Saturday, December 12, 2009

کتاب خوانی

آج ادرہ معارف اسلامی کے پاس سے گذر ہوا تو سوچا کہ دیکھیں کون کون سی کتابیں ہیں۔ اندر کچھ کتابوں پہ سیل لگی ہوئ تھی۔ وہاں سے دو کتابیں اٹھائیں اور پھر مختلف شیلفس کو نظروں سے ٹٹولنا اور انکے اندر موجود فہرست کو جانچنا شروع کیا اورآہستہ آہستہ کچھ کتابیں جمع ہو گئیں۔ وہاں موجود صاحب نے آکر کہا کہ ہم اپنا کام جلدی کر لیں کیونکہ انہیں نماز کے لئے جانا ہے۔ میں نے انکی طرف دیکھا اور خیال آیا کہ میرے بیگ میں تو صرف بارہ تیرہ سو روپے ہونگے۔ گاڑی میں گیس ڈلوانی تھی اور باقی احتیاطاً ساتھ رکھ لئیے تھے۔ تو بس باقی چھان پھٹک وہیں روک دی۔ اب وہ صاحب پریشان ہو گئے ۔' آپ دس پندرہ منٹ اور لگا سکتی ہیں۔ میرا مطلب فوراً نہیں تھا۔' میں نے انہیں تسلی دی کہ بس فی الوقت مجھے یہی کتابیں لینی ہیں۔
اب باری آئ انکے بل بنانے کی۔ تو میں نے پیسوں کی حد اور کتابوں کی تعداد کے درمیان توازن رکھنے کے لئے، دو کتابیں اٹھا کر ایک طرف کر دیں اور ان سے کہا کہ ان کتابوں کو ہٹا کر باقی کتابوں کا بل پہلے بنا دیں۔ میرے پاس صرف ایک ہزار روپے ہیں۔ میں چاہتی ہوں میرا بل  بس اتنا ہی رہے۔ کہنے لگے بے فکر رہیں۔ میں آپکا بل بس ہزار روپے بنا دونگا۔  اس پہ میں نے ذرا محتاط رخ پہ رہتے ہوئے ان سے مزید التماس کی لیکن اگر اس سے کم بن رہا ہو تو پھر ایک ہزار مت کیجئیے گا۔ مسکرائے اور خاموشی سے اپنا کام کرنے لگے۔
خدا کا شکر بل نو سو انچاس بنا۔ کتابیں اور رسید ایک شاپر میں ڈالتے ہوئے کہنے لگے۔ ایک بات بتائیں گھر جا کر اپ اس بل کو چیک کرتی ہیں۔ میں  نے یاد کیا اور ان سے کہا نہیں صرف یہ دیکھتی ہوں کہ سب چیزیں موجود ہیں یا نہیں۔ باقی تو میں نے رسید بناتے ہوئے دیکھ لیا کہ آپ نے کیا لکھا۔ فرمایا۔ 'دیکھ لیا کریں، بھول چوک انسان سے ہی ہوتی ہے'۔
گھر آکر دیکھتی ہوں، اتنی ساری کتابیں صرف نو سو انچاس میں، آئیے آپ بھی دیکھیں میں نے اس رقم میں کیا کیا خریدا۔
مقدمہ تاریخ ابن خلدون مصنف مولانا عبدالرحمن
افکار ابن خلدون، مولانا محمد ھنیف ندوی
مسئلہ خلافت، مولانا ابوالکلام آزاد
تاریخ فلاسفۃ الاسلام، ڈاکٹر میر ولی محمد
خدا کے نام پہ لڑی جانیوالی جنگ، کیرن آرمسٹرونگ
فلسفہء سائنس اور کائنات،  ڈاکٹر محمد علی سڈنی
اسلامی نظریہ ء ادب سید اسعد گیلانی اور اختر حجازی کی مرتب کردہ
اسلام اور دہشت گردی، سید معروف شاہ شیرازی
ہندو علما ء و مفکرین کی قرآنی خدمات ترجمہ اورنگزیب اعظمی
اب میں نے سب سے پہلے ان میں سے پڑھنے کے لئیے جو کتاب اٹھائ ہے اسکا نام ہے تاریخ فلاسفۃ الاسلام۔ دیکھیں کب اختتام کو پہنچتی ہے۔ اسکے بعد تو آپکو اندازہ ہوگا کہ کیا ہوگا۔

9 comments:

  1. بڑے سستے داموں چھوٹ گئیں آپ۔ ورنہ ہمارا لائبریرین تو ہمیں چار سو صفحات کی کتاب کی قیمت ساڑھے چار سو اور پانچ سو بتاتا بلکہ دکھاتا ہے۔ بلکہ اب تو پندرہ سو دو ہزار کی کتاب عام سی بات ہے جو ذرا صخیم قسم کی ہو۔

    ReplyDelete
  2. ہائے۔۔۔۔ اب اتنی ساری کتب پر تبصرے پڑھنا پڑیں گے۔ :)

    ReplyDelete
  3. ہونا کیا ہے جی
    اس بلاگ پر مزید دنگے ہونے ہیں
    اور کیا
    :D

    ReplyDelete
  4. یہ ادارہ ہے کس طرف؟ اتنی سستی کتابیں؟؟

    ویسے کراچی انٹرنیشنل بک فئیر بھی لگا ہوا ہے میں کل شام وہاں جارہا ہوں۔ کتابیں زیادہ سستی تو نہیں وہاں لیکن بہت بڑی تعداد میں ہونگی۔

    ReplyDelete
  5. مجھے کتابوں سے عشق لاحق ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے۔ لیکن جو تھوڑا بہت تجربہ ہوا، اس سے یہی اندازہ ہوا کہ دینی اشاعتی اداروں کی کتابیں سستے داموں مل جاتی ہیں۔

    ReplyDelete
  6. دوست، کتابیں اتنی ہی مہنگی ہوتی جاری ہیں کہ انکو خریدتے وقت بھی سوچنا پڑتا ہے یا پھر آپ ایسی جگہوں کا پتہ رکھیں جہاں سے کتابیں مناسب قیمت میں مل جائیں۔ ابھی کچھ مہینوں پہلے میں نے شمس الرحمن کا ناول کئ چاند تھے سر آسماں خریدا مبلغ ساڑھے آٹھ سو کا ۔ فکشن کی کتابیں اور اتنی مہنگی۔ کسی نے کہا تھا کہ معلوم نہیں لوگ ایک ناول لکھنے پہ اتنی محنت کیوں کرتے ہیں جبکہ اس سے کہیں کم محنت میں خریدا جا سکتا ہے۔ لیکن اب مجھے سمجھ میں آتا ہے کہ بہترین ادب خالی جیب کیوں لکھا جاتا ہے۔
    خرم صاحب۔ نہیں میں آپ پہ اتنا ظلم نہیں کرونگی۔ اس جملے کو زرا شبنم کے انداز میں پڑھئیے گا۔ فلاسفۃالاسلام۔ ابن رشد کی وجہ سے خریدی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یوروپ میں سیکولیرزم کی بنیاد انکے نظریات پہ رکھی گئ ہے۔ اب دیکھیں کتاب کیا کہتی ہے۔
    ڈفر،
    :)
    ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق۔
    نومان، یہ ادارہ کراچی میں فیڈرل بی ایریا میں واقع ہے۔ عائشہ منزل سے نارتھ ناظم آباد جاتے ہوئے درمیان میں طاہر ولا کی چورنگی پڑتی ہے۔ اسکے نزدیک ہی ہے۔ یہ شاید فیڈرل بی ایریا کا بلاک پانچ ہے۔ مسجد باب الجنت سے پہلے۔ پہلی گلی میں۔
    اس بک فئیر میں تین چار دفعہ جانے کے بعد اس سال میرا جانے کا پروگرام نہیں۔ اس سے کم ڈسکاءونٹ پہ یہ کتابیں اردو بازار یا پیرا ماءونٹ یا بہت فرق کے ساتھ کھوڑی گارڈن میں مل جاتی ہیں۔ آکر وہاں جا کر دل کو کتنا سمجھاتے رہیں کہ یہ ابھی نہیں خریدنا۔ حالانکہ آج ہی مجھے کوئ بتا رہا تھا کہ اس دفعہ پچھلی دفعہ سے زیادہ بڑا ہے۔
    محمد اسد، آپکی بات صحیح لگتی ہے۔ لیکن مجھے یاد ہے میں ایک دفعہ یحی ہارون کی کتابیں خریدنا چاہ رہی تھی۔ اب سے شاید تین سال پہلے۔ میرا خیال تھا کہ اتنے صفحات کی ایک کتاب ڈیڑھ سو تک کی مل جانی چاہئیے، مگر وہ یہیں اسی ادارے مین تین سو سے کم کی نہ تھیں۔

    ReplyDelete
  7. ادارۂ معارف اسلامی میں اکثر کتابیں 40 سے 50 فیصد رعایت پر مل جاتی ہیں۔ کراچی کتب میلے میں بھی ان کا اسٹال ہال نمبر 3 میں موجود ہے وہاں پر بھی بیشتر کتب پر 50 فیصد رعایت ہے۔

    ReplyDelete
  8. نو سو انچاس روپے میں نو کتابیں ، لاہور کا اردو بازار یاد آ گیا جہاں چالیس سے ساٹھ فیصد تک رعایت مل جاتی ہیں۔ میرے کزن کا تجزیہ تھا کہ چونکہ اسلامی کتابیں کم بکتی ہیں اس لیے وہ اتنی سستی ہوتی ہیں جبکہ میرا خیال ہے کہ اس وجہ کے ساتھ ساتھ کتابوں میں اتنا مارجن ہے کہ ستر اسی فیصد تک قیمت کم کرکے بھی بیچی جا سکتی ہے خاص طور پر اگر کتاب بڑی تعداد میں چھاپی جائے

    عنیقہ امام غزالی کو ضرور پڑھیے گا اور بہت دھیان سے ، غزالی جیسا فلسفی نہ پہلے آیا اور نہ اب آنے کا امکان ہے۔ ابن رشد کی کتاب جو امام غزالی کی شہرہ آفاق کتاب تہافتہ الفلاسفہ کا رد ہے قطعا مشہور نہ ہو سکی ھجب کہ آگسٹین نے امام غزالی کی کتاب تہافتہ الفلاسفہ سے ہی استفادہ کرکے دلائل جمع کیے ۔ اسلام میں ایک ہی شخص کو حجتہ الاسلام کا لقب ملا ہے اور وہ شخصیت امام غزالی کی ہے۔ الحاد پر جو کاری ضرب امام غزالی نے کئی صدیاں پہلے لگائی تھی اس ضرب سے آج تک عالم الحاد سنبھل نہیں سکا۔

    ReplyDelete
  9. لاہور میں کچھ ادارے ایسے ہیں جن کے ہاں کتب 60 فیصد تک رعائت پر ملتی ہیں اور اگر کسی منظور شُدہ لائبریری کیلئے ایک ہی کتاب کی 4 جلدیں خریدی جائیں تو 75 فیصد تک رعائت مل جاتی ہے ۔ یہ ادارے دراصل منافع کیلئے نہیں ہیں بلکہ خدمتِ خلق کیلئے ہیں ۔ ان میں محکمہ اوقاف ۔ پنجاب یونیورسٹی اور کچھ نجی ادارے ہیں جو اُردو بازار اور کچھ دوسری جگہوں پر ہیں ۔ کسی زمانہ میں ریلوے روڈ پر بھی ہوا کرتے تھے ۔ ادارہ معارف الاسلامی 25 سال قبل اُردو بازار لاہور میں ہوا کرتا تھا ۔ اب ہے یا نہیں میں کچھ کہہ نہیں سکتا

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ