Thursday, July 1, 2010

دیر آید

اگرچہ کہ میں کھانا دن میں ضرورتاً ہی کھاتی ہوں مگر تیسری دنیا کے ایک پسماندہ اور اپنے ہوش و حواس کی دنیا بحال ہونے کے بعد سے اسے حالت جنگ میں دیکھ دیکھ کر میں سارا سارا دن بھی لکھتی رہوں تو اس میں اچنبھے یا حیرانی کی بات نہیں ہونی چاہئیے۔ تیسری دنیا کا ایک غریب ملک، حالت جنگ، نامساعد سیاسی حالات، جہالت، دقیانوسیت, جذباتیت، اور ترقی کے لئے کام کرنے کے بجائے کام کرنے والوں سے حسد،  یہ سب مل کر ایک ایسا جادوئ جوہر بناتے ہیں  کہ جو شخص معمولی سی بھی حساسیت رکھتا ہو یہ اسے تخلیق کی سطح پہ خاصہ سرگرم کر دیتی ہے۔ ایسے حالات سے گذرنے کے بعد اگر کسی لکھنے والے کو لکھنے کے موضوعات کی قلت کا سامنا ہے تو یہ یقیناً وہ ہونگے جو صاحبان تسلیم و رضا سے ہیں۔
اس ہفتے دو دلچسپ خبریں سامنے آئیں۔ پہلی خبر کا تعلق سندھ سے ہے۔ جہاں ایک پینتالیس سالہ خاتون شہزادی چانڈیو  نے ایک سترہ سالہ لڑکے کو شادی کرنے کی غرض سے اغواء کر لیا۔ پولیس اسٹیشن میں لڑکے نے بیان دیا کہ وہ تو اسے جانتا تک بھی نہیں۔ یہ زیادتی ہے کوئ آپکو جانتا بھی نہ ہو اور اسے اغواء کر لیا جائے۔ مگر پھر بھی صد شکر کے اجتماعی زیادتی نہیں ہے۔
دوسری خبر  انڈیا کے شہر لکھنوء سے ہے ایک مسلم خاتون نشاط فاطمہ نے شہر میں واقع ایک شریعت کورٹ میں فتوی دینے مولوی صاحب کی پٹائ لگادی۔ یقیناً پڑھی لکھی نہیں ہونگیں ورنہ صرف لفّاظی کرتی رہ جاتیں۔ اور اسی فلسفے پہ غور کرتی رہتیں کہ جب اس خبیث شوہر نے ہی خباثت دکھا ڈالی تو کسی مولوی کا اس میں کیا قصور۔ اس تمام تر ہاءو ہو کے بعد  پھر انہوں نے  جو کچھ کہا  اسکا مطلب یوں نکلتا ہے کہ  ٹھنڈ پے گئ۔ 
دل کو کتنا سکون ملا ہے ان لوگوں کو پیٹ کر بتا نہیں سکتی۔
خاتون شیعہ فقہے سے تعلق رکھتی ہیں اور پڑوسیوں کی زبانی یہ جان کر کہ انکے شوہر نے انہیں طلاق دے دی ہے وہ سخت صدمے میں تھیں۔ شیعہ قوانین کے مطابق بیوی کو صفائ کا موقع دئِے بغیر طلاق نہیں ہو سکتی۔  خاتون کے شوہر صاحب عرصہ ء دو سال سے ایک اور خاتون کے ساتھ عارضہ ء قلب میں مبتلا تھے۔ اسکا علاج انہوں نے یہ نکالا کہ ان سے شادی کر لی جائے۔ لیکن اس سلسلے میں ماضی کی غلطی کو ان ڈو کرنے کے لئے انہیں مولوی صاحب سے خدمت لینی پڑی۔  تاکہ زمانہ ء حال میں یہ غلطی دوبارہ کر سکیں۔  لکھنوء کے سلطان المدارس کے مولوی صاحب نے مبلغ ڈھائ ہزار روپے انہیں پہلی بیوی سے علیحدگی کا سرٹیفیکیٹ دیا۔  نشاط آپا نے یہ سنتے ہی آءو دیکھا نہ تاءو کہ اب اسکا وقت نہیں رہا تھا اس شریعت عدالت میں گھس کر مولوی صاحب کی پٹائ لگا دی۔  نہ رہے بانس اور نہ ہی بانسری۔  ہماری خاتون نے اسی پہ بس نہیں کی بلکہ مزید خواتین کو مشورہ دیا کہ وہ جو ان مولویوں کے قوانین سے تنگ آئی ہوئ ہیں وہ بھی باہر نکلیں اور انہیں سبق سکھائیں۔
باقی مسلمان خواتین چاہے انکے مشورے پہ عمل کریں یا نہ کریں ایک خیال یہ  آتا ہے کہ بچپن میں اماں جان و ابا جان سے پٹنے کے بعد عین بڑکپن میں دوسرے کی بیگم سے پٹنے کے انوکھے تجربے کے بعد مولوی صاحب کی  ذہانت میں بیش بہا اضافہ ہوا ہوگا اور اب وہ مولوی صاحبان یقیناً اس کار خیر کی فیس بڑھا دیں گے کہ اس میں بعد از پٹائ علاج معالجہ کا خرچہ بھی شامل ہوگا۔
میری ہمدردیاں مولوی صاحب کے ساتھ ہیں اس لئے برائے مہربانی اس پوسٹ کے سلسلے میں مجھ پہ دین کے خلاف جانے کا الزام نہ لگایا جائے۔ حالات کہہ رہے ہیں کہ مبینہ شوہر صاحب نے بھی اسی طرح باری باری اماں، ابا اور بیگم سے پِٹ پِٹ کر ذہانت استعمال کرنا سیکھی ہوگی۔ بہر حال دیر آید درست آید۔

 


7 comments:

  1. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    اس میں بےچارےمولوی کاکیاقصور۔ قصورتواس کےبندےکاتھالیکن اس نےمولوی کی پٹائی کردی۔

    والسلام
    جاویداقبال

    ReplyDelete
  2. میر جعفر

    مزید خبر..
    شاط فاطمہ کی بہن عرشی بی بی نے کہا وہ جب ان مولویوں کے پاس گئیں تو انھوں نے کہا کہ وہ اسی صورت میں ان کو واپس ان کے شوہروں کے پاس بھیج سکتے ہیں کہ اگر وہ ان مولویوں سےمتعہ کر لیں۔

    انھوں نے مزید کہا کہ مولوی کہتے تھے کہ بڈھا جوان نہ دیکھیں متعہ کر لیں اور ایک ہفتے ان کے ساتھ رہ لیں۔
    انھوں نے کہا کہ اس پر ان کے اندر جو جولامکھی پک رہا تھا وہ پھٹ گیا اور ہاتھا پائی ہوگئی۔

    نشاط فاطمہ نے کہا کہ ’ان حضرات کی پٹائی کرکے دل کو کتنا سکون ملا ہے میں بیان نہیں کر سکتی

    ReplyDelete
  3. او خو چہ یہ مولوی بڑا کمزور شمزور ھے۔اس کو ادھر بھیجو ام اسے طالبان ٹریننگ دیتا ھے۔
    خوچہ مرد ذات اورت سے مار کاتی ھے۔

    کڑاکے کڈ نا سیکھا اوئے اس مو لوی نوں۔

    ReplyDelete
  4. لیکن یہ تو روز کا معمول ہے کہ ہند و پاک میں ہر ادارہ ہی کرپٹ ہے۔ ہاں مولوی صاحب بڑے شریف تھے جو پٹ گئے، اگر پاکستان کے ہوتے تو پھر موصوفہ کو پتہ چلتا کہ انہوں نے کیا حرکت کی ہے۔ البتہ ان صاحب کی پیٹائی کون لگائے گا جنہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کے جرت کی۔
    اور ہاں ہم اس واققہ کو تمام تر لوازمات کے ساتھ درست مانتے ہیں لیکن ہمیں اس واقعہ میں خبریت کا کوئی بھی پہلو نظر نہیں آتا۔ بی بی سی کا تو سمجھ میں آتا ہے کہ اس نے اس اسٹوری کو اتنی کوریج کیوں دی البتہ عنیقہ ناز صاحبہ سے ہمیں امید ہے کہ انکی نیت بی بی سی والی نہیں ہوگی اور انہوں نے اس واقعہ کا زکر صرف تفریحا اور چٹکلے کے طور پر کیا ہوگا۔ صاحب مولویوں کو لے کر بہت سے لطیفے سو ایک لطیفے کا اور اضافہ ہوگیا ہے اور بی بی سی اردو کی ذہنیت ایک دفعہ پھر سامنے آگئی ہے کہ یہ ادارہ خبروں کی سلیکشن کے بارے میں ہمیشہ پالیسی کے تحب کام کرتا ہے۔

    ReplyDelete
  5. لکھنؤ میں ایک شرعی عدالت میں تین خواتین نے مدرسے کے اندر گھس کر دو مولویوں کی پٹائی کر دی۔

    شرعی عدالت کے دو قاضیوں نے دو سگی بہنوں نشاط فاطمہ اور عرشی بی بی کے شوہروں سے، بقول ان خواتین کے، رشوت لے کر اس عورت کی جعلی طلاق کے کاغذ جاری کر دیئے تھے۔

    ان خواتین نے باقی خواتین سے بھی کہا ہے کہ وہ خاموشی سے ظلم برداشت نہ کریں۔

    لکھنؤ سے فون پر بی بی سی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے نشاط فاطمہ کی بہن عرشی بی بی نے کہا کہ ’وجہ یہ بنی کہ ان مولویوں نے ہماری یک طرفہ طلاق کرا دی نہ ہماری صورت دیکھی نہ ہمارے کہیں دستخط تھے۔‘

    مولویوں نے ہماری یک طرفہ طلاق کرا دی۔۔۔ ۔۔۔سینے میں ایک جوالا مکھی جمع ہو گیا تھا۔

    عرشی بی بی

    * انٹرویو سنیں

    سنئیےدورانیہ: 03:05

    انھوں نے کہا کہ ان مولویوں نے نشاط فاطمہ کے شوہر کا نکاح ایک ہندؤ لڑکی سے کرا کر اسے نینی تال بھیج دیا۔

    عرشی بی بی نے کہا کہ وہ جب ان مولویوں کے پاس گئیں تو انھوں نے کہا کہ وہ اسی صورت میں ان کو واپس ان کے شوہروں کے پاس بھیج سکتے ہیں کہ اگر وہ ان مولویوں سےمتعہ کر لیں۔

    انھوں نے مزید کہا کہ مولوی کہتے تھے کہ بڈھا جوان نہ دیکھیں متعہ کر لیں اور ایک ہفتے ان کے ساتھ رہ لیں۔

    انھوں نے کہا کہ اس پر ان کے اندر جو جولامکھی پک رہا تھا وہ پھٹ گیا اور ہاتھا پائی ہوگئی۔

    نشاط فاطمہ نے کہا کہ ’ان حضرات کی پٹائی کرکے دل کو کتنا سکون ملا ہے میں بیان نہیں کر سکتی۔‘

    ادھیڑ عمر کی نشاط فاطمہ کی شادی نینی تال کے ایک پراپرٹی ڈیلر سے ہوئی تھی۔ نشاط فاطمہ کو جب ان ہمسائیوں سے یہ خبر ملی کہ ان کے شوہر نے ایک جعلی طلاق نامہ حاصل کرکے انھوں نے ان کی ایک سہیلی سے کر لی ہے۔ نشاط فاطمہ نے کہا کہ ’میں نے جب چھان بین کی تو یہ خبر درست نکلی‘۔ انھوں نے کہا کہ طلاق نامہ ڈھائی ہزار روپے کی رشوت لے کر جاری کیا گیا تھا۔

    نشاط نے کہا کہ ان لوگوں کی سماج میں ایک حیثتیت ہے اور ان سے لوگ توقع کرتے ہیں کہ وہ دھوکے بازی نہیں کریں گی۔

    انھوں نے باقی خواتین سے کہا کہ وہ خاموشی سے ظلم سہنے کے بجائے باہر نکلیں اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں۔

    ReplyDelete
  6. مار کی بہت اہميت ہوتی ہے آپ کو پہلے بھی بتايا تھا مگر آپ بضد رہتی ہيں کہ شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے آپ نے سنا ہی ہو گا لاتوں کے بوت باتوں سے نہيں مانتے

    ReplyDelete
  7. نصیر کاشف صاحب، چلیں کسی واقعے کو تو آپ نے صحیح مانا۔ اسکی وجہ یہ ہے یہ زمانہ ء حال کا واقعہ ہے۔ اس واقعے کی اہمیت ہے۔ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے واقعات بڑی بڑی تبدیلیوں کا پتہ دیتے ہیں۔ یہ دونوں واقعات ان علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں خواتین کا پٹنا، اغواء ہونا، اور مختلف زیادتیوں کا شکار ہونا ایک معمول کی کارروائ ہے۔ اتنی معمول کی کہ اگر کوئ خاتون اس پہ اپنا رد عمل ظاہر کرے تو خود خواتین میں سے کئ کو پریشانی ہوتی ہے کہ کیا عورت ہے ۔ عورتوں کو ایسا نہیں کرنا چاہئیے۔
    اپکی دوسری بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ بی بی سی خبروں کو اپنے ایجینڈے کے حساب سے پیش کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے شریعت کورٹ کے سقم سامنے لانا چاہ رہے ہوں۔ لیکن یہ خبر ٹائمز آف انڈیا سے لیکر ہمارے ڈان اخبار نے بھی آج دی ہے۔
    گمنام، مزید معلومات کا شکریہ۔ مجھے تو یہ خبر ٹائمز آف انڈیا سے ملی تھی۔ اور اس میں یہ متعہ کا چکر نہیں تھا۔
    پھپھے کٹنی
    :) :)
    جاوید اقبال صاحب، آپکی بات بھی صحیح ہے۔ لیکن کیا اپنے شوہر کی ایک عورت غیرت کی وجہ سے پٹائ لگا سکتی ہے یا زیادہ شدت میں قتل کر سکتی ہے۔ کیا قانون اور معاشرہ اسے تحفظ دیتا ہے۔
    میرا خیال ہے کہ انکے شوہر موصوف تو نینی تال بھاگ گئے ہونگے۔ اور سکھ چین سے دوسری بیگم کے ساتھ ہونگے۔ اب اس صورت میں مولوی کو پیٹ کر ہی سکون آ سکتا تھا۔ خاص طور پہ ایسا مولوی جو اپنے ساتھ متعہ کی آفر بھی دے رہاہو۔ یعنی طلاق کی قیمت میں متعہ فری۔
    :) :)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ