Wednesday, January 20, 2010

تین احمق، کہانی بالکل فلمی ہے

میں اپنے ہمراہیوں کے ساتھ سی ویو میں واقع ایک سینما ہاءوس جسے سینے پلیکس کہتے ہیں  کی طرف چلی جارہی تھی۔ یہ مت سمجھیےگا کہ این آر او سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے اتنی رقم جمع کرلی کہ ایسے مہنگے سینماءوں میں فلمیں دیکھنے لگی۔ میں تو صرف غالب کی اس نصیحت پہ عمل کر رہی تھی کہ مفت ہاتھ آئے تو برائ کیا ہے۔ ویسے بھی اس فلم کے بڑے چرچے ہو رہے تھے تو جیسے ہی یہ منصوبہ پردہ ء غیب سے ظہور میں آیا۔ میں نے اپنی ڈرائیونگ کی مہارت کو پیش کرکے یہ ڈیل پکی کرلی۔ سچ ہے ہنر رائیگاں نہیں جاتا۔
یہ فلم تھی 'تھری ایڈیٹس'۔ اگرچہ فلموں پہ ریویو لکھنے کا میرا کبھی کوئ ارادہ نہیں رہا۔ اور اسکے باوجود کہ اس فلم کی کہانی بالکل فلمی تھی۔ یہ مجھے خاصی پسند آئ۔ اور میں نے اردو کے ایک محاورے 'گو میں پڑی کوڑی کو دانتوں سے کھینچتے  ہیں' کے تحت اسکی خوبیاں بھی پیشاب بھری اسٹوری سے نکال ہی لیں۔
بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ فلم کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ بچوں کو ڈاکٹر اور انجینئیر بننے کا سبق نہ پڑھائیں بلکہ انہیں وہ کرنے دیں جسکی طرف انکا رجحان ہے۔ لیکن اس فلم کی خوبیاں اس سے ہٹ کر ہیں۔ اور یہ وہ خوبیاں ہیں جو مجھے انسانوں میں بھی پسند آتی ہیں۔ یعنی زندگی کو زندہ رہنے کے احساس سے گذارنا۔ جہاں کہانی ہمیں یہ احساس دلانے کی کوشش کرتی ہے کہ کامیابی کوئ چیز نہیں ہوتی اور اہمیت محض منزل کی نہیں راستوں کی بھی ہوتی ہے۔ وہاں یہ اپنے دیکھنے والے میں جوش اور لگن بھی پیدا کرتی ہے۔ ایسا جذبہ جسکے بعد ہم اپنے آپکو دیکھتے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں، اس وسیع  وعریض کائنات، اس کھلے آسمان اور اس رنگ برنگی دنیا میں زندگی ہمیں کن چیزوں کی دعوت دے رہی ہے۔
طالب علموں کے لئے اس میں پیغام ہے کہ محض ڈگری کوئ چیز نہیں ہوتی اس سے وابستہ علم کی اہمیت ہوتی ہے۔ علم کی طاقت کے آگے بڑے بڑے سر نگوں ہو جاتے ہیں۔ اسی لئیے تو آدم کو پہلے اسماء کا علم دیا گیا تھا۔
فلم میں گانے خاصے کم، رومانس قابل گذارہ اور آئٹم سونگ کوئ نہیں ہے۔
تو جناب سینما ہال سے باہر آکر بھی دنیا کافی دیر تک اچھی لگتی رہی۔  لیکن اس اچھائ کو محسوس کرنے کے لئے آپکو اپنی یاد داشت کو اچھا انتخاب کرنے والا بنانا پڑیگا۔ ورنہ آپ کہیں گے لا حو ل ولا قوت۔ یہ فلم تھی کہ موری خانہ۔ مجھے نہیں معلوم کہ فلم کے بنانیوالوں نے اسے کمرشلی بیچنے کے لئے اس میں یہ مذاق ڈالے یا عام انڈینز کامذاق اب اسی سطح پہ پہنچ چکا ہے۔
سنا ہے پاکستان میں بھی ایک فلم اسی ٹائٹل کے ساتھ بن رہی ہے اور اسکی شوٹنگ آخری مراحل میں ہے۔ مجھے تو اس فلم کا صرف پرومو فوٹو ہی ملا ہے جو حاضر ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ یہ پاکستانی فلم اپنے مقابل کی انڈین فلم کے چھکے چھڑآ دیگی۔ لاج رکھ لیجیو مولا میرے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے فلم کے ریلیز ہونے تک۔



 اس فلم کا پرومو دیکھ کر ہی لگ رہا ہے کہ کہانی بالکل فلمی ہے۔ اس پہ مجھے اعتراض نہیں۔ سینما ہاءوس میں کوئ اصل زندگی دیکھنے تو جاتانہیں۔ خیر، اس میں ملک کے نامی گرامی اداکار موجود ہیں اور سنا ہے کہ اسکرپٹ بھی دیسی رائٹر کا لکھا ہوا ہے۔ اس لئیے اس میں کچھ ڈائیلاگ اس طرح کے ہونے کے امکان ہیں کہ جج صاحب،  میرے بیس سالہ لوٹے کو اتنا تو بڑا ہونے دو کہ وہ وزیر اعظم بن جائے۔ کہانی کا کلائمیکس یہی ہے کہ لوٹا وزیر اعظم بن سکتا ہے کہ نہیں۔ کہانی میں ایک مولا جٹ بھی موجود ہے جو مشکل وقت میں قوالی گاتا رہتا ہے مجھ کو جدہ بلالے مولا میرے۔ دیسی کہانی میں ایک ریمبو بھی ہے۔ جو ہیرو کے لئیے تندہی سے  مشکل وقت لاتا ہےاور ساتھ ہی  انتہائ تندہی سے اسے ہٹانے کی مہم میں لگ جاتا ہے۔ یہ کردار خاصہ غیر واضح ہے اور کہا جاتا ہے کہ اسے فلم کی کمرشل ویلیو بڑھانے کے لئے ڈالا گیا ہے۔ اور اس کردار سے آمدنی بڑھنے کے امکان ہیں۔ کہانی زیادہ تر فلیش بیک میں چلنے کے امکان ہیں۔ اگرچہ فلم کی ہیروئین کے لئیے جس فنکارہ کو لیا گیا ہے وہ کچھ عرصے قبل ہی آنجہانی ہو چکی ہیں۔ یعنی کہ مر گئ ہیں۔ لیکن امید ہے کہ انکی میسر فوٹیج اور آواز اس کمی کو محسوس نہیں ہونے دیگی۔۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام 'گو میں پڑی کوڑی کو دانتوں سے کھینچتی 'ہے کہ نہیں۔  ویسے تو عوام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انکی یاد داشت بس ایویں ہی ہوتی ہے لیکن پھر بھی ایسا نہ ہو کہ فلم کے اختتام پہ کچھ لوگ کہیں کہ فلم تھی یا موری خانہ۔ اور ہاں، اس فلم کا پیغام کیا ہوگا۔ یہ تو عوام ہی بتا سکتی ہے یا اسکرپٹ رائٹر۔


17 comments:

  1. کامیڈین کا ذکر شاید بھول گئیں آپ
    جو لندن سے ٹیلی فون پر چٹکلے سناتا ہے
    اور ولن بھی لندن میں ہی پایا جا رہا ہے آج کل
    سیاہ رو اور سیاہ کرتوت

    ReplyDelete
  2. جعفر، آپ بھول رہے ہیں۔ اس وقت تبصرہ فلم کے پرومو فوٹو پہ ہو رہا ہے۔ جس میں صرف یہ تین لوگ موجود ہیں۔ اب اگر فلم بنانیوالے آپکی پسند اور ناپسند کا خیال رکھتے ہوئے مزید کرداروں کا اضافہ کریں گے تو دیکھیں گے۔ فی الوقت جو فلم میں موجود نہیں اسکا کیا لینا اور کیا دینا۔ اور ہاں یہ پرومو فوٹو میں نے نہیں بنایا۔ یہ تو نیٹ پہ سیر تفریح کے دوران ہاتھ لگ گیا۔

    ReplyDelete
  3. میں فلمیں بہت کم دیکھتا ہوں، مگر تھری ایڈیٹس دیکھی تھی میں نے۔
    کچھ بیہودہ سین نکال کر دلچسپ فلم تھی باقی۔
    ویسے دوسری فلم نا اہل کرداروں، جھوٹی کہانی، کے باوجود اچھا بزنس کے گی اور خوب منافع کمائے گی کیوں کہ اس کو دیکھنے والے پاکستانی عوام ہے جو فلموں پہ خوش رہتے ہیں

    ReplyDelete
  4. تھری ایڈیٹس، ایک طرح سے تارے زمیں پر کا ہی تسلسل ہے کہ دونوں فلموں میں انسانی کےا ندرونی جوہر کو پہچان کر اس کی نشونما کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ مجھے اس لئے دونوں ہی کافی پسند ہیں۔ تھری ایڈیٹس عامیانہ پن کے بغیر بھی کامیاب ہوسکتی تھی۔ نجانے کیوں انہیں اس پہ اعتبار نہ تھا؟

    ReplyDelete
  5. فلم مِں نے نہیں دیکھی ۔ جب سے انڈیا کی فلم انڈسٹری نے کچھ فلموں میں پاکستان کو ماں بہن کی ننگی گالیاں دینا شروع کی ہیں دل اچاٹ ہو گیا ہے ۔ حالانکہ کہ ان کی کلاسیکل فلمز میں بڑی جان تھی ۔ اور ان کے نغمے آج بھی دل کو لبھاتے ہیں ۔ مگر آرٹ کا سیاسی اور عامیانہ مقاصد کے لیے استعمال ایک قابل نفریں حرکت ہے ۔ میں نے اپنے ٹی وی کیبل سے انڈین فلمز کے چینل حذف کر دیے ہیں ۔ اسے آپ میرا تعصب گردان سکتے ہیں مگر دل نہیں مانتا ۔
    لگتا ہے کہ ہندو اس نئی صدی میں بھی نہیں بدلے گا۔ابھی چند روز قبل کلدیپ نائر کا ایک آرٹیکل شایع ہوا جس میں موصوف فرماتے ہیں کہ پاکستان نے بھارتی آرمی چیف کی پاکستان اور چین سے بیک وقت جنگ کی دھمکی پر بہت زیادہ رد عمل کا اظہار کیا ہے جو مناسب نہیں ہے ۔ اب اس پر کیا تبصرہ کریں گویا کہ پاکستان کو اس پر سر تسلم خم کرنا چاہیے تھا ۔ حالانکہ نائر ذات تاریخی طور پر کم متعصب سمجھی جاتی ہے

    ReplyDelete
  6. فرحان دانش، کون سی والی؟
    سعد، دوسری فلم کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ جذبہ اور لگن پیدا کرنے کے بجائے بیزاری پیدا کر دیتی ہے۔ شاید ایک وجہ یہ ہو کہ یہ تین گھنٹے سے زیادہ کی ہے۔ اور اس میں انٹرویل نہیں آتا۔
    :)
    خرم صاحب، تارے زمین پہ خاصی ڈیسنٹ فلم ہے۔ مجھے بےحد پسند ہے۔ اور میری بیٹی کو اسکا ایک گانا بم بولے بہت پسند ہے۔ لیکن یہ فلم میں ابھی اپنی بیٹی کو نہیں دکھانا چاہونگی۔ وہ ایکدم نقلچو بندر ہے۔ اور ہر نئ چیز یا حرکت کے بارے میں انکے سوال جواب شروع ہو جاتے ہیں۔ میں اپنی بیٹی کے آسان سوالوں سے بہت گھبراتی ہوں۔
    محمد ریاض شاہد، جی ہاں آپکی بات درست ہے۔ میرا فلم دیکھنے کا تناسب پہلے بھی کوئ قابل ذکر نہ تھا۔ اور اب رہا سہا بھی ختم ہو گیا۔ اسکی ایک وجہ انڈین فلموں میں بڑھتا ہوا تعصب، اور مشکل ہوتی ہوئ ہندی ہے۔ اگرچہ یہ فلم خاصی سیکولر ہے۔ اور اس میں ایک مسلمان کردار بھی ہے۔ لیکن جن فلمون میں پاکستان کو دشمن بنا کر دکھایا جاتا ہے یا اس چیز پہ زور دیا جاتا ہے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ مذاہب کے لوگ نہیں۔ میں بھی وہ نہیں دیکھتی۔ اور اس لئیے میں عام طور پہ کسی فلم کو لوگوں کی عمومی رائے جاننے کے بعد ہی دیکھتی ہوں۔ جیسے ویر زارا، پاکستانی حلقوں میں بھی بےحد پسند کی گئ تھی۔ مگر میں نے نہیں دیکھی۔ کیونکہ اس میں انسانی عشق اور محبت کو اتنا حاوی دکھایا گیا تھا کہ ایک کیریکٹر ہندو تھا اور دوسرا مسلمان۔ اور ہندو کردار حسب توقع ایک مرد کا تھا۔ کیونکہ جنوبی ایشیائ ثقافت میں مرد کی طاقت کی بڑی اہمیت ہے۔ اور عام طور پہ جب انڈیا میں ہندو مسلم رومانس کی فلمیں بنائ جاتی ہیں تو مرد عام طور پہ ہندو اور عورت مسلمان ہوتی ہے۔ اب وہاں کہ لبرل طبقے نے اکبر بادشاہ پہ فلم بنائ اور روایات سے ہٹ کر اس میں مرد مسلمان اور عورت ہندو ہو گئ۔ انتہا پسند ہندوءوں نے اسکے خلاف احتجاج کر ڈالا۔
    لیکن اس میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ تقسیم کے بعد دونوں اطراف کے لوگوں میں شدت پسندی بڑھی ہے۔ اور بجائے یہ کہ اس خطے کے حالات بہتر ہوتے روز بہ روز اس خطے کے عوام مزید غریب اور بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ہر وقت دہلی کے لال قلعے پہ جھنڈا گاڑنے کی باتیں کرتے ہیں۔ وہ اگر چاہتے ہیں کی پورے جنوبی ایشیا کو اکھنڈ بھارت بنا کر سب مسلمانوں کو انکے آبائ مذہب یعنی ہندوازم پہ واپس لیجائیں تو ہمارے یہاں بھی تمام کافروں سے دنیا کو پاک کرنے والوں کی کمی نہیں۔ ہاں ایک بات یہ ہے کہ وہ اپنا کام بے حد اچھی طرح کرتے ہیں اور آبادی میں ہم سے کہیں زیادہ ہونے کے باجود، ہم سے زیادہ مختلف النسل اور مختلف المذاہب لوگوں کا مجموعہ ہونے کے باوجود انکا اپنی آبادی پہ حکومتی کنٹرول ہم سے اچھا ہے۔
    میں فلم کی بات کر رہی تھی۔ تو جب موجودہ انڈین فلموں میں مسلمان گھرانے دکھائے جاتے ہیں تو پھر ایک مزار اور اس پہ دعا مانگنے کا منظر بھی ضرور ہوتا ہے۔ اس سے وہ دیکھنے والوں کو لاشعوری طور پہ یہ پیغام دیتے ہیں کہ اگر ہم بتوں کے آگے کھڑے ہو کر دعا مانگتے ہیں تو آپ بھی تو وہی کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک گمراہ کن حقیقت ہے اور مسلمانوں کی بڑی تعداد نہ صرف ایسا نہیں کرتی بلکہ اس سلسلے میں واضح طور پہ گروہی اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
    خیر یہ موضوع خاصہ طویل ہے۔ انکے بیان دینے والے آرمی چیف تو ریٹائر ہو گئے۔ میرا خیال ہے کہ انکا وہ بیان بھڑکتے ہوئے چراغ کی آخری لو تھا۔ ہو سکتا ہے کسی الوداعی پارٹی میں زیادہ چڑھا لی ہو۔
    آجکل میری دوسری وجہ فلم نہ دیکھنے کی میری بیٹی ہے۔ جس فلم میں، مار دھاڑ، بالغ لوگوں کے مناظر ، ہندو ثقافت کا پرچار ہو وہ میں اپنی بچی کو فی الحال نہیں دکھا سکتی۔ حتی کہ نیشنل جیوگریفک چینل یا انیمل پلینیٹ یا ایسے کارٹون چینل جن پہ ہندی ترجمہ ساتھ میں آتا ہے میں اپنی بیٹی کو وہ بھی نہیں دیکھنے دیتی۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ بہترین اردو بولے، ہندی نہیں۔ آجکل وہ 'ڈیاگو' بڑے شوق سے دیکھ رہی ہے۔ اور ؛نک' چینل پہ کسی کسی وقت اسکا ہندی ورژن بھی آتا ہے۔ اور وہ گڈ جاب کا ترجمہ کرتے ہیں 'بڑھیا'۔ مجھے بڑی کوفت ہوتی ہے۔ میری بیٹی کسی چیز کو اچھا کہنے کے بجائے بڑھیا کہے یہ مجھے پسند نہیں۔ اچھی اردو زبان تو ہندءووں کو بھی متائثر کر دیتی ہے۔ اسکا مجھے عملی تجربہ ہے۔
    ہوں، تو مطلق غیر جانبداری کوئ چیز نہیں ہوتی۔

    ReplyDelete
  7. سچ کہا آپ نے کے کہانی فلمی ھے ، مگر اس کو پڑھ کر اور جو کچھ ہماری سمجھ دانی میں پڑا اس کو سامنے رکھتے ہوۓ ایک ایسا ھی فلمی ڈایلاگ ذھن میں اتا ھے کے " فلم ابھی باقی ھے " اور نجانے یہ فلم کب ہمارے وطن سے فلاپ ھو کے نکلے گی اور کب ہم اس فلمی دنیا کے جھانسے سے نکل کر کچھ نیا سوچیں گے.

    ReplyDelete
  8. آپ کی رجائیت پسندی قابلِ تحسین ہے۔

    ReplyDelete
  9. محترمہ عنیقہ صاحبہ
    اسلام علیکم
    ایسے ممالک میں آرمی چیف ایسے بیانات زیادہ چڑھا جانے کی وجہ سے نہیں دیتے بلکہ بیان دینے سے قبل ان کا عملہ بیان کی زبان اور انداز کی خوب چھان پھٹک کرتا ہے کہ کون سا لفظ کیا نتائج پیدا کرے گااور کہاں کہاں اس بیان کے کیا اثرات ہوں گے

    ReplyDelete
  10. ہاں ایک بات رہ گئی کہ میں نے اپنے چھ سالہ بچے کو کارٹون نیٹ ورک دیکھنے کی آزادی دے رکھے تھی مگر ایک دن پھونچکا رہ گیا جب میری بیگم نے بتایا کہ ایک کردار جنسیت کے متعلق بڑے بلیغ ڈائیلاگ بولتا ہے ۔ خیر اس سے منع کیا تو انڈین کرشن بابا کے کارٹون چل پڑے جس میں ہندو مزہب کو بہت خوبصورت بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور میرا بیٹا اسے پسند کرتا ہے اب اس ۃتا کر اسے محض ٹام اور جیری پر لگایا ہے پتہ نہیں ہم کیوں نہیں عربی پروگرام اور کارٹون ترجمہ کر کے اپنے بچون کے لیے پیش کر سکتے۔

    ReplyDelete
  11. جی ہاں حسیب، جب تک ہم زندہ ہیں فلم تو باقی رہے گی۔ آہ۔
    :)

    مجھے تو انکا ریٹائر منٹ نہیں سمجھ میں آیا۔ اور اگر یہ پہلے سے تھا کہ انہیں اس وقت ریٹائر ہونا ہے تو آخری وقت پہ اس بیان کو دیوانے کی بڑ ہی کہا جا سکتا ہے۔ خس کم جہاں پاک۔
    جی ہاں کارٹون نیٹ ورک پہ جو کارٹون آتے ہیں وہ مجھے بچوں کے لئے پسند نہیں۔ ان میں سے زیادہ تر میںبہت مار پٹائ ہوتی ہے اور شورشرابہ۔ اسکی نسبت ایک چینل ہمارے یہاں آتا ہے اسکا نام ہے بے بی چینل ۔ ت یہ چینل سات آٹھ مہینے کا بچہ بھی دیکھ سکتا ہے مگر بڑے بچوں کی دلچسپی اس میں کم ہوتی ہے۔جیسے میری بیٹی اب اس میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتی۔ ایک اور چینل ہے جو نک کے نام سے اتا ہے اور یہ نک دراصل نیکولڈیئن کی مختصر شکل ہے۔ اس میں خاصے بہتر کارٹونز آتے ہیں جو بچوں کی لرننگ اسکل کے لئے اچھے ہوتے ہیں جیسے ڈورا دی ایکسپلورر اور ڈیاگہ ریسکوئر، اسکے علاوہ میری بیٹی کو اس میں اپنگ باب اور گوآلا گوآلا آء لینڈ بہت پسند ہے۔ ان سب کے انگلش ورژن میرے لئیے قابل ترجیح ہیں۔ اسکے علاوہ میں نے ان کارٹونز کی ڈی وی ڈیز لے لی ہیں تو مجھے یہ فکر نہیں ہوتی کہ اسکا میٹیریئل مجھے نہیں پتہ۔
    جی ہان ویسے تو ہم انڈینز سے مقابلے کے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ اور انکی اینٹ سے اینٹ بجانے کو بیتاب رہتے ہیں۔ لیکن آپ اگر چینل صرف کرنے بیٹھیں تو دیکھیں گے کہ ڈسکوری، نیشنل جیوگریفک اور انیمال پلینٹ جیسے سائنسی انفارمیشن رکھنے والے اور عمدہ دستاویزی فلمیں دکھانے والے ان چینلز پہ انہوں نے اپنا سیٹیلائٹ ٹائم لیا ہوا ہے اور ان اوقات میں اس پہ وہی دستاویزی فلمیں ہندی میں آتی ہیں۔ یہی نہیں جتنے بھی غیر ملکی کارٹون چینلز ہمارے ملک میں میسر ہیں وہ بھی اپنے مخصوص اوقات میں ہندی میں آتے ہیں۔ کہانی یہیں پہ نہیں رکتی بلکہ انہوں نے اپنی ثقافت کے پروہپیگنڈہ کے لئیے ہندی میں خاصے معیاری کارٹّونز بھی بنانا شروع کر دئیے ہیں۔ وہ جانتے ہیں بچے انکا مستقبل ہیں۔ میں یو ٹیوب پہ اردو میں بچوں کے لئیے نظمیں تلاش کرنے بیٹھی تو بمشکل تین چار ہاتھ لگیں۔ لیکن ہندی میں کیا نہیں موجود۔ آخر ہم ان سے کس چیز میں مقابلہ کرتے ہیں۔ نعرہ ء جہاد سے سب فتح نہیں ہو سکتا۔ اس سے تو اپنے ہی ملک میں حکومتی اثر باقی نہیں رہ پا رہا ہے۔
    میں چاہتی ہوں کہ وہ جب تھوڑی بڑی ہو تو ان معیاری دستاویزی فلموں کے چینلز ضرور دیکھے اور اسکے لئے مجھے لازماً انگلش کی طرف جانا پڑیگا۔

    ReplyDelete
  12. پاکستانی فلم کے وال پوسٹر میں مین ایکٹرز کے بجائے کریکٹر ایکٹرز کی تصاویر لگادی ہیں۔۔ ۔

    ReplyDelete
  13. ایک کہانی یہ بھی ہے اب فلمی ہے یا غیر فلمی یہ تو آپ ہی بتائیں!
    http://ejang.jang.com.pk/1-21-2010/pic.asp?picname=16_11.gif

    ReplyDelete
  14. ویسے ایڈیٹ کا ترجمہ پاگل کیا جائے یا احمق؟ :)

    ReplyDelete
  15. اسید، مین کیریکٹرز کی دماغی حالت کے بارے میں اتنے شبہات نہیں۔ شاید ایسے ہی لوگوں کے لئے شاعر نے کہا کہ
    وہ اس کمال سے کھیلا تھا پیار کی بازی
    میں اپنی فتح سمجھتا تھا مات ہونے تک،
    عبداللہ، یہ زلزلے والے ہتھیاروں پہ جا کر میں دیکھا۔ یہ بھی ایک ٹیکنالوجی ہے۔ لیکن ہیٹی کے زلزلے سے اسکا تعلق ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ دو ہزار چھ میں آنیوالی سونامی کے بارے میں بھی کچھ لوگوں کو اس قسم کے خدشات لاحق ہیں۔ انسانی سطح پہ پیدا کءے جانیوالے یہ تجربات زمین کی زیر زمین حالتوں کے لئے بے حد خطرناک ہیں۔ اس سے پوری دنیا کو شدید ماحولیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اور پھر ہیٹی جیسے پسماندہ ملک میں لاکھوں کی تعداد میں مرنیوالے لوگوں کی جگہ آرام اور عیاشی کی زندگی گذارنے والون کو بھی زندگی کے لالے پڑ سکتے ہیں۔ میں ان ہتھیاروں کے متعلق مزید پڑھنا چاہوںگی۔
    راشد کامران صاحب، ایڈیٹ کا بالکل مناسب ترجمہ احمق ہونا چاہئیے۔ لیکن کسی ملک کے صدر کے اس طرح کے بیانات کے بعد کہ میں باز جیسی آنکھوں سے چوروں کو دیکھ لیتا ہوں۔ مجھے اسکا دوسرا ترجمہ زیادہ قرین از حالات لگتا ہے۔ باز جیسی آنکھوں سے شکار کو دیکھا جاتا ہے چوروں کو نہیں۔ باقی دو کرداروں کے بارے میں مزید کچھ کہنا نہیں چاہتی۔
    لیکن اگر آپ کی خواہش ہو تو میں اسے تبدیل کر سکتی ہوں۔
    :)

    ReplyDelete
  16. نہیں‌ جی یونہی خیال آگیا تھا۔۔۔ باقی جو پوسٹر ہے اس پر تو کوئی بھی ترجمہ چلے گا۔۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ