Friday, January 27, 2012

سن یاس یا مینو پاز

اب اسے تغیر کہیں یا یہ کہ جس طرح کائینات میں ہر چیز اپنے انجام کی طرف کی بڑھتی ہوئ محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح انسان کا جسم بھی توڑ پھوڑ اور تبدیلی کا شکار ہوتا ہے ٹھیک اس دن سے جب وہ جنم لیتا ہے۔
خواتین میں یہ عمل خاصہ واضح ہوتا ہے۔ اور بلوغت کے بعد  انکی طبعی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک وہ جب وہ تولیدی لحاظ سے سرگرم ہوتی ہیں یعنی بچے پیدا کر سکتی ہیں اور دوسرا حصہ وہ ہوتا ہے جب وہ اس دور سے گذر جاتی ہیں اورایسا کرنے کے قابل نہیں ہوتیں۔
بلوغت میں داخل ہونے کے بعد جسم میں ہارمون اس طرح پیدا ہوتے ہیں کہ ماہانہ نظام باقاعدہ رہے ۔ ہر مہینے کچھ تعداد میں انڈے پیدا ہوں۔ اگر وہ بار آور ہو جائیں تو عورت ماں بننے کے مرحلے میں داخل ہو جائے ۔ جسکے دوران ہارمون اس ترتیب میں آجاتے ہیں کہ بچے کی نمو سے لے کر اسکے دودھ پلانے تک کا مرحلہ بحسن و خوبی طے ہو جائے۔
خواتین میں انڈوں کی یہ تعداد انکی پیدائیش کے وقت تمام عمر کے لئے مخصوص ہوتی ہے۔ جب رحم میں انڈے ختم ہو جاتے ہیں تو جسم کو اشارہ ملتا ہے کہ اب ہارمون کا مخصوص کھیل بھی ختم ہوا۔ یہ مرحلہ سن یاس یا مینو پاز کہلاتا ہے۔
خواتین کی اکثریت مینو پاز تک پہنچنے سے پہلے اسکی علامتوں سے گذرتی ہے۔ لیکن بعض خواتین اس سے اچانک دوچار ہو جاتی ہیں۔ اور انہیں یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ حاملہ ہو گئیں ہیں اس لئے ماہانہ نظام منقطع ہو گیا ہے لیکن چند مہینوں میں پتہ چل جاتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔
خواتین میں ماہانہ نظام ختم ہونے کی ایک اوسط عمر پینتالیس سے ساٹھ سال ہے۔ اسکی علامتیں پہلے سے ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ مثلاً ماہانہ نظام کا بے قاعدہ ہونا، خون ضائع ہونے کی زیادتی, بعض اوقات لوتھڑوں کا خارج ہونا، خون بہت دنوں تک خارج ہوتے رہنا، بہت زیادہ گرمی لگنا، جلد کا خراب ہونا۔
عمر کے علاوہ وہ خواتین جنکی بچہ دانی آپریشن کے نتیجے میں الگ کر دی گئ ہو وہ بھی تیزی سے سنیاس کا شکار ہوتی ہیں چاہے یہ عمل کتنی ہی نوجوانی کے عالم میں کیا گیا ہو۔ کم عمر خواتین میں سنیاس کی وجوہات مزید ہو سکتی ہیں مثلاً اینڈو میٹریوسس، بچہ دانی میں رسولیاں ہونا یا تولیدی اعضاء کا کینسر، زیادہ وزن رکھنے والی خواتین، سگریٹ نوش خواتین، کیمو تھراپی سے گذرنے والی خواتین، بیمار خواتین ، وہ جنکے خاندان میں یہ سلسلہ موجود ہو ، تھائرائید غدود میں خرابی، ذیابیطس میلائٹس، یا خود دفاعی رد عمل۔ خواتین کی اکثریت میں وجہ  نامعلوم  ہوتی ہے۔
جڑواں خواتین بھی سن یاس کا کم عمری میں شکار ہو جاتی ہیں لیکن انہیں اپنی ساتھی خاتون کی اووریز کا کچھ حصہ ٹرانسپلانٹ کر کے اووریز کی کارکردگی کو دوبارہ بحال کیا جا سکتا ہے۔
سن یاس کے بعد یا اس سے گذرتے وقت بعض خواتین شدید علامات سے گذرتی ہیں۔ مثلاً ہاٹ فلیشز ہونا یعنی جسم میں کہیں کہیں آگ سی محسوس ہونا، پیروں میں رینگن محسوس ہونا، بہت زیادہ پسینہ آنا بالخصوص رات کے وقت، بعض کو ٹھنڈے پسینے آتے ہیں، کمزوری یا تھکن کا شکار ہونا۔ نیند نہ آنا، یاد داشت کا متائثر ہونا، شوہر سے جسمانی تعلق سے اجتناب برتنا۔
 ان سب علامتوں سے زیادہ نقصان پہنچانے والی چیز ایسٹروجن کے ختم ہوجانے کی وجہ سے آسٹیو پوریسس کے بڑھنے کا امکان ہے۔
سن یاس کے فوراً بعد ہڈیوں کے کمزور ہونے کی شرح تیزی سے بڑھ جاتی ہے جبکہ میٹا بولزم کی رفتار آہستہ ہوجانے کی وجہ سے وزن میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور خاص طور پہ پیٹ بڑھ جاتا ہے۔
ادھر آہستہ آہستہ مثانہ بھی کمزور ہونے لگتا ہے اور یوں ذرا سے دباءو پہ پیشاب کے قطرے خارج ہوجاتے ہیں یا پھر مثانے پہ قابو نہ ہونے کی وجہ سے بار بار حاجت محسوس ہوتی ہے۔
ایک اہم تبدیلی کسی خاتون کے مزاج میں آتی ہے اور سن یاس کے ابتدائ زمانے میں شدید ڈپریشن ہو سکتا ہے۔ خواتین کو لگتا ہے کہ اب چونکہ وہ بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہیں اس لئے انکی نسوانیت ختم ہو گئ ہے۔ وہ ایک ناکارہ وجود بن گئ ہیں۔ اب وہ کسی کام کی نہیں رہیں اور محض ایک  کچرا بن گئ ہیں۔ ان معاشروں میں جہاں عمر رسیدگی کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے اور  جوان افراد ، درمیانی عمر کے افراد کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں وہاں خواتین میں یہ ڈپریشن زیادہ ہوتا ہے۔
سن یاس کیوں لاحق ہوتا ہے اسکی طبعی وجوہات ہم نے بتا دیں۔ یہ کیوں ضروری ہے اسکی وجہ ارتقائ سائینسدانوں کے نزدیک انسانی معاشرے کی مضبوطی کی بنیاد ہے۔ تاکہ ایک نسل دوسری نسل کے آگے بڑھنے میں مددگار ہو اور اس طرح انسانی آبادی بھی قابو میں رہے اور یہ کہ مضبوط انسانی نسل مضبوط انسانی جسم کے ساتھ آئے۔
یعنی قدرت  کے نزدیک عورت صرف بچے پیدا کرنے کی مشین نہیں ہے اور عمر کے ایک حصے میں وہ اسے فرصت دیتی ہے تاکہ وہ دیگر سرگرمیوں میں بھی کھل کر حصہ لے سکے۔ اسی طرح عورت اور مرد کا ساتھ رہنا صرف جسمانی تعلق کے لئے نہیں ہوتا بلکہ قدرت اسکے علاوہ بھی انسان سے کچھ چاہتی ہے۔
 ایسا نہیں ہوتا کہ عورت سن یاس میں داخل ہونے کے بعد فوراً بعد ختم ہو جائے  اگر وہ اپنی صحت کا خیال رکھے تو اسکے بعد بھی نصف صدی کی زندگی گذار سکتی ہے۔
اس لئے وہ خواتین جو سمجھتی ہیں کہ وہ سن یاس میں داخل ہو چکی ہیں انہیں فوراً اپنے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئیے۔ تاکہ وہ اس بات کی تصدیق کر سکے کہ ایسا ہوا ہے۔
وہ خواتین جو اپنی چالیسویں سالگرہ منا رہی ہیں انہیں احتیاطاً آسٹیو پوریسس سے بچاءو کے لئے طبی امداد لینا شروع کر دینا چاہئیے۔ ویسے بھی خواتین کو ابتدائ عمر سے ہی کیلشیئم والی غذاءووں کو زیادہ استعمال کرنا چاہئیے۔ اپنی بچیوں پہ توجہ دیں اور انکی غذا میں کیلشیئم اور فولاد کی مقدار کا دھیان کریں۔ تاکہ وہ مستقبل میں نہ صرف صحت مند ماں بنیں بلکہ اپنا بڑھاپا بیماریوں اور معذوری سے محفوظ گذاریں۔
مینوپاز کے دوران جب ہاٹ فلیشز زیادہ ہوتے ہیں اپنی غذا پہ دھیان دینا چاہئیے۔ ایسی اشیاء زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے گریز کریں جن میں اینٹی ایسٹروجن مرکبات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً چائے، سبز چائے، اخروٹ، بروکلی، اور ایسی اشیاء زیادہ استعمال کریں جن میں ایسٹروجن ہوتے ہیں۔ زیادہ ایسٹروجن کے لئے گوشت، انڈے، دودھ، دہی، ، السی کے بیج یا اسکا پاءوڈر، ،گاجریں اور ٹماٹر وغیرہ استعمال کریں۔ السی کے بیج مسلسل کئ مہینوں تک استعمال نہ کریں بلکہ وقفہ دیں۔  اسکا پاءڈر ایک چائے کے چمچ سے زیادہ روزانہ نہ لیں۔  گرم جگہوں پہ نہ رہیں۔ ہلکے ڈھیلے سوتی کپڑے پہنیں۔
ایسا نہ کریں کہ کوئ چیز بالکل ترک کر دیں۔ مثلاً اخروٹ کھانا بالکل ہی چھوڑ دیں۔ اخروٹ کھائیں تو تھوڑی گاجریں  بھی کھالیں یا دودھ بھی پی لیں اس طرح غذا متوازن رہے گی۔
اس طرح اس عمر میں متوازن غذا کا ذرا مختلف تصور اپنے لئے سیٹ کریں۔
وہ خواتین جو پیشاب خارج ہونے کے عارضے میں مبتلا ہیں وہ ایک آسان سی ورزش کر سکتی ہیں جو کیگل ورزش کہلاتی ہے اور  ہر عمر کی خواتین حتی کہ حاملہ خواتین کے لئے بھی کار آمد ہے۔ اور بہت آسان ہے۔ اسے کرنے کے لئے ایک خاتون کو اپنے پیٹ کے نچلے حصے کے عضلات کو سمجھنا ہوگا۔
پیشاب کرتے ہوئے اگر بیچ میں ایکدم روکنا ہو تو جو عضلات کھینچے جاتے ہیں۔ انہیں فالتو وقت میں کھینچنے کی مشق کریں۔ یہ ایسی مشق ہے جووہ کسی بھی کام کو کرتے ہوئے کر سکتی ہیں چاہے پڑھ رہی ہوں یا ٹی وی دیکھ رہی ہوں۔ شروع میں کم تعداد میں کریں مثلاً ایک وقت میں پانچ دفعہ ان عضلات کو کھینچیں اور چھوڑ دیں۔ پھر آہستہ آہستہ تعداد بڑھاتی جائیں۔  
سن یاس کے بعد بھی ایک خوشحال زندگی گذاری جاتی ہے فرق یہ ہے کہ اسکے بعد حاملہ ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے دنیا کے بیشتر حصوں میں خواتین سنیاس کو اپنے لئے آزادی کی علامت سمجھتی ہیں۔
وہ خواتین جو کم عمری میں سن یاس کا شکار ہو جاتی ہیں ان میں آسٹیو پوریسس کا خطرہ زیادہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ ایسٹروجن کی کمی کی وجہ سے زیادہ کم عمری میں ہڈیاں کمزور ہونے لگ جائیں گی۔ اس صورت میں ممکن ہے کہ آپکا ڈاکٹر آپکو ہارمون تھراپی کا مشورہ دے۔ یہ طریقہ ء علاج ایک زمانے میں کافی رائج ہوا۔ پھر مختلف نتائج کی بناء پہ روک دیا گیا آجکل پھر سے تجویز کیا جانے لگا ہے۔ اس وقت یہ ہارمونز مختلف طرح کی شکلوں اور منبع کے موجود ہیں۔ ان میں سے کون سا ایک خاتون کے لئے مناسب ہے اسکا فیصلہ ایک ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے۔
جو خواتین اس طریقہ ء علاج کو لے رہی ہیں انہیں اپنی غذا کا دھیان رکھنا چاہئیے۔  ہارمون سپلیمنٹ کے ساتھ وٹامن بی کمپلیکس والی غذاءووں کا باقاعدہ استعمال کریں اور آسٹیو پوریسس کی دواءووں اور کیلشیئم والی غذاءووں کا بھی خیال رکھیں۔ آسٹیو پوریسس کے بارے میں جاننے کے لئے یہاں دیکھئیے۔
ہر تھوڑے عرصے بعد اپنے کچھ ٹیسٹ ضرور کرواتی رہیں۔ مثلاً چھاتی کے کینسر کے لئے میمو گرافی کیونکہ سنیاس کے بعد چھاتی کے کینسر کا خدشہ بڑھ جاتا ہے، اسی طرح پیڑو یا بچہ دانی کے کینسر کو معلوم کرنے کے لئے پیپ اسمیئر ٹیسٹ اور پیلوک الٹرا ساءونڈ چاہئیے ہوتے ہیں۔ اگر ہارمون تھراپی لے رہی ہوں تو یہ ٹیسٹ کروانا اور بھی ضروری ہوتا ہے۔ تاکہ ہارمونز کا کوئ بھی ضمنی اثر فوراً علم میں آجائے۔
سن یاس کے بعد خواتین میں دل کے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ مختلف ہارمونز کی وجہ سے جو تحفظ حاصل تھا وہ ختم ہوجاتا ہے۔ اس لئے دل کے امراض کے بنیادی ٹیسٹس بھی ایک خاتون کے لئے ضروری ہو جاتے ہیں۔
ہڈیوں کو بہتر بنانے کے لئے ورزش اور چہل قدمی ضروری ہے۔ روزانہ تیس منٹ کی چہل قدمی ہڈیوں اور عضلات کے لئے آب حیات ہے۔ ورزش کے لئے وزن اٹھانے والی ورزشوں کو ترجیح دیں جس سے اعضاء میں کھنچاءو پیدا ہو۔ اگر کوئ خاتون دل کے کسی عارضے میں ، یا کسی اور بیماری میں مبتلا ہیں تو اپنے ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر کوئ ورزش شروع نہ کریں۔
خِواتین کے لئے ورزش کے حوالے سے ایک علیحدہ تحریر لکھنے کا ارادہ ہے۔ اس وقت تک انتظار کریں۔

15 comments:

  1. عمدہ۔
    ایسی تحاریر اردو میں بہت کم ہیں

    ReplyDelete
  2. مینو پاز جیسے طبی اور نفسیات مسئلے پر یہ پوسٹ اردو قارئیں خصوصا خواتین کے لئے ایک اہم خدمت ہے

    ReplyDelete
  3. احتیاطی تدابیر کے علاوه کی جو باتیں اپ نے لکھی هیں
    مجھے ان کا علم جاپان کے معاشرے میں مدغم هونے کے بعد هوا تھا
    پاکستان ميں ایسی باتوں کا علم مردوں کو کم هی هوتا هے
    ڈاکٹر لبنی مرزا
    http://diabetesinurdu.com/
    نے جو باتیں لکھی هں ان کا بھی پاکستان میں لوگوں کو کم هی علم هوتا هے
    بلکه ایسی باتوں کو بور سمجھتے هیں
    اور اپ نے جو باتیں لکھیں هیں یه نابالغ معاشرے میں فحاشی کے طور پر بھی لی جاسکتی هیں
    لیکن اپ کی یه تحریر پڑھ کر اور ڈاکٹر لبنی صاحبه کا بلاک دیکھ کر میں یه کہوں گا که خواتین کو چاهیے که خواتین کی بیماریوں اور دوسرے مسائیل کے متعلق لکھیں
    تاکه وه علوم جو هه علوم جو همارے معاشرے سے معدودم هوتے جارهے هیں
    ان کا علم هو
    نان که مرد عورت کی جنگ کے متعلق که جس کا کوئی حاصل نهیں هے

    ReplyDelete
  4. خاور صاحب کی بات درست ہے۔ مجھے بھی مینوپاز کا علم اپنی ایک عمر رسیدہ کولیگ سے ہوا تھا۔

    ReplyDelete
  5. ہمیشہ کی طرح بہترین تحریر ،،،
    معلُومات سے بھر پُور بہُت بہُت شُکریہ عنیقہ میں تہہِ دِل سے آپ کی مشکُو ر ہُوں،،،

    شاہدہ اکرم

    ReplyDelete
  6. شاہدہ اکرم، آپکا شکریہ کہ آپ نے اس تحریر پہ تبصرہ کیا۔ کیونکہ آپ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے یہ تکلیف کی۔ یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ خواتین کے موضوعات پہ بھی خواتین کچھ بولنے سے گھبراتی ہیں۔ حالانکہ انہیں بے حد ضرورت ہے کہ وہ اپنے بارے میں بات کریں۔

    ReplyDelete
  7. شاہدہ اکرم، آپکا بے حد شکریہ کہ آپ نے اس پہ تبصرہ کیا۔ کیونکہ آپ واحد خاتون ہیں جنہوں نے اس میں حصۃ لیا۔ یہ بات عجیب لگتی ہے کہ خواتین اپنے سے متعلق موضوعات میں حصہ لینے سے گھبراتی ہیں جبکہ انکے مسائل خاصے گھمبیر ہوتے ہیں اور اس سے انکی صحت کو نہ صرف خطرہ رہتا ہے بلکہ وہ ذہنی تناءو کا شکار رہتی ہیں۔ اکثر اوقات انہیں کسی ڈاکٹر یا دوا سے زیادہ صرف اس جملے کی ضرورت ہوتی ہیں کہ اپنی مصیبت یا مسئلے میں وہ تنہا نہیں بلکہ اور لوگ بھی اسے جھیلتے ہیں۔ کمیونیٹی ڈسکشن اس لحاظ سے زیادہ فوائد رکھتی ہیں۔

    ReplyDelete
  8. شاہدہ اکرم، آپکا بے حد شکریہ کہ آپ نے اس پہ تبصرہ کیا۔ کیونکہ آپ واحد خاتون ہیں جنہوں نے اس میں حصۃ لیا۔ یہ بات عجیب لگتی ہے کہ خواتین اپنے سے متعلق موضوعات میں حصہ لینے سے گھبراتی ہیں جبکہ انکے مسائل خاصے گھمبیر ہوتے ہیں اور اس سے انکی صحت کو نہ صرف خطرہ رہتا ہے بلکہ وہ ذہنی تناءو کا شکار رہتی ہیں۔ اکثر اوقات انہیں کسی ڈاکٹر یا دوا سے زیادہ صرف اس جملے کی ضرورت ہوتی ہیں کہ اپنی مصیبت یا مسئلے میں وہ تنہا نہیں بلکہ اور لوگ بھی اسے جھیلتے ہیں۔ کمیونیٹی ڈسکشن اس لحاظ سے زیادہ فوائد رکھتی ہیں۔

    ReplyDelete
  9. خاور صاحب ۔ ہمم یہ فحاشی کے ضمن میں آ سکتا ہے۔ ایک زمانے میں اور اب بھی شدت پسند طرز فکر رکھنے والوں کی بیبیاں مرد ڈاکٹر کے پاس نہیں جا سکتی تھیں چاہے وہ جان سے چلی جائیں۔ ڈاکٹر کے پاس جانا بے حیائ ہوتی تھی۔
    بہر حال مردوں کو بھی اسکا علم ہونا چاہئیے کہ عورتیں انکی ماں بھی ہوتی ہیں اور بیویاں بھی۔ انہیں پتہ ہونا چاہئیے کہ خواتین بعض اوقات بالکل صحت مند لگ رہی ہوتی ہیں مگر پھر بھی وہ اپنی صحت کے متعلق عجیب باتیں کرتی رہتی ہیں۔ موٹی تازی ہوتی ہیں پھر بھی تھکی ہوئ رہتی ہیں۔ اچھی خاصی سردی میں بھی وہ گرمی کی کیوں شکایت کرتی ہیں۔ بعض اوقات ہم سنتے ہیں کہ یہ خواتین کی گرمی کیوں نہیں ختم ہوتیں۔ اور بھی بہت سے معاشرتی روئے ہیں جو سامنے آتے ہیں لیکن لا علمی کی وجہ سے انکی انتہائ غلط توجیہات پیش کی جاتی ہیں۔
    اگر حقائق معلوم ہوں تو مرد اپنی خواتین کو بہتر طرز زندگی دے سکتے ہیں۔ آخر ایک خوشحال خاندان کے لئے ہی تو ہر ایک جد و جہد کرتا ہے۔

    ReplyDelete
  10. Assalamoalykum sister
    baat to mery paas kehny ko kuch khas nhi thi magar apki shikayat daikh kr k kisi owr owrat ny kyon hissa nhi liya, socha kuch keh diya jaiy :)

    aap ny aik achy topic pr likha, alhumdulillah mujhy ye sab info thi pehly say magar phir bhi main ny sara mazmoon pRh dala.ALLAH apky is mazmoon kay zaryay khwateen ko agahi day Ameen.

    aik nukta main ny notice kiya k apky unwan main lafz سنیاس kuch ghalat hay isko سن یاس hona chahyay. pehla lafz hindi hay jo k tarke dunya say makhooz hay owr doosra lafz arabic hay jo k yhan murad hay yeni نا امیدی کا سال یا عمر i.e menopause i.e سن اليأس عند المرأة

    ReplyDelete
  11. بہنا جی، مجھے شکایت نہیں ایک مشاہدہ ہے کہ خواتین ایسا کرتی ہیں۔ میرا خیا ہے اسکی وجہ ہمارا طرز معاشرت ہے۔
    یہ جو نکتہ آپ نے سن یاس کا اٹھایا ہے یہ خاصہ دلچسپ ہے۔ مجھے دراصل ایسا کوئ لفظ یاد نہیں آرہا کہ جسے توڑ دینے سے اسکے معنی بدل جاتے ہوں۔ بس یہ یاد آرہا ہے شکیل عادل زادہ الفاظ کو توڑ کر لکھنے کے قائل تھے۔

    ReplyDelete
  12. اسلام علیکم
    آپکو لفظ توڑنے سے معا نی بدلنے پرکچھ یاد نہیں آ رہااور یہاں تو ایک نکتہ کے ادھر ادھر ہونے سے معانی بدل جاتے ہیں

    ہم دعا دیتے رہے اور وہ دغا پڑہتے رہے
    ایک نکتے نے ہمیں محرم سے مجرم کر دیا
    :)
    and here is a good one on how puncuation can change the whole meaning, a teacher asked a mix bunch of girls and boys to puncuate this sentence:

    A WOMAN WIHHOUT HER MAN IS NOTHING

    all the girls answer was:
    A woman: Without her man is nothing.

    all the boys answer was
    A woman without her man ,is nothing

    :):)

    ReplyDelete
  13. بہنا جی، نقطے اور پنکچوایشن سے الگ اس سلسلے میں اردو سے کوئ مثال لائیں جہاں ایک لفظ کو توڑنے سے اسکے معنی تبدیل ہوئے ہوں۔ مجھے اب تک ایک مثال یاد نہیں آئ۔ اسی طرح اس اعتراض کا صحیح ہونا ثابت ہو سکتا ہے۔

    ReplyDelete
  14. اسلام علیکم
    افوہ بہن آپ نے میرا نکتہ اعتراض غور سے نہیں پڑھا- سنیاس اور سن یاس دو الگ الگ زبانوں کے الفاظ ہیں- ایک ہندی اور دوسرا عربی- اور اس وقت میرے سامنے فیروز سنز والوں کی اردو انگلش ڈکشنری بھی کھلی پڑی ہے-آپ بھی اپنی دیکھ لیں-

    تو یہ تو ایک ہی لفظ کو توڑنے والا چکر ہے ہی نہیں- اور یہ اعتراض اس لیے صحیح ہے کہ آپ نے مماثلت کی وجہ سےغلطی سے انکو ایک سمجھا -

    ReplyDelete
  15. اللہ آپکو خوش رکھے اور تمام معاملات میں شرح صدر دے عنیقہ جی
    :)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ