Tuesday, January 5, 2010

تقلید اور جدیدیت-۲

اپنی پچھلی پوسٹ میں میں نے قاسم امین کا تذکرہ کیا تھا۔ یہ بات تسلیم کرنے میں مجھے کوئ عار نہیں کہ میں نہیں جانتی تھی کہ قاسم امین کون ہے۔ مجھے بھی یہ لائنیں پڑھ کر پتہ چلا کہ یہ بھی کوئ صاحب ہیں۔ تو جناب پھر میں نے نیٹ پہ جا کر انکے متعلق معلومات حاصل کی ۔قاسم امین اٹھارہ سو تریسٹھ میں پیدا ہوئے اور انیس سو آٹھ میں انتقال کر گئے۔ لیکن اس مختصر مدت میں بھی انہیں مصری نیشنل مومنٹ اور قاہرہ یونیورسٹی کے بانیوں میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔
انہوں نے دو کتابیں لکھیں۔ پہلی کتاب اٹھارہ سو ننانوے میں اسکا انگریزی عنوان ہے 'دی لبریشن آف ویمین' اور دوسری سن انیس سو میں اور اسکا عنوان ہے ؛دی نیو ویمین'۔
چلیں, ایسی کتابیں اور اس موضوع پہ کتابیں آج ہمیں بہت ملیں گی۔ لیکن انیسویں صدی میں جب مغربی معاشرے میں آزادی نسواں کی تحریک کا نام و نشاں بھی نہ تھا۔ ۔ آخر قاسم امین کو کیا سوجھی کہ وہ اس موضوع پہ اتنا وقت لگاتے۔
انہوں نے سوچا کہ کیا وجہ ہے کہ مصر ایک لمبے عرصے تک علم اور تہذیب کا حصہ بنے رہنے کے باوجود یوروپین تسلط کا شکار ہوا؟
اس سوال کا جواب ہمارے یہاں کے باشعور مرد نے یہ نکالا کہ پاکستانی معاشرے کی اس وقت کی تباہی کی ذمہ داری ان خواتین پہ عائد ہوتی ہے جو ساٹھ اور ستر کی دھائ میں کچھ تعلیم پانے کے قابل ہو سکیں اور جنکی تعداد اس وقت شاید پانچ فیصد ہوگی۔ اور جنکی تعداد اس وقت کے پاکستانی معاشرے میں شاید بیس فیصد کے قریب ہوگی ان میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جو اپنا نام لکھ لیتی ہیں اور اکثریت ان خواتین کی ہے جنہوں نے کسی بھی درجے میں اسکول تک کی تعلیم حاصل کی ہو۔
لیکن قاسم امین نے اسکی وجہ مصری معاشرے میں خواتین میں تعلیمی اور معاشی سمجھ کا نہ ہونا نکالا۔ انکا خیال تھا کہ قوم کے بچوں کو تربیت دینے والی ماءووں کو اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا آنا چاہئیے۔ اس وقت ہمارا موضوع قاسم امین کے خیالات کی مصری معاشرے میں اثرات معلوم کرنا نہیں ہے۔ اس لئیے ہم انکے تذکرے کو یہیں چھوڑتے ہوئے آگے چلتے ہیں۔
مسلم معاشرے میں خواتین کے تعمیری کردار کے بارے میں ہر زمانے میں  مفکروں نے غور کیا۔
جہاں ابن رشد ایک جمہوری معاشرے میں کسی عورت کی سربراہی کے خلاف نہیں بلکہ وہ تو اس چیز کے بھی خلاف نہیں کہ عورت سپہ سالار ہو ۔ وہاں محی الدین ابن عربی کہتے ہیں کہ عورت بھی ان روحانی بلندیوں پہ جا سکتی ہے جہاں تک مرد جا سکتا ہے۔
ابن عساکر لکھتے ہیں کہ قرون وسطی کی خواتین نہ صرف تعلیم اسناد حاصل کرتی تھیں بلکہ عالمہ اور استاد کے فرائض بھی انجام دیا کرتی تھیں۔ ابن عساکر نے اپنے دور کی اسی خواتین اساتذہ سے پڑھا۔
پندرھویں صدی میں ابن سخاوی نے بارہ جلدوں پہ مشتمل کتاب دعوۃ اللامی لکھی۔ جسکی ایک پوری جلد خواتین عالماءووں کے لئیے وقف کی گئ تھی۔ جنکی تعداد اس میں ایک ہزار پچھتر ہے۔
حتیٰ کہ خلافت کے زمانے میں بھی خواتین مختلف پیشوں سے وابستہ تھیں اور اپنے امور انجام دیا کرتی تھیں۔ البتہ اکیسویں صدی تک تک آتے آتے مسلمان عورت صرف مرد کی دل کی راحت کا ذریعہ رہ گئ۔
قائد اعظم کو مولانا قائداعظم بنانے والوں نے شاید انکی یہ تقریر بھی نہیں پڑھی جو انہوں نے پاکستان بننے سے تین سال پہلے انیس سو چوالیس میں دی اور اسکا انگریزی متن مندرجہ ذیل ہے۔
 
No nation can rise to the height of glory unless your women are side by side with you; we are victims of evil customs. It is a crime against humanity that our women are shut up within the four walls of the houses as prisoners. There is no sanction anywhere for the deplorable condition in which our women have to live.
 
ان میں سے وہ لوگ جو کہ اسلام کو منجمد کرنے کی سطح تک لیجانے کے ذمہ دار ہیں اور اب مزید غور وفکر سے یہ کہہ کر انکار کر چکے ہیں کہ جو کچھ سوچنا تھا ہمارے بزرگوں نے یا ہم سے پہلے کے لوگوں نے سوچ لیا۔ اب ہماری عافیت اسی میں ہے کہ خاموشی سے ایک بنے ہوئے رستے پہ چلتے رہیں۔ یہ معاشرے میں ہر وقت اس تباہی کے آثار تلاش کرتے رہتے ہیں جو خواتین کی بے راہروی اور تعلیم سے آئے ہونگے۔ البتہ انکی اس سوچ سے معاشرے پہ جو اثرات مرتب ہوئے اسکا یہ صاف دلی اور کھلے دماغ  سے مطالعہ کرنے سے قاصر ہیں۔
پاکستانی عورت کی حالت پہ گفتگو کرنا اور معاشرے کو اس چیز کے لئیے راضی کرنا کہ وہ انکی ذہنی صلاحیتوں کی نمو کے لئیے مناسب ماحول پیدا کرے۔ اسے مغرب کی گھناءونی مثالیں لا کر مانگنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ آئن اسٹائن بننا صرف کسی مرد کا ہی مقدر نہیں ہو سکتا۔ کوئ عورت بھی اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کر کے انسانی تاریخ میں اپنا نام لکھ سکتی ہے۔  کیا یہ ممکن نہیں کہ مرد جس نظر سے معامالات کو دیکھ رہے ہیں خواتین اس سے بہتر طور پہ اسے دیکھ پائیں۔  لیکن خواتین کو گمنامی کی سطح پر دھکیلنے والے لوگ یہ سمجھنا نہیں چاہتے کہ اگر وہ آئن اسٹائن اور بل گیٹس بن کر بھی اچھے باپ بن سکتے ہیں تو وہ کسی خاتون کو اسکی صلاحیتیں استعمال کرنے کا موقع دینے سے کیوں گھبراتے ہیں۔
اگر آپ تخلیق کے کرب سے گذرے بغیر ہی اپنے آپکو اتنا ذمہ دار سمجھتے ہیں، اگر آپ دنیا کو ہتھیاروں کی ذخیرہ گاہ بنانے کے باوجود اپنے آپکو ذمہ دار سمجھتے ہیں اور اگر آپ ہر وقت نعرہ ء جنگ کی آواز پہ لبیک کہنے اور اس میں انسانوں کو جھونک دینے کے  باوجود اپنے آپکو ذمہ دار سمجھتے ہیں تو کیا ایک ماں آپ سے زیادہ ذمہ دار نہ ہوگی۔ 
لیکن شاید ذہانت کی ذمہ داری صرف مردانہ خصوصیت ہے اور اسی لئے کوئ خاتون اسے استعمال کرے تو وہ مرد نما عورت کہلانے کی مستحق ہوتی ہے۔


11 comments:

  1. محترمہ عنیقہ صاحبہ
    مسلمانوں میں تقلید اور جدیدیت کے موضوع پر ایک کتاب ان دی شیڈو آف پرافٹ کے نام سے شایع ہوی تھی ۔ آپ اس لنک
    http://atheism.about.com/od/bookreviews/fr/ShadowProphet.htm
    پر جاکر اس کتاب پر تبصرہ ملاحضہ کر سکتی ہیں ۔ پسند آے تو خرید لیں میرے پاس جو نسخہ ہے اس پر قیمت 1200 روپے درج ہے ۔ کسی اچھی لائبریری میں بھی مل سکتی ہے۔

    ReplyDelete
  2. انیقہ آپنے اس تحریر سے بڑوں بڑوں کی بولتی بند کروادی ہے! کمال ہے اتنے دن ہوگئے مگر نہ کوئی تنقید نہ کوئی تعریف! شائد لوگ کہیں اور مصروف ہیں! بہر حال ایک عمدہ تحریر کے لیئے میری طرف سے ایک بار پھر مبارکباد!
    مزیدکا انتظار رہے گا!

    ReplyDelete
  3. by the way links are very informative!

    ReplyDelete
  4. بولتی بند کروادی ہے??????

    بری بات۔۔۔۔۔

    ReplyDelete
  5. اگر آپ تخلیق کے کرب سے گذرے بغیر ہی اپنے آپکو اتنا ذمہ دار سمجھتے ہیں، اگر آپ دنیا کو ہتھیاروں کی ذخیرہ گاہ بنانے کے باوجود اپنے آپکو ذمہ دار سمجھتے ہیں اور اگر آپ ہر وقت نعرہ ء جنگ کی آواز پہ لبیک کہنے اور اس میں انسانوں کو جھونک دینے کے باوجود اپنے آپکو ذمہ دار سمجھتے ہیں تو کیا ایک ماں آپ سے زیادہ ذمہ دار نہ ہوگی۔

    لیکن شاید ذہانت کی ذمہ داری صرف مردانہ خصوصیت ہے اور اسی لئے کوئ خاتون اسے استعمال کرے تو وہ
    مرد نما عورت کہلانے کی مستحق ہوتی ہے۔
    Brilliant!

    ReplyDelete
  6. ریاض صاحب، مصروفیت رہی۔ اور تبصرے نہ دیکھ پائ۔ آپکی مجوزہ کتاب کسی لائیبریری یا بک شاپ پہ دیکھنی پڑیگی۔ آپ تو خاصے کام کے آدمی معلوم ہوتے ہیں۔
    شکریہ عبداللہ۔ دیکھیں اب کسے غصہ آتا ہے۔

    ReplyDelete
  7. دیکھئے بات یہ نہیں کہ خواتین کو علم حاصل نہیں کرنا چاہئے یا یہ کہ انہیں کام نہیں کرنا چاہئے۔ بات ہے ترجیحات کی۔ ہم دین کے معاملہ میں تقلید کی جب مذمت کرتے ہیں تو دنیاوی معاملات میں تقلید اتنی اہم کیوں؟ جب دین میں اجتہاد کے ہم قائل ہیں تو یہ کیوں نہیں سوچا جاسکتا کہ اپنے سماجی توازن کو برقرار رکھتے ہوئے کس طرح اپنی خواتین کی توانائیوں کو بھرپور استعمال کیا جائے؟ آخر یہاں مغرب کی اندھا دھند نقالی کیوں اتنی ضروری ہے؟ مرد اور عورت اپنی ذمہ داریوں اور اہلیتوں میں برابر نہیں۔ ان میں سے کچھ میں کوئی ایک برتر ہے تو دوسری بات میں دوسرا۔ اسی لئے تو یہ زوج ہیں، جوڑا ہیں اور جیسے کہ عرض کیا تھا کہ ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ خواتین کی قابلیتوں کو استعمال کیا جانا چالئے کہ نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیسے استعمال کیا جانا چاہئے؟

    ReplyDelete
  8. اور اسی مسئلہ کی طرف بدقسمتی سے توجہ نہیں دی جاتی بلکہ مرد و عورت کی برابری یا عورت کے ملکی ترقی میں عمل دخل ہونے یا نہ ہونے پر ساری توانائیاں صرف کردی جاتی ہیں۔

    ReplyDelete
  9. کرم صاحب، یہ پوری تحریر میں نے اسی لئیے لکھی ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ خواتین کو مرد کے برابر انسان تسلیم کر کے اسے بھی اہنی ذہنی صلاحیتوںکو بڑھانے کے مواقع دینے چاہئیں وہ مغرب کی تقلید یا آزادی ء نسواں کی مغربی تحریک کی نقالی نہیں کر رہے ہیں۔ بلکہ خود مسلمان مفکرین نے بھی اس پہ غورو خوض کیا ہے اور وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ ایسا ہو۔ خواتین کو حکومت سازی اور قانون سازی میں حصہ ملنا چاہئیے کیونکہ یہ قانون انسانوں کے لئیے بنتے ہیں اور ان سے انسانوں کے گھر اور خاندان متائثر ہوتے ہیں۔ اس لئیے انکو بھی یہ حق ملنا چاہئیے۔ جہاں تک آپ ترجیحات کی بات کرتے ہیں تو گھر اور بچے نہ عورت اکیلے پیدا کرتی ہے اور نہ ان سے ملنے والے فوائد سے وہ اکیلے مستفید ہوتی ہے۔ یہ ایک خاندان اور معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسکی مدد کرے۔ شاید اسی لئیے حضرت عمر نے بچوں کے لئیے وظائف رکھے تھے اور ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کے لئیے وظائف ہوتے ہیں۔ جیسا کہ آپ اس سے منسلکہ حوالے میں جا کر دیکھ سکتے ہیں کہ ایسا کونسا کام ہے جو آج سے ہزار سال پہلے مسلمان خواتین نہیں کرتی تھیں۔ پھر اچانک یہ کون سی ایسی ترجیحات آ گئیں کہ وہ کچھ بھی کرنے کے لائق نہ رہیں۔ یہ ترجیحات ان خواتین کے سامنے کیوں نہیں آئیں تھیں۔ اب ہم کہاں کے علامہ اور ترقی یافتہ ہو گئے ہیں کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔
    میرے ہاتھ میں کچھ عرصے قبل شادی کا کارڈ آیا جس میں دلہن کا نام موجود نہیں تھا۔ جن صاحب نے مجھے دیا ان سے اچھی صاحب سلامت تھی۔ پوچھا ایسا کیوں ہے ۔ کہنے لگے انکے احترام کے لئے مناسب نہیں لگتا۔ میں نے ان سے کہا آپکو پتہ ہے مسلمانوں کی تاریخ میں ابتدائ دور کی تمام خواتین کے نام ملتے ہیں۔ انہوں نے جو کار ہائے نمایاں انجام دئیے ملتے ہیں۔ آخر آپکی خواتین رسول اور صحابہ کی خواتین سے زیادہ محترم اور بہتر ہیں کہ انکے نام کسی کو نہ پتہ چلیں۔ خاموش ہو گئے۔ یہ ہیں ہماری ترجیحات۔
    زندگی کی دوڑ مِں دونوں ہی شامل ہوتے ہیں۔
    میں بلاگ لکھتی ہوں۔ پڑھتی بھی ہوں، اپنے مشاہدات کو بہتر رکھنے اور براہ ارست معلومات رکھنے کے لئیے گھومتی پھرتی ہوں۔ مختلف ادبی و غیر ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہوں۔ اور ان سب کے لئیے مجھے اپنے شریک حیات اور اپنے خاندان کی طرف سے مدد حاصل ہے۔ اگر یہ سب لوگ میرے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیں تو میری ذہنی رو بھی رک جائے گی۔ اور میں بھِی گھر میں بیٹھی اسٹار پلس کے ڈرامے دیکھونگی۔ اور جب شوہر صاحب شام کو گھر واپس آئیں تو خوب تیار ہو کر انکے دل کی مصنوعی راحت بنوں گی۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔
    ہم ایکدوسرے کو موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنے لئیے بھی وقت نکالے۔ ہم ہر طرح کے معاملات سے ایکدوسرے کو باخبر رکھتے ہیں اور ایکدوسرے کے ساتھ اپنے علم کو شیئر کرتے ہیں۔میری اور انکی ترجیحات الگ نہیں ہیں۔ ہم ایکدوسرے کے ساتھ شامل ہیں۔ ایکدوسرے کی ضرورت ہیں۔ اسی لئیے ہم زوج ہیں۔
    کبھی خود غور کریں کہ تھر یا ایسے دوسرے علاقوں میں جہاں عورتیں میلوں دور سے پانی لیکر آتی ہیں، اپنے بچوں اپنے گھر والوں کے لئیے تو کیا انکا حق نہیں کہ علاقے میں موجود مسائل کا جب تذکرہ ہو تو وہ بھی ان تذکروں میں موجود ہوں۔ جن ترجیحات کی آپ بات کرتے ہیں وہ بہت محدود ہیں جبکہ زندگی بہت بڑی ہے۔ انسان نے اس کرہ ءارض پہ زندگی کی یہ جنگ اکیلے نہیں لڑی ہے۔ توازن یہ نہیں کہ آپ دو انسانوں کو بالکل دو الگ سمتوں میں روانہ کر دیں۔ توازن یہ ہے کہ آپ انکی سمت ایک رکھیں اور ان کو ایکدوسرے میں شریک ہونے کا موقع دیں۔ یہی ایک بہتر معاشرے کی سمت ہے۔

    ReplyDelete
  10. بہنا کس کو انکار ہے کہ ان دونوں کی سمت ایک نہیں ہے یا یہ کہ نہیں ہونا چاہئے؟ اختلاف اس بات پر آتا ہے جب ہم کہتے ہیں کہ ان دونوں کا کردار ایک ہے اور انہیں اسے ایک ہی طرح نبھانا چاہئے۔ سمجھئے کہ گھر ایک کشتی ہے اور اہل خانہ اس کے سوار اور سمندر یہ فسانہ حیات ہے۔ اس کشتی کا ناخدا صرف ایک ہوسکتا ہے۔ یہ اس ناخدا کی بھلائی و بڑائی کے لئے نہیں بلکہ اس سارے سفینے کی بقا کے لئے ضروری ہے۔ لیکن کیا کشتی میں صرف ناخدا ہی اہم ہوتا ہے؟ یہ سوچ ہے جس پر ہم اٹکے ہوئے ہیں۔ ہر کوئی ناخدا بننا چاہتا ہے۔ مسلم خواتین یقیناً اپنے معاشروں میں متحرک تھیں اور انہیں ہونا بھی چاہئے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت موجود دنیا میں کوئی بھی قابل عمل حل موجود نہیں ہے کہ خواتین معاشرے میں کس طرح اپنا کردار متحرک ہو کر ادا کریں۔ جو طریقے رائج ہیں وہ اپنی نوعیت میں استحصالی زیادہ ہیں اور میں یہ بات اپنے ذاتی تجربہ سے کہہ رہا ہوں۔ اس بات پرکوئی دو آراء نہیں ہونا چاہئیں کہ خواتین کو ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس کی ابتداء گھر ہے لیکن اگر موقع ہے، فرصت ہے، ہمت ہے اور اہلیت ہے تو ایسا نظام بنانا چاہئے کہ جس سے خواتین گھر سے باہر بھی معاشرے کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اندھا دھند تقلید ہمارے معاشرے کو بھی انہی بیماریوں سے دوچار کردے گی جو مغربی معاشرہ میں موجود ہیں خاندانی سسٹم کے معاملہ میں اور یقین جانئے یہ کوئی بہت اچھی صورتحال نہیں ہے کہ عورت یہاں بھی صرف دل بہلاوے کی چیز ہے بس فرق یہ ہے کہ مرد اسے کچھ کما کر لادینے کا پابند بھی نہیں۔ ہمیں یقیناً ایسا معاشرہ نہیں چاہئے بلکہ ایسا معاشرہ چاہئے جہاں گھر کا بنیادی یونٹ بھی قائم اور توانا رہے اور ہماری خواتین اس کے ساتھ ساتھ ملکی ترقی میں بھی اپنا ہاتھ بٹاتی رہیں خواہ وہ آدھا فیصد ہو یا پندرہ یا بیس یا کچھ بھی۔ اس سے غرض نہیں ہونا چاہئے بلکہ توجہ توازن پر ہونا چاہئے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ