Sunday, July 18, 2010

ایک شام

 ٹریفک جام دنیا کے اکثر بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ لیکن کراچی کا ٹریفک جام  کا مرکز اگر معلوم کریں تو وہاں کئ گاڑیاں غلط سمت سے آ کر ایکدوسرے کے سامنے کھڑی ہونگیں، یوں کسی کے بچ نکلنے کا رستہ نہیں رہتا۔  ہمیں رشین سینٹر آف سائینس اینڈ کلچر پہنچنا تھا جو کہ عرف عام میں فرینڈ شپ ہاءوس کہلاتا ہے۔ وہاں ایک موسیقی کے پروگرام کی دعوت تھی۔ اس پروگرام کی دو خصوصیات تھیں۔ ایک تو اس میں روسی لوک موسیقی کوطبلے کے ساتھ مدغم کر کے پیش کیا جا رہا تھا۔ اور دوسرے طبلہ بجانے کا کام ایک خاتون انجام دے رہی تھیں۔
لیکن ہفتے کے دن کراچی میں ٹریفک کا رش معمول سے زیادہ ہوتا ہے کہ اسی دن شوہروں کی بڑی تعداد بیگمات کے ہاتھ لگتی ہے یوں شاپنگ سے لے کر رشتے داروں کے یہاں ہفتے وار چکر کے لئے ایک موقع نکل آتا ہے۔ دوسرا اگلا دن چونکہ چھٹی کا ہوتا ہے اس لئے شادی کی تقریبات کے لئے خاصہ آسان قرار پاتا ہے۔ لیکن کراچی کی سڑکوں پہ ہفتے کی شام خاصی بھاری گذرتی ہے۔ یوں شہر کی مختلف سڑکوں پہ ٹریفک جام کو برداشت کرتے ہوئے طارق روڈ کی ایک جانبی سڑک پہ بیس منٹ سگنل پہ اپنی باری کا انتظار کرنے کے بعد جب ہم دوسری طرف کی جانبی سڑک میں داخل ہوئے تو آدھی سڑک کھدی ہوئ تھی اور مٹی کے پہاڑ کو عین درمیان میں انتہائ سلیقے سے  جما کر مہم جو ڈرائیورز کوایک چیلینج دیا گیا تھا کہ گذرو تو جانیں۔ ہمارے ڈرائیور نامدار یہاں اگر آپ انہیں ہمارے شوہر نامدار سمجھیں تو بالکل صحیح ہونگے انہوں نے بھی اسے قبول کیا کہ ازل سے بس گئ ہے مہم جوئ میری فطرت میں۔ لیکن مرفی کا قانون اس قبولیت کا منتظر تھا۔ جیسے ہی جناب نے احتیاط سے اس پہاڑ کے ایک طرف چلنا شروع کیا دوسری طرف موجود پیپل کے درخت کی لٹکتی جڑوں نے گاڑی کی چھت سے کہا، کہاں میاں، ہم بھی تو کھڑے ہیں راہوں میں۔ ہماری اونچی گاڑی نےان سے شکست کھائ۔  قریب میں ایک گلی نظر آئ۔ پیچھے جا نہیں سکتے تھے کہ مزید گاڑیاں اس چیلیج کا سامنا کرنے کے لئے لائن بنائے کھڑی تھیں۔ اس گلی میں مڑ گئے۔ اب یہاں دو گاڑیاں آرام سے گذرنے کی جگہ تھی۔ لیکن کسی نے لوگوں کے صبر و قرار کا امتحان لینے کے لئے ایک گاڑی کو کچھ اس طرح ترچھے انداز میں کھڑاکیا گیا تھا کہ اگلی گاڑی جان کی امان پا کر ہی اسکے قریب سے گذر سکتی تھی۔ نیم اندھیرے میں اس مرحلے سے سرخرو ہوئے تو پتہ چلا کہ بیچ گلی میں مزید دو گاڑیاں اس طرح پارک ہوئ ہیں کہ آگے جانے کا رستہ نہیں رہا۔ کسی کے اس نیک عمل پہ اسے دعائیں دیتے ہوئے گاڑی کو ریورس گیئر میں ڈالا۔ اور ہمارے ڈرائیور نے جنکی خوبیوں میں سے ایک یعنی ڈرائیونگ میں مہارت کی میں ہمیشہ معترف رہی ہوں اس تنگ گلی میں آڑی ترچھی پارک کی ہوئ گاڑیوں کے درمیان ملی میٹرز کا صحیح حساب رکھتے ہوئے گاڑی کو وہاں سے نکال ہی لیا۔
اس ساری تگ ودو کے بعد یہ خیال پیدا ہو چلا تھا کہ اب شاید ہی یہ پروگرام ہمارے لئے بچا ہو۔  کیونکہ ہم تو روڈز پہ پرفارمنس دینے میں مصروف تھے۔ بہر حال مقررہ وقت کے تقریباً پچاس منٹ بعد ہم وہاں پہنچے تو پروگرام جاری تھا۔
روسی الیکسی اپنا گٹار اور پاکستانی لینا احمد اپنا طبلہ سنبھالے ہوئے تھے۔ موسیقی کے ایسے پروگرامز لاِئیو دیکھنا ایک الگ لطف رکھتا ہے۔ ہال میں گنجائش سے زیادہ مہمان موجود تھے۔ 
گٹار کے ساتھ طبلے کی سنگت میں الیکسی  نے روسی شاعری اور موسیقی کا تعارف دیا۔ ہر گیت سے پہلے وہ اسکا ترجمہ اور پس منظر بتاتے جاتے۔ الیکسی خوش آواز بھی ہیں۔ لینا بہت اچھا طبلہ بجاتی ہیں اور انہوں نے الیکسی کی لے میں اپنی لے خوب ملائ۔  یوں مزہ آیا۔


پروگرام کے آخر میں ایک سرپرائز ملا جب استاد دلاور نے پکھاوج پہ اپنی پرفارمنس پیش کی۔ انکے تعارف میں کہا گیا کہ پکھاوج طبلے سے پہلے رائج تھا۔ امیر خسرو نے طبلہ متعارف کروایا اور جلد ہی یہ اتنا رائج ہو گیا کہ پکھاوج متروک ہو گیا۔ میرا یہ پہلا موقع تھا اسے سننے کا۔ اور صحیح بات تو یہ ہے کہ میں اس سے بہت متائثر ہوئ۔ فنکار صاحب ہر پرفارمنس سے پہلے اس سے منسلکہ منظر کھینچ دیتے۔ اور پھر جب تا تھئ کی تال دیتے تو سماں باندھ دیتے۔ اسکی وجہ اس پرفارمنس کا اردو میں ہونا بھی تھا۔

23 comments:

  1. بہت خوبصورت منظر کشی کی ہے آپ نے ایس سماں باندھا ہے کے گویا گمان ہوتا ہے میں بذات خود وہہں موجود ہوں .روسی ثقافت بہت خوبصورت ہے .پرانی یادیں یاد دلانے کا شکریہ

    ReplyDelete
  2. میں نے سنا ہے تہران کی سڑکوں پر کراچی سے بھی بری حالت ہے. لیکن میں تہران گیا ہوں نہ کراچی. لہذا تبصرہ کرنے سے قاصر ہوں. تاہم ہمدردیاں میری دونوں کسے ساتھ ہیں.

    موسیقی سے مجھے کبھی خاص لگاؤ نہیں رہا. کبھی کہیں بیٹھے ....، موقع مل گیا تو ٹھیک نہیں تو نہ سہی.
    روسی موسیقی کا تو پتا نہیں....البتہ روسی ادب میں بہت گہرائی ہے. مجھے ذیادہ اتفاق نہیں ہوا پڑھنے کا. لیکن میں نے اس کی تعریفیں ضرور سنی ہے.

    ReplyDelete
  3. Очень смешно и интересно.

    ReplyDelete
  4. واقعی روسی ادب میں بہت گہرائی ہے۔ لیو ٹالسٹائی کا ناول امن اور جنگ، ظالم نے کیا لکھ مارا کرداروں کی ایک ہیڑ کے ساتھ کیا ناول لکھا۔ اور ایک ہمارے اشتیاق احمد ہر ناول میں بیس پچیس لوگوں کو ڈال کر دوڑاتے پھرتے ہیں بس۔
    پس موضوع کسی روسی نے تبصرہ بھی کرڈالا آپ کے بلاگ پر۔

    ReplyDelete
  5. عثمان اور دوست آپ دونوں کا کہنا بجا ہے کہ روسی ادب میں بہت گہرائ ہے۔ اور چیزوں سے قطع نظر انکے کلاسک ناولوں میں پیش کئے گئے کرادر ہمیں کسی اور دنیا کے نہیں بلکہ اپنی ہی دنیا کے کردار نظر آتے ہیں۔ اسکے علاوہ ان ناولز میں اپنے دور کی اقدار، مسائل ، منظر کشی اور کرداروں کو خاصہ اچھا برتا جاتا ہے۔ انکی اقدار خاصی حد تک جنوبی ایشیائ اقدار سے ملتی جلتی نظر آتی ہیں۔ اس لئے ہمیں نامو٘ کے علاوہ کچھ اتنا الگ نہیں لگتا۔
    روسی ادیب فرانز کافکا میرے پسندیدہ ادیب ہیں۔
    لیکن دوست یہ آپ نے اشتیاق احمد کو کیوں ملا دیا۔ وہ تو ٹریش لکھنے والا ایک کمرشل مصنف ہے جو بچوں یا ٹین ایجرز کو ہی شاید بھائے۔ جو شخص مہینے میں چھ ناول لکھ ڈالے، وہ بھی ماوارئ حالات کی وہ یہی دے گا۔ روسی ادب تو پوری زندگی اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے۔
    اور یہ روسی تبصرہ لکھنے والے شاید اس مغالطے میں آگئے کہ مجھے روسی آتی ہے۔ نہیں آتی بھئ نہیں آتی، ذرا سی بھی نہیں آتی۔ اب اس جملے کا ترجمہ بھی لکھ دیں۔ ورنہ لوگ اعتراض کریں گے کہ انکے بلاگ پہ غیر علاقائ زبانوں میں کچھ عجیب تبصرے کئے جاتے ہیں۔

    ReplyDelete
  6. ٹریفک جام کی مصیبتوں کی بہت عمدہ منظر کشی کی ہے۔ اب پچھلے ایک سال سے تو ٹریفک کا مسئلہ کافی کم ہوگیا ہے مگر یوں معلوم ہوتا ہے یہ بھوت واپس سنگین صورت اختیار کرنے والا ہے۔

    لائیو موسیقی سننے کا مزہ ہی کچھ اور ہے خاص کر اگر باذوق لوگوں کی صحبت بھی ہو۔

    ReplyDelete
  7. I don't know Russian either. I simply used Google Translate to say that your piece was funny and interesting :-)

    Note that, in all probabilities, Kafka also didn't know Russian. (Sadly, he died much before the advent of Google Translate.) He spoke German and Czech, and was born in Prague, then part of the Austro-Hungarian Empire.

    ReplyDelete
  8. ميں غلط جگہ پر لکھنے کيلئے معذرت خواہ ہوں ۔ ميرے پاس آپ کا ای ميل ايڈريس نہيں ہے اس لئے ايسا کرنا پڑا

    آپ نے نبيل نقوی صاحب کے بلاگ پر لکھا ہے

    بات یہ ہے کہ ایسا ہونے کی صورت میں آپکے افتخآر اجمل بھوپال صاحب، جعفر اور ڈفر بلکہ دائرے کو وسیع کریں تو خاور صاحب بھی آتے ہیں۔ اور اگر مزید حلقہ بڑھائیں تو اس میں ہر وہ شخص آتا ہے جس نے واہیات بلاگز کے اوپر جا کر انکی حوصلہ افزائ کے لئے تبصرے لکھے

    آپ ميرے اُن تبصروں کا حوالہ دے سکتی ہيں جن ميں ميں نے اخلاق سے گری ہوئی تحارير کی حوصلہ افزائی کی ؟

    اگر نہيں تو اتنا ضرور ياد رکھيئے کہ بہتان تراشی صرف گناہ نہيں جرم بھی ہے

    ReplyDelete
  9. Sana:
    Pls baba jee ab tu jan chor deen.

    ReplyDelete
  10. NitPit0
    آپ نے بالکل صحیح لکھا، فرانز کافکا پراگ میں پیدا ہوئے اور جرمن تحریر کار ہیں۔ میں بالکل روانی میں جرمن اور روس کو ایکساتھ لکھ گئ۔ انکی تصنیفات کا روسی زبان میں بھی ترجمہ ہوا ہے۔
    افتخار اجمل صاحب، آپ نے اس سارے جملے کو صحیح پس منظر سے نہیں اٹھایا۔ اسکے شروع میں ، میں نے لکھا ہے کہ اگر ذاتیات اور عصبیت پہ کسی کو ہٹانا مقصود ہو تو۔
    لیکن بہر حال اگر آپ اسے اس تناظر میں بھی دیکھنے کے خواہشمند ہوں تو صرف جعفر کی کنڈوم والی پوسٹ پہ آپکا تبصرہ آپ خود پڑھئیے اور سوچئیے کہ کیا اسے آپکی طرف سے ایسا ہونا چاہئیے تھا۔ باقی چھان پھٹک کے لئے میرے پاس وقت نہیں۔
    کسی بھی دوسرے شخص پہ گناہ اور جرم کی حد جاری کرنے سے پہلے اپنے الزام کو بہتر طور پہ چیک کرنا چاہئیے۔
    نومان، ہاں مجھے ابھی اب یہی لگ رہا ہے کہ ٹریفک جام کا بھوت پھر سے اٹھ کھڑآ ہونے والا ہے۔ یہ مصیبت , کراچی ماس ٹرانزٹ پروجیکٹ سے ہی حل ہوگا۔ آپکا اس بارے میں کیا خیال ہے۔

    ReplyDelete
  11. اے کے ملک

    اتنا اچھا لاِئیو پروگرامز چل رھا ھے ،انکل جی آپ نے پورے
    پروگرام کا مزا خراب کردیا ،

    ReplyDelete
  12. عنیقہ: بالکل ایک جدید ترین ماس ٹرانزٹ سسٹم ہی شہر کے ٹریفک مسائل کا واحد حل ہے ورنہ آپ جتنے چاہے فلائی اوورز انڈرپاسز یا بائی پاسز بنالیں۔ ہر دو تین سال بعد ٹریفک جام کی عفریت پھر منہ پھاڑے کھڑی ہوگی۔

    ReplyDelete
  13. حیران ہوں دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔ یا ہم کیا ہو جائیں گے؟۔

    ٹریفک جام تو تقریبا ساری دنیا کا مسءلہ ہے لیکن اگر آپ بی بی! اگر آپ لوگ بھی ٹریفک کے لگے بندحے اصول چھوڑ کر پیپلوں کے چکر کاٹنا شروع کر دیں تو یہ ایک اچھی مثال نہیں۔۔۔ ایسے میں گلی میں آڑھی ترچھی گاڑیوں پہ آپ کو اعتراض نہیں کرنا چاہئیے کہ وہ بھی آپ جیسے اس آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں جو کسی قسم کے اصول و ضوابط کو محض دوسروں کے لئیے لازم قرار دیتے ہیں ۔ وہ تو اپنی گلی کی حد تک آزاد تھے آپ انکی گلی میں گھس کر انکی آزادی میں مخل ہوئیں ہی کیوں تھیں؟۔

    اور بے نام و نشان اور بے حمیت تصرہ نگاروں کو ہر آپکے بلاگ پہ ہر قسم کی آزادی و دل آزاری اور ڈھولکی پہ رائے پھر کبھی سہی ۔ ابھی ٹالسٹائی اور روسو سمیت سبھی بابائے ادب کی باتیں جاری رہنی چاہئیں۔

    ReplyDelete
  14. کچھ لوگوں کے نزدیک خود بہتان لگانا جائز ہوتا ہے مگرکوئی اور اگران کے بارے میں سچ بھی کہے تو وہ انکے مسلک میں ناجائز ہوتا ہے!!!!!!
    خیر،آپکی پوسٹ پڑھ کرمزہ آیا،مختلف تہزیبوں کو ایک دوسرے سے روشناس کروانے کا بہترین طریقہ لوک موسیقی اور ادب ہے،مگرکچھ لوگ لکیر کے فقیر بنے رہنے میں بہتری سمجھتے ہیں!!!!!!
    نا صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان میں ٹریفک کے مسائل کا واحد حل ماس ٹرانزٹ سسٹم ہی ہے،مگر ٹرانسپورٹ مافیا یہ اتنا آسانی سے ہونے نہیں دےگی،جبکہ بے شمار پولس والے ان دھواں اڑاتی منی بسوں کے مالکان بھی ہوں!!!!
    :(

    ReplyDelete
  15. جاوید صاحب، پیپل کے درخت سے اسکا تعلق اس لئے بنتا ہے کہ جس کس نے بھی سڑک کے درمیان اس مٹی کو کھود کر جمع کیا تھااسے اس چیز کو بھی خیال رکھنا چاہئیے تھا کہ گاڑی صرف پیہوں پہ نہیں چلتی کہ ناپ کر اسکے پہیوں کے لئے جگہ چھوڑ دی جائے بلکہ اسکی چھت بھی ہوتی ہے اور پوری گاڑی پہیوں بمعہ چھت کے سفر کرتی ہے۔ جس وقت ہم گلی میں گاڑی ریورس کر کے اس سے باہر نکل رہے تھے اس وقت بھی ایک گاڑی جو ذرا سی اونچی تھی وہ بھی عین اسی مقام سے ریورس ہو رہی تھی۔
    نامعلوم تبصروں پہ تبصرہ پھر کبھی صحیح۔ مگر معلوم تبصروں کے معیار پہ بھی تبصرہ کیجئیے گا۔ یہ بھی بتائیے گا کہ معلوم تبصروں کے انتہائ گھٹیا ہونے کی صورت میں مبصر کے خلاف کیا کارروائ کی جا سکتی ہے۔
    عبداللہ، آپکی یہ بات صحیح ہے۔ ٹرانسپورٹ مافیا یہ نہیں ہونے دے گی۔ اسکی حالیہ اعلی مثال ریلوے کی طرف سے مزید ٹرینز کو بند کرنے کا فیصلہ۔ ساری دنیا میں ریلوے کا نطام جدید سے جدید تر بنایا جا رہا ہے۔ تاکہ لوگوں کو سفر سستا اور تیز رفتار پڑے۔ لیکن ہمارے یہاں اس مافیا کے کھاتے دار بس اپنا مالی مفاد دیکھ رہے ہیں۔ اور اگر اس پہ کچھ کہا جائے گا تو پھر یہ کچھ لوگوں کی کردار کشی یا عصبیت ٹہرے گا۔ کہ ریلوے کے وزیر صوبہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

    ReplyDelete
  16. جس شہر کے ٹرانزٹ سسٹم میں سب وے یعنی زیرزمین ریلوے نہیں...
    سمجھو وہاں کچھ نہیں.
    جو مرضی کر لیں. جدید دور میں شہری آمدورفت کے نظام میں سب وے سسٹم کا نعم البدل کوئی نہیں ہو سکتا. نہ ٹریفک ، نہ سگنل ، نہ کوئی دھکم پیل. جب مرضی نکلیں. سب وے آپ کو اپنے مقررہ وقت پر مقررہ جگہ پر پہنچا ہی دے گی. لیکن یہ ایک انتہائی مہنگا سسٹم ہے. اربوں ڈالر کی لاگت آتی ہے. لیکن پھر اس سے جو شہر کو ترقی ملتی ہے. وہ آنکھوں نظر آتی ہے.

    ReplyDelete
  17. اگر ٹرافک بے قابو ھو تو ھوہے-- اپ گھرسے جلد نکلین یہی ایک واحد اڈسٹمنٹ ھے-- مین نے پڑتھا کہ امیر خسرو نے طبلہ ایجاد کیا، لیکن نہی-- رہی بات پکھاوچ کی وہ ابھی بھی زندہ ہے-- ھندوستانی کلاسیکل موسیقی سے پہلے دھروپت موسقی ھوا کرتی تھی-- یہ موسقی خاص ویدون سے لی گئی ہے-- پکھاواچ کا ساتھ وینا ہے-- وینا بہت مشکل ساز ہے-- جنوبی ھندوستان مین اسکو کو پسند کیا جاتاہے-- اج یہ گائیکی ڈاگربرادرس مین ہے (مسلمان)-- خیال کی گائگی سے عمدہ ہے--

    ReplyDelete
  18. آپ نے جس تحرير پر ميرے تبصرے کیبنياد پر مجھے بُرا ديا وہ تحرير ميرے ذہن ميں بھی نہ تھی ۔ اچھا ہوا کہ آپ نے تحرير کے مصنف کا نام لکھ ديا ۔ مجھے مصنف يعنی جعفر صاحب سے ہی مدد لينا پڑی کيونکہ وہ تحرير نہ ميں نے پہلے پڑھی تھی اور نہ اب تک پڑھی ہے ۔ دراصل ميں اپہلی چند سطروں ميں تحرير کا انداز ديکھ کر باقی تحرير پڑھتا ہوں ۔ يہ حقيقت ميرے دونوں تبصروں سے واضح تھی

    پہلا تبصرہ ۔ آپ نے نام پورا نہيں لکھا ۔ ان کا نام ہے ويران خان شاداب

    دوسرا تبصرہ ۔ ميں نے آپ کی يہ تحرير پڑھے بغير نام کی تصحيح کی تھی ۔ اب ہاف سنچری سے زيادہ تبصرے ديکھ کر خيال ہوا کہ تھوڑا سا پڑھ لوں مگر کچھ تبصروں پر نظر پڑ گئی اور تبصرے پڑھتے پڑھتے پٹرول ختم ہو گيا ۔

    اب مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ آپ ايسی تحارير کيوں لکھتے ہيں ۔ تبصروں کا ريکارڈ قائم کرنے کيلئے ۔ جب گنيس بُک والا معاملہ ہو جائے تو بتا ضرور ديجئے گا ۔ ويسے گھرانا نہيں چاہيئے کيونکہ کچھ لوگ تحرير کی بجائے اپنے خيالات پر
    تبصرہ کرتے ہيں اور کچھ چاہتے ہيں کہ دوسرے اُن کی تعريفيں لکھيں ۔ آپ نے تو بقول اُن کے تہذيب سے گری ہوئی تحرير لکھ دی ۔ ميں نے تو ہميشہ با ادب با ملاحظہ ہوشيار قسم کی تحرير لکھتا ہوں پھر بھی بہت کچھ سننا پڑتا ہے

    ميرے بر عکس آپ نے متذکرہ تحرير غور سے پڑھی اور اس پوسٹ پر کم از کم 7 بار گئيں اور تبصرے کئے جن کے فی تبصرہ اوسطالفاظ 200 ہيں ۔

    آپ کا نظريہ ہے کہ جو آپ کی تعريف کرے وہ دوسروں کو گندھی گالی بھی دے تو جائز ہوتی يا جو اُسے گندھی گالی دے جسے آپ پسند نہيں کرتيں وہ بھی جائز ہوتی ہے ۔

    جسے آپ اچھا نہ سمجھيں يا جو آپ کے ساتھ اختلاف کرے اُسے آپ جگہ جگہ بلاجواز بدنام کرتی پھريں وہ بھی جائز مگر جو آپ کو پسند نہ ہو اُس کی سادہ سی بات بھی آپ کيلئے گالی بن جاتی ہے

    آپ ميرے خلاف جتنا چاہے معاندانہ پروپيگنڈہ کر ليجئے آپ کو اس کا کوئی فائدہ نہ ہو گا کہ آپ کی اس مہربانی کی وجہ سے سمجھدار لوگ ميرا بلاگ اور ميرے تبصرے پڑھتے ہيں ۔وہ ميری بجائے آپ کو بُرا سمجھيں گے سوائے اُن تين چار لوگوں کے جن کے گندھی اور بداخلاقی سے بھرپور تبصرے آپ کے بلاگ کی زينت ہيں

    ميری آپ کيلئے يہی دعا ہے کہ اللہ آپ کو سيدھی راہ دکھائے اور آپ بے بنياد بہتان تراشياں چھوڑ کر اپنی تعليم کے مطابق رويہ اختيار کريں

    ReplyDelete
  19. آپ نے جس تحرير پر ميرے تبصرے کیبنياد پر مجھے بُرا ديا وہ تحرير ميرے ذہن ميں بھی نہ تھی ۔ اچھا ہوا کہ آپ نے تحرير کے مصنف کا نام لکھ ديا ۔ مجھے مصنف يعنی جعفر صاحب سے ہی مدد لينا پڑی کيونکہ وہ تحرير نہ ميں نے پہلے پڑھی تھی اور نہ اب تک پڑھی ہے ۔ دراصل ميں اپہلی چند سطروں ميں تحرير کا انداز ديکھ کر باقی تحرير پڑھتا ہوں ۔ يہ حقيقت ميرے دونوں تبصروں سے واضح تھی

    پہلا تبصرہ ۔ آپ نے نام پورا نہيں لکھا ۔ ان کا نام ہے ويران خان شاداب

    دوسرا تبصرہ ۔ ميں نے آپ کی يہ تحرير پڑھے بغير نام کی تصحيح کی تھی ۔ اب ہاف سنچری سے زيادہ تبصرے ديکھ کر خيال ہوا کہ تھوڑا سا پڑھ لوں مگر کچھ تبصروں پر نظر پڑ گئی اور تبصرے پڑھتے پڑھتے پٹرول ختم ہو گيا ۔

    اب مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ آپ ايسی تحارير کيوں لکھتے ہيں ۔ تبصروں کا ريکارڈ قائم کرنے کيلئے ۔ جب گنيس بُک والا معاملہ ہو جائے تو بتا ضرور ديجئے گا ۔ ويسے گھرانا نہيں چاہيئے کيونکہ کچھ لوگ تحرير کی بجائے اپنے خيالات پر
    تبصرہ کرتے ہيں اور کچھ چاہتے ہيں کہ دوسرے اُن کی تعريفيں لکھيں ۔ آپ نے تو بقول اُن کے تہذيب سے گری ہوئی تحرير لکھ دی ۔ ميں نے تو ہميشہ با ادب با ملاحظہ ہوشيار قسم کی تحرير لکھتا ہوں پھر بھی بہت کچھ سننا پڑتا ہے

    ميرے بر عکس آپ نے متذکرہ تحرير غور سے پڑھی اور اس پوسٹ پر کم از کم 7 بار گئيں اور تبصرے کئے جن کے فی تبصرہ اوسطالفاظ 200 ہيں ۔

    آپ کا نظريہ ہے کہ جو آپ کی تعريف کرے وہ دوسروں کو گندھی گالی بھی دے تو جائز ہوتی يا جو اُسے گندھی گالی دے جسے آپ پسند نہيں کرتيں وہ بھی جائز ہوتی ہے ۔

    جسے آپ اچھا نہ سمجھيں يا جو آپ کے ساتھ اختلاف کرے اُسے آپ جگہ جگہ بلاجواز بدنام کرتی پھريں وہ بھی جائز مگر جو آپ کو پسند نہ ہو اُس کی سادہ سی بات بھی آپ کيلئے گالی بن جاتی ہے

    آپ ميرے خلاف جتنا چاہے معاندانہ پروپيگنڈہ کر ليجئے آپ کو اس کا کوئی فائدہ نہ ہو گا کہ آپ کی اس مہربانی کی وجہ سے سمجھدار لوگ ميرا بلاگ اور ميرے تبصرے پڑھتے ہيں ۔وہ ميری بجائے آپ کو بُرا سمجھيں گے سوائے اُن تين چار لوگوں کے جن کے گندھی اور بداخلاقی سے بھرپور تبصرے آپ کے بلاگ کی زينت ہيں

    ميری آپ کيلئے يہی دعا ہے کہ اللہ آپ کو سيدھی راہ دکھائے اور آپ بے بنياد بہتان تراشياں چھوڑ کر اپنی تعليم کے مطابق رويہ اختيار کريں

    ReplyDelete
  20. This comment has been removed by a blog administrator.

    ReplyDelete
  21. افتخار اجمل صاحب، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ میں آپکو کیوں نا پسند کرتی ہوں۔ کیونکہ سوائے بلاگنگ کی دنیا کے میرا اور آپکا کبھی کہیں سامنا نہیں ہوا۔ میں آپکو صرف آپکی تحریروں کی وجہ سے جانتی ہوں یا پھر اس وجہ سے کہ ہر تھوڑے عرصے بعد آپ مجھ سے طعن و تشنیع کی باتیں فرمائیں۔ ایک زمانہ ہو گیا کہ میں نے آپکے بلاگ کے تبصروں میں حصہ لیا ہو۔
    آپکے خلاف پروپیگینڈے سے مجھے کیا دینی و دنیاوی فائدہ پہنچے گا۔ بلاگنگ کی مد سے جو مجھے آمدنی ہوتی ہے وہ اس سے کس طرح بڑھے گی۔اور آپکو جو آمدنی ملتی ہے اسکا رخ میں اپنی طرف کیسے موڑونگی۔
    میں اس معاملے کو طول نہیں دینا چہاتی۔ لیکن آپکا یہ عالم ہے کہ ہر وہ شخص جو اشارتاً بھی مجھے نشانہ بنائے آپ اسکی حوصلہ افزائ فرض کفایہ سمجھتے ہیں۔
    آج تک میں نے کبھی آپکی طرف سے ایسا کوئ بیان نہیں پڑھا جس میں آپ نے اپنے جونیئر لوگوں کو تمیزداری کے اسباق دئیے ہوں البتہ وہ تقریریں جو آپ نے مجھے راہ راست پہ ڈالنے کے لئے لکھیں ان سے ایک زمانہ آشنا ہے۔
    افتخار صاحب، بہتر یہ ہے کہ آپ اپنا کام کریں اور میں اپنا۔ اردو بلاگستان سے پہلے بھی میرا سرسری سا تعلق تھا۔ میں نے اسے اپنے بلاگ کی بقاء کے لئے بالکل ضروری نہیں سمجھا اور اب یہ سرسری تعلق بھی اپنی آخری حدوں پہ ہے۔ اب آپ اس طرح کی باتیں دوہرانا چھوڑ دیں کہ کون لوگ میرا بلاگ پڑھتے ہیں اور کون آپکا۔
    اگر آپکی تسلی اس بات سے ہوجائے تو میں یہ چاہونگی کہ جو لوگ آپکا بلاگ پڑھتے ہیں وہ میرا قطعی نہ پڑھیں۔ اور نہ یہاں تبصرہ کریں۔ ویسے بھی میں اور آپ دو مختلف پول کے لوگ ہیں اور لازماً میرے اور آپکے قاری الگ ہونے چاہئیں۔
    یہ بات میں پہلے بھی بارہا کہہ چکی ہوں کہ میرا اور آپکا کوئ مقابلہ نہ کبھی تھا اور نہ ہے۔ اسے اس سلسلے میں میرا آخری بیان سمجھا جائے۔
    یہ میرا بلاگ ہے اور یہ میرا حق ہے کہ میں جیسا مناسب سمجھوں اسے چلاءوں۔
    http://www.mypakistan.com/?p=4171#comments
    یہ ایک لنک ہے اس پہ جا کر دیکھیں کہ کتنے ستھرے تبصرے ہوئے ہیں۔ ان پہ آپ نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ میرے اوپر آپکی اور دیگر لوگوں کی یہ مہربانی کیوں ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ابھی لنک دینے بیٹھوں تو ایک لائن لگ جائے۔ لیکن آپ نے اور دیگر لوگوں نے یہ درجہ بندی کن بنیادوں پہ کی ہے۔ اسکے اسٹینڈرڈ کو آپ ہی جانتے ہونگے۔
    ہم سب کا خدا تو ایک ہی ہے۔ اب اسی خدا سے میں کیا یہ کہوں کہ خدا آپکو سیدھی راہ دکھائے اور آپ نے سروپا بہتان تراشی چھوڑ کر اپنی عمر کے مطابق رویہ اختیار کریں۔
    میرا خیال ہے اس خدا کو ان بے بنیاد مسائل سے دلچسپی نہیں ہے ورنہ ہم میں سے کوئ ایک راہ راست پہ ضرور آ چکا ہوتا۔

    ReplyDelete
  22. مسئلہ یہ ہے کہ اسماء کو تو کھڈے لائن لگادیا گیا ہے اب آپ بچی ہیں لوگوں کو آئینہ دکھانے والی توصورت تو ہمیں بدلنی نہیں دوسروں کی صورت بدلنے سے فرصت جو نہیں اس لیئے اب آپ تیار ہوجائیں آپکی باری ہے!!!

    ReplyDelete
  23. میری باری،،،،،،،، دیکھتے ہیں۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ