Friday, August 3, 2012

سائینس کا بحران

پاکستان میں کوئ سیاسی یا معاشرتی انقلاب آئے یا نہ آئے، سائینسی انقلاب دستک دے چکا ہے۔  ایک کے بعد ایک نوجوان سائینسداں اور انکی ایجادیں ایسے سامنے آرہی ہیں جیسے  بغیر دانت والے منہ سے پان کی پیک نکلتی ہے۔ ایک ایجاد  ابھی ابھی سامنے آئ ہے۔ ملاحظہ کریں۔ 
   اس حیرت ناک ایجاد کے ساتھ ہی ایک اور نوجوان سائینسدان کے خیالات سننے کو ملے۔ جسے ہمارے ایک فیس بک کے ساتھی  نے شیئر کیا۔ جس سے ہم بیک وقت رنجیدہ بھی ہوتے ہیں اور تفریح بھی لیتے ہیں۔ اگر مذہب میں عامر لیاقت ایک نئ علامت ہیں تو سائینس میں بھی عامر لیاقتوں کی کمی نہیں ہے۔  دل کو ایک اندیشہ سا لگا ہوا ہے کہ ہو نا ہو یہ وینا ملک کو استغفار سے روکنے کا نتیجہ ہے کہ سائینس کا دجال ہمارے یہاں نازل ہو گیا۔ آئیے یہ ویڈیوز باری باری دیکھتے ہیں۔
پہلی ویڈیو میں ہمارے بوٹنسٹ بارش لانے کا ایک نسخہ بتا رہے ہیں اور اینکر خاتون اس بات کی تصدیق کر رہی ہیں کہ بادل آجانے کے بعد اگر خواتین گھروں میں جھاڑو پھیریں تو بارش برس کر رہتی ہے۔ تو سنئیے کہ بارش کس طرح جھاڑو دینے سےلائ جا سکتی ہے۔


ہمارے نوجوان بوٹنسٹ یہیں پہ بس نہیں کرتے بلکہ اپنے تفکر پہ نیوٹن کے کشش ثقل کے قانون کو بھی نشانہ بنا ڈالتے ہیں۔ ہیں جناب، یہ بھی کوئ سمجھ میں آنے والی بات ہوئ کہ  ایک ہزار کلو گرام کا جسم اور ایک کلوگرام کا جسم ایک ہی رفتار سے زمین پہ گرے۔ نیوٹن کے اس قانون کو اب تک کیسے لوگ صحیح تسلیم کرتے آرہے ہیں؟ آئینسٹائین نے ایسوں کے لئےکہا تھا کہ
“A clever person solves a problem. A wise person avoids it.”
ایک چالاک شخص ایک مسئلے کو حل کرتا ہے لیکن عقل مند اس سے دور رہنا پسند کرتا ہے۔



جس طرح سلاد کی سیزننگ چاہئیے ہوتی ہے اس طرح ہمارے یہاں اب کوئ بھی چیز مذہب کی سیزننگ کے بغیر نہیں ہو سکتی اسکا نمونہ ہمارے یہی بوٹنسٹ پیش کرتے ہیں اور اپنے خیالات میں برکت کے لئے آخیر میں ایک مذہبی تائثر بھی جمع کرتے ہیں۔


 
اہم سوال یہ ہے کہ اب اس وقت جبکہ بجلی کا بحران اپنے عروج پہ ہے۔ پاکستانیوں کی توجہ سائینس کی طرف کیوں مبذول ہو گئ ہے؟ سائینس کا بحران پیدا کیا گیا ہے یا یہ مکافات عمل ہے ؟ سائینس نے انتقام لیا ہے؟
یا کیا انہوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ سائینس ہی انکے مسائل کو حل کر سکتی ہے۔ شاید وہ آئیسٹائین کے ایک اور مقولے پہ عمل کرنا چاہتے ہیں جس میں اس نے کہا کہ اگر آپ اپنے بچوں کو ذہین بنانا چاہتے ہیں تو انہیں پریوں کی کہانیاں سنائیں اور اگر اور زیادہ بنانا چاہتے ہیں تو اور زیادہ کہانیاں سنائیں۔
“If you want your children to be intelligent, read them fairy tales. If you want them to be more intelligent, read them more fairy tales.
اور سائینس انکے لئے پریوں کی کہانیوں سے کم نہیں۔ ایک تضادات سے بھرپور تعلیمی نظام رکھنے کے بعد تو سائینس پریوں ہی کی کہانی لگتی ہے۔ جس میں پری ہاتھ میں جادو کی چھڑی لئے ہوتی اور خبیث جادوگرنی جھاڑو پہ گھومتی پھرتی ہے۔ یہ جھاڑو آج نجانے کیوں بار بار ذکر میں داخل ہو رہی ہے۔ شاید جھاڑو واقعی بارش کا شگن ہو۔ یہاں تو سائینسداں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو شاید قحط سالی کا سامنا کرنا پڑے۔
کچھ لوگوں کے خیال میں عوامی سطح پہ اس قدر زیادہ محرومی کا احساس بڑھ چکا ہے کہ لوگ ہر اس تماشہ دکھانے والے کے گرد جمع ہو جاتے ہیں جس سے انہیں ذرا بھی توقع ہوتی ہے کہ وہ انکا مسیحا بن سکتا ہے۔ یہ بھی ایک عبرت کا مقام ہے کہ ہم ہر تماشہ دکھانے والے کو پذیرائ دینے کو تیار ہیں۔ یعنی
تیرے انتظار میں کس کس سے پیار میں نے کیا
پانی سے چلنے والی کار کے قصے میں آغا وقار ہی کا نام نہیں آتا بلکہ عبدالقدیر خان صاحب بھی میڈیا میں کچھ زیادہ مثبت انداز سے سامنے نہیں آ سکے۔ ایک متوقع مسیحا نے دوسرے تسلیم شدہ مسیحا کو ٹھکانے لگانے کا بند و بست کر ڈالا۔
 عبد القدیر خان صاحب کا نام اگر چہ کہ سدرۃ المنتہی کا درجہ رکھتا ہے جس سے آگے جانے کی جراءت پرویز مشرف نے ہی کی۔ لیکن اب ان کا سحر بھی ٹوٹتا دکھائ دیتا ہے۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تھا۔ اس وقت خان صاحب کا نام پیچھے ڈال کر ڈاکٹر ثمر مبارک کا نام اخبارات کی زینت بن گیا تھا۔ نواز شریف نے ڈاکٹر ثمر مبارک کو مبارک باد دی۔ نوے کی دہائ میں جب ایسا ہوا تو کراچی کے عوام کی اکثریت نے اسے نواز شریف کی کراچی سے تعلق رکھنے والے اس سائینسدان سے لسانی عصبیت کو وجہ جانا۔
اس وقت کچھ دوستوں نے دبے لفظوں میں کہا کہ دراصل خان صاحب اتنے نیک نہیں جتنے جانے جاتے ہیں اور نہ ہی اتنے بڑے سائینسداں۔ جو لوگ انکے قریب رہتے ہیں وہ انکی شخصی سطحیت کے واقعات سناتے ہیں۔ لیکن اسے انکے خلاف بنی جانے والی سازشوں کا جال سمجھا گیا۔
پھر اسکے کافی عرصے بعد مجھے ایک بلاگ کا لنک ملا۔ جس میں اے کیو خان پہ خاصہ عجیب الزام لگایا گیا تھا۔ سالوں پہلے بھیجے گئے اس لنک کو مجھے تلاش کرنا پڑا۔ اس وقت تو میں نے اسے ہونہہ کہہ کر ایک طرف ڈال دیا تھا۔ یہ ہے اسکا لنک۔ ان لوگوں کے لئے جن کے لئے ڈاکٹر عبد القدیر خان ایک انسپیریشن کی حیثیئت رکھتے ہیں۔ ان سے بے حد معذرت۔
 خیر آئیسٹائین ایک اور مزے کی بات کہتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دنیا جیسی ہم بناتے ہیں ہمارے تخیل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اسے اپنے خیالات کو تبدیل کئے بغیر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔  
The world as we have created it is a process of our thinking. It cannot be changed without changing our thinking.”
میں سوچ رہی تھی کہ اگر ہم یہ سوچ لیں کہ ہمیں تبدیل ہونا ہے، ہمیں اپنی دنیا تبدیل کرنی ہے تو ہم تبدیلی کا آغاز کس نکتے سے کریں گے؟

12 comments:

  1. ہاہاہا۔ یہ تو بہت ہی بڑا نکلا :)
    میرا خیال ہے کہ پاکستان میں سائنسی نظریہ اور سازشی نظریہ میں تفریق ختم ہوگئی ہے اور لوگوں کا خیال ہے کہ جو من میں آئے اسے سائنسہ نظریہ بنا کر پیش کردو اور جہاں تک بات حساب کتاب اور ریاضی کی ہے تو تکون دجال کا نشان۔

    ReplyDelete
  2. صورتحال اس قدر مضحکہ خیز ہے کہ اس کے سامنے میری حس مزاح جواب دے گئی ہے۔

    ReplyDelete
  3. مولانا قسطنطنوی والی تصویر آپ کو کہاں سے ملی؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرت کے اپنے موٹر سائیکل سجانے پر کسی منچلے نے پھبتی کسی ہے۔

    ReplyDelete
  4. ہم ایک اچھا اور بہترین پروگرام لکھ کر دنیا میں ممتاز ہونا چاہتے ہیں۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں تو پروگرامنگ کی الف ب بھی ٹھیک سے نہیں آتی! اس لیے ہم یوں ہی کی بورڈ پر بے ترتیب انگلیاں برساتے رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہم کچھ عمدا کرنے میں کامیاب ہو جایں گے۔ ہمیں جوش کی بجائے ہوش کے کام لینا چاہیے اور ایک دم ایجادات کی کوشش کرنے کی بجائے وہ سب کچھ سیھکنا ہو گا جو ترقی یافتہ قومیں سیکھ کر ہم سے آگے نکل گئیں

    ReplyDelete
    Replies
    1. کوشش جاری رکھئیے۔۔۔۔۔وہ کہتے ہیں نا کہ ارتقاء اسی طرح ہوا تھا۔ شاید ایک دن آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا کوئی سافٹ وئیر تخلیق ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

      Delete
  5. چلتی کا نام گاڑی ہے اور گاڑی چل رہی ہے۔ آپ لوگوں کے سائنسی واویلے سے یہ چلتی گاڑی نہیں رکنے کی۔ آہو۔

    ReplyDelete
  6. حیراں ہوں دل کو رووءں کہ پیٹوں جگر کو میں

    ReplyDelete
  7. مجھے تو اسلامی سائنسدان کی ایجاد نہیں بھلے جا رہی

    ReplyDelete
  8. یہ جھاڑو آج نجانے کیوں بار بار "ذکر" میں داخل ہو رہی ہے۔ ,,,ہاہاہاہا

    ReplyDelete
  9. بی بی پاکیزہ صفت عامر لیاقت اور وینا ملک کے درمیان فرق نہ رکھ کر آپ مسلسل اخلاقی گنہگار ہورہی ہو ۔ ۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ