Friday, January 22, 2010

لے پالک بچے

ان لوگوں سے پیشگی معذرت جنہیں سماجی، سیاسی اور خواتین کے حقوق سے متعلق پڑھنے سے گھبراہٹ ہوتی ہے۔ آپ لوگوں کے لئے میں نے ایک پیاری سی غزل نکال کر رکھی ہے۔ لیکن اس

پوسٹ کے بعد۔

 مستنصر صاحب اردو کے ایک بہت پیارے ادیب ہیں۔ انہوں نے کسی جگہ اپنے ایک دوست کے بارے میں تحریر فرمایا کہ اس نے ایک جواب مضمون یاد کیا ہوا تھا جسکا عنوان تھا۔ میرا بہترین دوست۔  اور وہ کچھ اس طرح سے تھا۔ میرا دوست غلام رسول ہے۔ وہ میرا ہم جماعت ہے۔ وہ بہت صاف ستھرا رہتا ہے اور اسی طرح کی مزید خوبیاں۔ امتحان میں سوال آیا ہوائ جہاز کے سفر پہ مضمون لکھیں۔ انہوں نے لکھا۔ میں اپنے ابا کے ساتھ ائیر پورٹ گیا۔ ہمیں لاہور جانا تھا۔ ہم جہاز میں بیٹھ گئے۔ جہاز کی کھڑکی سے میری نظر باہر پڑی تو مجھے اپنا بہترین دوست غلام رسول نظر آیا۔ وہ میرا بہترین دوست ہے۔ وہ میرا ہم جماعت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو جناب بات اس حد سے نکل ہی نہیں پاتی کہ آپ بہت مغرور ہیں، 'بہت پڑھی لکھی' ہیں اور آپ تو یہ اور آپ تو وہ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بات کی جا رہی ہوتی پاکستانی معاشرے میں خواتین کا ممکنہ کردار لیکن تبصرہ کچھ اس طرح شروع ہوتا ہے۔ آپ پنجابیوں کیخلاف ہیں، آپ مردوں سے نفرت کرتی ہیں آپ کبر و غرور کا شکار ہیں اور اسکے بعد ایسے مذہبی ھوالے جنکا میری لکھی گئ تقریر کے متن سے کوئ تعلق نہیں۔ البتہ اس چیز سے تعلق ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے دلی جذبات ان سب چیزوں کی آڑ میں پہنچائے کہ نہیں۔ یہ دوسرا تبصرہ حاضر ہے۔ میں، بہت پڑھی لکھی اور کبر سے بھرپور ایک عورت ان لاوارث بچوں کے بارے میں لکھتی ہوں جو کہ ہمارے معاشرے میں لاوارث چھوڑ دئیے جاتے ہیں ہمیشہ کے لئے۔ لیکن بات کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے کہ آپ بہت پڑھی لکھی، درپردہ آپ جیسی جاہل بھی کوئ ہے، نے یہ تبصرہ فرمایا اور اب اسکے بعد وہ اسلامی حوالے جنکا اس موضوع سے کوئ تعلق نہیں جسے میں نے بیان کیا۔ اور مزید مجھ جیسے کافر کے لئے قرآن سے ہدایات کہ غرور نہ کرو اور یہ نہ کرو اور وہ نہ کرو۔ انسان کسی بھی عمر کا ہو اسے اپنے دامن میں بھی جھانکنا چاہئیے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ میرے بلاگ پہ میری نسل کا شجرہ نہیں، میرے خاندان کا حوالہ نہیں، میری تعلیم کا قصہ نہیں اور آپ یہ سب نمائشی اشیاء رکھتے ہیں۔ مگر آپ مغرور نہیں بہت خوب۔
اس پیغام کے ساتھ کہ دنیا بھر میں ہر انسان سب سے بہتر طور پہ اپنے آپکو جانتا ہے۔ان سب لوگوں کو انکی حالتوں پہ چھوڑتے ہوئے۔ میں اپنے مستقل قارئین سے صرف ایک سوال کرنا چاہتی ہوں اور سوال یہ ہے کہ وہ بچے جو کوڑے کے ڈھیر پہ ہمیشہ کے لئے پھینک دئیے جاتے ہیں۔ اس بات کی پرواہ کئیے بغیر کہ وہ بچیں گے یا مریں گے۔ انکے والدین کو کوئ نہیں جانتا۔ ایسے بچوں کو آپ اپنے گھر میں اس لئیے نہیں رکھیں گے کہ بڑے ہونے پہ انکے ساتھ محرم اور نا محرم کا چکر کھڑا ہوگا۔ انکو آپ اپنے گھر میں اس لئیے نہیں رکھیں گے کہ باپ کے خانے میں اگر آپکا نام لکھا گیا تو یہ غیر اسلامی ہوگا ۔ تو ان سارے غیر اسلامی عوامل سے بچنے کے لئے میری جیسی کم علم اور بد تمیز خاتون آپ سے یہ پوچھنا چاہتی ہے کہ ان بچوں کا کیا جائے کہ بڑے ہونے پہ انکا انسانی قدروں پہ یقین بھی برقرار رہے، انہیں اپنے آپ کو حقیر سمجھنے کی اذیت سے نہ گذرنا پڑے کہ انکا اس میں  کچھ قصور نہ تھآ، اور وہ با وقار رہتے ہوئے تمام ذہنی سکون کے ساتھ  بحیثیت انسان اپنی صلاحیتوں سے انسانی معاشرے کو مثبت طور پہ فائدہ پہنچا سکیں۔ میرا سوال بالکل واضح ہے۔
 اگر آپ میرے بلاگ کے مستقل قاری ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آپ کسی بھی طور اس معاشرے میں بہتر سوچ کی طرف گامزن ہو سکتے ہیں تو یہ آپ پر میرا پہلا حق ہے جو میں کسی لاوارث بچے کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہوں۔ آپ سب سے درخواست ہے کہ صرف اس سوال کا آپ جو مناسب جواب سمجھتے ہوں وہ دیں۔ براہ مہربانی اسے پڑھ کر یونہی مت چھوڑ دیجئیے گا۔
سمجھ لیجئیے کہ آپکے جواب سے ایک ایسے لاوارث بچے کی زندگی جڑی ہے جسکی اس پوری دنیا میں۔ کوئ شناخت نہیں۔میرا مقصد صرف ہہی ہے کہ اس مسئلے کے ممکنہ حل معلوم کئیے جا سکیں۔


حوالہ؛

44 comments:

  1. یہ مسئلہ کافی دنوں سے چل رہا ہے میرا بھی چونکہ دونوں بلاگز پر ہی جانا ہوتا ہے سو اب تک کی گفتگو کا لب لباب میرے ذہن میں موجود ہے۔

    یہ بلاگ چونکہ آپ کا ہے اس لئے افتخار صاحب سے تو یہاں مخاطب ہونا بجا نہیں ہے لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ افتخار صاحب کو اس مسئلے میں اگر اختلاف تھا تو متبادل حل بھی پیش کرنا چاہیے تھا۔

    اسلام اتنا تنگ نظر مذہب نہیں ہے کہ اس معاملے میں درمیانی راستہ نہ ملے شرط کوشش کی ہے پھر اگر انسانیت کی خاطر کچھ اسلامی تعلیمات کے برخلاف بھی کیا جائے تو اللہ تعالیٰ تو دلوں کے حال جا نتا ہے اور بڑا معاف کرنے والا ہے۔

    ReplyDelete
  2. درج ذیل لنک کو درست کردیجے گا:


    لاوارث بچوں سے متعلق میری پوسٹ، ایک ہے ثریا

    ReplyDelete
  3. Don't tell me that you are spending time on correcting some idiot Pakistani guy, men like these are usually infected with a disease which goes something like that they don't like women to be independent, they need them to be their slaves, for this they use religious lavishly. So please don't give this stupid scum more than some crap or maybe not even that. I must stress that I can't believe that a women of your caliber is spending time on smoe stupid random Pakistani uncle...I mean seriously!

    If he doesn't want illegitimate kids then he better fix his so called 'islamic' society which is reported to have given Google the most hits for porn sites...it is such a desperate society!

    Every parentless kid deserves to be adopted and I think it should better be a rule, instead of creating a whole army of your own kids, everyone should be asked to adopt one kid. And if you can't love any kid apart from your own then you have a serious problem, chances are that you don't love your own kids either, you love just yourself.

    And I am pretty sure that Islam isn't myopic like it's followers and I definitely don't need anyone's opnion or any Maulvi's fatwa about this.

    ReplyDelete
  4. انیقہ سب سے پہلے تو آپ سے ایک گزارش ہے کہ آپ دنیا میں کچھ بھی کریں مگر لکھنا نہ چھوڑیں خواہ کوئی کتنا ہی طعنوں کے تیر برسائے!
    اب آپ کے سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک بات جوکہ معاشرے ہی سے متعلق ہے!کسی معاشرے کی بہتری اور بدتری کا ذمہ دار مرد ہوتا ہے جی ہاں مرد کیونکہ وہ قوام ہے!جس معاشرے کے مرد اچھے ہوں گے وہ معاشرہ خود بخود اچھا ہو جائے گا اس مثال کو آپ ایک خاندان پر منطبق کر کے دیکھسکتے ہیں اور اسے ثابت کرنے کے لیئے آپکو زیادہ دور بھی نہیں جانا پڑے گا یہ آپکو اپنے ارد گرد ہی نظر آجائےگی!
    اب بات کرتے ہیں اس مسئلے کی کچھ لوگ جب ایک محدود حد میں دین کو پڑھتے ہیں تو وہ لکیر کے فقیر بن کر رہ جاتے ہیں جب کہ اسلام اپنے ہر ماننے والے کو اجتہاد کی دعوت دیتا ہے!
    جب معاشرے کے مرد اللہ اور رسول کے اس حکم کی پیروی کرتے ہیں کہ اے ایمان والوں اپنی نگاہ نیچی رکھو اور نگاہ کا ایسی جگہ جان بوجھ کر ڈالنا جس کی ممانعت ہے نگاہ کا ذنا ہے تو ہم اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں حالانکہ زنا تو زنا ہی ہے اور اصل ذنا کی ابتداء اس نگاہ کے ذنا سے ہوتی ہے،ظاہر ہے کہ جس کے دل میں اس بات کا خوف ہے کہ اللہ اس کے ہر کام سے واقف ہے یہاں تک کے دلوں کے حال بھی جانتا ہے وہ برا کام کرنا تو دور کی بات برا سوچے گا بھی نہیں،اسی لیئے کہا جاتا ہے کہ جس کے دل میں خوف خدا نہیں وہ مسلمان تو دور کی بات انسان بھی نہیں، جب ایک معاشرہ اس حد تک ذہنی اور روحانی طورپر پاک ہو جائے تو ایسے بچوں کی پیدائش ہی ناممکن ہو گی مگر ہم اس دور میں ابھی داخل نہیں ہوئے ہیں!
    چنانچہ یہ دور جس میں ہم ذندہ ہیں اس کو بہتر سے بہتر بنانے کی تگ و دو کرنے کے ساتھ ساتھ بیچ کا راستہ یہی ہے کہ ان بچوں کی ولدیت میں آدم اور ماں کی جگہ حوا لکھوایا جائے اور بچوں کو صرف اس بات سے انفارم کردیا جائے کہ تم ہماری اولاد نہیں ‌مگر‌‌تم‌ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہو اور ان کی شخصیت کی تعمیر اتنے عمدہ طریقے سے کی جائے کہ اس بات کی حیثیت ان کی ذندگی میں باقی ہی نہ رہے کہ ان کی پیدائش کیسے ہوئی ،باقی رہا سوال محرم اور نا محرم کا تو کسی شیطان صفت مرد ہی سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ایک بچی جو اس کے گھر میں پل کر بڑی ہوئی اور اسے باپ کا درجہ دیتی ہے پر بری نگاہ ڈالے گا!جب بچوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ محلے کی ہر لڑکی تمھاری بہنہے اور ہر لڑکا تمھارا بھائی ہے اور وہ ان کی اسی طرح عزت اور تکریم کرتے ہیں جیسے اپنی سگی بہن یا بھائی کی تو ایک گھر میں پلنے والے بچوں میں یہ جزبہ کیوں نہیں پیدا ہوسکتا؟
    یہ میری ناقص رائے ہے اور بہر حال اس میں اختلاف کی پوری پوری گنجائش موجود ہے !

    ReplyDelete
  5. بینش میں آپکی ساری باتوں سے متفق ہوں سوائے ایک کے کہ انیقہ اس پر نہ لکھیں !
    نہیں انیقہ کو بلکل لکنا چاہیئے اگر چند بے وقوف اور خود پسند لوگ اس معاشرے اور اس کی نوجوان نسل کو غلط راستہ دکھارہے ہیں تو کچھ لوگوں کو ان کا توڑ کرنے کے لیئے اپنی آواز بلند کرتے رہنا اشد ضروری ہے!امید ہے کہ میری ناقص رائے پر بھی آپ کچھ ضرور کہیں گی!

    ReplyDelete
  6. ایک لڑکا اپنی گرل فرینڈ لے کر گھر گیا اماں ابا سے ملوایا۔ کچھ دیر بعد ابا ایک کونے میں لڑکے کو لے گئے اور فرمایا بیٹا جوانی میں میں کچھ زیادہ ہی شریر تھا۔ یہ لڑکی تمہاری بہن ہے۔
    لڑکے کی زندگی اندھیر ہو گئی مہنیوں بعد اس کے دل کو چین آیا پھر ایک لڑکی پسند آئی اس کو گھر لایا۔ پھر وہی کہانی۔ ابا جان کی شرارت رنگ لائی تھی یہ لڑکی بھی اس کی بہن نکلی۔
    اب کے اس کو سالوں لگے سنبھلنے کو۔ پھر ایک لڑکی پسند آئی اب اس تیسری لڑکی کو گھر لایا تو ابا جان نے وہی فرمایا۔ اب لڑکا چونکہ دیسی مرد نہیں تھا لہذا تیسری دفعہ کے بعد جا کر ماں کو بتایا کہ ایسے تو میری شادی نہیں ہونے کی۔ ماں نے ہنس کر اس کے گال کی چٹکی لی اور بولی تم بھی اپنے باپ کی اولاد نہیں۔

    اب بھی سمجھ نہ آئی ہو تو خیر۔ پہلی دفعہ تحریر پڑھی تو وہ بندہ غلط لگا۔ یہ لطیفہ پڑھا تو آپ غلط لگیں۔ آپ کی پوسٹ سے زیادہ لمبا تبصرہ نہیں کرنا چاہتا لیکن آپ باآسانی چھڑ جاتی ہیں مذکورہ بلاگ پر جو کوٹ شدہ ورڈنگ ہے وہ آپ کی تو نہیں؟ وہ راشد کامران کے بلاگ سے ہے مگر اس کا درست صفحہ غائب ہے۔

    ReplyDelete
  7. بد تمیز، آپکے لطیفے پہ کیا کہوں۔ اس لطیفے سے ملتی جلتی بات پہ عمیرہ احمد ایک پورا ناول لکھ چکی ہیں۔ اسکا نام شاید تھوڑا سا آسمان ہے۔ اب ذرا دوبارہ اسی کتاب کی طرف جاتی ہوں ۔ جس کے حوالے سب آسانی سے نکال لیتے ہیں اور وہ یہ کہ خبیثوں کے لئیےخبیث اور پاک کے لئے پاک۔ یہ بالکل صحیح ترجمہ نہیں ہے۔ کیونکہ مذکورہ آیت خاصی لمبی ہے۔ اگرچہ کہ مجھے اس آیت کا مطلب بھی سمجھ میں صحیح سے نہیں آتا۔ یہ بالکل ذاتی بات ہے۔ کیونکہ کئ دفعہ خبیثوں کے ساتھ پاک لوگوں کو دیکھا گیا ہے۔
    لیکن میرا سوال اس تفصیل سے متعلق نہیں۔ بالکل سیدھی سی بات بتائیں کہ ایسی صورت میں آپ کیا سمجھتے ہیں۔ کسی شخص کو کیا کرنا چاہئیے۔ کوئ ٹیڑھ نہیں چاہئیے۔
    جی، یہ ورڈنگز میرے ہی ہیں۔ آپکو اندازہ نہیں ہوا۔ اردو بلاگرز میں صرف مجھے پڑھے لکھے ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ ورڈنگز میں نے راشد کامران کے بلاگ پہ اپنی اسی تحریر ' ایک ہے ثریا کا' حوالہ دیتے ہوئے لکھے تھے۔ اس لئیے میں نے اصل سیاق وسباق کو یہاں ڈالدیا ہے۔
    میں چھڑ نہیں جاتی، بلکہ آٹھ مہینے کے بعد اب میری خواہش ہے کہ اردو بلاگرز اپنی عظیم صلاحیتیں عنیقہ کے اوپر ضائع کرنے کے بجائے کچھ اور کام کریں۔ میں انکا صحیح مقام نہیں ہوں۔ اور اگر وہ اسی پہ مصر ہیں تو میں انہیں یہ رہنمائ دینے کے لئیے تیار ہوں کہ انکا صحیح مقام کیا ہے۔

    ReplyDelete
  8. اُسکی وہ جانے اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا
    تم فراز اپنی طرف سے تو نباہے جاتے

    یتیم اور لاوارث کو سہارا دینا اچھی بات ہے یا بری اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں یا شاید دین سے اخذ کیے گئے مذاہب میں ہوں بھی۔ اب اگر کسی بچے کے والدین کا سرے سے علم ہی نا ہو اور پوری کوشش کے باوجود بھی پتا نا چلایا جاسکے تو اسلام میں مناسب عذر کی موجودگی میں قوانین انتہائی نرم ہوجاتے ہیں۔ پانی نا ہوتو خاک سے بھی پاکی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایسی صورت میں بال کی کھال نکالنے والے ایک آسان دین کو مشکل ترین بنانے کے سعی میں ہمیشہ سے مشغول رہے ہیں اس لیے دو کانوں کا مناسب استعمال کیجیے۔۔ کچھ کام خالص اللہ کی رضا کے لیے کیے جاتے ہیں اور صرف اسی سے جزا کی امید رکھی جاتی ہے کہ دلوں کا حال اور نیت کی قدر اسی کے علم میں ہے۔ یتیم کو سہارا دینا بس ایسا ہی ایک کام ہے ورنہ ریا کاری کرنے کے لیے تو کئی آسان اور کم خرچ نیکیاں بآسانی دستیاب ہیں اس جنجال میں کون پڑے۔

    ReplyDelete
  9. دین اسلام میں تو ایسی کوئی پابندی نہیں بلکہ اسے مستحسن اقدام قرار دیا گیا ہے۔ ہاں کچھ لوگوں کی ذاتی رائے اور فہم کے اختلاف سے انکار نہیں اور ایسی سنجیدگی بھی مناسب نہیں کہ اسے تنازعہ سمجھ کیا جائے۔ اگر ولدیت کے خانے میں نام لکھنے کا مسئلہ ہے تو سر کھپائی کرنے کی بجائے اپنے اپنے ممالک کے قوانین کے مطابق لکھئیے لیکن یاد رکھئیے کہ یہ میری رائے ہے فتوی نہیں۔
    مزید باریکی کا معاملہ محرم یا نامحرم شمار کئے جانے کا ہے تو اس پر کوئی صاحب علم ہی روشنی ڈال سکتا ہے ۔ لیکن اس سلسلے میں ایک سوال خود سے کرنا ہو گا کہ کیا ہم روز مرہ کے امور میں شریعت کی اس حد کا پاس کرتے ہیں؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر ایک بے گناہ کو اس کے والدین کے گناہ کے بدلے سسکنے اور محرومی یا موت کا سامنا کرنے کے لئیے مت چھوڑئیے بلکہ اسے زندگی کی طرف لائیے۔
    ’ہو سکے تو ایک فرد سے اختلاف رائے کا بدلہ سب پر غصہ اتار کر مت لیجئیے‘۔---- --------------

    ReplyDelete
  10. بی بی!
    آپ نے جو رائے یہاں مانگی ہے اسکے لئیے غالبا بلاگ ایک بہترین فورم نہیں۔ اس بارے میں عرض ہے آپ کراچی جیسے علمی سمندر میں رہتی ہیں آپ کسی بھی جید عالم اور مفتی کی رائے لیتیں خود بھی استفادہ کرتیں اوراس فتویٰ کی تفضیلات یہاں لکھ دیتیں، ہم بھی مستفید ہوتے۔
    اگر ہم کم علم ہیں اور کسی خاص مسئلے کی پیچیدگی کے بارے میں ہمیں علم نہیں تو یہ مت سمجھا جائے کہ اسلام نے انسانی زندگی کے کسی پہلو کا احاطہ نہیں کیا ہوگا۔ یا اسلام میں اسکے حقوق نہیں ہونگے خواہ وہ لقیط ( وہ بچہ جو جسے زنا کی وجہ سے ، یا زنا کی تہمت سے بچنے کے لئیے، یا پھر مفلسی و نادری کے ہاتھوں مجبور ہو کر باہر پھینک دیا گیا ہو اسے اسلامی اصطلاح میں اسے لقیط کہتے ہیں) کیوں نہ ہو۔ لقیط کے بھی حقوق عام بچوں کی طرح اسلام میں محفوظ ہیں۔
    میری ذاتی رائے میں جن لوگوں نے بچے کی ولدیت پہ اصرار کیا ، وہ بھی اپنی جگہ درست ہیں۔ کیونکہ وہ حقوق بچے کے نسب کے حوالے سے ہیں اور بچے کے اصل نسب کی اسلام میں یعنی قرآن کریم اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حکم ہے کہ نسب کو غلط نہ کیا جائے جبکہ جو مسئلہ آپ نے پیش کیا ہے وہ ایک لقیط بچے کے بارے میں ہے۔ میرا دینی علم اسقدر نہیں کہ میں کوئی رائے دے سکوں اور غلطی کا احتمال رہتا ہے ، لہذا اس کی تصدیق کسی مستند عالم سے کروا لی جائے ۔
    ذیل میں لقیط کے حقوق ۔ نسب کے حقوق اور آخر میں بالترتیب یتیموں کے حقوق لکھ دئیے ہیں تانکہ جو چاہے اس مضمون سے استفادہ کر سکے اور جان سکے کہ اسلام میں انسانی زندگی میں کسی کے بھی حقوق کا کوئی گوشہ پوشیدہ نہیں جس سے اسلام نے اغماض برتا ہو۔

    اسلام میں لقیط کے حقوق۔
    ارشادِ باری تعالٰی ہے۔
    ” وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا.
    ’’اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا۔‘‘ “
    القرآن، المائده، 5 : 32

    امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے ابو جمیلہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی،انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانہ میں ایک پڑا ہوا بچہ پایا۔ کہتے ہیں میں اسے اٹھا لایا اورحضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس لے گیا انھوں رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ تم نے اسے کیوں اٹھایا؟ میں نے جواب دیا کہ میں اسے نہ اٹھاتا تو یہ ضائع ہوجاتا ابو جمیلہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قوم کے سرادر نے کہا اے امیر المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ مرد صالح ہے یعنی یہ غلط نہیں کہتا( یعنی یہ تصدیو ہوجانے پہ کہ ابو جمیلہ درست کہہ رہے کہ کہ بچے کے بارے میں انھیں اس کے سوا کچھ پتہ نہیں کہ وہ رستے میں پڑا ہوا تھا) حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا اسے لے جاؤ یہ آزاد ہے اس کا نفقہ ہمارے ذمہ ہے یعنی بیت المال سے دیا جائے گا۔
    بحوالہ، موطا ، امام مالک

    سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس لقیط لایا جاتا تو اسکے مناسب حال کچھ وظیفہ مقرر فرما دیتے جو اسکا ولی ہر ماہ لے جایا کرے، لقیط کے بارے میں بھلائی کرنے کی وصیت فرماتے اسکی رضاعت (کسی خاتون سے دودھ پینا) کے مصارف اور دیگر اخراجات بیت المال سے مقرر کرتے۔
    بحوالہ نصبب الرایۃ، کتاب اللقیط


    تمیم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک لقیط پایا اسے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس لائے انہوں نے اسے اپنے ذمہ لے لیا۔
    بحوالہ المصنف، باب القیط

    امام محمد نے امام حسن بصری سے روایت کی ایک شخص نے لقیط پایا اسے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس لایا انھوں نے فرمایا یہ آزاد ہے اگر میں اسکا متولی ہوتا ہوتا یونی اگر یہ مجھے ملا ہوتا تو مجھے فلاں فلاں چیز سے زیادہ محبوب ہوتا۔
    فتح القدیر، کتاب القیط
    عرف شرع میں لقیط اس بچہ کو کہتے ہیں جس کو اسکے گھر والے نے اپنی تنگدستی یا بدنامی کے خوف سے پھینک دیا ہو۔ بحوالہ الدارالمختار ، کتاب القیط۔

    یہاں ایک بات کی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس دور میں لونڈی اور غلام کے اختلاط سے بھی اسیے بچے ہوتے تھے جنھیں کچھ لوگ اپنا غلام بنانے کا قصد کرتے تھے اس لئیے سختی سے حکم کیا جاتا تھا کہ یہ بچہ آزاد ہے۔ تانکہ اگر اسکے والی کے دل میں فتور ہۓ تو وہ اس سے باز رہے۔
    (آپکے بلاگ پہ چار ہزار چھیانوے الفاظ سے زیادہ لکھنے پہ پابندی ہے اسلئیے تین چار حصوں میں لکھ بیج رہا ہوں)
    ۔۔۔۔ جاری ہے۔۔۔

    ReplyDelete
  11. ۔۔۔گزشتہ الفاظ سے پیوستہ ۔۔۔

    لقیط کے چند ایک واضح حقوق ۔
    ۔۔جس کو ایسا بچہ ملے کہ گمان غالب ہو کہ نہ اٹھا لائے گا تو بچہ پلاک ہوجائے گا تو بچہ اٹھا لانا فرض ہے۔ اور ہلاکت کا غالب گمان نہ ہو تو متحسب ہے۔
    ۔۔لقیط آزاد ہے اس پہ وہی تمام احکامات جاری ہونگے جو آزاد کے لئیے ہیں۔
    ۔۔لقیط کی ذمہ داری بیت المال یا حکومت پہ عائد ہوتی ہے ۔ اگر اسکا ولی حیثیت رکھتا ہے تو وہ بھی اسکا خرچ اٹھا سکتا ہے۔
    ۔۔لقیط کی کوئی چیز بیعہ نہیں کی جاسکتی۔
    ۔۔لقیط جس وقت ملا اگر اسکے ساتھ سونا زیور سواری یا کوئی دوسری شئے تھی تو وہ ہمیشہ لقیط کی ملکیت سمجھی جائے گی۔
    ۔۔لقیط کو اٹھانے والے کے لئیے لازم ہے کہ وہ ثابت کرے کہ وہ اسے کہیں سے پرا ہوا ملا تھا۔
    ۔۔۔لقیط کی پرورش اپنے بچے کی طرح کی جائے اور اسکی تعلیم تربیت بھی اپنے بچے کی طرح لازم ہے۔
    ۔۔ اگر اسکے پانے والا (ملتقط) ظالم یا فاسق ہے یا ذہنی اور جسمانی طور پہ معذور ہونے کی وجہ سے وہ لقیط کی صیحح پرورش نہیں کر سکتا تو قاضی کو حق حاصل ہے کہ وہ بچہ اس سے واپس لے لے۔
    نوٹ۔ اس طرح کے بہت سے حقوق جنہیں مضمون کی طوالت کی وجہ سے یہاں مزید درج نہیں کر رہا مگر جن سے ثابت ہوتا ہے کہ گرے پڑے یا پھینکے گئے اسطرح کے بچے یعنی لقیط کے حقوق بھی کسی عام سے بچے کی طرح اسلام میں محفوظ ہیں اور لقیط پالنا اسکا والی ہونا نہائت کار ثواب ہے۔

    نسب کے حقوق۔
    بچے کے نسب کا حق صرف اسی کا نہیں بلکہ اس نسب کا حق بچے کے ماں باپ بھی رکھتے ہیں، اور ماں باپ کی نسبت پہ ارشادِ باری تعالٰی ہے۔
    ” ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًاO
    ’’تم اُن (مُنہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔ اور اس بات میں تم پر کوئی گناہ نہیں جو تم نے غلطی سے کہی لیکن (اس پر ضرور گناہ ہوگا) جس کا ارادہ تمہارے دلوں نے کیا ہو، اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہےo‘‘ “
    القرآن، الاحزاب، 33 : 5
    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
    ” من ادعي إلي غير أبيه، و هو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام.
    ’’جو اپنے باپ کو علاوہ کسی اور کے متعلق دعویٰ کرے اور وہ جانتا ہو کہ وہ اس کا باپ نہیں تو اس پر جنت حرام ہے۔‘‘ “
    1. بخاري، الصحيح، کتاب الفرائض، باب من ادعي، 6 : 2485، رقم : 6385
    2. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوه الطائف، 4 : 1572، رقم : 4071
    3. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان حال ايمان، 1 : 80، رقم : 63
    4. ابو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب في الرجل، 4 : 330، رقم : 5113
    5. ابن ماجه، السنن، کتاب الحدود، باب من ادعي إلي، 2 : 870، رقم : 2610

    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے کفر سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا :
    ” لا ترغبوا عن آبائکم، فمن رغب عن أبيه فهو کفر.
    ’’اپنے آباء و اَجداد سے منہ نہ پھیرو، جو اپنے باپ سے منہ پھیر کر دوسرے کو باپ بنائے تو یہ کفر ہے۔‘‘ “
    1. بخاري، الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء في قوله، 6 : 2485، رقم : 6386
    2. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان حال إيمان، 1 : 80، رقم : 62
    3. ابو عوانه، المسند، 1 : 33، رقم : 57/
    اس سے ثابت ہوتا ہے کہ علم ہونے پہ غلط کیا جانا منع فرمایا گیا ہے۔
    بات چونکہ یتماء یعنی یتیموں کی ہورہی ہے تو اس بارے عرض ہے ۔ یتیموں کے حقوق پہ بہت زور دیتا ہے۔ قرآن کریم میں تیئس مختلف موقعوں پہ یتیم کے حقوق کا حکم دیا گیا ہے۔
    ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    ” إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًاO
    ’’بے شک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں نری آگ بھرتے ہیں، اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گےo‘‘ “
    القرآن، النساء، 4 :
    :
    ” أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىO
    ’’(اے حبیب!) کیا اُس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر اُس نے (آپ کو معزز و مکرم) ٹھکانا دیاo‘‘ “
    القرآن، الضحي، 93 : 6

    پھر اس دُرِّ یتیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یتامیٰ کی محبت، ان کے ساتھ شفقت و حسنِ سلوک اور اِحسان برتنے کی نہایت اعلی مثالیں قائم کیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یتامیٰ کی اچھی کفالت کرنے والے کو جنت کی خوش خبری دی اور اُن کے حقوق پامال کرنے والے کو درد ناک عذاب کی وعید سنائی۔ قرآن حکیم کہتا ہے :

    ۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔

    ReplyDelete
  12. ۔۔۔۔ گذشتہ حصے سے پیوستہ۔۔۔۔۔
    ” فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْO
    ’’سو آپ بھی کسی یتیم پر سختی نہ فرمائیںo‘‘ “
    القرآن، الضحي، 93 : 9
    اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
    ” وَآتُواْ الْيَتَامَى أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَتَبَدَّلُواْ الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ وَلاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَهُمْ إِلَى أَمْوَالِكُمْ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًاO
    ’’اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور بری چیز کو عمدہ چیز سے نہ بدلا کرو اور نہ ان کے مال اپنے مالوں میں ملا کر کھایا کرو، یقیناً یہ بہت بڑا گناہ ہےo‘‘ “
    القرآن، النساء، 4 : 2

    :
    ” وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى قُلْ إِصْلاَحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ وَاللّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ.
    ’’اور آپ سے یتیموں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں : اُن (کے معاملات) کا سنوارنا بہتر ہے، اور اگر اُنہیں (نفقہ و کاروبار میں) اپنے ساتھ ملا لو تو وہ بھی تمہارے بھائی ہیں، اور اﷲ خرابی کرنے والے کو بھلائی کرنے والے سے جدا پہچانتا ہے۔‘‘ “
    القرآن، البقرة، 2 : 220

    ” وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُواْ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُواْ عَلَيْهِمْ وَكَفَى بِاللّهِ حَسِيبًاO
    ’’اور یتیموں کی (تربیۃً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں، پھر اگر تم ان میں ہوشیاری (اور حسنِ تدبیر) دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو اور ان کے مال فضول خرچی اور جلدبازی میں (اس اندیشے سے) نہ کھا ڈالو کہ وہ بڑے ہو (کر واپس لے) جائیں گے، اور جو کوئی خوشحال ہو وہ (مالِ یتیم سے) بالکل بچا رہے اور جو (خود) نادار ہو اسے (صرف) مناسب حد تک کھانا چاہئے اور جب تم ان کے مال ان کے سپرد کرنے لگو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو اور حساب لینے والا اﷲ ہی کافی ہےo‘‘ “
    القرآن، النساء، 4 : 6

    ” وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُواْ مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُواْ عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللّهَ وَلْيَقُولُواْ قَوْلاً سَدِيدًاO إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًاO
    ’’اور (یتیموں سے معاملہ کرنے والے) لوگوں کو ڈرنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے پیچھے ناتواں بچے چھوڑ جاتے تو (مرتے وقت) ان بچوں کے حال پر (کتنے) خوفزدہ (اور فکرمند) ہوتے، سو انہیں (یتیموں کے بارے میں) اﷲ سے ڈرتے رہنا چاہئے اور (ان سے) سیدھی بات کہنی چاہئےo بے شک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں نری آگ بھرتے ہیں، اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گےo‘‘ “
    القرآن، النساء، 4 : 9، 10

    ” وَلاَ تَقْرَبُواْ مَالَ الْيَتِيمِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ.
    ’’اور یتیم کے مال کے قریب مت جانا مگر ایسے طریق سے جو بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے۔‘‘ “
    القرآن، الانعام، 6 : 152

    ” أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِO فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَO وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِO
    ’’کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہےo تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو ردّ کرتا اور اُنہیں حق سے محروم رکھتا ہے)o اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتا)o‘‘ “
    القرآن، الماعون، 107 : 1 - 3

    ” كَلَّا بَل لَّا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَO وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِO وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَّمًّاO وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّاO
    ’’یہ بات نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ عزت اور مال و دولت کے ملنے پر) تم یتیموں کی قدر و اِکرام نہیں کرتےo اور نہ ہی تم مسکینوں (یعنی غریبوں اور محتاجوں) کو کھانا کھلانے کی (معاشرے میں) ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہوo اور وراثت کا مال سمیٹ کر خود ہی کھا جاتے ہو (اس میں سے اَفلاس زدہ لوگوں کا حق نہیں نکالتے)o اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہوo‘‘ “

    ۔۔جاری ہے۔۔

    ReplyDelete
  13. القرآن، الفجر، 89 : 17 – 20
    یتماء کے بارے میں کچھ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں ہیں۔
    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    ” خير بيت في المسلمين بيت فيه يتيم يحسن إليه، و شرّ بيت في المسلمين بيت فيه يتيم يساء إليه.
    ’’مسلمانوں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ نیک سلوک ہو اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک ہو۔‘‘ “
    1. ابن ماجه، السنن، کتاب الأدب، باب حق اليتيم، 2 : 1213، رقم : 3679
    2. بخاري، الادب المفرد : 61، رقم : 137
    3. ابن مبارک، الزهد : 230، رقم : 654
    4. عبد بن حميد، المسند : 427، رقم : 1467
    5. طبراني، المعجم الاوسط، 5 : 99، رقم : 4785
    6. منذري، الترغيب و الترهيب، 3 : 236، رقم : 3840

    حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
    ” قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : أنا و کافل اليتيم في الجنة هکذا . . . و أشار بالسبابة و الوسطي، و فرج بينهما شيئا.
    ’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے ۔ ۔ ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ فرمایا اور دونوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔‘‘ “
    1. بخاري، الصحيح، کتاب الطلاق، باب العان، 5 : 2032، 2237، رقم : 4998، 5659
    2. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب البر، باب ما جاء في الرحمة، 4 : 321، رقم : 1918
    3. ابن حبان، الصحيح، 2 : 207، رقم : 460
    4. ابويعلي، المسند، 13 : 546، رقم : 7553
    5. روياني، المسند، 2 : 216، 278، رقم : 1067، 1197
    6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 283، رقم : 12442

    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    ” والذي بعثني بالحق! لا يعذب اﷲ يوم القيامة من رحم اليتيم، ولان له في الکلام، و رحم يُتْمه و ضَعْفَه، ولم يتطاول علي جاره بفضل ما آتاه اﷲ، و قال : يا أمة محمد! والذي بعثني بالحق! لا يقبل اﷲ يوم القيامة صدقة من رجل وله قرابة محتاجون إلي صدقته و يصرفها إلي غيرهم، والذي نفسي بيده! لا ينظر اﷲ إليه يوم القيامة.
    ’’قسم ہے اُس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اُس شخص کو عذاب نہیں دے گا جس نے یتیم پر شفقت کی، اس کے ساتھ نرمی سے گفتگو کی، اور معاشرے کے محتاجوں و کمزوروں پر رحم کیا، اور جس نے اﷲ تعالیٰ کے طرف سے ہونے والی عطا کے وجہ سے اپنے پڑوسی پر ظلم نہ کیا۔ پھر فرمایا : اے اُمتِ محمدی! قسم ہے اُس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اُس شخص کی طرف سے صدقہ قبول نہیں کرے گا جس نے غیروں پر صدقہ کیا حالانکہ اُس کے اپنے رشتہ دار اُس کے صدقہ کے محتاج تھے۔ قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اﷲ تبارک و تعالیٰ روزِ قیامت اُس شخص کی طرف نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا۔‘‘ “
    1. طبراني، المعجم الاوسط، 8 : 346، رقم : 8828
    2. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 4 : 378، 379، رقم : 7110
    3. منذري، الترغيب و الترهيب، 2 : 18
    4. منذري، الترغيب و الترهيب، 3 : 237
    5. هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 117

    حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اس کے دادا سے روایت کرتے ہیں :
    ” من ولي ليتيم مالا فليتجر به ولا يدعه حتي تأکله الصدقة.
    ’’جس کو کسی یتیم کے مال کا ولی بنایا گیا تو اُسے چاہیے کہ وہ اُس مال سے تجارت کرے اور اُس کو یونہی پڑا نہ رہنے دے مبادا زکوٰۃ ادا کرتے کرتے وہ مال ختم ہوجائے۔‘‘ “
    بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 2

    امید کرتا ہوں کہ بات کچھ واضح ہوئی ہوگی
    ۔۔۔ختم شد۔۔۔

    ReplyDelete
  14. نوٹ ۔۔، درست لفظ لقیط ہے ۔ لقلیط سہواََ لکھا گیا ہے۔۔

    ReplyDelete
  15. نوٹ ۔۔، درست لفظ لقیط ہے ۔ ....


    یعنی
    ل ق ی ط
    عجب تماشہ ہے ۔ میں نے لقیط لکھا ہے مگر اسمیں ایک ل کا اضافہ ہوجاتا ہے

    ReplyDelete
  16. میں ایک ذاتی شکایت کرنا چاہتا ہوں
    چھ دن سے ڈرافٹ پڑا ہے ایک پوسٹ کا
    اس میں یہی ہوائی سفر کے مضمون کا حوالہ ہے
    اب آپ یہ بتائیں کہ یہ کیا ہے
    سرقہ یا توارد
    :lol:

    ReplyDelete
  17. جاوید صاحب، آپکے لئے میں نے جو تحریر کیا تھا وہ اڑ گیا۔ اب شام تک دوبارہ لکھونگی ۔ اس وقت یہاں صبح ہے۔
    جعفر، ایسے مسائل سے دو تین دفعہ گذرنے کے بعد میں نے یہ سیکھا کہ کسی بھی پوسٹ کو اپنے پاس دو دن سے زیادہ نہیں رکھنا چاہئیے۔ اور جیسے ہی کوئ خیال آئے لکھ لینا چاہئیے ورنہ یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ خیال ذہن سے ایسے مٹ جاتا ہے جیسے آپ نے اپنے ذہن میں اسکا لنک کبھی بنایا ہی نہ تھا۔
    تو آپکا مسئلہ شاید یہ ہے کہ اس کاہلی کا نام کیا ہے۔ اگر آپ نے یہ مضمون چھاپ دیا تو سرقہ اور نہیں چھاپا تو توارد ہوگا۔ یہ میں آپ سے ذاتی دشمنی کی بنیاد پہ کہہ رہی ہوں۔ اس دشمنی کی وجہ تو آپ جانتے ہی ہونگے اور اگر نہیں جانتے تو، تو بھی یہ سمجھ لیں کہ اس وقت میں دشمنی کے موڈ میں ہوں۔
    :) :)
    ویسے فکر کی بات نہیں، آپکو مزے کا لگ رہا ہے تو دے دیں۔ لوگوں کو پتہ چلے گا کہ عظیم لوگ ایک جیسا خام مال رکھنے کے باوجود کتنے مختلف انداز میں اسے استعمال کر لیتے ہیں۔
    :)
    اس جملے کے بعد کم از کم آپ یقیناً مجھے مغرور نہیں کہیں گے، کیونکہ عظمت کے دائرے میں، میں نے آپکو بھی شامل رکھا ہے۔ اتنا چلے گا۔
    :) :)

    ReplyDelete
  18. ميرے پاس کوئی ايسا بچہ بچی ہو تو ميں والد کے خانے ميں عبداللہ لکھوا دوں گی اميد ہے عبداللہ اس پر کوئی اعتراض نہيں کرے گا باتيں تو سب مرد حضرات بڑی بڑی کرتے ہيں مگر عملی قدم اٹھانا پڑے تو ہزار حيلے بہانے تراش لاتے ہيں ميرا بھی دل تھا کم از کم ايک بچی زلزلہ ذدگان ميں سے جس کا کوئی نہ ہو اسکو اپنی بچيوں کی بہن بنا لاؤں مگر وہی باتيں وہی حيلے وہی بہانے وہی الاٹے سيدھے جواز جنکا مجھ کم علم کے پاس کوئی جواب نہيں ہوتا بس
    خدا ہم کو ايسی خدائی نہ دے
    کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے

    ReplyDelete
  19. سوالوں کے جواب تو جاوید صاحب نے دے دئیے اور بہت تفصیل سے دئیے۔ اللہ کریم ان پر اپنی رحمت کرے۔ جس بچے/بچی کے والدین کا پتہ نہ ہو وہ آیت قرآنی کی رو سے آپ کے بھائی/بہن ہیں۔ ولدیت کے خانہ میں عبداللہ لکھوانے والی بات بالکل درست ہے جو اسماء بہنا نے کہی ہے۔ اور افتخار انکل نے جو اپنے بلاگ پر بات لکھی تھی کہ لے پالک پھر بھی نامحرم ہوتا ہے اگر رضاعت کا رشتہ قائم نہ ہوتو ۔۔۔ وہ بھی بالکل درست ہے۔ اللہ آپ سب کو جزا دے۔ آمین۔

    ReplyDelete
  20. انیقہ اگر آپ اردو بلاگرز کے تعصب پر شکایت کرتی رہیں تو جلد ہی بلاگنگ چھوڑ بیٹھیں گی۔ آپ ذاتیات پر مبنی تبصروں کو نظر انداز کردیا کریں۔ میں تو یہی کرتا ہوں۔

    ReplyDelete
  21. (اب اگر کسی بچے کے والدین کا سرے سے علم ہی نا ہو اور پوری کوشش کے باوجود بھی پتا نا چلایا جاسکے تو اسلام میں مناسب عذر کی موجودگی میں قوانین انتہائی نرم ہوجاتے ہیں۔ پانی نا ہوتو خاک سے بھی پاکی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایسی صورت میں بال کی کھال نکالنے والے ایک آسان دین کو مشکل ترین بنانے کے سعی میں ہمیشہ سے مشغول رہے ہیں اس لیے دو کانوں کا مناسب استعمال کیجیے۔۔ )

    ميں راشد کامران کی بات سے سو فيصد مُتفِق ہُوں ليکِن ايک ميرے مُتفِق ہونے سے کيا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں کِسی بھی بات پر مُتفِق ہونا بہُت مُشکِل ہے ميں کِسی کا بھی نام لِۓ بغير کہنا چاہتی ہُوں کہ اگر واقعي بچي يا بچے کے خاندان کا بِالکُل عِلم نا ہو ليکِن يہ پتہ ہو کہ کوئ غلط بات نہيں تھی اور ماں باپ کی وفات ہو چُکی ہے اور بعد ميں بچے يا بچی کے بے اِنتہا حساس طبيعت ہونے کی وجہ سے اُسے بتايا نا جا سکے اور ساتھ ساتھ يہ بھی دھڑکا ہو کہ اگر ہم نہيں بتائيں گے اور کہيں اور سے عِلم ميں آگيا تو کيا جزبات ہو سکتے ہيں اور ہمارے تھيکے داروں کا تو آپ کو پتہ ہی ہے کوئ موقع پاتھ سے جانے نہيں ديتے کِسی کا دِل دُکھانے کا بس ميں تو يہ جانتی ہُوں کہ اللہ تعاليٰ نيتوں کا حال جانتا ہے اور عبدُاللہ بھائ کی طرح ميں بھی آپ سے يہی کہُوں گی کہ کِسی کے بھی کہنے ميں آکر لِکھنا بِالکُل نہيں چھوڑنا ،ہاں غُلام رسُول کا لطيفہ تو ہمارے ہاں اِتنی دفعہ دوہرايا جاتا ہے کہ تکيہ کلام بن چُکا ہے آپ نے ويسے صحيح اِستعمال کيا ہی يہاں لطيفے کا يہ الگ بات ہے کہ ہوگا يہی
    ميں نا مانُوں

    ReplyDelete
  22. میں آپ کی تحریروں کا بڑا پرانا fan ہوں. ضرور جناب آپ بچے کو اڈوپٹ کریں . یہ تو بڑی نیکی کا کام ہے. باقی تنگ نظر مذہب پرستوں کو چھوڑیں ، آپ جیسی روشن ضمیر خاتون کو ان لوگوں سے انسانیت کا سبق لینے کی ضرورت نہیں ہے .

    ReplyDelete
  23. مذہب بیزار لوگوں کی طرف سے، مذھب پرستوں کو تنگ نظر کہنے کا مطلب، صرف مذہب پرستوں کو ڈی گریڈ کرنا نہیں ہوتا، بلکہ مذہب(اسلام) کے قانون و ضوابط کو ڈی گریڈ کرنا مقصود ہوتا ہے اور اسی واسطے سے مذھب پرستوں کو تنگ نظر کہنے کے پیچھے دراصل بہ حیثیت مجموعی مذھب (اسلام) کو ڈی گریڈ کرنے کی فضول کوشش ہوتی ہے۔ اور چونکہ یہ مذھب بیزار طبقہ اپنی اندر اتنی اخلاقی جراءت (اخلاقی جراءت بھی تبھی ہوتی ہے جب کوئی اپنے کاز کو سچا سمجھتا ہو اور اس پہ سچائی سے عمل پیرا ہو) نہیں ہوتی کہ وہ اعلانیہ اسلام کا نام لیکر اپنی اسلام بیزارگی کا ازہار کر سکیں۔ مگر ایسے لوگ کہنہ مکرنیوں سے اسلام کے ماننے والوں کو مذھب پرست تنگ نظر کہہ کر اسلام سے اپنا بُغض نکالتے رہتے ہیں۔ کیونکہ ایسے لوگوں کے نزدیک مذھب پرست تنگ نظر لوگوں سے مراد، اسلام کے ضابطہ حیات کو ماننے والے مراد ہوتا ہے۔

    اسلام بیزار طبقے کی طرف سے اسلام کے ماننے والوں کو تنگ نظر کہہ کر اسلام کو ڈی گریڈ کرنے کا تکنیکی حربہ بہت پرانا ہو چکا ہے۔اسلئیے اوپر بالا تبصر ے کے عمیر صاحب سے گزارش ہے کہ اگر دل کے پھپولے پھوڑنے ہیں تو کوئی نیا حربہ آزمائیں ۔ کوئی تکنیک واضح کریں کہ جس طرح اسلام بیزار طبقہ اکثر اسلام کے ماننے والوں کو لفظی ہیر پھیر نامزد کرتا آیا ہے۔ مثلاََ رجعت پسند، شدت پسند وغیرہ ۔ یہ سب الفاظ آپ لوگوں نے اسقدر تواتر سے اسلام کے ماننے والوں کے خلاف استعمال کئیے ہیں کہ اب یہ الفاظ اپنا اثر (جوکبھی تھا تو) کھو چکے ہیں۔ اب مذھب پرست تنگ نظر کہنے سے لوگ الٹا چونک کر آپ لوگوں پہ ہنستے ہیں۔

    ویسے عمیر صاحب کی اطلاع کے لئیے عرض ہے کہ اسلام کا بغور مطالعہ کئیے بغیر بھی اوپر جو اسلام کے بارے میں حوالہ جات ہیں وہی غور سے پڑھ لیں تو انھیں سمجھ میں آجانا چاہئیے کہ انکے بقول تنگ نظر مذھب پرستوں کے مذھب اسلام نے بچوں کو گود لینے (اڈاپٹ کرنے ) کو کسی صورت منع نہیں کیا بلکہ ایسے بچوں کو گود لینے کی تلقین اور تاکید کی ہے ۔ اور نومولود وہ بچے جن کا نام اور خاندان کا بھی لوگوں کو علم نہیں ہوتا اور جن کے بارے فوری قیاس یہ ہوتا ہے کہ وہ بچہ بدنامی کے ڈر سے باہر پھیک دیا گیا ہے ان کے حقوق اور ذرائع پرورش محفوط کئیے ہیں۔ اور یہ سب آج سے چودہ صدیوں سے زائد عرصہ پہلے رہتی دنیا تک کے لئیے محفوظ کر دیا گیا ہے۔ جب دنیا بھر کا سماج اندھیروں میں گُم تھا۔ اب اگر آپ ، ہم اور پورا معاشرہ اس پہ عمل کرنے کو تیار نہیں تو اس میں اسلام کا نہیں ہمارا یعنی پورے معاشرے کا قصور ہے۔ البتہ آپ نے، اسلام کو، اسکے ماننے والوں کے حوالے سے" مذھبی تنگ نظر" کہہ کر مفت میں اسلام کے واضح مؤقف کو الجھانے کی کوشش کی ہے۔

    ReplyDelete
  24. جاوید صاحب، آپنے تفصیلی تحریر لکھی اسکا شکریہ۔
    آپ نے اپنے مضمون میں تین حالتیں بیان کی ہیں۔ اول لاوارث بچے، دوسرے بچوں کا نسب اور تیسرے یتیم بچے۔ یتیم بچے ہمارے موضوع میں شامل نہیں، اور دوسرے انکے حقوق اور باقی چیزِں خاصی صراحت سے موجود ہیں۔ اس لئیے ،اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ نے نسب کی بات کی یہ صرف ان بچوں کے لئیے ہے جنہیں خاندان سے ایڈاپٹ کیا جاتا ہے۔ اور انکی ولدیت پتہ ہوتی ہے۔ اس لئیے اس ساری تفصیل کا بھی ہمارے موضوع سے کوئ تعلق نہیں۔
    اب صرف وہ تفصیل بچ جاتی ہے۔ جسےلقیط کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے۔ اس میں بھی اسکی پرورش ہی بیان کی گئ ہے اور یہ نہیں بتایا گیا کہ اسکے ساتھ کس کا نام ہوگا۔
    اس موضوع پہ جو بات کی گئ وہ یہ کہ انکی پرورش جو ولی کریگا اسکو بیت المال سے خرچ دیا جائے۔
    اب میں موجود بنیادی حقائق کی طرف آتی ہوں۔ کیونکہ اس طرح کی باتیں جنہیں شریعت کی رو سے ثابت کرتے وقت نام نہاد دین ماہرین یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے اور فیثا غوورث کی پیش کی ہوئے ٹرگنومیٹری کے اصول نہیں ہیں۔
    آپ نے یہ نہیں بتایا کی ولی جب اسے اپنے گھر لیجائے گا تو وہ اسکے گھر والوں کے لئیے محرم اور نا محرم نہیں ہوگا کیا۔ اور ولی اسکی ولدیت میں کیا لکھے گا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسکی ولدیت میں عبداللہ لکھ دیا جائے۔ اس طرح تو یہ انکی نشانی یا علامت بن جائے گی اور ایک نیا طبقہ پیدا ہو جائے گا جس کا نام ہوگا عبداللہ طبقہ۔ جبکہ ایک عام ذہنی فکر یہ کہتی ہے کہ انہیں معاشرے میں اس طرح ضم ہو جانا چاہئیے کہ وہ دیگر لوگوں سے کسی بھی بنا پہ تمیز نہ کیا جا سکیں۔ اور انکی شخصی خوبیاں ہی انکی پہچان بن جائیں۔ اور اس طرح کی مثالیں کہ اصل سے خطا نہیں اور کم اصل سے وفا نہیں جنم نہ لے سکیں۔ جیسا کہ اسلام میں ہے کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جسکا تقوی زیادہ ہے۔ تو بس اسی بناید پہ انکی خوبیاں بھِ جانچی جائیں۔
    ایک اور بات جو اس ضمن میں کہی گئ کہ اسی لئیے خآندان کے بچوں کو ہی اڈاپٹ کرنا چاہئیے۔ یہ شقی القلبی کی ایک اور مثال ہے۔ اول تو خاندان کی کسی ماں کو مجبور کرنا کہ وہ اپنی پیدہ کردہ اولاد کسی اور رشتے دار کو دے یہ ایک ظلم ہے اور دوسرے یہ کہ اگر ماں اس عمل کے لئے راضی برضا ہو تو اس میں اس بچے کی رضامندی شامل نہیں ہوتی اور اس طرح سے یہ اس بچے کے ساتھ ظلم ہوتا ہے۔ اسکی اور بھی بہت ساری انسانی الجھنیں ہیں جنہیں طویل ہوجانے کی وجہ سے نہیں لکھ رہی اور دوسرے یہ ہمارا موضوع بھی نہیں۔ میں ذاتی طور پہ اس چیز کے زیادہ حق میں نہیں ہوں۔
    جب معاشرے میں ایسے بچے عام ہیں جنکا کوئ والی وارث نہیں تو بجائے انکا سہارا بننے کے ہم اپنے ہی جسیے اصل انسان تلاش کرتے رہیں اس سے تو اسلام کا دین فطرت ہونا ثابت نہیں ہوتا اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ دیگر مذاہب کی طرح اسلام بھی دراصل اصولیات پہ مبنی مذہب ہے۔ کہ جسکی شقوں کے بارے میں جب ہم بات کریں تو کہا جاتا ہے کہ ایسا ہی حکم ہے یا یہ کہ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔
    یہاں میں یہ بتاتی چلوں کہ کراچی کی حد تک میں نے دیکھا کہ لوگ خاصی بڑی تعداد میں بچے اڈاپٹ کرتے ہیں اور یہ بچے بالکل انسانی برابری اور محبت کیساتھ ان گھروں میں پلتے ہیں۔ زیادہ تر 'پڑھے لکھے' لوگ اس بات پہ زور دیتے ہیں کہ بچے سے اور اپنے ارد گرد کے لوگوں سے یہ بات نہ چھپائیں کہ وہ ایک لے پالک بچہ ہے۔ لیکن اگر اس میں بھی معاشرتی الجھنیں پیدا ہونے یا بچے کے لئیے مزید مسائل کھڑے ہونے کا اندیشہ ہو تو نہ کریں۔
    یہاں کراچی کی ایک معروف خاتون ڈاکٹر ہیں جنہیں میں جانتی ہوں انکے اپنے دو بچے جب گریجوایشن کی سطح پہ پہنچ گئے تو انہوں نے دو بچے ایڈاپٹ کر لئیے۔ ان میں سے ایک بچہ انہیں چار سال کی عمر میں ایک یتیم خانے میں مال جسکا ایک گردہ نکال کر کسی نے اسے روڈ پہ پھینک دیا تھا۔ اور جب انہوں نے اسے حاصل کیا تو وہ سارا دن صرف ٹی وی پہ خالی آنکھیں جمائے بیٹھا رہتا تھا۔ اور کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ آج وہ بچہ دس سال کا ہے اور اپنی کلاس کا سب سے ذہین بچہ ہے۔ انکی دوسری بیٹی ابھی چار سال کی ہے۔ اسے انہوں نے چار ہفتے کی عمر میں حاصل کیا تھآ۔ ایک شریر اور باتونی بچی۔
    انکے والدین نے بھی اگرچہ کہ وہ آٹھ بہن بھائ تھے۔ دو بچوں کو ایڈاپٹ کیا تھا۔ اور انہوں نے بھی اسی روشنی کو آگے پھیلایا۔
    جزاک اللہ ان خاتون کے لئے اور ان جیسے مزید لوگوں کے لئے جو اس دنیا میں کسی اصول اور ضابطے کے بغیر وہ کر رہے ہیں جو ایک انسان کا دوسرے انسان پہ بھروسہ بڑھاتے ہیں اور اس طرح سے انسان کو خدا سے زیادہ نزدیک کرتے ہیں۔
    باقی تمام لوگوں کا بیحد شکریہ، آپ سب تو میری آٹھ مہینے کی کمائ ہیں۔
    :)
    اب کیا مجھے ان باتوں پہ بلاگنگ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا چاہئیے۔ یہ سارے تبصرے دیکھنے کے بعد۔ نہیں جناب، ابھی نہیں۔

    :)

    ReplyDelete
  25. عنیقہ ناز،
    پر تاثر تحریر پر مبارکباد،
    سلامت رہیں۔
    والسلام

    ReplyDelete
  26. ” ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًاO
    ’’تم اُن (مُنہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔ اور اس بات میں تم پر کوئی گناہ نہیں جو تم نے غلطی سے کہی لیکن (اس پر ضرور گناہ ہوگا) جس کا ارادہ تمہارے دلوں نے کیا ہو، اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہےo‘‘ “
    القرآن، الاحزاب، 33 : 5

    بی بی! آسان ، سادہ اور سیدھی سی بات ہے کہ مندرجہ بالا آیتِ مبارکہ میں جن بچوں کے باپوں کے نام معلوم نہ ہونے کا ذکر ہے انھیں باقی اہل خانہ کے لئیے بھائی اور دوست قرار دیا گیا ہے ۔
    تو پھر اسلام کے حوالے سے اختلاف کہاں ہےـ؟

    اگر مندرجہ بالا آیات کی شانِ نزول کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اسکا مطلب یہ بنتا ہے کہ تب بھی مسلمان لاوارث ، یتیم، یا لطیقہ بچوں کو اڈاپٹ کرتے تھے۔

    جہاں تک ایسے لاوارث بچوں کی ولدیت کے نام کا مسئلہ ہے تو آپ کسی بھی عالم سے رجوع کر لیں وہ آپ کو تفضیل سے سمجھا دیں گے۔ یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ اسےبنیاد بنا کر معصوم بچوں کے حقوق کو ختم کر دیا جائے۔

    بی بی! اسلام کے بارے میں ہمیں ایک بات یاد رکھنی چاہئیے کہ اس کے قوانیںن گذرے ، موجودہ، اور آنے والے ہر زمانوں کے لئیے واضح اور دو ٹوک ہیں۔ اور قوانین کی ایک شرط یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ واضح اور دوٹوک ہو۔ جو سب کے لئیے برابر ہوتا ہے اور اسمیں اپنی کسی ذاتی غرض کی خاطر یا اپنی سوجھ بوجھ کے تحت ردوبدل نہیں کی جاسکتی۔ خواہ وہ کسی کو پسند ہو یا نا پسند ہو۔ کیونکہ اس سے اکثریت کی بہتری مقصود ہوتی ہے۔اگر اسلام کے کسی خاص نکتے کو ہم اپنے عقلی دلائل سے سجمھنے سے قاصر ہوں تو اسکا مطلب یہ نہیں لینا چاہئیے کہ وہ وہ نکتہ درست نہیں ۔ بہت ممکن ہے ہم اس میں چھپی حکمت کو سمجھنہیں پارہے ہوں۔

    ReplyDelete
  27. بی بی!
    نیز آپ کو بلاگ نہ لکھنے کا مشورہ کسی نے نہیں دیا ۔ بس یہ آپ خود ہی فرض کئیے بیٹھی ہیں۔ کہ پتہ نہیں آپ کو بلاگ لکھنا چاپئیے یا نہیں۔؟
    اسلئیے ذاتی شکوہ شکایات کو بھول جایا کریں۔ اور لکھتی رہیں۔ صرف اتنی سی گزارش ہے کہ موضوع کو لکھنے کے بعد تنقیدی نظر سے جانچ لیا کریں۔
    اللہ آپ کو خوش رکھے۔ اور دولت ایمان سے مالا مال کرے ۔ آمین

    ReplyDelete
  28. شُکريہ آپ سب کا
    اور عنيقہ آج مُجھے بہُت عرصے کے بعد اپنے سوالوں کا درُست جواب مِلا ہے تو سکُون مِلا ہے ايک بار پِھر بہُت بہُت شُکريہ

    ReplyDelete
  29. جاوید صاحب، اگر آپ نے یہ ساری تحریر پڑھی اور یاد رکھی ہے اور اگر آپ اردو سیارہ کی باقی تمام تحریروں سے بھی گذرتے رہے ہیں تو آپ یہ بھول رہے ہیں کہ ان بچوں کے حقوق کون ختم رہا ہے۔
    جہاں تک کسی عالم سے پوچھنے کا مسئلہ ہے۔ فی الوقت یہ میرا مسئلہ نہیں اگر یہ کبھی بھی میرا مسئلہ بنا تو میں وہ کرونگی جسے انسانی روح سے زیادہ قریب سمجھونگی۔ کیونکہ وہ چیز جو شک میں ڈالدے اسکے درست ہونے میں بھی شک ہوتا ہے۔ میری یہ تحریر ان بچوں کے لئیے ہے جنہیں اڈاپٹ کرتے وقت لوگ اس طرح کے بیکار کے تذکرے چھیڑ دیتے ہیں۔ خدا اس تحریر اور اس پہ تبصروں میں اتنی برکت دے کہ اسکے پڑھنے والے اگر کبھی اس مسئلے سے دوچار ہوں تو بغیر کسی عالم دین کے پاس جائے فوری طور پہ یہ فیصلہ کر سکیں کہ انہیں کیا کرنا ہے۔
    نیز، بلاگ نہ لکھنے کا جواب میں نے کسی اور کو دیا ہے اسکے لئیے آپکو یہ تمام تبصرے دوبارہ پڑھنے پڑیں گے۔ میں ایسی چیزیں فرض نہیں کرتی جن کے بارے میں پتہ ہو کہ کیا کرنا ہے۔ میرا خیال ہے ہر ذی عقل شخص ایسا ہی کرتا ہوگا۔
    مجھے کسی سے ذاتی شکایت نہیں ، کیونکہ میں اس پاکستانی رواج سے واقف ہوں۔ جہاں لوگوں کو اگر کسی کے نظریات سے اختلاف ہو تو اسکی ذات پہ گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو اسکی ایک مقررہ حد ہے۔ اگر وہ اس سے نا واقف ہیں تو انہیں اسکا علم ضرور ہونا چاہئیے۔

    شاہدہ اکرم، اگر کسی بھی طرح سے آپکی تشفی ہوئ ہے تو یہ میرے لئیے بھی بڑے سکون کی بات ہے۔ شکریہ آپکا۔

    ReplyDelete
  30. بی بی!
    اسلام کبھی شک اور وسوسے میں نہیں ڈالتا بلکہ اسلام شک اور وسوسے کے اکسیر ہے۔ جب ہمرا علم ہمارے مذہب کے بارے میں مکمل نہ ہو تو اسطرح کی باتیں ہم کرنے سے نہیں چوکتے۔ آپکے بلاگ لکھنے سے قبل اور اس پہ میری اور دیگر قابل احترام قارئین کی رائے آنے سے قبل بھی مسلمان یتیم اور لاوارث بچوں کو گود لیتے رہے ہیں۔ آپ ایک سادی سی بات کو گھما دیتی ہیں۔ یہ طریقہ دنیاوی باتوں میں بھی درست نہیں اور مذاہب کی صورت میں تو خاص احتیاط کرنی چاہئیے کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں نوے پچانوے فیصد سے زائد لوگ اپنے مذھب کو "شکی" نہیں سمجھتے، وہاں جمہوریت کے ان سنہرے اصولوں کے تحت بھی جنکا ڈھنڈورا صبح شام پیٹا جاتا ہے ، ان اصولوں کے تحت بھی اکثریت کے کی سوچ اور فکر کو قانون مانا جاتا ہے۔

    آپ نے اوپر کسی جگہ پہ قرآنِ کریم کو محض کتاب کہا ہے ، جب کہ یہ کتاب کے علاوہ ایک الہامی کتاب بھی ہے اور اسکا نام قرآنِ کریم ہے، اور ایک مسلمان کو کم ازکم اسکا ذکر کرتے ہوئے محض "کتاب" کہہ کر آگے نہیں بڑھ جانا چاہئیے ۔اور اس میں سے ایک آیتِ مبارکہ کو بھی سیاق و سباق سے ہٹ کر یہ کہہ کر ایک نیا تنازعہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ آپ کو اسکی سمجھ نہیں آئی ۔

    بی بی! آپ ماشا ء ا للہ ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں ۔ اور قرانِ کریم کی مذکورہ آیت میں علم الطبیعات کی گتھی نہیں سلجھائی گئی جس کی عام مسلمانوں کو سمجھ نہ آئے۔ پھر بھی اگر سمجھ نہ آئے تو کسی "سمجھ" والے سے پوچھ لینا چاہئیے کہ یہی اہلِ فہم کا شیوہ ہے۔مگر سباق و سیاق سے ہٹ کر اسے متنازعہ پیش کرنا قابلِ تحسین رویہ نہیں ، الا یہ کہ کوئی دیدہ و دانستہ یہی مقصود رکھتا ہو۔

    اتنی وضاحت صرف اسلئیے کی ہے اسلام شک و وہم کے لئیے اکسیر ہے اور وسوسے کے سخت خلاف اور رد بلا ہے، اور اسلام سے بڑھ کر "انسانی روح" کے نزدیک کوئی دوسرا ازم نہیں ہے ۔ خواہ اس ازم پہ انسانی ہمدردی ، رحمدلی اور دریا دلی کے کتنے ہی غلاف چڑھا دے۔ کہ آنکھیں چکا چوند ہو جائیں مگر ایسا کرنے سے حقائق نہیں بدلتے۔

    ReplyDelete
  31. جاوید صاحب، یہاں کسی دوسرے ازم کی بات نہیں ہو رہی۔ ایک واقعہ رسول اللہ کی ذات سے منسوب ہے جس میں کسی نے ان سے پوچھا کہ آخر ہمیں یہ کیسے پتہ چلے کہ جو کام ہم کر رہے ہیں یہ نیکی کا ہے یا بدی کا۔ اور انہوں نے جواباً فرمایا کہ وہ چیز جو دل میں شک ڈالدے نیکی نہیں ہو سکتی۔
    نیکی دل کو خوشی دیتی اور اطمینان کی دولت سے سرفراز کرتی ہے۔ نفس مطمئنہ ایک ایسے ہی کیفیت ہے جب انسان کو ایسا ہی دلی اطمینان ہوتا ہے۔
    آپ اس چیز سے باہر آجائیں کہ لوگ اسلام کے خلاف ہیں اور آپ اسلام کے حق میں ہیں۔ دنیا کے تمام مذاہب انسانی روح کی بات کرتے ہیں۔ اور ہر مذہب کی ابتداء اسی روح کو سامنے رکھ کر کی گئ۔ لیکن ہر مذاہب کا ڈائلیمہ یہ بنا کہ اس پہ چند لوگوں نے قبضہ جما لیا اور اصل مذہب انکی تشریح کے پیچھے گم ہو گیا۔
    جی ہاں، قرآن ایک عام فہم شخص کے لئیے نازل کیا گیا ہے۔ اس میں موجود پیچیدہ مسائل کا عام انسانوں سے کوئ تعلق نہیں۔ اور ہر شخص اپنی ذہنی سطح کےمطابق اس سے ہدایت حاصل کر سکتا ہے۔ یہ چیز باقی لوگوں کو بھی سمجھنا چاہئیے۔ اور کسی شخص کو گناہگار کہنے سے پہلے یہ ضرور مد نظر رکھنا چاہئیے کہ زندگی میں یہ بالکل ضروری نہیں کہ ایک شخص بالکل آپ جیسی ترجیحات رکھتا ہو۔ یا اچھائ اور نیکی کا جو معیار آپ نے بنایا ہوا ہے وہی اسکا مستند معیار ہو یا یہ کہ دیگر لوگ اس بات کی فکر کریں کہ وہ ان کے بنائے ہوئے معیارپہ پورا اترتے رہیں۔
    آپ اس قسم کی باتوں سے یہ شک پیدا کرنے کی کوشش نہ کیا کریں کہ میں کوئ غیر مسلمان، اسلام کے پردے میں کسی اور ازم کو متعارف کرا رہی ہوں۔
    میرا خیال ہے کہ اس مرحلے پہ اس موضوع پہ گفتگو ختم ہو رہی ہے۔ اللہ ہمیں دوسرے انسانوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کی توفیق دے وہی اللہ جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور اپنے سب سے نافرمانبردار بندے پر بھی زندگی کے دروازے بند نہیں کرتا۔

    ReplyDelete
  32. بی بی!

    اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر دے اور ہم سب کو درست سمت عطا کرے اور نیکی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

    ReplyDelete
  33. تحریر کے اصل موضوع کے حوالے سے تو یہاں کافی بات ہو چکی ہے آپ کے اور جاوید صاحب کے درمیان، اور مجھ ایسا کم علم آدمی اس پر کہہ بھی کیا سکتا ہے؟
    لیکن جہاں تک آپ نے بلاگنگ دنیا کے ایک سنڈروم کا ذکر کیا ہے، وہ یقینا میرے لیے بھی بہت تکلیف دہ ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ میں اکثر اس طرح کی تحاریر پر تبصرے نہیں کرتا۔ سب سے اہم بات تو آپ نے اپنے ایک تبصرے میں کہہ دی ہے کہ "اردو بلاگرز اپنی عظیم صلاحیتیں عنیقہ کے اوپر ضائع کرنے کے بجائے کچھ اور کام کریں"
    اس پر میں آپ کو ایک مخلصانہ مشورہ بھی دوں گا کہ بہت سارے دلائل اور افراد اس قابل ہوتے ہیں کہ ان کو سنجیدہ نہ لیا جائے اور ایسا دیکھا گیا ہے۔ اس لیے میری ناقص رائے تو یہی ہوگی کہ جن لوگوں سے آپ کا ذہن میل نہیں کھاتا، ان سے مخاطب ہی نہ ہوں۔ یہ حکمت عملی بہت کارگر ہے، ذاتی تجربہ ہے میرا :) ۔

    ReplyDelete
  34. انیقہ ویسے تو آپ ماشاءاللہ خود ہی بہت سمجھ دار ہیں مگر پھر بھی آپ کومیرا یہ مشورہ ہے کہ آپ ابو شامل کے مشورے پر بلکل بھی عمل نہ کیجیئے گا!:)

    ReplyDelete
  35. آپکی بات کہ اس طرح تو ایک اور طبقہ پیدا ہوجائے گا عبداللہ طبقہ،تو اللہ کے ننانوے نام ہیں کسی بھی نام کے ساتھ عبدلگاکر اس مسئلے کا حل بھی ڈھونڈا جاسکتا ہے!

    ReplyDelete
  36. Friday, 24july, 2009, 13:01 GMT 18:01 PST جسم
    فروشی کے دھندے میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے
    پاکستان میں جسم فروشی اگرچہ قانونی طور پر جرم ہے لیکن
    جسم فروشی کے ’ڈیرے‘
    مناء رانا
    بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
    جسم فروشی کے دھندے میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے
    پاکستان میں جسم فروشی اگرچہ قانونی طور پر جرم ہے لیکن ملک میں امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق سے پیدا ہونے والی خلیج نے جس طرح جوان لڑکوں کو مجبور کیا کہ اپنی مالی حالت بدلنے کے لیے چوری چکاری کریں یا ڈاکے ڈالیں اسی طرح جوان لڑکیوں کو بھی پیسے کمانے اور گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے مجبور کیا کہ اپنے جسموں کو جنس بنا کر منڈیوں میں رکھیں۔ اس طرح جسم ایک جنس بنا اور جنس کے بھوکے مردوں نے اس کے دام لگائے۔ جتنا بکے گا دام اتنا ملیں گے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ سے دن بدن اس پیشے سے وابستہ افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
    صوبۂ پنجاب کی تحصیل چنیوٹ کے ایک گاؤں کی رہائشی کنیز فاطمہ ایک غریب کسان کے گھر پیدا ہوئی۔ اس کے باپ نے کھیتوں میں مزدوری کر کے اپنے سات بچوں کو پالا۔ کنیز کو میٹرک تک تعلیم دلوائی اور اس کی شادی کر دی۔ یہاں تک سب ٹھیک تھا۔ لیکن زندگی اس کے بعد کنیز کے لیے تنگ ہوتی گئی۔ کنیز کہتی ہے کہ اس کا شوہر کچھ نہیں کماتا تھا، اس کے دو بچے بھی ہوگئے۔اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے اس نے محنت مزدوری کرنے کی ٹھانی لیکن جس گھر میں وہ گھریلو ملازمہ بن کر گئی وہ ایک ’ڈیرہ‘ تھا۔
    کنیز کے مطابق اس کے دھندے میں ڈیرہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں بہت سی لڑکیاں جسم فروشی کے لیے موجود ہوتی ہیں۔ کبھی یہ لڑکیاں بن سنور کر باہر جاتی ہیں اور کبھی گھر میں ہی اپنے گاہکوں سے ملتی ہیں۔ اس ڈیرے کا انتظام کوئی مرد یا کوئی عورت چلاتی ہے اور ایسی عورتوں کو میڈم یا آنٹی کہا جاتا ہے۔
    اس ڈیرے میں عورتوں سے دھندہ کروانے والے شخص نے کنیز کو ’آسان‘ طریقے سے دولت کمانے کا گر بتایا۔ اس نے اسے منڈی بہاؤ الدین میں ایک ڈیرے پر بھیجا اور چونکہ کنیز پڑھی لکھی تھی اور حساب کتاب کر سکتی تھی اس لیے وہ ڈیرے کی انچارج بن گئی۔
    اسی دوران اس کے شوہر کو اس کی حرکتوں کی خبر ہوئی۔ اس نے اسے گاؤں بلا کر گولی ماری جو اس کی ٹانگ پر لگی۔ کنیز نے شوہر سے طلاق لے لی اور ٹانگ کا علاج کروا کر ’مڈل وومن‘ بن گئی۔
    لڑکی کی رات کی قیمت کا دارومدار اس کے حسن پر بھی ہوتا ہے جتنی حسین ہو گی اتنے دام زیادہ ملیں گے
    کنیز فاطمہ
    اب کنیز لاہور میں رہتی ہے اور لاہور اور دوسرے کئی شہروں کے ڈیروں پر لڑکیاں پہنچاتی ہے اور ان سے کمیشن لیتی ہے۔ اسے ایک لڑکی فراہم کرنے کے پانچ سے دس ہزار روپے مل جاتے ہیں۔ کمیشن کے کم یا زیادہ ہونے کا تعلق لڑکی کی خوبصورتی سے ہے۔
    کنیز کہتی ہے کہ وہ ڈیرے والوں کو ضمانت بھی دیتی ہے کہ لڑکی بھاگے گی نہیں۔ اس کے مطابق غربت سے تنگ آئے ہوئے لڑکیوں کے ماں باپ، بھائی اور شوہر تک لڑکیوں کو اس کے پاس لاتے ہیں کہ انہیں کسی ڈیرے پر جسم فروشی کی نوکری دلا دے اور لڑکیوں کے یہ ورثاء ان کی کمائی ایڈوانس میں لے جاتے ہیں اور پھر ہر مہینے ڈیرے والوں سے پیسہ وصول کرتے ہیں۔
    کئی لڑکیاں خود بھی کنیز کے پاس آتیں ہیں کہ ہمیں یہ کام دلا دو۔ یہ لڑکیاں اس جنسی مشقت کی قیمت بھی خود ہی وصول کرتی ہیں۔ کنیز کے مطابق ڈیرے سےاگر کوئی صرف چند گھنٹے کے لیے لڑکی کو لیتا ہے تو وہ ایک ہزار سے پندرہ سو تک دیتا ہے جس میں لڑکی کو دو تین سو ملتے ہیں باقی ڈیرے والی آنٹی رکھتی ہے اور تمام رات گزارنے پر لڑکی کو پندرہ سو سے دو ہزار تک مل جاتے ہیں لیکن اسے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ڈیرے کی انچارج نے خود کتنے وصول کیے۔
    کنیز کے مطابق ’لڑکی کی رات کی قیمت کا دارومدار اس کے حسن پر بھی ہوتا ہے جتنی حسین ہو گی اتنے دام زیادہ ملیں گے‘۔
    کنیز کہتی ہے کہ یوں تو وہ کئی شہروں کے ڈیروں میں لڑکیاں دینےجاتی ہے لیکن راولپنڈی، اسلام آباد اور بہاول پور کے ڈیروں سے اس کا زیادہ رابطہ ہے اور اس کے بقول وہاں کے ڈیروں پر دو دو سو لڑکیاں ہوتی ہیں۔ اس کے بقول اس میں کوئی شک نہیں کہ غربت کے سبب کئی لڑکیوں کے ورثاء ان سے یہ پیشہ کرواتے ہیں لیکن کئی لڑکیاں اپنی مرضی سے کام کرنے آتی ہیں۔کئی ایک کے گھر والے یہ نہیں جانتے کہ وہ کیا کام کرتی ہیں۔
    اس دھندے میں ہر طرح کی لڑکیاں ہیں لیکن کنیز کے بقول اس کے پاس وہی زیادہ آتی ہیں یا لائی جاتیں ہیں جن کا مسئلہ غربت ہوتا ہے۔

    ReplyDelete
  37. کنیز کے گھر میں لاہور ہی کی ایک لڑکی ندا رہائش پذیر ہے۔ بیس سال کی عمر، رنگ گورا اور معصوم سا دل لبھانے والا چہرا۔
    جب پہلی مرتبہ اس کام کے لیے گئی تو ماں کا لیا ہوا دس ہزار روپے کا قرض چکانا تھا
    ندا کا کہنا ہے کہ وہ ماں کی مرضی سے اس پیشے میں آئی ہے۔’جب پہلی مرتبہ اس کام کے لیے گئی تو ماں کا لیا ہوا دس ہزار روپے کا قرض چکانا تھا۔‘ اس وقت ندا کی عمر چودہ سال تھی اور بقول اس کے وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ اسے کرنا کیا ہے۔
    ندا کی کہانی بھی ان ہزاروں لاکھوں غریب لڑکیوں کی کہانی ہے جنہیں غربت وہ کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہے جسے معاشرہ اچھا نہیں سمجھتا۔ ایک سال کی تھی کہ باپ چل بسا، بڑا بھائی ہے جو ہیروئن کا نشہ کرتا ہے اور اسے باقی چھوٹے بہن بھائیوں کا پیٹ پالنا ہے۔ ندا کہتی ہے کہ اس کے گھر میں کسی کو معلوم نہیں کہ وہ اس دھندے سے وابستہ ہے۔ اس کی سہلیاں تک یہ نہیں جانتیں اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ راز کبھی کھلنے نہ پائے کیونکہ بقول اسکے اپنے پیٹ سے کوئی خود کپڑا اٹھاتا ہے۔
    ندا کی پیشہ ورانہ زندگی کی کئی تلخ یادیں ہیں جو ندا کو بہت افسردہ کر دیتی ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ گاہک نے ڈیمانڈ پوری نہ کرنے پر اس سے بہت بد سلوکی کی۔ایک بار گاہک نے اسے برہنہ کمرے سے باہر نکال دیا۔ ندا کو تمام دوسری لڑکیوں کی طرح شادی کرنے کا شوق ہے۔اس کا دل چاہتا ہے کہ اس کا کمانے والا شوہر ہو جو زندگی کی تمام ضروریات پوری کرے، سسرالی رشتے دار ہوں اور اس کے بچے ہوں۔ لیکن اسے ڈر لگتا ہے کہ جس پیشے سے وہ وابستہ ہے ایسا لگتا ہے کہ کبھی بھی کوئی اس سے شادی نہیں کرے گا۔
    ندا کو اپنا پیشہ برا لگتا ہے وہ کہتی ہے کہاگر حکومت یا کوئی اور ادارہ اس کے خاندان کے اخراجات اٹھا لے جس میں زیادہ کچھ نہیں بس مکان کا کرایہ، یوٹیلٹی بلز، مہینے کا راشن اور کچھ پیسے بہن بھائیوں کے کپڑے جوتوں کے لیے مل جائیں تو وہ اس دھندے کو چھوڑ دے گی۔
    ندا کے برعکس ماریہ اس پیشے میں اپنی مرضی سے آئی۔ اس کے بقول اس کا شوہر نکھٹو تھا، اس کے دو بیٹے ہیں اور وہ چاہتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھائے اور انہیں زندگی کی ہر سہولت دے۔ ماریہ کی ایک سہیلی نے اسے پیسہ کمانے کا یہ طریقہ بتایا اور اس طرح وہ اس دھندے میں آ گئی۔
    ماریہ اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکی ہے۔ کئی شہروں کے ڈیروں پر جسم فروشی کرتی رہی لیکن زیادہ وقت گزرا جڑواں شہروں راولپنڈی اسلام آباد میں۔ماریہ بتاتی ہے کہ وہ وہاں ہوٹلوں میں بھی اور بڑے بڑے گھروں میں بھی اپنے گاہکوں کے پاس جاتی تھی۔
    ماریہ کے بقول اس کے گاہکوں میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں یہاں تک کہ گورے یعنی غیر ملکی بھی اس کے گاہک ہیں اور وہ اسے ٹپ بھی دیتے ہیں۔ ماریہ کا کہنا ہے کہ دوسرے شہروں کی نسبت اسلام آباد کے لوگوں کا رویہ اس کے ساتھ کافی بہتر رہا۔ ’وہ ڈیسنٹ تھے۔ ان کا اٹھنے بیٹھنے کا، بات کرنے کا، کھانے پینے کا طریقہ کافی اچھا تھا۔‘
    میں سوچتی ہوں کہ ہر روز نئے آدمی کے پاس جانے کی بجائے ایک سے ہی اتنے پیسے مل جائیں تو اچھا ہے
    ماریہ نے کہا کہ ’کوئی ہمیں اپنا تعارف تو نہیں کراتا لیکن انسان کے رویے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کوئی بڑا افسر یا بڑا آدمی ہے۔‘
    اس پیشے میں کافی تجربہ کار ہونے کے باوجود ماریہ اپنی آمدنی کے لیے ڈیرے والوں کی محتاج ہے کیونکہ ڈیرے والے تمام لڑکیوں کی کمائی خود وصول کرتے ہیں اور پھر اپنا حصہ رکھ کر لڑکی کو دیتے ہیں۔ ماریہ کہ بقول انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ ڈیرے والے نے گاہک سے کتنا وصول کیا البتہ ٹپ ہماری ہوتی ہے۔
    ماریہ کہتی ہے کہ اسلام آباد میں وہ پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک ماہانہ کما لیتی تھی لیکن اخراجات زیادہ ہیں اور بچت نہیں ہوتی۔ اخراجات میں وہ طبی ٹیسٹ بھی شامل ہیں جو ماریہ کو ہر دو ماہ بعد کروانے پڑتے ہیں جن میں ایڈز تک کا ٹیسٹ شامل ہے اور ان ٹیسٹوں کے لیے اسے کافی رقم خرچنا پڑتی ہے۔
    اسلام آباد میں اچھی آمدنی کے باوجود ماریہ لاہور آ گئی کیونکہ اسے اسلام آباد میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور وہاں بڑے بڑے ہوٹلوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کے بعد ڈر لگنے لگا تھا۔ ماریہ کے بچے اسکی ایک منہ بولی بہن کے پاس ہیں اور انگریزی میڈیم سکول میں پڑھتے ہیں۔ اب اس کے اخراجات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ اگر اب وہ چاہے بھی تو اس دھندے کو چھوڑ نہیں سکتی۔ لیکن ماریہ کو احساس ہے کہ آخر کب تک کوئی عورت جسم فروشی کر سکتی ہے آخر عمر تو بڑھتی جاتی ہے اس لیے وہ چاہتی ہے کہ کوئی اور انتظام ہو جائے۔
    ماریہ کا کہنا ہے کہ اسے ایک امیر آدمی نے داشتہ بنانے کی پیشکش کی ہے ’جو مجھے مکان بھی لے کر دے گا اور میرے بچوں کی پڑھائی سمیت میرے تمام اخراجات اٹھائے گا۔ اس آدمی کی بیوی کو بھی اعتراض نہیں کیونکہ اس کی بیوی بہت فربہ ہے اور وہ اپنے شوہر کو خوش دیکھنا چاہتی ہے اور میں سوچتی ہوں کہ ہر روز نئے آدمی کے پاس جانے کی بجائے ایک سے ہی اتنے پیسے مل جائیں تو اچھا ہے۔‘

    ReplyDelete

  38. کنیز کے پاس اس پیشے سے منسلک چند خوفناک کہانیاں بھی ہیں اور ان لڑکیوں سے مل کر لگتا ہے کہ شاید سب ہی کے ذہنوں پر اس طرح کی کہانیوں کا خوف ہے۔ ایک بار کنیز نے ایک لڑکی کومنڈی بہاؤ الدین میں گاہکوں کے پاس بھیجا، وہ جرائم پیشہ تھے اور انہوں نے اس لڑکی کے سامنے اپنے ہی ایک ساتھی کو مار کر نہر میں پھینک دیا۔لڑکی اتنی خوفزدہ ہوئی کہ کئی ماہ بستر پر پڑی رہی۔
    ملکوال کے علاقے میں ایک ڈیرے والی کو اس کے عاشق نے بے وفائی پر گولی مار دی لیکن کوئی کیس رجسٹر نہ ہوا۔ کنیز بتاتی ہے کہ کئی گاہک انلڑکیوں کو بھی شراب پلانا چاہتے ہیں جو شراب نہیں پیتیں۔ کئی طرح کی ڈیمانڈز کرتے ہیں اور اگر لڑکی کوئی ڈیمانڈ پوری نہ کرتی تو اسے گولی مار کر لاش غائب کر دیتے ہیں اور ڈیرے والی آنٹی یا اس کے وارثوں کو کہہ دیتے ہیں کہ آپ کی لڑکی بھاگ گئی ہے۔
    اس پیشے میں آنے والی کئی لڑکیاں نشہ کرنے لگتی ہیں۔ پیشے کا خوف اور تھکن ان لڑکیوں کو مجبور کر دیتا ہے کہ زنگی کی تلخیوں کو بھلانے کے لیے نشے کا سہارا لیں۔
    ڈیروں پر گردش کرنے والی ان عبرت ناک کہانیوں کے باوجود پاکستان میں جسم فروشی کے دھندے میں آنے والی عورتوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور کنیز فاطمہ کے بقول ہر گلی محلے میں ایسے ڈیرے ہیں جہاں لڑکیاں جسم فروشی کرتی ہیں۔ کنیز کے مطابق جب سے وہ اس پیشے میں آئی ہے اس میں لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہی دیکھا ہے اور اتنی کم سن لڑکیوں کو خود ان کے ورثاء لے کر آتے ہیں کہ ’میرا بھی دل دہل جاتا ہے۔‘
    پاکستان میں کہ جہاں بڑھتی ہوئی غربت دہشت گردی اور خود کش حملوں کا ایک سبب کہی جاتی ہے وہاں جسم فروشی کے دھندے میں آنے والی لڑکیوں میں اضافہ بھی غربت کا ہی شاخشانہ ہے۔

    ReplyDelete
  39. http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/07/090724_call_girls_as.shtml

    ReplyDelete
  40. ایسے ظالمانہ معاشرے میں ناجائز بچے کیسے پیدا نہیں ہوں گے!

    ReplyDelete
  41. عبداللہ اس تفصیلی مضمون کا شکریہ۔

    ReplyDelete
  42. انیقہ میں منتظر ہوں اس موضوع پر افتخار اجمل کی پوسٹ کا اور جاوید گوندل کے تبصرے کا!

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ