Wednesday, May 2, 2012

سڑک سے سڑک تک

پرانے زمانے میں کہاوت تھی کہ ایک مرد کی قوت کمائ اسکے گھر کے عورتوں کے سونے کے زیورات سے پتہ چلتی ہے۔ شاید خواتین نے مشہور کر رکھی ہو تاکہ ان کے مرد انہیں خوب سونے کے زیورات بنا کر دیں لیکن کسی ملک کی خوشحالی کی داستان اسکی سڑکیں سب سے پہلے سناتی ہیں۔
میں نے جب بارہ دن پہلے استنبول کی سڑک پہ پاءوں رکھا تو دور تک سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پہ ٹیولپس کے رنگ برنگے پھول لہرا رہے تھے۔ اس منظر نے مجھے مسحور کر دیا تھا۔ میرے شہر میں تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ اب کس پھول کا موسم ہے۔ اس شہر کے باسیوں کی خوش قسمتی پہ رشک آیا۔  پھولوں کا سنگھار ہی کافی نہیں۔ سڑکیں صاف ستھری ہیں۔ کم از کم ترکوں کو یہ پتہ ہے کہ کچرا کیا ہوتا ہے اور اسے کہاں ہونا چاہئیے۔ 
جب گاڑی نے پہئیے گھمائے تو میں نے دیکھا کہ روڈ پہ جتنی گاڑیاں ہیں شاید ہی ان میں کوئ خستہ حال گاڑی ہو۔ رکشے جیسی سستی سواری، یہاں لوگ نہیں جانتے کیا ہوتی ہے۔ کسی کو چنگ چی رکشہ چائینا سے منگا کر اپنا کاروبار جمانے کا خیال نہیں آیا۔ بسیں یہاں بھی چلتی ہیں لیکن بسوں کی چھتوں پہ لوگ ندارد۔ منی بسوں کا وجود نہیں، جتنی بسیں ہیں سب بڑی، صاف اور چمکیلی۔
جو ٹرام میں نے دس سال پہلے دیکھی تھی وہ اب بھی چل رہی ہے اتنی ہی صاف۔ کہیں پان کے نشانات نہیں،  لوگ پان کے بجائے شراب کا نشہ کرتے ہیں۔ اس نشے میں کچھ تھوکنا نہیں ہوتا بلکہ نشے کو اور زیادہ خوب صورت کر دیا جاتا ہے۔
انطالیہ ائیر پورٹ سے ہمیں دو سو کلو میٹر کے فاصلے پہ ایک قصبے میں جانا تھا۔ ترکی کے ایک بڑے شہر سے لیکر اس چھوٹے سے قصبے تک ہمیں کوئ گدھا گاڑی، اونٹ گاڑی، رکشہ، چنگ چی رکشہ، منی بس حتی کہ ایف ایکس جیسی چھوٹی گاڑیاں بھی نظر نہ آئیں۔
استنبول میں چار دنوں کے دوران چار فقیر نظر آئے جبکہ انطالیہ میں ایک جگہ ایک فقیر دیکھا۔ وہاں بھی سگنل بند ہونے پہ خواتین اور لڑکے پھول بیچتے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک پہ بھی مجھے شبہ نہیں ہوا کہ وہ سڑک کنارے کھڑے کار والوں سے جسم فروشی کے معاہدے کر رہا ہے۔ ایسا ہر گز نہیں کہ وہاں یہ کام نہیں ہوتا مگر اس طرح نہیں۔
انطالیہ سے دو سو کلو یٹر کے فاصلے  پہ موجود قصبہ، کاش ایک چھوٹا سا پہاڑی قصبہ ہے۔ یہاں نوجوانوں کے پاس موٹر سائکلز دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ خواتین بھی چلاتی ہیں۔  اس لئے کہ پہاڑی پر پیچ  راستوں پہ یہ خاصی مددگار رہتی ہیں بالخصوص جب کسی ایک شخص کو سفر کرنا ہو۔
ترکی کا گروتھ ریٹ پچھلے دس سالوں میں پانچ سے چھ فی صد رہا ہے اور مجھے کاغذ پہ لکھی اس تحریر پہ یقین ہے۔ دس سال پہلے نیلی مسجد، آیہ صفیاء، یا انکے درمیان موجود زیر زمین حوض کے لئے مجھے سڑک کنارے قطار نہیں لگانی پڑی تھی۔ لیکن اس دفعہ اتنی لمبی قطاریں موجود تھیں کہ آیہ صفیاء کے اندر داخل ہونے میں ہی ایک گھنٹہ لگ جاتا۔ پچھلے دس سالوں میں سیاحت میں ترکی خاصے آگے گیا ہے۔ اسکی وجہ ترکی کا سیاحوں کے لئے دوستانہ ماحول ہے۔  خاص طور پہ خواتین سیاحوں کے لئے محفوظ ماحول ہے جس کا میں اپنے ملک  کا باشندہ ہونے کے باوجود تصور نہیں کر سکتی۔
یہاں آتے جاتے ہوئے بعض اوقات مجھے انتہائ رش میں پھنسنا پڑ گیا مگر ارادتاً تو کیا کسی مرد کا غلطی سے بھی ہاتھ نہیں لگا۔ واپس آنے کےاگلے دن میں کراچی میں  سڑک کے کنارے لگے سبزی بازار میں شام کے وقت موجود تھی اور سوچ رہی تھی کہ سڑک پہ چلتے ہوئے اپنے آپکو سمیٹنا کیا صرف ایک خاتون کا فرض ہے۔
ترکی کی ایک اہم صنعت گاڑیوں کی تیاری ہے جس کی بیرون ملک خاصی مانگ  ہے آمدنی کے اہم ذرائع میں یہ بھی شامل ہے۔
جبکہ ہمارے یہاں کوشش یہ کی جارتی ہے کہ صنعت کے نام پہ جو کچھ موجود ہے وہ بند ہو جائے۔ کوئ سرمایہ کار غلطی سے بھی پاکستان کا رخ نہ کرے۔ آنے والی خواتین کو ہم پردے اور چہار دیواری کے سبق پڑھائیں۔ کیا سیاح، کیا سرمایہ کار، کوئ اس ملک کا رخ کرتے ہوئے بھی گھبرائے۔  ہم محض دوسرے ملکوں کی اشیاء کے سیلز مین بن کر رہ جائیں۔ چائینا کی چیزیں بیچیں ، وہاں سے جنریٹر اور یو پی ایس اور بیٹریاں لائیں کیونکہ حکومت بجلی کی پیداوار بڑھانے سے قاصر ہے، ہماری گارمنٹس  فیکٹریاں بنگلہ دیش روانہ ہو جائیں،  ہم  اپنی مقامی صنعتیں بند کریں اور انڈیا کی چیزیں فروخت کریں۔ ہم اپنا خام مال باہر بھیج دیں ، لیکن اپنے ملک کے کاریگر کو اپنی کاریگری دکھانے کا موقع نہ دیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا سرمایہ کار اب چین، بنگلہ دیش، انڈیا  اور ملائیشیاء کی طرف دیکھ رہا ہے۔
صنعتوں کے بند ہونے کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس طرح چیزوں کا عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہونے کی وجہ انکا مہنگا ہونا ہی نہیں ہے بلکہ قوت خرید کا کم ہونا بھی ہے۔
ترکی  نے پچھلے سالوں میں سینٹرل ایشیاء کی ریاستوں سے تیل کے معاہدے بھی کئے ہیں جن سے اسے خاصہ معاشی استحکام حاصل ہوا ہے جبکہ ہمارا ایران کے ساتھ گیس کا معاہدہ بھی برسوں لٹکا رہا۔
استنبول سے روانہ ہوتے وقت میں نے اپنے ہم سفر سے پوچھا کہ کیا ترکی میں گھر خریدنے کی اجازت ہے۔ جواب ملا ہاں بالکل خرید سکتی ہیں۔ کیا آپ لینا چاہتی ہیں؟ ہاں، سرمایہ ہو تو، میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ اور یہ چیز عنقا ہے ہمارے پاس۔ ترکی نے مجھے اپنا سرمایہ لگانے کو تیار کر لیا۔ 
میں بارہ دن کے بعد واپس استنبول ائیر پورٹ میں جہاز میں بیٹھی ٹیک آف کا انتظار کر رہی تھی کہ میں نے دیکھا ہمارے آگے ایک کے بعد ایک چھ جہاز رن وے پہ داخل ہوئے اور اڑ گئے۔ چھٹے نمبر پہ جب ہمارا جہاز اڑنے والی جگہ پہ پہنچا تو میں نے اپنے پیچھے آنے والے جہازوں پہ نظر کی جہاں تک نظر نے ساتھ دیا سات جہاز نظر آئے جو ہمارے پیچھے رینگ رہے تھے۔ اور انہیں ہمارے بعد باری باری فضا میں تتلیوں کی طرح اڑنا تھا۔ یعنی ہر تین منٹ بعد اس رن وے سے ایک جہاز اڑ رہا تھا۔ یہ ایک مصروف ائیر پورٹ ہے۔ جتنا مصروف ائیر پورٹ ہے اتنا  ہی زیادہ آمدنی کا باعث ہوگا۔ 
استنبول ائیر پورٹ پہ نجانے کتنے جہاز بھی موجود تھے جب ہم نے استنبول سے پرواز کی۔  نیچے نظر کی  تو شہر کی جگمگاہٹ دیکھ کر یہ بتا سکتی تھی کہ استنبول شہر کہاں تک پھیلا ہوا ہے۔ کتنے پل ہیں جو یوروپ والے حصے کو اس حصے سے ملاتے ہیں جو ایشیاء میں ہے۔
صبح پانچ بجے جب جہاز کراچی کی حدوں میں داخل ہوا تو میں اوپر سے دیکھ کر بتا سکتی تھی کہ اس وقت شہر کے کن حصوں میں لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ جہاز نے کراچی ائیر پورٹ پہ لینڈ کیا۔ یہاں چھ جہاز کھڑے نظر آئے۔ ائیر پورٹ پہ سناٹا چھایا ہوا تھا۔ صرف ہمارا جہاز حرکت میں تھا۔ اندر داخل ہوئے تو ایک بے رونق ، زرد فضا جس میں گرم جوشی یا حرکت نام کو نہیں۔
باہر نکلے تو زرد چہروں کے بچوں کا ہجوم ، اتنے ہی پیلے چہروں والی خواتین سروں  سے دوپٹہ سختی سے لپیٹے، آنے والے مسافروں میں اپنوں کو تلاش کر رہی تھی۔  میرے آگے سات سے نو سال کی عمر کی تین بچیاں برقعہ پہنے جا رہی تھیں۔ جن کے زرد چہروں کو نورانی کہہ کر انکے رشتے دار صدقے واری ہو رہے تھے۔ ہمارے پیچھے ایک خاندان عمرہ کر کے لوٹ رہا تھا۔  ائیر پورٹ کے احاطے میں جا بجا استعمال کی ہوئ اشیاء کے کارٹنز یا ریپرز ادھر ادھر پڑے ہوئے تھے۔ دو غیر ملکی گورے اپنے سامان کی ٹرالی کو دھکا دے کر اس ڈھلواں پہ چڑھانے کی سخت کوشش میں تھے جو کناروں سے ٹوٹی ہوئ تھی۔ سڑک کی وہی حالت تھی جو بحیثیت مجموعی ہمارے ملک کی ہے۔
سڑک پہ مجھے خیال آیا کہ ابھی دوپہر کو اس سڑک پہ سب سے زیادہ ہجوم موٹر سائکل والوں کا ہوگا۔ شہر میں ٹرانسپورٹ مافیا کی وجہ سے کئ دہائیوں سے کوئ بھی حکومت ٹرانسپورٹ کا کوئ متبادل نظام لانے میں ناکام رہی ہے۔ اس مافیا کے کرتا دھرتا ہماری اسمبلیوں کا حصہ بھی ہوتے ہیں اس لئے کوئ بھی حکومت اس معاملے کو زیر غور لانے میں بھی دلچسپی ظاہر نہیں کرتی۔  لوگوں نے چائینا سے درآمد کی ہوئ سستی موٹر سائیکل میں اپنی مشکل کا حل نکالا ہے۔ حکومت اس سے خوش معلوم ہوتی ہے کہ اس سے اسے جنرل سیلز ٹیکس کے علاوہ دیگر ٹیکسز بھی مل رہے ہونگے۔ 
روزانہ بڑھتی ہوئ تیل کی قیمتوں کی وجہ منی بسز کے کرائے اب عام انسان کی پہنچ سے دور ہو رہے ہیں اسکا حل لوگوں نے چنگ چی رکشے میں نکالا ہے۔ جس فاصلے کے لئے منی بس پندرہ روپے لیتی ہے اس سے زیادہ فاصلے کے لئے چنگ چی دس روپے لیتا ہے۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں ایک شخص کا روزانہ دو بسیں، ایک طرف کے فاصلے کے لئے بدلنا کوئ خاص بات نہیں۔  منی بس کے بجائے چنگ چی سہی۔ لیکن ٹرانسپورٹ کے ذرائع جتنے چھوٹے ہوتے جاتے ہیں ٹریفک اتنا زیادہ بے ہنگم ہوتا جاتا ہے۔
جو لوگ یہ بھی افورڈ نہیں کر سکتے وہ سائکل چلاتے ہیں۔ اسکے باوجود سڑک پہ کوئ خاتون سائیکل یا موٹر سائکل چلاتے نظر نہیں آئے گی۔ سڑک بتاتی ہے کہ خواتین اور مرد میں کتنا فرق ہے۔ 
غریب آدمی سامان ڈھونے کے لئے گدھا گاڑی استعمال کرتا ہے۔ یوں جب سگنل بند ہوتا ہے تو ہمارے ملک کی جی ڈی پی کی شرح دیکھنے کے لئے وزیر اقتصادیات کا بیان پڑھنا ضروری نہیں ہوتا۔ سب سے زیادہ تعداد لش پش کرتی فور وہیل گاڑیوں کی  یا حکومت کی سرپرستی میں چلنے والی صاف ستھری بڑی گاڑیوں کی نہیں بلکہ دو پہیوں کی سواری ہوتی ہے۔ اس لئے جب  وہ یہ  فرماتے ہیں کہ اس سال پاکستان کا گروتھ ریٹ چار فیصد رہا اور اگلے سال چھ فی صد ہونے کی امید ہے تو انکے اس بیان پہ نظر ڈالنے کا بھی دل نہیں چاہتا۔ نجانے وہ کس پاکستان کی گروتھ ریٹ کی بات کرتے ہیں۔ اگر ہمارے پاکستان کی تو جھوٹے کا منہ کالا۔
تو جناب، سڑک، کسی بھی ملک کی سڑک اسکی خوشحالی کی داستان سناتی ہے۔اسکے سیاستدانوں کے جھوٹ سچ بتاتی ہے، اسکے لوگوں کی ترجیحات بتاتی ہے، اسکے لوگوں کا اخلاق بتاتی ہے۔ سڑک کسی ملک  کا، کسی شہر کا آئینہ ہوتی ہے۔ یقین نہیں آتا تو کچھ دیر کو اپنے شہر کی سڑک کے کنارے کھڑے ہوجائیں۔

26 comments:

  1. متفق۔۔ بالکل ایسا ہی ہے۔۔
    سڑک اور پھر اس پر چلتے لوگ کسی بھی ملک کی حالت کی عکاسی ہوتے ہیں۔۔
    بہت اچھی تحریر ہے۔ شکریہ

    ReplyDelete
  2. بہت دلچسپ اور مبنیٔ بر حقیقت تحریر ہے، اپنے تجربات اور خیالات شیئر کرنے پر آپ کا شکریہ!

    ReplyDelete
  3. i feel the same, every time i come to karachi airport from abroad

    ReplyDelete
  4. ٹھیک ہے جی۔
    آپ نے قائل کردیا ہے۔
    اب تو ضرور جاؤں گا استبول اگر ڈیل آف دی ڈے ویب سائٹس سے کوئی اچھی ڈیل ملی تو۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. اور اگر ممکن ہو تو انطالیہ کے ساحلی قصبات میں سے کسی ایک میں ضرور جائیں۔ یہاں پانی اتنا شفاف ہے کہ بیس تیس فٹ گہرے پانی میں بھی زمین آئینے کی طرح صاف نظر آتی ہے۔

      Delete
  5. احساس کمتری کے شکار نام نہاد لبرل اور روشن خیال مذہب بیزار لوگ ہر وقت شیکایات کے انبار لگا رکھتے ہیں، مگر یہ حقیقت نظر انداز کردیتے ہیں کہ جس معاشرہ کی وہ برائی کر رہے ہیں درحقیقت وہ خود بھی اسی معاشرہ کی ایک اکائی ہے، اور انہی جیسی مزید اکائیوں کے مجموعہ سے یہ معاشرہ تشکیل پایا ہے، لہذا اگر آپ کا معاشرہ خراب ہے، تو دراصل آپ خراب ہیں، اور آپ ہی اسکی اصلاح کی ذمہ دار ہیں، تو جناب آپ کے شکت اور شیکایات تو کافی سن لی ہیں، ذرا اب آپ اپنے ان کارناموں پر بھی تو روشنی ڈال دیں جو کہ آپ نے اس معاشرہ کی اصلاح کے ضمن میں کی ہیں۔ تاکہ آپ کے بلاگ کے قارئین کے علم میں آ سکے کہ آپ آپ محض بات برائے بات نہیں بلکہ عملی اقدامات بھی کرتی ہیں۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. میں اپنا کچرا سڑک پہ نہیں پھینکتی۔ اپنے بیگ میں رکھ لیتی ہوں لیکن سڑک پہ نہیں ڈالتی۔ میرے گھر کے آگے ایک بڑا سا ڈسٹ بن بھی اسی مقصد کے لئے زمین میں کھود کر گاڑا گیا ہے تاکہ اسے کوئ چرا کر نہ لے جائے۔ دینیات کی رو سے ایمان کے سب سے کم تر درجے پہ تو ہوں۔
      باقی اپنے کارنامے کیا بیان کروں۔ ایک تو آپکے سامنے ہی ہے بلاگنگ کر رہی ہون وہ بھی اردو میں۔ اپنا علم شیئر کرتی ہوں وہ بھی آپکی زبان میں۔

      Delete
    2. آپکو اس چیز سے اختلاف ہے کہ ہماری حکومتی اور عوامی ترجیحات زندگی کی آسانیاں نہیں ہیں۔ آپ کا طبقہ اس غم میں گھلا جاتا ہے کہ یہاں خواتین سر سے دوپٹہ نہیں اوڑھتیں آپ اس چیز کی تبلیغ میں عمر گذار رہے ہیں اور میں اس چیز کی تبلیغ میں کہ سر کے دوپٹے کو کمر سے باندھ کر کچھ کام کریں۔ میں زیادہ عملی ہوں یا آپ؟ جہاں آپ جیسے لوگ اکثریت میں ہیں وہاں میں زیادہ بہادر ہوں یا آپ؟

      Delete
  6. ! کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
    ہم سے کب پیار ہے؟ ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
    طبعِ آزاد پہ قیدِ رمضاں بھاری ہے
    تمہیں کہدو یہی آئینِ وفاداری ہے

    قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
    جذبِ باہم جونہیں، محفلِ انجم بھی نہیں

    جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن، تم ہو
    نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن، تم ہو
    بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن، تم ہو
    بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو

    ہونکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
    ؟ کیا نہ بیچوگے جو مل جائیں صنم پتھر کے

    ؟ صفحہء دہر سے باطل کو مٹایا کس نے
    ؟ نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے
    ؟ میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے
    ؟ میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے

    ؟ تھے تو آبا وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو
    ! ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو

    اقبال

    ReplyDelete
  7. اگر میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہوتی تو اسی طرح کے اشعار کاپی پیسٹ کر رہی ہوتی۔ آپکے خیال میں یہ سب سے آسان کام نہیں۔

    ReplyDelete
  8. لکھتی رہیے اور یقین رکھیے آپکا لکھنا رائگاں نہیں جاۓ گا ...

    اور آپ نے اس بات کا تو تذکرہ ہی نہیں کیا کہ ترکی نے اپنے پڑوسی یوروپی ممالک سے کیا لیا یا سیکھا...

    ReplyDelete
  9. سڑکیں شہر کی رگیں ہوتی ہیں، آپکا تجزیہ بلکل درست ہے، اور آخر میں جو آپ نے تبصرے میں جواب دیا ہے وہ بھی سو فیصد درست ہے، ان لوگوں کی نظر میں دین صرف عورت کو قید رکھنے میں ہے، باقی اخلاقیات انکے نزدیک کھیل تماشے ہیں۔

    ReplyDelete
  10. عنيقہ آپ کو اس بات کی خوشی نہيں کہ اسلام بچ گيا ہے؟

    Worship place: It no longer resembles a mosque
    http://tribune.com.pk/story/374189/worship-place-it-no-longer-resembles-a-mosque/

    ReplyDelete
  11. دين ملا فی سبيل اللہ فساد

    اقبال

    ReplyDelete
  12. بہت اعلی ... اور اس بات میں کوئی شک نہیں کے سڑکیں کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتی ہیں.... جسکا ہماری ملک میں فقدان ہے ... جب کے این,ایچ,اے نوٹ کمانے والا ایک بہترین ادارہ ہے

    ReplyDelete
  13. میرے آگے سات سے نو سال کی عمر کی تین بچیاں برقعہ پہنے جا رہی تھیں۔ جن کے زرد چہروں کو نورانی کہہ کر انکے رشتے دار صدقے واری ہو رہے تھے۔
    .
    .
    .
    .
    یہ برقعے کی اتنی مخالفت کیوں؟
    کیا برقعہ اتار کر کوئی معاشرہ ترقی یافتہ بن سکتا ہے؟

    اگر یہی لڑکیاں برہنہ سر ہو کر آپکے سامنے چلتی تو کونسا انقلاب آجاتا۔الٹا لوگ انکو تاک تاک
    کر دیکھتے۔بلکہ اگر موقع ملتا تو شائد چھیڑ بھی لیتے۔

    ہاں باقی کالم میں جو بات کہی ہے اس سے متفق ہوں۔

    ReplyDelete
  14. آپکے خیال میں سات آتھ برس کی لڑکیوں کو برقعہ پہنانے والا معاشرہ ترقی یافتہ بنے گا۔ کیا ایسا معاشرہ قابل ترحم نہیں ہوگا جہاں سات آٹھ سال کی بچیوں کو بھی برہنہ سر پھرنے پہ چھیڑا جائے۔
    کیا آپ سمجھتے ہیں کہ برقعہ پہننے والی خواتین کو نہیں چھیڑا جاتا۔ اگر ایسا سمجھتے ہیں تو انتہائ غلط سمجھتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں خواتین کو چھیڑنے والی چیز سمجھا جائے وہاں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ برقعے میں ہے یا نہیں۔
    برہنہ سر ہونے سے انقلاب آتا اور وہ یہ کہ انہیں معلوم چل جاتا کہ یہ لڑکیاں بھی انہی عورتوں کی طرح ہیں جیسے انکے گھروں کی عورتیں ہوتی ہیں اور ان میں کوئ سرخاب کے پر نہیں لگے ہوتے۔
    ویسے اگر مذہب کی رو سے بھی دیکھیں تو کیا سات آٹھ سال کی بچیوں کو برقعہ پہنانا درست عمل ہے یا جہالت؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. اگر مذہب کی رو سے بھی دیکھیں تو کیا سات آٹھ سال کی بچیوں کو برقعہ پہنانا درست عمل ہے یا جہالت
      .
      .
      .
      میرئے خیال میں مذہب لڑکی کے عمر کے
      ساتھ ساتھ قدوکاٹ کو بھی دیکھتا ہے۔

      Delete
    2. مذہب دیکھتا ہوگا، برقعہ پہنانے کی خواہش رکھنے والے نہیں دیکھتے۔ میں تو چار سال عمر اور تین فٹ قد رکھنے والی کو بھی برقعے میں دیکھ چلی ہوں۔ چھ ماہ کی بچیوں کو اسکارف میں دیکھنا ایک معمول کی بات ہے۔ آپ تو جانتے ہونگے کہ چھ ماہ کی بچیوں کا قد کتنا ہوتا ہے۔
      کیا اب بھی آپ اس رجحان کی مذمت نہیں کریں گے۔
      اکبر الہ آبادی جیسے روایت پسند شخص نے اپنے زمانے میں چند خواتین کو بے پردہ دیکھ کر کہا تھا مردوں کی عقل پہ پردہ پڑ گیا ہے ہم آج کے زمانے کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ مردوں کی عقل پہ پردہ سوار ہو گیا ہے۔

      Delete
  15. خاتون آپ عظیم ترکی کو چھوڑ کیوں آئیں؟ جہاں شراب کا نشہ بھی آپ کو خوبصورت لگا

    ReplyDelete
    Replies
    1. میں عظیم ترکی کیوں چھوڑ آئ؟ یہ تو بالکل واضح ہے کیونکہ میں وہاں گھومنے گئ تھی۔
      دنیا میں ہر شخس آپکے اخلاقیات اور نظریات کے پیمانے پہ پورا نہیں تل سکتا۔
      آپ ایک پنواڑی کی دوکان تو دیکھتے ہی ہونگے۔ جس جگہ پان کھایا جاتا ہے وہ دیکھ لیں اور جس جگہ شراب پی جاتی ہے یا پیش کی جاتی ہے وہ دیکھ لیں۔ اور کچھ نہیں کسی عوامی سینما ہاءوس میں چلے جاءیں جہاں پان کی خوشبو سے فضا معطر ہوتی ہے اور دیواریں رنگین۔ سواءے اسکے کہ آپکی جمالیاتی حس ایک دم مر نہ چکی ہو آپ کیا ہر ایک اس شراب والی دوکان کو خوب صورت اور پر کشش ہی کہے گا۔ آپ کہیں تو بحرین کی ڈیوٹی فری شاپ پہ سجی شراب کی بوتلیں اور کراچی کی پان کی دوکان کی تصاویر دکھا دوں۔

      Delete
  16. عبد الرؤف صاحب ان احساس کمتری کے ماروں کا کوئی علاج نہیں

    ReplyDelete
    Replies
    1. جی ہاں عطائ طبیبوں کے پاس اس کا علاج بالکل نہیں۔

      Delete
  17. مذہب بیزاری ایسی بیماری ہے جس کا علاج اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں ـ اللہ تمام مذہب بیزاروں کو ہدایت عطا کرے آمین ـ

    ReplyDelete
    Replies
    1. کیا آپکو یقین ہے کہ آپ کی دعا قبول ہو گی۔
      :)

      Delete
    2. دعا گر قبول ہوجانے کا انہیں یقین ہوتا تو وہ ملک کے صدر یا خود خدا نہ ہوجاتے ـ

      Delete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ