستم ظریفی ہے کہ آج دو ہزار سال بعد بھی مجھے اپنے بیٹی کے لئے اسی تحفے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔    

4 comments:

  1. سپر گرل کو سالگرہ مبارک ہو۔
    کیا کیا پکوان دستیاب ہیں ؟
    میرے حصہ کا کیا بنے گا ؟

    باقی رہا کرسمس کے درپے جنونیوں کا مسئلہ تو ان سے نمٹنا تو بہت آسان ہے۔ جب بھی کوئی آپ کے سامنے اس طرح کا واعظ سنائے یا آپ اس قسم کی کوئی ای میل وصول کریں یا آپ فیس بک وغیرہ پر یہ لکھا دیکھیں تو وہاں ایک مسراہٹ کے ساتھ یہ کہہ دیا کریں:
    Merry Christmas

    ReplyDelete
  2. عثمان، سپر گرل شکریہ ادا کرتی ہیں۔ پکوان فریزر میں ڈال رہی ہوں جب کراچی آئیں تو وصول کر لیں۔
    :)

    ReplyDelete
  3. پیاری مشعل کو سالگرہ بہت بہت مبارک ہو،ماں باپ کے سائے میں پروان چڑھیں اور آپ لوگ ان کا سکھ دیکھیں،آمین
    مبارک باد کچھ لیٹ ہوگئی ہے گر قبول افتذ زہے عز و شرف!
    :)

    مجھے بھی اپنی نسل کے لیئے ایسی ہی پر امن اور محبت بھری دنیا چاہیئے،
    ہم بنائیں گے تو ہماری اولادیں اس کا سکھ اٹھائیں گی!
    اللہ نفرتیں پھیلانے والوں کو محبتیں پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے،آمین

    ReplyDelete
  4. اور ہاں میں تو کراچی میں ہی ہوں،تو عثمان کا حصہ میں کھالوں گا جواب میں میری طرف سے دعائیں انہیں پہنچ جائیں گی!
    :)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ