Monday, January 2, 2012

نیا سال

جس طرح ہر تہوار کے کچھ  رسوم اور آداب ہوتے ہیں اسے منانے کے لئے. اسی طرح نئے سال  کو خوش آمدید کہنے کے انداز ہوتے ہیں۔ مثلاً کچھ لوگ اسے محبوب دلنواز کے ساتھ منانا چاہتے ہیں۔ اسکے لئے مناسب مقام و طعام کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ کچھ دوستوں کے ساتھ منانا چاہتے ہیں انہیں  مقام اور مشروب چاہئیے ہوتا ہے۔ کچھ کو نہ دوست چاہئیے ہوتے ہیں نہ محبوب، وہ زمانے کو دکھانا اور ہلانا چاہتے ہیں۔ انہیں مقام اور کچھ گولہ بارود چاہئے ہوتا ہے۔ کچھ آگ سے کھیلنے کے شوقین ہوتے ہیں اور آتشبازی سے دل بہلاتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے کم درجے پہ وہ نوجوان ہوتے ہیں جو موٹر سائیکل کے سائیلینسر ہٹا کر سڑکوں پہ دوڑتے پھرتے ہیں۔ صرف سڑکوں پہ دوڑنے کے ہم نہیں قائل، جو پھٹپھٹا کر سنائ نہ دے وہ سائیکل کیا ہے۔
ہم نئے سال کی پہلی رات کیا کرتے ہیں؟
شروع کےتین چار گھنٹے اندازہ لگاتے رہتے ہیں کہ یہ فائرنگ کی آواز تھی یا آتشبازی کا پٹاخہ۔  کراچی میں جنم لینے اور پیدائیش کے بعد سے اب تک اس شہر سے جڑے رہنے کی وجہ سے یہ ایک انتہائ دلچسپ مشغلہ لگتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے بعض مردوں کو یہ اندازہ لگانے میں لطف آتا ہے کہ سامنے سے گذرتی خاتون شادی شدہ ہے یا نہیں۔
باقی ساری دنیا میں جہاں نئے سال پہ فائرنگ اور آتشبازی کے پٹاخوں کا نادر نمونہ نہیں چلایا جاتا،ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ محض نشے میں دھت ہو کر اپنے ہی پیشاب اور قے میں لوٹیں لگانے سے کیا خاک مزہ آتا ہوگا۔ نئے سال کے آغاز کو مناتے ہوئے تین افراد کراچی میں مارے گئے۔ اس پہ ہمیں کوئ افسوس نہیں، خوشی کے اظہار کے لئے گولی اور آتشبازی میں  مرنے کا مقام، شراب کے نشے میں دھت ہو کرکسی نالے یا موری میں پڑے رہنے کے مقام سے کہیں اعلی معلوم ہوتا ہے۔ سلام ان پہ جنہوں نے اظہار اور اس دوران انتقال کے لئے معروف روائیتی  و مثالی پاکستانی طریقوں کو اپنایا۔
۔
۔
۔
نئے سال کا آغاز چونکہ ہماری روایت نہیں بلکہ نئے معاشرتی رکھ رکھاءو کی دیگر لا تعداد اداءووں کے ساتھ یہ بھی مغرب کی دین ہے۔ اس لئے اسے منانے کے طور طریقوں پہ اب تک اتفاق نہیں پیدا ہو پایا۔ جہاں سے یہ ہمارے یہاں آیا انہوں نے اسکے ساتھ ایک پخ یہ بھی لگا رکھی ہے کہ آنے والے سال کے لئے کوئ قرار داد بھی رکھی جائے۔ میں نے  کچھ قرار دادوں کا اندازہ لگایا ہے۔ تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
حکومتی قرارداد، عوام کے لئے فوری بنیادوں پہ کم قیمت  چنوں کی فراہمی تاکہ وہ چنوں سے گیس پیدا کر سکیں۔ چنا گیس امید کی جاتی ہے کہ سی این جی کی نسبت زیادہ تسلسل کے ساتھ فراہم کی جا سکے گی۔ اس سلسلے میں مزید گیس پیدا کرنے والی روائیتی اشیاء پہ بھی غور کیا جائے گا، مثلاً گوبھی اور مولی۔ ادرک اور کالے نمک کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے گی۔
تحریک انصاف، تمام لوٹوں کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوششوں میں کامیاب ہو گی۔ لوٹوں کے پائڈ پائیپر ، عمران خان کا یہ احسان قوم جلد ہی ووٹوں کی صورت میں اتارے گی۔ اگچہ اب تک یہ ایک سوال ہی ہے کہ جمع کئیے ہوئے لوٹوں کو کیسے ری سائیکل کیا جائے گا۔
خفیہ طاقتیں، میمو گیٹ نامی چوہے کو تین چار مہینے اور دوڑائیں گی جب تک انکے پیچھے دوڑنے والی بلیاں انکی پسند کے پنجروں میں نہ پہنچ جائیں۔
تمام سیاسی جماعتوں کا اب ایک موسیقی کا ونگ بھی ہوگا۔ اس طرح ملک میں فن اور فنکار کی اہمیت بڑھنے کا امکان ہے ۔



اسکے علاوہ چند پیشنگوئیاں جو بالکل درست ثابت ہونگیں۔
 اس سال  ملک کی زیر بحث مشہور زندہ شخصیات، زرداری،   مشرف، الطاف حسین، عمران خان، اور وینا ملک رہیں گی۔ مردہ شخصیات میں سید ابوالاعلی مودودی اور بھٹو کے درمیان مقابلہ جاری رہے گا۔
رواں سال بھی یہ طے نہیں ہو پائے گا کہ قائد اعظم سیکولر تھے یا مولانا۔
بے نظیر بھٹو کے قاتل کی تلاش جاری رہے گی۔
عوامی گفتگو میں مشہور الفاظ کچھ اس طرح ہونگے، چور، جھوٹے، بے غیرت، کرپشن، لوٹے، انصاف ، تحریک اور تحریک انصاف۔
اس سال بھی اس برہمن کا پتہ نہ چل پائے گا جو ہر سال کے آغاز پہ عشّاق کو تسلی دے کر روانہ ہوتا ہے کہ یہ سال اچھا ہے۔ اسکی وجہ سے عشاق کی تعداد میں روز افزوں اضافہ جاری رہے گا۔
پاکستان بلاگ ایوارڈز والے ایک دفعہ پھر فرحان دانش کو بہترین اردو بلاگر کا ایوارڈ دیں گے تاکہ اردو بلاگرز میں صحیح سے رن کا میدان چھڑے اور وہ بلاگنگ سے تائب ہو جائیں یا پھر انگریزی میں بلاگنگ کریں۔

میں کیا کرونگی؟
 میں سر سید جیسی عظیم ہستی پہ اپنی تحاریر کو مکمل کرونگی۔
:)
آپ سب کو نیا سال مبارک ہو۔ وائے افسوس کہ غالب نے نئے سال کے متعلق برہمن کے ارشاد کے سوا کچھ نہیں فرمایا لیکن امید کرتے ہیں عشاق کے علاوہ ہمیں بھی کچھ بہتر ملے گا۔


14 comments:

  1. اسی نئے سال کے حوالے سے آپ کو ٹیگ کیاجا چکاہے۔آپ کے جوابات متوقع ہیں۔

    ReplyDelete
  2. آپ اس سال گیسٹرک کی نئی دوا آزمائیں گی؟

    بدتمیز

    ReplyDelete
  3. ہا ہا ہا بہت خوب ۔۔۔۔ ویسے آپکو گیس اور آپکے گھر میں موجود لینڈ رور سی این جی پر تو آپکی جگہ تو سلنڈر کے اپر بنتی ہوگی

    ReplyDelete
  4. ضیاءالحسن خان صاحب، لینڈ روور ، سی این جی پہ۔ جو لینڈ روور رکھتے ہیں وہ پیٹرول یا ڈیزل کو بھی برداشت کرتے ہیں۔ چالیس کلو وزن پہ لینڈ روور مجھے اوپر برداشت کرے گی چلے گی نہیں۔ ایسے کاموں کے لئے بندہ قوی الجثہ ہونا چاہئیے یعنی لمبا چوڑا۔

    ReplyDelete
  5. بد تمیز، آپ نے پھر غور سے نہیں پڑھا، گورنمنٹ اس قسم کی تمام دواءووں پہ پابندی لگانے والی ہے۔ بازار سے یہ دوائیں غائب ہونے والی ہیں ورنہ آپکی گاڑی کیا گھر کا چولہا بھی نہیں چلے گا۔

    ReplyDelete
  6. احمد عرفان شفقت صاحب، کہاں ٹیگ کیا جا چکا ہے مجھے کچھ علم نہیں۔

    ReplyDelete
  7. گیسٹرک کی دواوں پر پابندی لگ گئی تو پھر آپ تو پوری گلی کی گیس سپلائی کا ذمہ لے سکتی ہیں۔
    مفت کی سماجی خدمت
    ایدھی کی طرح آپ بھی مشہور ہوجائیں گی
    آنٹی گیسی کے نام سے

    بدتمیز

    ReplyDelete
  8. بد تمیز، سمجھ نہیں آیا کہ چنے کھانے اور چنا گیس کی بات پہ آپ اور آپکے بھائ بند ضیاء الحسن خان صاحب اتنے جذباتی کیوں ہو گئے۔
    خیریت، گیس آپکے دماغ پہ اتنی کیوں چڑھی رہتی ہے۔

    ReplyDelete
  9. چنوں اور گیس کا ذکر تو آپ نے ہی چھیڑا ہے
    اب اس کا سارا ملبہ مجھ پر نہ ڈالیں
    ماننا تو آپ نے ہے نہیں
    پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ
    منّن والے دن جمیا ای نئیں سی
    آپ کا حال بھی وہی ہے۔
    ویسےآپ گیسٹرک والی بات پر اتنا بھڑکی کیوں ہیں؟ بیمار ہونا تو کوئی شرمندگی والی بات نہیں ہے۔ علاج نہ کروانا البتہ آپ کے ارد گرد کے لوگوں کے لیے کافی تکلیف دہ ہوگا۔
    بدتمیز

    ReplyDelete
  10. آپ کواس لنک پر ٹیگ کیا گیا ہے


    http://ahmedirfanshafqat.blogspot.com/2012/01/blog-post.html

    ReplyDelete
  11. بد تمیز، میں نے تو پاکستان میں گیس کے بحران پہ لکھا لیکن آپکی عقل یہاں تک کام کرتی ہے کہ پے درپے آپ نے اسے صرف مجھ سے منسلک کر دیا۔ ذرا باہر نکل کر پنجاب کے صنعت کاروں اور عوام سے پوچھیں کہ انکی ہوا کیوں نکلی ہوئ ہے۔
    اگر کوئ شخص ذہنی طور پہ بیمار ہو تو وہ زیادہ قابل رحم ہو جاتا ہے۔ آپکے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ آپ کی حالت کو بہتر بنانے والے لوگ کم ہیں اور اسے بڑھاوا دینے والے زیادہ۔
    حیرانی تو مجھے ہے کہآخر اتنے لمبے عرصے بعد اس موضوع پہ مجبور ہو کر آپکو اس بلاگ پہ بار بار آنے کی کیا ضرورت آ پڑی۔ کہیں انجانے میں، میں نے کسی دکھتی رگ پہ ہاتھ تو نہیں رکھ دیا۔ کیونکہ ہم جسے رب راکھا کہتے ہیں اسے درست نیت کے ساتھ خدا ہی کے حوالے کرتے ہیں۔ ایکدم پکے توحید پرست کی طرح۔ بار بار اپنا آنکڑا نہیں ڈالتے۔

    ReplyDelete
  12. مزید میں آپکا کوئ تبصرہ ڈالنے سے قاصر ہوں۔ بہتر ہوگا کہ آپ اپنے حلقے کے کسی بلاگر سے ایک فرمائشی انتقامی پوسٹ لکھوالیں۔ گیس پہ مزید ایک پوسٹ لکھ رہی ہوں اسے پڑھنا نہ بھولئے گا۔

    ReplyDelete
  13. بے چارہ کھسیانا بلا کھمبا نوچ رہا ہے،معاف کردیں!
    :)

    ReplyDelete
  14. یار ڈکٹر ثمر مبارک صاحب اتنے پیسے مانگ رہے ہیں آپ نے پلک جھپکتے میں گیس کا مسئلہ ہی حل کر دیا ہے۔
    اس کے ساتھ ہی ہم نے سیارہ والوں والوں پر تین حرف بھیج کر آپ کو سبسکرائب کر لیا ہے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ