Tuesday, July 27, 2010

ایک شکریہ

بچوں کی شخصیت کی تشکیل میں صرف جینزاور ماحول کا ہی اثر نہیں ہوتا۔ ان کتابوں کا بھی اثر ہوتا ہے جو انہیں پڑھنے کے لئے میسر آتی ہیں۔ اس طرح سے ہمارے یہاں دہشت گردی، کرپشن اور اخلاقی زبوں حالی کا ایک باعث اگر بچوں کی بڑی تعداد کا اسکول تک نہ پہنچ پانا ہے تو وہیں  بچوں کا بہتر کتابوں تک رسائ نہ ہونا  بھی  ہے یہاں بہتر کتابوں سے میری مراد وہ کتابیں جو بچوں کے تخیلاتی عمل کو جِلا دیتی ہے۔
ہمارے جن اسکولوں میں بچوں کو لائبریری کی سہولت  ہے۔ انکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوگی. ۔ یوں اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلنے والے لوگ ایک مخصوص نصاب سے آگے شاید ہی کچھ جانتے ہوں۔ نصاب کا بھی اتنا ہی پڑھنا روا ہے جتنا امتحانی نکتہ ء نظر سے ضروری ہو۔ جبکہ ریاست نصاب کو اپنے پس منظر سے تشکیل دینے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔ یوں ایک جنریشن چندر گپت موریہ کو پڑھنے میں کامیاب ہوتی ہے اور دوسری محمد بن قاسم سے تاریخ پاکستان شروع کرتی ہے۔ ایک کی اسلامیات بنیادی اخلاقیات پہ مشتمل ہوتی ہے اور دوسری کی جہاد کے فضائل پہ۔
کتاب پڑھنے کی عادت بچوں میں بچپن سے ہی ڈالنی پڑتی ہے۔  ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں جبکہ والدین کمپیوٹر بچوں کے حوالے کر کے سمجھتے ہیں کہ اس پہ گیمز کھیل کر انکے لاڈلے کوئ غیر معمولی کام کر رہے ہیں، وہاں وہ اپنے بچوں کے اندر مطالعہ کا شوق پیدا کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ کسی سے پوچھیں کہ بچے کتاب پڑھنے میں کیوں دلچسپی نہیں لیتے جواب ملے گا کہ کمپیوٹر کا  دور ہے صاحب۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی معاشرہ جو ٹیکنالوجی میں ہم سے کہیں آگے ہے، وہاں اب تک مطالعے کی عادت ترک نہیں ہوئ۔ ہر اسکول لائبریری رکھتا ہے۔ اسکول کے ٹائم ٹیبل میں لائبریری کے پیریڈز ہوتے ہیں۔ ہر بچے کو ٹارگٹ ملتا ہے کہ اتنی کتابیں پڑھنی ہیں۔اسکول سے باہر نکلیں،  ائیر پورٹ سے لیکر تمام عوامی مقامات پہ  آپ کو لوگ مطالعہ کرتے نظر آئیں گے۔
صاحب حیثیت والدین، کے ایف سی اور مکڈونلڈز قسم کے ریسٹورنٹ سے جنک فوڈ تو بہ رضا و رغبت بچوں کو دلاتے ہیں اور کسی محفل میں فخریہ بتاتے ہیں کہ انکے بچے کون سی جنک فوڈ یا کپڑوں کا کون سا برانڈ پسند کرتے ہیں۔ مگر ایک کتاب خرید کر دینا انہیں پیسے کا زیاں لگتا ہے اور اسکا شاید ہی کوئ تذکرہ ہم کبھی سنتے ہوں۔
یہ سب باتیں مجھے کیوں اس وقت یاد آرہی ہیں؟
ابھی چار پانچ دن دن پہلے مجھے ایک دعوت نامہ ملا۔ جو مسعود احمد برکاتی صاحب کی نونہال کے ادارت کے پچاس سال پورے ہونے پہ ایک اعزازی تقریب کے سلسلے میں تھا۔ میں اس میں شریک ہوئ بمعہ  اپنی بیٹی کے۔ وہ اگرچہ ابھی ساڑھے تین سال کی ہے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ کتاب کا شوق پیدا کرنا اور ایسی محافل میں جو کتاب لکھنے والے سے اسے تعارف دیں۔ جانا ضروری ہے۔
پاکستان میں بچوں کی ایک بڑی تعداد نونہال پڑھ کر بڑی ہوئ ہے۔ ان میں سے ایک میں بھی ہوں۔ میرے ایک عزیز، اخبارات و رسائل کی ترسیل کا کام کرتے تھے۔ انکی وجہ سے اپنے بچپن میں کراچی کا شاید ہی کوئ اخبار ہو جو میں نے نہ پڑھا ہو اور پاکستان کا شاید ہی کوئ میگزین ہو جو میری نظر سے نہ گذرا ہو۔ اس میں میرا شوق اور انکی مہربانی شامل رہی۔ انکے گھر جانا مجھے پسند تھا کہ میں اس ڈھیر میں گم ہو جاتی تھی جو وہاں جمع ہوتا۔
نونہال، آنکھ مچولی، تعلیم و تربیت اور نجانے کتنے بچوں کے رسالے۔ ان میں نونہال بہت باقاعدگی سے آتا رہا۔ اگرچہ عین اس زمانے میں، میں سسپنس ڈائجسٹ اور نسیم حجازی کے ناول بھی پڑھ لیتی تھی۔ مگر کبھی نونہال کا ناغہ نہیں ہوتا۔ یہ بلا شرکت غیرے ہم بچوں کا رسالہ ہوتا اور یہ بھی نہیں سننا پڑتا کہ بچوں کو بڑوں کے رسالے نہیں پڑھنے چاہئیں۔
بچوں کا ادب لکھنا آسان نہیں۔ پہلے بچوں جیسی حیرت اور تجسس پیدا کریں۔ دنیا کو ایک اجنبی آنکھ سے دیکھیں اور پھر لکھیں۔ بچوں کے ادب کی درجہ بندی بھی بڑوں کے ادب کی طرح کی جا سکتی ہے۔ ان میں سب سے پہلے وہ کہانیاں جو مافوق الفطرت، طلسماتی کرادر رکھتی ہیں اور زمانہ ء قدیم سے سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں، یہ بچوں میں تصوراتی دنیا سجانے کی اہلیت پیدا کرتی ہیں اور انہیں اخلاقی خوبیاں بھی بتاتی ہیں۔ پھر وہ کہانیاں جو کسی علاقے کی ثقافت کے زیر اثر وجود میں آتی ہیں اور اپنے ماحول، رواج اور جغرافیہ سے روشناس کراتی ہیں۔ پھر انکے موجودہ مسائل سے متعلق کہانیاں۔ کہانیوں سے باہر نکلیں تو مختلف لوگوں کی سوانح حیات اور زندگی کی جدو جہد۔ اور آجکے زمانے پہ نظر کریں تو سائینس اور ٹیکنالوجی کی دنیا۔ اور دنیا کا کوئ ادب شاعری کے بغیر مکمل ہو سکتا ہے کیا۔  تو جناب مزے مزے کی نظمیں۔
ان سب چیزوں کو اگر سستے طریقے سے بچوں تک پہنچانا ہو تو بچوں کے رسائل اسکا ایک بہترین ذریعہ ہیں۔ نونہال بھی ایک ایسا ہی رسالہ ہے۔ جو حکیم محمد سعید مرحوم کے ادارے ہمدرد کے زیر سایہ شائع ہونا شروع ہوا۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن  کے تعاون سے ہونے والی یہ سادہ سی تقریب پی ایم اے ہاءوس کراچی  میں  منعقد ہوئ۔   اس سادہ سی تقریب نے بچپن کو سامنے لا کھڑا کیا۔ مسعود صاحب کا کہنا تھا کہ کھیل کے میدان میں کھلاڑیوں کو تو پھر بھی تحفے تحائف سے نوازا جاتا ہے۔ کسی میچ کے جیتنے کی صورت میں انہیں لاکھوں روپے ملتے ہیں۔ مگر یہ ادیب ہیں جنہیں ہمارے یہاں اپنی کاوشوں کا کوئ صلہ نہیں ملتا ۔ اور بچوں کے ادیب کو تو ادیب بھی نہیں سمجھا جاتا۔

 انکا کہنا ہے کہ حکمراں طبقہ جس چیز ، قدر یا صلاحیت کو ابھارنا چاہتا ہے وہ علم و ادب نہیں۔ موجودہ صورت حال میں آخر علم کی طرف کوئ کیوں جائے، اور اپنی جان کھپائے۔
انکے الفاظ میں ہمارا معاشرہ اب جرم کش نہیں رہا بلکہ جرم قبول ہو گیا ہے اور اب جرم پروری کی طرف بڑھ رہا ہے۔
برکاتی صاحب نے پچاس سال، نونہال کی ادارت کی۔ اور اس رسالے کے پڑھنے والے ننھے منے قارئین اب پختہ شخصیات کے روپ میں دنیا کی بساط پہ جانے کہاں کہاں، جہد زندگی سے نبرد آزما ہیں۔ ان لوگوں کے بچپن کو کتاب کی خوشبو سے مہکانے والے اس  شخص کا شکریہ ان سب پہ واجب ہے۔ شکریہ برکاتی صاحب۔

27 comments:

  1. ہر پاکستانی اپنے آپ سے ایک سوال کرے.

    آخری دفعہ کب اور کونسی کتاب پڑھی تھی جو نہ فکشن تھی اورنہ مذیب پر.

    ہر دوسرا بندہ سوچ میں پڑ جائے گا. اس لیے کو ہم دنیا کی ان چند قوموں میں شامل ہیں جو کتاب پڑھنے کو شائد گناہ سمجھتے ہیں.
    یاد رہے اوپر کے جملے میں لفظ گناہ میں نے محاورتا استعمال نہیں کیا. بلکہ میں میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو واقعی چند موضوعات کے علاوہ باقی ہر موضوع کو لغو سمجھتے ہیں.

    باقی رہا مغرب...تو یہاں تو لوگوں کو کتاب پڑھنے کا جنوں ہے.

    ایک سوال ہے آپ سے...
    کراچی میں کتنی لائبریریاں ہیں؟
    ٹورنٹو میں پبلک لائریری سسٹم کی سو شاخیں. آبادی ٹورنٹو کی صرف پچیس لاکھ ہے!

    ReplyDelete
  2. تو اب لاگ ان ہونا پرے گا.
    ہممم
    اس طرح موڈریشن تو اچھی ہو جاتی ہے لیکن مراسلہ دینا بڑا مشکل ہوجتا ہے. بلاگرڈاٹ کام اسی لئے مجھے پسند نہیں. اسی مصیبت کی وجہ سے سوائے آپ کے بلاگ کے اور کسی بلاگر ڈاٹ کام والے بلاگ پر میں رائے نہیں دیتا.

    ReplyDelete
  3. بہت ہی خوبصورت اور جامع بات کی ھے آپ نے حقیقت اور پاکستانیوں کی پھپھوندی لگی ذہنیت کی بلکل صحیح عکاسی کی ھے آپ نے، بس تھوڑی سی ایڈیشن کرنا چاھوں گا کے اگر آج پاکستانی کتاب سے دور ھیں تو اسکی بہت بڑی وجھ ھے، پاکستان کے حقیقی بانیوں کو نمٹاتے ہی اسٹیبلشمنٹ، فوج ایجنسیز اور ملاوں نے اور بعد میں سیاستدان بھی حصھ بن گئیے اس سوچ کا، اس قوم کو یرغمال بنا لیا، قوم کو صرف وہ ہی کچھ دکھایا اور بتایا گیا جو یھ لوگ چاہتے تھے، تاریخ بدل دی گئی انقلابی اور شعور افزاء لٹریچر پر پابندی لگادی گئی ایک شازش کے تحت قوم کو جاہل رکھا گیا، کیوں کے قوم کے جاہل رہنے میں ہی اس سب کی بقاء تھی، میں نے خود تبلیغی اجتمعات میں بڑے بڑے جید لوگوں کو یھ بکواس بکتے سنا ھے کے علم تو صرف دین کا ھوتا ھے دنیا کا تو ہنر ھوتا ھے۔ تو جہاں خود کو نائب رسول کہلوانے والے اس طرح سے بہکائیں گے وہ بھی ایسی قوم کو جو ان ناسوروں کو ہی اپنا نجات دہندہ سمجھتی ھے، اپنے باپ کی بات نہیں مانتے مگر ملا کی کہی ہوئی ہر بات کو جنت کا راستھ سمجھ کر بغیر تصدیق کیئے اس پر چل پڑتے ہیں۔ تو کہنے کا مقصد یھ ھے کے جہاں علم کو علم نہیں ہنر سمجھا جائے وہاں یھ ہی سب ھونا ھے، یھ تو بھلا ھو مشرف صاحب کا کے وہ میڈیا کو اتنی آذادی دے گئے اور آج قوم کو کچھ پتھ بھی چل جاتا ھے۔ ادب کو بھی ان ہی لوگوں نے پروان نہیں چڑھنے دیا فنون لطیفھ کو بھی بس چھوڑیں جی جلتا ھے لکھتے ھوئے بھی۔

    ReplyDelete
  4. شکریہ برکاتی صاحب !
    کہ میرا بچپن بھی نونہال اور تعلیم وتربیت پڑھتے گزرا،دونوں بچوں کے میعاری میگزین مانے جاتے تھے،
    اللہ علم کی شمع جلانے والوں اور اندھیروں میں روشنیاں پھیلانے والوں کی راہیں سدا روشن رکھیں آمین،
    اور حکیم محمد سعید کی قبر کو نور سے روشن فرمائیں،آمین ثم آمین

    ReplyDelete
  5. عمرو عیار کی کہانیوں سے پڑھنا شروع کیا تھا اور عمران سیریز سے دیوتا اور پھر سوانح عمریاں تک پڑھیں۔ اور اب بھی جب وقت ملے کچھ نہ کچھ لازمی پاس ہوتا ہے چاہے جاسوسی ڈائجسٹ ہی ہو۔ اپنا تو یہ مشاہدہ ہے چاہے فکشن ہو، ناول ہو کوئی فرضی کہانی ہو، کتاب پوری ایک دنیا ہوتی ہے جس میں سے آپ کو کچھ نہ کچھ ضرور مل جاتا ہے جو علم میں اضافہ کرے۔

    ReplyDelete
  6. بہت عمدہ ارٹیکل لیکھا ھے-- بچون کا ادب کم ہوتا جارہا ہے-- بچون کو کتابون کے طرف راغب کروانا چاھے عمدہ نصیحت ہے-- ایک بات جو بین سطور رہ گئ "پاکیستان کی تاریخ" قرۃالعین نے اچھا لیکھا ہے کبھی فیس بک بر نوت کرون گا--



    ایک جملہ بڑا نشتر ہے "ھم تو اپنے بچون کے جمک فوڈ کی بسند کو تو بول تے ہین لیکھن پچے کی پسند کی کتاب کا ذکر نہی

    ReplyDelete
  7. عثمان، آپ نے ایک تو ہر پاکستانی کو شامل کر لیا یہ زیادتی ہے۔ پاکستان کی تعلیمی شرح سرکاری ذرائع کے مطابق چالیس فی صد ہے جس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنا ستخط کر لیتے ہیں۔
    میں اسے آسان کر دوں۔
    ہر پڑھا لکھا پاکستانی، پڑھے لکھے سے میری مراد وہ نہیں جو اردو بلاگستان کی دنیا میں رائج ہے، بلکہ ہر وہ شخص جو اردو میں خط و کتابت کر سکتا ہے اور اخبار پڑھ سکتا ہے۔ ہر ایسے پاکستانی نے آخری دفعہ کورس سے ہٹ کر کون سی کتابی پڑھیں، اپنی اب تک کی زندگی میں اس نے کورس کی کتابوں کے علاوہ کتنی کتابیں پڑھیں۔
    آپ نے لاَبریریوں کا پوچھا ہے۔ پوچھنا یہ چاہئیے تھا کہ جو چند لائبریریاں ہیں اس میں کتنے لوگ جاتے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی پوچھنا چاہئیے کہ آخری دفعہ کوئ کب لائبریریری گیا تھا۔
    ہماری کتاب دوستی کا ایک واضح انڈیکٹر تو ہمارے یہاں شاءع ہونے والی کتابوں کی تعداد ہے اور بک اسٹور کی تعداد بھی۔
    پچھلے پانچ سالوں میں اردو زبان میں ، پاکستان میں شائع ہونے والی کون سی کتاب بیسٹ سیلر رہی۔
    موڈریشن چاہئیے تو نہیں تھی کہ لوگ خواتین سے گالیاں سیکھنے کے لئے جامعہ کراچی میں داخلہ لینا چاہ رہے ہیں۔ انکی اس لا علمی اور معصومیت کو مٹانے کے لئے کہ ہم اس سلسلے میں عظیم روایات اور تاریخ اور تخلیقی صلاحیت رکھتے ہیں کہ جس کا جواب ملنا مشکل ہو۔ مختلف تبصروں کو انکی جگہ پہ ہی رہنا چاہئیے۔ مگر پھر ایسے قارئین کا خیال آتا ہے جو با بار ان دیسی گالیوں سے گذریں تو انہیں تکلیف ہو۔ بعض قارئین ایسے بھی ہیں جو ہمارے ملک سے تعلق نہیں رکھتے، ان کے سامنے اچھا نہیں لگے گا کہ لکھنا تو مجھے اپنے 'پسندیدہ ٹاپک' پہ بھی ہے۔ فی الوقت موڈریشن لگا دیا ہے۔ مشکل تو ہوگی۔ مگر آپ نے سنا تو ہوگا کہ لاتوں کے بھوت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے میں یہ بھی دیکھنا چاہ رہی ہوں کہ اس طرح موڈریشن کس حد تک مءوثر ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ایک تجربہ ہے۔
    دوست، ہر طرح کی کتابوں سے سیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ اسی وقت صحیح ثابت ہو سکتا ہے جب کوئ ہر طرح کی کتابیں پڑھتا ہو۔ عام طور پہ یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ موضوعات کو مخصوص کر لیتے ہیں اور یہ ایک بہتر اور کارآمد طرز عمل نہیں رہتا۔
    زین صاحب اور عبداللہ، آپکا شکریہ۔
    فکر پاکستان، ادب اور فنون لطیفہ کے لئے معاشرتی برداشت موجود ہونا چاہئیے۔ اسکے بغیر یہ چیزیں پنپ نہیں سکتیں۔

    ReplyDelete
  8. کئی لوگوں میں یہ بچہ بڑھاپے میں بھی موجود ہوتا ہے، میں انہیں بچوں کے رسالے، اخبارات میں بچوں کے صفحات پڑھتے اور ٹیلی وژن پر کارٹون دیکھتے ہوئے دیکھتا ہوں
    بچون کا ادب کم ہوتا جارہا ہے-- بچون کو کتابون کے طرف راغب کروانا چاھے عمدہ نصیحت ہے--

    ReplyDelete
  9. اے کے ملک صاحب، میں نے تو کبھی بھی بچوں سے متعلقہ ادب پڑھنا نہیں چھوڑا۔ اب نونہال خریدتی نہیں لیکن اگر اب بھی کسی جگہ پڑا دکھ جائے تو اٹھا کر ایک نظر سارا دیکھ ضرور لیتی ہوں۔ اسی طرح ڈان کا ینگ ورلڈ ضرور پڑھتی ہوں۔ اسکا ایک فائدہ، آجکے ٹین ایجر کی دلچسپیاں، مسائل اور انکا اپنے آپکو بیان کرنے کا طریقہ دیکھنا بھی ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ نہیں پتہ چلے گا کہ ہم کب بوڑھے ہو گئے۔
    :)

    ReplyDelete
  10. برکاتی صاحب سے تعلق ایک طویل عرصہ تک صرف نونہال کے ذریعے رہا۔ حکیم محمد سعید کی شہادت کے بعد انہوں نے رسالہ نونہال کے لیے بہت محنت کی۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ہمت اور قدرت سے کہیں بڑھ چڑھ کر اس ادارہ کی ترقی میں کردار ادا کیا۔

    کتابیں پڑھنے کی عادت سے متعلق آپ کی بات کافی دلچسپ اور درست معلوم ہوتی ہے۔ یہ بات بھی درست کہ پڑھنے کی شروعات بچوں کو ان کی من پسند موضوعات پر کہانیوں ہی سے ہی کی جائے تو بہت اچھا۔

    اور شہروں کا تو علم نہیں البتہ کراچی میں بچوں کے رسالہ میں اولین نام نونہال ہی کا رہا ہے۔ یہاں شاید ہی کوئی ایسا 'بچہ' موجود ہو جو رسالہ پڑھتا ہو مگر نونہال کبھی نہ پڑھا ہو۔ اس کے علاوہ ماہنامہ تعلیم و تربیت بھی چھوڑا نہیں جاتا۔

    ReplyDelete
  11. میں اب بھی نونہال خریدتی ہوں اور شوق سے پڑھتی ہوں، بلکہ ہر سال گرمیوں کی چھٹی میں جو خاص نمبر آتا ہے اُس کے ساتھ جو گفٹ ملتا ہے اُس کا بھی انتظار کرتے ہیں میں اور میرا چھوٹا بھائی :)

    ReplyDelete
  12. جن لوگوں کے بچے ہیں ان کی تو مجھے سمجھ آگئی کہ وہ کیوں پڑھتے ہیں. لیکن جن کے بچے نہیں وہ کیوں بچوں کا ادب پڑھتے ہیں یہ میں سمجھ نہیں پایا.
    بھائیو اور بہنو!
    سنجیدہ ادب کی طرف آؤ. بلکہ ادب پڑھنا بھی ایک حد تک ہی رکھو. اور حقیقی زندگی میں موجود مسائل پر مبنی موضوعات پر کتابیں پڑھو. جو شائد اردو میں ندارد ہیں.

    اب کچھ اپنے بچپن کے بارے میں...
    مجھے صرف ایک ہی رسالہ پسند تھا. اور وہ تھا تعلیم و تربیت. اس میں کہانیاں بہت بچوں والی نہیں ہوتی تھیں. بس ٹھیک تھیں. مڈل اور ہائی سکول جانے والے طالب علم بھی لطف اٹھا سکتے تھے. اشتیاق احمد کے ناول بھی سکول کے زمانے میں پڑھتا رہا ہوں. اور عمران سیریز بھی جب تک ایف اے میں تھا. پڑھتا تھا. پھر کچھ سنجیدہ موضوعات کی طرف آنا شروع ہوا.
    اور جب پردیس آیا تو پتا لگا کہ مطالعہ کیا ہے. اور کتاب کیا ہے.
    نہ چاہتے ہوئے بھی میں ایک رائے دینے پر مجبور ہوں.
    کہ..
    کتاب اب صرف انگریزی میں ہی ہوتی ہے.

    ReplyDelete
  13. بہت عمدہ تحریر شیر کی آپ نے۔۔
    گو کہ میں نے نونہال زیادہ نہیں پڑھا، لیکن تعلیم و تربیت سے تعلق رہا بہت عرصے تک۔۔۔
    برکاتی صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے بچوں کے ادب کو نونہال کی شکل میں آگے بڑھایا۔ آجکل تو بچوں کو ٹی وی، کمپیوٹر اور گیمز کے علاوہ کسی چیز میں دلچسپی نہیں ۔۔۔ اور کھیل کود بھی موبائل پہ سنیک گیم کھیلنے والی۔۔!!
    معاشرتی برداشت کا آپ نے بالکل صحیح کہا۔۔ اس کے بغیر فنون لطیفہ تو کیا صرف لطیفہ بھی نہیں سمجھ آ سکتا۔۔۔

    ReplyDelete
  14. عثمان، آپ کی بات درست ہے ہمارے یہاں کتابیں پڑھنے کا رجحان بہت کم ہے اس لئے کتابیں لکھنے کا رجحان اس سے کہیں کم ہے۔
    عام طور پہ بچپن میں خاصہ وقت ہوتا ہے پڑھنے کا۔ اور ایک دفعہ چسکا لگ جائے تو یہ عادت کافر عادت بن جاتی ہے یعنی چھٹتی نہیں۔ میں بھی اس دن کے انتظآر میں ہوں جب میری بیٹی صاحبہ پڑھنا شروع کر دیں گی۔
    مجھے اپنے بچپن میں انگریزی کی کتابیں نہ میسر آ سکیں۔ جسکا قلق رہتا ہے ۔ کہ اب بہت کچھ پڑھنا باقی ہے۔
    میں ذاتی طور پہ فکشن پہ لکھنے میں دلچسپی رکھتی ہوں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اچھا فکشن لکھنے کے لئے، علم کا خام حالت میں لکھنے والے کے پاس موجود ہونا ضروری ہے۔ تو میں بھی فکشن کے اوپر ایسی کتابوں کو ترجیح دیتی ہوں جو سنجیدہ مسائل سے متعلق ہوں یا جن میں علم کی مزید جہتیں سامنے آئیں۔ عین لام میم، آپکی لطیفے والی بات مزے کی ہے۔
    حجاب،ہمم، ایک بچہ انسان میں ہمیشہ رہتا ہے چاہے آپ بچپن سے نکل کر پچپن میں چلے جائیں۔ تو ابھی آپکی عمر ہی کیا ہے۔
    :)
    اس سے یہ اندازہ کرنے میں بھی آسانی رہتی ہے کہ ہم نے اس بچے کو اب تک کتنا بڑا کیا ہے۔
    اسد صاحب شکریہ آپکا۔

    ReplyDelete
  15. aniqa aap ko yahan blog pay daikh kar khushi k sath sath hairat howi! aik phd chemist aur woh blog likh raha hai different topics pay! umeed hai k aap khairiat say hon gi! yar yeah bachon ka topic to aap nay khasa cherh diya! yaqeen karain k aaj bhi main youth aur kids k bashtar magazines parhti hon waja shayad hamara apna inner hai jo aaj tak kehta hai k parho! sach hai k agar bachon ko shuru say adat na daali jaey to woh parhnay main dilchaspi nahi laytay! meri to parwan main NAUNIHAAL, TALEEM-O-TARBIYAT, YOUNG WORLD, aur bayshumar kahaniyan hai jin main Umro aayar say lay kar hazarat ammer hamza ki dastanay shamil hain! aaj bhi dil karta hai k dobara un ko parhon per aaj literature ka yeah haal hai k har jaga ajeeb fiction aur literature phela howa hai! tehzeeb aur taqadus dur jaata dikhta hai! khair jahan rahain khush rahain! Asma Nasib

    ReplyDelete
  16. اسما نصیب، مجھے بھی آپکا تبصرہ پڑھ کر خوشی ہوئ کہ میرا بلاگ پاءوں پاءوں چلتے کسی ایسے کے پاس جا پہنچا جو مجھے پہلے سے جانتا ہے۔ اور اردو بلاگ پڑھتا بھی ہے۔ امید ہے کہ آپ بھی بمعہ خاندان خیریت سے ہونگیں۔

    ReplyDelete
  17. آپ کے افسانے کہاں ہیں؟
    اور مجھ سے جھپا کر کیوں رکھے ہیں؟

    ReplyDelete
  18. ایک تحریر لکھ کر بتائیں کہ افسانے کیسے لکھے جاتے ہیں۔
    میں نے بھی لکھنے ہیں۔
    میری استانی جی نے تو مجھے کچھ سکھانے سے انکار کردیا ہے۔
    اب میں مارا مارا پھر رہا ہوں۔۔۔۔
    دشت ادب میں۔

    ReplyDelete
  19. عثمان، آپ کوشش کیجئیے۔ لکھئیے اور مجھے بھیج دیجئیے۔ تاکہ پتہ چلے کہ آپ کتنے پانی میں ہیں۔ پھر آگے بتاتے ہیں کہ کیا کرنا چاہئیے۔

    ReplyDelete
  20. کیا زبردست ترکیب ہے۔
    مطلب کہ میں لکھنے کی ہمت ہی نہ کروں۔
    ویسے کتنے پانی کا سوال ہی نہیں۔
    کہ میں ادب کے پانی میں ہی نہیں ہوں
    (:

    ReplyDelete
  21. آپ نے یہ کہاں سے سمجھا کہ آپ لکھنے کی ہمت نہ کریں۔ اگر آپ لکھنا چاہتے ہیں تو لکھنا شروع کرنا پہلا قدم ہے۔ یہ کوئ ریاضی کا فارمولا تو ہے نہیں کہ آپکو کہا جائے کہ اس طرح لکھیں۔
    اور جب آپکے ادب کے پانی میں نہیں تو ترکیب پوچھنے کا خیال کیوں آیا۔ بس ایسے ہی اپنی توانائیاں نہ ضائع کیا کریں۔ لکھنے کی صلاحیت کا ادب سے تعلق ہونے سے کوئ تعلق نہیں۔ اپنے آپ، اپنے ماحول اور اس ماحول میں رہنے والے لوگوں سے تعلق ہوتا ہے۔ دنیا کے نامور ادیب، غیر ادبی گھرانوں میں پیدا ہوئے، غیر ادبی تعلیم پائ مگر پھر بھی بڑے ادیب کہلائے۔

    ReplyDelete
  22. شائد میں نےالفاظ کے چناؤ میں کوتاہی کی ہے۔
    مطلب میرا کوئی ترکیب سمجھنا نہیں تھا۔ صرف ترکیب سے تو کھانا بنانا بھی نہیں آسکتا۔
    تاہم ہر مصنف کا افسانے کی ساخت، اتار چڑھاؤ وغیرہ پر ایک نقطہ نظر ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کے ایک کورس میں ادبی تنقید کے حوالے سے تھوڑا سا مواد پڑھا تھا۔ جو کافی دلچسپ تھا۔
    جہاں تک صرف لکھنے کی بات ہے تو بلاگ لکھنا بھی یکلخت بغیر کسی "ترکیب" ہی کے شروع کیا تھا۔ اتنا تو مجھے معلوم ہی ہے۔

    ReplyDelete
  23. پہلے بڑے بڑے لوگ مرزا دیب، صوفی غلام مصطفی تبسم، فیض احمد فیض، علامہ اقبال، جیسے لوگ بچوں کے لئے لکھتے تھے۔ اب اردو کے ادیب روٹی کے چکر میں پڑ گئے۔بچوں کو بھول گئے۔ گھروں میں جب کبھی بچے کہانی کی فرمائش کر دیں تو کسی کو کوئی کہانی یاد ہی نہیں ہوتی،ماﺅں نے بچوں کے سوالات سے تنگ آکر انھیں ٹٰی وی اور موبائیل کے حوالے کر دیا ہے۔ اب بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ ادب سے تعلق رکھنے والے چھوٹے بڑے ادیب صرف ایک کہانی بچوں کے لئے لکھ دیں تو بچوں کے ادب کا ڈھیر لگ جائے گا۔

    ReplyDelete
  24. This comment has been removed by a blog administrator.

    ReplyDelete
  25. السلام علیکم۔

    بچپن میں تعلیم و تربیت اور نونہال کے علاوہ آنکھ مچولی بھی بہت شوق سے پڑھا کرتا تھا۔ اس وقت یہ نعیم احمد بلوچ صاحب کے زیرِ نگرانی چلتا تھا۔ اور جب تک وہ اس کے مدیرِ اعلیٰ رہے، کم از کم میرے نزدیک آنکھ مچولی کا معیار بچوں کے تمام رسائل میں بہترین رہا۔

    اب تھوڑا بڑا ہوا ہوں تو سنجیدہ کتابیں بھی پڑھنے لگا ہوں۔ لیکن ایسی کتب کے حصول میں دو بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ایک تو کاغذ کی بڑھتی ہوئی قیمت جس کے باعث چھپی ہوئی کتاب خریدنا مشکل ہو جاتا ہے۔ دوسری یہ کہ ہمارے چھوٹے سے شہر میں نصاب کے علاوہ کوئی سائنس کی کتاب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ چنانچہ سال کے سال پشاور سے دو تین کتابیں اٹھا لاتا ہوں جن میں سے سستی سستی کتب بھی پانچ سو روپے سے کم کی نہیں ہوتیں۔۔
    ایسے میں میرا کمپیوٹر ہی میرے لیے کتابوں کے حصول کا سب سے سستا ذریہعہ بن جاتا ہے۔ اور غالباً یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل جب حکومت کی طرف سے پرانے کمپیوٹروں پر پابندی کا شوشہ چھوڑا گیا تھا تو اس کی مخالفت کرنے والوں میں، میں پیش پیش تھا۔ :)
    http://philosophoricacid.wordpress.pk/archives/37

    ReplyDelete
  26. عثمان بھائی نے سوال کیا:
    "آخری دفعہ کب اور کونسی کتاب پڑھی تھی جو نہ فکشن تھی اورنہ مذیب پر۔"

    آج دوپہر ہی یہ کتاب پڑھ رہا تھا۔ :)
    Modern Physics for Scientists and Engineers
    Second Edition
    (By John R. Taylor, Chris D. Zafiratos and Michael A. Dubson)

    ReplyDelete
  27. محمد سعد صاحب، میں نے تو اس سوال کا جواب لکھا ہی نہیں اب بتا دیتی ہوں۔ آخری تین ایسی کتابیں پڑھیں تھی جو نہ سائینس ہیں نہ فکشن
    ایک کتاب انگریزی میں ہے
    The quark and the jaguar by Murray Gel-Mann
    Reality's Mirror؛ Exploring the mathematics of symmetry by Bryan Bunch
    اور اردو میںفلسفہ ء سائینس اور کائنات، مصنف ڈاکٹر محمود علی سڈنی۔
    در حقیقت یہ ابھی جاری ہے۔ میری ایک بری عادت ہے ایک وقت میں ایک کتاب نہیں پڑھتی۔
    آپکا شکریہ کہ آپ نے یاد دلا دیا۔
    آنکھ مچولی مجھے بھی خاصہ پسند تھا۔ اور آپس کی بات ہے بچوں کے بیشتر رسالوں میں مجھے بھی یہ زیادہ معیاری لگتا تھا۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ