Wednesday, June 27, 2012

خوشدلی کے راستے

میں فرسٹ ایئر آنرز کی اسٹوڈنٹ تھی جب وہ میرے پاس آیا۔ وہ اس وقت آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا اور خاصہ ذہین۔ نہ صرف ذہین بلکہ شریر بھی تھا۔ وہ اکیلا نہیں آیا تھا بلکہ اسکے ساتھ ایک بہن اور دو بھائ بھی  تھے۔ وہ ان میں سب سے بڑا تھا۔ باقی بہن بھائ بھی اچھے ذہین بچے تھے۔ یہ سب مجھ سے ٹیوشن پڑھنے آتے تھے۔ ذہین بچوں کو پڑھانے میں کسے مزہ نہیں آتا۔ مجھے تو پیسوں کی ضرورت بھی تھی۔ وہ سب مجھ سے پڑھ کر خوش تھے۔ انکے گھر والوں کو ایک تسلی اور بھی تھی اور وہ یہ کہ یہاں ان سے کوئ اس بابت سوال نہیں کرتا تھا کہ وہ قادیانی ہیں۔ اتنے بڑے علاقے میں وہ واحد قادیانی خاندان تھا۔ اگرچہ کسی نے کبھی انکے لئے سخت رویہ اختیار نہیں کیا تھا لیکن ایک چحوٹی جگہ ہونے کی بناء پہ لوگ بطور خاص یہ بات جانتے تھے کہ وہ قادیانی ہیں۔
ان کے دادا نے اپنا قادیانی لٹریچر بھی پڑھنے کو دیا۔ انہی کی دی ہوئ سر ظفراللہ کی سوانح حیات بھی پڑھی لیکن اب مجھے یاد بھی نہیں ہے۔  ہم میں سے کوئ بھی قادیانی نہ ہو سکا۔  پڑھنے کو تو عیسائیوں کا تبلیغی مواد بھی پڑھا۔ خدا جانے کون بھیج دیا کرتا تھا۔ لیکن ہم میں سے کسی کو عیسائ ہونے کی بھی چاہ نہ ہوئ۔ 
آئیندہ ایک ڈیڑھ سال میں وہاب کا قد مجھ سے بھی بڑھ گیا۔  لیکن وہ اسی طرح مسکراتا اپنا کام کرتا رہتا۔ میٹرک کے امتحان میں اس نے اے ون گریڈ لیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب تھوک کے حساب سے اے ون گریڈ بھی نہیں آتے تھے۔ مجھے بھی خوشی تھی کہ میرے اسٹوڈنٹ کے بیاسی فی صد نمبر آئے ہیں۔ لیکن افسوس بھی تھا۔
وہاب میں اب آپ کو انٹر میں نہیں پڑھا سکوں گی کیونکہ خود میری پڑھائ اب پہلے سے زیادہ وقت لیتی ہے۔ایسی صورت میں کہ میں صبح سات بجے کی نکلی ہوئ  یونیورسٹی سے گھر واپس شام کو  ساڑھے پانچ بجے آتی ہوں دیگر بچوں کو ٹیوشن پڑھانے، گھر کے کاموں اور اپنی پڑھائ کے ساتھ اتنا وقت نہیں بچتا کہ آپکے ساتھ بیٹھ کر تمام مضامین کے نوٹس بناءوں۔ انٹر میں زیادہ محنت چاہئیے ہوتی ہے۔ میٹرک تک پڑھانے کے لئے مجھے بالکل تیاری نہیں کرنی پڑتی تھِی۔اس لئے اب بہتر یہ ہے کہ کسی کوچنگ سینٹر کو جوائن کر لو۔ تم ایک ذہین بچے ہو اور میرے چکر میں تم اپنا وقت خراب نہ کرو۔
وہاب کے لئے یہ بڑا صدمہ تھا اس کا اندازہ مجھے بعد میں ہوا جب ایک ہفتے بعد اسکی والدہ میرے پاس آئیں۔ ایک ہفتہ ہو گیا ہے وہ بستر پہ خاموشی سے پڑا رہتا ہے۔ کہتا ہے پڑھوں گا تو باجی سے پڑھوں گا۔ بیٹا کسی طرح وقت نکال کر اسے پڑھا دو۔  آنٹی میں نے کہا اس وقت میرے پاس جو بچے ہیں انہیں پڑھاتے پڑھاتے رات کو ساڑھے آٹھ بج جاتے ہیں۔ اسکے بعد دیگر کام بھی کرنے ہوتے ہیں ۔ یقین کریں میں صبح پانچ بجے کی اٹھی ہوتی ہوں نیند سے میری آنکھیں بند ہو رہی ہوتی ہے۔ میں آپ کو بالکل ایمانداری سے بتا رہی ہوں کہ اس سے وہاب کے امتحانی گریڈ پہ اچھا اثر نہیں پڑے گا۔ آپ اسے سمجھائیے، زندگی میں انسان بہت سے لوگوں سے ملتا ہے۔ دنیا کسی ایک انسان پہ آ کر ختم نہیں ہوتی۔ وہ خاموش ہو گئیں۔
اس ساری کوشش کے باوجود وہاب کے گریڈز اچھے نہ ہو سکے۔ مجھے لگا کہ وہ ہر جگہ جا کر عدم تحفظ کا شکار رہتا تھا۔ اور یہ عدم تحفظ کا احساس اسے اس عقیدے کی بناء پہ ملا تھا جس میں وہ پیدا ہوا تھا۔
حالانکہ انسانوں کی اکثریت عموماً وہ مذہب رکھتی ہے جس میں وہ پیدا ہوتی ہے۔ اور اسے تبدیل کرنے کی جراءت بھی ان میں ایک خاص عمر سے پہلے نہیں پیدا ہوتی۔ دنیا کے ہر مذہب سے لا تعلقی اختیار کر لینا یا دہریہ ہوجانا، اسے تبدیل کرنے سے زیادہ آسان ہوتا ہے۔ مذہب سے آزادی حاصل کرنے والے یہ عمل احتجاج میں یہ کرتے ہیں۔ ورنہ مذہب اگر اپنی رو میں چلتا رہے تو کسی کو اسے چھوڑنے کی کیا ضرورت۔ ہر گناہ کے بعد توبہ کر لی۔ دنیا کے ساتھ آخرت کی بھی حفاظت کر لی، اگر وہ ہوئ تو نقصان نہ رہے۔ 
ہم اس محلے سے نکل آئے۔ وہاب کے بارے میں مجھے آخری اطلاع جو ملی وہ یہ تھی کہ اسکے انٹر میں باسٹھ فی صد نمبر آئے۔ تعلیمی کارکردگی میں نمایاں کمی  سے زیادہ جس چیز سے مجھے تکلیف پہنچی وہ یہ تھی کہ وہاب شخصی طور پہ متوازن نہیں رہا۔ بس وہاب اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ اسے یہ فکر زیادہ رہتی ہے کہ لوگ قادیانی ہونے کی وجہ سے اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ماں نے ایسے کہا کہ مجھے لگا میں مجرم ہوں۔ وہ ان کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔
وہ ابتداً میرے پاس آیا تو اسکی آنکھوں میں شرارت اور ذہانت کی چمک تھی۔ مجھے وہ اپنی ان خوبیوں کی بناء پہ بے حد پسند تھا۔ لیکن  اسکی ان خوبیوں کی حفاظت نہ ہو سکی۔  
 اقلیت بن کر رہنا کوئ آسان کام نہیں، بالخصوص مذہبی اقلیت اور پھر ایسی جگہوں پہ جہاں مذہب بنیادی پہچان بتایا جاتا ہو۔ میں بچپن میں سوچا کرتی تھی کہ آخر سب لوگ ہمارے جیسے کیوں نہیں ہو جاتے۔ ہم جو سچائ پہ ہیں، ہم جو سب سے بہتر ہیں۔ ہم جو سب سے زیادہ ہیں۔
اب  یہ سوچتی ہوں کہ آخر ہم سب اپنے اپنے راستوں پہ چل کر خوشدلی کے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے؟ اس طرح ہماری شخصیات اندرونی ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ ہو جائیں گی اور ہم بہت سارے ایسے انسانوں سے مستفید ہو پائیں گے جو زمین پہ خدا کی تخلیق کا عمدہ نمونہ ہوتے ہیں۔ 
  

24 comments:

  1. اگر آپ کو ایک بچہ پسند آگیا تو یہ آپ کا جذبہ محبت ہے۔قادیانیت کی وضاحت یا قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں پہ لکھے بغیر قادیانیوں سے اظہار عشق کرنے کی ضرور کوئی نا کوئی وجہ ہو گی۔
    آپ اگر مسلمان ہیں ، کسی نا کسی فرقے کو مانتیں ہونگی۔ مسلمانوں کا کوئی فرقے آپ کو اور آپ کی ماں بہن کو سورنی نہیں کہتا۔
    اس مذہب کا بانی بھی اور ماننے والے اب بھی ان کے مذہب اور ان کے نبی کو نا ماننے والوں کیلئے ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں۔
    کئی بار تجربہ ہوا مساجد میں یہ لوگ مسلمان بن کر آتے ہیں اور فتنہ فساد کرواتے ہیں۔مسلمان یا روشن خیال خوش دل مسلمان بن کر مسلمان خواتین سے شادیاں رچا لیتے ہیں۔
    اور بعد میں یہی خواتین ان کیلئے انسانی ہمدردی کا اظہار کرنا شروع ہو جاتی ہیں۔
    اور آپ کو معلوم ہی ہے کہ عورت تو ہوتی ہی ناقص العقل ہے

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ کی اعلی عقل یہ کہتی ہے کہ جو خواتین یہ لکھتی ہیں انکے شوہر قادیانی ہونگے۔ شاباش۔
      اور آپ کو یہ سمجھ میں آیا کہ یہ تحریر قادیانیوں کے لئے اظہار عشق ہے۔ اس پہ بھی شاباش۔
      کس جگہ لکھا ہے کہ عورت نا قص العقل ہوتی ہے تاکہ آپ کے اس ذریعے کو بھی نا قص العقل کہا جا سکے۔ شاید آپ کسی حدیث کا حوالہ دیں گے۔ اپنے نبی سے منسلک اس غلط بات کو کئ علماء غلط کہہ چکے ہیں۔ لیکن آپ کی اعلی عقل تک یہ پہنچی نہیں شاید۔
      آپ نے گالیاں دینے کی تو خوب کہی، مسلمانوں میں تو ایسے ایسے فرقے موجود ہیں جو ایک دوسرے کو واجب القتل کہتے ہیں۔ لیکن ظاہر سی بات ہے کہ اعلی عقل یہ سب باتیں کہاں خاطر میں لاتی ہے۔
      مسلمان جن جگہوں پہ اقلیت میں ہوتے ہیں ان کے بھی ایسے ہی مسائل ہوتے ہیں۔ اقلیت ہونا ایسی جگہوں پہ جہاں کسی کو برداشت نہ کیا جاتا ہو وہاں کے مسائل ہوتے ہیں۔ یہ میں نے تو اپنی آنکھوں دیکھی بتائ ہے۔ دوسروں کے بھی ہونگے۔ بہت سوں کے ذاتی ہونگے۔ لیکن بات تو کامل عقل اور ناقص عقل پہ آکر ختم ہوجاتی ہے۔

      Delete
    2. آپ تو غصہ کر گئیں ہم نے تو ایسے ہی عورت کو ناقص العقل کہہ دیا تھا ،جیسے کوئی کسی کوفاتر العقل یا کھسکی ہوئی کہہ جاتا ہے۔
      ہم نے کسی حدیث کا حوالہ بھی نہیں دیا تھا۔
      عورت کے متعلق بھی اور قادیانیوں کے متعلق بھی بس اپنا تجربہ لکھا ہے۔
      آپ نے اپنی بات کی سچائی ثابت کرنی ہے تو دو خواتین کی گواہیاں لائے۔

      Delete
    3. Was this post somehow a requirement for ur canadian / european country visa??

      Delete
    4. جب لوگ اپنی کہی ہوئ بات کے لئے کہہ دیں کہ بس ایسے ہی کہا تھا تو انہیں دو خواتین کی نہیں ایک ڈاکٹر کی گواہی چاہئیے ہوتی ہے۔ جائیے اپنے دیوانے نہ ہونے کی سند لے آئیے۔
      نہیں بندی کو باہر کا ویزہ ایسے ہی مل جائے گا اگر وہ اسکے لئے درخواست دے۔

      Delete
    5. ارے محترمہ دیکھئے کتنے تبصرے آگئے۔۔
      آپ کے اخلاقیات سے تو یہی اندازہ ہو تا ہے کہ آپ کے شوہر قادیانی یا دہریہ قسم کے جانور ہیں۔۔کسی نے بھی نہیں کہا کہ آپ کے شوہر قادیانی ہیں لیکن آپ نے وضاحتیں دینا شروع کردیں۔

      Delete
    6. آپ کا تبصرہ ہی آپ کا جواب ہے۔ سب سے بڑے دہرئیے تو آپ خود ہیں جو خدا کی ذات اور اسکی خوبیوں کا اقرار کرے لیکن عملی طور پہ اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لئے جھوٹ بولنے سے گریز نہ کریں اور اپنی پوری روح کے ساتھ جھوٹ بولے وہی تو دہریہ ہے۔
      جائیے پہلے جا کر خود اسلام قبول کریں پھر کسی اور پہ جرح کیجئیے گا۔

      Delete
  2. السلام و علیکم ،

    آپ کی اس پوسٹ سے صد فیصد متفق ہوں ...

    ہمیں مذہبی اقلیتوں کے معاملے میں خاص طور پر کشادہ دل ہونا چاہیے ...

    اسلام کی تعلیم تو کشادہ دلی کی ہے .. کسی خاص مثال کو ہم سب اقلیتوں پر نہیں تھوپ سکتے ...

    خاص طور پر جب قادیانیوں کو کافر قرار دے دیا گیا ہے .. تو اب اور کیا اسلام اجازت دیتا ہے .. زندہ رہنے کا حق تو ہم کسی سے اس بنیاد پہ نہیں چھین سکتے کہ وہ غیر مسلم ہے ....

    ReplyDelete
  3. The condemned: A special report on Ahmadi persecution - coming soon
    http://tribune.com.pk/story/401073/the-condemned-a-special-report-on-ahmadi-persecution-coming-soon/

    ReplyDelete
  4. شائد قادیانیوں کی شکل سے متاثر ہو چکی ہیں
    ان کے افکار و خیالات و مذہبی اطاور سے نہیں


    جیسے ایک مسلمان نماز روزے سے دور رہ کر مسلمان تو ہو سکتا ہے پر گناہ گار
    پھر بھی وہ کافروں سے بدرجہ اتم کروڑوں درجہ بہتر و افضل ہے



    آپ کی ماں کو گالی دے پر ہو وہ نمازی پرہیزگار
    دل سے نہیں زبان سے آپ کے پورے خاندان کو برملا آپ کے منہ پر ماں بہن کی مغلاط سنائے کیا وہ آپ کی نگاہ میں اچھا ہو گا

    کیا یہ رواداری آپ کہہ سکیں گی کے پھر بھی ہر محفل میں اس کے ساتھ اٹحنا بٹھنا ہو؟


    بس یہی صورتحال ایسے شخص کے لئے اس سے زیادہ کرنا ہو گی جو نبہ مکرم ﷺ کے ساتھ شریک نبی یا ان کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کرے


    اس سے قطعہ تعلق رکھنا ضروری ہے
    امان کا تقاضہ ہے انہیں کافر سمجھیں ان کا بائیکاٹ کریں

    ReplyDelete
  5. ارتقاء حیات، آپ کے خیال میں قادیانی زیادہ حسین و جمیل ہوتے ہیں اس لئے میں یا کوئ اور شخص ان سے متائثر ہوجاتا ہے۔
    کیا آپ اپنے ملک سے باہر کبھی گئ ہیں۔ کیا آپ وہاں کافروں کے ساتھ نہیں رہتیں۔ کیا آپ نے ایسے تعلیمی اداروں میں تعلیم پائ ہے جہاں کافر بھِ آپ کے ساتھ زیر تعلیم ہوں کیا آپ انکے ساتھ تعلیم حاصل کرنے سے انکار کر دیتی ہیں۔
    ایک اور دلچسپ بات کیا آپ کا کسی ایسی جگہ رہنے کا اتفاقت ہوا ہے جہاں آپ اقلیت میں ہوں اور لوگ اس لئے آپکا بائیکاٹ کریں کہ وہ آپکو کافر سمجھتے ہوں اور آپکی مذہبی تعلیمات کو اپنی مذہبی تعلیمات کے بالکل بر عکس سمجھتے ہوں۔
    حالت یہ ہے کہ ہم کافروں کی ہر چیز سے مستفید ہوتے ہیں چاہے وہ کھانے کی چیزیں ہوں، علاج معالجہ، ٹیکنالوجی یا طر حکومت۔ اب یہ سوچیں کہ قادیانی اگر سائینس کی دنیا میں کوئ تہلکہ خیز کام کرےء تو آپ اس سے اس لئے انکار نہ کر سکیں گی کہ وہ قادیانی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے امریکہ پہ آپ لاکھ الزام دھریں کہ وہ مسلمانوں کا دشمن ہے حقیقت حال یہ بن جاتی ہے کہ امریکہ اس وقت لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کو اپنے ملک کی شہریت دے رہا ہے کس واسطے؟ اس واسطے کہ وہ انکی صلاحیتوں سے اپنے ذرائع کو بہتر بنا سکے۔ کون عقل مند ہوا۔ آپ یا امریکی؟

    ReplyDelete
  6. ارتقاء حیات

    جو فرقے ايک دوسرے کو روز جانوروں کی طرح ہلاک کر رہے ہيں جن ميں سب ہی فرقے شامل ہيں انکے بارے ميں کيا خيال ہے؟ کيا انکے ساتھ اٹھنا بيٹھنا چاہيئے؟

    اب يہ نہ کہہ دينا کہ پڑھی لکھی ہو کيوں کہ لگتی نہيں کسی طرف سے.

    ReplyDelete
  7. بس یہی صورتحال ایسے شخص کے لئے اس سے زیادہ کرنا ہو گی جو نبہ مکرم ﷺ کے ساتھ شریک نبی یا ان کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کرے

    -----------

    دارالعلوم ديوبند کے بارے ميں کيا خيال ہے؟

    http://www.youtube.com/watch?v=Nfde2WGvf3w


    ان پہ کب لعنت بھيج رہی ہو؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. بات یہ ہے کہ اقلیت کو تحفظ دینا مملکت کی ذمہ داری ہے۔ ایک دفعہ اگر آپ نے انہیں غیر مسلم قرار دے دیا ہے تو اب یہ مملکت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست کے تمام افراد کو قوانین کے مطابق انہیں انکے بنیادی حق دے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہم ہندوستان میں مسلمانوں کا تحفظ چاہتے ہیں یا بالکل ایسے ہی جیسے فرانس میں حجاب پہننے والی خاتون کے لئے تحفظ چاہتے ہیں۔
      ہم ایسی چیز کی چاہت کیسے کر سکتے ہیں جب تک ہم دوسروں کو وہ چیز اپنے علاقے میں نہیں دے سکتے۔

      Delete
  8. ایک ہندو خاتون سے آشنائی ہے۔
    میں اور وہ ایک ہی پلیٹ میں کھا لیتے ہیں۔
    یہ گلوبل شہر، کتنے دلچسپ ہوتے ہیں۔
    اور ایک آپ کا اتنا بڑا بھرپور شہر ، کہیں قبل از بلوغت ہی میں پھنس گیا۔
    :)

    ReplyDelete
    Replies
    1. نہیں کراچی میں صورت حال پھر بھی خاصی بہتر ہے۔، یہاں ملک کے کسی بھی شہر کی نسبت سب سے زیادہ مختلف مذاہب کے لوگ ہیں۔ لیکن پچھلے دس سالوں میں مذہبی فرقہ واریت میں اضآفہ ہوا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں مذہبی تعصبت پہ ہر روز لوگ قتل ہو رہے ہوں۔ وہاں کراچی پھر بھی ایک معتدل رجحان پیش کرتا ہے۔

      Delete
  9. کسی کا صرف اسی وجہ سے مزاق اڑاتے رہنا کہ وہ قادیانی ہے ، نہایت غلط بات ہے ۔ ہمیں غیر مسلموں کو اپنے اچھے اخلاق سے متاثر کرنا چاہیے ۔۔۔
    لیکن قادیانیوں کے ساتھ ایک مسئلہ ہے کہ وہ ہر ایک کو قادیانی بنانے کو تُل جاتے ہیں ۔۔۔ ایک دوست میرے چچا کا قادیانی تھا ، بس تُل گیا ، بحث مباحثہ ہوا جب میرے چچا اور انکے دوستوں نے مرزا قادیانی کی عبارتیں دیکھیں گندی گندی حضرت عیسیٰ اور دیگر کے بارے بکواس دیکھی تو ان لوگوں سے رہا نہیں گیا ۔۔۔ سنا ہے کہ چچا کی اب بھی کبھی کبھی اُس سے بات ہوتی ہے لیکن اُنکے دوست نے تو کبھی نہ کی ۔۔۔
    وہ کہتے ہیں کہ بس اپنی اپنی عقیدت کی بات ہے ۔
    واقعی اپنی اپنی عقیدت کی بات ہے ۔ اور میں تو ویسے بھی جاہل لوگوں کو مظلوم خیال کرتا ہوں ۔

    ReplyDelete
  10. قادیانی فتنہ اور مسلمانوں کا رویہ:

    ایک سچے مسلمان کے لیئے یہ ناممکن ہے کہ وہ قادیانی فتنے کی حقیقت جاننے کے باوجود بھی اسکی تردید نہ کرے۔

    مگر محض کسی کے عقیدے کی بنیاد پر اس سے نفرت کرنا ہم کو اسلام نہیں سکھاتا ہے، اس لیئے ہمارا رویہ ان سے ہمدردانہ ہونا چاہیئے مگر افسوس کہ ہماری مذہبی انتہاء پسندی اور عقیدت میں غلو اور حد سے بڑھی ہوئی جذباتیت ہم کو متعصب بنا دیتی ہے ، جس سے ہم کو حتی الامکان بچنے کی کوشش کرنا چاہیئے کیونکہ اول تو یہ ہمارے نبی کی تعلیم نہیں ہے دوئم پھر بدلے میں ہم کو بھی تو ایسی ہی نفسیات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    میں کھلے دل و دماغ کے ساتھ اپنے غیر مسلم دفتری ساتھیوں کے ساتھ مذہبی گفتگو کیا کرتا ہوں اور وہ ادھر اقلیت میں ہونے کے باوجود بھی نا تو احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں اور نا ہی تعصب کا۔ بلکہ نہایت خوشدلی سے میری بات سننے کے بعد اپنی بات بھی بتاتے ہیں۔ میرے پڑوس میں بھی غیر مسلم رہتے ہیں اور ہم اپنے اپنے گھروں میں پکے ہوئے کھانے بھی ایک دوسرے کے گھروں میں بھجواتے ہیں جوکہ نہایت ہی کھلے دل سے قبول بھی کیئے جاتے ہیں۔

    قصہ المختصر یہ کہ اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرے اور انکو تحفظ کا احساس دلائے اور مذہبی انتہاء پسندی و شدت پسندی کی اس موءثر انداز سے روک تھام کرے کہ نا تو اسلامی شعائر و شخصیات کی کوئی توہین ہو اور نا ہی کسی کا محض اسکے مذہبی و قومی اقلیتوں سے تعلق کی بنا پر بائیکاٹ کیا جائے۔

    ReplyDelete
  11. عنیقہ جی آپ کے مضمون کا بنیادی مفھوم جان چکا ہوں اور حسب معمول آپ نے پھر سے لامذہبیت / دہریت کی تبلیغ بھی کی ہے، خیر دہریت والے مسئلے کو چھیڑے بغیر ہی کیونکہ اس پر ہم پہلے ہی کافی سارے لاحاصل مباحثے کرچکے ہیں لہذا بقیہ مضمون پر اپنی رائے بھی الگ سے دے چکا ہوں مگر ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کردینا چاہتا ہوں کہ دراصل آپ کا یہ نقطہ انتہائی کمزور ہے کہ جب اہل علاقہ نے انکے عقیدے کا بخوبی علم رکھنے کے باوجود بھی کسی نے ان سے سخت رویہ اختیار نہیں کیا تو پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ آپ کے ٹیوشن دینے سے منع کردیئے جانے کی بنا پر بچے کو اپنے عقیدے کی بنا پر عدم تحفظ کا احساس ہونے لگا اور بالآخر وہ شخصی طور پہ متوازن ہی نہیں رہا۔۔ اور اسکا دل ہی تعلیم سے اٹھ گیا۔ میرے خیال میں اگر آپ یہ لکھنے کے بجائے کہ آپ کا انکار :

    //
    عنیقہ:
    وہاب کے لئے یہ بڑا صدمہ تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک ہفتہ ہو گیا ہے وہ بستر پہ خاموشی سے پڑا رہتا ہے۔ کہتا ہے پڑھوں گا تو باجی سے پڑھوں گا۔
    //

    آپ اس نقطے کی درست وضاحت اسطرح کردیتیں کہ وہ ایک حساس بچہ تھا اور پہلے سے ہی اپنے پیدائشی عقیدے کی بنا عدم تحفظ کا شکار رہتا تھا اور پھر آپ کے انکار کرنے بعد شائد کالج یا کوچنگ سنٹر میں نئے لوگوں سے ملاقات اور انکے رویئے کی بنا پر اسکا یہ حال ہوا تھا تو پھر آپ کو قادیانیوں کی طرفداری کرنے اور ان سے یا انکی شکل سے عشق ہونے الزام نہیں سہنا پڑتا۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. جہاں تک عشق اور طرفداری کا تعلق ہے اس کی مجھے پرواہ نہیں تو آپ بھی اس پہ دل چھوٹا نہ کریں۔
      کیونکہ میں نے اپنے آپکو کبھی لادین یا دہریہ نہیں کہا اس لئے اسلامی عقائد کی رو سے آپکو اس بارے میں محتاط رہنا چاہئیے۔
      درست وضاحت اس طرح کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے طور پہ یہ کہہ دیں کہ وہ ایک حساس بچہ تھا۔ دراصل ہمیں اس سارے قصے کو وقت کے تناظر میں بھی دیکھنا چاہئیے۔ اسکی بہت سارے امکانات ہیں اور وہ سارے امکانات اس سلسلے سے منسلک ہیں کہ وہ ایک اقلیتی مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔
      آپکا بیان یہ درست ہے کہ مذہب ہم کو یہ نہیں سکھاتا۔ اور اگر ہم ایسا کریں تو بدلے میں ہمیں بھِ اس روئیے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ صرف قادیانی کے لئے ہی نہیں تمام اقلیتوں کے لئے ہے بلکہ ان جگہوں کے لئے بھی ہے جہاں آپ اقلیت ہوتے ہیں۔

      Delete
  12. نبی کریم ؤ کے فرمان کے مطابق ہماری دوستی دشمنی اللہ کے لئے ہونی چاہیئے میں اپنے نبیﷺ اور اس کے اسول کے صدقے قادیانیوں سے بغض رکھتی ہوں وہ بچہ اتنا عرصہ آپ کے پاس رہا تو اسے اسلام کی ہی کچھ تعلیم دے دیتیں جیسے آپ نے قادیانیو ں کا لٹریچر پڑھا مگر آپ پر اس کا اثر نہ ہوا اس بچے کو اسلامی لٹریچر دیتیں کیا پتہ آپ وسیلہ بن جاتی کسی کو سیدھے راستے پر لانے کا۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. انہوں نے اس لئے دیا تھا کہ قادیانیوں کے علاوہ کسی کے پاس سے قادیانی لٹریچر نہیں مل سکتا تھا۔ اور وہ یہاں اقپلیت میں ہیں۔ میں نے اس لئے نہیں دیا کہ ہم اکثریت میں ہیں۔ ہماری مساجد کے لائڈ اسپیکر دن رات یہ تبلیغ کرتے ہیں۔ تبلیغیوں کی ایک جماعت موجود ہے۔ سیاسی مذہبی جماعتیں ہیں جو دن رات ہمارے دین کی تبلیغ کرتی ہیں۔ اسکے علاوہ لوگوں کا پر ثواب پاس ٹائم دین کی تبلیغ ہے تبلیغ کی اس دنیا میں کچھ لوگ تو ایسے ہونے چاہئیں جن سے دنیا کے مسائل پہ گفتگو ہو، جو کسی کی زندگی آسان کر سکیں اور جن کے اعمال نیکیوں کی گنتی کے لئے نہ ہوں۔ جن کے بارے میں خدا کہے یہ ہیں وہ لوگ جو نہ جنت کے لئے جئیے نہ دوزخ کے خوف سے نیک اعمال کرتے رہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے نیک اعمال میری مخلوق کی سربلندی کے لئے تھے۔ ایسے ہی انسان زمین پہ میرے خلیفہ ہیں۔
      خلیفہ کا کام لوگوں کو سیدھی راہ پہ لانا نہیں ہوتا۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہدایت من جانب اللہ ہوتی ہے جسے چاہے دے۔

      Delete
  13. Very nice effort we will be delighted to have u on our urdu community
    Dayar-e-Urdu
    Non-profitable Community forum to solely promote Urdu on Internet
    www.dayareurdu.com

    ReplyDelete
  14. "In 1967 Steven Weinberg[2] and Abdus Salam[3] incorporated the Higgs mechanism[4][5][6] into Glashow's electroweak theory, giving it its modern form.

    The Higgs mechanism is believed to give rise to the masses of all the elementary particles in the Standard Model. This includes the masses of the W and Z bosons, and the masses of the fermions, i.e. the quarks and leptons.

    After the neutral weak currents caused by Z boson exchange were discovered at CERN in 1973,[7][8][9][10] the electroweak theory became widely accepted and Glashow, Salam, and Weinberg shared the 1979 Nobel Prize in Physics for discovering it. "

    ...

    On 4 July 2012, the two main experiments at the LHC (ATLAS and CMS) both reported independently that they found a new particle with a mass of about 125 GeV/c2 (about 133 proton masses, on the order of 10-25 kg), which is "consistent with the Higgs boson".

    http://en.wikipedia.org/wiki/Standard_Model

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ