Tuesday, August 17, 2010

جمود سے باہر

اٹھائیس جولائ کو سیلاب آنے کی پہلی اطلاع آئ۔ اور گذشتہ تین ہفتوں میں پاکستان کی اب تک کی تاریخ کے اس شدید سیلاب نےہمارے حکمرانوں کی بے حسی کے نئے باب رقم کر دئیے۔
ٹی وی پہ وزیر اعظم جیلانی ڈی آئ خان کے ایک اور جعلی کیمپ پر بذریعہ جہاز پہنچے۔ ایک بیان دیا اور پھر جہاز میں نڈھال ہو کر سیٹ پہ پڑے تھے کہ ٹی وی کے ایک اینکر پرسن نے انہیں جا لیا۔ وہ اس طرح سیٹ پہ نیم لیٹی حالت میں اسکے سوالوں کا نیم مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتے رہے۔ اس سوال پہ کہ سیلاب کے بعد لوگوں کی بحالی کا کیا پروگرام ذہن میں ہے انہوں نے اپنے اسی مجاورانہ اطمینان سے جواب دیا۔ پہلے اس مرحلے سے تو نکلیں۔ یہ ہیں ہمارے سیلاب زدہ ملک کے مطمئن راضی بہ تقدیر، وزیر اعظم۔
زلزلہ آنے کے بعد مجھے یاد ہے کہ مشرف نے قوم سے خطاب کیا تھا۔ وہ تقریر خاصی پر جوش تھی۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ قوموں کی تاریخ میں ایسے حادثات ایک نئ تبدیلی کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس میں انہوں نے حکومت کے اس وقت تک کئے گئے امدادیاقدامات بتائے اور آئیندہ کا لائحہ عمل واضح کیا  اور میسر پیسوں کے بارے میں بتایا۔ یہ الگ کہانی کے آگے کیا ہوا۔ لیکن اس چیز نے سراسمیہ قوم کے اندر ایک جذبہ تو پیدا کیا تھا۔ رضاکاروں کی ایک بڑی تعداد وہاں پہنچی۔ لوگوں نے مسائل کے مختلف حل تجویز کئے، وغیرہ وغیرہ۔ معاشی حالات اس وقت کافی اچھے تھے لوگوں نے دل کھول کر امدادی کاموں میں حصہ لیا۔
لیکن آج دیکھیں۔ اس وقت جب عوام مہنگائ کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ہر نیا دن چیزوں کے نرخ میں اضافے کی ہوشربا خبر لاتا ہے۔ ہم سنتے ہیں کہ زرداری صاحب کا فرانس میں محل ہے جو کسی زمانے میں انگلینڈ کے بادشاہ نے اپنی ملکہ کے لئے خریدا تھا۔ انکا کہنا ہے کہ یہ محل تو دراصل انکے والد صاحب نے اسّی کی دھائ میں خریدا تھا۔ البتہ یہ نہیں بتایا کہ اس وقت انکے والد گرامی کراچی کا بمبینو سینما کسی کے ساتھ شراکت میں چلا کر اتنی بڑی رقم کیسے اکٹھا کر پائے کہ اس سے قوم کے موجودہ نوجوانوں میں کم از کم پیسہ کمانے کی لگن تو پیدا ہوجاتی۔
ایک ایسی حکومت جسکے سربراہ اعلی سے لیکر ہر ہر نمائیندے کے بارے میں کرپشن کی کہانیاں زبان زد عام ہوں۔ انہیں کوئ شخص اپنا پیٹ کاٹ کر امدادی رقوم کیوں دے گا۔ اس لئے کہ آج سے دو سال بعد ان کے دنیا کے کسی امیر ترین ملک میں محل کی خبر سنے۔
حکومتی مشینری اس قدر نا اہل ہے کہ ان تین ہفتوں میں ان لوگوں کو قوم کو جذبہ دینے کے لئے الفاظ بھی نہ مل سکے۔ سندھ میں سیلابی پانی سے بیراجوں کو بچانے کے لئے بند توڑنے کے مسئلے پہ پارٹی کے درمیان پھوٹ پڑ گئ۔ ہر ایک چاہ رہا تھا کہ اسکا علاقہ بچ جائے۔ نتیجۃً جب خورشید شاہ، ممبر سندھ اسمبلی اپنے علاقے میں پہنچے تو لوگوں نے انکی گاڑی پہ پتھراءو کر دیا۔ ادھر وزیر خاتون حنا ربانی کھر جب اپنے علاقے پہنچیں تو انکے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔
مولانا فضل الرحمن سیلاب کے ایک ہفتے بعد سعودی عرب عمرے کے لئے روانہ ہوگئے۔ انکے انتخابی حلقے میں اس وقت آٹھ لاکھ افراد متائثرین میں شامل ہیں۔ انکے گھر اور مدرسے کو بچانے کی خاطر کہا جاتا ہے کہ وہاں سے گذرنے والی سڑک نہیں توڑی گئ اور سیلاب نے دوسرے علاقوں کو شدید متائثر کیا۔  
یہ وہ جمہوریت ہے جسکے لئے ہم پچھلے دو سال سے سن رہے ہیں کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ ایک حکومت جسے لوگ ووٹ تو دیتے ہیں خدا جانے کیسے لیکن اسے اپنے نوٹ کی قدر کا صحیح حقدار نہیں سمجھتے۔
نوبت یہ ہے کہ اقوام متحدہ بھی ممبر ممالک کو  پاکستان کو قابل ذکر امداد دینے پہ راضی نہ کر سکی۔ ایک اندازہ، پاکستان کی کرپشن اور دہشت گردی کی وجہ سے مشہوری۔ 
اپوزیشن لیڈر نواز شریف نے کہہ دیا ہے کہ پاکستان اپنے پیروں پہ کھڑا ہونے کے قابل ہے ہمیں بین الاقوامی امداد نہیں چاہئیے۔ وزیر اعظم نے کہا ہمیں ہر امداد کی ضرورت ہے جو ہماری مدد کرے گا وہی ہمارا دوست ہوگا۔ مولانا فضل الرحمن کے ترجمان وزیر مولانا عطا الرحمن کے مطابق مولانا فضل الرحمن عمرہ ادا کرنے کے ساتھ سعودی حکومت اور خیراتی داروں سے پیسے جمع کرنے بھی گئے ہیں۔
عوام کی بڑی تعداد اپنے جاننے والے سماجی خدمت انجام دینے والے لوگوں سے رابطہ کر رہی ہے تاکہ انکی مدد مناسب حقدار تک پہنچے۔ عام لوگ اپنے طور پہ امداد جمع کر کے پہنچانے کا بند و بست کر رہے ہیں۔، وہ حکومت پہ، سیاسی رہنماءووں پہ کوئ اعتماد نہیں رکھتے۔ لوگ اپنے جاننے والوں کو باہر سے فنڈ جمع کر کے بھیج رہے ہیں مگر حکومت کو نہیں دینا چاہتے۔
   لیکن جہاں متائثرین کی تعداد دو کروڑ ہو وہاں یہ انفرادی کوششیں اتنی زیادہ نتیجہ خیز کیسے ثابت ہو سکتی ہیں۔  بلدیاتی نظام اس وقت مدد کر سکتا تھا لیکن سیاسی طاقتوں نے اسےاپنے پیسہ بٹورنے کے راستے میں ایک رکاوٹ سمجھا اور اسے ختم کر دیا۔ کسی نے اس قدم کے خلاف آواز تک نہ اٹھائ۔ 
جب تک حکومت اس میں دلچسپی نہ لے یہ عوامی منتشر کوششیں کیسے اتنے سنگین حادثے کو قابو میں لا سکتی ہیں۔  حکومتی ذرائع ان انفردای کوششوں سے کہیں زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ انکے پاس پورا انفرا اسٹرکچر ہوتا ہے، وسائل اور افرادی قوت ہوتی ہے۔ 
 ایسے ہی کراچی سے سندھ کے سیلابی علاقوں کی مدد کے لئے جانے والے  ٹرکس متائثرین تک پہنچنے سے پہلے راستے میں لوٹ لئے گئے۔ ادھر چار سدہ سے آنے  والے ایک دوست نے بتایا کہ امداد کی تقسیم صحیح طور پہ نہ ہونے سے ایسی ہی لوٹ مار ہو رہی ہے۔ حالات کا فائدہ اٹھا کر ڈاکو بھی سرگرم عمل ہو گئے ہیں۔ یہاں سندھ میں بھی ایسے واقعات کی بازگشت سنائ دے رہی ہے۔ آج ہی متائثرین کے ایک کیمپ میں امدادی سامان کی تقسیم کے وقت وہ بھگد ڑ مچی کہ پولیس کو شدید لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ ٹی وی ہی کی ایک خبر کے مطابق ایک اور جگہ،  ہجوم میں مچ جانےوالی بھگدڑ کو قابو میں لانے کے لئے کی جانے والی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہو گیا۔

یہ ہے ایک دھندلی سی تصویر حالات کی۔ ایک ایسی قوم کی جو ایک مضبوط مرکز نہیں رکھتی، ایک منتشر قوم جسے سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ وہ اس مصیبت میں کس کی طرف منہ اٹھا کر دیکھے۔ اس سب افراتفری سے کیسے باہر نکلیں، کون حالات سنبھالے، بے گھر لوگوں کو دوبارہ آباد کرنے میں کون مدد کرے، زمینوں کو شاداب کرنے کے وسائل کیسے ملیں۔ کون لوگ سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور ایک لائحہ ء عمل بنائیں گے جس پہ تمام قوم کو یقین اور بھروسہ ہوگا۔ ایک لا وارث اور تنہا ہونے کا احساس،  جو حالات پہ طاری ہے۔
 ان حالات میں کوئ اس انتشار کے درمیان ذرا بھی اتحاد کی علامت بنا ہوا ہے تو وہ پاک افواج ہیں۔ لیکن افواج کی تربیت تحفظ کے لئے ہوتی ہے۔ ملک کی ترقی کی منصوبہ سازی کرنا، عوام کو ایک بہتر زندگی گذارنے کی سہولیات دینا ان میں ایک کامیاب قوم ہونے کا جذبہ پیدا کرنا یہ انکا کام نہیں۔ 
کتنی عجیب بات ہے کہ ہر دفعہ جمہوریت اپنی آزمائیش کے وقت ناکام ہوجاتی ہے۔ اس لئے کہ یہ جمہوریت، جمہور کے لئے نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ معاشرے کے اعلی طبقات کو احساس طاقت دیتی ہے اور بس۔ اس تمام پس منظر میں لگتا  ہے کہ ہمیں متحد رہنے کے لئے ایک نئے سیاسی اور سماجی نظام کی ضرورت ہے۔ شاید وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے کئ دہائیوں کے جمود سے باہر نکلیں۔ اور عوام اور خواص کی تعریف کو بدل ڈالیں، بھیڑ بکریوں کی طرح زندگی گذارنے والوں کو اپنے انسان ہونے کا احساس بیدار کرنا ہوگا۔ یہ سیلاب شاید ایک نئ مضبوط تبدیلی سے قوم کو روشناس کرانے کا موقع ہے، ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔

28 comments:

  1. دو ہزار پانچ میں لوگوں کو مدد کے لئے پرجوش کرنے کی سب سے بڑی وجہ مشرف کا خطاب نہیں بلکہ ہزاروں لوگوں کی اموات تھیں. اور آج اگر مخیر افراد کا جذبہ سرد ہے تو وجہ حکومتی اداروں کی کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے پیدا ہونے والی عدم اعتمادی ہے. باقی رہی موجودہ حکومت تو یہ اپنے تماشوں سے از خود ایک گالی بن چکی ہے.

    ReplyDelete
  2. گیلانی ہے کہ جیلانی؟
    وہ نڈھال تھے کہ ٹن؟
    آپ نے سبھی سیاہ ست دانوں کا ذکر کر دیا میں اپنے پسندیدہ سیاہ ست دان کا پوچھنا چاہ رہا تھا کہ بھائی نے کچھ بھیجا کہ صرف جیو کو فون اور رابطہ کمیٹی کو ہدایات جاری کی ہیں؟

    ReplyDelete
  3. بہت صحیح تجزیہ ہے آپکا عنیقہ،
    مگر مصیبت یہ ہے کہ یہ لوگ جنہیں ان کے حاکم بھیڑ بکریوں سے بھی بدترسمجھتے ہیں اگلے الیکشنوں میں دوبارہ انہی کو ووٹ ڈالیں گے ،اس سے پہلے کتنے ہی سیلاب آئے اور اسی طرح بڑے لوگوں نے اپنے کھیت کھلیان فیکٹریاں اور حویلیاں بچانے کے لیئےانکا رخ غریبوں کی بستیوں کی طرف کردیا،کیا اس سے ان لوگوں نے اپنےحاکم بدل دیئے نہیں،کیونکہ انہیں انہی لوگوں کے ساتھ رہنا ہے اور ان سے دشمنی مول لے کر بھلا جی سکیں گے یہ لوگ؟؟؟؟
    ان کا حساس بیدار ہوگا تو صرف اور صرف تعلیم سے،کہ علم ہی جانور اور انسان میں تمیز کرتا ہے اور وہ انہیں کون دےگا،اس کے آگے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے
    جن کے دلوں میں وطن سے محبت اور اس کے لیئے کچھ کر گزرنےکا جزبہ ہوتا ہے وہ الگ ہی نظرآتے ہیں مگر ایسوں کو پہچاننے کے لیئے نظربھی تو ہو !!!!
    پرویز مشرف کو اس ملک سے جن لوگوں نے مشرف کتا کہہ کرنکالا تھا،ان کے لیئے اس نے اپنی ذاتی حیثیت میں ایک کروڑ دیا ہے،
    زلزلہ میں نواز شریف اور شہباز شریف سعودی عرب میں اسٹیل مل لگا چکے تھے مگرزلزلہ زدگان کے لیئے دینےکے لیئے ان کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی اور نہ ہی بے نظیر اور زرداری نے ہی اس میں کوئی کنٹریبیوشن کی تھی !!!!!

    ReplyDelete
  4. آج ٹی وی کے پروگرام لایو ود طلعت میں وڈیو کے ذریعے بتایا گیا کہ پیر صدر الدین شاہ راشدی کے پھلوں کے باغات بچانے کے لیئے دریا کے راستے میں ایک بند تعمیر کیا گیا،ایسے بندوں کی تعمیر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پانی گھومتا ہے اور یہ گھومتا ہوا پانی جو اصلی بند ہوتے ہیں ان میں دراڑیں ڈال دیتا ہے اور یوں وہ علاقے جو محفوظ ہوتے ہیں سیلاب کی زد میں اجاتے ہیں ظاہر ہے یہ ان عام لوگوں کے علاقے ہوتے ہیں جو نہ تو بڑے زمیندار وڈیرے ہیں اور نہ ہی ان کے کسی سیاست داں سے تعلقات ہیں،
    وڈیو میں ان کے ہرکاروں کو بند مظبوط کرتےدکھایا گیا ہے یہ کون ہیں وہاں کے عام لوگ!!!
    جب کوئی سب کچھ جانتے بوجھتے خود کشی کرنےکو تیار ہو تو ہم اور آپ جیسے چند انہیں کیسے روک سکتے ہیں !!!!

    ReplyDelete
  5. آپ نے حنا ربانی کھر کو نون لیگ کی وزیر قرار دیا ہے جس پر نون لیگ والے آپ پر ناراض بھی ہوسکتے ہیں
    یہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں

    ReplyDelete
  6. تو خود ہی پھر سارا انتظام سمبھال لے نا
    رو کیوں رہی ہے

    ReplyDelete
  7. عبداللہ، یہ بھی بڑی عجیب سی بات ہے۔ یہ شر پسندی پھیلانے والے ہر موقع کو اسی طرح استعمال کرتے ہیں۔ اسی ذہنیت کے لوگ ہمارے سیاستدانوں میں شامل ہیں۔

    ReplyDelete
  8. عنیقہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمران نے تاریخی بے حسی کا ثبوت دیا ہے.
    عثمان میں آپ سے متفق ہوں. ایک اور چیز یہ بھی ہے کہ 2005 میں صرف ایک سانحہ سامنے تھا اب سانحات کی ایک لمبی فہرست ہے، جب نوشہرہ ڈوب رہا تھا تو جہاز گر گیا اور میڈیا کو توجہ اس طرف کرنی پڑی، جب سیلاب پنجاب اور سندھ کی سرحد پر تھا تو کراچی میں بھائی لوگ رضا حیدر مرحوم کی روح کو ایصال ثواب پہنچارہے تھے چنانچہ پھر اس طرف آگیا اور پھر جب با لائی سندھ کے شہر ڈوب رہے تھے تو ہر طرف زرداری کا جوتا تھا، موبائل اسکرین پر بھی اور ٹی وی چینلز پر بھی..
    عبداللہ صاحب مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کے پڑھے لکھے لوگ بھی اس طرح سے فوجی آمروں اور غاصبوں کی مدحہ سرائی کرتے ہیں. اسے کہتے ہیں منافقت کہ ایک طرف روشن خیالی اور جمہوری اصولوں کی بات کی جائے اور دوسری طرف غاصب آمر کو صرف اسکی نسل اور فکر کی بنیاد پر عزیز رکھا جائے. صاحب پرویز مشرف نے اپنے دس سالوں میں وطن عزیز کو جن مسائل کا شکار کر دیا ہے انکا ازالہ آئندہ پچاس سال میں بھی ہوتا نظر نہیں آرہا. اگر وہ آمریکہ پرست ظالم شخص پاکستان میں کچھ چھوٹے بڑے ڈیم بنالیتا تو نہ آج توانائی کا بحران ہوتا اور نا سیلاب سے ملک ڈوبا ہوا ہوتا.

    ReplyDelete
  9. ہم اپنا سارا پيسہ فوج اور ملکی دفاع پہ خرچ کر ديتے ہيں اور اپنی عوام کو مصيبت سے نکالنے کے ليے بھکاريوں کی طرح ساری دنيا سے پيسہ مانگتے پھرتے ہيں۔ جب تک پيسہ آتا ہے اس وقت تک مصيبت زدہ عوام ميں سے اکثر اپنی مدد آپ کے تحت سيٹ ہو چکے ہوتے ہيں اور جو نہيں سيٹ ہو پاتے ہيں وہ دوسری دنيا کو سدھار جاتے ہيں۔ تو فقط فوٹو سيشن کے ليے دو چار سو لوگوں کو نہ کيش ہونے والے امدادی چيک تھما ديے جاتے ہيں۔ باقی رقم ايک بار پھر فوج اور بيوروکريٹس کی جيب ميں چلی جاتی ہے۔

    ReplyDelete
  10. یہ حکومت صرف بے حس نہیں بے غیرت اور بے زمیر بھی ہے. اسکے وزرا اپنی زمینیں بچانے کیلئے غریبوں کی بستیوں پر پانی چھوڑ رہے ہیں. اکثر بند وہاں توڑے جارہے ہیں جہاں مخالفین کے علاقے ہیں. کئی علاقوں کے وڈیروں نے ایک تو غریبوں کو بے گھر اور برباد کر دیا دوسرا اب انہیں محفوظ علاقوں سے نکلنے سے بھی منع کر رہے ہیں کہ وہیں امداد پہنچے گی. صدر اور وزیر اعظم کے لئے انکی منشاء سے متواتر ڈھٹائی کے ساتھ جالی کیمپ لگائے جارہے ہیں. کل سابق وزیر اعظم جمالی کی مسلح افواج کے سربراہ سے ملاقات ہوئی تو وہ آبیدیدہ تھے کہ انکے علاقے کو جان بوجھ کر ڈوبویا گیا. حکمران اب ٹھٹہ اور بدین کی زمین کو بچانے کے لئے حیدرآباد شہر کو بھی ڈبونا چاہتے ہیں لیکن سنا ہے کہ ایم کیو ایم اس ارادے کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہوگئی ہے. لطیف آباد، حیدرآباد میں نوید کنور کی کوٹھی کے گرد بوریوں کی دیوار کھڑی کردی گئی ہے جو حکمرانوں کی زہنیت کا پتہ دیتی ہے.
    وزیر اعظم نے تو کہ دیا پچاس برس پیچھے چلے گئے یعنی اب آئندہ تین سال کے دوران ہر معاشی مسئلہ کا ایک ہی جواب ہوگا صاحب سیلاب، صاحب سیلاب

    ReplyDelete
  11. کلی متفق۔ اس وقت سوائے فوج اور چند نجی فلاحی اداروں کے کوئی بھی میدان میں اتر کر اس سیلاب کا مقابلہ کرنے میں اپنے بھائیوں بہنوں کی مدد نہیں کررہا۔

    رہا یہ سوال کہ حکومت کیا کررہی ہے؟ تو اس کا جواب اب سے دو روز قل آئی ایم ایف سے موصول ہوچکا ہے۔

    ReplyDelete
  12. ايسی آفتيں اس وقت آتی ہيں جب مسلمان دين سے دور ہو جائيں اور بے حيائی، عريانی، بے ايمانی، لالچ اور حسد عام ہو جائے۔ لوگوں کو کفارہ دينا چاہيے اور سچے دل سے خشوع و خضوع کے ساتھ معافی مانگيں۔ زير تعمير مسجدوں کو صدق دل سے چندہ ديں اور اور ہر خوشی کے موقع پر مدرسہ والوں کو عالموں کو شامل کريں۔امريکہ اور يورپ کی شيطانی چالوں کی ناکامی کی دعائيں پڑھتے رہيں

    ReplyDelete
  13. عثمان، آپکا سلوگن تو تھا سانوں کی، فیر کی ہویا۔
    چلیں ایک بات تو آپ پھر مانیں گے کہ اس وقت حکومت پہ لوگوں کو زیادہ بھروسہ تھا۔
    بدتمیز، عربی میں گاف کی آواز نہیں ہوتی اسکی جگہ وہ جیم استعمال کرتے ہیں اور فارسی میں جیم نہیں ہوتا وہ گاف استعمال کرتے ہیں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا گیلان ایران میں ایک جگہ کا نام ہے اور اسے عربی میں جیلان بھی کہتے ہیں۔ اس لئے جیلانی اور گیلانی دونوں درست ہیں۔ اردو کی ساخت میں فارسی اور عربی دونوں کا ایک بڑا حصہ ہے۔
    یہ بات آپ نائن زیرو پہ خود کیوں نہیں فون کر کے پوچھ لیتے۔ دستور ہو نہ ہو موقع اچھا ہے۔
    اے کے ملک صاحب، آپکی تجاویز اچھی ہیں۔ یو این کو امدادی کاموں کے بارے میں تشویش ظاہر کرنے کے بجائے یہی کرنا چاہئیے۔ یوسف رضا جیلانی اسی لئے اتنے اظمینان سے تھے۔ ایک سجادہ نشین سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور یقیناً راتوں کو اٹھ کر تہجد میں یہی دعا مانگ رہے ہونگے آجکل۔
    لوگوں کو بھی متائثرین کے لئے چندہ جمع کرنے کے بجائے مزید مساجد تعمیر کرنا چاہئیں۔ اور مولانا فضل الرحمن کو واپس بلوانا چاہئیے کہ ہم آپکی تا زندگی خرچے پانی کا بند وبست کریں گے۔ آپ بیٹھ کر صرف ہمارے لئے دعا کرتے رہئیے۔
    جہاں تک عریانی اور فحاشی کا تعلق ہے۔ اگر سیلاب کی متائثرہ خواتین کو مساجد کے چندے میں سے پیسے نکال کر کپڑے نہ فراہم کئے گئے تو کیا ایسی عریانی فحاشی کے ضمن میں آئے گی یا تنگدستی کے ضمن میں۔
    کاشف نصیر صاحب، تو سیلاب کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی حکومت کی بچت ہو جائے گی۔ اور قوم کی ہمدردیاں پھر انکے ساتھ ہونگیں۔

    ReplyDelete
  14. ہر طرف پانی ہی پانی ہے مگر پھر بھی سرکاری اور غیر سرکاری بے حسوں اور فوٹو سشین کے بھوکوں کے لیے چُلّو بھر پانی کہیں موجود نہیں
    پنجاب میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ترجمان صدیق صدیق صدیق الفاروق سے پوچھا گیا کہ ایک تاثر ہے کہ میاں شہباز شریف جہاں بھی جاتے ہیں وہاں ٹی وی چینل کی ٹیمیں ساتھ لے جاتے ہیں اور وہ سیلاب زدہ افراد کی حالت زار سے زیادہ شہباز شریف کی کوریج کرتے ہیں تو صدیق الفاروق نے اس کا دفاع کیا اور کہا ایسا کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ ان کے بقول کوئی یہ نہ کہے کہ شہباز شریف گھر میں سکون سے بیٹھے ہیں اور انہیں گُھٹنے بھر پانی میں متاثرین کے ساتھ ٹی وی پر دکھانا اچھی بات ہے۔

    ReplyDelete
  15. میرا اوپر دیا گیا تبصرہ پھر پڑھیں. اپنے سلوگن کی خلاف ورزی میں نے ہرگز نہیں کی.
    سیاسی تجزیہ کی بجائے میں لوگوں کے سست ردعمل کی وجہ بتا رہا ہوں. کینیڈا کی مسجدوں میں چندے دینے کی رفتار دو ہزار پانچ کی نسبت کافی کم ہے. جس سے پوچھو آگے سے یہی شک ظاہر کرتا ہے کہ دوہزار پانچ والا حال نہ ہو جائے.
    باقی رہے مرشد پرویز مشرف صاحب
    تو میری طرف سے وہ دوبارہ پاکستان کے حکمران بن جائیں
    سانوں کی؟
    :)

    ReplyDelete
  16. کاشف تم ابھی بچے ہو جب بڑے ہوجاؤگے پھر تم سے اس موضوع پر بات کریں گے!!!!!!
    مجھے تو مخدوم جاوید ہاشمی بھی بہت اچھے لگتے ہیں،اگر نواز شہباز کی جگہ انہیں پاکستان کا وزیر اعظم بنادیا جائے تو بھی میں خوش ہوں گا!
    اب تو تمھیں اطمینان ہوگیاہوگا کہ میں کسی کا فیور نسلی بنیادوں پر نہیں بلکہ اس کے عمل پر کرتا ہوں!!!
    حالانکہ تمھیں اطمینان دلانا میرے فرائض منصبی میں شامل نہیں ہے!
    :)

    ReplyDelete
  17. جواب ہے سیدھا سادہ

    http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/08/100818_hanif_flood_kids.shtml

    ReplyDelete
  18. مجھے حيرت ہے کہ پاک آرمی کو اگر جمہوری حکومت کو تہہ و بالا کرنا ہو تو ايک گھنٹے ميں پورے ملک ميں حرکت ميں آجاتی ہے مگر فوج کی امدادی کشتيوں اور ہيلی کاپٹروں کا ’کرايہ‘ کسی بھی کمرشل کشتی يا ہيلی کاپٹر سے زيادہ ہے۔ امدادی کاموں ميں حصہ لينے والے فوجيوں کو دگنی تنخواہ دينا بھی وفاقی يا صوبائی حکومت کے ذمہ ہے۔ ’نماياں‘ خدمات انجام دينے والے افسران ميں قيمتی پلاٹوں کی تقسيم اور اگلے عہدوں پر ترقی اس کے علاوہ ہے۔ مذيد يہ کہ امدادی کاموں ميں حصہ لينے والے فوجی جتنے روز مصروف رہيں گے اسی کی مناسبت سے انہيں چھٹياں دی جائيں گی (معلوم نہیں يہ کام کب کرتے ہيں)۔ ميرے خيال ميں ہنگامی حالات ميں مدد فوج کے فرائض ميں شمار ہونی چاہيے۔

    ReplyDelete
  19. Wadayra system Zindabad
    Zardari Kahpay Kahpay

    ReplyDelete
  20. خادم الحرمین شریفین نے تیس کروڑ ریال سیلاب زدگان کے لیئے دینے کا اعلان کیا ہے اورعوام سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ عطیات جمع کروائیں ،
    ترکی نے بھی پاکستان کے لیئے لائو ٹیلی تھون کا اعلان کیا ہے عطیات جمع کرنے کے لیئے!!!!

    ReplyDelete
  21. یہ نا معلوم تبصرہ نگار نے جو معلومات افواج پاکستان کے متعلق دی ہے ان کی تصدیق کہاں سے ہو گی؟؟؟ اور اس سلسلے میں متعلقہ حوالہ تبصرے کے ساتھ عنایت کرے!!
    اگر یہ معلومات درست نہیں تو صاحب بلاگ کا فرص ہے کہ ایسے پروپیگنڈے کے پھیلاؤ کے عمل میں شریک ہو کر نا سمجھی کا ثبوت نہ دے!!۔

    ReplyDelete
  22. شعیب صفدر صاحب، اگر آپ کسی بھی گورنمنٹ ادارے کے کام کرنے کے انداز کو سمجھتے ہیں تو اس بات کے لئے کسی حوالے کی ضرورت نہیں کہ افواج پاکستان سے لیکر دیگر تمام ادارے اپنی مشینوں کا کرایہ لیتے ہیں اور ایمرجنیسی میں زیادہ کام کرنے والوں کو انکی تنخواہوں کی مد میں الگ سے پیسے دئیے جاتے ہیں۔ چونکہ انکا بجٹ زیادہ ہوتا ہے تو انکو پیسوں کی ادائیگی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ ایک عام فوجی ادارہ چاہے وہ ایک اسکول ہی کیوں نہ ہو ایک عام پبلک ادارے کے مقابلے میں زیادہ سہولیات رکھتا ہے۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے کہ پاکستانی بجٹ کا کتنا فیصد افواج پہ خرچ ہوتا ہے اور یہ کتنا جائز ہے۔ اس بجٹ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خود کتنا ایک عام پاکستانی کے لئے قربان کرتے ہیں یہ کوئ ان دیکھی داستان نہیں۔ خود افواج پاکستان اتنا بے داغ کردار نہیں رکھتے۔
    میں تو گمنام سے صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ افواج پہ جو کچھ خرچ ہوتا ہے اسکا پھر کوئ آڈٹ ہوتا ہے۔ سیاستداں جو کچھ کماتے ہیں اسکا کوئ آڈٹ نہیں ہوتا۔ کوئ چیک اینڈ بیلینس نہیں ، جو آتا ہے وہ سوچتا ہے کہ جتنی جلدی وہ زیادہ سے زیادہ ہتھیا لے اتنا اچھا ہے اور جتنا زیادہ اسے مل جائے اتنا بہتر۔ کیا پتہ کب برطرف ہوجائیں۔ جبکہ یہ سیاستداں عوام کی نام نہاد منظوری سے یہاں تک پہنچتے ہیں اور عوامی خدمت کا نعرہ لگاتے ہیں۔
    پاکستان کی ریاست کی تنظیم تین کرداروں کے درمیان گم ہے۔ ان میں شامل ہیں افواج پاکستان، سیاستدان اور مذہبی عناصر۔ ریاست کا وجود عوام کے لئے ہوتا ہے لیکن عوام اس میں کوئ کردار نہیں رکھتے۔ وہ تین عاملوں کے ایک درمیان معمول ہیں۔
    محمد حنیف صاحب، آپکی آمد کا شکریہ۔ یہ بات تو اقوام متحدہ والے بھی کہہ رہے ہیں کہ ڈونرز کو اموات کی زیادہ تعداد متائثر کرتی ہے۔ آپکی بیان کردہ بیشتر باتیں درست ہیں ۔ لیکن گذشتہ چند برسوں میں پاکستان میں غربت کا تناسب بڑھا ہے۔ متوسط طبقہ اپنے حجم میں سکڑا ہے اور اب اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ معیار زندگی پہلے سے کم ہوا ہے۔ شہروں میں گھر کے تمام افراد ہی ذرائع آمدنی کو بڑھانے میں حصہ لیتے ہیں۔ اور اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک ایسی صورت میں اوروں کا نہیں معلوم مجھے یہ چیز بہت تکلیف دے گی کہ میں اپنی ضروریات زندگی میں سے اہم چیزوں کی قربانی دے کر حکومت کو امدادی رقوم دوں۔ میں اپنے مستقبل کے لئے پس انداز کرنے کے بجائے اسے اپنے سوشل سسٹم کی مضبوطی پہ کڑچ کرنا چاہوں تاکہ ہمارا آنے والا کل مضبوط رہے۔ اور حکومتی ذرائع اس قطرہ قطرہ جمع ہونے والے خزانے کی آپس میں بندر بانٹ کر لیں۔ اور پھر اس نوچ کھسوٹ کے ذریعے مالدار ہونے اس معاشرے کے طبقہ ء اشرافیہ کہلائیں اور ہم مزدور۔ باقی متائثرین اسی طرح رلتے رہیں کہ آہستہ آہستہ انہیں اس غربت اور اسکے بعد قسطوں میں ملنے والی زندگی کی عادت ہو جائے گی۔ اسکے بجائے، میں اپنے کسی جاننے والے کے پاس جانا چاہونگی۔

    ReplyDelete
  23. بد تمیز صاحب متوجہ ہوں، یہ اوپر میں نے لکھا ہے کہ فارسی میں جیم نہیں ہوتا۔ یہ غلط ہے اسکی تصحیح کر لیں فارسی میں جیم ہوتا ہے مگر عربی میں گاف نہیں ہوتا اس لئے فارسی کا گاف عربی میں جیم بن جاتا ہے۔ اور یہ جگہ فارسی میں گیلان ہے جو عربی میں جیلان ہو گئ ہے۔ اس لحاظ سے یہ دونوں درست ہیں۔

    ReplyDelete
  24. محترمہ آپ یہان نہ فارسی لکھ رہی ہیں نا عربی اس لئے اردو کی بات کریں

    ReplyDelete
  25. سو فیصد تو پاکستان سے کوئی بھی ادارہ مخلص نہیں ھے، مگر سیاستدانوں کی نسبت فوج بہت بہتر کام کر رہی ھے۔ یہ کنجر تو ابھی تک غیر جانبدار کمیشن قائم کرنے پر متفق نہیں ھوسکے یہ کیا خدمت کریں گے قوم کی۔

    ReplyDelete
  26. پاکستان کے سابق وزیر اعظم میر ظفراللہ خان جمالی نے الزام لگایا ہے کہ وفاقی وزیر کھیل اعجاز جکھرانی نے ڈالروں کی خاطر جیکب آباد میں امریکی ائر بیس کو بچانے کے لیے پانی کا رخ بلوچستان کی طرف کر دیا ہے۔
    انہوں نے کہا کہ جیکب آباد انتظامیہ کے اس اقدام کے خلاف فوج کے سربراہ، کور کمانڈر کوئٹہ اور دیگر اعلی حکام سے احتجاج بھی کیا گیا ہے۔ ’سب نے میری بات سنی لیکن سمجھا کوئی نہیں۔‘

    ReplyDelete
  27. کاشف نصیر، محترم، میں اردو کی ہی بات کر رہی ہوں۔ اردو میں یہ دونوں طریقوں سے لکھنا مروج ہے۔ مزید تصدیق کے لئے عبدالقادر جیلانی یا گیلانی کے پیروکاروں سے معلوم کریں۔

    ReplyDelete
  28. فکر پاکستان، انکے غیر جانبدار کمیشن میں لوگ کہاں سے آئیں گے۔ کوئ غیر جانبدار شخص انکے ساتھ کام کرنے کو تیار نہیں۔ تو اب وہ کمیشن کیسے بنائیں۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ