Thursday, July 29, 2010

اسلام آباد فضائ حادثہ

آج کے دن تک آپ میں سے بیشتر لوگ یہ اندوہناک خبر سن چکے ہونگے کہ ائیر بلو کے جہاز کے کریش ہونے کی وجہ سے اس پہ سوار تمام ایک سو باون لوگ ہم سے جدا ہو گئے۔ وہ لوگ جو اپنے مستقبل کے منصوبے بناتے ہوئے اپنے پیاروں کو خدا حافظ کہہ کر گئے۔ پھر کبھی  لوٹ کر نہ  آئیں گے۔
میں نے پورے دن میں تین دفعہ ٹی وی دیکھنے کی کوشش کی۔ اور ہر دفعہ پانچ منٹ بعد بند کر دیا۔ اس طرح اندوہناک عالم میں مرنے والوں کے خاندانوں کا غم اپنا ہی لگ رہا  ہے مگر میں اس خبر کی خریدار نہیں بننا چاہتی۔ 
جہاز پہاڑ کی چوٹی سے ٹکرایا اور پاش پاش ہو گیا۔ اس پہاڑی علاقے میں لوگوں کی باقیات بکھر گئیں جہاں عام طریقے سے پہنچنا مشکل تھا۔ مددگاروں کو اس جگہ تک پہنچنے کے لئے ایک راستہ بنانا پڑا کہ پہلے سے کوئ راستہ اس پہاڑی پیچیدہ علاقے میں موجود نہ تھا۔ بارش کی وجہ سے پھسلن شدید تھی اورمدد کا پہنچنا مزید مشکل ہو گیا۔
 میڈیا کے وارے نیارے ہو گئے۔ بہت دنوں بعد ایسی خبر ملی جس میں لوگوں کی دلچسپی ہوتی کہ باقی خبروں کہ ہم عادی ہو گئے ہیں۔وارے نیارے کیوں؟  ایک منہ چرانے والی حقیقت یہ بھی ہے کہ عام لوگوں کو ایسے منظر اپنی طرف کھینچ کر رکھتے ہیں جس میں لوگ رو رہے ہوں، تڑپ رہے ہوں، بے بس نظر آرہے ہوں۔
اگر کاروباری نظر سے دیکھا جائے تو بہت دنوں بعد کسی خود کش حملے کے بجائے کسی اور ذریعے سے اتنے بہت سے لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سو میڈیا نے حسب کاروبار اس پہ سارا دن خرچ کر دیا۔ ایک ہی فوٹیج کو بار بار دکھانا، بربادی اور اندوہناکی کو اس جگہ سے دکھانا جہاں سے وہ زیادہ ہولناک لگیں۔ غمزدہ خاندانوں کے گھر پہنچ کر انکے رشتے داروں سے تاءثرات لینے کی کوشش میں سبقت حاصل کرنے میں لگے رہنا۔ حالانکہ ابھی تو انہوں نے مرنے والے کو دیکھا بھی نہیں ہوگا اور شاید ابھی تو وہ یقین کرنے کے مراحل سے گذر رہے ہونگے کہ ایسا ہوا بھی ہے۔ لاشیں نہیں دکھا سکتے تو کیا  شناختی کارڈ تودکھا سکتے ہیں۔ چینلز کے درمیان شناختی کارڈ کی تعداد کا مقابلہ۔
 اس افراتفری میں کسی مددگار کے منہ سے جو نکلا اسے خبر بنا کر نشر کر دیا۔ ایک چینل پہ دی جانے والی خبر کہ ایک خاتون زندہ بچ  گئیں غلط ثابت ہوئ۔ کسی چینل نے فوراً ہی یہ قیاس ظاہر کیا کہ طیارہ نو فلائ زون میں اڑ رہا تھا۔ یعنی حادثہ راکٹ کے لگنے سے بھی ہو سکتا ہے۔ یہ خبر بھی غلط نکلی کیونکہ  جہاز رن وے پہ جگہ نہ ہونے کے باعث فضا میں چکر کاٹ رہا تھا۔  ویسے بھی ایئر پورٹ سے اتنے قریب نو فلائ زون کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ دونوں خبریں تو میں نے دیکھیں۔
ایک بلاگ پہ یہ قیاس تک ظاہر کیا گیا کہ جعلی ڈگریوں کے سلسلے سے توجہ ہٹانے کے لئے شاید یہ حادثہ کیا گیا۔ حادثے ساری دنیا میں ہوتے ہیں اصل بات یہ معلوم کرنا ہوتی ہے کہ  اس میں انسانی لا پرواہی تھی یا کوئ ٹیکنیکل خرابی۔ 
 ایسے حادثوں کے فوراً بعد جن اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں مدد کا فوری طور پہ جائے حادثہ تک پہنچنا  اور جہاز میں موجود لوگوں کے بارے میں آگاہ ہونا۔ تاکہ انکے رشتے داراور دوستوں  کومعلوم ہو کہ متعلقہ شخص جہاز میں تھا یا نہیں۔
اس سلسلے میں میڈیا کو کچھ باتوں کا پابند ہونا چاہئیے۔ مثلاً مرنے والوں کی تعداد کا جب تک تصدیق نہ ہوجائے اپنے طور پہ اعلان نہ کریں۔ ایک شدید زخمی بے ہوش شخص اور مردہ جسم کے درمیان ایک اخباری رپورٹر دور سے دیکھ کر کیسے رائے دے سکتا ہے۔ یہ تو ایک ڈاکٹر ہی بتا سکتا ہے۔ اپنی سنسنی خیز خبروں کو کم از کم ایک دن کے لئے تو معطل رکھیں تاکہ وہ جو اس اندوہناک حادثے سے گذرے ہیں وہ اس چیز کو تسلیم کرنے کے قابل ہو سکیں۔ ہم لاکھ کہیں کہ انکا غم ہمارا غم ہے یہ محض الفاظ ہی رہیں گے کہ جو اس سے گذرتا ہے وہی جانتا ہے اور صبر بھی آتے آتے ہی آتا ہے۔ اس قسم کی خبروں کے دوہرانے کی تعداد اور انکے درمیان وقفے کو بھی مقرر کیا جانا چاہئیے۔ ایک ہی فوٹیج، ایک ہی رپورٹ کو اتنی دفعہ دکھایا جاتا ہے کہ سنجیدہ ترین بات کی بھی اہمیت نہیں رہتی۔ یوں ایک اندوہناک حادثہ بھی زندگی کا روزمرہ بن جاتا ہے۔
اسکے علاوہ ایک ہی خبر کو مرکز توجہ بنا لینا کہاں تک درست ہے۔
 پشاور میں  بارشوں  اورسیلابی ریلوں میں کل سے اب تک ایک سو دس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ مگر اس سے آگے ہم نہیں جانتے کہ یہ کون لوگ ہیں انکے اہل خانہ پہ کیا گذری۔ ایسا کیا ہوا کہ اتنے لوگ سیلابی ریلے کا شکار ہوئے۔ کیا سیلابی ریلے سے بچاءو کی کوئ صورت ہے عوام اپنے آپکو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور کیسے اپنے پیاروں کو بچا سکتے ہیں۔  پچھلے ہفتے بلوچستان میں سیلابی ریلوں میں پچاس سے زیادہ افراد مر گئے،متعدد لا پتہ ہو گئے اور ہزاروں بے گھر۔ بچ جانے والےلوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ آخر اس میں انسانی زندگی کا نقصان بھی تو نقصان ہے اور اتنا ہی ہولناک ہے۔ میڈیا کسی خبر کو ترجیحات دینے میں کیا چیزیں سامنے رکھتا ہے؟
کل ہی کے دن کراچی میں ایک گھر کے گر جانے کی وجہ سے ایک ہی خاندان کےسات لوگ جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں مر گئے۔ معلوم نہیں کہ اس طرح کے دھچکے سے گذرنے کے بعد باقی بچ جانے والے لوگ کس حالت میں ہیں۔ یہ نہیں معلوم کہ وہ لوگ اب تک اس مخدوش عمارت میں کیسے رہ رہے تھے ۔ اس حادثے سے کیسے بچا جا سکتا تھا۔ معلومات زیرو۔  ہر سال بارش میں ایک ایسی خبر ضرور آتی ہے۔ جس سے مناسب اقدامت کے ذریعے بچا جا سکتا ہے۔  اسی طرح کراچی میں حالیہ بارشوں میں دو افراد بجلی کا کرنٹ لگنے سے مر گئے۔ ہر موسم برسات میں ایسا بھی ضرور ہوتا ہے۔
یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ میڈیا کن لوگوں کے مرنے کو اہمیت دیتا ہے اور کن لوگوں کے اہل خانہ کے پیچھے بھاگنے سے انکی قیمت صحیح سے وصول ہوتی ہے؟
لوگ میڈیا کو بے حس قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ ہم سب کا مجموعی رویہ ہے۔ میڈیا یہ سب چیزیں جنہیں بیچ رہا ہے وہ ہم ہیں۔ ہم ہیں اسکے خریدار۔ 

14 comments:

  1. ہمارے ملک میں جس کے ہاتھ "پاوا" آیا ہے اس نے ٹکا کے ملک و قوم کو پیٹا ہے۔ اور اب تو جی پولیس کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی یہ پاور شئیرنگ کر رہا ہے

    ReplyDelete
  2. بس اس ملک میں جس کسی کے دماغ میں اپنی اہمیت کے احساس کا خناس بھر جاتا ہے وہ اپنی من مانی شروع کر دیتا ھے۔
    اخلاقیات وغیرہ کے اصول اپنی پسند کے بنائے جاتے ہیں۔
    میڈیا بھی یہی کچھ کر رہا ھے۔اور حکمرانوں کو اس بھینسے کو نتھ ڈالنے کی ہمت نہیں ھو رہی۔

    ReplyDelete
  3. عنیقہ آپ کی بات سے اتفاق کے سوا اور کوئی چارہ نہیں،کل کا دن اس سانحہ سے دل بھاری رہا اورآج صبح سے پاکستان کی صورت حال دیکھ دیکھ کر بس اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی اور خیر کی دعا ہی مانگ رہے ہیں،یا اللہ خیر کراور ہم پر اپنا رحم اور کرم کر!
    ابھی یہ حال ہے تو اگلے دوسالوں میں جو اس سے زیادہ بارشوں کی بات کی جارہی ہے تب کیا ہوگا اب بھی وقتہے کہ ہوش کے ناخن لیئے جائیں اور مناسب انتظامات شروع کیئے جائیں تاکہ آنے والے دنوں میں نقصانات نہ ہونے کے برابر ہوں آپس کا لڑنا جھگڑنا اور بے بنیاد الزامات کی بارش کرنا بند کریں اور اپنےوسائل ذہنی جسمانی اور مالی اپنے ملک کی بہتری کے لیئے استعمال کرسکیں!

    ReplyDelete
  4. اللہ تعالیٰ مرنے والوں کی مغفرت فرمائے اور سوگواران کو صبر عطا فرمائے۔ آمین
    میں نے جب بھی ٹی وی دیکھا، آنکھیں بھر آئیں اور زیادہ دیر نہ دیکھ سکا۔
    میڈیا کے حوالے سے آپکی بات بالکل درست ہے اور یہ لوگ بس اپنا چینل بیچتے ہیں۔۔۔ کل جیو والی کہتی ہے کہ: ہم سب سے پہلے وہاں پہنچے تو ہر طرف تباہی تھی اور لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ امدادی کارکنوں نے ہمیں کہا کہ آپ خواتین کی لاشوں پر چادریں وغیرہ ڈالنے میں مدد کریں تو میں نے کہا کہ نہیں ہم سب سے پہلے پاکستانی عوام کیلئے خبر بریک کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس ’مشکل حالات‘ میں بھی میں مائک پکڑ کر کیمرے کے آگے کھڑی رہی۔۔۔۔۔اور یہ دیکھئے میرے ساتھی کیمرہ مین کے ہاتھوں میں کانٹے چبھ گئے ہیں یہاں تک پہنچتے ہوئے۔۔۔۔۔۔ بس اس سے آگے میں نہیں دیکھ سکا۔ :’(

    ReplyDelete
  5. اِنا للہ و اِنا اليہ راجعون ۔ اللہ مرنے والوں کی مغفرت کرے اور پسماندگان کو صبر عطا فرمائے
    بہت ہی افسوس ناک خبر صبح سننے کو ملی۔ جتنے لوگ اس المناک حادثہ ميں ہلاک ہوئے ہيں، اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ پتہ نہيں ہماری قوم کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔ روزانہ خودکش، بم اور ڈرون حملے ہو رہے ہيں۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام قدرتی آفات نے بھی پاکستان کا رخ کيا ہوا ہے۔

    ReplyDelete
  6. اس سانحہ پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ لیکن اس کے بعد میڈیا کا کردار بھی بے حد باعث افسوس ہے۔ سانحہ کے متاثرین کو جس طرح ٹی وی پر دکھایا اور اخبار میں چھاپا جارہا ہے وہ کسی طور درست عمل نہیں۔ میڈیا کی موجودہ روش ان خاندانوں سے اظہار ہمدردی اور تعزیت کے بجائے اشتہاری سے محسوس ہورہی ہے۔ اور ہر ٹی وی چینل سب سے زیادہ کوریج کا دعویٰ دار بن کر ان خندانوں کو دنیا بھر میں تماشہ بنا رہا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ اسے مہذب صحافت کہا جاسکتا ہے۔

    ReplyDelete
  7. This comment has been removed by a blog administrator.

    ReplyDelete
  8. درست فرمایا آپ نے ۔ میڈیا کا رویہ کئی بار انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور شرمناک ہو جاتا ہے ۔ میں عموما "آج نیوز" دیکھتا ہوں کہ باقی چینلز کے مقابلے کسی قدر محتاط ہے ۔ مگر کئی بار یہ بھی ویسی ہی اوٹ پٹانگ اور ناقابل برداشت حرکتیں کر گزرتے ہیں ۔
    رپورٹر خصوصا کسی مرنے والے کے عزیزوں سے اس کے تاثرات دریافت کرتے ہیں تو خون کھولنے لگتا ہے ۔ کیا کسی مرنے والے کے عزیزوں کے تاثرات کچھ مختلف ہو سکتے ہیں ؟ اور پھر ایک ہی واقعہ سے متعلق رپورٹس اس قدر مختلف ہوتی ہیں کہ شبہ ہونے لگتا ہے کہ واقع ایک جگہ رونما ہوا ہے یا دو یا دو سے زائد ۔
    مجھے نہیں خبر کے ان کے انتخاب کے وقت کس بات کو معیار تصور کیا جاتا ہے ۔ الفاظ کی غلطیاں ، گرامر کی غلطیاں ، خبر کی غلطیاں ، غلطیاں ہی غلطیاں ۔
    وسلام

    ReplyDelete
  9. مولوی صاحب، طالبان نے آپ جیسے ناسور اور بیمار ذہن پیدا کئے ہیں۔ میرا کچھ کہنا کم تھا آپ نے تو عملی مثالیں دکھا کر وضاحت شروع کر دیں کہ میں کتنا درست کہتی ہوں۔ یہ سب لکھنے سے میں وہ سب لکھنا بند نہیں کرونگی۔ البتہ آپکے یہ بیانات، اوروں کے حق میں دوست کے کم اور دشمن کے زیادہ لگ رہے ہیں۔ فی الوقت تو آپ پنجابیوں اور پٹھانوں کا نام بد نام کر رہے ہیں۔

    ReplyDelete
  10. 152 بدنصیبوں میں سے دو کا تعلق ہمارے شعبہ ابلاغ عامہ سے تھے، جن میں ایک تو بلال جامعی ہیں جو بی ایس 11 کے طالب علم تھے اور دوسرے پیار علی ہیں جو ہماری جماعت یعنی ایم اے فائنل میں تھے۔ بلال کا جنازہ آج بعد نماز ظہر چیپل گرونڈ، گلستان جوہر میں ادا کی گئی اور اسکی تدفین اسکی وصیعت کے مطابق جامع کراچی میں عمل میں لائی گئی ہے۔ جبکہ پیار علی کے بارے میں مجھے ابھی تک کوئی علم نہیں۔

    طالبان سے متعلق آپکے خیالات سے مجھے سخت اختلاف ہے لیکن یہ موقع ایسا نہیں ہے کہ بحث کروں اس لئے یہ حق آئندہ کیلئے محفوظ رکھتا ہوں۔ یہ جو صاحب بھی مولوی کے نام سے آپکے بلاگ میں تبصرہ کرتے ہیں انکا طالبان، اسلام اور شرافت تینوں سے کوئی تعلق نہیں۔

    ReplyDelete
  11. میڈیا کی بالکل یہی بےحسی ہمارے ہاں انڈیا میں بھی بالکل اسی شدت سے کارفرما ہے۔
    اس کے خلاف سنجیدہ دانشور صحافی اردو اور انگریزی میں بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ مگر افسوس ۔۔۔۔ آجکل میڈیا کی ڈور بھی صاحبان ثروت کے کاروباری ہاتھوں میں ہے

    ReplyDelete
  12. ہم سے اکثریت فضائی سفر کی تکنیکی معلومات سے نابلد ہے، اس لئے ہمیں اپنی طرف سے کوئی سوشہ نہیں چھوڑنا چاہئے اور جو لوگ کچھ معلومات رکھتے بھی ہیں انہیں بھی کیونکہ اس خاص واقعہ کا بیگ گراونڈ معلوم نہیں اس لئے خاموش رہنا چاہئے اور کسی سازشی نظریہ کو قوت نہیں دینی چاہئے، صرف آزادانہ، صفاف اور کھلی تحقیقات کا مطالبہ کرنا چاہئے۔

    آپ نذیر ناجی کو دیکھیں انہوں نے کل اپنے کالم میں کتنی بکواس کی ہے اور ادھر ادھر کی من گھڑک تاویلات کرکے اور ساشی نظریہ جڑ کے طالبان اور با ریش پالیٹ کو مجرم ثابت کردیا ہے۔ وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ جہاز کا پائلیٹ جہاز کو امریکی سفارت خانے پر لے جا کر ٹھکنا چاہتے تھے لیکن جہاز کے اندر موجود کسی راشد منہاز نے ایسا ہونے نہیں دیا۔

    ReplyDelete
  13. برا مت منائیں، لیکن پچاس بندے مر گئے کی جگہ پچاس افراد فوت ہو گئے یا جاں بحق ہو گئے زیادہ بہتر نہیں لگے گا؟

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ