Monday, March 5, 2012

تقدس سے باہر-۴



ایک انتہائ پسماندہ اور غریب معاشرے میں رسول اللہ نے جنم لیا۔ دنیا جنہیں محمد کے نام سے جانتی ہے۔ خود انکے ابتدائ حالات خاصے مخدوش رہے۔ انکا تعلق بنو ہاشم کے قبیلے سے تھا جو قریش میں افضل قبیلہ سمجھا جاتا تھا لیکن عبدالمطلب کے انتقال کے بعد انکے حالات بھی بہتر نہ رہے۔
 والد کا انتقال آپکی پیدائش سے پہلے ہو گیا۔ عرب روایات کے تحت آپکی پرورش ماں سے الگ ایک دیہاتی علاقے میں ہوئ۔ چھ سات سال کی عمر میں والدہ کے پاس پہنچے لیکن چند مہینوں کے بعد انکا بھی انتقال ہو گیا۔ دادا نے کفالت سنبھالی لیکن جلد ہی وہ بھی داغ مفارقت دے گئے لیکن اپنے بیٹے ابو طالب کو بھتیجے کی دیکھ بھال کی ذمہ داری دے گئے۔ عبدالمطلب کے انتقال کے بعد حالات تبدیل ہوئے بنو ہاشم کے رتبے میں کمی آگئ اور حریف خاندان بنو امیہ حاوی آگیا۔
دس بارہ برس کی عمر میں آپ بکریاںچرایا کرتے تھے۔ جو کہ عربوں کا اہم پیشہ تھا۔ تقریباً بارہ برس کی عمر میں اپنے چچا  ابو طالب کے ساتھ تجارت کا سفر کیا۔
اس سفر میں وہ واقعہ پیش آیا جسے مختلف راویوں نے بیان کیا ہے۔ یہ عیسائ راہب بحیرہ سے ملنے کا واقعہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بحیرہ نے آپکی نبوت کی پیشن گوئ کی تھی۔ یوروپین موءرخین کا کہنا ہے کہ یہاں سے محمد نے مذہب کے حقائق و اسرار سیکھے۔ اور ان بنیادی نکات پہ اسلام کی بنیاد رکھی۔ شبلی تو اس واقعے کے پیش ہونے کے بارے میں بھی شک رکھتے ہیں۔
بہر حال یہ بات تو ثابت ہے کہ تجارت کی غرض سے آپ نے کافی ممالک کے دورے کئے اور مختلف طرز معاشرت کا نہ صرف ذاتی تجربہ کیا بلکہ لوگوں سے معلومات بھی لیں۔ فوٹون کے خیال میں  آپ جیسے ذہین شخص نے ان تمام معاشروں  کے تناظر میں اپنے معاشرے کو  دیکھا ہو گا اور یہ اندازلگایا ہوگا کہ انکے معاشرے کی تنزلی کے اسباب کیا ہیں۔
دعوی ء نبوت سے پہلے آپکے معمولات میں لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر ایک پہاڑی غار میں تنہا وقت گذارنے کا عمل شامل تھا۔ ایک مغربی مءورخ اسے اس  طرح بیان کرتا ہے۔
سفر و حضر میں ہر جگہ محمد کے دل میں ہزاروں سوال پیدا ہوتے تھے۔ میں کیا ہوں؟ یہ غیر متناہی عالم کیا ہے؟ نبوت کیا شے ہے؟ میں کن چیزوں کا اعتقاد کروں؟ کیا کوہ حرا کی چٹانیں، کوہ طور کی سر بفلک چوٹیاں، کھنڈر میدانکسی نے ان سوالوں کا جواب دیا۔ نہیں ہرگز نہیں۔ بلکہ گنبد گرداں گردش لیل و نہار، چمکتے ہوئے ستارے، برستے ہوئے بادل کوئ ان سوالوں کا جواب نہیں دے سکا۔
اس ساری فکر کو  ہم اپنے مذہب کے لحاظ سے دیکھیں تو عبادت جیسی چیز تک محدود کر دیتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ نبوت جیسی پر اسرار طاقت اللہ نے آپکو دینے سے پہلے سے عبادت کا عادی بنایا۔ جبکہ فوٹون جیسا غیر مذہبی شخص  اسے انکی دانش سے منسلک کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ انہوں نے اس تمام عرصے میں یکسو ہو کر سوچ و بچار کی کہ وہ اپنی قوم کو اس جہالت اور غربت سے کیسے نکالیں۔
بطور نبی آپ اپنی قوم کو حضرت موسی کی طرح لے کرکسی اور ملک نکل جاتے یا حضرت عیسی کی طرح صرف تبلیغ پر اکتفا کرتے۔ لیکن آپکو عرب کی بہتری کے لئے، عرب میں رہ کر  کام کرنا تھا ااور اسکے لئے تدبراور تدریج کی ضرورت تھی۔
انکے اس تفکر کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب کا انسان کی نفسیات اور اعمال پہ گہرا اثر ہوتا ہے اور مذہبی نظریات کے ذریعے اسے سدھانا آسان ہوتا ہے۔ خاس طور پہ اگر اسے یہ ترغیب دی جائَ کہ اچھے اعمال کا مرنے کے بعد اچھا ہو گا اور برے اعمال کے نتیجے میں مرنے کے بعد برا نتیجہ ہوگا۔ مرنے کے بعد ایک ابدی زندگی ہے جس میں انسان اپنے اعمال کے نتائج بھگتے گا۔ یہی نہیں بلکہ ایک ایسا مذہب جو کسی ایک نکتے کے گرد گھومتا ہو وہ انسانوں کو زیادہ متحد کر سکتا ہے یوں توحید کا نظریہ، شرک کے نظرئیے پہ حاوی ہوجاتا ہے۔ کئ خداءووں کے بجائے ایک خدا انسانوں کو ایکدوسرے کے قریب کر سکتا ہے۔ شرک کی ہر طرح سے مذمت کی گئ اور توحید کو ہر طریقے سے مضبوط بنانے کے لَئے جدو جہد کی گئ۔ شرک کی مذمت اور توحید کی مضبوطی کے ساتھ ہی عرب کو اس بات کے لئے تیار کیا گیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے پرانے رسم و رواج کی زنجیریں توڑ ڈالے۔ اور مذہب اس سلسلے میں سب سے کڑا امتحان ہوتا ہے۔ اس لئے پہلی کاری ضرب مذہبی نظریات پہ لگی۔
 فوٹون اپنے خیال کی تصدیق کے لئے دیکھتا ہے  کہ جب رسول اللہ اپنی نبوت کا اعلان کرتے ہیں تو اس میں جو لوگ ابتداء میں داخل ہوتے ہیں  ان میں ایک امر مشترک تھا کہ وہ قریش کے مناصب اعظم میں سے کوئ منصب نہ رکھتے تھے۔  اس معاشرے کے غریب اور پسے ہوئے لوگ تھے جنکی معاشرے میں کوئ حیثیت نہ تھی۔ مثلا عمار، خباب، ابو فکیہہ، صہیب وغیرہ کو دولت و جاہ کے دربار میں جگہ نہیں مل سکتی تھی۔ اس بناء پہ رسول اللہ کا مذاق اڑایا جاتا کہ یہ ہیں انکے ماننے والے۔ قریش کے رئیس ہنس کر کہتے
یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے ہم لوگوں کو چھوڑ کر احسان کیا ہے۔ سورہ انعام ۱
اہل قریش کے نزدیک انکا افلاس انکی تحقیر کا باعث تھا جبکہ اسی کی وجہ سے وہ حلقہ ء اسلام میں سب سے پہلے داخل ہوئے۔ انکو یہ ڈر نہ تھا کہ اگر اسلام میں داخل ہو گئے تو کوئ منصب جاتا رہے گا۔ ان کے لئے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ تھا اگر وہ جیت جاتے تو معاشرے میں انکی حیثت قائم ہوجاتی ورنہ وہ پہلے سے بھی زیادہ کمزور بنا دئیے جاتے۔


جاری ہے ۔

نوٹ؛ اس تحریر کی تیاری میں جن کتب سے مدد لی گئ ہے وہ یہ ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی کی کتاب سیرت النبی، اسکے پبلشر ہیں الفیصل ناشران و تاجران کتب اور مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کی الرحیق المختوم جسکے پبلشر ہیں المکتبہ السلفیہ لاہ


شبلی نعمانی کی سیرت النبی یہاں سے ڈاءونلوڈ کیجئیے۔
الرحیق المختوم یہاں سے ڈاءونلوڈ کریں۔۔

6 comments:

  1. مضمون کی تکمیل تک تبصرہ محفوظ رکھتے ہوئے ایک سوال کرنے کی جسارت ہے۔کیا ایک اعلی تعلیم یافتہ محقق و معلم کو جو کہ حقوق الطبع والنشر اور اتیلیکچول پراپرٹی کے جملہ اصولوں سے واقف ہو ، کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ کتب ہاے سرقہ کے رابطوں کو اپنے بلاگ کی زینت بناے۔کیا زمینی حقائق۔، کتابوں کی چوری کی تشہیر کو جائز قرار دیتے ہیں یا اس کے لئے روشن خیالوں کا کوئی خاص مسلک ہے؟

    ReplyDelete
  2. میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ میں کاپی رائیٹس کے اصولوں کو پاکستان جیسے غریب ملک کے لئے ایک دم آئیڈیئل سمجھتی ہوں۔
    آپکی اطلاع کے لئے بحیثیت ایک استاد میں یونیورسٹی کی سطح پہ اپنے طالب علموں کو باہر کی کتابوں کی فوٹو اسٹیٹ کاپیز دیتے ہوئے ذرا بھی نہیں ہچکچائی۔ ایک دو نہیں سینکڑوں کی تعداد میں بلکہ اگر آپکو یاد ہو تو تمام یونیورسٹیز میں ایک نہیں دسیوں کاپی کرنے کی مشیشنیں نصب ہوتی ہیں۔ کیا ان یونیورسٹیز کو چلانے والے افراد نہیں جانتے کہ وہ کتنے بڑے سنگین جرم میں ملوث ہیں کیا وہ سب کے سب روشن خیال ہیں اس لئے ایسا کرتے ہیں؟
    میں ہی نہیں بلکہ یونیورسٹی کی سطح پہ بڑے بڑے مذہب پرست یہی کرتے ہیں جبکہ چوری اور ڈاکے کے متعلق انکے نظریات مجھ سے کہیں زیادہ سخت ہونے چاہئیں۔
    آپ تو کچھ عرصے پہلے تک پاکستان میں رہے ہیں آپ نے بھی اسی طرح پڑھا ہوگا۔ اس وقت آپکو بالکل خیال نہیں آیا ہوگا کہ یہ چوری ہے۔
    کیا یہ طرز عمل درست ہے کہ جب آپ مالی طور پہ خوشحال ہو جایئیں تو دوسرے معاشی طور پہ کمزور لوگوں کو اخلاقی بلندی کے بھاشن دینے لگیں۔
    کیا یہ آپکی بے حسی نہیں کہ کیونکہ آپ اب چیزیں کو اب افروڈ کر سکتے ہیں اس لئے آپ ان لوگوں کی مشکلات بھول جائیں جو ابھی اس فیز سے باہر نہیں آئے۔
    میری بد قسمتی کہ میری یادداشت نے اب تک میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔ یا شاید اسکی وجہ یہ ہو کہ میں اب تک حدود پاکستان میں رہتی ہوں۔ اور یہاں کے باسیوں سے جڑی ہوئ ہوں۔
    میں جانتی ہوں کہ جو لوگ تعلیم کا شوق رکھنے کے باوجود اپنی تعلیم کے لئے اصل کتابیں نہیں خرید سکتے وہ ایکی بلاگ کے محض حوالوں کے لئے اصل کتابیں کیوں خریدیں گے۔
    یہ میری دلی خواہش ہے کہ لوگ ان کتابوں کو پڑھیں۔ آپکو اصل سوال ان لوگوں سے کرنا چاہئیے جنہوں نے یہ لنکس بنائے ہیں۔ کیا انہوں نے ناشر سے اجازت لی ہے؟
    کیا آپ نہیں جانتے کہ قحط کے زمانے میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا موقوف کر دینا چاہئیے۔
    اطمینان رکھئیے ان کتابوں کو ان لنکس کے باوجود پڑھنے والوں کی تعداد دس سے کم ہی ہوگی۔ اس سے ناشر کو کوئ نقصان نہیں پہنچے گا۔

    ReplyDelete
  3. doosra link الرحیق المختوم kam nahin kar raha
    http://www.friendskorner.com/forum/f23/ar-raheeq-ul-makhtoom-urdu-seerat-un-nabi-book-pdf-257300/

    ReplyDelete
  4. جن کتابوں پر حقوق الطبع محفوظ لکھا ہوتا ہے انکو سکین کرکے آن لائن پیش کرنے کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے ؟
    اس بارے میں میرے پاس ایک فتوی موجود ہے ۔ خاص بات یہ ہے کہ وہ فتوی انہی کے مدرسہ(ندوۃ العلما) کا ہے جن کی کتاب کے سکین کرکے لگانے پر آپ لوگ بحث کررہے ہیں۔:ڈ
    یہ اس فتوی کا لنک ہے۔

    http://i.minus.com/iVtQrrUlHBehA.jpg

    ReplyDelete
  5. لیجیے۔ یار لوگ تو ایسے ہی الجھتے رہتے ہیں۔ یہ اس فتوی کی روشنی میں دائیں اور بائیں والوں کا مسلک تو ایک ہی برآمد ہوا ہے۔
    :)

    ReplyDelete
    Replies
    1. :)
      میرے ذاتی خیال میں فتوی دینے والوں نے جلدی کی ہے۔
      لیکن پھر یہ عدنان مسعود صاحب نے اسکی تان روشن خیالوں پہ کیوں توڑی۔ وہ تو کوئ فتوی نہیں دیتے۔ فتوے کے لئے تو دین کی ڈگری چاہئیے ہوتی ہے۔ عربی زبان میں مہارت وغیرہ۔
      وہ تو بس یہی کہتے ہیں کہ ان حالات میں یہی کیا جا سکتا ہے یا پھر بیٹھ کر دیکھیں کہ حالات کتنے خراب ہو سکتے ہیں۔
      سو دائیں بائیں ہی نہیں کچھ اور طرح کے بھی فرقے موجود ہیں۔
      :)

      Delete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ