Wednesday, October 17, 2012

لٹل ریڈ رائڈنگ ہڈ گرل

فرض کریں کہ انصار عباسی صاحب دفتر سے اپنے گھر واپس جا رہے ہیں کہ راستے میں رک کر ایک ٹھیلے والے سے پھل لے کر اپنی گاڑی کی طرف واپس پلٹتے ہیں لیکن اسی اثناء میں ٹھیلے پہ لگا بم پھٹ جاتا ہے اور انصار عباسی سمیت بیس لوگ لقمہ ء اجل بن جاتے ہیں۔ لوگ افسوس کریں گے کہ انصار عباسی صاحب لا علمی میں کس طرح مارے گئے۔
اب یہی واقعہ ایک اور طرح سے پیش آتا ہے۔ انصار عباسی ساحب جس گروہ پہ تنقید کرتے ہیں اسکی طرف سے انہیں قتل کی دھمکیاں مل چکی ہیں وہ گاڑی میں جا رہے ہیں ۔ ٹھیلے والے کے پاس رک کر پھل خرید ہورہے ہوتے ہیں کہ ایک موٹر سائیکل پاس آ کر رکتی ہے اس پہ سوار افراد ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ انصار عباسی ہیں اور انکو گولی کا نشانہ بنا کر فرار ہوجاتے ہیں اگلے دن انکو دھمکی دینے والی تنظیم اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لیتی ہے۔
کیا ان دو واقعات پہ رد عمل ایک جیسا ہوگا؟
جی نہیں۔ پہلے واقعے میں پاکستان کے سیکیوریٹی کے حالات اور انکی وجوہات ڈسکس ہونگیں۔  دوسرے واقعے کو پاکستانی جرنلزم پہ اندوہناک وار کہا جائے گا۔ اور ہر شخص جو انکا نظریاتی طور پہ کتنا ہی مخالف ہو اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جرنلسٹ کی حیثیئت سے انکا قتل ایک سانحے سے کم نہیں۔ یہ آزاد  صحافت پہ حملہ ہے۔
دھیرج رکھیں، انصار عباسی صاحب ابھی زندہ ہیں۔ خدا انہیں طویل عمر دے۔
بس یہیں سے ملالہ کا ملال شروع ہوتا ہے۔
ملالہ کی کہانی سن کر لٹل ریڈ رائڈنگ ہڈ گرل  کی کہانی یاد آتی ہے جسے اسکی ماں باسکٹ میں کھانے کی اشیاء دے کر بیمار نانی کے پاس جنگل کے اس طرف بھیجتی ہے اور راستے میں اسے ایک بھیڑیا مل جاتا ہے۔
ملالہ ، ملال یہ نہیں ہے کہ تمہیں کس نے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔ نہ ہی یہ ملال ہے  کہ اسلام کا نام لینے والوں نے یہ دعوی کیا کہ انہوں نے تمہیں گولی ماری۔ بہت عرصہ ہوا لوگ مر رہے ہیں اور ہم یہ دعوے سن رہے ہیں۔ نہ ہی یہ ملال ہے کہ انہوں نے یہ کہا کہ چونکہ تم نے شریعت کے خلاف جا کر کام کیا اس لئے تم اس سزا کی حقدار ہو۔ شرعی معاملات کو نافذ کرنے کے لئے اب ہمارے یہاں ٹھیلے پہ سبزی بیچنے والا بھی بے قرار ہے یہ جانے بغیر کہ شریعت کس چڑیا کا نام ہے۔  نہ ہی مجھے اس بات کا ملال ہے کہ طالبان نے کہا کہ کیا ہوا تم بچ گئ وہ دوبارہ تمہیں مارنے کی کوشش کریں گے۔ ہم دیکھ چکے کہ وہ اپنی بات میں کتنے اٹل ہیں۔ 
 میں تمہیں اتنا ہی جانتی ہوں جتنا میڈیا کے ذریعے پتہ چلا۔ یہاں بہت سارے لوگ معاشرے کی تباہ ہوتی اقدار کے بارے میں فکر مند ہیں مجھے تمہارے بارے میں جان کر کیا کرنا۔ وہاں وادی ء سوات میں بے شمار لڑکیاں ہونگیں جو اپنی تعلیم پہ فکر مند ہونگیں۔ جنہیں اپنے ساتھ یہ دوسرے درجے کا سلوک پسند نہیں ہوگا۔ بس یہ کہ تم ان لڑکیوں کے لئے ایک علامت بن گئیں۔ زیادہ تر لوگ تو اس علامت کو درپیش خطرے سے صدمے میں آئے۔ 
 در حقیقت میں تم سے زیادہ تمہارے والدین کی بہادری کی قائل ہوں۔ آخر تمہارے والدین نے تمہیں گیارہ سال کی عمر میں اس قسم کی مضامین لکھنے کی اجازت کیوں دی جس میں تم لڑکیوں کی تعلیم کی بات کرو وہ بھی ایسے علاقے میں، اس عہد میں جب کہ صرف اس فتوی کے آنے کی دیر تھی کہ بحیثیئت عورت پیدا ہونا ایک غیر شرعی عمل ہے۔ آخر انہوں نے تمہیں وہ سبق کیوں نہیں پڑھایا جو ہمارے یہاں اس وقت خواتین کو پڑھایا جانا پسند کیا جاتا ہے؟  
لیکن پھر بھی مجھے ایک ملال سا ہے۔ اور اس کے ذمہ دار وہ لوگ نہیں جنہوں نے تمہیں گولی ماری بلکہ وہ لوگ ہیں جو اس واقعے کے بعد سامنے آتے ہیں۔
لوگوں کا ایک گروہ کہتا ہے کہ طالبان نے یہ نہیں کیا امریکہ نے کیا ہے فوج نے کیا ہے۔ لیکن اس کے اگلے ہی لمحے وہ کہتے ہیں کہ کیا آپکو معلوم ہے کہ ملالہ  کی فیورٹ شخصیت اوبامہ ہے، یا یہ کہ کیا آپ نے ملالہ کے مضامین پڑھے ہیں؟ انہیں پڑھے بغیر آپ ملالہ کو مظلوم کیوں سمجھتی ہیں؟  ڈرون حملوں میں  بچے مارے جاتے ہیں آپ اسکی مذمت نہیں کرتیں تو ہم ملالہ کی مذمت کیوں کریں؟ پاکستان میں ایک نہیں لاکھوں ملالائیں ہیں ہم صرف اسکی مذمت کیوں کریں؟ وہ ہمارے یہاں کی ایک اور مختاران مائ ہے۔  ہم کیوں نہ کہیں کہ عافیہ صدیقی اور جامعہ حفصہ کی لڑکیوں سے اگر آپکو ہمدردی نہیں تو ہمیں بھی ملالہ سے ہمدردی نہیں؟
آخر ملالہ نے ایسا کون سا کام کیا ہے جس پہ اسکی اتنی شہرت ہے؟  ہمارے یہاں تو ایسی لاکھوں ذہین لڑکیاں ہیں۔ عین اسی وقت دوسرا سوال پوچھتے ہیں کہ وہ جو مضامین اس نے لکھے ہیں اس عمر کا بچہ تو لکھ ہی نہیں سکتا۔ اس عمر میں بچے نہ ایسی زبان استعمال کرتے ہیں اور نہ اتنا سوچتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ دراصل اس کے ساتھ جو ہوا اس کے اصل ذمے دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسکی باتوں پہ اس کی حوصلہ افزائ کی۔
یہیں پہ دل ٹھنڈا نہیں ہوتا بلکہ یہ تک کھوج کر نکال لاتے ہیں کہ کیا ہم جانتے ہیں کہ ملالہ کے دیندار دادا نے ملالہ کے سیکولر نظریات رکھنے والے والد کو اسکے کفر کی وجہ سے نوجوانی میں گھر سے باہر نکال دیا تھا۔
ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں، جو کہتے ہیں کہ طالبان تو وجود ہی نہیں رکھتے یہ تو امریکیوں کا پھیلایا ہوا وہم ہے۔  لیکن جب ان سے کہا جاتا ہے کہ پھر آپ طالبان کی مذمت کرنے سے کیوں گھبراتے ہیں تو پھر ایک آئیں بائیں شائیں۔
اس وقت ایک چودہ سالہ لڑکی برطانیہ کے کسی ہسپتال میں ہوش و خرد سے نا آشنا کسی بستر پہ مشینوں کے سہارے پڑی ہے۔ وہ اگر ایک طویل علاج کے بعد زندگی کی طرف لوٹ بھی آئے تو یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کس حد تک تندرست ہوگی۔
لیکن میرے جیسے دلوں میں یہ خیال کروٹیں لے رہا ہے کہ بستر پہ پڑا وہ وجود ایک چودہ سالہ لڑکی کا ہے یا چونسٹھ سال کے ملک کا ہے۔ 
  

22 comments:

  1. انصار عباسی صاحب ابھی زندہ ہیں۔ خدا انہیں طویل عمر دے۔


    Ummm...

    ReplyDelete
  2. یہ مزے کا لطیفہ ہے : بحیثیئت عورت پیدا ہونا ایک غیر شرعی عمل ہے۔ یقین جانیئے مرد ہونے کے ناطے مجھ کو تو یہ لطیفہ ہی معلوم ہوا اور بے اختیار مُسکرا اٹھا، بھئی مبارک ہو ایک حدیث کے مفھوم کے مطابق آپ کو ایک مسلمان کے لبوں پر مُسکراہٹ لانے کا مفت میں ثواب مل گیا۔

    ویسے اطلاعاً عرغ ہے کہ کچھ لوگ جمہور کے طرز عمل یعنی ملالہ کے ملال ، طالبان پر وبال اور پھر متعلقہ خبروں پر ملول ہونے اور کرنے کا بجائے اور اس پوری عوامی بھیڑ چال سے ذرا ہٹ کر اس پورے واقعے کو "سوات میں لڑکی کو طالبان کے ہاتھوں کوڑے لگنے" والے واقعے کی طرح محض جھوٹ ، فراڈ اور ڈرامہ قرار دے رہے ہیں، ملاحظہ ہو:
    http://willyloman.wordpress.com/2012/10/11/the-staged-malala-yousafzai-story-neoliberal-near-martyr-of-the-global-free-market-wars/
    ذرا سوچیئے اگر یہ مفروضہ سچ ثابت ہوگیا تو پھر سوات والے ڈرامے کی طرح ملالہ پر ملال کرنے والے کس کھاتے میں ہونگے؟

    اس سلسلے میں ایک انتہائی اہم نکتہ جس کو کوئی بھی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے کہ جس طرح عراق پر حملے سے پہلے اسکے قبضے میں مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کا کوئی ثبوت دیئے بغیر ہی پوری دُنیا کو اس جنگ میں ملوث کیا گیا تھا اور بعد میں یہ الزام ہی سرے سے جھوٹ ثابت ہوا تھا، مگر عراق تو تباہ ہوگیا نا؟ یعنی امریکہ کو اُسکا اصل مقصد حاصل ہوگیا۔

    بلکل اسی طرح "طالبان" کی طرف سے اس حملے کی ذمہ داری کو قبول کرنے کا کوئی ثبوت نہیں فراہم کیا گیا ہے، مگر پھر بھی اشفاق کیانی، آصف زرداری، الطاف حسین، بانکی مون، میڈونا، گورڈن براؤن سمیت دنیا بھر میں نجانے کتنے لوگ "طالبان" کے خلاف اس جنگ کو اپنی جنگ کہہ رہے ہیں، اور خود کو "ملالہ" یا اپنی بیٹی یا بہن قرار دے رہے ہیں۔ جیسے پہلے :
    01. مہلک ہتھیار صرف بہانہ تھا، عراق اصل نشانہ تھا۔
    02. اسامہ محض بہانہ تھا، افغانستان اصل نشانہ تھا۔
    03. قذافی صرف بہانہ تھا، لیبیا اصل نشانہ تھا۔

    بلکل اسی طرح صاف نظر آرہا ہے کہ "ملالہ" تو صرف ایک بہانہ ہے، اور پاکستان اصل نشانہ ہے۔ اب یہ ہم پاکستانیوں پر منحصر ہے کہ ہم اس معاملے کو کسطرح سنبھالتے ہیں۔

    نوٹ: واضح رہے ایسا بلکل نہیں ہے کہ مجھ کو "ملالہ" سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ اور ناہی میں "طالبان" کو بے قصور ثابت کرنا چاہ رہا ہوں، یہ سب کچھ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم کو ملکی اور عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھ کر ہی یہ فیصلہ کرنا چاہیئے کہ اس پورے معاملے میں کس کا کتنا نفع ہے؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. آج تک یہ ثابت نہ ہو سکا کہ یہ واقعہ جھوٹا تھا۔ در حقیقت ابھی کچھ دنوں پہلے اسی واقعے پہ ٹی وی پہ لے دے ہو رہی تھی۔ انصار عباسی صاحب موجود تھے اور انہوں نے فرمایا کہ اسلام میں تو کوڑوں کی سزا ہے۔
      پاکستان تو سن انیس سو اناسی سے لے کر آج تک نشانہ بنا ہوا ہے۔ جب روس نے افغانستان پہ حملہ کیا تو اس وقت بھی یہی کہا گیا کہ اصل نشانہ پاکستان ہے۔
      اچھا فرض کر لیں کہ یہ واقعہ جھوٹ کا پلندہ ہے تو ایک مخصوص طبقے کی طرف سے ایسے الزامات اور صفائیاں کیا معنی رکھتے ہیں۔ مثلاً ملالہ کے دیندار دادا نے اسکے والد کو کفر کی وجہ سے گھر سے نکال دیا یا یہ کہ ملالہ، اوبامہ کو اور باچہ خان کو پسند کرتی ہے۔ ان سب باتوں کے آپ کیا معنی نکالتے ہیں؟

      Delete
    2. محترمہ عنیقہ جی، جب میں "طالبان" والے موضوع سے گریز کررہا ہوں تو آپ مجھ کو کیوں اس دشت خار ذار میں گھسیٹنا چاہ رہی ہیں؟ اگر آپ کا خیال ہے کہ میں اس طبقے سے تعلق رکھتا ہوں جوکہ "طالبان" کے لیئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں، اور انکی حمایت کرتے ہیں، تو یہ بات بلکل درست ہے، مگر اسکا قطعئ یہ مطلب نہیں ہے کہ میں انکے ہر غلط قدم کی بھی لازماً حمایت کرؤں۔

      میرا تو کہنا ہے کہ جب یہ معاملہ ابھی تک مشکوک ہے کہ درحقیقت "ملالہ" پر کس نے ، کس کے حکم پر اور کن مقاصد کے حصول کے لیئے "قاتلانہ حملہ" کیا، تو پھر ہم میڈیا کے بچھائے اس جال میں پھنس کر "طالبان" کے خلاف یا انکے حق میں کیوں جانبداری اور انتہاپسندی کا مظاہرہ کریں؟

      آپ کے ایک مخصوص طبقے کے الزامات اور صفائیوں والے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ کھلے دل اور دماغ سے پورے معاملے پر غور کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گی کہ دراصل دونوں ہی طبقے (طالبان مخالف اور طالبان موافق) دراصل میڈیا کے جال میں پھنس کر میڈیا کا یہ الزام کہ "طالبان نے ملالہ" پر حملہ کیا ہے کو من و عن سچ قبول کرکے اپنا ردعمل ظاہر کرہے ہیں، لہذا جب "طالبان" مخالف دھڑے طالبان کی ہجو کریں گے تو یہ لازمی امر ہے کہ "طالبان" موافق دھڑے "طالبان" کے حملے کے جواز ڈھونڈیں گے، مگر کیا کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ "کیا حقیقت میں ایسا کوئی جان لیوا حملی ہوا بھی ہے کہ نہیں؟ اور کیا یہ حملہ "طالبان" نے ہی کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ ۔ ۔ ۔

      مجھ کو شروع ہی سے اس معاملے میں یہ شک ہے کہ طالبان نے یہ عمل نہیں کیا ہوگا، کیونکہ کوئی بھی زی ہوش انسان بنا کسی مجبوری کے ایسا عمل نہیں کیا کرتا جسکے نتیجے میں اسے بدنامی ملے، اور اب جسطرح سے مغرب نے اس معاملے کو "ہائی جیک" کیا ہے، اسی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس معاملے کے اصل کردار کون ہیں اور انکے مقاصد کیا ہے؟

      Delete
    3. میں یہ جاننے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہوں کہ اس تمام تر تباہی جس میں ہمارا وراثتی اقدار، ہماری ثقافت، ہمارے بچے، ہماری معیشت، ہمارا معاشرہ سب شامل ہیں ۔ ہمارے یہاں ایک طالبان موافق طبقہ کیوں موجود ہے اور وہ ایک اور طبقے کو جو کہ اسی کے ملک سے تعلق رکھتا ہے اور جو کچھ اور نہیں ایک پر امن پاکستان چاہتا ہے اس کے خلاف کیوں صف آراء ہوتا ہے۔
      آپ کا آخری پیرا کسی لطیفے سے کم نہیں۔ ذی ہوش طالبان کو یہ فکر لا حق ہو گی کہ اسے بدنامی نہ ملے۔ جسے ماضی میں ہر بدنامی والے کام پہ آپکی طرف سے یا تو واہ واہ یا خاموش حمایت ملی ہو اسے بدنامی کا کیا ڈر۔ کیا وہ میرے سامنے بدنامی سے ڈرتے ہیں۔ ہمم، کہیں واقعی ڈر ہی نہ جائیں۔
      آپ کو لگا کہ مغرب نے ہائ جیک کیا۔ ہمیں لگا کہ جس طرح آپ لوگوں نے اس پہ مٹی ڈالنے کی کوشش کی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملے کے اصل کردار کون ہیں۔

      Delete
  3. طالبانی جرثومے اس کیس میں جس طرح ایکسپوز ہوئے ہیں ۔ اور ان میں اور امن پسند لوگوں میں جو خلیج اس بار واضح ہوئی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔

    ReplyDelete
  4. حیرت ہوتی ہےکہ
    ایک ہی دماغ میں اعلی اور سطحی سو چ کیسے سما
    جاتی ہے؟
    کس نے طالبان کی مذمت نہیں کی اور کسے ملالہ کا دکھ نہیں؟
    لیکن آپ کے بلاگ پر تو آج تک امریکہ مخالف تحریر نطر سے نہیں گذری اور نا ہی ڈرون حملوں میں مارے جانے والے بچوں کی ہمدردی مین ایک لفظ پڑھنے کو ملا!!
    سوات کیلئے وزٹ کرنے تشریف لے جائیں ۔
    کسی یورپ سے کم نہیں ہے ۔لڑکیاں لڑکے اب کورٹ میرج کرتے ہیں اور طالبان سے پہلے سب کچھ میسر تھا۔
    اس علاقے میں عورت کی حثیت سے پیدا ہونا شرعی جرم نا کبھی تھا اور نا اب ہے۔۔۔ہاں میرے خیال میں آپ کا پیدا ہونے "شرعی"جرم ہو سکتا ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ نے شاید غور سے نہیں پڑھا۔ میں نے لکھا ہے کہ بس اس فتوی کے آنے کی دیر تھی یعنی یہ فتوی آیا نہیں تھا۔ اس لئے اس پہ آپ نے جو کچھ لکھا وہ تو بے کار گیا۔
      میں اس سے پہلے بھی متعدد بار امریکہ کی پالیسیوں کے خلاف کہہ اور لکھ چکی ہوں۔ دنیا میں کوئ بھی شخص امریکہ کو امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھنے میں حق بجانب ہوگا۔
      میں متعد بار مختلف جگہوں پہ تبصروں میں ڈرون حملوں کے بارے میں اپنی رائے دے چکی ہوں۔
      ڈرون حملوں کی اجازت حکومت پاکستان نے دی ہوئ ہے۔ کیونکہ وہ عسکریت پسندوں پہ قابو پانے میں ناکام ہیں۔ یہ وہ عسکریت پسند ہیں جو پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کو قتل کر چکے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہمارے یہاں ایک بڑے طبقے کی سے سپورٹ حاصل ہے۔۔ نہ انہیں دوسرے کے بچوں کو مار کر افسوس ہوتا ہے اور نہ اپنے بچوں کے مرنے پہ افسوس ہوتا ہے۔ عسکریت پسندی ان تمام جذبات پہ حاوی ہے جس سے انسان جنم لیتا ہے۔
      اگر میں نے کبھی ڈرون حملوں کے متعلق تبصروں سے ہٹ کر بلاگ لکھا تو میں ان لوگوں کے وحشی پن کو بیان کئے بغیر نہیں لکھ سکتی جن کے بچے اس جنگ میں مارے جاتے ہیں۔
      بائ دا وے کورٹ میرج کرنا، کیا یوروپ ہونے کی نشانی ہے۔
      کورت میرج تو لوگ اس لئے کرتے ہیں کہ والدین انکی شادی میں حصۃ نہیں لینا چاہتے۔ کیا مذہب اسلام کی رو سے والدین کی اجازت ضروری ہے؟ اگر نہیں تو کیا اسلام اس معاملے میں یوروپ کی نقالی کرتا ہے۔

      Delete
  5. "سوات والے ڈرامے"

    سوات والا واقعہ بالکل سچ ہے- صرف انصار جھوٹا عباسی نے اس ميں شک پيدا کرنے کی کوشش کي، قوم سے اسے شرعی طور پہ جائز منوانے پہ ناکام ہونے پہ-

    ReplyDelete
  6. ايک ملالہ سب ملاؤں پہ بھاري-

    ReplyDelete
  7. اچھا! تو مذہب پرست سوات والی ویڈیو کو ابھی تک "ڈرامہ" ہی سمجھتے ہیں۔ بہت خوب! ان کی تو واقعی متوازی دنیا ہے۔
    ڈرون حملوں نے ظالمان کو جو بدحال کیا ہے اس کا اعتراف تو وہ خود کرتے نظر آتے ہیں۔

    بات گھوم پھر کر وہیں آتی ہے کہ طالبانی جرثوموں اور عام لوگوں کے درمیان جو خلیج اب واضح ہوئی ہے وہ بے نظیر ہے۔

    ReplyDelete
  8. انصار عباسی سے متعلق آپکی مثال ایک خواہش کا اظہار زیادہ لگتی ہے۔ :)
    اللہ انصار عباسی کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
    یہ اب جانتے ہیں کراچی میں ایم کیو ایم مخالف دھڑے کیسے وجود میں آتے ہیں۔ اب اگر ان میں سے کسی بھی دھڑے کے سربراہ کو ہماری نجات دہندہ ایجنسیاں مار دیں صرف اور صرف ایم کیو ایم کو کرش کرنے کے لیے تو آپ کا کیا ردعمل ہوگا۔
    مسئلہ قتل کی کوشش نہیں ہے بلکہ وہ نتائج حاصل کرنے کی کوششیں ہیں جو اس قاتلانہ حملہ سے کی جارہی ہیں۔ یعنی ایک اور ملٹی بلین ڈالر آپریشن ایز آ ریٹائرمینٹ پیکیج فار آرمی جنرلز۔۔۔۔۔۔۔
    کیا یہی پاکستانیوں کی اوقات ہے کہ انہیں بے ضمیر جنرلز کے فائدے کے لیے مار دیا جائے۔
    کم از کم آپ جیسی زیرک خاتون سے اس کھیل میں شرکت کی توقع نہیں تھی۔
    ہمارے نظریات کہین بھاگے نہیں جا رہے یہ ملک سلامت رہنا چہیے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. موت کسی مسئلے کا جل نہیں ہو سکتی۔ اس لئے آپکا یہ اندازہ انتہائ غلط ہے کہ انصار عباسی کے سلسلے میں یہ میری خواہش ہے۔
      انکی مثال اس لئے اٹھائ کہ کچھ لوگوں کو جلدی سمجھ آئے گی۔
      ویسے تو اس وقت ایم کیو ایم کے اندر ایک ہی دھڑا ہے۔ لیکن انکے سربراہوں میں سے کوئ مارا جائے تو مجھے اس سے کیا۔ ہاں البتہ کسی ایسے پارٹی کارکن کو مار دیا جائے تو جو اس شہر کے لئے اور کمیونٹی کے لئے خلوص دل سے سرگرداں رہا تو افسوس ہوگا۔ جیسے ابھی سال دو سال پہلے انکے ایک اسمبلی ممبر کو مارا گیا۔ حتی ڈاکٹَر شیر شاہ جیسے غیر جانبدار شخص نے انکی یاد میں ایم مضمون لکھا۔
      اول تو اس وقت آپ یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ملالہ پہ حملہ کس نے کیا۔ اس لئے ہم کیوں نہ اسی گروہ کو فوکس کریں جو اسکی ذمہ داری لے رہا ہے۔ اور جو قتل کی دھمکیاں دے چکا تھا۔ آخر ہم سامنے نظر آنےوالے مجرم کو چھوڑ کر ادھر ادھر سے اگر مگر کیوں نکالیں؟ جبکہ اس مجرم کا ماضی بھی اپنا یہی پس منظر رکھتا ہے۔
      اچھا چلیں فرض کریں کہ انکے اعتراف اور دھمکیوں کے باوجود انہوں نے نہیں کیا بلکہ یہ ایک سازش ہے۔ تو بھی اقدام قتل کی مذمت سب سے پہلے سامنے آتی ہے نہ کہ اسکی اپنے طور پہ قیاسہ گوئ۔
      لیکن ہم کیا دیکھتے ہیں ، ہم دیکھتے ہیں کہ ملالہ اور اسکے والدین کو کافر قرار دینے کی بین السطور باتیں۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بات کچھ اس طرح بنائ جا رہی ہے کہ کیونکہ ملہلہ، اسکے والدین اور اس کی حمایت کرنے والوں لوگوں میں یہ یہ خامیاں ہیں اس لئے لا محالہ یہ واقعہ ہونا ہی تھا۔
      اس طرح عام شخص کو سمجھ لینا چاہئیے کہ اگر وہ ایک مخصوص طرز عمل پہ اپنی خواہشات کا اظہار نہیں کرتا تو اسکے ساتھ جو کچھ ہو قوم اسکی پرواہ نہیں کرے گی۔
      یہ ملک کیسے سلامت رہے گا جب اس میں بسنے والے ہی سلامت نہیں رہیں گے۔ جب اس میں بسنے والے ایک دوسرے کی سلامتی کے خواہاں نہیں ہونگے تو یہ کیسے سلامت رہ سکتا ہے۔

      Delete
    2. اور بے ضمیر جنرلز کو یہ راہ کس نے سجھائ، کس نے انکے شانہ بشانہ کام کیا۔ لو وہ بھی کہہ رہے ہیں بے ننگ و نام ہیں۔ آخر پاک فوج کی شان میں ترانے گانے والے بھی اب انکے حمائیتی نہ رہے۔ ایسا کیا ہوگیا کہ انیس سو اناسی میں پاکستانیوں کو جہاد کا فلسفہ سکھانے والے اب فوجی جرنلز کو بے ضمیر کہہ رہے ہیں۔ اب ان کا کیا ہوگا جو پاک فوج کے لڑنے مرنے کی ادا پہ فدا تھے۔ وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔

      Delete
    3. محترمہ!
      اجتماعی سوچ اور اجتماعی دانش ایک دن میں بنا نہیں کرتی۔ اس کے لیئے تجربات درکار ہوتے ہیں۔اس لیے انقلابات بھی ایک دن میں نہیں آتے۔برسوں کے حالات و واقعات انکی پرورش کرتے ہیں۔
      ایک اجمتاعی سوچ حالیہ کچھ سالوں میں پروان چڑھی ہے جب عام افراد اس بات کو سمجھنے لگے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ابھی تک استعمار کا غلام ہے فرق صرف یہ ہے کہ اس استعمار نے اب وردی پہنی ہوئی ہے۔ اس ملک کے سارے وسائل پر کون قابض ہے یہ اب لوگوں کی سمجھ میں آنے لگا ہے اسی لیے اب کسی کے لیے بھی خاص کر سیاستدانوں کے لیے یہ آسان نہیں رہا کہ فوج کی کسی غیر آئینی مہم جوئی میں اسکی معاونت کرے۔
      آپ کا اشارہ غالباً جہاد افغانستان کی طرف ہے جس پر میں اپنی گذارشات پیش کر چکا ہوں۔ ضیاالحق مرحوم نے اپنے مزاج کے مطابق فوج کو اسلامی رنگ دینے کی کوشش کی مگر اسکا کردار نہیں تبدیل کیا۔ اس جہادی رنگ کی وجہ سے دینی قوتوں نے اسکی ستائش کی اسی طرح جس طرح آج آپ اس فوج کی مذمت سے آپ ہچکچارہی ہیں۔ یہ دیکھے بغیر کے اس بار بھی معاملہ نظریات کا نہیں بلکہ مفادات کا ہی۔ آج آپ کو یہ فوج اتنی بری نہیں لگ رہی کیونکہ یہ فوج آپ کے خیال میں عسکریت پسندوں کو کچلنے جا رہی ہے۔

      Delete
    4. اس وقت ایک چودہ سالہ لڑکی برطانیہ کے کسی ہسپتال میں ہوش و خرد سے نا آشنا کسی بستر پہ مشینوں کے سہارے پڑی ہے۔ وہ اگر ایک طویل علاج کے بعد زندگی کی طرف لوٹ بھی آئے تو یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کس حد تک تندرست ہوگی۔
      ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
      اتنا اداس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ خبروں کے مطابق اب اسے سرجری کی ضرورت بھی نہیں ہے اور کسی معجزے کی وجہ سے خود بخود رو بہ صحت ہے۔ ماشااللہ اب تو وہ باتیں سمجھ رہی ہے اور کمانڈز کو فالو کر رہی ہے اور غالباً اکے دماغ اور جسم کی حرکات پر بھی کوئی اثر نہیں پڑا۔۔۔۔
      یہ ہوتا ہے معجزہ۔۔۔۔۔ پہلے اعلیٰ تربیت یافتہ طالبان چوکے ۔۔۔۔۔ پھر سر میں گولی لگنے کے باوجود اور اسکل فریکچر کے باوجود اور باوجود دماغی سوزش کے اور باوجود گولی کے سر میں سے گھس کر گردن میں زخم ڈالنے کے وہ صحت یاب ہورہی ہے۔ جناب علاج بھی تو ملٹری ہاسپٹل میں ہورہا ہے۔
      یہاں بھی ملٹری ہاسپٹل تھا اور برطانیہ میں بھی ملٹری ہاسپٹل۔ سنا ہے کہ پاکستانی ہائی کمشنر صاحب تک کو ملنے نا دیا گیا۔ جب انتظامات ایسے ہونگے تو صحتیابی تو یقینی ہی ہوئی نا۔۔۔۔
      صحیح کہا ہے کسی نے جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔۔۔

      Delete
    5. تو اب اداس ہونے کی باری آپ کی ہے۔
      ایک دفعہ پھر مجھے اندیشہ پیدا ہو رہا ہے کہ آپ ہومیو پیتھ ڈاکٹر ہیں۔
      میری ایک عزیزہ اٹھارہ سال کی عمر میں گر گئیں ایک تعمیراتی علاقے میں۔ وہاں لوہے کا ایک سریہ انکے سر میں گھس گیا۔ زیادہ اندر نہیں گھسا تھا لیکن پھر بھی انہیں ہسپتال میں پندرہ دن گذارنے پڑے۔ سال بھر دوائین کھآتی رہیں یعنی اسٹیرائیڈز۔ مرگی کے دوروں سے بچاءو کے لئے۔ اس کے بعد ڈاکٹر نے انہیں کلیئر قرار دے دیا۔ آج وہ تین بچوں کی ماں ہے۔ پہلے بچے میں اسکے دوبارہ سارے چیک اپ ہوئے۔ وہ بالکل صحت مند اور تندرست ہے بس یہ چونکہ ملک سے باہر ہے اس لئے کوئ بھی ایسا کام جس میں دماغی توجہ زیادہ چاہئیے ہوتی ہے وہ کرتے وقت انہیں احتیاط برتنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
      ملالہ کی جو تصایر دیکھی گئ ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ گولی دراصل سائیڈ سے چھوتی ہوئ گئ ہے۔ میری عزیزہ کی طرح وہ کراچی کے ایک عام ہسپتال میں نہیں۔ تو روبہ صحت ہونے میں کیا مسئلہ ہے۔ مکمل سھت یابی کے بعد ہی حتمی بات کی جا سکتی ہے۔
      تو آپ سمجھ رہے تھے کہ بس دماغ سے گولی لگتی ہوئ جو گردن تک گئ تو بس اب بچنا محال ہے۔ اسی طرح کے سوچ رکھنے والے لوگ حادثے کے بعد کہہ رہے تھے کہ بس جناب اب امریکہ چار دن میں حملہ کرنے والا ہے بس اس بات کا انتظار ہو رہا ہے کہ ملالہ کب جان سے جاتی ہے اور حملہ شروع۔
      مگر ہم انتظار ہی کرتے رہے اور ایسا کچھ نہ ہوا۔
      ہممم، ہم تو اس سب کہیں پہلے اس بات کے قائل ہیں کہ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ اب جن جن کو چکھ لیا گیا اس کا مطلب انہیں اللہ نے نہیں رکیھا۔ جسے اللہ نے رکھ لیا اس پہ کیا واویلہ اور جسے نہیں رکھا اس پہ کیسا شور۔

      Delete
    6. جب دینی جماعتیں، جہاد کے دھوکے میں آگئں تو وہ آج تک اسے اپنی فتح کیوں قرار دیتی ہیں؟

      Delete
    7. میری ڈاکٹری کی فکر چھوڑیے اور حملے کے فوراً بعد ہونے والی پریس ریلیز پڑھیے۔
      ابتدائی پریس ریلیز اور ابتدائی میڈیا کوریج ہمیشہ سے اہم ہوتی ہے کہ اس میں اسٹوری کو اپنی مرضی سے توڑنے مروڑنے اور ان کنٹرولڈ میڈیا رپورٹس کی وجہ سے کافی تضاد پیدا ہوجاتا ہے۔
      ہمیشہ واقعات کی ابتدائی پریس ریلیز اور ابتدائی میڈیا کوریج کا موازنہ کیجیے۔
      اگر آپ میں یہ صلاحیت نہیں تو عبدالرؤف صاحب نے جس بلاگ کا لنک دیا ہے اس کے مندرجات غور سے پڑھ لیجیے۔ بہت ساری چیزیں واضع ہوجائیں گی۔
      ایک سوال پھر بھی باقی رہتا ہے۔ کہ اعلیٰ تربیت یافتہ طالبان کیسے چوکے؟
      اور یہ طالبان جگہ جگہ فوجی چوکیوں کی موجودگی میں کیسے فرار ہوگئے۔

      Delete
    8. لیجیے جناب، محترمہ تو میڈیکل سائنس میں بھی پی ایچ ڈی ہیں۔ کہاں تو رونا کہ ہائے بیچاری کی زندگی برباد ہوگئی۔ زندگی بھر معذور رہیگی اور اب فوراً سے معجزے پر یقین۔ وقت آنے پر سب کو ہی ـــ بنانا ہے آپ نے؟ بیچارے کسی دھوکے میں ہی اپنے زندگی گذارتے ہیں، کبھی کینیڈا کا چکر لگالیں تو بلاگ پر ایڈریس تک کینیڈا کا ڈالدیتے ہیں، اس امید پر کہ وہاں پیدا ہونے والا بچہ تو کینیڈین ہو۔ اب اس غلامانہ ذہنیت کے ساتھ کسی بدبودار پودے پر تحقیق کرتے کرتے اس بدبو سے دین۔ ملک و ملک کو بھی ہانکنے کی روش تو ان کی پرانی ہے۔

      Delete
    9. تو کیا اب آپکی پیشن گوئیوں پہ یقین کریں ک باوجود اسکے کہ کینیڈا سے ہو آئے ہم سال بھر سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا لیکن وہ بچہ دنیا میں نہ آ سکا۔ جسکی آپ نے پیشن گوئ فرمائ۔
      اس بچے کے نہ آنے کی وجہ کوئ معجزہ تو نہیں؟
      :)
      عالم تدبر میں آپ نے یہ نہ سوچا کہ جسے کینیڈیئن حکومت خود ہی شہریت دے دیتی وہ کیوں کینیڈا میں جا کر بچہ پیدا کرنے کا خرچہ اٹھائے۔
      تو شیخ صاحب، اب آپ کچھ اور اندازے لگائیے۔ کچھ کامیاب اندازے، جن پہ ہم یقین لے آئیں بلا حجت۔

      Delete
    10. ڈاکٹر جواد صاحب، اگر یہ طالبان کی ناکامی ہے تو کیا یہ پہلی دفعہ ہوا کہ طالبان متوقع کامیابی حاص نہ کر سکے۔
      اگر طالبان امریکن ایجنٹ ہیں تو آپکو کیوں انکے متعلق اچھا گمان رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ کافی قابل غور سوال ہے۔ کاش کوئ اس کا جواب دے سکے۔

      Delete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ