Friday, December 25, 2009

ایک بلاگر کے لئے

آج کیا پکائیں، یہ سوال اکثر خواتین کو صبح سویرے پریشان کرتا ہے۔ وہ جو خود نہیں پکاتیں وہ بھی سوچتی ہیں آج کیا کھلائیں۔ ایسی ہی کیفیت اکثر بلاگرز کی بھی ہوتی ہیں۔ آج کیا لکھیں، اور جو لکھ رہے ہیں وہ سوچتے ہیں کیسے لکھیں۔ اسی ادھیڑ بن میں بننے سے پہلے ادھڑ جاتا ہے۔ اور ہوتا یہ ہے کہ اگلے ہی لمحے وہ خّود کو اس طرح کے کام کرتا پاتا ہے۔ موبائل پہ میسیجنگ یا فیس بک پہ کوئ گیم۔
آپ کسی عظیم موضوع پہ لکھنا چاہتے ہیں تو یاد رکھیں کہ اسکے لئے بلاگنگ کوئ آئیڈیل میڈیا نہیں۔ اس مقصد کے لئے آپکو ناول، دیوان وغیرہ سے نبرد آزمائ کرنی پڑے گی۔ جسکا آپکے پاس وقت نہیں ہوگا۔تو عظیم موضّوع کا خیال دل سے نکال دیں۔ لیکن یہاں میں احتیاطاً بتا دوں کہ اکثر اوقات عظمت کی راہ پہ قدم رکھ دینے کے باوجود چلنے والوں کو نہیں پتہ ہوتا کہ وہ کس قدر عظیم بننے جا رہے ہیں۔
کچھ لوگ اس فکر میں گھلتے رہتے ہیں کہ اگر انکے قلم سے منٹو، یوسفی یا مستنصر کے جیسے الفاظ نہ نکلے تو کیا فائدہ لکھنے کا۔  بلاگنگ کا تعلق تو ویسے بھی الیکٹرونک میڈیا سے ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ  انکی تحاریر پکوڑے لپیٹنے کے کام آجائیں۔ماحولیاتی آگہی کی اتنی فکر کرنیوالے جان رکھیں کہ  اس الیکٹرونک میڈیا میں آپ خود ایک پکوڑے سے کم نہیں۔
کچھ لکھنے والے تبصروں کی مار نہیں سہہ پاتے۔ اور اگر کوئ  نکتہ چیں انکی تحریر کی کرچیاں کرےتو انکا گھر سے بھی نکلنے کو دل نہیں چاہتا۔ اور وہ جا کر انتقاماً مافیا وارز جوائن کر لیتے ہیں۔ ایسے نازک دل اصحاب کو یہی مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ جب اوکھلی میں سر دیا تو موصلوں کا کیا ڈر۔   لکھتے رہیں اور مبصرین کے تاثرات نوٹ کرتے رہیں۔  کچھ دنوں میں تبصرہ نگار آپکی تربیت کر دیں گے کہ کیا لکھنا چاہئیے اور کیا نہیں۔ ورنہ آپ تو ان سے نبٹ ہی رہے ہیں۔
اور اگر آپ اس درد سر مِں نہیں پڑنا چاہتے تو تبصرہ نگاروں کے درمیان خود اترنے کی کوشش نہ کریں۔ انہیں آپس ہی میں سر پھٹول کرنے دیں۔ یہ تو آپکو معلوم ہونا چاہئیے کہ جو جیتا وہی سکندر۔
اگر برسوں اپنی تربیت آپ کرنے کے نتیجے میں لوگ آپکو بندہ ء گستاخ کہنے لگے ہیں تو بلاگنگ آپکے لئے بالکل موزوں ہے اپنے دل کے جلے یہاں پھوڑیں۔ گھر والوں کو خاصہ افاقہ رہیگا۔ اور آپکے پاس بھی لکھنے کے لئیے کچھ نہ کچھ آتا رہیگا۔
اسکے باوجود کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا لکھیں تو کچھ روائیتی مشورے حاضر ہیں۔
کسی کتاب سے اقتباس لکھ دیں۔
اخبار کی کسی خبر کو موضوع بنا لیں یا اسے ہی من و عن چھاپ دیں۔
کسی کالم نگار کا کالم چھاپ دیں ، ہو سکتا ہے اس طرح انکی شہرت میں اضافے کے ساتھ مستقبل میں آپکو انکا تعارف بھی حاصل جائے۔
لیکن ان سب سے بھی دلچسپ یہ ہوگا کہ آپ اپنے شب وروز مِں، اپنے ماحول میں، اپنی روزمرہ کی سرگرمیوں میں کیا چیز دلچسپ دیکھتے ہیں اس پہ لکھنا شروع کر دیں۔ بالکل ایسے جیسے آپ اپنے دوستوں کو یہ قصہ سنا رہے ہوں۔ اسکی آپ فکر نہ کریں کہ آپکی زبان نستعلیق انداز میں لکھی ہے یا وہی روزانہ کی بولی ہے۔ یہ بھی ضرورری نہیں کہ آپکو اس قصے میں جان نظر آرہی ہے یا نہیں۔
اسکی بھی فکر نہ کریں کہ فلاں فلاں بلاگر اتنا زبردست لکھتا ہے اور میں ویسا نہیں لکھ پاتا۔ زندگی کو جس رخ سے آپ برت رہے ہیں۔ وہ رخ انکے پاس نہیں ہوگا۔ مجھے دیکھیں، میں نے سمندر میں گم ہوتا سورج دیکھا ہے مگر درختوں کے جھنڈ میں نہر کنارے سونے والے سورج کو نہیں جانتی۔ برسوں سے رویت ہلال کمیٹی کے سارے جھگڑے کے بعد چاند کی خبر سن لیتی ہوں لیکن خود کسی میدان میں جا کر دیکھنے کے موقع سے محروم۔ نہیں معلوم کہ چلتے چلتے اگر گھوڑا گاڑی کا ٹآئر نکل جائے تو کیا کرتے ہیں۔
اس میں بھی جان تپانے کی ضرورت نہیں کہ میری تحریر پہ کوئ تبصرہ نہیں کرتا یا فلاں کے پاس اتنے لوگ آتے ہیں میرے پاس اتنے کم۔ میں نہیں لکھتا۔ لکھتے رہئیے۔ مجھے یقین ہے لوگ تبصرہ نہ بھی کرتے ہوں تب بھی انکی اکثریت پڑھتی ضرور ہو گی۔ خاص طور پہ وہ لوگ جو اپنی زبان میں کچھ پڑھنا چاہتے ہیں۔
اگر اب بھی آپکو کچھ سمجھ نہیں آرہا تو اپنے بلاگ کو اپنی ڈائری سمجھ کر لکھنا شروع کر دیں۔ لیکن اس میں بہت ذاتی باتیں نہ لکھ ڈالئیے گا۔ جو آپ کسی سے پوشیدہ رکھنا چاہتے ہوں کیونکہ یہ بات کئ صدیوں پہلے معلوم کی جا چکی ہے کہ دنیا گول ہے۔
 

نوٹ؛ مزید مشوروں کے لئیے خوش آمدید۔
 

17 comments:

  1. تبصروں کی تعداد میں کمی کے باعث میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہونے والے بلاگرز آپ کی نظر سے یہ خوبصورت تحریر گزرے تو تھوڑی سی فکر کیجئے۔

    ReplyDelete
  2. اتنی نصیحتیں پڑھنے کے بعد بھی افاقه ناں هو تو
    کھاؤ خصماں دا سر
    جو خود کسی کے خصم هیں وھ ؟
    مینوں وی نئیں پته که کیا کھائیں

    ReplyDelete
  3. واہ جی واہ۔۔ عمدہ لکھا ہے۔۔ ہمارے ایک بہت اچھے اردو بلاگر نے ایک اور اچھا مشورہ دیا تھا کہ جب لکھنے کو کچھ سجھائی نا دے تو پڑھنے میں وقت لگائیں افاقہ ہوگا۔۔ آج کل شاید کافی لوگ ان کے مشورے پر عمل کر رہے ہیں۔۔

    ReplyDelete
  4. نئے بلاگر لکھنا جاری رکھئے۔ ہمت نہ ہاریئے۔ لکھنے والے کا مقصد کبھی یہ نہ ہونا چاہئے کہ لوگ تبصرے کریں گے۔

    ReplyDelete
  5. ابن سعید صاحب، آپ فکر کرنا کب شروع کر رہے ہیں۔
    خاور صاحب، آپ سمجھتے ہیں خصم کسی کا سر نہیں کھاتے۔

    :(
    وہ تو کھانے کے لئیے بڑا بینڈ باجہ بجواتے ہیں۔ اسی لئیے تو لوگ جس سے عاجز ہوتے ہیں اسکی شادی کی فکر اور دعا کرنے لگتے ہیں۔
    راشد کامران صاحب، اس باب میں لوگ کچھ زیادہ فرمانبرداری نہیں دکھا رہے ہیں۔
    شکریہ جاوید صاحب۔
    نئے بلاگرز فرحان دانش سے سبق سیکھیں۔

    ReplyDelete
  6. ایک عرصے کے بعد آج اپنے بلاگ پر ایک تحریر درج کی ۔اور اُس کے فوراً بعد آپ کی اس تحریر تک رسائی ہوگئی۔ ایک لمحہ کے لئے تو ایسا ہی لگا کہ آپ کی یہ تحریر میرے لئے ہی ہے (خوش فہمی )کہ کافی عرصے سے نہ تو کچھ لکھنے کا وقت ملا اور نہ ہی دل و دماغ اس طرف مائل ہوئے سو زبردستی بھی نہیں کی۔ یوں تو شان و شوکت ظاہر کرنے کے لئے افتخار عارف کی زبانی یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ

    جیسے سب لکھتے رہتے ہیں ، مصرعے ، نغمے ، گیت
    ایسے لکھ لکھ کر انبار لگا سکتا تھا میں

    لیکن شاید اُنہی کی زبانی یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ

    آسودہ رہنے کی خواہش مار گئی ورنہ
    آگے اور بہت آگے تک جا سکتا تھا میں

    بہر کیف آپ کی تحریر خوب ہے اور مشورے بھی بہت اچھے ہیں لیکن ۔۔۔۔۔

    ؂ دل ہی نہیں تو دل کے سہاروں کو کیا کروں

    یا

    ؂ کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

    لیکن فکر کی کوئی بات نہیں کہ یہ دل جلتا بجھتا رہتا ہے
    :)

    ReplyDelete
  7. دراصل آپ نے تو دو پوسٹس ایک ساتھ لکھ ڈالی ہیں۔ یہ خوبصورت تبصرہ آپ ہی لکھ سکتے تھے۔
    ہوں، دل کے جلنے بجھنے کا نام ہی زندگی ہے۔

    ReplyDelete
  8. میں تو اب بال بچوں کی فکر کر پاؤں یہی بہت ہے۔ خیر ان دنوں اردو بلاگرز کو بہت فعال ہو کر پڑھ رہا ہوں کہ کچھ تو سیکھ سکوں ورنہ میری جہالت اور کاہلی دو اسی چیزیں ہیں جن کے باعث میں کچھ بھی لکھنے کے قابل نہیں ہوں۔

    ReplyDelete
  9. آپ تو ہمشیرہ ایک کتابچہ چھپوا ہی لیں "ہدایت نامہ بلاگران" وغیرہ وغیرہ :) ویسے آپ نے یہ پی ایچ ڈی نفسیات میں کی ہے کیا؟

    ReplyDelete
  10. @خرم:
    بس معلومات میں اضافے کی خاطر پوچھ رہا ہوں کہ کیا ہمشیرہ ہر بہن کو کہا جا سکتا ہے؟ کیوں کہ اس کا لفظی معنی تو دودھ شریک بہن بنتا ہے۔ ممکن ہے کہ بعد میں اسے بہن کے عمومی مفہوم میں استعمال کیا جانے لگا ہو کیوں کہ ایسا تو اکثر ہوتا ہے زبانوں میں۔

    ReplyDelete
  11. ابن سعید، بات تو آپ نے خرم سے کی لیکن میں نے بھی تجسس میں فیروز اللغات کو دیکھا۔ ہمشیر یا ہمشیرہ دودھ شریک بہن بھائ کو کہتے ہیں یا سگے بہن بھائ کو۔ ہمشیر تو ختم ہو گیا اب زیادہ تر ہمشیرہ استعمال کرتے ہیں۔
    خرم صاحب، کچھ اور کتابچے بھی قطار میں ہیں۔ جی یہ شاید ہر مضمون میں پی ایچ ڈی کی شرط ہوتی ہے کہ انسانی نفسیات پہ تحقیق کئیے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔

    ReplyDelete
  12. جزاک اللہ خیر! اس بات سے قطع نظر کہ جواب کس نے دیا، جو مقصد تھا وہ تو اس لفظ کے رائج مفہوم سے آگاہی تھی۔ خرم بھائی کو صرف اس لیئے مخاطب کیا تھا کیوں کہ انھوں نے استعمال کیا تھا۔ لگے ہاتھوں یہ بھی جاننا چاہتا تھا کہ بحسن اتفاق کہیں اردو کے دو عظیم بلاگر دودھ شریک تو نہیں۔ لفظی معنی تو ظاہر تھا ہی۔ شیر کا مطلب فارسی میں دودھ ہوتا ہے اس کے بعد ہمشیر تو ایسے ہی ہے جیسے ہم پیالہ، ہم نوالہ، ہمرکاب، ہم نشین، ہم زلف، ہم عمر، ہم عصر، ہمدم، ہمراہ، ہم جماعت، ہم زبان، ہم مسلک، ہم راز، ہمدرد، ہمنوا، ہم خیال، ہم نام اور ہم سفر وغیرہ۔

    ReplyDelete
  13. :)
    :)
    :)
    ہوں بڑی دور کی لائے آپ۔ خدا بہتر جانتا ہے۔ ہم دونوں نے ممکن ہے ایک ہی برانڈ کا دودھ پیا ہو۔ لیکن کیا ایک ہی برانڈ کا دودھ پینے والے دودھ شریک ہو جاتے ہیں۔ یا ایک بھینس کا دودھ پینے والے۔ عقل کہتی ہے کہ جب تک پی رہے ہیں اس وقت تک تو شریک ہی ہیں۔
    :)

    ReplyDelete
  14. ہاہاہا ۔۔۔۔ بہت اعلی تحریر ہے۔ میں اس پوری تحریر میں خود کو ڈھونڈتا رہا اور یہ راز بھی پایا کہ آپ دوسروں کے بارے میں بہت فکر مند رہتی ہیں اور آپ کی بیشتر تحاریر دوسروں کی شحصیات و نظریات پر ہوتی ہے۔ بہت اچھی بات ہے، اپنے ارد گرد کے لوگوں کے بارے میں اتنا زیادہ سوچنے والے لوگ اب کہاں ملتے ہیں۔

    ReplyDelete
  15. ابو شامل، دوسروں کے نظریات ہی پکڑنے پڑتے ہیں اپنے پہ تو میری خوب خبر گیری ہوتی ہے۔
    :)
    نہیں مجھے اتنا زیادہ نہیں سوچنا پڑتا، ارد گرد لوگ ہی اتنے زیادہ ہیں۔ سولہ کروڑ۔ اور اس قسم کے لوگ آپکو مارکیٹنگ کی دنیا میں بہت ملیں گے۔ یقین نہ ہوتو موبائل فون کے اشتہار دیکھ لیں۔

    ReplyDelete
  16. کسی بھی بلاگر کے لیئے بہت پتے کی کارآمد باتیں ہیں کچھ اس تحریر میں۔مجھے اپنے لیئے تو ایسا ہی لگا ہے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ