Friday, January 29, 2010

بات یا خرافات

میری محترم ساس یعنی شوہر صاحب کی والدہ محترمہ خاصی سمجھدار خاتون ہیں۔ خدا انکو لمبی حیات دے پڑھنے لکھنے کا خاصہ شغف رکھتی ہیں۔ اپنے زمانے میں نفسیات میں ایم اے کیا اور پوزیشن حاصل کی۔ یہ تو انکا ایک مختصر سا تعارف ہے۔ انکی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ دوسروں کو زندگی میں آسانی دیتی ہیں۔ اس طرح سے میرے گھر میں روائیتی جھگڑے کھڑے نہیں ہوئے۔ یہی نہیں بلکہ وہ ایک اچھی شریک کار بھی ہیں۔ نفسیات کا علم رکھنے کی وجہ سے وہ خاصے غیر محسوس طریقے سے اپنے تجربات کا ذکر بھی کرتی رہتی ہیں۔ ابھی انہوں نے کچھ دنوں پہلے اپنے بچپن کی کہانی سنائ جو میں نے آپ لوگوں کے لئیے لکھ لی۔ آئیے پڑھتے ہیں۔
بات کی بات
خرافات کی خرافات
بیر جھڑی کا کانٹا
ساڑھے اٹھارہ ہاتھ
اس میں بسے تین گاءوں
دو اجڑے پجڑے ایک میں بستی نہیں
جس میں بستی نہیں اس میں بسے تین کمہار
دو لولے لنگڑَ، ایک کے ہاتھ پاءوں نہیں
جسکے ہاتھ پاءوں نہیں، اس نے گھڑی تین ہانڈیاں
 دوٹوٹی پھوٹی، ایک کا پیندہ نہیں
جسکے پیندہ نہیں، اس میں پکائے تین چاول
دو کچے پکے، ایک گلتا ہی نہیں
جو گلتا نہیں، اس نے بلائے تین مہمان
دو روٹھے پھولے، ایک منتا ہی نہیں
جو منتا نہیں اسکے لگائیں تین جوتیاں
دو اوکی چوکی ایک جمتی نہیں
جو جمتی نہیں وہ جمائ کہانی سننے والے کو۔

زور سے تو نہیں لگی۔ اب دیکھیں، اس میں کچھ بات ہے اور کچھ خرافات۔ اب ہماری ہنر کاری اس میں ہے کہ بات کو خرافات میں سے الگ کریں۔ لیکن تبصرے کے خانے میں لکھ ضرور دیں تاکہ دوسروں کو بھی پتہ چلے کہ اس میں بات کیا ہے۔ بات ہے بھی  یا نری خرافات ہے۔





13 comments:

  1. کام کی بات یہی ملی کہ ہمیں بھی اپنی صغر سنی کے دن یاد آ‌گئے جب ایسے کئی سلسلے ہر شام چھت پر محفل میں سنائے جاتے تھے۔

    ReplyDelete
  2. ابن سعید صاحب، تو کیا مزے کی بات ہو اگر ان میں سے کچھ سلسلے آپ یہاں تحریر کر دیں۔ ہم سب آپکے بے حد مشکور ہونگے۔

    ReplyDelete
  3. خوش قسمت ہیں آپ!
    دیکھ لیجیئے پڑھی لکھی خواتین کے فائدے!
    آجکل خرافات کوہی بات کہا جاتا ہے !
    زور سے تو اسے لگے گی جو سمجھے گا:)
    اور سنانے والے کو؟

    ReplyDelete
  4. ادھر تو خوائشوں کا ايک لامتناہی سمندر ہے تمام اولاد ملکر بھی اسکو پورا نہيں کر پاتی فرق صاف ظاہر ہے ايک ان پڑھ اور پڑھی لکھی عورت ميں کچھ فرق کلچر کا بھي ہے

    ReplyDelete
  5. عبداللہ، سنانے والے کو کیا ملے گا۔ اسکا انحصار تو اس پہ ہے کہ کیا سنایا اور سنانے والا آپ سے سماجی حیثیت میں کتنے فاصلے پہ ہے۔
    جی ہاں، اس بات کا اعتراف مجھے ہے کہ بہت ساری چیزوں میں خوش قسمت ہوں اور جن میں نہیں ہوں۔ انکے لئیے، یوں ہے تو یونہی سہی۔ اسی میں سے رستہ نکالنا پڑیگا۔

    ReplyDelete
  6. ويسے ساسوں کے بارے ميں سب اپنے اپنے تجربات بيان کريں تو مزہ آ جائے مگر يہ تو ُ ميں نہ مانوں` قوم ہے انہوں نے تو کہنا ہہ ہميں تو دوبارہ زندگی ملے تو بھی اپنی ساس کو ہی ساس بنانا پسند کريں گے سوچتی ہوں اجمل صاحب اور عبداللہ کی ساس کيسی ہوں گی اور خاور چچا نے اپنی بيسيويں ساسوں ميں سے کس کو بہتر پايا نيز پاکستانی اور جاپانی ساس ميں کيا فرق ہے

    ReplyDelete
  7. جی اسماء آپ نے صحیح کہا تعلیم اور کلچر ان سب کا فرق تو ہے ہی۔ مگر ایک چیز اور ہے اور وہ شادی سے پہلے میری خدا سے صدق دل سے دعا کہ یا اللہ ایک زندگی میں دو ساسیں مت دیجئیے گا۔ یہ دوسری ساس میری اماں جان ھیں۔ انہوں نے ہماری پرورش ایک خیالی سسرال میں رکھ کر کی تھی۔ آج مجھے لگتا ہے کہ انکی یہ اسٹریٹجی خاصی کامیاب رہی۔
    :)

    ReplyDelete
  8. اسماء، میں ابھی آپکے پہلے پیغام پہ کچھ لکھ رہی تھی کہ پتہ چلا کہ دوسرا بھی آگیا اور یہ جو جو آپ نے موضوع چھیڑا تو لگا کہ یہ تو خاصل دلچسپ ہے۔ اگر آپ لوگوں سے انکے دل کی بات نکلوانا چاہتی ہیں تو یہ سوال کریں کہ انہیں اپنی زندگی میں سب سے دلچسپ، اور مزے کی ساس جو لگیں انکی خصوصیات بتائیں۔ ورنہ اس طرح کے سیدھے سوالوں میں کون قابو آئے گا۔ سب ہی نمبر بنانے کے چکر میں لگ جائیں گے۔

    ReplyDelete
  9. بات کہاں سے کہاں چلی گئی تبصروں میں ـ
    خرافات ؟؟
    مجھے تو جی ککھ سمجھ نهيں لگی که اس نظم میں کیا کہنے کی کوشش کی گئی ہے
    یه اس طرح كی جیسے ہم نے ٹیوی آنے سے پہلے کے کلچر میں سنی هوئی ایک تھی
    اک سی بادشاھ
    ایدھی بنڈ تے اگیا کاآ
    کاآ کھدا وچھی
    وچھی دتی پھوسی
    پھوسی دتی کمہاراں
    گمہاراں بنائی ٹنڈ
    ٹنڈ پائی کھوھ کھوھ دتا پانی
    پانی لایا پیلی
    پلی دتا پپا
    پپا پایا ھانڈی
    ؟؟؟
    ااور اس طرح کی اور بھی هوتی هوں گی مجھے اب یہی یاد آرهی هے
    باقی جی ساسوں کے متعلق پوچھا ہو اسماء پیریس نے جی
    نام کا اثر هوتا هے ایک ہلٹن پیرس بھی تو هے
    آگر میں نے لکھا ناں جی تو ساسوں کا کردار کم هو گا اور کہانی اس طرح کی بن جائے گي جیسی ان سائیٹوں پر هوتی هیں جہان لوگ چسکا لینے جاتے هیں
    میری کس واردات پر کس لڑکی کی ماں نے کیا تبصرھ کیا تھا
    اسکے لیے واردات لکھن ی هو گی
    اور آپ کو معلوم هی هو گا که میں بالغ لطیفوں والی جائیٹ چلایا کرتا تھا تو اس لیو بند کردی تھی کی ایک دن پاکستان مين میرو بڑے بیٹے فہد نے میرے کمپیوٹر پاور بک میں ایک فولڈر جس کا نام تھا نالغ لطیفے اس پر انگلی رکھ کر پوچھا تھا
    پاپا اے کی اے ؟؟
    تو اب ڈر لگتا ہے
    که گندا لکھا هوا ، نسلوں سے خیانت ہے ـ
    فون گر کے پوچھ لیں میں ، میں کچھ سنسر کرکے بتا دوں گا

    ReplyDelete
  10. مجھے تو یہ کہانی بالکل مہمل نہیں لگی۔ بیر جھڑی کا کانٹا ساڑھے اٹھارہ ہاتھ اور اس میں بھی تین بستیاں آباد ہو جائیں۔ تو اس میں بہت ساری ناممکنات کا تذکرہ ہے۔ ہر ناممکن بے حد مشکل اور ساتھ ہی بد ترین ہے۔ اور اس سے نئے بدترین ممکنات ہی جنم لے رہے ہیں۔ اگر اس میں کچھ اور نہ کیا جائے۔ اسی لئیے تو سننے والے کو جو بے حس و حرکت بیٹھے سن رہے ہیں وہ جوتی جمائ گئ جو جمتی نہیں۔
    جی تو خاور صاحب، یہ تھی میری سمجھدانی۔ باقی مردوں کا اپنی ساس کے بارے میں خیال اس کہانی جیسا ہی ہو سکتا ہے جیسا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    یہ میں مردوں سے نفرت میں نہیں کہہ رہی، کیونکہ میں بہت سارے مردوں سے محبت کرتی ہوں اور کچھ سے تو دلی محبت ہو بھی گئ تھی۔ جیسے رچرڈ گیئر اور بریڈ پٹ اور کچھ ایسے نام جن سے فساد کا اندیشہ ہے۔ لیکن ایسا ہے کہ میں پاکستانی ماحول کی نزاکتیں سمجھتی ہوں۔
    اگر آپ نے بانو قدسیہ کی راجہ گدھ پڑھی ہو تو ایک ساس کا تذکرہ اس میں بھی ہے اور وہ مجھے حقیقت کے خاصے قریب لگتا ہے۔

    ReplyDelete
  11. بی بی !

    میری ذاتی رائے میں آپ خود بھی اس کہانی کو ٹھیک طرح نہیں سمجھ پائیں۔ یہ تو بہت سیدھی سی نظم یعنی کہانی ہے۔ آپ اسے ریاست پاکستان کی پاکستانی حکومتوں کے ہاتھوں بنی درگت کو مد نظر رکھ کر پڑھیں اور اس نظم کو کی وہ حقیقتیں بھی آپ پہ آشکارہ ہونگی جو نظم میں سامنے نظر نہیں آتیں۔

    خاور کھوکھر کی ایک بات پسند آئی کہ "تو اب ڈر لگتا ہے
    که گندا لکھا هوا ، نسلوں سے خیانت ہے"
    چلیں کسی طریقے سہی اپنے بیٹے کی خاطر ہی سہی ، دیر آید درست آید۔

    ReplyDelete
  12. اوہ ہو خاور چچا ہم بھی تو چسکے کے ليے ہی لکھنے کو کہہ رہے ہيں بس جلدی سے لکھ ڈاليں اپنے تجربات يہ بھی تو نئی نسل کے ليے مشعل راہ ہی ہوں گے باقی بلاگروں کے تو ہاتھ بندھے ہوئے ہيں آپ دل کی باتيں کھل کر اسی ليے لکھتے ہيں جاپانی چچی کو اردو جو نہيں پڑھنا آتی

    ReplyDelete
  13. انیقہ آپ نے پہلے بھی اس خبر کی طرف اشارہ کیا تھا مگر دوسروں کے مذہب اور قومیتٹٹولتے مسلمانوں کے پاس وقت نہیں ان باتوں پر ضائع کرنے کو!
    میرا خرم بشیر بھٹی اور افتخار اجمل جیسے لوگوں سے سوال ہے کہ کیا انہین اس بات سے کوئی پریشانی نہیں؟
    http://www.jang-group.com/jang/jan2010-daily/30-01-2010/col12.htm

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ