Friday, March 23, 2012

پاکستان؟

آج جب گھر سے نکلی تو ٹی وی پہ قومی ترانے چل رہے تھے۔ فیس بک پہ لوگ تیئیس مارچ جیسے قومی دن پہ اپنے  جذبات سے فضا کو پرجوش بنائے ہوئے تھے۔  گھر سے باہر نکل کر بس جمعہ بازار تک گئ ، سبزیاں لینے اور یہ طلسم ٹوٹ گیا۔
ہوا یوں کہ جب میں نے امرود والے کے اس دعوے کے رد میں کہ اس نے بقول اسکے بہترین امرود رکھے ہیں۔ ایک بھی داغ دار نہیں ہوگا۔ ایک کے بعد ایک چار داغدار امرود نکال کر واپس رکھے تو بازار ان نعروں کی آواز سے گونج اٹھا جو سڑک سے آرہی تھیں۔ دوکاندار کی داغدار زبان رک گئ اور اسکی توجہ روڈ پہ ہو گئ۔ میں نے بھی مڑ کر دیکھا  بلا کسی خوف کے کہ کوہ قاف میں تو موجود نہیں ہوں۔ ایک کے بعد کئ منی بسیں گذریں جن پہ لوگوں کا ہجوم جئے سندھ نیشنلسٹ پارٹی کے جھنڈے لئے بیٹھا وہ نعرے لگا رہا تھا جنکے مطلب  اور معنی سے وہ خود بھی آگاہ نہیں تھے۔ مجھے بھی سمجھ نہیں آرہے تھے۔ یہ گاڑیاں شہر کے اس حصے کی طرف سے آرہی تھِں جہاں سندھی بلوچ گوٹھ ہیں۔ یہ وہ عوام ہے جو پیچھے پلٹ کر دیکھ نہیں سکتی۔ اس لئے نہیں کہ پتھر کی بن جائے گی اس لئے کہ اسے پیچھے دیکھنا ہی نہیں آتا۔ دیکھنا تو اسے آگے بھی نہیں آتا۔ جو انکے جدی پشتی رہ نما دکھا دیں وہی دِکھنے لگتا ہے۔
گھر آکر شہر کے حالات جاننے کا تجسس ہوا کہ ایک دوست سے ملنے کا وعدہ تھا۔ معلوم ہوا کہ  سندھ کی آزادی کا مطالبہ رکھنے والی اس ریلی کے شرکاء کی وجہ سے شاہراہ فیصل پہ بد ترین ٹریفک جام ہے۔ اور اس رکے ہوئے ٹریفک میں مسلح افراد نے لوٹ مار شروع کی ہوئ ہے۔
یہ جئے سندھ کی اس سلسلے میں پہلی ریلی نہیں تھی۔ ابھی چار دن پہلے بھی میں انکی ایسی ہی ریلی میں پھنسی اور جہاں جانے کا ارادہ تھا اسے ترک کے واپس آگئ۔
میں نے اپنا گھر سے نکلنے کا خیال منسوخ کیا۔ اور سوچنے لگی کہ ایک طرف بلوچستان میں آزادی کی نام نہاد جنگ سردار لندن، فرانس اور امریکہ میں بیٹھ کر لڑ رہے ہیں۔ دوسری طرف خیبر پختون خواہ میں انتہا پسندوں نے تحریک چلائ ہوئ ہے کہ انکے علاقے کی علاقہ غیر والی حیثیت بحال کر کے اسے حکومت  پاکستان کے رائج قوانین سے نہ صرف نجات دی جائے بلکہ باقی کے ملک میں بھی انکی مرضی کا نظام حکومت لایا جائے۔ جسے وہ شرعی حکومت کا نام دیتے ہیں۔ ادھر خدا بہتر جانتا ہے کہ کس کی شہہ پہ اچانک جئے سندھ والوں کو سندھ کی آزادی کے نعرے پہ دوبارہ کھڑا کر کے کراچی میں اودھم مچانے کی اجازت دے دی گئ ہے۔ ابھی چند دن پہلے کراچی میں کسی خفیہ ہاتھ نے کراچی کی دیواروں پہ مہاجر صوبے کا مطالبہ بھی لکھنے کی کوشش کی۔  ادھر پنجاب  میں جنوبی پنجاب باقی پنجاب سے اپنا حق مانگ رہا ہے۔ ادھر باقی پنجاب نئے سرے سے مسلمان ہونے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
اب ذہن میں ایک سوال اٹھتا ہے۔ یہ ملک یہاں کی بنیادی اقوام کو چاہئیے یا نہیں؟
مجھ سے ایک بزرگ نے دریافت کیا کہ یوم پاکستان کیوں منایا جاتا ہے؟ میں نے مطالعہ پاکستان میں برسوں پڑھے ہوئے جواب کو طوطے کی طرح دوہرا دیا۔ اس دن دو قومی نظرئیے کی بنیاد پہ پاکستان بنانے کا مطالبہ ایک قرارداد کی صورت میں مسلمانوں کی طرف سے متفقہ طور پہ پیش کیا گیا تھا۔ پھر پاکستان کا پہلا آئین بھی اسی دن پیش ہوا۔
انہوں نے دریافت کیا لیکن جس دن بنگلہ دیش بنا۔ نہ صرف اس قرارداد سے تعلق رکھنے والا  پاکستان اس دن ختم ہو گیا تھا بلکہ واقعی اگر کوئ دو قومی نظریہ تھا تو وہ بھی اس دن غلط ثابت ہوا۔  رہا آئین تو اس  پہلے کے بعد کئ آئین آئے۔ یہ آئین جسکی بگڑی ہوئ شکل اب موجود ہے۔ جو بھٹو نے بنایا۔ اسے قوم کو دینے کے بعد چوبیس گھنٹوں میں اس میں پہلی ترمیم ہوئ، جو بھٹو ہی نے کی تھی مخالفین کو دبانے کے لئے۔ اس لئے ان دونوں وجوہات کی بناء پہ تو اب اس دن کو بالکل نہیں منانا چاہئیے۔ کیوں مناتے ہو تم لوگ یہ دن؟
کیوں مناتے ہیں ہم یہ دن، کیا اس لئے کہ قومی ترانوں کو گانے کی پریکٹس ہو سکے یا اس لئے کہ اپنی منافقت کی ہم مزید مشق کر سکیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اگلی نسلوں میں اپنی پوری آب و تاب سے منتقل نہ ہو سکے؟
ملک کی سیاسی حالات کی ابتری کا اندازہ لگانے کے لئے مزید اشارے دیکھیں۔ گیلانی صاحب عدالت کے زور دینے پہ بھی سوئس حکومت کو خط لکھنے کے لئے تیار نہیں۔ انکے بقول وہ صدر صاحب کی پیٹھ میں چھرا نہیں مار سکتے۔ یہ نہ کر کے وہ  پاکستان کے سینے میں چھرا مار رہے ہیں اسکا انہیں ذرہ برابر بھی احساس نہیں بلکہ پرواہ بھی نہیں۔
 اعتزاز احسن جو ججوں کی بحالی تحریک میں آگے آگے ہو رہے تھے۔ جسکی وجہ اب یہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ بس مشرف کے لکھے کو مٹانا چاہتے تھے۔ اس کیس میں انہوں نے بھی اپنے ضمیر کی شاید صحیح قیمت وصول کر لی ہے۔ کہتے ہیں عدالت کو گیلانی صاحب کے گدی نشیں ہونے کا تو خیال کرنا چاہئیے۔
یہی نہیں، ادھر برہمداغ بگتی کے اوپر سے سارے مقدمات واپس۔ کیوں جناب؟ اس لئے کہ بلوچستان کہیں پاکستان سے الگ نہ ہوجائے۔ پھر پاکستان کے  یہ چھوٹے چھوٹے لوگ کیوں سزائیں بھگتتے ہیں اس لئے کہ وہ کسی نواب خاندان سے نہیں۔ ہم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ پولیس اور عدالت کا نظام ہی ختم کر کے اس عذاب سے جان چھڑائیں۔
طالبان سے مذاکرات کر کے انکے مطالبات پہ غور ہونا چاہئیے۔ وہ کس لئے؟ کیونکہ ملک میں امن اسی طرح قائم ہو سکتا ہے کہ جنونیوں سے بھی خوشگوار تعلقات رکھے جائیں۔
ادھر کل زرداری صاحب  کو تاحیات صدر منتخب کیا جائے گا۔ وہ کیوں بھئ؟ کیونکہ اگر وہ پاکستان کھپے کا نعرہ نہیں لگائیں گے تو جئے سندھ والے تو سندھ کو پاکستان سے الگ کر کے لے جائیں گے۔ 
یہ پاکستان کیا کاغذ پہ ایک نقشے کا نام ہے؟ 
پاکستان کیا کسی قرارداد کا نام ہے؟
پاکستان کیا کسی نظرئیے کا نام ہے؟
پاکستان کیا ایک کرکٹ ٹیم کا نام ہے؟
حقیقت کچھ یوں نظر آتی ہے کہ یہاں کے حکمرانوں کو، سرداروں کو، جاگیرداروں کو، نوابوں کو اگر اسکے چھوٹے چھوٹے حصے بنا کر  وہاں کا والی وارث بنادیا جائے تو نہ صرف یہ اسے اپنی خوش قسمتی جانیں گے بلکہ انکے زیر سایہ آنے والے عوام بھی اس نشے میں کئ نسلیں زمین پہ رینگ کر گذار لیں گے۔
آخر ہم یوم پاکستان کیوں مناتے ہیں؟ جبکہ ہم پاکستان پہ یقین نہیں رکھتے۔
جب ہم الگ ہو جائیں گے تو کس حصے کا نام پاکستان ہوگا اور کیا وہاں یوم پاکستان منایا جائے گا؟
اور  اب آخری سوال وہ کیا چیز ہے جو پاکستان کو جوڑ کر رکھ سکتی ہے؟ دائیں بازو والے شاید ایک دفعہ پھر اسکاجواب مذہب دیں لیکن میرے خیال میں شاید ایٹم بم۔ کیونکہ الگ ہوتے ہوئے  ان قوتوں کو یہ بھی تو سوچنا پڑے گا کہ آخر ایٹم بم کس کے حصے میں جائے گا۔ 

18 comments:

  1. یومِ پاکستان پر سب سے حقیقت پسند اور چبھتی ہوئی تحریر۔۔۔ بہت اعلیٰ۔۔۔
    بےشک پاکستان میں "پاکستانی" جو کر رہے ہیں، ان کے لیے منافقت کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ میرے زہن میں آتا ہی نہیں۔۔۔

    ReplyDelete
  2. "اس ریلی کے شرکاء کی وجہ سے شاہراہ فیصل پہ بد ترین ٹریفک جام ہے۔ اور اس رکے ہوئے ٹریفک میں مسلح افراد نے لوٹ مار شروع کی ہوئ ہے۔"

    یہ فکٹ تمام کہنی بیان کرتے ہیں یہ کس قماش کے لوگ ہیں اور ان کا کیا مظالبہ ہے اور کیوں بد کردار افراد کبھی مستقل مزاجی سے کو مطالبہ ذاتی فائدہ کے علاوہ کسی او مقصد کے لئے نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہوتی!! اور نہ ہی ڈرانے کی

    ReplyDelete
    Replies
    1. میں تو کسی خیالی دنیا میں نہیں رہتی اور توقع رکھتی ہوں الیکشن کی تاریخ آنے دیں اور پھر دیکھیں کیسے خوف و ہراس کی فضا پھیلتی ہے۔

      Delete
    2. الیکشن کونسا شفاف ہوتے ہیں؟ کیا آپ نے یا میں نے ان خونخوار درندوں کو اپنا حاکم مقرر کیا ہے؟

      آپ کو مولانا عبدالکلام آزاد کی پیشنگوئی یاد ہی ہوگی، پاکستان کے مستقبل کے متعلق!

      Delete
  3. ماشساءاللہ، دل سے نکلی ہوئی بات اثر رکھتی ہے۔
    زبردست لکھا۔

    ReplyDelete
  4. ایک ہی مضون میں آپ نے اتنے سارے موضوعات شروع کردئیے
    ہیں کہ اگر سب پر مباحثہ کیا جائے تو کئی کتب بن جایئں۔

    مگر سب سوالات کا جواب ایک ہی سوال کے جواب میں پوشیدہ
    ہے کہ قیام پاکستان کا مقصد کیا تھا؟

    اگر اس ایک سوال کا شافی جواب مل جائے تو باقی کے سب مسائل چٹکیوں میں حل ہوجایئں۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. پچھلے چونسٹح سال ہی نہیں ہمارے موجودہ حالات بھی اس چیز کی گواہی چیخ چیخ کر دے رہے ہیں کہ پاکستان بنانے کا مقصد کیا تھا۔
      اس خطے کو حاصل کرنے کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ یہاں پہ بسنے والوں کے لئے ایک فلاحی ممکلت کا قیام۔ جس میں ہر شخص اپنے بنادی انسان حقوق کے ساتھ آزاد زندگی گذار سکے۔

      Delete
    2. ویسے تو اسلامی ریاست بھی ایک مثالی فلاحی مملکت ہوتی ہے، مگر پاکستان کے ارباب اختیار حلقوں کے علاوہ دایئں و بایئں بازو کے گروہ بھی اپنے اعمال سے یہ ژابت کررہے ہیں کہ اسلامی تو کیا پاکستان تو کبھی فلاحی مملکت بھی نہیں بنا، دوسرے الفاظ میں پاکستان اپنے قیام کے مقصد کو ابھی تک حاصل ہی نہیں کرپایا ہے، تو یا تو ہم پاکستانی، پاکستان کے قیام کے مقصد کو مکمل کریں ، یا پھر وہی ہوگا جوکہ ہم کو دکھ رہا ہے۔

      Delete
  5. پاکستان کی ایک بڑی نامور ہستی تھی (اب مرحوم) جو صحافتی اشاعتی دنیا سے وابستہ تھی (نام بتانے سے معذرت خواہ ہوں) ، یہ حیدرآباد دکن سے ہجرت کر گئے تھے ، ایک دفعہ (شاید 80 کی دہائی میں) جب حیدرآباد آئے تھے تو ایک نجی گفتگو میں بتایا تھا (بقول ہمارے والد صاحب کے ۔۔۔) کہ ۔۔۔

    پاکستان بننے کے بعد دو قومی نظریہ بالکل ناکام نظر آتا ہے ۔۔۔ اگر پاکستان نہ بنتا اور مسلمان ، ہندو کے ساتھ ہی مل کر رہتے تو ہندو کے ساتھ مقابلے کی فضا میں کم از کم اپنی تہذیب اور اپنے اخلاقیات سے جڑے رہنے کا عنصر ہر مسلمان کے دل و دماغ میں ترجیح رکھتا ۔۔۔ مگر اب ہم چونکہ بحیثیت مسلمان ایک آزاد قوم بن چکے ہیں لہذا ہمیں اپنی تہذیب اور اخلاقیات کے بقا کی کوئی فکر لاحق نہیں۔

    یہ کتنا سچ ہے ۔۔۔ مجھے اس پر تبصرہ کی ہمت نہیں۔ مگر ایک چیز (پارٹیشن) جو وقوع پذیر ہو چکی ہو اس کے حسن و قبح پر آج اتنے برسوں بعد بحث کرنا کار زیاں ہے ۔۔
    البتہ ہمارا سوال تو صرف یہ ہے کہ ۔۔۔۔ آخر وہ کیسا نظریہ تھا کہ مسلمان کو "ایک قوم" بتانے کے باوجود اسی قوم کا ایک معتد بہ حصہ ہندوؤں کے ساتھ ہی رہنے بسنے پر مجبور کیا گیا؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. دو قومی نظریہ کو تو قیام پاکستان کے لیئے اسوقت کے موقع پرست سیاستدانوں نے اپنے مفاد میں استعمال کیا تھا، ورنہ تو یہ وہ آفاقی نظریہ ہے جوکہ حضرت آدم علیہ سلام سے تاقیامت مسلم اور غیر مسلم میں فرق کو
      ظاہر کرتا ہے۔
      یعنی تمام انسان صرف دو اقوام میں سے کسی ایک کا حصہ ہیں، یا تو مسلم نہیں تو ٖیر مسلم، اب غیر مسلم جو چاہیں اپنا نام رکھ لیں، مگر مسلم کا ایک ہی نام و پہچان "اسلام" ہے، چاہے دینا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتا ہو۔

      Delete
  6. سمجھ میں نہیں آیا کہ جب خدا نے حضرت آدم کے ساتھ ہی یہ تقسیم کر دی تو اس میں غیر مسلموں کا کیا قصور ہے۔ تمام انسانوں کو دو خانوں میں جانا ہی پڑے گا یا تو مسلم یا غیر مسلم۔ دوئم یہ کہ زیادہ تر لوگ پیدائیش کے وقت سے ہی مجبور ہوتے ہیں کہ ان خانوں میں چلے جائیں۔ کوئ انہیں یہ اختیار ہی نہیں دیتا کہ اپنی مرضی کے خانے میں جائیں۔ سوئم یہ کہ کیا اتنی بڑی کائنات کو بنانے کا مقصد صرف اس تقسیم کو قائم کرنا تھا۔ یہ کام تو خدا جنت میں بھی کر سکتا تھا۔ آخر اس سب ڈرامے کی کیا ضرورت آ پڑی خدا کو۔ یہ تو بڑی زیادتی ہے کہ کہاں ایٹم ، کوارکس اور روشنی جیسی دلکش اور دلچسپ اشیاء تخلیق کرے اور کہاں یہ کہہ دے کہ بس انسان دو طرح کے ہوتے ہیں۔ کم از کم میں خدا کے اس ورژن کو تسلیم کرنے سے گریز کرونگی۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. یہ خدا کو بیچ میں کیوں گھسیٹ لیا؟ اللہ نے تو یہ تقسیم نہیں کی اور نہ ہی وہ اس تقسیم کو پسند کرتا ہے بلکہ قرآن میں آتا ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، یہ تو اسکے والدین ہیں جو کہ اسکو یہودی یا نصرانی بناتے ہیں، اللہ تو چاہتا ہے کہ ہر انسان صرف ایک ہی گروہ کا حصہ ہو جو کہ "اسلام" ہے، جبھی تو حضرت آدم سے لے کر حضرت محمد تک بار بار انبیاء بھیجے تاکہ انسان کو صراط مستقیم پر واپس لایا جاسکے، اب یہ تو آپ کی سراسر نا انصافی ہے کہ اپنی غلطی کو خدا کے اوپر ڈال دیا اور پھر لگیں فتوے جاری کرنے، اگر ایسا کام کوئی مذہبی شخص کرے تو آپ واویلا کرنا شروع کردیتی ہیں مگر خود بھی تو یہی کررہی ہیں ابھی، کیا خیال ہے؟
      اب جان بوجھ کر قضاء و قدر کی فرسودہ بحث نہ چھیڑ دی جیئے گا، میرا مقصد واضح تھا کہ انسان صرف دو اقوام سے تعلق رکھتے ہیں، مسلم یا غیر مسلم، آپکا "خدا" کو بلاوجہ درمیان میں گھسیٹ لینا سوائے بحث برائے بحث کے کچھ اور نہیں لگ رہا ہے!

      Delete
    2. چونکہ آپ نے حضرت آدم کو لانے کا جرم کیا تو مجھے ان سے پہلے موجود ہستی کو لانا پڑا۔ اب اس بحث کو آپ نے ہی ہوا دی ہے اور کندھا میرا استعمال کر رہے ہیں احتجاج تو مجھے کرنا چاہئیے۔
      اب اس بیان میں آپ کہہ رہے ہیں ہر انسان صرف ایک ہی گروہ کا ہو۔
      خدا تو ہر چیز پہ قادر ہے اس لئے وہ چاہتا تو انسان کا صرف ایک ہی گروہ ہوتا مگر اس نے چاہ کر بھہ نہیں چاہا۔ یہ تو کسی رومانوی افسانے کی کہانی لگتی ہے جسے میں اقبال کے اس شعر سے نتھی کرنا چاہونگی کہ
      قدرت کے تقاضوں پہ نہ کر راہ عمل بند
      مقصود ہے کچھ اور ہی تسلیم و رضا کا
      آپکے اور میرے درمیان ایک بنیادی نظریاتی فرق ہے آپ انسانوں کے دو بنیادی گروہوں پہ یقین رکھتے ہیں، میں نہیں رکھتی۔ میرے خیال سے انسانوں کا ایک ہی گروہ ہے اسی لئے جب آپکے یہاں زلزلہ آتا ہے تو آپ امداد کے لئے تمام دنیا سے درخواست کرتے ہیں۔

      Delete
    3. اجی محترمہ ، بے پر کی اڑانا کوئی آپ سے سیکھے، انسان ہونے میں تمام مسلم و غیر مسلم برابر ہی ہیں، میری اور ہمارے خدا و نبی کی نظر میں، جیسے کہ عورت و مرد جنس کے اعتبار سے دو الگ الگ گروہ کا حصہ ہونے کے باوجود بھی انسان ہونے میں برابر ہیں اسی طرح میں تو انسانوں کی مذہبی تقسیم کی بات کر رہا تھا، اور آپ نے اس مذہبی تقسیم کو کوئی اور ہی رنگ دے دیا،
      اللہ اگر چاہتا۔ ۔ ۔ ۔ ، یہ وہ اگر ہے جسکا جواب ہماری اس دنیاوی زندگی کے مقصد میں پوشیدہ ہے، اگر آپ مقصد حیات پر روشی ڈالیں تو سارا معمہ ہی حل ہوجائے گا۔

      Delete
    4. میں آپکے ہی خیالات کی لائن میں چل کر بات کر رہی ہوں لیکن میرے قلم سے پڑھ کر وہ آپکو بے پر کی لگ رہی ہے۔ اگر خدا نے آدم کی تخلیق کے ساتھ ہی مذہب کی بنیاد رکھ دی ہے تو یہ خدا کی زیادتی ہے۔
      جی ہاں بالکل، پھر یہ مسئلہ کھڑا ہوگا کہ کہ یہ دراصل خدا ہے جو انسانوں کو تقسیم کرنا چاہتا تھا۔ کیا اس نے انسان کو اسی لئے تخلیق کیا کہ انہیں مسلم اور غیر مسلم ہونے کی بنیاد پہ الگ کرے۔ یعنی وہی بات کہ
      مجھے دوزخ، آپکو جنت عطا ہوگی
      تو کیا بس اس بات پہ محشر بپا ہوگی
      ایک سائینس کے طالب علم کی حیثیت سے میرے نزدیک خدا کا مقام اس سے کہیں بالا ہے۔

      Delete
    5. آپ کی مھربانی ہو گی جو آپ مقصد حیات پر روشی ڈالیں!

      Delete
    6. آپ انفرادی مقصد حیات کی بات کر رہے ہیں یا اجتماعی۔
      انفرادی مقاصد تو ہر ایک کے اپنے طبعی رجحان کے مطابق ہی ہوتے ہیں اور اجتماعی مقاصد انسان اور اسکے ماحول کے حساب سے ہونے چاہئیں۔ اسی کو ترجیح حاصل ہے۔
      یہ کائنات جو روز بروز پھیل رہی ہے ۔یہ کائِنات جس میں ایک نظر نہ آنے والے ایٹم میں بھی ایک لامحدود کائینات موجود ہے ۔ یہ زمین جس میں روزانہ سینکڑوں مخلوقات اپنا وجود ایسے کھو دیتی ہیں انکی نسل معدوم ہوجاتی ہے۔ اور یہ عمل اس زمین کی تخلیق کے ساتھ شروع ہوا اور ہزارہا مخلوقات ایسی ہیں جنہیں انسانی آنکھ نے دیکھا تک نہیں کہ وہ ماضی میں ختم ہو چکی ہیں، ہزارہا ایسی ہیں جن کا ہمارے شعور کو ادراک تک نہیں۔ یہ خالی خولی کا تماشہ کیا صرف اس لئے ہے کہ انسان دو مذاہب میں تقسیم ہو جائیں، مسلم اور غیر مسلم یا اس لئے ہے کہ یہ انسان اس اصول اور ضابطے میں اگر زندگی گذارے تو خدا کا پسندیدہ ورنہ نہیں۔ آخر خدا کو اس سارے تنوع کی کیا ضرورت ہے۔ کیا کسی انسان کا مقصد حیات یہ ہونا چاہئیے کہ وہ کسی دوسرے انسان سے پہلی دفہ ملتے وقت اسے مسلم اور غیر مسلم کے خانے میں ڈال دیں۔
      خدا کی اس تمام صناعی سے منہ موڑ کر ہم یہ دیکھتے رہیں کہ کون ان ضابطوں کے مطابق زندگی گذار رہا ہے اور کون نہیں۔ یعنی دریا کے کنارے خیمے لگاتے وقت دریا کی طرف پیٹھ کر لی جائےط تاکہ محکوموں پہ نظر رہے کہ کون کون اپنی تربیت میں مشغول ہے۔
      میں تو خود آپ سے پوچھ رہی ہوں کہ اگر مقصد حیات یہ ہے تو ایسا کیوں کہ جب زلزلہ آئے تو ہم مسلم اور غیر مسلم کی تخصیص کے بغیر سب سے امداد کی درخواست کریں۔ آءو ہماری مدد کرو ، ہم مصیبت میں ہیں۔ ہم سیلاب میں بہے جا رہے ہیں کوئ ہے جو اس مصیبت کو ہمارے ساتھ کم کرے۔
      بحران کے وقت ہمارا جو رد عمل ہوتا ہے وہی فطرت کے قریب ہوتا ہے۔
      مقصد حیات کے لئے ایک شاعر نے کہا ہے کہ
      خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں، بنو میں پھرتے ہیں مارے مارے
      میں اسکا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا

      Delete
    7. میں نے تو مقصد حیات کا سوال خالق حقیقی کے حوالے سے کیا تھا کہ آخر ہم کو پیدا کرنے کا اللہ کا کیا مقصد ہے؟ کیا ہم اس کائنات کا کوئی لازمی جزؤ ہیں؟ اگر ہاں تو ہمارے نہیں ہونے سے اس کائنات پر کیا فرق پڑے گا؟ اور اگر نہیں تو پھر ہم کو بلاوجہ یونہی فضول میں کیوں پیدا کیا گیا؟ بس اس نکتہ پر روشنی ڈال دیں۔ اور ابھی فلحال کائناتی سوالات سے ذرا پرہیز کریں کہ ہم اور ہماری ساری سائنس ملکر بھی ابھی اس قابل نہیں ہوئی ہے کہ کائنات اور مقصد حیات کے متعلق کوئی حتمی جواب دے سکے۔
      اور برائے مھربانی شعراء کا کلام پیش کرنے کے بجائے انبیاء اور آسمانی کتب کے حوالے دیں تاکہ بات مستند ہو ورنہ جو اشعار آپ نے لکھے ہیں وہ اقبال کے ہیں اور کچھ اسطرح ہیں:
      خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
      میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
      حوالہ: http://files.qern.com/iqbal/bang-e-dara/00076.html

      مگر اسی اقبال نے یہ بھی تو کہا ہے کہ :

      خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
      خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

      اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے

      دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
      ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

      کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
      یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

      وغیرہ وغیرہ

      اس میں سے کچھ تو درست مگر کچھ غلط ہے، لہذا شعراء کی بات مستند نہیں ہوتی ہے۔

      Delete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ