Sunday, December 27, 2009

صرف ایک بچی کی ماں

ابھی کچھ دنوں پہلے کسی نے میری طنزیہ تعریف فرمائ کہ بتاءوں آپ کیا ہیں، آپ ہیں ایک بچی کی ماں۔ اپنی دانست میں تو انہوں نے مجھے میری اوقات یاد دلائ۔ لیکن ہوا یوں کہ یہ میری زندگی میں حاصل ہونے والی سب سے بہترین تعریف ہے۔ آج کا دن میری زندگی کا شاید سب سے پر مسرت دن ہے کہ آج میری بیٹی ہماری دنیا میں آئ۔ آج اسکی تیسری سالگرہ تھی۔ سو آج کی یہ پوسٹ مشعل کے نام۔
لیکن اپنی اصل میں یہ ان تمام ماءووں کے نام ہے جو ایک یا کئ مشعلوں کی ماں ہیں۔ جو اپنی صلاحیتوں، اپنے علم،اپنے مرتبے کو اپنی اولادوں کی تربیت اور بہتر مستقبل کے لئے استعمال کرتی ہیں  یا اس پہ قربان کرتی ہیں۔   مائیں عظیم ہیں اور وہ محض تخلیق کا پرزہ نہیں بلکہ انکے ہاتھ میں اس کائنات کی باگ ہے۔ لیکن اسے مہارت سے پکڑے رکھے رہنے کے لئیے  اپنے آپکو گرد و پیش میں ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ رکھنا جتنا ایک ماں کے لئے ضروری اتنا کسی کے لئے نہیں۔ اسی لئے تو کسی دانا نے کہا تھا کہ تم مجھے بہترین مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دونگا۔
ہاں تو آج میری بیٹی تین سال کی ہوگئ۔ ہر ماں باپ کی طرح مجھے بھی وہ غیر معمولی عادات اور دماغ کی حامل لگتی ہے۔ اور اسکی مسکان اور اسکا آ کر یہ کہنا کہ میں آپکو پیار کرنا چاہتی ہوں میرا دل پگھلا کر پانی بنا دیتا ہے۔
ویسے تو میں نے اسے گھر میں پڑھا پڑھا کر قابل بنانے میں کوئ کسر نہیں چھوڑی۔ اور اسکے لئے میں نے روائتی طریقے استعمال نہیں کئے۔ بلکہ گھر میں کھیل ہی کھیل میں، باتیں کرتے، واک کرتے، کھانا کھاتے،  ٹی وی دیکھتے، جہاں جہاں موقع ملتا ہے وہاں وہاں میں اسکے کان میں باتیں ڈالتی رہتی ہوں۔ ان تمام سرگرمیوں کو جاننے کے لئیے میں نے نیٹ پہ کافی سرچ کی۔ اور جتنی بھی دلچسپ اور کام کی ویب سائٹس تھیں انہیں مارک کر لیا۔ اور اب بھی مختلف سائٹس کو چیک کرتی رہتی ہوں۔ اس لحاظ سے نیٹ نے میری کافی مدد کی، اسکی دیکھ بھال سے لیکر تربیت تک میں۔  اور شاید اب اسکول والوں کا دماغ کھانے میں بھی۔
تو جناب یہ ساری چیز اتنے بہترین طریقے سے چل رہی تھی کہ ابھی تک اسے کسی اسکول میں ڈالنے کی ضرورت بھی نہیں پڑی اور میں سوچ رہی تھی کہ شاید پہلی کلاس تک ضرورت بھی نہ پڑے گی۔ لیکن اب انکی حد سے بڑھتی ہوئ سرگرمیوں اور ہم عصروں کے دباءو کی پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا  کہ انہیں کسی مناسب اسکول کے حوالے کیا جائے۔ اگرچہ کہ اب بھی سوچتی ہوں کہ پڑھائ کی مد میں وہ وہاں کیا کریں گی۔ اور اسکول والے کہیں اس سارے عمل کو سست نہ کر دیں۔
یہ ہم عصر انکے نہیں ہمارے ہیں۔ اور یوں لگتا ہے کہ جو بچے ڈیڑھ برس کی عمر میں کسی پلے اسکول یا ڈھائ برس کی عمر میں کسی اسکول کے حوالے نہ کئیے گئے تو انکے والدین کوئ جرم کر رہے ہیں۔ حالانکہ سچ پوچھیں تو مجھے اتنے چھوٹے بچوں پہ یہ ظلم لگتا ہے۔ یہ انکی عمر ہے کہ انہیں اپنے ارد گرد کے ماحول کو خود برت کر آزادی سے سیکھنے کا موقع دیا جائے۔ لیکن اتنی چھوٹی عمر میں انہیں اسکول کے ڈسپلن کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ مجھے یہ بالکل پسند نہیں۔ لیکن مری بیٹی کی اوسط سے تھوڑی زیادہ لمبائ اور انکی باتیں بنانے کی رفتار کی وجہ سے شاید ہی کوئ شخص ہو جو یہ نہ پوچھتا ہو کہ کونسی کلاس یا کونسے اسکول میں پڑھتی ہے آپکی بیٹی۔ اور جواب انکار کی صورت میں ہونے کے بعد وہ ہماری لاپرواہی پہ خاصہ حیران ہوتے ہیں۔

 چلیں یہ تو ابتدائ مشکلات ہیں۔ لیکن جس چیزکی مجھ سمیت ہر ذمہ دار ماں کو فکر رہتی ہے وہ ہمارے معاشرے کی زبوں حالی ہے۔ میں اپنی بیٹی کو کیا بنانا چاہتی ہوں۔ میں اسے صرف ایک عورت نہیں بنانا چاہتی۔ اس کائنات کے اندر پھیلے علم میں اسکا بھی حصہ ہے جو اسے ملنا چاہئیے۔ وہ عقل اور شعور  رکھتی ہے اور اسے کسی بھی بہترین انسان کی طرح اسے استعمال کرنا آنا چاہئیے۔ اسے محض ایک ذمہ دار عوت نہیں ذمہ دار انسان بننا ہے جو اپنے ماحول کی بہتری کے لئے اپنی قدرتی صلاحیتوں کو استعمال کر سکے۔ جسے اسے دینے میں خدائے پاک نے کسی بخل سے کام نہیں لیا۔
لیکن اس ٹہرے ہوئے معاشر ے کی بدبو دور کرنے کے لئے ہم جیسی ماءووں کو کیا کرنا چاہئیے۔ کیونکہ یہ تو واضح ہو رہا ہے کہ فی الحال ہم مزید بگاڑ اور مزید بگاڑ میں جا کر بھی شاید دم نہ لیں۔

15 comments:

  1. آپ سب کو یعنی مشعل اور اس کے اماں ابا کو میری جانب سے سالگرہ مبارک
    خوشی کے موقع پر تو اتنی جلی کٹی باتیں نہ کیا کریں
    اس ے لئے تو ساری زندگی پڑی ہے۔۔

    ReplyDelete
  2. شکریہ جعفر، ٹیکنیکلی تو یہ کل کا دن تھا۔ مگر کل مصروفیت کے باعث اسے پوسٹ نہ کیا جاسکا۔ تو آج تو ایسی باتیں کر سکتی ہوں ناں۔
    :)
    آج میں نےجنگ میگزین کھولا تو اس میں بھی اشاعت خصوصی میں پاکستان میں دہشت گردی اور بچوں پہ انکے اثرات کے حوالے سے تذکرہ کیا گیا ہے۔ میرے خیال میں موجودہ حالات ہر والدین کو فکرمند کر دیتے ہیں۔ جب ہم بچوں کو خوش رکھنے کے لئیے اپنے گھر کے ماحول کو خوشگوار رکھنا چاہتے ہیں تو بچوں کی دنیا بھی تو گھر کے اندر نہیں ختم ہو جاتی۔ جب ہم انکے بہتر مستقبل کے لئے ابھی سے انکی تعلیم اور آنےوالے دنوں کا ایک ان دیکھا خاکہ بنانے لگتے ہیں تو یہ بھی تو خیال آتا ہے کہ آنیوالے دنوں میں انکے ارد گرد کا ماحول کیسا ہوگا۔ یہ معاشرہ ان کے لئے کس طرح مددگار ثابت ہوگا۔

    ReplyDelete
  3. سب سے پہلے تو دلی مبارکباد مشعل کو اور آپ سبکو!
    دوسری بات ان لوگوں کے کہے کا کیا برا منانا جو دوسروں کے علم کو اپنی عالمیت ظاہر کرکے لوگوں کو مرعوب کرتے پھرتے ہیں،بڑی مشکلوں سے تو انہیں اس بات پر راضی کیا گیا ہے کہ جب کسی کتاب یا کالم میں سے کوئی مواد چھاپیں تو اس کا حوالہ ضرور دیا کریں مگر پھر بھی کبھی کبھی ڈنڈی مارنے سے باز نہیں آتے!
    عورت کو اپنے برابر نہ سمجھنا ان کے علاقے کی روایات میں شامل ہے کچھ یہودیوں جیسی ذہنیت ہے کہ ہر گناہ کی ذمہ دار عورت ہے اگر کوئی قابل احترام رشتہ ہے تو وہ بس ماں کا ہے وہ بھی کسی کسی کے لیئے!
    ویسے آپ پریشان نہ ہوں اگر گھر سے بنیاد مضبوط ہوگئی تو آپ کی بیٹی ہر جگہ ڈٹ کر مقابلہ کرے گی بلکل آپ کی طرح :)
    اپکو اپنی تربیت اور اسکی صلاحیتوں پر اعتماد رکھنا چاہیئے ،بیسٹ آف لک :)

    ReplyDelete
  4. اللہ آپ کی بیٹی کو لمبی عمر ۔ صحت ۔ خوشی اور خوشحالی سے نوازے

    ایک بات یاد رکھیئے کہ غلط بیانی اچھی عادت نہیں ہے ۔ مثال آپ کا مندرجہ ذیل فقرہ ہے
    "کسی نے میری طنزیہ تعریف فرمائ کہ بتاءوں آپ کیا ہیں، آپ ہیں ایک بچی کی ماں۔ اپنی دانست میں تو انہوں نے مجھے میری اوقات یاد دلائ"۔

    آپ کی یاد دہانی کیلئے میں متعلقہ مکالمہ نیچے نقل کر رہا ہوں ۔ یہ مکالمہ میری تحریر " دریائے سندھ ۔ کچھ حقائق " پر ہوا تھا جو مندرجہ ذيل ربط پر موجود ہے
    http://www.theajmals.com/blog/2009/12/10

    عنیقہ ناز صاحبہ نے لکھا " ۔ ۔ ۔ اب آپ مجھے کس تعریف پہ پورا اتارنا چاہ رہے ہیں ۔ ۔ ۔"

    افتخار اجمل بھوپال نے لکھا " ۔ ۔ ۔ آپ نے اپنی تعریف بھی مجھ سے پوچھی ہے ۔ میں شریف لوگوں سے شرافت سے پیش آتا ہوں اسلئے بتا دیتا ہوں کہ آپ کی تعریف کیا ہے “آپ ایک بچی کی ماں ہیں”۔ درُست ؟
    [مُسکراتے ہوئے تین سمائیلیز]

    عنیقہ ناز صاحبہ نے لکھا "جی آپ نے میری درست تعریف فرمائ کہ میں ہوں ایک بچی کی ماں، باپ نہیں۔ ورنہ باپ تو آپ بھی کئ بچوں کے ہیں اور ماشاءاللہ سے ایک پوتی کے دادا بھی۔ کیا اپکو کئ بچوں کے باپ ہونے پہ کوئ شرمندگی ہے یا آپ اسے اپنے لئے حقیر جانتے ہیں یا آپ کسی بحث میں اپنے لئے سننا پسند کرتے ہیں۔ ایک بچی کی ماں تو وہ اسرائیلی عورت بھی تھی جس کا آپ نے اپنی ایک پوسٹ میں حوالہ دیا"

    افتخار اجمل بھوپال نے لکھا
    "عنیقہ ناز صاحبہ
    مختلف جگہوں پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ نے میری ذات کے متعلق سخت باتیں لکھیں مگر ان کا مجھ پر کوئی بُرا اثر نہ ہوا لیکن آج کی
    تحریر پڑھ کر دُکھ ہوا ہے کہ آپ اتنا پڑھ لکھ کر بھی احساسِ محرومی کا شکار ہیں ۔ ایک بچی کا باپ ہونا بھی میرے لئے اچھی بات ہے اگر یقین نہ ہو تو اسی بلاگ پر مندرجہ ذیل ربط پر میری ساڑھے چار سال پرانی تحریر پڑھ
    لیجئے
    http://www.theajmals.com/blog/2005/06/08
    لیکن ایک بچی کی ماں ہونا قابلِ احترام ہے
    ذاتی اور غیر ذاتی کا آپ نے ذکر کیا ۔ جو کچھ میری طرف سے آج تک تجاوز ہوا اُس کیلئے میں معذرت خواہ ہوں آئیندہ اِن شاء اللہ اس کا پورا خیال رکھوں گا"

    ReplyDelete
  5. غالب کو پرا کیوں کہو؟ اچھآ میرے آگے

    ReplyDelete
  6. بی بی!
    اللہ سبحان و تعالٰی آپ کی بچی کی عمر دراز کرے اورہمیشہ خوش رکھے۔آمین

    آپ رقم طراز ہیں "میں اپنی بیٹی کو کیا بنانا چاہتی ہوں۔"

    بچوں کی درست تربیت، صحیح نشو نما اور مناسب رہنمائی کرنا والدین کے فرائض میں آتا ہے۔ بچوں کو ٹارگٹس نہیں دینا چاہئیں، نہ ہی ان کےلئیے اہداف مقرر کریں کہ انھیں کیا بننا ہے۔ یہ بات ایک مسلم حقیقت ہے کہ ایک بچہ اپنے سیکھنے کے عمل کے دوران جو کئی سالوں پہ محیط ہوتا ہے۔ اس عمل کے دوران وہ بارہا اپنی ترجیجات بدلتا ہے۔ اسلئیے ایسے موقعوں پہ اُسے مناسب حد تک رہنمائی کرنا والدین کا فرض بنتا ہے مگر بچے کو والدین کی ترجیجات کے مطابق "کچھ بنانے" کا روائیتی رویہ درست نہیں۔ ایسا کیے جانے سے عام طور پہ بچے والدین کو مایوس کرتے ہیں اور خود بھی اپنی تعلیمی استعداد اور صلاحیتوں سے مطمئین نہیں ہوتے۔ ایک صحت مند اور خود اعتماد انسان بننے کے لئیے بچے کی نشو نما کے ساتھ ساتھ اسکی تعلیم میں اس کے مستقبل کے ارادوں کے بارے میں والدین کا باعلم رہنا اور بچوں کےمناسب ارادوں اور فیصلوں پہ والدین کی طرف سے اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہی بچوں کو مستقبل میں معاشرے کے لئیے باصلاحیت، کار آمد اور خود اعتماد شہری بنانے میں نمایاں کردار ادا کرنا ہے۔

    آپ نے پاکستان میں ہر طرف پھیلی دہشت گردی اور اسطرح کے دوسرے مسائل کی وجہ سے اپنی بچی کے مستقبل کے حوالے سے قدرے پریشانی کا اظہار بھی کیا ہے۔ بی بی جوآپ کے ایک ماں ہونے کے ناطے سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ اسلئیے پاکستان میں ہم سب کو یہ کوشش کرنی چاہئیے کہ معاشرے میں عدم توازن ختم ہو اور اسلام کے بتائے ہوئے سنہرے اصولوں کے تحت ہم اپنے "وسائل" کو دوسروں کے ساتھ بانٹیں اور یہ "وسائل" خواہ جنہیں ہم بلاشرکت غیرے اپنی ملکیت سمجھنے میں ہم قانونی و اخلاقی طور پہ ہر صورت جائز ہی سمجھتے ہوں۔ مگر ایسے بیش قیمت "وسائل" پہ کئی صورتوں میں دوسروں کا بھی حق بنتا ہے، ضروری ہے کہ ہم ایک متوازن معاشرہ تشکیل کرنے کے لئیے "وسائل" کے مصرف اور صارفین کو بھی متواز کریں ورنہ ہم اور ہماری آئیندہ نسلیں ہمیشہ اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے پریشاں رہیں گی۔

    محترم اجمل صاحب! کی بات اگر ویسے ہی جیسے انھوں نے بیان کی ہے تو میری ذاتی رائے میں انھوں نے آپ کو "ماں" ہونے کا مقدس رُتبہ دیا ہے۔ بہت ممکن ہے۔ شروع میں انہوں نے ازراہِ تفنن آپ کو "ایک بچی کی ماں" کہہ کر مخاطب کیا ہو، مگر اسمیں آپ کی تحضیک کا کوئی پہلو برآمد نہیں ہوتا۔ بہت سے مختلف معاشروں میں کسی کو یوں مخاطب کرنے سے باہمی اعتماد کا اظہار سمجھا جاتا ہے۔

    اللہ تعالٰی آپ کی بچی مشعل کو نیک وباصلاحیت بیٹی بنائے۔ اور انھیں ڈھیرں و ڈھیر خوشیاں عطا کرے۔آمین

    ReplyDelete
  7. پہلے تو بچی کی سالگرہ مبارک۔ پھر ہم اس کے بہتر مستقبل کیلیے دعا گو ہیں۔
    ہم بھی اجمل صاحب کو عرصہ چار سال سے جانتے ہیں انہوں نے کبھی بھی کسی کو تب تک برا بھلا نہیں کہا جب تک کوئی ان کا ناک میں دم نہ کر دے۔
    انہوں نے اپنے بارے میں جو صفائی پیش کی ہے اس میں الٹا مطلب اخذ کرنا مناسب نہیں۔
    آپ کوشش کیا کیجیے کہ بحث کو احترام کیساتھ آگے بڑھایا کریں۔

    ReplyDelete
  8. میری بہن آجکل انٹرنیٹ خوب استعمال کررہی ہیں اور آپ کے بلاگ سے کافی متاثر ہیں۔ ان کی بھی دو بیٹیاں ہیں۔ ، میرے خیال میں آپ کی اس پوسٹ پر وہ ضرور کچھ کہنا چاہیں گی۔

    ReplyDelete
  9. شکریہ عبداللہ۔
    اجمل صاحب آپکا شکریہ۔ اسی تحریر کے حوالے سے کہونگی کہ کہ بات کا موضوع اور نہج بہت مختلف تھا اور آپ نے اسکے بیچ میں یہ فقرہ کہہ دیا۔ اس سے پہلے اسی قسم کا ایک جملہ آپ نے میری ایک پوسٹ بین السطور کے تبصرے میں بھی لکھا۔ میں نے اس وقت اسے مذاق سمجھکر نظر انداز کیا۔ لیکن جب آپ نے دوبارہ یہی بات ایک سنجیدہ موضوع کے درمیان کہی تو میں نے اسے سنجیدگی سے لیا۔ میری جگہ کوء صاحب آپ سے یہی گفگتو فرما رہے ہوتے تو کیا آپ انہیں بھی کہہ دیتے کہ آپ کی تعریف یہ ہے۔ نہیں آپ ایسا نہیں کہتے۔
    احساس محرومی کے حوالے سے میں یہی کہہ سکتی ہوں کہ آپ کیونکہ مجھے ذاتی طور پہ نہیں جانتے اس لئیے اس طرح سوچا۔ دوسرے یہ کہ آپ میری تحریر کے بین السطور میں سے گذرنے کے بجائے اسے بہت سطحی طور پہ لیتے ہیں اس لئیے ایسا سوچتے ہیں۔ یہ بلاگ میری ذاتی زندگی یا اس سے متعلق چیزوں کے لئیے نہیں ہے۔ اس میں آنیوالے مسائل کا بھی سامنا میں بہت کم کرتی ہوں لیکن میں دوسروں کی تکلیف کو سمجھتی ضرور ہوں اور انہیں اسی طرح سمجھنا چاہتی ہوں جس طرح وہ ان سے گذرتے ہیں۔ یہ مشکل آپکے ساتھ نہیں، دوسروں کے ساتھ بھی ہوتی ہے جب لکھنے والا کسی اور کے مسائل پہ گفتگو کرتا ہے بیشتر پڑھنے والے اسے تو لکھنے والے کی ذاتی زندگی سمجھتے ہیں۔ اب آپ کے اس جملے کے بعد میرے ذہن میں دو چیزین آتی ہیں کہ یا تو آپ سمجھتے ہیں کہ میری چونکہ ایک اولاد ہے اور وہ بھی بچی تو مجھے احساس محرومی ہوگا یا یہ کہ مجھے اپنے خاتون ہونے کا احساس محرومی ہے۔ حالانکہ میرے جیسے بقول آپ سب لوگوں کے روشن خیال شخص کو، جو کہ ایک روشن خیال پس منظر سے تعلق رکھتا ہو اور جسے پاکستان کے سب سے زیادہ روشن خیال شہر میں اپنی تمام زندگی گذارنے کا موقع ملا ہو، کیا اسکے لئیے ان میں سے کوئ بھی بات اہمیت کی حامل ہوسکتی ہے۔ لیکن قدرت نے اگر مجھے یہ خوش قسمتی دی ہے تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ میں دیگر لوگوں کو پیش آنیوالی مشکلات کا اندزہ نہ کروں یا ان پہ گفتگو نہ کروں یا اپنے ارد گرد کے لوگوں کی عمومی نفسیات کو سامنے رکھ کر انکے روئیے کو نہ سمجھوں۔
    میں اپنے کسی بھی ساتھی کے معذرت مانگنے سے خاصی شرمندہ ہوتی ہوں۔ خاص طور پہ آپ جیسے ضعیف شخص کی معذرت سے۔ میرے لئیے کسی بھی شخص کا یہ کہنا کافی ہے کہ وہ خیال رکھنے کی کوشش کریگا۔
    اجمل صاحب،میں نے کسی کا ناک میں دم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ آپ خود بتائیے، جب میں آپکے صحیح نام سے بھی واقف نہیں تو آپکا ناک میں دم کیسے کر سکتی ہوں۔ ہاں میں آپ سے یا کسی سے بھی مختلف خیالات ضرور رکھتی ہوں۔ مجھے انکے اظہار کا بھی حق ہے۔ میں نے تو آج تک کسی کے لئیے کبھی نہیں کہا کہ اس نے میرا ناک میں دم کر دیا ہے۔ یقینی طور پہ اگر ہم بہ نفس نفیس ملیں تو صورتحال اور بات چیت شاید بہت مختلف انداز میں ہو۔ اگر آپ میرا کوئ بھی ایسا تبصرہ یا تحریر نکال دیں جس میں میں نے کبھی نظریات یا لکھی گئ تحریر کے علاوہ کسی شخص پہ کوئ جملہ کسا ہو تو میں ضرور اپنی غلطی تسلیم کروں۔ لیکن تحریر تو آپ نے اسی لئیے دی ہے کہ لوگ اس پہ اظہار خیال کریں۔
    جی ہاں، یہ میرا نقص ہے کہ میں جملوں میں رشتے داریاں نہیں بناتی۔ کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ جب بات کھل کر ہو رہی ہو تو یہ چیز اس میں رکاوٹ ڈال دیتی ہے۔ اگرچہ باتوں کو گول مول انداز میں یا ڈھکے چھپے لفظوں میں بیان کرنا ہمارے جنوبی ایشیائ علاقوں میں خاصی پسندیدہ بات سمجھی جاتی ہے۔ لیکن میرے خیال سے اس طرح کافی الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہ چیز ہم اپنے گھریلو مسائل میں بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ اس لئیے میں یہ چاہتی ہوں کہ کسی بھی بات کو بالکل سیدھے انداز میں کہہ دوں تاکہ کوئ وقت ضرورت اس میں سے دوسرے معنی نہ نکالے۔ یہ چیز میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مصائب جھیلنے کے بعد سیکھی ہے۔
    جاوید صاحب، آپکی اس بات سے سو فی صد متفق ہوں کہ بچوں کے ذہن میں انکے مستقبل کے حوالے سے چیزیں نہیں ڈالنی چاہئیں۔ اور انہیں آزادی ہونی چاہئے کہ وہ اپنی راہ خود چنیں۔ اسی لئیے میں نے یہ نہیں لکھا کہ میں اپنی بیٹی کو خلاباز یا محقق بنانا چاہتی ہوں۔ لیکن اچھا انسان یا اپنے ارد گرد کے لوگوں کا احساس کرنے والا اور اپنی صلاحیتوں کو مثبت سمت میں لیجانے والے انسان کے بننے کی تلقین تو کر سکتے ہیں ناں۔ میرا خیال ہے کہ میرے جملے کی ساخت صحیح نہیں اور مجھے اسے اس طرح لکھنا چاہئیے تھآ کہ میں اپنی بیٹی کو کیسا دیکھا چاہتی ہوں۔ کیا میں صحیح سوچ رہی ہوں۔
    :)

    ReplyDelete
  10. اوپر میں نے غلطی سے میرا پاکستان کی جگہ اجمل ساحب کا نام لکھ دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ میرا پاکستان صاحب اپنی بات اس میں سے نکال لیں گے۔
    نعمان، آپکی بہن کو پیشگی خوش آمدید۔
    :)
    میرے فیس بک اکاءونٹ کے ساتھ کچھ مسئلہ ہو گیا ہے۔ اس لئیے تمام لوگوں کو یہاں شکریہ کہہ رہی ہوں۔ کوئ دوست چاہے تو میری طرف سے ایک معذرت ڈال دیں کہ میں انکی نیک تمناءووں کا فی الوقت جواب نہیں دے سکتی۔

    ReplyDelete
  11. ميں ليٹ ہونے پر معذرت خواہ ہوں مگر خير ، بيٹی کو ميری اور اسکی تين سہيليوں کی جانب سے سالگرہ مبارک ہو سکول ضرور داخل کروائيں مگر تھوڑے وقت کے ليے بس سکول کے ماحول سے عادی ہونے کے ليے، مجھے اچھا لگا ہے آپ اپنی بچی پر اتنی محنت کر رہی ہيں اس معاشرے ميں جہاں اکثريت ماؤں کا کام ہر وقت رونا دھونا اور ٹی وی فيشن وغيرہ اور انکے مردوں کا کام ہم آپ جيسی خواتين کو يوں ديکھنا جيسے ان کی خواتين بہت بہتر اور ہم پتہ نہيں کيا ہيں نتيجتا پاکستانی معاشرے کا حال ديکھ ليں؛ پھر مقابلہ کرنے بيٹھوں تو رويہ ديکھيں ميری تين بيٹيوں کو ديکھ کر پيرس ميں لوگ بہت خوشی کا اظہار کرتے ہيں کہيں گھومنے چلوں تو رک کر تعريف کرتے ہيں اور ساتھ تصويريں بناتے ہيں کوئی پاکستانی مل جائے تو ايک جيسے فقرے سننے کو ملتے ہيں ہائے تين بيٹياں اللہ بيٹا دے گا تو مجھے سخت غصہ آتا ہے بس يہ سائيکی ہے پاکستانی پڑھے لکھے اور ان پڑھ کی جسے تبديل کرنے کے ليے ايک صدی بھی کم پڑے گی

    ReplyDelete
  12. "اسے محض ایک ذمہ دار عوت نہیں ذمہ دار انسان بننا ہے جو اپنے ماحول کی بہتری کے لئے اپنی قدرتی صلاحیتوں کو استعمال کر سکے۔ جسے اسے دینے میں خدائے پاک نے کسی بخل سے کام نہیں لیا۔"
    اس جملے نے مجھے حیران کر دیا ہے۔ ایسا لگا جیسے آپ کہہ رہی ہیں کہ عورت انسان نہیں یا شائد یہ کہ عورت ہونا کچھ کمتر بات ہے۔ غلط نہ ہوگا اگر کہوں کہ ان دو جملوں نے تمام تحریر کی نفی کردی۔

    ReplyDelete
  13. شکریہ اسماء، اور مشعل کی سہیلیوں کا بھی شکریہ۔ میری بیٹی کا بھی یہی حال ہے۔ میں ابھی کچھ عرصے ملک سے باہر رہی۔ اور یہی کہتی رہی کہ انکی تصویریں خدا جانے کس کس کے پاس ہونگی۔ محترمہ کو دوستیاں کرنے کا بہت شوق ہے۔ ہاں، یہ بات احثر میں بھی سنتی ہوں بلکہ لڑکیوں کی تعلیم اور تربیت کے حوالے سے بھی اکثر مزیدار تبصرے سننے کو ملتے ہیں۔ ان پہ ایک الگ پوسٹ لکھنے کا ارادہ ہے۔
    خرم صاحب، لگتا ہے آپ بہت دنوں سے پاکستانی معاشرے سے بہت ظاہری سی ملاقات کر رہے ہیں۔ یہ بات عام طور پہ سمجھی اور کہی جاتی ہے کہ اصل میں عورتوں کی سرگرمیاں بہت محدود ہوتی ہیں اور انہیں ان پہ ہی توجہ دینا چاہئیے۔ میں نے اس پہ ہی اشارہ کیا ہے۔اور کوئ بات نہیں۔ یہ بلاگ بنیادی طور پہ تو پاکستانیوں کے لئیے ہے۔ غیر پاکستانی اور وہ پاکستانی جو ایک طویل عرصے سے باہر ہوں اکثر یہ ساری باتیں بھول جاتے ہیں اور ایسے ہی حیران ہوتے ہیں۔
    یہ بالکل ایک عام بات ہے جسے عام طور پہ کہا جاتا ہے کہ عورتوں کو تو اللہ نے مردوں سے کم پیدا کیا ہے۔ اور اسی وجہ سے انکے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ میرے لئیے یہ تب بڑِی حیرانی کی بات ہوتی ہے جب کوئ پاکستانی یہ کہتا ہے کہ آپ نے یہ کیسے کہہ دیا۔ لگتا ہے آپکو کوئ احساس محرومی ہے۔ میں جوابا یہی کہہ سکتی ہوں کہ اگر آپ نے یہ سنا اور دیکھا نہیں تو آپ پاکستانی معاشرے کو نہیں جانتے۔ یا یہ کہ آپ نے کبھی اسے در خوراعتناء نہیں سمجھا۔

    ReplyDelete
  14. خرم صاحب۔ ابھی کچھ عرصے پہلے ہی ایک اردو بلاگ پہ پڑھا تھآ کہ آپ کیسا اسلام چاہتے ہیں۔ اور پھر انہوں نے ایک لمبی لائن اس تصوارتی اسلام کی دی جو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگ چاہتے ہیں جو بے دین قسم کے ہیں۔ اور اس میں ایک جگہ لکھا کہ
    'عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دئیے جائیں اور انہیں پوری آزادی حاصل ہو مرد عورت کی اجازت کے بغیر گھر سے قدم باہر نہ نکال سکیں۔ مردوں کو بچہ جنم دینے پر انعام دیا جائے تاکہ مردوں کا احساس محرومی ختم ہو۔ عورتوں کو بھی ملازمتوں میں برابر کے مواقع ملیں۔ عبادت گاہوں میں بھی عورتیں امام، پادریہ، اور پنڈتانیاں ہوں'۔
    لیجئیے جناب ایک عمومی سوچ یہ ہے۔ اب آپ ان سے پوچھیں کہ عورت کو کیوں ملازمت کے برابر حقوق نہیں حاصل ہونے چاہئیں۔ اس جملے میں بہت ساری جواب طلب باتیں ہیں ۔ جنکے پنڈورا بکس کو میں اس وقت نہیں کھولنا چاہتی۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ