Monday, April 2, 2012

سنڈریلا

اچھا تو ہوا یوں کہ میں نے اپنی بچی کے لئے بازار سے کافی ساری اردو کی کہانیاں خریدیں۔ لیکن ان سب میں مجھے کچھ مسائل مشترکہ لگے۔ 
الفاظ کے درمیان فاصلہ اتنا کم ہے کہ ایک بچہ جو ابھی اردو سیکھنے کے بالکل ابتدائ مراحل میں ہے اسے انہیں الگ الگ پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے۔
کہانیوں میں غیر ضروری تفصیلات ہیں ۔ جس سے وہ خاصی لمبی ہوجاتی ہیں۔  چھوٹے بچے اگر کہانی بہت لمبی ہو اسے پڑھنے میں دلچسپی نہیں لیتے۔
ابتدائ کلاس کے بچوں کے حساب سے کہانیوں کی زبان آسان نہیں ہے۔
کہانیوں میں تسلسل کی کمی لگتی ہے۔
الفاظ کا چناءو کم درجے کا ہے۔ 
یہ تو تھیں ان کہانیوں کی بنیاد  خامیاں۔ اس لئے ایک دن مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں یہ کہانیاں اپنی بچی کے لئے خود لکھوں۔ اس سلسلے میں پہلی کہانی سنڈریلا پہ لکھی ہے۔ یہ ان پیج میں لکھی گئ ہے۔ اس لئے کہ میں اسکے پرنٹس نکال کر جب چاہے کسی کو دے سکوں۔ ورڈ میں فونٹ نوری نستعلیق نہیں آتا۔
 الفاظ کے درمیان فاصلہ رکھا ہے تاکہ بچہ ہر لفظ کو الگ پہچان سکے۔ الفاظ کو غیر ضروری طور پہ جوڑنے سے احتراز کیا گیا ہے۔ مثلاً اسکے کو اس کے لکھا گیا ہے۔ یہ لہانی پہلی جماعت کے حساب سے لکھی گئ ہے۔ کہانی میں کچھ ڈرائنگز نیٹ سے لے کر ڈالی گئ ہیں۔ جب بچہ کہانی سن لے تو اس میں رنگ بھرے۔ میری بچی کو تصویروں میں رنگ بھرنے کا بہت شوق ہے۔ اس لئے میں نے یہ کام کیا۔
بے کار کے خیالات سے پرہیز کیا ہے۔ یعنی یہ نہیں لکھا کہ سوتیلی مائیں تو بس ایسے ہی ہوتی ہیں۔ چاہیں تو روز ایک صفحہ کرائیں ، اور اسکے ساتھ تصویر پہ رنگ بھی کروائیں۔ کہانی سنانے کے بعد اپنے بچے سے کہانی کے متعلق سوالات ضرور پوچھیں۔ اور اگر وہ سوال کرتا ہے تو اسکے تسلی بخش جوابات دیں۔ جن سوالوں کے جواب نہیں دینا چاہتے انکے متعلق یہ نہ کہیں کہ یہ سوال نہیں کرنا چاہئیے۔  انکی عمر کے حساب سے کوئ آسان سا جواب تلاش کریں جو اصل حقائق سے دور نہ ہو۔ اگر وہ سوال نہیں کرتا ، تو اس سے پوچھیں، کوئ سوال؟
چلیں، تو یہ پہلی کہانی ہے ۔ یہ کہانی ایک کلاسک کہانی ہے، سنڈریلا کے متعلق۔ ہم سب نے اپنے بچپن میں سنی۔ اب ہمارے بچوں کی باری ہے۔  پریوں اور کوہ قاف کی دنیا کی کہانیاں نہ صرف بچوں کو پسند آتی ہیں بلکہ یہ انکے تخیل کو مہمیز کرتی ہیں۔ تخیل کی پرواز پہ پھر کبھی گفتگو ا۔ اس وقت سنڈریلا کی روائیتی کہانی اردو میں۔



8 comments:

  1. بہت خوب۔
    ابھی بھی تصویروں کی تعداد اور سائز کم ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ نے درست کہا۔ اس میں کم از کم ایک بگھی کی تصویر کم ہے۔ جو مجھے کوشش کے باوجود نہیں مل سکی۔
      تصویروں کا سائز چھوٹا ہے۔ یہ بھِ درست ہے ۔ ان تصویروں کا سائز بڑا کرنے کے لئے انہیں ایڈٹ کرنا پڑے گا۔ چونکہ ابتداً میں نے یہ میں نے اپنی بچی کے لئے بنائ تھی اس لئے سوچا کہ وہ تو صرف اس خیال سے خوش ہو جائیں گی کہ رنگ بھرنا ہے۔ تصویر کا سائز بڑا کریں تو اسے ایک علیحدہ پیج پہ لے جانا پڑے گا۔

      Delete
  2. واہ جی
    آج پھر سے بچپن کی یاد تازہ ہو گئی
    ہمیں الفاط نہیں ہاں کہانی یاد تھی


    اب کتابیں چھاپنے والے پبلیشرز بس پیسا بٹورنے کے لئے چھاپتے ہیں کیا لکھا ہے اور کس نے لکھا ہے
    پڑھتا کون ہے؟

    ReplyDelete
  3. ورڈ میں وہ تمام فونٹ آسکتے ہیں جو آپ کے کمپیوٹر پر ڈاؤن لوڈ ہیں۔ بس تھوڑی سی سیٹنگ کرنا پڑی گی اور وہ آپ نے کرنی نہیں۔
    :)

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ نے بھی درست کہا۔ تمام مصروفیات کے ساتھ اب ایک کتا بھی ہے۔ آخر میں ہٹ اینڈ ٹرائ جیسے اہم اصول پہ کیسے وقت لگاءوں۔ یہ سوال میں نے 'ان' س بھی پوچھا۔ وہ ہنس دئیے وہ چپ رہے۔

      Delete
  4. really disappointing one itni important emotional story ko aap ne aik aqali kahani bana kar apne child ko paish kar diya cindrella ki kahani tu humesha lambi hi achi lagti hai kyunki aap ki kahani main sirf aik hi kirdaar cinderela par tawaja di gayi hai iss tarha se aap ki child personality oriented aur sirf superior cheezo ko dekhne ki kaail ho jaye gi k puri kahani main sirf Cindrella important hai n the lines u choose all are depicting the importance of cindrella although other characters are also equally important , sorry to say magar yeh kahani parh kar aisa lag raha hai k aap apne child ko aqal parast aur self centered bannana chaah rahi hai u wrote that u skipped unnecessary details but in fact u removed all details about other side characters life is not like that writer was not as fool as u assume him/her , details should also be there for other characters let her know others characters of life too sirf heroine ko dikhati rahe g apne child ko????

    ReplyDelete
    Replies
    1. جی ہاں فریحہ فاروق یہ کہانی ایک پانچ سال کے بچے کے لئے لکھی گئ ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ نے اس عمر کے بچے کی پرورش کی ہے نہ انکا لٹریچر پڑھا ہے۔ اور شاید آپکو یہ بھی علم نہیں ہے کہ پہلی جماعت میں اردو کا سلیبس کیا ہے۔ اور پہلی جماعت کا بچہ کتنی اردو پڑھ سکتا ہے۔ آپ تبصرہ کرتے وقت یہ بھول گئیں کہ یہ پہلی جماعت کے بچوں میں پڑھنے کی عادت کو ترویج دینے کے لئے لکھی گئ ہے۔
      کہانیاں لمبی اچھی لگتی ہیں، اسی لئے طلسم ہوشربا اور الف لیلی جیسی کہانیاں لکھی گئیں۔ لیکن انکا مخاطب ایک پانچ سال کا بچہ کبھی نہیں رہا اور نہ ہی ان کہانیوں کا مقصد ایک زبان پڑھانا تھا۔
      یہ کہانی بالکل آپ کے عمر کے بچوں کے لئے نہیں ہے۔ اور نہ ہی آٹھ نو سال کے بچوں کے لئے ہے۔ آُ نے اس کی تمہید پہ ذرا برابر توجہ نہیں دی۔
      ویسے ایک وقت اسی کہانی کو پہلی جماعت کے اس بچے سے پڑھوا کر دکھا دیں جو ابھی مونٹیسوری پاس کر کے نکلا ہو، تو اس کہانی پہ رکھا ہوا انعام آپکا ہوا۔

      Delete
  5. آپ نے اچھی کوشش کی ہے انیقہ مجھے تو پسند آئی

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ