Saturday, July 31, 2010

قدرتی عذاب یا قدرتی عمل

ایک دفعہ پھر ہم قدرتی آفات کی زد میں ہیں اور ملک کا بڑا حصہ  شدید بارشوں اور سیلاب سے متائثر ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد جاں بحق ،  متعدد لوگ لاپتہ ہیں اور ہزاروں بے گھر۔ لیکن ایک دفعہ پھر ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ اللہ کا عذاب ہے ہمارے اوپر، آزمائش یا قدرتی عوامل کی پرواہ نہ کرنے کی سزا۔
اگر یہ اللہ کا عذاب ہے اور ہمارے سیاہ کرتوتوں کی سزا ہے تو کیا وجہ ہے صرف غریب غرباء ہی اسکا شکار بن رہے ہیں۔ ہمارے طبقہ ء اشرافیہ کے تمام لوگ زندگی کی تمام نعمتوں سے بہرہ مند ہوتے اپنے آرام دہ ، سہولتوں سے آرستہ محلوں میں سٹیلائٹ ٹی وی پہ کوئ دل بہلانے والا پروگرام دیکھ رہے ہونگے۔ جبکہ نوشہرہ فیروز شہر ڈوب رہا ہے۔ اور اسکے غریب اور مسکین لوگ شاید سارے سارے دن بھوکے رہ کر اپنے لئے جائے پناہ تلاش کر رہے ہونگے۔ اقبال  اپنی نظم شکوہ  میں کہتے ہیں کہ برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پہ۔  اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تو پچانوے فی صد مسلمان ہیں ۔ لیکن یہاں بھی برق گرتی ہے اور برق ہمیشہ بے آسرا، کمزور لوگوں پہ گرتی ہے۔
کون زیادہ گنہگار ہے۔ شاید غریب ہونا سب سے بڑا گناہ ہے۔ لیکن کیا یہ پھر یہ خدا کی نا انصافی نہیں کہ وہ غریب پیدا کرے، غریب رکھے اور غریب ہی  کی پکڑکرے۔
اس لئے میں تو اس خیال کو خاطر میں نہیں لاتی۔
یہ سوچ لینا آسان ہے کہ یہ آزمائش ہے۔ لیکن پھر سوچ وہیں جاتی ہے کہ ایسی آزمائش کا سامنا معاشرے کے کمزور طبقے کو ہی کیوں کرنا پڑتا ہے اور وہ لوگ جو پہلے سے اللہ کی طرف سے نوازے ہوئے ہیں انہیں کیوں خدا محفوظ رکھتا ہے اور انکی آزمائش نہیں لیتا۔ بلکہ مزید نوازے جاتا ہے۔
اس لئے یہ چیز بھی عقل میں نہیں آپاتی۔ در حقیقت، جس وقت تک ہم اس چیز پہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا کسی پہ اسکی قوت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اس وقت تک ہمیں اس چیز پہ یقین آ نہیں سکتا۔
کیا یہ تباہ کاریاں، قدرتی عوامل کا نتیجہ ہیں؟
ساری دنیا میں موسموں میں تبدیلی کو عمل آتا محسوس ہو رہا ہے۔ تحقیق دانوں کے نزدیک اسکی وجہ گرین ہاءوس ایفیکٹ بھی ہو سکتا ہے کہ اسکے نتیجے میں زمین پہلے کی نسبت گرم ہو رہی ہے۔ زمین پہ موجود برف کا ذخیرہ اس گرمی سے گھل رہا ہے۔ فضا میں پانی کی مقدار زیادہ ہو رہی ہے۔ سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ بارشیں پہلے سے زیادہ ہو رہی ہیں اور امکان ہے کہ اب بارشیں زیادہ سے زیادہ ہوتی چلی جائیں گی۔
یعنی دنیا میں بیشتر ممالک کو جلد یا بدیر سیلاب کا سامنا کرنا پڑے گا اور اسکے بعد خشک سالی کا۔ کارخانہ ء قدرت کا ایک نظام اور کاز اینڈ ایفیکٹ کا نظام بھی خدا نے مقرر کیا ہوا ہے۔  خدا نے یہ مقرر کیا ہوا ہے کہ اگر آپ سرد موسم میں اپنے بدن کو گرم نہیں رکھتے تو آپکو سردی لگے گی اور آپ بیمار ہونگے۔ اس صورت میں بیماری خدا کا عذاب نہیں بلکہ کاز اینڈ ایفیکٹ کے کھاتے میں جائے گی۔
گرین ہاءوس ایفیکٹ کو کم کیا جا سکتا ہے؟
جی ہاں اسے کم کیا جا سکتا ہے اسکے لئے دنیا کے تمام ممالک کو ان گیسوں کی مقدار کو کنٹرول کرنا پڑےے گا جو اس ایفیکٹ کو بڑھانے کی ذمہ دار ہیں۔ دنیا کے غریب ممالک کو متحد ہو کر دنیا کے امیر ممالک پہ دباءو ڈالنا ہوگا کہ وہ اپنی ترقی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ان مضر گیسوں کی مقدار کو کم کرنے میں انکا ساتھ دیں۔
ہم اس سے کیسے نمٹیں؟
ہمیں سیلاب کی پیشگی اطلاع کو موءثر بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنے عوام کی تربیت کرنی ہوگی کہ وہ اپنے گھر کیسے بنائیں تاکہ سیلاب کے نتیجے میں انہیں کم سے کم نقصان پہنچے۔ سیلاب آنے کی صورت میں وہ کس طرح جانی نقصان کو کم سے کم رکھ سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ محلے کی سطح پہ کیا احتیاط کی جا سکتی ہے۔ سیلاب کے بعد وبائ امراض کا اندیشہ رہہتا ہے اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ ان سب کے لئے میڈیا کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔
حکومتی سطح پہ اس سے نمٹنے کے لئے ماہرین کی ایک ٹیم موجود ہونی چاہئیے۔ خاص طور پہ ان علاقوں میں جو سیلاب کے لئے رسکی ہیں۔ ان ماہرین میں اس علاقے کے لوگ بھی شامل ہونے چاہئیں تاکہ علاقے کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے میں دشواری نہ ہو۔
یہ ایک دستاویز کا لنک ہے۔ چاہیں تو آپ میں سے کوئ اسکے اہم نکات کا ترجمہ کر کے اپنے بلاگ پہ ڈالدے۔ یا پھر ایک دو روز میں، میں ہی وقت نکالتی ہوں۔

19 comments:

  1. سب سے اہم بات یہ کہ ایک مستعد اور متحرک محکمہ موسمیات ہونا چاہیے. جو پل پل کی خبر دے. اس قسم کے محکمہ موسمیات تیسری دنیا کے ممالک میں وجود ہی نہیں رکھتے. بہت سی اہم باتوں کا انحصار محکمہ موسمیات کی تازہ اپڈیٹس پر ہے. محکمہ موسمیات ناصرف موسم کی خبر دیتا ہے بلکہ لوگوں کو قدرتی آفات سے نمٹنے کی باقاعدہ تعلیم دیتا ہے. یہاں کینیڈا اور امریکہ میں موسم کے سرکاری چینل مفت آتے ہیں. کیبل کی فیس دو نہ دو. موسم کے چینل تک آپ کی رسائی ہوجائیگی. گاڑیوں کے ڈرائیورز کے لئے ریڈیو چینل الگ ہیں.

    باقی قدرتی عذاب وغیرہ کی باتیں کرنے والے لوگوں کو چاہیے کہ سورہ یوسف کا ترجمہ پڑھیں. جہاں حضرت یوسف کی آفات سے نمٹنے کی پلاننگ ہمارے ہاں کے مذہب پرستوں کو بہت کچھ بتلائے گی.

    ReplyDelete
  2. اور ہاں..
    اپنے برٹش کولمبیا والوں کی بات تو رہ ہی گئی. وہ کافی سیانے لوگ ہیں. ادھر تو سال بھر بارش ہوتی رہتی ہے.علاقہ بھی پہاڑی ہے. اور برساتی جنگلات سے بھرا ہوا. وہ لوگ کافی مستعد ہیں اس معاملے میں.

    ReplyDelete
  3. غریب غربا کیوں عذاب کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں یہ تو اللہ تعالی کے علم میں ہی ہے۔ لیکن ایسی کئی آفتوں کا بیک وقت آنا۔

    جہاز کا کریش ہونا
    سیلاب کا آنا
    داتا دربار جیسی جگہوں پر خود کش حملے
    ٹارگٹ کلنگ سے اموات
    بین الاقوامی میڈیا کا پروپیگنڈا اور پاکستان کو بدنام کرنے کی تیز تر کوششیں
    نالائق ترین اور خود غرض ترین حکمرانوں کی موجودگی
    کچھ سال قبل آزاد کشمیر میں زلزلہ
    بلوچستان میں دہشت گردی اور بلوچستان کا آزاد ہونے کے لیے تگ و دو کرنا
    ڈرون حملے اور ملک میں سرکش دہشت گردوں کا کھلے عام گھومنا

    امیر امرا اور بیورو کریٹ ان آفتوں سے کیوں متاثر نہیں ہوتے، شاید ان کی رسی دراز کی جا رہی ہے اور انہیں بھرپور مواقع دے کر ہی اللہ تعالی ان پر عذاب لائیں گے۔ اس سلسلے میں ۱۰۰ قتل کر کے توبہ کرنے والے انسان کی مثال دی جا سکتی ہے۔

    میں خود نہیں جانتا کہ یہ عذاب ہے یا ایک قدرتی عمل ہے جو اپنی روٹین میں ہو رہا ہے۔ لیکن میں پاکستان کے مستقبل کے سلسلے میں بہت خوفزدہ ہوں۔ اپنے بھائی بندوں پر مشکلات کی وجہ سے شدید ڈپریشن میں ہوں۔ ہم سب کو چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو سدھارنے کے عمل کا آغاز جلد از جلد شروع کر دیں۔ دین کے ستونوں کو قائم کریں اور ذات باری تعالی سے معافی طلب کریں۔
    والسلام

    ReplyDelete
  4. یھ تم جیسے بدکردار اور واحیات عورتوں کی نحوست کی وجھ سے ہو رہا ہے
    تم جیسی کنجریاں جب تک اس ملک میں پیدا ھوتی رہے گیں
    عزاب آتے رھیں گے

    ReplyDelete
  5. پہلی بات یہ ہے کہ اس دنیا میں ہم سب امتحان کے عمل سے گزر رہے ہیں، کسی پر صبر کا امتحان ہے اور کسی پر شکر کا. اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جو لوگ مصیبتوں اور پریشانیوں سے بچے ہوئے ہیں وہ اس آزمائش کا شکار نہیں وہ غلط سمجھتا ہے کیونکہ وہ شکر کے امتحان میں ہے اور شکر کا پرچہ صبر کے پرچے سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہوتا ہے.
    دوسری بات یہ ہے کہ متعدد احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ قدرتی آفات اللہ کے عذاب اور وارننگ کی ایک صورت ہیں تاکہ لوگ متوجہ ہوں اور باز آجائیں. ایک الرٹ وارننگ جو اللہ تعالی کی طرف سے جاری ہوتی رہتی ہے ہر ایک کے لئے اگر زندگی رواں ہوں اور اس طرح کے قدرتی حادثات انسان کو بے بس نہ کیا کریں تو سوچے انسان کی سوچ کہاں پہنچ جائے گی.
    عذاب کی ایک شکل وہ ہے خاتم انبین سے پہلے نازل ہوتی تھی یعنی مکمل تباہی لیکن آپ صلہ اللہ و علیہ وسلم سے وعدہ کر لیا گیا ہے کہ اب اس طرح کا عذاب کبھی نازل نہیں ہوگا البتہ وارننگ کا سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا.
    متقی لوگ ہر مصیبت اور پریشانی کو اللہ کا امتحان اور اللہ کی پکڑ سمجھتے ہیں، اور رجوع اور توبہ کی منادی کرتے ہیں. اس طرح کا تاثر پھیلا کر کہ یہ سب کچھ ایک سائنسی اور قدرتی عمل ہے جس سے اللہ کے غصے اور ناراضگی کا کوئی تعلق نہیں آپ کیوں چاہتی ہیں کہ لوگ توبہ اور رجوع کی منادی سے باز آجائیں. خود آپ صلہ و علیہ وسلم نے سورج اور چاند گرہن کے موقعوں پر لوگوں کو اللہ کے غصے اور ناراضگی سے متوجہ کیا اور توبہ اور نماز کی تعلیم دی.

    ReplyDelete
  6. آپ نے کہا
    """یہ دنیا میں موسموں میں تبدیلی کو عمل آتا محسوس ہو رہا ہے۔ تحقیق دانوں کے نزدیک اسکی وجہ گرین ہاءوس ایفیکٹ بھی ہو سکتا ہے کہ اسکے نتیجے میں زمین پہلے کی نسبت گرم ہو رہی ہے۔ زمین پہ موجود برف کا ذخیرہ اس گرمی سے گھل رہا ہے۔ فضا میں پانی کی مقدار زیادہ ہو رہی ہے۔ سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ بارشیں پہلے سے زیادہ ہو رہی ہیں اور امکان ہے کہ اب بارشیں زیادہ سے زیادہ ہوتی چلی جائیں گی۔"""
    یقینا یہ سب کچھ ہورہا ہے لیکن کسی کی مرضی اور منشاء سے، تو سب سے پہلے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس "مختار کل" کو ہاتھ جوڑ کر راضی کیا جائے اور باقی ترکیب بعد میں سوچی جائے - وہ راضی نہیں ہوا تو ہماری تمام ترکیب صفر بٹا صفر ہونگی. صفر بٹا صفر.

    ReplyDelete
  7. http://www.nytimes.com/2010/07/13/science/13gravity.html?_r=1&no_interstitial

    یہ بڑی دلچسپ چیز تھی۔ اسی طرح کئی فیکٹرز ہوتےہ یں ہم ایک چیز پر سب ذمہ ڈال کر فارغ ہو جاتے ہیں۔
    گریک میتھالوجی بڑی دلچسپ ہے۔ بتاتی ہے کہ بیتے زمانے کے انسان خدا کا کیا نظریہ رکھتے تھے۔ آج ہم جن پر ہنسی اڑاتے ہیں وہ شاءد کبھی ان کی توحید تھی۔ جیسےآج کل اسلام کے بنیادی عقاءد کا سرمہ بنایا جا رہا ہے کہ ایک کی نظر تیز اور دوسرے کو انھا کرنے کا سامان ہو۔

    ReplyDelete
  8. بی بی! :۔ گرین ہاؤس ایفیکٹ کا نظریہ جدید تحقیق سے مشکوک قرار دیا جارہا ہے اور کچھ سائیسندان اسے باطل تک قرار دے
    رہے ہیں۔ یعنی گیسوں کے اخراج کا، زمین کے بتدریج بڑھتے ہوئے درجہِ حرارت سے کوئی تعلق نہیں۔ قرین قیا س یہ ہے کہ
    ترقی یافتہ مغربی ممالک اس نظریے کے تحت دنیا میں تیزی سے ابھرتی ہوئی غیر مغربی ممالک کی معشیتوں کو بلیک میل کرنے اور
    انکی اقتصادی ترقی کو قابو رکھنے کے لئیے ایک حربے کے طور پہ استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔

    جس نقارخانے میں ہر طوطی ڈیڑھ اینٹ کا گھروندہ بنائے اپنی اپنی ہانکے جائے اور نہ صرف ہانکے جائے بلکہ باقیوں پہ اسے مسلط
    کرنے کا جتن بھی کرے۔ وہاں قوموں کا ایسا حشر تاریخ سے ثابت ہے۔ آفاقی عوامل اس عمل کو تیز بنا دیتے ہیں۔قدرت جب
    کسی قوم کی گوشمالی کا بندوبست کرتی ہے۔ تو اس قوم کی اکثریت اس گوشمالی کا شکار ہوتی ہے۔ دستِ قدرت کو اس سے غرض و
    غایت نہیں ہوتی کہ اس مخصوص قوم کی اکثریت امیر ہے یا غریب۔ تاریخی طور پہ قدرتی آفات سے متاثر ہو کر تبدیلی کا رحجان
    اسی وقت پیدا ہوا جب کسی قوم کی اکثریت ایسی آفات اور تغیر کا شکار ہوئی ۔ ورنہ دوسری صورت میں ایسی قومیں ناپید ہو
    گئیں۔قدرت جب کسی امر کا ارادہ باندھتی ہے تو نتیجے کے طور پہ اسباب پیدا کرتی ہے ۔ایسے اسباب بعض اوقات انسانی فہم سمجھنے
    سے قاصر اور دانش اس پہ نکتہ رسائی سے محروم ہوتی ہے۔لیکن ایسے حالات اور اسباب کے نتیجے میں بڑے بڑے تغیر نمو ہوتے
    ہیں۔

    قوموں اور دنیا کی تاریخ کا بغور مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے۔ کہ اس وقت تک ایسی آفات کا ردعمل جو عموما عوامی ایجی ٹیشن یا
    حکمرانوں کی جاری کی گئیں اصلاحات یا دونوں کی صورت میں ہوتا ہے۔ ایسا ردعمل تبھی سامنے آتا ہے جب دست قدرت کسی
    قوم کی اکثریت کو متواتر جھٹکے دیتا ہے کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہوں ۔ اب یہ الگ موضوع ہے کہ بد قسمتی سے یہ اکثریت
    پاکستان میں نہ صرف غریب بلکہ مفلوک الحال ہے۔ جو کہ اپنی جگہ پہ بجائے خود ایک آفت ہے۔


    فرانس کا انقلاب جو جو دنیا میں جدید اور موجودہ مغربی جمہوریت کا پیش خیمہ ثابت ہوا جسکی محرک فرانس کی اکژیتی آبادی اور عوام
    تھے جو انتہائی غربت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔انیس سو سترہ میں اشتراکی انقلاب کی بھی بنیاد اکثریت کے مسائل اور غربت
    تھی۔

    اگر کسی قوم کی اکثریت متاثر نہ ہو تو مطلوبہ ردعمل پیدا نہیں ہوتا۔ اور یہ مطلوبہ ردعمل ہی ہوتا ہے جو اقوام کی اکثریت کو عیش
    پرست اور نااہل اقلیت خواہ حکمران ہوں یا اشرافیہ، انکا کا محاسبہ کرتا ہے اور نتیجتاََ وہ تبدیلی آتی ہے جس کے بارے میں اقوام عالم
    کی تاریخ بتاتی ہے اور مطلوبہ ردعمل نہ ہونے کی صورت میں قومیں تتر بتر ہو جاتی ہیں۔

    دیگر مذاہب کی طرح اسلام میں بھی ایسی آفات کے نازل ہونے پہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کی تلقین اور ہدایت ہے ۔جس سے
    قوم کو فائدہ تو بہت ہے مگر نقصان کوئی نہیں ۔ لہٰذاہ ہر قسم کے واقعے کو بنیاد بنا کر الہامی مذاہب اور اسلام کی آفاقی تعلیمات سے
    چھیڑ چھاڑ دانشمندی نہیں۔ جبکہ جمہور کے مرؤجہ قوانین کے مطابق اکثریت کے جذبات کا احتام کیا جانا چاہئیے۔

    بی بی!۔: آپ نے سیلاب اور قدرتی آفات کے لئیے جو تجاویز دیں ۔ایسی ہی ملتی جلتی تجاویز سے دنیا کے اکثر بیشتر مہذب ممالک
    میں سیلاب جیسی اور ملتی جلتی آفات پہ قابو پایا جاتا ہے اور وہاں فوری ردعمل اور امداد کے متعلقہ ادارے ہمیشہ اسٹینڈ بائی حالت
    میں ہوتے ہیں ۔ تانکہ کسی بھی ناگہانی واقعہ کی صورت میں فوری حرکت میں آسکیں اور متاثرین کو ریلیف بہم پہنچا سکیں۔ مگر
    ہماری قوم کے بادشاہ اور رہنماء نہ صرف مالی اور سیاسی طور پہ کرپٹ ہیں بلکہ یہ اخلاقی طور پہ بھی دیوالیہ ہیں۔ آپ نہ جانےکیوں
    ان سے یہ امید لگائے بیٹھی ہیں کہ وہ اسطرح کی تجاویز پہ عمل کریں گے؟،۔ اگر ایسی تجاویز اور خلوص نیت سے کئیے گئے اسطرح
    کے ملتے جلتے اقدمات پاکستان میں زندگی کے ہر شعبے میں کئیے جاتے تو سیلاب کے نقصانات ہی پہ بس نہیں بلکہ پاکستان کا اقتدارِ
    اعلٰی کو درپیش خطرات ، ناخواندگی، عدم برداشت ، غریبی ، توانائی کی کمی ، پانی اور خوراک کے بحران سمیت پاکستان میں ہر قسم کے
    بحرانوں سے نمٹا جاسکتا تھا۔ملک میں دہشت گردی یا کوئی بھی ناگہانی آفت آتی ہے تو انکی لاٹری نکل آتی ہے۔گھوڑا گھاس سے
    دوستی کر لے تو کھائے گا کیا؟۔
    جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    ReplyDelete
  9. جنا ب یہ سب ہمارے پاک لوگوں کے اعمال کا نتیجہ ھے ، ا

    ایک مشورہ ھے جی آپ مُوڈیش لگا دے نہیں تو مولوی جیسے کمینوں نے اپنے دودھ کی تاثير دیکھاتے رہنی ھے،،،

    http://phapheykutni.3papillons.fr/?p=192

    ReplyDelete
  10. پاکستانی قوم کو اس وقت انتہائی تشویشناک حالات کا سامنا ہے۔ مشکلات سے نجات کے لئے اس وقت قوم کو اجتماعی توبہ کرتے ہوئے اللہ سے مدد طلب کرنی چاہیے۔ اللہ کے اسم” یاسلامُ“ کا انفرادی اور اجتماعی طور پر زیادہ سے زیادہ ورد کیا جائے۔

    ReplyDelete
  11. پاک لوگ، اس وقت ماڈریشن لگی ہوئ ہے۔ اس میں سے انکا یہ ایک کمنٹ میں نے پھر بھی جانے دیا۔ کہ سند رہے اور کام آئے۔ یہ ہمارے ملک کے اکثریتی لوگوں کا دعوی ہے کہ اس ملک میں خواتین کی 'بڑی عزت' ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک اسلامی ملک ہے۔ نمونہ حاضر ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستانیوں پہ الزام ہے کہ وہ فحش سائیٹس میں دلچسپی زیادہ رکھتے ہیں۔ جو لوگ اپنے قلم سے جو دل چاہے لکھ سکتے ہیں وہ جس میں چاہے دلچسپی لیں۔تو یہ نمونہ میں نے یہاں چھوڑ دیا ہے۔
    اب اسکی دوسرے لوگ جو بھی توجیہہ نکالیں، مولوی صاحب اسی ماعشرے کی ایک تصویر ہیں وہ جو ہمارے معاشرے کا ایک مکروہ حصہ ہے مگر جسکی موجودگی سے لوگ انکاری ہوتے ہیں۔
    جاوید صاحب، مروجہ جمہوری روایات کی اگر آپ بات کریں کہ نہ کی جائیں کہ ان سے دل دکھتا ہے اکثریت کا تو گستاخی معاف کہ اکثریت توہمات اور رواج کے بندھنوں میں جکڑی ایسی قوم ہے جو اپنے لئے گڑھے کھودنے می۹ں مصروف ہے۔اگر اکثریت کے دل دکھنے کی بات کرتے ہیں تو ہمیں جعلی ڈگریوں پہ بھیخاموش رہنا چاہئیے کیونکہ اکثریت ان جعلی ڈگری والوں کو منتخب کر کے لائ ہے۔ اور اکثریت نے جعلی ڈگری کی وجہ سے مستعفی شخص کو دوبارہ ووٹ دے کر اسمبلی میں پہنچایا۔ اکثریت کا خیال ہے کہ ملک کی تباہی میں تعلیمیافتی لوگوں کا ہاتھ زیادہ ہے، اکثریت یہ سوچتی ہے کہ سیاست امراء کا کھیل ہے، الثریت یہ سوچتی ہے کہ مولوی صاحب کا پیش کردہ مذہب ایک درست مذہب ہے۔ اکثریت یہ سوچتی ہے کہ اسکے عقیدے سے ہٹ کر جو مذہب ہے اسکے ماننے والے واجب القتل ہیںاکثریت کے باقی خیالات پہ اسی طرح آمنا و صدقنا کیا جائے تو دنیا میں ہی دوزخ کے نام پہ ایک ملک موجود ہوگا جس کا نام پاکستان ہوگا۔
    اگر بارش سے پہلے میں اپنے گھر کے چھجے صاف نہ کرواءووں تو اس پر پڑے پتوں کے ڈھیر کی وجہ سے پانی چھت پہ جمع رہے گا اور رس رس کر نہ صرف اندر ٹپکے گا بلکہ عمارت کی بنیادوں کو بھی کمزور کرے گا۔ سالہا سال میری لا پرواہی سے جب یہ عمارت مخدوش ہو کر ایکدن بھری برسات میں گذر جائے گی تو یہ خدا کی طرف سے عذاب ہو گا یا میری منتخب کردہ سزا۔
    آپ نے کہا کہ یہ نظریہ غلط ثابت ہو گیا ہے۔ فی الوقت تک یہ نظریہ کلیتاً غلط ثابت نہیں ہوا۔ اس لئے میں نے اسکے لئے لفظ ہو سکتا ہے استعمال کیا ہے۔ اسے رد کرنے کے لئے جو دوسرا نظریہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں انسان کو اسکا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاتا بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ زمین ہر کچھ عرصے بعد جو ہزاروں سال پہ مشتمل ہوتا ہے موحالیاتی استقامت حاصل کرنے کے لئے ایسی شدید تبدیلیوں سے گذرتی ہے جس سے اسکا ماحول ایکدم تبدیل ہو جاتا ہے۔ جیسے زمین پہ کئ دفعہ یہ عالم آیا کہ اس پہ برفانی دور کا راج رہا۔
    لیکن یہ ماننے میں کسے تامل ہے کہ اس میں انسانی کوششوں کا دخل نہیں۔ دوسرے یہ کہ عذاب تو کوئ غیر متوقع چیز ہوتی ہے۔ لیکن بارش، سیلاب ، سونامی اور زلزلے تو اب اتنے غیر متوقع نہیں رہے۔ دنیا کی آبادی اتنی بڑھ چکی ہے کہ جن حادثات میں پہلے چند سو لوگ مرتے تھے ان میں اب ہزاروں لوگ مر جاتے ہیں۔ اگر ہر امر کو دا کا عذاب مان لیا جائے تو نہ اس سے بچاءو کی کوئ صورت بنے، نہ اس پہ کوئ سوچ بچار ہو کہ اب کیا کیا جائے۔ حادثات کے مقابل کھڑآ ہونا اور زندگی کو ایک چیلینج سمجھ کر قبول کرنا یہی فطرت انسانی ہے ورنہ جانور بھی سر تسلیم خم کئے رہتے ہیں۔
    البتہ یہ کہ کوششوں سے فیضیاب ہونے کی اجازت خدا دیتا ہے اور کوئ نہیں۔
    میں اس ساری چیز کو جس مین امراء عیاشی کرتے رہیں اور عوام مشکلات کا سامنا کرتی رہے ہرگز عذاب الہی نہیں سمجھتی۔ یہ ہماری غلط منصوبہ بندی، مستقبل کی طرف سے لاپرواہی برتنا اور حض آجکے کے لئے زندہ رنے کی خواہش کی وجہ سے ہے۔ زندہ قومیں محض آج نہیں آنے والے کل کے بارے میں بھی سوچتی ہیں اور صرف اپنے یا اپنے بچوں کے لئے نہیں جیتیں بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کے لئے منصوبہ بندی کرتی ہیں۔
    جو صرف آج میں رہتے ہیں انکے لئے ہر مشکل وقت عذاب الہی ہے۔ اور مشکل وقت کیا زندگی بھی کسی عذاب سے کم نہیں۔

    ReplyDelete
  12. اقتباس:
    گرین ہاؤس ایفیکٹ کا نظریہ جدید تحقیق سے مشکوک قرار دیا جارہا ہے اور کچھ سائیسندان اسے باطل تک قرار دے
    رہے ہیں۔ یعنی گیسوں کے اخراج کا، زمین کے بتدریج بڑھتے ہوئے درجہِ حرارت سے کوئی تعلق نہیں

    تبصرہ:
    یہ نقطہ نظر درست نہیں۔۔ سائنسدانوں کی اکثریت گرین ہاؤس گیسوں اور بڑھتے درجہ حرارت کے تعلق پر پوری طرح متفق ہے۔ اس میں اس وقت کائنسپریسی تلاشنا اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔

    ReplyDelete
  13. اللہ نے غریبیوں کے لئے جنت واجب کر دی ہے ، ان امیروں کو چند روزہ عیش کرنے دیں ، ہمیشہ کی جنت سے تو محروم ہیں۔
    ایسی "خوشخبریوں" میں گھرے غریب کو جانے کب عقل آئے گی ، قسمت کا رونا رو کر صبر (اردو و عربی دونوں والا) کر کے بیٹھ جانے والے غریب کو ووٹ دیتے وقت قوم قبیلہ زبان یاد رہتی ہے کردار نہیں ، حق چھیننے کی جرات نہیں ، ڈٹ جانے کی عادت نہیں ، تو پھر یہ عذاب تو بھگتنا ہی پڑے گا ، سو بھگت رہے ہیں اور بھگتتے رہیں گے۔
    وسلام

    ReplyDelete
  14. یا اللہ میرے سرحد کے لوگوں میرے پنجاب اور کشمیر کے لوگوں اور میرے بلوچستان اور سندھ کے لوگوں کے حال پر رحم فرما انہیں ان زمینی اور آسمانی آفات سےنجات عطافرما،آمین یا رب العالمین :pray :hrtbrkin

    ReplyDelete
  15. عنیقہ آپنے بالکل صحیح کہا ہے مگر بعض لوگ کوئیں کے مینڈک بنے رہنا چاہتے ہیں اور ان جیسوں ہی کی وجہ سے 62 سال سے نالائق حکمراں ہم پرمسلط رہے ہیں مجھے تو کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ پتہ نہیں ان حکمرانون کے کتنے زرخرید بلاگس بھی لکھتے ہیں تاکہ لوگون کے زہنوں کو اسی طرح ان کے گناہوں اور اللہ کے عزابوں سے باندھے رکھیں،
    اعمال کی برائی اپنی جگہ ہے مگراس میں سب سے برا عمل برے حکمرانوں کا انتخاب اور ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھاناہی ہے،جو ملک گرین ہاؤس گیسیس پیدا کررہے ہیں انکا بھی وہی حال ہے جو ہمارے ملک کا ہے سو یہ سب تو ہوگا ہیِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ReplyDelete
  16. مس عنیقہ
    آپ نے لکھا کہ آپ نے موڈریشن لگائی ہوئی ہے ۔ اسو کے باوجود آپ لوگوں کو مولوی جیسے لوگون کی کمینی خصلت کو شئیر کررہی ہیں ،،،یہ ٹھیک نہیں،،، اس سے ہمارےجیسے قارئین OFFENSIVE ہوتے ہیں۔
    مانا کہ آپ کا دل بڑا ہے لیکن آپ دوسروں کا بھی خیال رکھیں

    ابن انوار

    ReplyDelete
  17. کاربن سائیکل پر کسی وقت لکھ دیں مضمون، بہت سوں کا بھلا ہو جائے گا

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ