Tuesday, January 12, 2010

کیا لیاری کراچی کا حصہ ہے؟

میری اس  لڑکی سے ملاقات کو زیادہ عرصہ نہیں گذرا۔ یونہی نو دس مہینے پہلے مجھے خیال آیا کہ میں اپنے مضمون  پر اگر لوگوں کو ٹیوشن دینے لگون اور اپنی فیس  اسوقت چلنے والی فیس کے مقابلے میں آدھی رکھوں تو اس سے مجھے اور پڑھنے والے دونوں کو دلچسپی ہوگی۔ میں نے اخبار میں اشتہار دے دیا۔ اسکے نتیجے میں میرے پاس پانچ فون آئے۔ ان میں سے چار لوگوں کی خواہش تھی کہ انہیں گھر پہ پڑھایا جائے۔ جسے میں نے منع کر دیا
لیکن ایک فون مجھے لیاری سے ایک لڑکی کا آیا۔ وہ مجھ سے ملنا چاہتی تھی۔ وہ بی ایس سی کی طالبہ تھی۔ مجھے حیرانی ہوئ۔ 'مگر آپ تو میرے گھر سے خاصی دور رہتی ہیں اور ہفتے میں تین دن آنا بھی آپکے لئیے بہت مشکل ہوگا'۔  یہ سن کر اس نے مجھ سے کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ میں اس سے ایکدفعہ مل کر اسے جو مشکلات پیش آرہی ہیں وہ دیکھ لوں اور انکے لئیے اسے کچھ ٹپس دیدوں۔۔ اسکی یہ لگن دیکھ کر میں نے اسے اگلے دن بلالیا۔
 وقت مقررہ پہ وہ اپنے والد صاحب کے ساتھ آگئ۔ اس نے برقعہ پہنا ہوا تھا۔ اسکے والد صاحب اپنی عمر کی پانچویں دھائ میں تھے اور نیوی مرچنٹ کی نوکری کرتے تھے۔ وہ ہمارے ساتھ بیٹھے رہے۔ ہم دونوں جب اس ساری ڈسکشن سے فارغ ہو گئے  تو میں ان سے بات کی۔
انہیں میرے گھر پہنچنے کے لئیے دو بسیں اور ایک ٹیکسی لینی پڑی تھی اور انکے مبلغ دو  سو روپے خرچ ہوئے تھے۔ وہ سات بہنیں اور ایک بھائ تھے۔ میں نے جب ان سے انکے علاقے کے حالات جاننے چاہے تو اس سوال پہ اس آدمی کا چہرہ بالکل بجھ گیا۔ آپکو کیا بتاءووں۔ میرا ایک بیٹا ہے اور وہ جب گھر سے پڑھنے کے لئیے نکلتا ہے تو جب تک واپس نہیں آجاتا ہم پریشان رہتے ہیں۔ ہمارا پورا علاقہ غنڈوں اور بدمعاشوں کا علاقہ ہے۔ ہمارا نوجوان لوگ زیادہ تر نشہ کرتا ہے یا ہنگامہ۔ آپ کبھی ہمارا علاقہ آکر دیکھو۔ انسانوں کی رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ ابھی آپ دیکھو میری بیٹی کو پڑھنے کا اتنا شوق ہے لیکن ہمارے علاقے میں کوئ اچھا پڑھنے کی جگہ نہیں ہے یہ جہاں جاتا ہے وہاں کتنی مشکل سے جاتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں  کیا ہم اسی طرح جانوروں کی طرح زندگی گذارتا رہیگا۔
اب آپ اردو اسپیکنگ والوں کی پارٹی ہے۔ لوگ کہتا ہے وہ بدمعاشی کرتا ہے۔ مگر میں کہتا ہوں وہ اپنے شہر اور اپنے لوگوں کی بھلائ کے لئیے کچھ تو کرتا ہے۔ ہمارے علاقے سے ہر دفعہ ایک پارٹی آتی ہے مگر آپ وہاں جا کر دیکھیں۔ ہمارا بچہ لوگ کیا کرتا ہے۔ ہم لوگوں کا کیا بنے گا۔ یہ حکومت جب سے آیا ہے اس نے تو تھانہ بانٹ لیا ہے۔ ہمارے لیاری میں کوئ پولیس نہیں ہے صرف غنڈوں کا راج ہے۔ کوئ دن نہیں ہوتا کہ ان بدمعاشوں کی آپس میں جنگ نہ ہوتی ہو۔ ہم تو اپنے گھر کے صحن میں نہیں کھڑے ہو سکتے۔
جب وہ جانے لگے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ان تمام مشوروں کی فیس کیا ہوگی جو میں نے اس دوران انہیں دئیے۔ میں نے ان سے کہا کہ اسکی کوئ فیس نہیں ہے۔ میں نے بغیر کسی تیاری کے سرسری طور پہ کچھ چیزیں بتادی ہیں۔ اسکی کیا فیس ہو سکتی ہے۔ میں اگر باقاعدہ پڑھاتی تو کچھ فیس ہوتی۔ مگر وہ پھر بھی بصد اصرار کچھ پیسے میز پہ رکھ گئے۔ جب وہ نکنلے لگے تو وہ لڑکی مجھ سے کہنے لگی کہ باجی آپکا علاقہ مجھے بہت اچھا لگا۔ میں بالکل شرمندہ ہو گئ۔ معلوم نہیں کیوں۔
یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے جب کراچی کے کسی علاقے کے تعلیمی اوسط کا اندازہ لگانا ہوتا تو یونیورسٹی سے وہاں کے لئیے چلنے والے بسز سے لگاتے جو پوائنٹس کہلاتی تھیں۔ کراچی کے تمام علاقوں جن میں لانڈھی، کورنگی، عزیز آباد اور اورنگی ٹاءون بھی شامل ہیں انکے لئیے باقاعدگی سے پوائنٹس لگتے تھے مگر ان میں کبھی لیاری کے لئے بس نہ دیکھی۔
آج جب میں نے ایک بلاگ پہ نبیل گبول صاحب کا بیان دیکھا کہ لیاری میں کیوں آپریشن ہوتا ہے لانڈھی، کورنگی اور عزیز آباد میں کیوں نہیں ہوتا۔ تو ان سے صرف ایک سوال پوچھنے کو دل چاہا کہ پچھلےتیس پینتیس سالوں میں لیاری والوں نے شاید پیلپز پارٹی کے علاوہ کسی کو ووٹ نہیں دیا۔ کیا انہوں نے سوچا کہ لیاری میں ایک بھی اچھا اسکول اور کالج نہیں جسیا کہ لانڈھی، کورنگی اور عزیز آباد میں ہیں، وہاں چھوٹے بچوں اور عورتوں میں کیوں منشیات کا استعمال زیادہ ہے۔  شہر بھر میں کیوں جوا  سب سے زیادہ وہاں کھیلا جاتا ہے۔
لیاری کے مختلف محلے وہاں کے ڈکیتوں کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ جو ایک دو نہیں کئ ہیں۔  ایسا کوئ عمل لانڈھی، کورنگی اور عزیز آباد میں نہیں ہوتا۔۔ میں ان علاقوں میں اکیلے گاڑی میں بے دھڑک گھومتی ہوں لیکن میں لیاری میں اس طرح پھرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔
پچھلے کئ سالوں میں شہر کے باقی علاقے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ لیاری اب تک اتنا پسماندہ کیوں ہے۔ کیوں کراچی یونیورسٹی والوں کو لیاری کے لئیے کبھی ایک بس چلانے کی نوبت نہ آئ۔ کیوں یونیورسٹی میں اتنا لمبا عرصہ گذارنے کے باوجود میری کبھی ایسے طالب علم سے ملاقات نہ ہوئ جو لیاری سے تعلق رکھتا ہو۔  کیوں لیاری کراچی کا پسماندہ ترین علاقہ ہے۔کیا نبیل گبول صاحب اس بات کا جواب دیں گے۔ کیا ابو سعد کبھی اس چیز کے بارے میں لکھیں گے کہ لیاری کیوں کراچی کا حصہ نہیں لگتا۔ اور کراچی کی رونقوں کے غم میں گھلنے والے جانتے بھی ہیں کہ لیاری بھی کراچی میں واقع ہے۔

22 comments:

  1. اگر آپ کی کبھی کسی لیاری کے طالب علم سے ملاقات نہیں ہوئی تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہاں صرف جاہل بستے ہیں۔ مجھے سو فی صد یقین ہے کہ آپ نے کبھی لیاری دیکھا بھی نہیں۔ لیاری میں کالج بھی ہیں اور اسکول بھی۔ اگر آپ بھی لیاری میں پیدا ہوئی ہوتیں تو کیا کمیسٹری میں پی ایچ ڈی کرنے کے بجائے لیاری میں چرس پی رہی ہوتیں؟ معزرت کے ساتھ مگر آپ کا یہ بلاگ سراسر تعصب ہے اور کچھ نہیں۔

    ReplyDelete
  2. چی ڑے
    کیسا کیسا اشٹوریاں لکھتا ہے تم لوگ

    ReplyDelete
  3. بہت عمدہ پوسٹ ہے۔ لیاری میں یقینا سب جاہل نہیں بستے مگر اوسطا یہ شہر کا سب سے پسماندہ علاقہ ہے۔ میں قریبا ایک سال تک وہاں کاروبار کرچکا ہوں۔ وہاں نوجوانوں کے پاس دو ہی آپشن ہیں یا تو معمولی مزدوری کرنا یا پھر منشیات پینا اور جرائم پیشہ گروہوں میں شامل ہوجانا۔

    افسوس اس سنجیدہ مسئلے کو سیاست اور لسانیت کی نظر کیا جارہا ہے۔

    ReplyDelete
  4. جناب نامعلوم صاحب انیقہ نے وہ لکھا ہے جو انہیں وہاں رہنے والی ایک شریف فیملی سے پتہ چلا!
    اور اس میں کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ یہ تو جناب بھی اچھی طرح جانتے ہوں گے!
    اس عرلاقے سے منتخب ہونے والوں کو یہ خوف بھی لاحق ہےکہ وہاں رہنے والے اوران کی نئی نسل کراچی میں ہونے والے ترقیاتی کام جو دیگر علاقوں کے نمائندے اپنےعلاقوں میں کروا رہے ہیں اور اپنے علاقے کی بے سروسامنی دیکھ دیکھ کر کہیں اپنے نمائدوں سے سوال نہ پوچھنے لگیں او بھٹو کے نام کے سحر سے باہر نہ آناشروع‌کردیں،اس لیئے ان کو انہی لوگوں کے خلاف کھڑا کردو،
    ویسے بھی اسٹیبلشمنٹ ہر لسانی اکائی سے اردو بولنے والوں‌کا‌جھگڑا کرواکر اردو بولنے والوں کی نسل کشی کرواتی رہی ہے صرف بلوچی ہی باقی تھے اور بلوچیوں کے حق میں ایم کیو ایم بولتی بھی بہت ہے تو کیوں نہ ایک بار پھر ایک تیر سے کئی شکار کیئے جائیں!
    سوسازشیں جاری ہیں!

    ReplyDelete
  5. افسوس اس سنجیدہ مسئلے کو سیاست اور لسانیت کی نظر کیا جارہا ہے۔،نعمان!
    نعمان یہ سنجیدہ مسئلہ ہی تو اصل سیاست ہے!جب پڑھے لکھے لوگ جھوٹے پروپگینڈے پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں تو جاہلوں کو آگے لگانا تو سب سے آسان کام ہے اور مزید اشاروں پر نچانا ہو تو نشے کی لت لگادو اسے کہتے ہیں چپڑی اور دو دو منشیات سے ہونے والی کمائی سے سیاست کرو اور جن کا خون پی رہے ہو انہیں ہی سیاست کا ایندھن بھی بناؤ!

    ReplyDelete
  6. http://ejang.jang.com.pk/1-12-2010/pic.asp?picname=08_01.gif

    ReplyDelete
  7. بہت اچھی تحریر ہے اور یقیناً لیاری کے کرتا دھرتا لوگوں کے لئے یہ سوچنے کی بات ہے کہ لیاری باقی شہر کے مقابلے میں اس قدر پسماندہ کیوں ہے۔ یہ تحریر بہت سے سوال اُٹھاتی ہے جن کے جواب اُن لوگوں کو ضرور دینا جو خود کو لیاری کی عوام کے ووٹوں کا حقدار سمجھتے ہیں۔

    ReplyDelete
  8. نامعلوم صاحب، اسی لئیے میں نے سب سے پہلے اپنی اس گفگتگو کا حوالہ دیا۔ جو ایک بلوچ نے مجھ سے کی۔ اس پوست میں، میں نے وہ ساری تفصیلات نہیں دیں جو انہوں نے مجھ سے کیں۔ مثلاً یہ کہ ان کی دو بیٹیوں کی شادی ہو گئ تھی اور ان میں سے ایک گوادر اور دوسریبلوچستان کے نزدیک سرحدی گاءووں میں رہتی تھی۔ آپ نے اس طرح کی بات کر کے پھیلاانے کی کوشش کی ہے۔ آپ بھول رہے ہیں کہ وہ لڑکی بی ایس سی کی طالبہ تھی اور اسکا یہی مطلب ہے کہ لیاری میں سارے جاہل نہیں رہتے۔ لیکن وہ جس طرح زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں انکو وہ مواقع فراہم نہیں کرنے دئیے جاتے۔ زندگی میں آسانیاں، سکون، ہر انسان کو اچھا لگتا ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اسکے بچے اس سے بہتر حالت میں زندگی گذاریں۔ انکی صلاحیتیں کھل کے سامنے آئیں۔ لیکن کچھ بیکار وجوہات کی بناء پہ ہر انسان کو یہ مواقع یکساں طور پہ حاصل نہیں ہو پاتے۔ میری پی ایچ ڈی اس وجہ سے ممکن ہوئ کہ نہ صرف میں یہ کرنا چاہتی تھی بلکہ میں ایک روشن خیال گھرانے کی فرد تھی، ایک بڑے شہر میں جہاں بنیادی ضروریات موجود ہیں پیدا ہوئ، میرے اطراف اور میرے تعلیمی ادارے کا ماحول ایسا تھا کہ مجھے کبھی یہ خیال نہ آیا کہ یہ سب ہونا کتنا مشکل ہے۔ مجھے بعض اوقات سنگین قسم کے مالی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن دیگر تمام چیزوں نے اسے سہارا دے دیا۔ اور یوں میں ڈاکٹریٹ کرنے میں کامیاب ہو گئ۔ پیسہ یا غربت اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہوتے جتنا بڑا مسئلہ اپنے مسائل کی وجوہات کو نہ جاننا ہوتا ہے۔
    میں اس بلوچ لڑکی سے مل چکی ہوں۔ اسے یہ جان کر کہ میں پی ایچ ڈی کرچکی ہوں اتنی حیرت ہوئ۔ اور اس نے تفصیل سے پوچھا کی پی ایچ ڈی میں کیا ہوتا ہے ، کیسے کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اتنے محدود ذرائع کے باوجود وہ اتنی باصلاحیت تھی تو ذرائع میسر آنے پہ کیا نہیں ہوگا۔
    اگر وہان اسکول اور کالج اتنی رفتار اور معیار کے ہیں تو ان صاحب نے کیوں شکوہ کیا۔ اور یہ صرف لیاری کا حال نہیں بلکہآپ منگھو پیر کی طرف نکل جائیں جہاں بلوچ اور سندھی آبادیاں ہیں۔ یہی پسماندگی ہے۔ ان سب علاقوں سے ووٹ ہمیشہ پیپلز پارٹی کو ملتے ہیں۔
    اور یہ دوسرے گمنام صاحب، آپکی خدمت میں عرض ہے کہ میں بلوچستان خاصہ آتی جاتی رہتی ہوں سارے بلوچی جی ڑے نہیں لگاتے۔ میرے پاس تو اس سے بھی زیادہ مزے کی اسٹوریاں ہیں۔ لیکن فی الحال ایک ہی کافی ہے۔
    عبداللہ اور نعمان، بس لوگوں کو یہی احساس کسی نہ کسی طرح دلانا ہے کہ وہ ان کرپٹ لوگوں کو کیوں ووٹ دیتے ہیں جو انکے لئیے کچھ نہیں کرتے اور صرف انکے جذبات استعمال کرتے ہیں۔ وہ جانور نہیں ہیں کہ اتنے لمبے عرصے تک انہیں بے وقوف بنایا جائے اور انہیں سمجھ نہ آئے۔
    یقیناً نہیں ہیں۔ اس لڑکی کے والد صاحب کی گفتگو سن کر تو لگتا ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ اسکی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔

    ReplyDelete
  9. بات یقیناً قابل افسوس اور مذمت و مرمت ہے لیکن ہم خود ہے اپنے ہاتھوں جب اپنی اور اپنی آئندہ نسلوں کی قبریں کھود رہے ہوتے ہیں تو اس وقت کیوں نہیں ہمیں خیال آتا؟ آپ نے خود ہی لکھا کہ لیاری سے ہمیشہ ایک ہی پارٹی کو ووٹ پڑا ہے پھر کیوں لوگ حق نہیں مانتے؟ اور اگر اجازت ہو تو کہوں کہ ہر بات میں لسانیات کا تڑکہ آخر کیوں؟ اردو سپیکنگ اردو سپیکنگ کی گردان کرتے رہنا بھی اسی بیمار سماجی روئیے کا اظہاریہ نہیں کیا جس کا شکار لیاری کے لوگ ہیں؟

    ReplyDelete
  10. شاید آپ کو علم نہیں کہ اس وقت لیاری والے پیپلز پارٹی کے خلاف ہیں! آج میرے دفتر (ملیر) کے پاس کوئی قریب 20،000 بلوچوں نے احتجاجی جلوس نکالا! جس میں آصف زرداری، رحمان ملک، بنبیل گبول کو تو گالیاں دی وجہ یہ تھی کہ وہ ایم ککیو ایم کے ساتھ کیوں ہیں! جو کچھ انہوں نے الطاف بھائی اور ایم کیو ایم کو کہا وہ آپ کو اچھا نہیں لگے گا!!!۔
    اور وہ لیاری والے نہیں تھے!!!!۔
    لسانی جماعتیں لسانی فسادات کی طرف ہی جاتی ہیں۔ کیونکہ اس میں ہی اُس کی سیاسی زندگی ہے! عبداللہ نے اُوپر اعتراف کر لیا کہ ایم کیو ایم کے دیگر گروہوں سے جھگڑے ہو چکے ہیں!! اب وہ اپنی بات کو گما جائے تو الگ بات ہے!!۔
    یہ بات جب میں نے اپنے بلاگ پر لکھی تو بری لگی لیکن اب سامنے ہے سب کے۔ نام سے ہی نہیں سوچ سے بھی متحدہ ہو تو دل صاف ہوتے ہیں!

    ReplyDelete
  11. حبیب جالب مرحوم نےکہا تھا:
    کہاں قاتل بدلتے ہیں، فقط چہرے بدلتے ہیں
    عجب اپنا سفر ہے، فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں
    وہ جس کی روشنی کچے گھروں کو جگمگائے گی
    نہ وہ سورج نکلتا ہے ، نہ دن اپنے بدلتے ہیں

    بی بی!
    مبینہ طور پہ ایم کیو ایم کے زیرِ اثر جن علاقوں کا ذکر آپ نے کیا ہے اور جن علاقوں کا موازنہ لیاری سے کیا ہے، وہاں بھی عام آدمی کو زندہ رہنے کے لئیے مسائل درپیش ہیں۔ اور بے شمار مسائل درپیش ہیں۔ ان مسائل میں سے کچھ مسائل کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے مگر عام آدمی کو وہاں بھی مشکلات ہیں۔ صرف ایک مسئلے کا ذکر کئیے دیتا ہوں کچھ ایسے لوگوں کو میں جانتا ہوں جن کے بچوں کی شادی کی عمریں محض اسلئیے نکلی جاتی ہیں کہ وہ ایم اے ایم ایس سی وغیرہ کر کے جاب کریں گے تانکہ بہتر رشتے کا ساتھ ساتھ اپنی شادی پہ اٹھنے والے اخراجات وغیرہ اٹھا سکیں۔ ایسے میں لڑکوں کو تو کوئی خاص فرق نہیں پڑھتا مگر بچیوں بیچاریوں کی شادی کی عمر قدرے پختہ ہونے سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ جو ساری عمر پیچھا کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ بھی بہت سے بے شمار مسائل ایسے ہیں جن کی بنیاد سیاسی ہے جن پہ بحث مناسب نہیں ۔جب آپ شہر کے کسی حصے کا آپس میں موازنہ کریں تو بلا تکلف و غرض و غایت اُن میں بسنے والے عام باسیوں کے حالات پہ ایک جیسی روشنی ڈالیں۔ ورنہ آپ کی بات کو سنجیدہ لوگ یک طرفہ سمجھیں گے۔

    اسمیں اس بات سے غرض نہیں ہونی چاہئیے کہ لیاری، پیپلز پارٹی۔ نبیل گبول، وزیرِاعلٰی سندھ بمقابلہ عزیز آباد، ایم کیو ایم، الطاف حسین، گورنر سندھ میں کون بھلا ہے اور کون غلط۔۔

    پیپلز پارٹی۔ وزیرِاعلٰی سندھ ، ایم کیو ایم، الطاف حسین، گورنر سندھ نے آج بلاول ہاؤس میں زرداری کی زیرصدارت جو اجلاس کیا ہے۔ کیا یہ اجلاس کراچی میں ناحق مرنے والی معصوم جانوں کے نقصان سے پہلے نہیں ہو سکتا تھا؟

    بی بی! ہم اپنے دلوں کو تو ایسے میں تسلی دے سکتے ہیں۔ کہ چلو جی لیاری میں تعلیم نہیں۔ وہ لوگ ھی ایسے ہیں کہ انہوں نے ووٹ بھی پیلپز پارٹی کو دیا وغیرہ۔ اب وہ جانیں اور نبیل گبول۔ کچھ اس طرح کی باتوں سے ہمارے سیاستدان بھی ایک دوسرے کی ٹانگ کینچھتے ہوئے اپنے اپنے ہمدرد ووٹروں کو بے وقوف بناتے رہتے ہیں، مگر اسمیں سنگینی یہ ہے کہ اس میں انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ وہ جو بھی ہوں اردو اسپیکنگ ہوں یا بلوچی وہ انسان تھے ان کے مرنے سے ان کے خاندانوں کے لئیے جو خلا بنا ہے اس کا مدوا کیسے ہو ، نیز پوری دنیا کراچی اور نسبتا پاکستان کا زکر کر کے پاکستان اور کراچی کو وحشت ذدہ قرار دیتے ہیں یقن مانیں وہ لیاری یا عزیز آباد کے نام تک بھی نہیں جانتے ہونگے۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ اس منافرت ذدہ ماحول کے درجہ حرارت کو کم کیا جائے۔ اور انسانی جان کی قدر کی جائے خواہ اسکے جسم کی رنگت کونسی بھی ہو اور وہ کوئی سا بھی مذھب رکھتا ہو۔

    اتنی تہمید کا مقصد صرف اتنا سا ہے کہ سول سوسائٹی اور مہزب لوگوں کو ہر قسم کی سیاسی، اور طبقاتی رحجان کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کو آگے آنا چاہئیے۔ کسی بھی شاندار قوم کواُسے شاندار بنانے میں مہذب اور انتھک کوشش کرنے والوں کا ہاتھ رہا ہے۔

    ReplyDelete
  12. خرم صاحب اور جاوید صاحب، آپ دونون ایک بات بھول رہے ہیں کہ ارسو اسپیکنگ میں نے نہیں کہا۔ یہ ساری باتیں ایک ایسے بلوچ شخص نے مہیں جو لیاری میں پیدا ہوا ، وہیں ساری زندگی گذاری اور اب نیوے مرچنٹ میں کام کرتے ہوئے ملکوں ملکوں گھومتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ دس سال پہلے وہ افریقہ کے جس ساحل سے گذرا وہ آج ترقی کر کے کچھ سے کچھ بن گیا ہے مگر ہمارا پسنی کا ساحل کہاں ہے تو اس سے مراد افریقہ کو بہتر ثابت کرنا نہیں ہے۔ اس سے مراد یہی ہے کہ اس کمیونٹی میں بھی لوگ سوال کرتے ہیں۔ میں کراچی جیسے کثیر القومیتی شہر میں ہمیشہ زندگی گذارتی آئ ہوں۔ تو معذرت کے ساتھ جب مختلف قومیں ایک ساتھ رہتی ہیں جبھی ایک دوسرے کی نفسیات سمجھ میں آتی ہے۔ اور ان میں سے وہ زیادہ سمجھتا ہے جس نے زیادہ دیکھا ہوتا ہے۔
    یہ ساری چیز اس جواب میں لکھی گئ ہے کہ یہ بات جو نبیل گبول نے کہی کہ آخر لیاری میں ہی آپریشن کیوں ہوتا ہے۔ یہ بات کچھ عرسے قبل مسلم لیگ نون کے ایک لیڈر نے کہی اور یہ بات کچھ عرصے قبل جماعت اسلامی کے ایک لیڈر بھی کہہ چکے ہیں۔ کسی علاقے پہ منشیات فروشوں کا قبضہ ہونا، وہاں کے مکینوں میں اسکا استعمال جس سے خواتین اور بچے بھی مستثنی نہ ہوں اور دیگر اخلاقی برائیوں کا اسے گڑھ بنتے دیکھنا اور کچھ نہ کہنا یہ بہت بڑا جرم ہے اور اسے کسی طور معاشرے میں شادی نہ ہونے کے عمل سے تقابل نہیں کیا جا سکتا۔
    چونکہ آپ دونوں نے کبھی لیاری نہیں دیکھا اس لئیے آپ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ اس طرح مقابلہ نہ کریں۔ ایم کیو ایم نے تو گذشتہ دو دہائیوں سے شہر کی سیات میں دخل دیا ہے۔ لیاری کا یہ حشرپچھلی چار دہائیوں سے ایسا ہی ہے۔ آپ اسے اپنی جگہ پہ بیٹھ کر تصور نہیں کر سکتے اس لئیے کہہ رہے ہیں۔ میں لیاری کا مقابلہ چیچو کی ملیاں سا یا ٹنڈ جام محمد سے نہیں کر رہی۔ لیاری کراچی میں واقع ہے۔ اور یہاں لسانیت کا تذکرہ اس لئیے ضروری ہے کہ لیاری میں بلوچی رہتے ہیں۔ اور اس سیٹ سے ہمیشہ ایک ہی پارٹی کو ووٹ ملا ہے۔ جبکہ باقی کراچی میں ٹرینڈ بدلتا رہا ہے۔
    ایک پورا علاقہ جس ماحول کو ظاہر کرتا ہے وہ اسکی شناخت بن جاتا ہے۔ جیسے نارتھ ناظم آباد کو کراچی میں سب سے زیادہ تعلیمی شرح رکھنے والا علاقہ کہا جاتا ہے۔ اسکی میرے پاس کوئ دستاویزی کہانی نہیں ہے۔ لیکن آپ کسی دن صبح صبح نارتھ ناظم آباد کے کسی بھی روڈ پہ جا کر کھڑے ہو جائیں اور دیکھیں کہ ہر طرف مختلف تعلیمی اداروں کو جانے والے لوگوں کا ہجوم ہوگا۔ بلا کسی استثناء کے خواتین کا ہجوم ہوگا مختلف پیشہ ورانہ جگہوں پہ جانے کے لئے۔ یونیورسٹی میں نارتھ ناظم آباد کے لئیے ایک وقت میں تین تین پوائنٹس چلانے پڑ جاتے تھے۔ بس اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں اندازاً کی شرح ہوگی۔
    یہ سب لوگ ایک شہر میں رہتے ہیں۔ انہیں مختلف چیزوں پہ ایک جیسی دسترس حاصل ہونی چاہئیے۔
    اگر نبیل گبول نے مختلف جگہوں کا مقابلہ نہ کیا ہوتا اور ابو سعد نے بھی اسے اتنے اہتمام سے اپنے بلاگ کا حصہ نہ بنایا ہوتا تو مجھے بھی کوئ ضرورت نہیں ہوتی کہ میں انکا مقابلہ کرتی۔ نبیل گبول اور ابو سعد کو ایکدن ایکدن کورنگی، لانڈھی، عزیز آباد اور لیاری کی صرف سڑکوں پہ چہل قدمی کر لینی چاہئیے اور پھر سچائ کے ساتھ سوچنا چاہئیے کہ لیاری کے ساتھ یہ نا انصافی کیوں روا رکھی گئ ہے۔
    اگر کوئ لڑکی مجھ پہ اس لئیے رشک کرے کہ میں ایک اچھے علاقے میں رہتی ہوں اور جو چاہے کرتی ہوں۔ تو میں اسے اتنا ضرور کہونگی کہ اس میں میری اتنی خوبیاں نہیں ہیں۔ بلکہ اس میں میری پیدائشی خوبی یہ ہے کہ میں لیاری میں پیدا نہیں ہوئ۔ میں اس لڑکی سے یہ ضرور کہونگی کہ بعض اوقات ہمیں تقدیر جن چیزوں سے نہیں نوازتی ہم انہیں اپنی عقل اور محنت سے حاصل کرتے اور آزاد سوچ سے حاصل کرتے ہیں۔

    ReplyDelete
  13. شعیب صفدر صاحب، میں ان تمام حالات سے آگاہ ہوں۔ آج ہی ربانی صاحب نے لیاری آپریشن پہ شدید اعتراض کیا ہے اس سے پہلے پٹیل صاحب بھی کر چکے ہیں۔ مسئلہ ایم کیو ایم کا یا الطاف حسین کا نہیں ہے۔
    بات یہ ہے کہ پچھلے اتنے سالوں سے لیاری کی یہ حالت ہے تو اسے درستگی کی طرف کیوں نہیں لیجایا جاتا۔ آپکو علم ہوگا کہ لیاری کے مختلف محلے انسے تعلق رکھنے والے ڈکیتوں کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ محض رحمن ڈکیت یا ڈکیتر پہ ہی کہانی ختم نہیں ہا جاتی۔ اور عالم یہ ہے کہ ہرگھر سے رحمن ڈکیت نکلے گا تم جتنے ڈکیت ماروگے۔
    جی تو ربانی صاحب اور پٹیل صاحب کی اس عالقے کی بہتری طرف عدم توجہ اور آپریشن کے خلاف شدید مزاحمت۔ اس سے مجھ سمیت کسی عام شخص کو کیا نتیجہ نکالنا چاہئیے۔ اس سے جو نتیجہ نکلے گا وہ ان صاحبان کو پسند نہیں آئے گا۔
    یعنی کہ میں اگر یہ سمجھوں کہ یہ لوگ وہاں کے چلنے والے دھندوں میں شامل ہیں تو کیا غلط ہوگا۔
    پیپلز پارٹی میں آپس میں جھگڑے چل پڑے ہیں اس لئیے کہ لوٹ کے مال میں کوئ ایک فریق زیادہ حصہ لے رہا ہے۔ ایم کیو ایم کو وہ گالیاں دے رہے ہیں ۔ حالانکہ انکے علاقے میں ایم کیو ایم کا کوئ لین دین نہیں۔ سوائے اسکے کہ ابھیہ کچھ عرصے قبل وہاں سے سٹی گورنمنٹ نے پانی کی لائن گذارنے کی کوشش کی تھی۔ اور شاید ایم کیو ایم یہ چاہتی ہے کہ انکے ووٹ ٹرینڈ میں فرق آئے اور اس سے وہ فائدہ اٹھائے۔
    آپکو شاید یہ بھی معلوم ہوگا کہ عاشورے پہ ہونے والی آتشزدگی کے دوران لوٹا گیا مال کا کچھ حصہ لیاری کے ایک گودام سے برآمد ہوا۔ اسکی فوٹیج میں نے ٹی وی پہ دیکھی تھی۔ جیو چینل پہ۔
    ہاں انہیں ایم کیو ایم پہ اس لئیے بھی غصہ آرہا ہوگا کہ باقی شہر میں انکے بدمعاشوں کو بد معاشی کرنے کی کھلی چھٹی نہیں۔اور اسکے لئیے ایم کیو ایم کے بد معاش موجود ہیں۔
    میں جس محلے میں رہتی ہوں یہاں گارڈ سسٹم ہے۔ یعنی گلی میں بیریئر لگا کر گارڈ متعین کر دئیے گئے ہیں ۔ انہیں اہل محلہ پیسے جمع کر کے تنخواہ دیتے ہیں۔ مجھے تو اس نظام پہ بالکل اعتراض نہیں۔ اسکی وجہ سے میں کئ کئ دن اپنے گھر میں تنہا بھی رہ لیتی ہوں۔ لیکن یہ گارڈ مجھے کسی اور محلے سے لوٹ مار کا سامان لا کر نہیں دیتے۔ اس صورت میں، میں کیا کوئ محلے دار انہیں یہاں نہیں رکھے گا۔

    ReplyDelete
  14. صحیح کر لیجئیے گا، محض رحمن ڈکیت یا پپو ڈکیت پہ بات ختم نہیں ہوجاتی۔

    ReplyDelete
  15. شعیب میں بات کہہ کر پھرنے یا بات گھمانے کا عادی نہیں ہوں اتنے عرصے میں اس کا انداذہ تو آپ‌کو‌ہو‌ہی‌گیا‌ہوگا‌‌باقی‌میری‌پوری‌بات‌ میں سے آدھی بات نکال کر آپ اپنے بارے میں کچھ اور ثابت کررہے ہیں!:(

    ReplyDelete
  16. افتخار اجمل کے پسندیدہ ڈاکٹر صفدر محمود کچھ کہہ رہے ہیں مگر ان کی معتوب ایم کیو ایم کو کچھ نہیں کہہ رہے ذرا دیکھیئے تو!
    http://ejang.jang.com.pk/1-13-2010/pic.asp?picname=07_08.gif

    ReplyDelete
  17. لیاری میں دہشت گردوں کے خلاف پولیس اور رینجز کا آپریشن شروع ہوتا ہے تو نبیل گبول پریشان آخر کیوں؟؟؟
    جب سے رحمن ڈکیت کو پولیس نے مارا ہے اُس وقت سے لے کراب تک نبیل گبول نے کراچی شہر اور اپنے حلقہ انتخاب میں تشریف نہیں لائے۔کیوں؟؟؟؟ لیاری تو پی پی کا قلعہ ہے بقول آپ کے پھر بھی اپنے قلعے میں کیوں تشریف نہیں لاتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    رحمان ملک کا یہ بیان پڑھنے کے قابل ہے۔
    http://www.geo.tv/1-12-2010/urdu/1-12-2010_93924_1.gif
    رحمان ملک کا یہ بیان اس لیاری گینگ کا اصلی چہرہ پیش کر رہا ہے، مگر اپنے بھائیوں کو یہاں دیکھتی ہوں کہ ابتک متحدہ کو قصوروار بتلا رہے ہیں۔ ایسے بھائیوں کے ہوتے ہوئے دشمنوں کی بھلا کیا ضرورت کہ یہ جو وار کریں گے ایسا تو دس دشمن بھی مل کر نہیں کر سکتے۔
    بہرحال، اللہ کا شکر ہے کہ خدا خدا کر کے بددیانتی و جھوٹے پروپیگنڈے کا یہ کفر ٹوٹ رہا ہے اور لوگوں کو سمجھ میں آنا شروع ہو گیا ہے کہ ایسے کرمنلز کے حکومتی سپورٹ کے ساتھ کیے گئے جرائم اور قبضہ کے بعد مہاجروں کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنا دفاع خود کریں کہ حکومت تو خود انہیں مجرموں کی ہے۔ اللہ کا شکر ہے انہیں کراچی کے اصل ولن نظر آنا شروع ہو گئے جو لیاری و سہراب گوٹھ میں بیٹھ کر غیر قانونی اسلحہ، ڈرگز اور مافیاز وغیرہ کا کاروبار کرتے ہیں اور شہر کا امن و امان تباہ کرتے ہیں۔

    ReplyDelete
  18. We need to be united and get prepared for rescuse if Lord will send an earthquake of 7.00 to Karachi.
    http://www.facebook.com/profile.php?id=162462123627

    ReplyDelete
  19. ابھی بلاگوں کی لفنڈرياں کرتے ہوئے آپکی سالگرہ کا پتہ چلا تو مبارک ہو بہت زيادہ ؛ کيسے منائی يا منوائی ؟ کيا تحفہ ديا انہوں نے ؟، اور کون سويں ہے يہ بھي بتا ديں تاکہ اسکی مناسبت سے ہم آپکو آپی آئنٹی يا پھر چھوٹو منی گڑيا وغيرہ کہہ سکيں ميں نے خود کو ہم اسليے لکھا ہے کہ خربوزوں کو ديکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ميں نے بھی پکڑ ليا ہے

    ReplyDelete
  20. اسماء خیال رکھیئے گا خربوزوں کا ذیادہ رنگ نہ پکڑ لیجیئے گا ورنہ ہم لوگ کف افسوس ہی ملتے رہ جائیں گے کہ بمشکل تمام ایک غیر جانبدار شخصیت ‌ملی‌ تھی ‌وہ‌ بھی ‌خربوزوں کے رنگ میں رنگی گئی!

    ReplyDelete
  21. Mr.Thaqalain,
    کیا میں آپ سے جان سکتا ہوں کہ یہ بد دعا ہے، خواہش ہے، یا اندیشہ،
    اور جو بھی ہے صرف کراچی کے لیئے کیوں ہے؟

    ReplyDelete
  22. شکریہ اسماء، میں نے خود تو کبھی نہیں منائ۔ اور اگر کوئ نہ منائے تو نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی تو یاد بھی نہیں رہتی۔ یہ اہتمام دوسرے ہی کرتے ہیں۔ اور وہ تو مصر ہیں کہ مجھے اپنا نزلہ زکام تحفے میں دیں۔ بس مجھے ہی ناک کا سڑ سڑ کرنا پسند نہیں۔ اور جہاں تک عمر کا تعلق ہے، اسکے لئیے شاعر کہہ رہا ہے کہ
    دل ابھی تک جوان ہے پیارے
    کس مصیبت میں جان ہے پیارے
    :)
    عبداللہ
    :)
    یہ ہنسی خربوزے کے لئے ہے۔ اور آپکے سوال میں، میں بھی شامل ہوں۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ