Sunday, December 20, 2009

ایک تحقیقی مقالہ

ایک تحقیقی مقالہ جسے ہم انگریزی میں ریسرچ پیپر کہتے ہیں۔ اس میں کچھ بنیادی ضروریات کا ہونا ضروری ہے اسکے بغیر اسے ایک معلوماتی مضمون تو کہا جا سکتا ہے مگر ایک ریسرچ پیپر نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تحقیقی مقالے پی ایچ ڈی کرنے کی بنیادی ضرورت ہوتے ہیں۔ اور اپنے مضمون سے متعلق مخصوص جرائد میں شائع ہوتے ہیں جنہیں جرنلز کہا جاتا ہے۔ ان پیپرز میں عام طور سے اس مضمون سے متعلق کسی نئ معلومات کو پرانی معلومات سے جوڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ اور اسے تجرباتی طور پہ یا اعداد شمار کے ذریعے ثابت کیا جاتا ہے۔ یہ اعداد شمار بھی مستند مشینوں یا سروے یا اسی طرح کے ذرائع استعمال کر کے پیش کئے جاتے ہیں۔ سائنسی سطح پہ ان نتائج کا ان تمام حالات کو دہراتے ہوئے خود کو دہرانا ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ اس حقیقیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ عام طور پہ جرنلز میں چھپنے سے پہلے انہیں ماہرین کا ایک گروپ چیک کرتا ہے کہ اس میں دی گئ اطلاعات کہاں تک درست ہو سکتی ہیں۔ نیز تمام پرانے دئے جانیوالے بیانات کو صراحت سے لکھا جاتا ہے کہ وہ کہاں سے لئیے گئے ہیں۔ اور کوشش کی جاتی ہے کہ ان بیانات کا اصل متن متائثر نہ ہونے پائے۔ کسی بھی مناسب جریدے میں شائع ہونے سے قبل ان تمام حوالوں کو بھی چیک کیا جاتا ہے اور اسے بالکل سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔
ایک اور صورتحال یہ ہوتی ہے کہ ان تحقیقی مقالات کو ان سے منسلکہ کانفرنسز میں پڑھا جائے۔ جہاں اس مضمون کے ماہرین اور طلباء سبھی موجود ہوتے ہیں۔ اس صورت میں اگر آپ کوئ نوبل انعام یافتہ یا غیر معمولی شہرت کے حامل اعلی تحقیق داں نہ ہوں تو بھی ماہرین کا ایک پینل آپکے اس تحقیقی مقالے کو پڑھ کر اسے کانفرنس کی پروسیڈنگز میں شامل ہونے کی اجازت دیتا ہے۔
ان تمام ریسرچ پیپر کو سیکولر طرز تحریر پہ لکھا جاتا ہے یعنی انکو پڑھکر آپکو یہ نہیں لگتا کہ وہ کسی خاص طبقے کی جانبداری میں لکھے گئے ہیں۔ یہ علم کا راستہ ہے، یہاں آپکو وہ چیز بھی مل سکتی جسکی آپکو توقع تھی اور وہ بھی جسکی آپکو توقع نہیں تھی۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ یہ علم پرانے علم کی ہر بنیاد کو اکھاڑ دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جسے ہم قدیم کہہ کر جھٹلا چکے ہوں انہیں صحیح ثابت کر دے۔
ان جرائد کے معیار کی بھی درجہ بندی ہوتی ہے۔ اور اس پہ کسی تحقیق داں کا معیار پرکھا جاتا ہے  اس معیار یا گریڈنگ کو امپیکٹ فیکٹر کہتے ہیں۔ عام طور پہ بے حد مستند اور اعلی جرائد کا امپیکٹ فیکٹر زیادہ ہوتا ہے۔ جیسے سائنسی جریدہ 'نیچر' ایک اعلی جریدہ ہے اسکے مقابلے میں ریڈرز ڈائجسٹ محض ایک ڈائجسٹ جس کا کوئ امپیکٹ فیکٹر نہیں بنتا۔ اور ڈان اخبار صرف ایک اخبار۔
جس سائنسداں  کا ریسرچ پیپر جتنے اعلی جرائد میں شائع ہو اسکا امپیکٹ فیکٹر اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ اور اس سے اسکی ریسرچ کا معیار ظاہر ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایک ریسرچ پیپر کسی ایسے جریدے میں شائع ہو جاتا ہے کہ اسکا امپیکٹ فیکٹر تمام جریدوں پہ بھاری ہو کر اسے صف اول کے تحقیق دانوں میں شامل کر دیتا ہے جسے ڈی این اے کی مالیکیولی ساخت بتانے والا پیپر۔ اور بعض اوقات تحقیق داں ساری زندگی کام کرتا ہے مگر کوئ ایسا قابل ذکر نیا علم نہیں بڑھا پاتا کہ وہ اسے کسی معقول سطح پہ شائع کرا سکے۔ اور اس طرح سے اسکاامپیکٹ فیکٹر غیر متاثر کن رہتا ہے۔ جیسے ہمارے یہاں کے بہت سارے تحقیق داں۔

11 comments:

  1. اچھی تحریر ہے ۔ اب لگے ہاتھوں یہ بھی لکھیں کہ کویئ اللہ کا بندہ پاکستان سے یا پاکستانی کو ی تحققی کام کر کے ان جراید میں بھیجتا ہے تو انہیں ایک مخصوص لابی کی طرف سے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے

    ReplyDelete
  2. ریاض شاہد صاحب آپکے سوال کے اصل حصے کی طرف آنے سے پہلے میں یہ واضح کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ پاکستان میں شاید ہی کسی سطح پہ بہترین تحقیقی کام ہو رہا ہو۔ اس معاملے میں پوری اسلامی دنیا تقریبا خاموش ہے۔
    جہاں اور چیزوں میں ایک لابی کی طرف سے حائل مشکلات کا تذکرہ کیا جاتا ہے وہان تحقیق کے میدان میں بھی کچھ لوگ اس ڈھال کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے یہاں بعض جگہ تو یہ عالم ہے کہ کسی اخبار میں چھپنے والے ایک مضمون کو لوگ اپنا تحقیقی مقالہ کہتے ہیں اور شومیء قسمت کچھ لوگوں کو ان اخباری مضامین کی وجہ سے ملک کی یونیورسٹیز پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی دیتی ہیں۔
    اگر آپکی تحقیق بین الاقوامی اصول وضوابط کے مطابق کی گئ ہے اور اس جریدے کے اصول و ضّوابط کو بھی پورا کرتی ہے تو عام طور پہ ایسی کوئ مشکل پیش نہیں آتی۔
    اس کی مثال اس طرح سمجھ لیں کہ اگر آپ کوئ سائنسی تحقیق بھیج رہے ہیں تو اس میں آپ نے جو نئ معلومات دینی چاہی ہیں، وہ واقعتا نئ ہوں، انکے جو حوالے دئیے ہوں وہ بالکل صحیح ہوں اور آپنے انکے بیانات کو توڑا مروڑا نہ و۔ جو تجربات کی تفصیل آپ دے رہے ہیں اگر وپ تجربات دہرائے جائیں تو انہیں بالکل وہی نتائج دینا چاہئین جو آپ نے پیش کئے ہیں۔ اپکے مضمون کی زبان اس مضمون کی ٹیکنیکل زبان جیسی ہونی چاہئیے۔
    اگر کسی جریدے نے ان تحریروں کا کوئ خاص معیار رکھا ہے جیسے مضمون کی لمبائ، اس میں پیش کئیے جانیوالے اعداد و شمار کا انداز، پیش کئے جانیوالے نتائج کی تعداد تو آپکی تحریر کو ان تمام اصولوں کو پورا کرنا چاہئیے۔
    ایک اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنی تحریریں انفرادی طور پہ شاید ہی کہیں بھیج سکیں۔ اسکے لئیے آپکی کسی تحقیقی ادارے سے وابستگی ضروری ہے کہ اس طرح آپکی پیش کی ہوئ معلومات کا وہ ادارہ بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔ اسی طرح تحقیق کے میدان میں بالکل نو آموز لوگوں کو اپنی تحریر بھیجنے کے لئیے کسی سینئیر شخص کا ساتھ بھی چاہئیے ہوتا ہے۔ اس لئیے عام طور پہ کسی تحقیقی مقالے میں آپکو ایک سے زیادہ مصنفین کا نام نظر اتا ہے۔
    فی الوقت میرے علم میں ایسا کوئ شخص نہیں جسے کسی مخصوص لابی کی طرف سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ آخر ہم تحقیق کی دنیا میں ایسے کونسے کار ہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں کہ کوئ ہمارے علم کو چھپانے کی یا روکنے کی کوشش کرے۔ یہ کام تو ہم خود بدرجہا بہتر انجام دے رہے ہیں۔

    ReplyDelete
  3. محمد ریاض شاہد صاحب کا سوال بالکل درست ہے ۔ آپ نے اسے اُسی طرف موڑنے کی کوشش کی ہے جس طرف دورِ حاضر کے نام نہاد سیکولر کرتے ہیں
    یہ استدلال خام ہے کہ پاکستان میں اعلٰی سطح کا تحقیقاتی کام نہیں ہوا یا نہیں ہو رہا ۔ پاکستان بننے سے لے کر آج تک مختلف شعبوں میں اعلٰی سطح کا اور تخلیقی کام بھی ہوا ہے اور ہو رہا ہے جسے دنیا پر چھائی طاقتیں جان بوجھ کر نشر نہیں ہونے دیتیں
    کچھ معاملات میں ایسا بھی ہوا کہ پاکستان کی دریافت کو کسی اور سے منسوب کیا گیا جیسا کہ سُپر باسمتی کی دریافت بلکہ ایجاد کو بھارت سے منسوب کیا گیا جبکہ بھارت میں سُپر باسمتی تو کیا باسمتی بھی پیدا نہیں ہوتا
    کسی زمانہ میں اين ای ڈی انجیئرنگ کالج کراچی کے پروفیسر سلطان حسین صاحب جن کا شاگرد ہونے کا مجھے بھی اعزاز حاصل ہے نے بائلرز ڈیزائن کرنے کا ایک نیا فارمولا بنایا جسے بین الاقوامی طور پر نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ استعمال کیا جاتا ہے مگر اسے نشر نہ ہونے دیا گیا اور جہاں حوالہ دیا گیا پروفیسر صاحب کے نام کے ہِجے انگریزی میں ایسے لکھے گئے کہ کسی امریکن یا یورپی کا نام محسوس ہو
    اسی طرح انجنیئرنگ کالج لاہور کے ہائر میتھیمیٹکس کے پروفیسر عبدالرحمٰن ناصر صاحب نے ڈِفرَینشل کیلکولس کا ایک فارمولا بنایا جس سے ماضی میں چھ صفحوں پر حل ہونے والا مسئلہ آدھے صفحے پر حل ہو جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا جو مرحوم پروفیسر سلطان حسین صاحب کے سلسلہ میں ہوا ۔ مجھے اس عظیم شخص کا شاگرد ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے
    زرعی کاج فیصل آباد ۔ اب یونیورسٹی ۔ کے اساتذہ کم از کم ہر دہائی میں کوئی نئی تحقیق سامنے لاتے ہیں ۔ اس سال کے دوران بھی ایک نئی تحقیق سامنے لائی گئی اور محقق کو پی ایچ ڈی سے نوازا گیا مگر ۔ ۔ ۔ بات پھر وہیں
    میرے علم میں اور بھی بہت کچھ ہے لیکن کہتے ہیں کہ عقلمند را اشارہ کافی است

    ReplyDelete
  4. اجمل صاحب جیسا کہ آپکے علم میں ہوگا کہ میں نے بھی پی ایچ ڈی کیا ہوا ہے اور وہ بھی سائنس کے ایک مضمون میں۔ میری بھی کچھ انٹرنیشنل پبلیکیشنز ہیں جن میں میرا نام اسی طرح موجود ہے۔ انہی پیپرز میں میرے سپروائزر کا نام بھی اسی طرح موجود ہے موصوف کچھ عرصے پہلےہائر ایجوکیشن کمیشن کے چئیرمین اور وفاقی وزیر تعلیم رہ چکے ہیں۔ ان سب سے پہلے بھی انکی جو پبلیکیشنز ہیں ان میں انکا نام اسی طرح موجود ہے۔۔فی زمانہ کوئ ابن رشد اور ابن الہشم نہیں کہ انہیں نام تبدیل کرنا پڑے۔
    میں نے جس تحقیقی ادارے سے اپنا پی ایچ ڈی کیا ہے وہ ملک کا ایک بہترین تحقیقی ادارہ اور تیسری دنیا کا سینٹر آف ایکسیلینس ہے۔ اس ادرے میں ملک سے ہی نہیں بیرون ملک سے بھی لوگ پی ایچ ڈی کرتے ہیں۔ اور یہاں کی وزیٹنگ فیکلٹی میں غیر ملکی ماہرین بھی شامل ہیں۔ اس وجہ سے مجھے بہت سارے غیر مسلم، غیر ملکی اور غیر صوبائ لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اس انسٹی ٹیوٹ سے ہر سال بین القوامی جرنلز میں چھپنے کے لئے بہت سارے تحقیقی مقالے جاتے ہیں اور چھپتے ہیں اور ان میں کوئ روڑے نہیں اٹکاتا۔ حتی کہ اس انسٹی ٹیوٹ کی تعمیر اور ترقی انہی لوگوں کی ڈونیشنز کی وجہ سے ممکن ہوئ جنہیں آپ اپنا دشمن گرداننے میں کوء کسر نہیں چھڑتے۔ اسی انسٹیٹیوٹ سے ہر سال طلباء کی ایک اچھی خاصی تعداد ان ملکوں کے فراہم کردہ وظیفوں پہ جاتی ہے جو آپکے دشمن ہیں۔ پاکستان میں یہ شاید ان گنے چنے اداروں میں شامل ہوگا جو شاید ایک ہاتھ کی پوری انگلیوں پہ بھی نہ آسکیں جہاں کچھ معیاری تحقیق ہو رہی اور جہاں معیاری تحقیق کے وسائل موجود ہیں۔ یہاں میں نے کبھی اس قسم کی بات نہیں سنی کہ انکے پیپر پاکستانی ہونے کی وجہ سے یا مسلمان ہونے کی وجہ سے شائع نہیں ہوتے۔ ہمیشہ پیپر کی واپسی کسی ٹیکنیکل خرابی کی وجہ سے ہوتی تھی اور عام طور پہ اس خرابی کو دور کرنے کے بعد اسے شائع کر دیا جاتا تھا۔
    یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ تحقیقی مقالے کے موضوع پہ اگر پہلے کچھ لکھا جا چکا ہے تو اس پہ آپکی لکھی ہوئ تحریر منظور نہیں ہوگی۔
    صرف اس انسٹیٹیوٹ کے اندر ہی نہیں بلکہ اسکے زیر اہتمام ہونے والی بین الاقوامی کانفرنسز میں بھی میری کافی سارے کراچی کے باہر کے ملکی وغیر ملکی سائنس دانوں سے ملاقات ہوئ اور ان سے بھی میں نے کوئ اس طرح کی شکایت نہیں سنی۔
    ہمارے ہی ملک کے کئ سائنسدانوں کو باہر کے ممالک سے کئ ایوارڈ ملے ہیں جن کی تفصیل میں، میں اس وقت نہیں جانا چاہتی۔ مگر یہ کہنا اور اس بات کا رونا ہمیشہ رونا کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوتی ہے صحیح نہیں ہے۔
    حالت یہ ہے کہ اگر اسوقت آپکے ملک میں موجود بہتری تحقیقی اداروں کو باہر کے ممالک کی سپورٹ حاصل نہ ہو تو وہ اپنے ادروں کو چلا نہ پائیں گے۔ جبکہ ملک میں کثیر رقموں پہ مشتمل علمی وظائف بھی انہی ممالک کی طرف سے آتے ہیں۔ جیسے فلبرائٹ اسکالرشپ۔
    آپ نے جن چیزوں کے حوالے دئیے ہیں میں انکے متعلق کیا کہہ سکتی ہوں۔ یقینی طور پہ یہ چیزیں دنیا کی تاریخ کو زیر زبر کرنے والی چیزین تو نہیں کہ اس میں روڑے اٹکائے جائیں۔ ان چیزوں کے ساتھ کچھ اور حقائق بھی ہوتے ہیں جو اکثر زیب داستاں کے لئے یا تو لگا دئیے جاتے ہیں یا ہٹا دئیے جاتے ہیں۔ مثلا پاکستانی تحقیق دانوں کی آپس میں چپقلش، اور ایکدوسرے کو آگے نہ بڑھے دینے کی خواہش، اہل اور ذہین لوگوں کو فرسٹریٹ کرکے سسٹم سے دور کرنے کی پالیسی، اپنے ارد گرد نکمے اور نا اہل لوگوں کو جمع کرنے کی پالیسی تاکہ وہ اندھوں میں کانے راجہ بنے رہیں۔ یونیورسٹیز میں تحقیقی ماحول کی غیر موجودگی حالانکہ یونیورسٹیز کا بنیادی مقصد ہی یہہی ہوتا ہے ورنہ ان میں اور ایک کالج میں کیا فرق۔
    تحقیق کی دنیا سے وابستہ رہنے اور یونیورسٹی میں ایک استاد کی حیثیت سے وقت گذارنے کی وجہ سے میرے علم میں بھی بہت سارے حقائق ہیں مگر میں انہیں اس سطح پہ بیان کرنا بہتر نہیں سمجھتی۔
    ویسے بھی جس جگہ سائنس کو قدرت کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والا عنصر سمجھا جاتا ہو اور جدیدیت کو لعنت، وہاں اس بات کا رونا کہ ہم معیاری تحقیق کر رہے ہیں کتنی عجیب اور حیران کن بات لگتی ہے۔ تحقیق حریت فکر اور جدیدیت کے ساتھ وابستہ ہے۔
    انڈیا میں اچھے باسمتی چاول ، میں نے تو کھائے ہیں۔ انکا نام مجھے نہیں معلوم تھا۔

    ReplyDelete
  5. پاکستانی تحقیق دانوں کی آپس میں چپقلش، اور ایکدوسرے کو آگے نہ بڑھے دینے کی خواہش، اہل اور ذہین لوگوں کو فرسٹریٹ کرکے سسٹم سے دور کرنے کی پالیسی، اپنے ارد گرد نکمے اور نا اہل لوگوں کو جمع کرنے کی پالیسی تاکہ وہ اندھوں میں کانے راجہ بنے رہیں۔ یونیورسٹیز میں تحقیقی ماحول کی غیر موجودگی حالانکہ یونیورسٹیز کا بنیادی مقصد ہی یہہی ہوتا ہے۔۔

    آپکی مندرجہ بالا باتیں کافی حد تک درست ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ نام نہاد ماہرین کی وجہ سے پاکستان میں پاکستان کے زمینی مسائل سے بے بہرہ کانے راجوں کا پاکستانی اداروں پہ راج کی وجہ سے ، بالکل ناک کے سامنے کے ہزروں قسم کے تکنیکی اور سیاسی مسائل کسی بھی صورت اور مرحلے پہ حل نہیں ہو پارہے۔ علم و ٹھقیق، عالمین اور پاکستان میں جاہل اور فرضی محقیقن عالمین اور ماہرین میں یہ خلیج بدستور دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے۔

    ReplyDelete
  6. آپ نے اتنی لمبی تحریر کی زحمت اُٹھائی ۔ صرف اتنا ہی لکھ دیتیں "میں پی ایچ ڈی ہوں اور سب کچھ جانتی ہوں ۔ تم دو جماعت پاس کیا جانو سائنس کیا اور حقائق کیا" تو کافی تھا۔

    ReplyDelete
  7. مجھے یہ شکایت ماضی میں ان سٹوڈنٹس کی طرف سے سننے میں آئی جو چین میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے ۔ انڈین لابی کے تعلیم یافتہ افراد اب دنیا کے مشہور جریدوں کے ایڈیٹوریل بورڈ یا کمیٹیز پر ہیں چنانچہ پاکستانی طالبعلموں کے پیپرز لٹکائے رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہتے ہیں
    ویسے بھی شاید مغرب نے یہ فیصلہ کر لیا ہےکہ چند منتخب اعلی ساینس کی فیلڈز میں مسلمانوں کا داخلہ بتجدریج بند کر دیا جاے جس میں ایٹمی ، جینیٹکس,سپیس اور روبوٹکس وغیرہ شامل ہیں ۔ اگر کو سر پھرا یہ نسخہ کیمیا حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو جائے تو کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسے واپساپنے ملک نہ جانے دیا جاءے ۔ اگر یقین نہیں آتا تو confessions of an economic hit man پڑھ لیجیے جو Johns Perkins نے لکھی اور جو برسوں آی ایم ایف کا ملازم رہا ۔ اسلامی ملکوں کو اپنے شکنجے میں جکڑنے میں اس شخص کا بہت بڑا ہاتھ رہا

    ReplyDelete
  8. ریاض شاہد صاحب،اتفاق سے میرے بھی کچھ دوست پوسٹ ڈاکٹریٹ کے لئیے چین اور جاپان گئے۔ دراصل میرے ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد ملک میں موجود نہیں ہے۔ مین ملک میں ہوں اسکی وجہ یہ ہے کہ میں نے شادی کرلی اگر میری شادی مزید دو سال رک جاتی تو مین بھی یہاں نہ ہوتی۔
    :)
    خیر مذاق برطرف اگر مجھ سمیت ان تمام لوگوں سے جنہوں نے اس ادارے سے پی ایچ ڈی کی آپ یہ سوال پوچھیں کہ آپ نے سائنس کہ ایک شعبے میں اتنی محنت کے باجود یہاں رہنا پسند کیوں نہیں کیا تو اسکی جو وجوہات سامنے آئیں گی وہ ملک میں تحقیقی اداروں کی شدید کمی، جو ہیں ان میں نہایت کم درجے کی تحقیق اور اعلی درجے کی سیاست نیز سینیارٹی سنڈروم۔ یہ لوگ یونیورسٹیز کو جوائن کر سکتے ہیں مگر وہاں بھی بلندی پہ پہنچی ہوء سیاست اور اسکے داءوپیچ۔ اور یونیورسٹیز مین تحقیقی ماحول کا نہ ہونا ہے۔
    اسکا اندازپ اس بات سے لگا لیں کہ میں نےاین ای ڈی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر شپ کے لءے اپلائ کیا ایک اخباری اشتہار سے معلوم ہونے کے بعد۔ ایک لمبے عرصے بعد مجھے معلوم ہوا کہ وہان میری ایک جاننے والی خاتون کی تقرری ہو گئ ہے۔ میں ان خاتون کو اچھی طرح جانتی تھی، وہ صرف ایم فل کئے ہوئے تھیں۔تو مجھے حیرت ہوئ کہ مجھے انٹرویو کے لئے کیوں نہیں بلایا گیا۔ میں نے اسی یونیورسٹی میں اپنے جاننے والے ایک پروفیسر صاحب سے اس راز کا پتہ چلانے کے لئے کہا۔ پتہ چلا کہ وہ نہین چاہتے تھے کہ اس ڈپارٹمنٹ میں ایک پی ایچ ڈی کو بلانے کا سر درد لے لیا جائے۔ وہاں کسی اور سینیئر ٹیچر نے پی ایچ ڈی نہیں کی ہوئ تھی۔ ہمارا کام تو صرف ماسٹرز سے بھی چل سکتا تھآ۔ میرا سوال یہ تھا کہ پھر اخبار کے اشتہار میں انہوں نے پی ایچ ڈیز کو کیوں لکھا کہ وہ بھی اس پوست کے لئے اپلائ کر سکتے ہیں۔
    تو اس توقیر کے بعد یہ کہنا کہ وہ ہمارے اعلی دماگون کو اور تعلیم یافتہ لوگوں کو اپنے یہاں پھنسا لیتے ہیں کتنا عجیب لگتا ہے۔ اگر کسی شخص کو زندگی میں بہتری حاصل ہونے کے امکان ہیں، وہ اپنے علم کا معیار بھی اعلی سے اعلی درجے تک پہنچانے کے قابل ہو سکتا ہے تو وہ یہاں کیوں رہیگا۔
    بیرون ملک جو اسٹوڈنٹد پی ایچ ڈی کرتے ہیں۔ وہ اپنی انفرادی حیثیت میں اپنا پیپر نہیں بھیج سکتے۔ لازما انہیں اپنے سپروائزر کے ساتھ اس ادارے کے توسط سے اپنی پبلی کشنز بھیجنا ہوتی ہیں۔
    میرے جاننے والے ساتھیوں میں جو بیرون ملک قیام پذیر ہیں انہوں نے کبھی ایسی شکایت نہیں کی۔ البتہ وہ جب بھی یہاں آتے ہیں اور مختلف اداروں میں جاتے ہیں تو ہمیشہ افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ ان میں سے کوئ بھی یہاں واپس نہیں آنا چاہتا۔
    جہاں تک انیوکلیئر سائنس ، فزکس، روبوٹکس اور سپیس کا تعلق ہے ۔ اس پہ پابندی پاکستان کے نیوکلیئر دھماکون کے بعد لگی ہے۔ اگرچہ میں ایٹمی دھماکوں کے خلاف ہوں۔ لیکن ظاہری سی بات ہے کہ مجھ سمیت کسی بھی ذی عقل شخص کو یہ بات سمجھ نہین آتی کہ دنیا میں ایٹمی طاقت صرف چند اقوام کے پاس کیوں رہیں۔ یا تو سبکو تلف کر دینا چاہئیے یا پھراسکے استعمال کو محدود کر کے سبکو اجازت دینی چاہئیے۔ یہاں ہر شخص کو یہ بات سمجھ لینی چاہئیے کہ نیوکلیئر توانائ بھی سگریٹ کی طرح ہماری زمین کی صحت کے لئیے کوئ مفید چیز نہیں۔
    آپ نے جینیٹکس کا تذکرہ کیا ہے۔ میرے کچھ ساتھ ابھ سال بھر پہلے امریکہ سے اسٹیم سیل لائن کی ٹریننگ لیکر لوٹے ہیں۔ اور پاکستان میں اب اس پہ ایک دو جگہ کام بھی ہو رہا ہے۔ یہاں بھی دلچسپی کی بات یہ ہے کہ بیسویں صدی کی آکری تین دہائیوں میں جینٹکس پہ بے حد کام ہوا۔ لیکن پاکستان مین یونیورسٹیز میں ان شعبوں کی کوئ خاص کارکردگی نہ رہی۔

    مجھے خودجینیٹکس میں بڑی دلچسپی تھی۔ معلوم ہوا کہ کراچی یونیورسٹی میں جینیٹکس ڈپارٹمنٹ میں وہ جاتے ہیں جنکو کسی اور شعبے میں داخلہ نہیں ملتا۔
    اجمل صاحب، یہ نتیجہ آپکا اخذ کیا ہوا ہے۔ مجھے اگر یہ بات بتانے مین دلچسپی ہوتی تو میرے بلاگ مین میرے تعارف کے خانے میں یہ سب چیزیں تحریر ہوتیں۔ یہ بتانے کا مقسد صرف یہ ہے کہ ہمارے بنیادی حقائق ہمارے تصوراتی حقائق سے خاصے مختلف ہیں۔ اگر ہمارے تصوراتی حقائق ہی ہمارے بنیادی حقائق ہوتے تو انکے مجوزہ حل کسی نہ کسی کامیابی کو ضرور پاتے۔
    مگر ہمیں ملے، خود کش حملہ آور۔ کیا یہ ہماری کامیابی کا نشان ہیں یا پست ہمتی کا۔

    ReplyDelete
  9. میں یہ جواز قطعی طور پر تسلیم کرنے سے انکاری ہوں کہ عالمی سطح پر طاقتیں تحقیقی مطالعہ جات شائع نہیں ہونے دیتیں اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تو نہیں رکھتا تاہم تحقیقی مزاج ضرور رکھتا ہوں اور میں پاکستان کے بڑے بڑے اداروں کے تحقیقی مقالہ جات کے معیار کا مشاہدہ ضرور کر چکا ہوں۔ ہمارے ہاں ماشااللہ لوگ ادھر ادھر کی ریسرچ مرتب کر دینے اور درمیان میں ذاتی حاشیہ آرائی کو تحقیق سمجھتے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے۔ تحقیق کی مختصر ترین تعریف ہے کہ To add something to the knowldge store.

    ظاہر ہے کہ جو کچھ بھی داخل دفتر کیا جائے پھر وہ واقعی حقیقی بھی ہو اور اس کے ساتھ ٹھوس شواہد بھی ہوں، اس جہت میں اس سے پہلے کام بھی نہ ہوا ہو اور زیر غور معاملہ/مسئلہ اب تک لا ینحل بھی رہا ہو تب اسے تحقیق مانا جائے گا۔

    ReplyDelete
  10. عنیقہ آپ N E D کی کیا بات کرتی ہیں ایسا تو یہاں نجی شعبے میں بھی ہے۔ ابھی حال ہی کا واقعہ ہے کہ ایک سافٹ وئیر کمپنی میں ایک سینئر پوزیشن کے لیے انٹرویو دینے کا اتفاق ہوا۔ میں مقررہ وقت پر وہاں جا پہنچا۔ اب وہاں میرے سامنے دو افراد کا پینل آن بیٹھا۔ ایک تو ذرا ہپ ہاپ قسم کا لڑکا بالاتھا جب کہ دوسرے ٹوپی پہنے بہت ہی گم سم باریش صاحب تھے۔ میں ان کی ذہنی کیفیت بھانپ گیا کہ میری ذہنی سطح ان سے کافی اوپر ہے۔ میری نشست و برخاست ویسے ہی پر اعتماد تھی جبکہ عموما امیدوار ماحول اور پینل کے رعب میں نظر آتے ہیں۔

    سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو مولانا صاحب تو چپ رہے تاہم لڑکا ایک تکنیکی اصطلاح Dependency Injection کا بے محابا غلط استعمال کرتا ہوا نظر آیا اور میری خاموشی کو لاعلمی پر محمول کرتے ہوئے آگے کو نکلنے لگا تو میں نے روک لیا اور پوچھا حضرت آپ اس اصطلاح سے واقف بھی ہیں؟ اب میں نے اسے کتابیں گنوانا شروع کیں کہ یہ تصور پہلے Rod Jhonson کی 2003 میں شائع ہونے والی فلاں کتاب کے فلاں باب میں Inversion of Control کے نام سے متعارف کروایا اس کے بعد فلاں کانفرنس میں پڑھے گئے اس مضمون میں Martin Fowler نے اسے Dependency Injection کا نام دیا اور یہ اس بلا کا نام ہے وغیرہ وغیرہ۔ اب ظاہر ہے کہ میرا پیشہ میرا شوق بھی ہے تو ہر وقت اسی سمت میں دیکھتا رہتا ہوں۔

    خیر قصہ مختصر کہ اس انٹرویو کے بعد اس پینل نے مجھے دوسرے راؤنڈ کے لیے نہیں بلایا اور مجھے علم تھا کہ نہیں بلایا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اگر آپ کی سطح اس پینل سے بلند ہے اور وہ آپ کو ہی کمپنی میں گھسا لیتے ہیں تو آپ ان کے لیے ہی خطرہ ہیں۔ یہی عالم یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں کا ہے۔

    تو بس یہاں یہ ہوتا ہے۔ چلتا ہے۔

    ReplyDelete
  11. بہت شکریہ محسن اس تفصیلی تبصرے کا اور اپنے تجربے میں شامل کرنے کا۔ آپ نے بجا کہا کہ تحقیق کا مطلب پہلے سے موجود علم میں نیا اضافہ ہے۔ یہ بات یہاں بہت سے لوگ نہیں سمجھتے اور اگر انہیں سمجھانے کی کوشش کریں تو روٹھ جاتے ہیں کہ ہمیں کم پڑھا لکھا کہا جا رہا ہے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ