Thursday, July 22, 2010

خود کشی اور دور جدید

ایک دانا کا کہنا ہے کہ خودکشی انسان کا خدا کو جواب ہے کہ آپ مجھے نہیں نکال سکتے، میں خود نکل رہا ہوں۔ آسان زبان میں ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے کا نعرہ لگائیں، ایک خود کشی نوٹ چھوڑیں کہ پیچھے رہ جانے والوں کو آسانی ہو اور میں نہیں کھیل رہا کہہ کر باہر۔
اسی طرح خود کشی کو عارضی مسائل کا مستقل حل کہا جاتا ہے۔ کچھ تخلیق کار بھی اپنے عروج کے دور میں خود کشی کر لیتے ہیں، انہیں شبہ ہوتا ہے کہ وہ اس سے بہتر تخلیق نہ دیں پائیں گے, تو کیوں نہ خود کشی کر لیں۔ شاید اس لئے گانا بنا کہ آ خوشی سے خود کشی کرلیں۔ کچھ جسمانی طور پہ ہمیشہ کے لئے تخلیق کے کرب سے نجات پا لیتے ہیں  اور کچھ تخلیقی طور پہ خود کشی کر کے اپنے آپ کو اس مقام تک لے جاتے ہیں جہاں ان پہ دوسروں کو رحم آنے لگتا ہے۔ کچھ ذی حس اس لئے خود کشی کرنے پہ آمادہ ہوجاتے ہیں کہ ہائے میں نے تو ویسے بھی خود کو ختم کر دیا ہے، اب جسمانی رسم بھی پوری کئے لیتے ہیں۔ 
یہ تحریر ان خودکشیوں کے متعلق نہیں،  جو کوڑے کے ڈھیر سے کھانا اٹھا کر کھانے کی ہمت نہ پیدا ہونے کی وجہ سے کی جاتی ہیں کہ مرنے والے کو آخری وقت تک اپنے انسان ہونے کا یقین ہوتا ہے۔ اور نہ ان کے متعلق جو  حیات ابدی کی خوشی کے یقین اور بھروسے پہ جدید ٹیکنیکل سہولیات سے مستفید ہوتے ہوئے اپنے ساتھ کئ لوگوں کو بالجبر حیات بعد الموت میں اپنا ہم سفر چن لیتے ہیں۔ اس پہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اور ابھی لکھنے والے بہت کچھ  لکھیں گے۔
کچھ تہذیبیں آپ اپنے خنجر سے خود کشی کر لیتی ہیں یہ الگ بات کے دم آخر بھی یہ خنجر انہیں دوسری تہذیب  کےہاتھ میں نظر آتا ہے اور وہ اسے قتل عمد میں ڈال کر وقت رخصت کے ساتھیوں کو اسکا بدلہ لینے کی نصیحت بلکہ وصیت کرتے ہیں۔ یوں نصیحت اور وصیت کا یہ سلسلہ کئ سو سالوں تک کامیابی سے چل سکتا ہے ۔ ساتھی ایسی نصیحتوں پہ دل و جان سے عمل کرتے ہوئے کیوں اس شمع کو اپنی پوری توانائیوں سے  جلائے رکھتے ہیں یہ ایک معمہ ہے۔ ایسے معموں کو سلجھانے میں نفسیات داں ہی مدد کر سکتے ہیں۔
مجھے تو سارا قصور اس میں خنجر کا ہی نظر آتا ہے کہ نہ ہوتا اور نہ اتنے خیالات فاسدہ ذہن میں آتے۔ اب آپ میں سے کوئ اس مِیں جدید تہذیب کا ہاتھ بتائے تو یقیناً وہ صحیح ہوگا۔ یہ جدید تہذیب وہ شاطر ہے جو مختلف تہذیبوں کو وقفے وقفے سے ایکدوسرے کے سامنے کھڑا کر رہی ہے۔
کچھ نا آسودہ خواہشات بھی اسکا باعث ہوتی ہیں۔ مثلاً جب دوسری تہذیبیں ہاتھ میں خنجر رکھنے اور  مسلسل بد دعاءووں کے باوجود  اس سے خود خود کشی نہیں کرتیں  تو تنگ آکر اس خنجر کو کارآمد بنانے کے لئے اس خنجر کو بد دعا دینے والا ہی استعمال کر لیتا ہے۔  اس دوسری تہذیب سے اس خنجر کی چھین جھپٹ ایک الگ داستان ہے۔ نفسیات داں اسے فرسٹریشن کہتے ہیں۔ اور غالب کہتے ہیں کہ
جب دیکھا کہ وہ ملتا نہیں
اپنے ہی کو کھو آئے
کبھی کبھی، کسی خودکشی کا انداز عوام الناس کو اتنا بھاتا ہے کہ یکے بعد دیگرے اس طرح سے خودکشی کرنے کے واقعات سامنے آجاتے ہیں۔ اسے کاپی کیٹ سوسائیڈ  بھی کہتے ہیں جس پہ وردر اثر ہوتا ہے۔ اس میں لوگ خودکشی کرنے والے کے ماحول اور حالات سے اپنی یکسانیت دیکھتے ہیں، پسند آیا کہتے ہیں اور عدم کے سفر پہ روانہ ہو جاتے ہیں۔
اب صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ خودکشی کرنے کی جلدی کیا ہے یہ کام  کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے اور امکان غالب یہ ہے کہ جب بھی کریں گے کامیابی قدم چومے گی کہ ایک دفعہ یہ سوچ لیا جائے کہ یہ ہم کر سکتے ہیں تو آدھی فتح تو ویسے بھی حاصل ہو جاتی ہے۔  اس وقت تک  ایک مناسب آلہ ء خود کشی دریافت کریں۔
مناسب آلہ ء خود کشی  مرنے کے بعد کسی شخصیت کا مکمل اظہار ہوتا ہے ۔ اگرچہ تحقیق داں اسکا تعلق معیشت سے بھی جوڑتے ہیں۔ اور بزبان شاعر کہلواتے ہیں کہ
غریب شہر تو فاقوں سے مر گیا عارف
امیر شہر نے ہیرے سے خود کشی کر لی
 فی الوقت جو آلات میسر ہیں ان میں سر فہرست خودکار بم کہ بعد از مرگ حیات میں بھی کٹ لگانے والوں کی ایک تعداد ساتھ ہی ساتھ روانہ ہوگی یوں عقابی روح، آسمانوں میں بعد از مرگ بھی مصروف بہ عمل رہے گی، اپنا خنجر، دوسروں کی تہذیب،یا اپنی تہذیب دوسروں کا خنجر اگر پوری قوم ایک ساتھ خودکشی کرنا چاہ رہی ہو تو انتہائ مناسب، کیڑے مار ادویات ، ٹرین کے آگے یا پل پر سے دریا یا سمندر میں چھلانگ لگا دینا یہ بچوں کے ساتھ خاندانی  طور پہ خودکشی کرنے کے لئے کافی آزمودہ ہے حکومت اسکی ترویج کے لئے مناسب انتظامات بھی کر رہی ہے، اس لئے کم سے کم مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا، ہیرے وغیرہ سے خود کشی کرنا آسان نہیں کہ ہیرے کے حصول سے پہلے کئ بار مرنا پڑے گا۔

یہ موضوع ذہن میں تھا کہ  میں ایکدن ادارہ ء معارف اسلامی جا پہنچی۔ مقصد تو کچھ اور تھا۔ مگر برآمدے میں ایک میز پہ کچھ کتابوں کے ساتھ پچاس فی صد سیل کا بورڈ نظر آیا۔  کسی بھی چیز پہ سیل کا بورڈ، مجھ جیسوں کو صراط مستقیم سے ہٹا سکتا ہے۔ سو اگلے لمحے میں وہاں اپنے آپکو کچھ کتابوں کی خریداری کے لئے راضی کرتی ہوئ پائ گئ۔ سیل سے کچھ نہ لینا نعمت سے انکار ہے۔  میں منکروں میں سے نہیں۔ اور پچاس فی صد سیل پہ شکر گذاروں میں بآسانی شامل ہوا جا سکتا ہے۔
کچھ کتابیں ہاتھ لگیں ان میں  پچپن صفحوں کی ایک کتاب خود کشی کے موضوع پہ ملی۔ میں نے اسے فوراً لے لیا۔  گھر آکر پڑھا تو پتہ چلا کہ 'خود کشی اور دور جدید'، جناب راشد نسیم نے لکھی ہے۔ یہ مضمون پہلے پہل فرائیڈے اسپیشل میں تین اقساط میں شائع ہوا اور پذیرائ ملنے کی وجہ سے انیس سو ننانوے میں کتاب کی شکل میں چھاپ دیا گیا۔ اسکا دیباچہ جناب منور حسن موجودہ امیر جماعت اسلامی نے لکھا ہے۔
یہاں اسکے دو صفحات کا عکس حاضر ہے۔  یہاں آپ خود اندازہ لگائیں کہ تجزیہ اور نتائج کس طرح مرتب کئے جاتے ہیں۔ اور پھر انکی نظریاتی ترویج کیسے کی جاتی ہے۔


نوٹ؛  تصویر کو واضح دیکھنے کے لئے اس پہ کلک کریں۔

29 comments:

  1. میرے خیال سے تو درج بالا صفحہ میں کافی درست ہیں، اس میں آپکو کون سی نامعقولیت نظر آگئی۔ میرے خیال سے آپکا مضمون واضع نہیں اور آپکی تحریر کا اتار چڑھاو سمجھ میں نہیں آرہا۔

    ReplyDelete
  2. اس کتاب کا مصنف جس کا اقتباس آپ نے دکھایا ہے ایک انتہائی سطحی اور مذتذب شخصیت کا مالک معلوم ہوتا ہے. ناصرف یہ کہ دے گئے "دلائل" انتہائی بودے ہیں بلکہ مصنف خود ہی اپنی بات کو گڑبڑاتا دکھائی دیتا ہے.
    خود کشی سے یاد آیا کہ ہمارے بلاگستان میں بھی کسی نے تنگ آکر بلاگنگ سے خودکشی کی ہے.

    ReplyDelete
  3. میرے خیال سے تو درج بالا صفحہ میں دی گئی معلومات کافی درست ہیں، اس میں آپکو کون سی نامعقولیت نظر آگئی۔ آپکا مضمون واضع نہیں اور آپکی تحریر کا اتار چڑھاو سمجھ میں نہیں آرہا، البتہ آپکا انداز بیان خوبصورت ہے اور ابتدا بھی بہت متاثر کن ہے۔ بات جو کام کی ہے وہ یہ کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایسا شخص جس کا خدا پر یقین کم ہو یا نہ ہو کے پاس مایوسی کے عالم میں خودکشی کے علاوہ کچھ نہیں رہتا۔

    آج کل خودکشی کے ساتھ خودکش حملے بھی بہت پاپولر ہیں۔ اس کے کچھ اسباب پر بھی قلم اٹھائیں۔ ایک خودکش حملہ آور کی ذہنی حالت کا جائزہ لیں۔ شاید آپ کرسکتی ہیں۔

    ReplyDelete
  4. This comment has been removed by a blog administrator.

    ReplyDelete
  5. مذکورہ شعر عارف شفیق ہے کا اور ناصر کی جگہ عارف تخلص ہے شعر میں

    غریبِ شہر تو فاقوں سے مر گیا عارف
    امیرِ شہر نے ہیرے سے خود کشی کر لی

    والسلام

    ReplyDelete
  6. مولوی صاحب، خدارا ایسی زبان تو نہ استعمال کریں۔۔۔تنقید اور اختلاف رائے شائستگی سے بھی ہو سکتا ہے۔

    ReplyDelete
  7. مزید یہ کہ عارف تخلص کی وجہ سے کچھ لوگ اسے مشہور شاعر افتخار عارف کا شعر سمجھتے ہیں لیکن یہ لازوال شعر ایک گمنام شاعر عارف شفیق کا ہے۔

    ReplyDelete
  8. شعر بہت خوب اور باموقع ہے۔

    ReplyDelete
  9. پہلے تو مولوی صاحب کو تبصروں سے باہر نکال پھینکئے۔
    دو صفحاتی پرزے کو بار بار پڑھا۔
    بے شک تحریر میں گہرائی اور کاٹ نہیں ھے۔
    لیکن سیکولر ازم کی مخالفت واضع ھے۔
    میرے خیال میں بھی غریب بھوکا ننگا رہ کر گذارہ کر لیتا ھے۔خود کشی نہیں کرتا کہ غریب کو اللہ زیادہ یاد آتا ھے۔
    جیسے جیسے خواہشات میں اضافہ ھوتا ھے۔ اعصابی اور زہنی دباو بڑھتا جاتا ھے۔
    خواھشات پوری نہ ھونے سے دنیا اور جینا برا لگتا ھے۔اور نتیجہ یہی ھوتا ھے جو آپ کا موضوع ھے۔
    موضوع اگر جماعت اسلامی یا سیکولرازم ھے تو۔۔۔۔۔۔۔کیا کہہ سکتے ہیں جی۔
    ہمیں تو ویسے ہی تمام سیاستدان(غنڈے بد معاش بہتہ خور دین فروش مولوی وغیرہ) اور جماعتیں زہر لگتی ہیں۔سیکولر ازم کو بہت قریب سے دیکھ رھے ہیں۔ سب ٹھیک ھے جی۔

    ReplyDelete
  10. مولوی کے نام سے کسی نے بیہودہ تبصرہ کیا ہے، اسے نکال باہر کیا جائے

    ReplyDelete
  11. وارث صاحب آپکا بے حد شکریہ، مجھے بھی شبہ ہو رہا تھا کہ یہ انکا نہیں ہے۔
    باقی سب کے لئے، اسکا موضوع تو ظاہر ہے کہ خود کشی ہی ہے۔ لیکن اگر سیکولرائزیشن اسکی وجہ ہوتی تو غریب شہر نہیں امیر شہر بھی خود کشی کرتا۔ مگر پاکستان میں ہم یہ نہیں دیکھتے۔
    مغربی مالک کی خود کشی کی وجوہات کے اسباب بھی خاصے مختلف ہیں۔ اور ہمارے یہاں ان سے بالکل الگ۔
    تو آپکو یہ بات صحیح لگی کہ پنجاب میں سب سے زیادہ سیکولرائزیشن ہے اس لئے وہاں خود کشی ہوتی ہے۔
    یا کراچی میں زیادہ ہوتی ہے۔
    دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ غریبوں کی شرح زیادہ ہے۔ اللہ پرستی غریبوں کے یہاں زیادہ ہوتی ہے بہ نشبت امیروں کے پھر وہ خود کشی کیوں کرتے ہیں۔
    اس کتاب میں واقعات کا رخ ایک خاص نتیجے کی طرف موڑا گیا۔ جو ڈیتا دئیے گئے انکی کوئ بھی بنیاد نہیں بتائ گئ کہ کہاں سے حاصل کئے گئے ہیں۔
    صوبہ ء سرحد میں کیا واقعی کوئ خود کشی نہیں کرتا یا وہاں سے رپورٹ نہیں کی جاتیں۔ کیا صوبہ سرحد ڈش کلچر سے اتنا ہی پاک ہے جتنا مصنف نے بتایا۔
    اس سے پہلے بھی ایک دفعہ میں منعقد کئے جانے والے پولز پہ ریسرچ کر رہی تھی۔ اتفاقاً مجھے جماعت کا ایک پول پبلش حالت میں ملا جو پاکستان میں خواتین کی حالت سے متعلق تھا۔ میں نے اپنی جماعتی دوست سے اس پہ بحث کی کہ حقائق کو انتہائ توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے محض یہ ثابت کرنے کے لئے کہ کیونکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اس لئے یہاں یہ جرائم ہونے کا تصور بہت کم ہے۔
    ابھی میرے پاس دو پی ایچ ڈی کے تھیسس پڑے ہیں جو پاکستان کی تعلیمی حالت سے متعلق ہیں۔ اب اس میں میرا کیا قصور اگر تھیسس لکھنے والے اس میں جماعت کا تذکرہ لے آئیں۔ حالانکہ میں نے ان تھیسسز کو محض یہ دیکھنے کے لئے اٹھایا کہ ملک کی مایہناز یونیورسٹی کے اس وقت کے پی ایچ ڈی کے لئے تیار یونے والوں نے اس میں کیا لکھا ہے۔
    آپ سب یہ بتائیں کہ پاکستان میں ہونے والی حالیہ خود کشی کے واقعات کے تسلسل کو کیا آپ ان صفحات کے تناظر میں دیکھتے ہیں یا آپ سمجھتے ہیں کہ اسکی وجوہات کچھ اور بھی ہیں۔ اسی طرح کیا زہر پی کر خود کشی کرنے والے اور بم کے ذریعے کود کو اڑانے والے کیا ایک ہی سوچ رکھتے ہیں یا الگ الگ۔

    ReplyDelete
  12. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    آجکل اخبارات میں خودکشی کی خبریں عام ملتی ہیں۔اوررہی یہ بات کہ یہ پنجاب میں زیادہ یاسندھ میں زیادہ ہیں۔یہ توایسےہی کہ جسم کےکسی بھی حصہ میں دردہوہو چاہیےسرمیں ہویاہاتھ میں ہوتوآپ کیاکہیں گےیہ علیحدہ ہےنہیں پاکستان تمام شہروں کاتمام صوبوں کواکٹھاکرتےہیں توپاکستان بنتاہے۔اورخودکشی کےرحجان میں زیادہ ترقی پسندی ہی آتی ہےکیونکہ پہلےزمانےمیں انسان میں احساس تھالیکن وہ اب ناپیدہوگیاہےکیونکہ ہمارےپاس کسی کےکئےوقت نہیں پہلےلوگ اکٹھےبیٹھتےایکدوسرےکےدکھ دردمیں شامل ہوتےتوٹیشن جوکہ خودکشی کےدماغ میں ہوتی ہےختمہوجاتی آپ پہلےزمانہ کی نسبت آج یہ خودکشیاں زیادہ دین کی دوری اورآپس میں احساس کےختم کی وجہ سی ہی ہیں۔

    بہن
    والسلام
    جاویداقبال

    ReplyDelete
  13. سماجی عدم مساوات محض امیری اور غریبی تک محدود نہیں۔ امیر بھی عدم مساوات کا شکار ہوتے ہیں۔

    ایسے سماج جہاں سب کے سب غریب ہوں اور زندگی کی جدوجہد اور اپنی بقا کی جنگ ایک ہی طرح کے ایڈوانٹیجز اور ڈس ایڈوانٹیجز کے ساتھ لڑ رہے ہوں وہاں خود کشی کا تناسب یقینا کم ہونا چاہئے۔ چونکہ منفی ہی صحیح یہ ایک طرح کی مساوات ہے۔

    ReplyDelete
  14. کچھ ذکر اسکین شدہ صفحات کا:

    سعودی عرب کی آبادی محض دو کروڑ چھیالیس لاکھ ہے۔ اور پاکستان کی آبادی اٹھارہ کروڑ۔

    اسی طرح صوبہ سرحد کے انتہائی دور افتادہ اور قبائلی علاقہ جات کی آبادی لاہور اور اس کے گرد و نواح کی آبادی کے مقابلے میں بہت بہت کم ہے۔ چونکہ یہ علاقے دورافتادہ ہیں اور وہاں تو جرائم رپورٹ ہی نہیں ہوتے تو خودکشیاں کیونکر رپورٹ ہونگی؟ اور کس کو رپورٹ ہونگی؟

    دوسرا یہ علاقہ جات پاکستان کے سب سے پسماندہ علاقہ جات نہیں ہیں۔ صوبہ بلوچستان کے قبائلی علاقہ جات اور سندھ کے صحرائی علاقے ان علاقوں سے کہیں زیادہ پسماندہ ہیں۔ وہاں بھی ڈش اور کیبل عام نہیں ہے۔ اور ان علاقوں میں لوگ مذہب سے بہت دور ہیں اور اتنے شدید مذہبی رجحانات نہیں رکھتے اس کے باوجود وہاں خودکشیاں اسقدر عام نہیں۔ بلکہ سندھ کے صحرائی علاقوں میں تو کافی آبادی ہندو ہے۔

    لیکن جیسا میں نے اوپر لکھا کہ ان علاقوں میں ایک طرح کی مساوات پائی جاتی ہے۔ یعنی سب برابر کے غریب اور ایک جیسی مشکلات سے دوچار ہیں۔

    اس کے برعکس زیادہ گنجان آباد اور خوشحال علاقوں میں لوگ زیادہ عدم مساوات اور مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔

    ReplyDelete
  15. کل رات وقت کی کمی کی وجہ سے جامع جواب نہیں دے پایا. نیز میرا یہ خیال تھا کہ قارئین باآسانی دیے گئے اقتباس کی کمزوری دیکھ سکیں گے. لیکن معلوم ہوتا ہے کہ قارئین کی اکثریت میری رائے سے اختلاف رکھتی ہے اس لئے اپنی تنقید کچھ واضح کرنے کی سعی کر رہا ہوں.

    کتاب کے دائیں صفحے کو غور سے پڑھیں. مصنف آغاز میں اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اسے مسلمان ممالک میں خود کشی کے صحیح اعداد و شمار میسر نہیں. سوال یہ ہے کہ جب اعداد شمار میسر ہی نہیں تو صاحب نے ان غیر موجود اعداد شمار کی بنیاد پر نتیجہ کیسے اخز کرلیا؟ یہ کیسے ثابت کردیا کہ اسلامی ممالک میں خود کشی کی شرح غیر اسلامی ممالک سے کم ہے؟ کیا اعداد شمار کیا غائب ہونا الٹا ان مسلم ممالک کی حکومتوں پر معنی خیز انگلی نہیں اٹھاتا؟

    اب آئیے کتاب کے بائیں طرف...
    ًًمصنف یہ نتیجہ اخز کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ خودکشی کی بنیادی وجہ سیکولر معاشرہ ہے. سیکولر معاشرہ کی تعریف یہ ہے کہ جہاں دین لوگوں کی ذاتی زندگی تک محدود ہے. اور ریاست نظام حکومت چلاتے نیز قانون سازی کرتے ہوئے مذہب کا اخلاط نہ کرے. یعنی ایک سیکولر معاشرہ ایک فرد کو دین سے دور نہیں کرتا. صرف ریاست کو مذہب اور معاشرے میں مذہب کے اخلاط سے روکتا ہے. ایک دین دار شخص سیکولر یا غیرسیکولر دونوں ہی طرز کے معاشرے میں دین دار ہے. اب اگر کوئی خود کشی کرے تو انگلی سیکولرازم پر کیسے آگئی؟

    خود کشی کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟
    کیا لوگ سماجی اور معاشرتی محرومیوں کی وجہ سے خود کشیاں کرتے ہیں یا محض مذہیی اعتقادات کے ایک مخصوص نہج پر ہونے یا نہ ہونے کی وجہ سے؟
    غربت کا ہونا یا کوئی اور سماجی و معاشرتی پریشانی تو ایک طبعی وجہ ہے. مذہبی اعتقاد ایک غیر طبعی عنصر ہے.
    مذہیبی اعتقاد کی کمزوری ایک جزوی وجہ تو ہوسکتی ہے. پریشان شخص کے خیالات پر جلتی پر تیل کا کام تو کرسکتی ہے. لیکن خودکشی کی بنیادی وجہ ہرگز نہیں ہوسکتی. ورنہ امیر غریب خوش یا ناخوش ، معاشرے کے ہر شخص میں خود کشی کا یکساں رحجان ہوتا. لیکن پھر صرف غریب لوگ ہی خاندانوں سمیت خودکشیاں کیوں کر رہے ہیں. اور وہ بھی ایک اسلامی ملک میںِ؟؟

    ایک اہم سوال....
    اگر ایک شخص خود کشی کرتا ہے. تو آپ کیسے ثابت کریں گے کہ خود کشی کرنے والا ایک کمزور مذہیب اعتقاد کا حامل شخص تھا؟ یا کہ آپ کیسے ثابت کریں گے کہ ایک خوش باش شخص مظبوط مزہیبی تشخص کا حامل ہے؟
    سوائے اسکے کہ آپ فرض کر لیں کہ ہر خود کشی کرنے والا ایک کمزور مذہبی اعتقاد کا حامل ہے. لیکن یہ تو نتیجے سے "دلیل" اخز کرنے والے بات ہوئی.

    کیا خیال ہے؟

    ReplyDelete
  16. This comment has been removed by a blog administrator.

    ReplyDelete
  17. This comment has been removed by a blog administrator.

    ReplyDelete
  18. نومان، میں آپکی اس رائے سے اتفاق کرتی ہوں۔ کافی عرصے پہلے میں نے اشفاق احمد کا ایک ڈرامہ دیکھا جس کا نام تھا شاید فہمیدہ کی کہانی۔ اسکا مرکزی پلاٹ اسی چیز کے پیچھے گھومتا ہے کہ وہ ایک دولت مند گھرانے کی ملازمہ ہے لیکن خود بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم۔ اور ایکدن اسی سماجی تفرقے کے بوجھ سے وہ خود کشی کر لیتی ہے۔
    عرب ریاستوں میں معاشی حالات خاصے یکساں ہیں ، جبکہ ایران میں ایسا نہیں ہے اور پاکستان میں یہ اس سے بدتر ہے اور سیاسی نظام اس طرح چل رہا ہے کہ یہ عدم مساوات بڑھے چلا جا رہا ہے۔ جب مصنف لاہور اور کراچی کی مثال دیتا ہے تو یہ بھول جاتا ہے کہ یہ دونوں پاکستان کے بڑے شہروں میں آتے ہیں اور عالم یہ ہے کہ اسی شہر کے اندر ایک شخص پورے مہینے کی شدید محنت کے بعد جب دو سے تین ہزار روپے کمانے کے قابل ہوتا ہے تو وہاں شہر کے اعلی ہوٹلوں میں کسی شخص کا ایک وقت کا کھانا اتنے میں آتا ہے۔ جہاں ایک انسان ساری زندگی دوسروں کی اترن پہن کر گذار دیتا ہے وہاں ایک معمولی کرتے کی قیمت پانچ ہزار سے کم نہیں ہوتی۔
    کیا انسانوں کے پیدا کردہ اس سماجی ناانصافی پہ ایک غریب شخص اللہ پرستی دکھاتے ہوئے احتجاج کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ کیا یہ چیز اسے مایوس نہیں کرتی کہ وہ اپنے بچے کو ایک وقت کا کھانا دینے کے قابل نہیں اور اسی کے سامنے لوگ کھانا ضائع کر کے پھینک دیتے ہیں۔

    پکارتا رہا کس کس کو ڈوبنے والا
    خدا تھے
    اتنے مگر کوئ آڑے آ نہ گیا
    ایک ایسے ماحول میں جہاں سب ایک جیسے حالات سے گذر رہے ہوں وہاں مایوسی کے بجائے حالات سے لڑنے کی قوت بہرحال رہتی ہے ۔
    پاکستان کے پسماندہ علاقوں کا حال یہ ہے کہ ایک کمرے میں پندرہ لوگ رہتے ہیں جن میں دو جوڑے شادی شدہ بھی ہوتے ہیں چار پانچ بچے بھی اور دیگر رشتے دار بھی۔ اسی کمرے میں ایک خاتون بچے کی پیدائش کے عمل سے بھی گذرتی ہے۔ ایسی حیوانی سطح کی زندگی گذارنے والے جو اپنے انسان ہونے سے آگاہ نہیں وہ تو سمجحتے ہیں کہ زندگی بس اسی کا نام ہے۔ جو شاید صحیح طور پہ خدا سے بھی واقف نہیں۔ اسکے بر عکس وہ لوگ جو شہروں میں رہتے ہیں وہ اپنے ہونے کا شعور رکھتے ہیں اور اپنے چہار اطراف پھیلی نا ہمواریوں کا بھی، وہ حیوانوں جیسی اس بے حسی کی زندگی نہیں گذارتے بلکہ اپنے احساس کی دوزخ میں جلتے رہتے ہیں۔
    آپکا یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں بھی ڈش اور سیٹیلائیٹ میسر ہے۔
    تو میں اس تجزئیے کو اصل حقائق سے چشم پوشی کر کے اپنے نظرئیے کی ترویج کو ترجیح دینے کا عمل سمجھتی ہوں۔
    کیا یہ رویہ مسائل کے حل کی طرف جاتا ہے یا انہیں محض ایک ایشو رکھنے میں مددگار ہوتا ہے۔
    کیا پسماندہ علاقوں کے مقابلے میں شہروں میں بنیادی ضروریات زندگی کا میسر ہونا سیکولیرائزیشن کے عمل میں آتا ہے، کیا ڈش اور سٹیلائیٹ کا میسر ہونا سیکولرائیزیشن ہے یا جدید ترقی کی سوغات۔
    کیا کسی شخص کو بھوکا رکھ کر اسکے سامنے اپنے گھوڑے کو سیب کا مربہ کھلانے کے بعد اس سے یہ توقع رکھنی چاہئیے کہ وہ اللہ پرستی کرتا رہے گا؟

    ReplyDelete
  19. This comment has been removed by a blog administrator.

    ReplyDelete
  20. This comment has been removed by a blog administrator.

    ReplyDelete
  21. This comment has been removed by a blog administrator.

    ReplyDelete
  22. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  23. This comment has been removed by a blog administrator.

    ReplyDelete
  24. اگر تو وہ اللہ پرست ہے تو اللہ پرستی کرتا رہے گا، حالات اور واقعات سے بلکل قطہ نظر ہوکر اور اگر اللہ پرست نہیں ہے تو حالات چاہے جتنے بھی موضوع ہوں وہ اللہ پرستی سے باز رہے گا، نفس کو پوجے گا اور شیطان کو سجدہ کرے گا.

    یہ تو سیدھی سادھی بات ہے کہ اگر کسی کا عقیدہ راسخ ہے تو خود کشی نہیں کرے گا چاہے وہ کہیں بھی اور کسی بھی حال میں ہو.

    ReplyDelete
  25. عبداللہ صاحب آپکا غم واقعی قابل غور ہے۔ آپکو چاہئے کہ اپنے خیالات کے اظہار کے لئے اس ایک بلاگ بنالیں وہاں سے آُپکے تحریر شدہ خیالات کوئی نہیں مٹائے گا۔

    ٹارگیٹ کلنک میں ایم کیو ایم اور اے این پی دونوں ملوث ہیں۔ اب صف ایم کیو ایم کو لعنت ملامت کرنا درست نہیں، شاہی سید بھی کم بدمعاش نہیں۔ اگر برا کہنا ہے تو سارے برے کو برا کہو، صرف تعصب کی بنیاد پر کسی کو برا کہنا درست نہیں۔

    ReplyDelete
  26. عثمان صاحب کا تبصرہ قابل غور ہے۔ خودکشی کی بنیادی وجہ سیکولرزم کو بتانا ، اپنا یکطرفہ نظریہ پیش کرنا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان جو سیکولرزم کے سائے میں زندہ ہیں ، چاہئے تھا کہ ہم ہندوستانی مسلمانوں کے ہاں خودکشی کی شرح زیادہ ہوتی۔ جبکہ ایسا ہے نہیں۔
    ہندوستان میں خودکشی کی وجوہات پر ایک دلچسپ اور قابل مطالعہ تجزیہ یہاں پڑھا جا سکتا ہے
    http://nitawriter.wordpress.com/2007/05/14/why-indians-commit-suicide

    ReplyDelete
  27. کاشف نصیر صاحب، خودکشی کی وجوہات کو اس طرح مذہب سے جوڑنا کہ جو اللہ پرست ہے وہ خودکشی نہیں کرے گا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک دفعہ جنید جمشید نے کہہ دیا کہ غربت سے تنگ آ کر ہاتھ نہیں پھیلانا چاہئیں بلکہ انتظار کرنا چاہئیے جو شخص تین دن تک فاقے کو برداشت کرے خدا اسے سال بھر کے رزق کی فراوانی دیتا ہے۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوتا اور نہ ہوگا۔ اسکا یہ مطلب نہیں کہ اللہ پہ میرا یقین نہیں بلکہ اسکا ایک اور سادہ سا مطلب یہ ہے کہ انسان کو وہی کچھ نلتا ہے جسکی وہ کوشش کرتا ہے۔ انفرادی سطح پہ یہ بات بھی ظلط ہوتی دکھائ دیتی ہے۔ انسان کو اکثر وہ نہیں ملتا جسکی وہ کوشش کرتا ہے۔
    یہاں سے اللہ پرستی کا مطلب سمجھنے میں ایک عجیب صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ کیا اللہ رستی یہ ہے کہ ہم حالات کے سامنے سپر ڈالدیں کیونکہ بہر حال دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے خدا کی مرضی سے ہوتا ہے۔ ہم حالات کو بدلنے کی کوشش کریں، لیکن جب حالات کے اندر پورا سماج شامل ہوتا ہے تو محض ایک شخص کی کوشش سے کتنا فرق پڑ سکتا ہے۔ جب پورا معاشرہ اپنی خواہشوں کے حصار مین بھاگ رہا ہو تو وہاں اسکی پرواہ کون کرے گا۔ ایسی صورت میں لا محالہ یا تو سماج کو تبدیل ہونا ہوگا یا پھر وہ لوگ جو اتنے کمزور ہیں کہ اس میں تبدیلی لانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے وہ اسکے آگے شکست تسلیم کریں گے۔ اب اگر اس موقع پہ آپ سماجی نا انصافیوں کی جدو جہد کو عوامی بنانے کے بجائے ایک غریب اور کمزور شخص کو اللہ پرستی کی تعلیم دیتے ہیں تو آپ اسے نہ صرف سماج غاصب سمجھنے پہ مجبور کریں گے بلکہ اسے اس طرف دھکیلیں گے جہاں وہ یہ سوچنے پہ مجبور ہوگا کہ واقعی انسانوں کا کوئ خدا ہے جو انہیں لاچاری اور کمزوری میں طاقت دیتا ہے۔
    دین کو معاشرے میں اس طرح نافذ نہیں کرنا چاہئیے جہاں وہ امیروں کے لئے دنیاوی عیش و آرام کے ساتھ نجات کا باعث بنے اور غریب اپنے شکر کے ساتھ۔ یہ انسانی نفسیات کے ساتھ میل نہیں کھاتا۔ میں خود تو تین وقت مر بریانی کھاءووں اسکی نمائش بھی کروں اور ایک غریب اور مزور شخص سے کہوں کہ اگر اسے خدا پہ مکمل بھروسہ اور یقین ہے تو اسے یہ آئیڈیئل قسم کی چیزیں کرنی چاہئیں۔ اگر کوئ معاشرہ اس لیول پہ اللہ پرست نہیں بنتا، جہاں اس معاشرے میں رہنے والے ہر شخص کو بنیادی ضروریات زندگی حاص نہیں وہاں اس قسم کا دینی پرچار منفی اثرات تو لا سکتا ہے مثبت نہیں۔ شاید ہمارے بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے روئیے اور دہشت گردی کو سراہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو۔
    دوسرے یہ کہ ہم ہر معاشی یا معاشرتی مسئلے کے اندر کب تک مذہب کو تلاش کرتے رہیں گے۔
    آج ایک شخص، شدید ڈپریشن میں اپنے پورے خاندان کو ختم کر دیتا ہے۔ ایک عورت اپنے شوہر سے مسلسل پٹتے رہنے کے بعد ایک دن خود کشی کر لیتی ہے کہ نہ وہ اس سے طلاق حاص کر سکتی ہے، نہ وہ اتنی تعلیم یا ہنر رکھتی ہے کہ اسکے بغیر اپنی زندگی گذار لے۔ لیکن ہم مسائل کی اصل جڑ کو دیکھنے کے بجائے اٹھیں اور یہ کہہ دیں کہ ایسا اس وجہ سے ہوا کہ وہ مرد یا عورت کم اللہ پرست تھے۔ یہ تو وہی بات کہ مرے کو مارے شاہ مردار۔
    حیدر آبادی صاحب، آپکے لنک کا شکریہ۔ اگر پاکستان میں سیکولیرزم خود کشی کی وجہ ہوتا تو مذہبی جماعتوں کے بقول پاکستان میں سیکولر قوتیں ہمیشہ حاوی رہی ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ یہ پہلے اتنا نہیں تھا جتنا اب ہے۔ اور خود کش بمبار تو شدید دینی رجحان رکھتے ہیں پھر وہ کیوں خود کشی کرتے ہیں۔

    ReplyDelete
  28. عنیقہ صاحبہ، جو لوگ واقعی اللہ پرست ہوتے ہیں، وہ کیسے خودکشی کرسکتے ہیں۔

    ReplyDelete
  29. کاشف نصیر صاحب، یہ جو ہم خودکشی کی ابت کر رہے ہیں یہ عام انسانوں کی کر رہے ہیں۔ اگر اس ملک میں اسلامی نفاذ شریعہ ہو بھی جائے تو بھی آپ ایک عام انسان کو کسی صوفی یا عالم کی سطح کا مسلمان نہیں بنا سکتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی کے مسائل کا حل بھی چاہتے ہیں خاص طور پہ وہ مسائل جو معاشرتی نا انصافی کے نتیجے میں جنم لیتے ہیں۔
    اب، آپ بتائیے۔ کیا کسی معاشرے میں معاشی یا معاشرتی نا ہمواریاں تو موجود ہوں مگر آپ اس میں کمزور طبقے کو اللہ پہ یقین اور بھروسے کا کہتے رہیں۔ اور اگر وہ ایسا نہ کریں جو کہ عین انسانی عمل ہے تو آپ یہ کہہ دیں کہ وہ اللہ پرست نہیں یہ کہاں تک صحیح طرز عمل ہے۔ اللہ پرست تو وہ امیر بھی نہیں جو اپنی عیاشی کے سامان تو کرتا ہے مگر دوسرے انسانوں کی پرواہ نہیں کرتا۔ اللہ پرست تو وہ نظام بھی نہیں جو معاشرے کے تمام طبقات کی بہتری کے لئے کام نہیں کرتا۔ اور معاشرتی فرق کو جاری و ساری رکھنے میں مدد کرتا ہے۔
    اس قسم کی اللہ پرستی کو کسی بھی ایسے انقلاب کو لانے سے روکنا مقصود ہوتا ہے جو معاشرے میں نا انصافیوں کے خاتمے کی نوید ہو۔ جو اقتدار انسانی حیثیت میں برقرار نہیں رکھا جا سکتا اسے اللہ پرستی کے لبادے میں کمزور لوگوں پہ مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح وہ لوگ جو اللہ پرستی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں انکی اپنی حیثیت مشکوک ٹہرتی ہے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ