Tuesday, August 21, 2012

دلیل کے دشمن

انہیں اور ہیں کون  بہکانے والے
یہی آنے والے، یہی جانے والے
 لیکن بات جب اندیشے کی حد سے نکلتی ہے تو جادو کی حدوں میں داخل ہوجاتی ہے شاید اسی لئے کہتے ہیں جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے۔ یعنی جادو جب بولتا ہے تو دنیا میں کچھ بھی باقی رہے اگلے کا سر باقی نہیں رہتا۔ جی ، میرا شارہ عقل ہی کی طرف ہے۔ ایک شخص جسے گمان ہو گیا ہو کہ اس پہ جادو کیا گیا ہے۔ اس کو کوئ بھی عقل کی بات سمجھاوی جاوے ہرگز اسکی عقل میں سما نہ پاوے۔
لوگ کہتے ہیں جادو برحق ہے اسکا نہ ماننے والا کافر ہے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ اس قول کی ترویج کرنے والا یقیناً جادو کا توڑ جانتا ہے جبھی اپنے قول میں اتنا اٹل ہے۔
علم کی کمی سے اس کا تعلق نہیں۔  اچھے اچھے با شعور لوگ اس مرض میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اس لئے نہ صرف یہ کہ جادو کا توڑ کرنے والوں کا کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے بلکہ اب تو مختلف چینلز پہ بھی اسکے اثرات دور کرنے کے طریقے بتاءے جاتے ہیں۔
لیکن جب اخبار کے ایڈِٹوریل صفحے پہ ایسے مضامین ملیں جیسا کہ ابھی دو ہفتے پہلے کے ایکسپریس اخبار میں ایک ایڈوکیٹ اعوان صاحب کا مضمون تھا تو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔  شاید وہ عاملوں وغیرہ کی برائ میں لکھنا چاہ رہے تھے لیکن اس سے پہلے انہوں نے، انہی پرانے فرسودہ خیالات کی تصدیق میں لکھا جو کہ جنات کے لئے رائج ہیں۔ یعنی جنات ہوتے ہیں وہ گھوڑے کی لید، گوبر یا ہڈی وغیرہ کھاتے ہیں۔ وہ مسلمان بھی ہوتے ہیں تو ہندو بھی۔ انکا بھی یوم حساب ہوگا ، مسلمان جن چھتوں پہ رہتے ہیں اور غیر مسلم جنات سنسان مقامات پہ۔ ان سب حقائق پہ آمنا و صدقنا کہنے کے بعد انہوں نے جب عاملوں اور تعویذ کرنے والوں کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو یہ بات ایک دم مذاق لگی۔
جب ایک شخص جادو اور جنات پہ یقین رکھتا ہے تو اسی کے بعد اس پہ یہ نوبت بھی آتی ہے کہ وہ ان عاملوں سے جو جنات پہ قابو پا لینے کا ہنر جانتے ہیں اور جادو کا توڑ کرتے ہیں، ان کی خدمات کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
رسول اللہ نے جادو کا توڑ بتایا اور وہ ہے معوذتین سورتیں۔ ایک آسان  اور سادہ سا حل۔ یہ ذہن میں رکھنا چاہئیے کہ ڈیڑھ ہزار سال پہلے جب یہ جادو کا مرض بالکل عام تھا۔ معاشرے کو اس وباء سے نکالنے کے لئے یہ حل نفسیاتی لحاظ سے چنا گیا ہوگا۔ لیکن جیسا کہ ہم عملی سطح پہ دیکھتے ہیں کہ جو دماغ جادو کو بر حق جانتا ہے اسکی تسلی اس باب میں محض ان سورتوں سے نہیں ہوتی۔  وہ کسی پہنچے ہوئے عامل کی تلاش میں رہتا ہے۔ جادو جیسی اسرارکے رس  سے بھری چیز کی  کسی غیر اسراری عمل سے کیسے تسلی ہو سکتی ہے۔ حالانکہ یہ اسرار بھی کم نہیں کہ کیسے چند الفاظ کے بولنےسے جادو ٹوٹ جاتا ہے لیکن جب تک الو کا خون، بکرے کے شانے کی ہڈی، قبر کی مٹی، آدھی رات کا سناٹا، سیہ کا کانٹا، کالے رنگ کا کپڑا اور اس قماش کی دیگر اشیاء شامل نہ ہوں سچ پوچھیں تو اسرار کا اصرار بڑھے جاتا ہے۔
جادو کی کہانی بہت پرانی ہے۔  جب انسان نے پہلے پہل اپنے ماحول میں دلچسپی لینا شروع کیا۔ اس نے بولنا سیکھا، اس نے اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانا سیکھا تو اس نے اپنے طور پہ یہ فرض کیا کہ اسکے اردگرد کے ماحول کو غیر مرئ طاقتیں کنٹرول کرتی ہیں۔ کیونکہ اسے کوئ بارش برساتا نظر نہیں آتا۔ اسے معلوم نہیں ہوا کہ زلزلے کیسے آتے ہیں۔ وہ نہیں جانتا کہ کیسے شکار کی فراوانی ہوتی ہے اور کیسے قحط آجاتے ہے۔ 
چونکہ وہ سوچ سکتا تھا  اس لئے اس نے جانا کہ ان طاقتوں کی توجہ کا مرکز وہ خود یعنی انسان ہے۔  اس نے یہ بھی فرض کیا کہ اسکے مصائب اور اسکی خوشیاں سب انہی کے مرہون منت ہیں وہ بارش بھی لاتے ہیں اور طوفان بھی۔ اس نے یہ بھی فرض کیا کہ جب یہ طاقتیں اس سے خوش ہوتی ہیں توکھانے کو اچھا ملتا ہے، زندگی سہولتوں سے بھرپور رہتی ہے، شکار ملتا ہے ، بہتر پناہ ملتی ہے   اور جب ناراض ہوتی ہیں تو بادل گرجتے ہیں، سیلاب آتے ہیں ، زلزلے آتے ہیں، آندھیاں چلتی ہیں، بیماریاں آتی ہیں، کھانے کو نہیں ملتا۔
یہاں پہنچ کر اس نے یہ بھی فرض کیا کہ اگر وہ چاہے تو ان طاقتوں کو اپنے قابو میں لا سکتا ہے تب وہ اس کے فائدے کے کام کریں گی اور اسکے نقصان میں جانے والے کام نہیں ہونگے۔ ان ماورائ طاقتوں کو قابو میں لانے کی سوچ نے جادو کو جنم دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی سوچ نے دوسری طرف سائینس کو بھی جنم دیا۔  جادو اور سائینس دو جڑواں لیکن متضاد خیالات کے ساتھ وجود میں آئے۔ لیکن سائینس نے اپنی بنیاد دلیل پہ رکھی, کسی ماورائ طاقت سے الگ دلیل جو قدرتی قوانین کو ایک دوسرے سے جوڑے۔ یعنی اگر ہم کسی عمل کے ہونے کے طریقے کو جان لیں تو اس پہ قابو پا سکتے ہیں۔ اگر ہم جان لیں سیلاب اور قحط کیسے آتے ہیں تو ہم ان پہ قابو پا لیں گے۔ اگر ہم جان لیں کہ ہم بیمار کیوں ہوتے ہیں تو بیماری پہ قابو پا لیں گے۔
دلیل کے ساتھ چلنے میں ایک بظاہر نقصان اسرار کے ٹوٹ جانے کا ہوتا ہے۔ اسرار، جو ہم پہ حکومت کرتا ہے اور جب یہ ٹوٹ جاتا ہے تو ہم اس پہ حکومت کرتے ہیں۔ اس مرحلے پہ پہنچ کر کیا آپکو یہ نہیں لگتا کہ ہم میں سے کچھ لوگ اسرار کے غلام بنے رہنے میں لذت پاتے ہیں اور کچھ لوگ اسرار کو محمود غزنوی کی طرح ڈھا دینے میں۔
آئیے ایک ویڈیو دیکھتے ہیں۔ دلیل کے دشمن۔


 

22 comments:

  1. بہت خوب!
    یہ ویڈیو میں نے کچھ عرصہ پہلے دیکھ رکھی ہے۔ مسائل کا کیا خوب احاطہ کیا گیا ہے۔ میں بھی اس پر ایک بلاگی ریویو لکھنے لگا تھا "استدلال کے دشمن" کے نام سے۔ لیکن پھر بلاگنگ سے ہی دل اچاٹ ہوگیا۔
    ڈاکومینٹری کا ایک دلچسپ حصہ وینڈی رائٹ سے کیا گیا انٹرویو ہے۔ یہاں تو مختصر حصہ دکھایا گیا ہے۔ جبکہ پچاس منٹ کا پورا انٹرویو بھی آپ کو یو ٹیوب پر مل جائے گا۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. ویسے آپ نے ریزن کا ترجمہ بالکل صحیح کیا، استدلال۔ دل کو چاٹ بھی کھلایا کریں، ہمیشہ صحت مند غذا پہ رکھنا درست نہیں۔

      Delete
  2. بی بی بہت اچھا لکھا ہے یہ کتاب دیکھیں جادو مذہب سب سمجھ میں آجا ئے گا شکر ہے اس میں آپ نے خوبصورت عامر لیاقت کا ذکر خیر نہیں کیا ہے۔ Sir James George Frazer/ The Golden Bough

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ نے تو اس کمی کو پورا کر دیا۔
      :)
      آپکی مجوزہ کتاب کا تعارف دیکھا۔ شکریہ آپ کا۔ اسکی پی ڈی ایف فائل بھی مل گئ۔
      http://apps.thelemistas.org/PDF/Frazer_J_G-Golden_Bough.pdf

      Delete
  3. بی بی، قرآن میں ذکر ہونے والے "ہاروت و ماروت" کے قصئے میں بھی تو جادو کا تذکرہ ہوا ہے، ذرا اس پر بھی تو روشنی ڈالیں، تاکہ جادو کے برحق ہونے والی بات کی مزید واضح ہوسکے !

    ReplyDelete
  4. اس سلسلے میں بہتر روشنی تو آپ ہی کے پاس ہوگی۔ چونکہ میں اس پہ یقین نہیں رکھتی اس لئے میری روشنی اس سے خاصی مختلف ہو گی۔
    جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے یہ دو فرشتے تھے جو انسانوں کو جادو سکھانے کے لئے اتارے گئے تھے۔ یعنی اللہ کے اذن سے جادو انہیں سکھانا تھا۔ یہاں جادو سے بالکل صحیح مطلب کیا ہے یہ کوئ نہیں جانتا، کیونکہ اگر آجکی ٹارچ کو اس زمانے میں پہنچا دیا جائے تو یہ بھی اس عہد کے لئے جادو ہوگا حتی کہ ڈسپرین کی گولی بھی اس زمانے کے لئے جادو ہوگی۔
    اسی طرح خدائ علم کو جادو کہنا بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ ایک علم تھا جو کہ ان فرشتوں کے ذریعے انسانوں کو پہنچایا گیا۔
    ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ انسانوں نے فرشتوں سے وہ علم حاصل کرنے کے بعد کام کیا کیا۔ اور کیا اللہ نے اس علم کو اس زمانے کے لئے محدود کیا تھا یا اب بھی وہ موجود ہے کیونکہ حضرت موسی کا عصا تو انکے ساتھ ختم ہو گیا تھا۔ حضرت سلمان کا جانوروں کی بولی سمجھنے کا علم انکے ساتھ ختم ہوا اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ سائینداں آج کے زمانے میں جانوروں کے رویوں کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مختلف جانوروں کی بولی سمجھ رہے ہیں مثلا ڈولفنز ، وہیلز اور ہاتھی۔ لیکن یہ اللہ کی دی ہوئ کرامت نہیں بلکہ اسکی دی ہوئ عقل استعمال کرنے کا نتیجہ ہے۔
    دوسری اہم بات جو میں سمجھتی ہوں کہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئیے اور وہ یہ کہ ایک طرف تو قرآن کو ہر زمانے کے لئے آخری کتاب قرار دیا گیا ہے دوسری طرف اسکی زبان کو اسکے بیان کو ایک خاص زمانے تک محدود کر دیا گیا ہے۔ مثلاً قرآن میں موبائل فون تو دور فون کا لفظ نہیں ہے۔ بجلی کا تصور نہیں ہے۔ مقناطیسی لہروں کا تذکرہ نہیں ہے غرض کہ جدید ٹیکنالوجی میں جو بنیادی نظریات استعمال کئے جاتے ہیں وہ اس میں نہیں ہیں۔ اس میں جو مثالیں دی گئ ہیں وہ بھی مشرق وسطی کی ثقافت سے تعلق رکھتی ہیں اور اس میں باقی دنیا کی نمائندگی نہیں ہے۔
    اس زمانے میںجو خیالات رائج تھے اسی زبان میں بات کی گئ ہے اور اسی حساب سے۔ جادو کے لفظ کی تفسیر کچھ اور کرنی ہوگی جدید زمانے میں۔

    ReplyDelete
  5. Haroot Maroot were not angels. Malak (arabic) can also be used for pious people. These were attributive names of two Jewsih prophets who lived among the enslaved Jews in Babylon (Babul). They were instructed by God to save their people through making alliances with the Median King. This was done in secret (hence the use of word Sehr). As a result, Cyrus attacked the city and liberated them and restored the kingdom of Jerusalem. Nothing mysterious about it.

    And yes, it's from this time that the practice of "secret societies" originated and continues to this day.

    ReplyDelete
  6. It is also notable that the word "Jinn" means something hidden. The greek equivalent of this concept is "occult", which also means something hidden. Greek philosophers used it for anything which could not be seen or understood.

    Magic for once generation is science for the next.

    ReplyDelete
  7. میں نے یہ نہیں پوچھا تھا کہ آپ کو جادو کے برحق ہونے کا یقین ہے کہ نہیں، اور نا ہی یہ پوچھا تھا کہ قرآن سے آپ کو کیا کیا شکایات ہیں اور اس کتاب کی تعلیمات پر آپ کو کیا کیا اعتراضات ہیں۔

    میں نے تو آپ کو مسلمان جانتے ہوئے مسلمانوں کی واحد آسمانی کتاب ، کہ جس پر سب کا اتفاق بھی ہے اور جسکا ماننا ایمان کا حصہ سمجھا جاتا ہے، یعنی قرآن میں ذکر ہونے والے ایک واقعے پر آپ کی حالیہ تحریر کی روشنی میں مزید روشنی ڈالنے کی درخواست کی تھی تاکہ اس بات کا درست فیصلہ ہوسکے کہ آیا قرآنی تعلیمات کے مطابق جادو برحق ہے کہ نہیں ؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. تو آپکو یہ نہیں معلوم ہوا کہ میں نہیں سمجھتی کہ قرآن اس جادو کو بر حق سمجھتا ہے جسے عوام الناس جادو کہتی ہے۔ اب اور کس طرح کہوں۔
      لیجئیے یہ کھوکھر صاحب بھی کچھ ارشاد فرما رہے ہیں۔ اس بارے میں آپکا کیا خیال ہے؟

      Delete
    2. عنیقہ جی، میں نے اسی جادو کا پوچھا تھا جس کے برحق ہونے کا قرآن نے بتایا ہے، کھوکھر صاحب کی بات میرے نزدیک اہم نہیں ہے کیونکہ اول تو وہ اس بلاگ کے لکھاری نہیں ہیں دوئم انھوں نے بلا کسی دلیل کے بات کی ہے، اور ایسی باتوں کی اہمیت کا آپ کو خوب اندازہ ہوگا۔

      اور یہ دعویٰ کہ موجودہ ترقی یافتہ اقوام کے علوم گذشتہ غیر ترقی یافتہ اقوام کے لیئے جادو کی حیثیت رکھتے ہیں، میرے نزدیک باطل ہے، کیونکہ آج تک ہمارے سانئسدان حضرات اہرام مصر کی تعمیر ، ملکہ صبا کے تخت کو کوسوں دور سے پلک جھپکنے سے بھی پہلے مادی حالت میں لے آنے ، نوح کی کشتی، اور ذولقرنین کی تعمیر کردہ دیوار جیسے واقعات کی کوئی درست توجیہ پیش نہیں کرسکے ہیں۔ ہمارے پاس ان باتوں کو جادو سمجھنے یا پھر انکار کرنے کے سواء کوئی اور دوسرا چارا نہیں ہے!


      ویسے جب قرآن و جادو کی بات چل رہی ہے تو پھر معراج اور شق القمر جیسے واقعات پر بھی روشنی ڈالی جائی تو اچھا ہوگا۔

      Delete
  8. عبد الرءوف صاحب آپ سائینس کو کسی مذہبی کتاب کی طرح ختم سمجھتے ہیں اس لئے ایک دفعہ ایک سائینسی بیان پڑھنے کے بعد نہیں پڑھتے کہ اب سائینس کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔
    اول یہ کہ اہرام مصر کی تعمیر کے بارے میں کافی سے زیادہ اندازے لگائے جا چکے ہیں۔ لنک دیکھئیے گا۔
    http://www.sciencedaily.com/releases/2008/03/080328104302.htm
    درحقیقت باقی تمام چیزیں ابھی تک سائینس کی نظر میں قصے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ یہاں یونانی اسطیری کہانیوں میں کیا کچھ نہیں بیان کیا گیا۔ مگر سائینس انہیں بھِ ایک قصے کی نظر سے دیکھتی ہے۔
    ویسے معراج اور شق القمر کیا تعریف کے لحاظ سے جادو میں آتے ہیں؟ یہ میرے لئے بالکل نئ بات ہے۔
    اور شق القمر کا واقعہ خود اسلامی علماء کے لئے بھِ مشکوک ہے۔ اس بارے میں آپکا کیا خیال ہے؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. ہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ صاحب بلاگ محض ایک موضوع کو زیر بحث لانا چاہتا ہے۔ تاکہ اس پہ مبصرین نہ صرف اپنی رائے دیں بلکہ مختلف رائے جو مختلف معلومات لاتی ہیں ان پہ بھی بات ہو۔ اس لئے میرا نہیں خیال کہ کھوکھر صاحب کی بات قابل غور نہیں ہے۔

      Delete
    2. غور طلب اور اہم نقطہ یہ ہے کہ : اہرام مصر کی تعمیر کے بارے میں کافی سے زیادہ اندازے ؛ یعنی ابھی تک کوئی حتمی بات نہیں کرسکیں ہیں وہ بچارے جوکہ مریخ تصاویر سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ! یہ میرا ان سے نہایت معصومانہ سا مطالبہ ہے کہ ایسا کریں کہ ایک اہرام آپ بھی بنا ڈالیں ، بنا کسی مشینری کے استعمال کے ! پھر ہم جانیں کہ آپ کو بھی کچھ علم ہے !

      دوسرا نقطہ : درحقیقت باقی تمام چیزیں ابھی تک سائینس کی نظر میں قصے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں، میرے اس جملے سے مختلف نہیں کہ ہمارے پاس ان باتوں کو (موجودہ سایئنس کی روشنی میں) جادو سمجھنے یا پھر انکار کرنے کے سواء کوئی اور دوسرا چارا نہیں ہے،

      معراج اور شق القمر کو میں نے جادو نہیں کہا ہے، بلکہ آپ کی چہیتی سایئنس کے سمجھ سے باہر ہیں یہ باتیں اسی لیئے جو مانے اسکے لیئے جادو اور جو نا مانے اسکے لیئے قصے کہانیاں !

      شق القمر کے واقعے کی تحقیق کرلیں ، تاریخ زیداہ پرانی نہیں ہوئی ہے ابھی، شائد کچھ حوالے مل ہی جایئں، میں تو اسکو سچا واقعہ مانتا ہوں، باقی آپ کی مرضی۔

      وسلام

      Delete
    3. ایک بچہ ابھی بولنا سیکھ رہا ہوتا ہے کہ آپ اس سے کہتے ہیں بیٹا قسطنطنیہ بول کر دکھاءو۔ وہ اپنے ٹوٹے پھوٹے لہجے میں کچھ بولتا ہے اور آپکو بڑی ہنسی آتی ہے۔ بوہی بچہ چند سال بعد آپکو بولنے کا موقع تک نہیں دیتا اور آپ خفا ہوتے ہیں کہ تمہیں اتنی تمیز نہیں کہ بڑوں کے سامنے زبان نہیں چلاتے۔ کچھ یہ نقشہ میری آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔ عملی سائینس کی عمر کچھ پانچ تین سو سال سے زیادہ پرانی نہیں۔ اور آپ چاہتے ہیں کہ وہ کائینات کی تمام پہیلیاں حل کر کے آپکے سامنے پیش کر دے۔
      ماضی میں جتنی باتیں ہوئ ہیں انکے متعلق اندازے ہی لگائے جاتے ہیں۔ حتی کہ اگر آپ آج اسلام کی تاریخ پڑھنے بیٹھیں تو اندازے ہی نظر آئیں گے جنکی بنیاد پہ مختلف قوانین اور سیرت ترتیب دی گئ ہے۔ اسکے بارے میں آپکا کیا خیال ہے؟
      چونکہ موجدہ سائینس جادو پہ یقین نہیں رکھتی اس لئے یہ جادو نہیں ہیں ۔ ان میں سے کسی بھی واقعے کے بارے میں عملی طور پہ ہمارے پاس کوئ ثبوت نہیں۔ نہ ہمارے پاس ملکہ صبا کا تخت ہے نہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ ذولاقرنین کی وہ دیوار کہاں ہے۔ حتی کہ جس نوح کی کشتی کو لوگ چھانتے رہتے ہیں اسکے متعلق بھی صرف ایک اندازہ ہے کہ یہ اس علاقے میں کہیں ہوگی۔ حتمی طور پہ تو یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ واقعہ پیش کہاں آیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت نوح سے جو واقعہ منسوب ہے وہ دنیا کی مختلف تہذیبوں میں مختلف اشخاص کے ساتھ منسوب ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ سنڈریلا کی کہانی ساری دنیا میں مختلف رد و بدل کے ساتھ ملتی ہے اب آپ کہہ دیں کہ نہیں میں تو یقین رکھتا ہوں کہ سنڈریلا کسی زمانے میں موجود تھی یا یہ کہ میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر انسان کی ایک گاڈ فیری ہوتی ہے۔
      میری سائینس نے کس جگہ ان واقعات کو جادو کہاں ہے اس کا حوالہ دے سکتے ہیں آپ۔ میری نظر سے تو ایسا کوئ سائینس کا حکم نہیں گذرا۔
      شق القمر کے واقعے کے بارے میں آپ تحقیق کریں۔ میں تو بتا چکی کہ ایک نہیں کئ مسلم عالم اسے حقیقت کے خلاف سمجھتے ہیں اور انکا کہنا ہے کہ اس سے متعلق موجود حدیث صحیح نہیں ہے۔ آپ حدیث کے علاوہ مجھے اس واقعے کا کوئ سائینسی ثبوت دے سکتے ہیں؟
      دلچسپ بات یہ ہے واقہ ء معراج پہ بھی مسلم علماء کی بحث موجود ہے جس کے تحت کچھ اسے حالت نیند کا واقعہ کہتے ہیں اور کچھ اسے بیداری کی حالت کا واقعہ کہتے ہیں۔
      لیکن اس وقت میں جادو تک محدود رہنا چاہونگی۔ آپ مجھے وہ حوالہ لا دیں جس میں سائینس نے اس قسم کے واقعات کو جادو کہا ہو۔

      Delete
    4. لگتا ہے کہ آپ نے میرے اس جملے :
      "
      معراج اور شق القمر کو میں نے جادو نہیں کہا ہے، بلکہ آپ کی چہیتی سایئنس کے سمجھ سے باہر ہیں یہ باتیں اسی لیئے جو مانے اسکے لیئے جادو اور جو نا مانے اسکے لیئے قصے کہانیاں !"

      سے غلط نتیجہ اخذ کرلیا ہے ، کہ شائد میں اس بات کا قائل ہوں کہ "سایئنس" کے مطابق یہ واقعات "جادو" کا درجہ رکھتے ہیں۔ میرے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جو بات سایئنس کی سمجھ سے باہر ہوتی ہے اسکا وہ تو انکار کردیتی ہے، جیسے کہ "خدا" کا وجود، بھی انکے لیئے کسی قصے کہانی سے ذیادہ نہیں ہے۔

      مگر اہل سایئنس کے علاوہ جو بھی ان واقعات کے وقوع پذیر ہونے پر یقین رکھتے ہیں ، انکو یہ سب مافوق الفطرت اور جادوئی باتیں ہی لگتی ہیں۔

      Delete
    5. اگر سائینس خدا کے اتنے خلاف ہوتی تو گاڈ پارٹیکلز نہ ڈھونڈھ نکالتی۔
      :)
      اہل سائینس کے علاوہ جو لوگ ان پہ یقین رکھتے ہیں وہ انہیں جادو سمجھتے ہیں یعنی آپ واقعہ معراج، شق القمر کو بھی جادو سمجھتے ہیں اور ملکہ صبا کے تخت، ذوالقرنین کی دیوار کو بھی جادو سمجھتے ہیں۔ آپکا دیوار چین اور ہوائ جہاز کے بارے میں کیا خیال ہے؟

      Delete
    6. محترمہ اپنی جیت کے لیئے آپ بھی کہاں کی بات کہاں جوڑ دیتی ہیں، گاڈ پارٹیکلز یعنی خدائی ذرات کی بھی خوب کہی ، بی بی آپ کی اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ اہل سایئنس اپنی ان تحقیقات کے ذریعے خدا کے وجود کے انکار کے حق میں دلائل تلاش رہے ہیں ناکہ خدا کو !

      عام انسان کے لیئے اولیاء اللہ کی کرامات اور انبیاء کے معجزات اور دیگر تمام مافوق الفطرت اعمال کسی جادو سے کم نہیں ہوتے ہیں، مگر اہل ایمان کے اسکو مشیت ایزدی کہتے ہیں جادو نہیں، اسی لیئے تو اشرف علی تھانوی نے بہشتی زیور میں لکھا ہے کہ جو شخص شریعت کا پابند نا ہو ، پھر چاہے ہوا میں اڑ کر دکھائے یا پانی پر چل کر ، وہ جادوگر تو ہو سکتا ہے مگر ولی اللہ نہیں ہوسکتا ہے۔

      رہی دیوار چین اور ہوائی جہاز سمیت دیگر تمام ایجادات کی بات تو اسکا جواب وہی ہے جوکہ اہرام مصر یا پھر نوح کی کشتی کے سلسلے میں دیا جاسکتا ہے ! یعنی ہمت (زن و) مرداں تو مدد خدا !

      خیر میرے خیال سے ہم موضوع سے کافی دور ہٹ چکے ہیں لہذا مباحثہ کو ادھر ہی ختم کرتے ہیں۔

      وسلام

      Delete
    7. مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ چونکہ انبیاء جادوگر نہیں ہوتے اس لئے انکا یہ عمل جادو نہیں ہوتا۔ اور اگر عام انسان ایسا سمجھتا ہے تو غلط سمجھتا ہے۔ عام انسان کا دین درست رکھنے کے لئے انہیں صحیح علم دینا ضروری ہے۔
      یہاں یہ جان لینا چاہئِے کہ جس طرح نبی کی سنت ہوتی ہے اسی طرح اللہ کی بھی سنت ہوتی ہے۔ جنسے سائینس کی زبان میں قوانین قدرت کہتے ہیں۔ اللہ اپنے کام انہی قوانین کے زریعے عمل میں لاتا ہے۔
      آج کے جہاز کو ہزار سال پہلے کے زمانے میں لے جائیں تو یہ ایک جادو ہی کہلائے گا۔ جبکہ اس وقت کے اہرام مصر آج جادو نہیں کہلاتے۔ کوئ ایک شخص تو مجھے دکھا دیں جو اہرام مصر کو جادو کہتا ہو۔ تمام تور تحقیق جو اس باب میں ہوئ وہ یہ ہوئ کہ ایک ایسے علاقے میں جہاں یہ پتھر دستیاب نہیں، پتھر کو گھسنے کی کوئ آسان ٹیکنالوجی موجود نہیں تو پھر اتنے حساب کتاب سے کیسے یہ درست عمارت بنا لی گئ۔
      اس تحقیق کے نتیجے میں اب ایک سے زیادہ امکانات ہیں کہ اس طرح اہرام مصر تعمیر ہوئے ہونگے۔
      یہ کبھِ نہیں کہا گیا کہ اہرام مصر جادو گری کا کمال ہیں۔

      Delete
    8. اسی طرح نوح کی کشتی کوئ جادو گری کا کمال نہیں، آج کا انسان اسے تلاش کر رہا ہے تاکہ جان سکے کہ کیا یہ واقعہ کسی بھی سطح پہ فی الحقیقت پیش بھی آیا یا بس افسانہ ہی ہے۔

      Delete
  9. There are so many myths prevalent among muslims which have no basis in Quran or authentic ahadith. For example, the event of Mi'raj is considered a physical experience, but there is a difference of opinion on this matter. Quran states that what Holy Prophet (saw) witnessed on that night was through his "heart", not with his physical eyes.

    Shaq-e-Qamar is something which can be understood in two manners. a. The meteor shower on the surface of moon, witnessed as far as England and India by the contemporaries of Holy Prophet (saw). b. Qamar, the sign of the Arab nations was cleaved into two by the rising power of Islam. So it was a prophecy which was fulfilled very soon.

    Saba's throne was not lifted by a supernatural being. Solomon's armies did not have demons and mythical birds recruited and Jinns did not build his forts and castles. These are all misunderstood verses of Quran which were intrepreted in light of the Judeo-Christian mythology prevalent in the conquered lands. Jinn in this context, should be translated as uncivilized tribes who were subjugated by David and Solomon. Quran for example says that Shyateen used to dive for pearls. We know that pearl divers are highly skilled swimmers. Shyateen is also translated as "the rebellious ones". I dont know of a reaon why we cannot adopt a reasonable translation for such verses, especially when Ahadith do not contradict this approach.

    Dhul Qarnain's wall was constructed by human beings and Quran has gone into some details on the actual construction. Ramnants of numerous walls are present in central Asia where Cyrus the great, (Dhul Qarnain) build such a wall to keep the Japhethites (Gog and Magog) out of his territories.

    The only 'magic' in Noah's arc was, that it saved him and his family with a few animals (not all species of animals) while God caused a flood on his people (in middle east, not the whole world).

    Wassalam,

    ReplyDelete
  10. جادو کے برحق ھونے میں اور جادو کی موجودگی ثابت ھونے میں کچھ فرق کیجے۔ بر حق یعنی جو ٹھیک ھو۔ یا کچھ غلطی ھوئ؟

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ