Wednesday, September 15, 2010

سر سید کا عہد-۲


اب ان تمام باتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ 1870 میں مسلمانوں کی کیا حالت تھی۔ ملازمتوں میں وہ نہ ہونے کے برابر تھے۔ سرکاری ملازمتوں کے ہاتھ میں کئ طرح کا اختیار ہوتا ہے اس لئے یہ کمی انہیں مہنگی پڑ رہی تھی۔ شمالی ہندوستان کے مسلمانوں نے تجارت میں کبھی امتیاز حاصل نہیں کیا اور زمینیں قرضے کی وجہ سے انکے ہاتھ سے نکلی جا رہی تھیں۔
حالات اتنے خراب تھے کہ سر سید نے خود ہندوستان چھوڑ کر مصر کی سکونت اختیار کرنے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے بعد میں اپنے ایک لیکچر میں کہا
میں اس وقت ہرگز نہیں سمجھتا تھا کہ قوم پھر پنپے گی اور عزت پائے گی۔ اور جو حال اس وقت قوم کا  تھا، مجھ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔
لیکن بعد ازاں انہوں نے اپنا یہ ارادہ ترک کیا اور فیصلہ کیا کہ
نہایت نا مردی اور بے مروتی کی بات ہے کہ اپنی قوم کو اس تباہی کی حالت میں چھوڑ کر خود کسی گوشہ ء عافیت میں جا بیٹھوں۔ نہیں، اس مصیبت میں شریک رہنا چاہئیے اور جو مصیبت پڑے اسکے دور کرنے کی ہمت باندھنی قومی فرض ہے۔

اس وقت مسلمانوں کے تمام تر مسائل اقتصادی نہ تھے بلکہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق تھے۔ یہ اقتصادی اور ذہنی پستی ایک ہی ذریعے دور ہو سکتی تھی اور وہ یہ کہ مسلمان تعلیم  حاصل کریں اور وہ تعلیم حاصل کریں جو انہیں حکمرانوں کی زبان اور مزاج سمجھنے میں آسانی دے۔ کیونکہ انگریز اپنی حکمرانی میں اپنا ذریعہ ء تعلیم نہیں تبدیل کرنے والے تھے۔  اس لئے مسلمانوں کے لئے یہ لازمی عنصر ہو چلا تھا کہ وہ انگریزی تعلیم میں دلچسپی لیں۔  
علی گڑھ کی تحریک نے یہ سب ذمہ داری اٹھائ۔ ایک ایسے دور بیں مصلح کی حیثیت سے سر سید احمد خان آگے بڑھے  جبکہ مسلمانوں کی اس حالت زار کے باوجود علماء  کی اکثریت انگریزی تعلیم کو حرام قرار دے رہی تھی انہوں نے مسلمانوں کو اس چیز کے لئے تیار کیا کہ اپنی بقاء کے لئے یہ کام کرنا ہی پڑے گا۔
انہیں اس چیز کا ادراک اس قدر زیادہ تھا کہ تحریک پاکستان کے وجود میں آنے سے بھی کئ دہائیاں پہلے وہ، وہ پہلے شخص تھے جنہوں نےاس ہندوستان کا تصور کیا جو انگریزوں کے ہندوستان سے رخصت ہو جانے کے بعد ہو جاتا۔
وہ لکھتے ہیں کہ
فرض کریں کہ تمام انگریز انڈیا چھوڑ جاتے ہیں تو کون انڈیا کی حکمرانی کرے گا۔ ان موجودہ حالات میں کیا یہ ممکن ہے کہ دو قومیں مسلمان اور ہندو ایک ساتھ حکمرانی کر سکیں اور طاقت میں برابر کے شراکت دار ہوں۔ ایسا یقیناً نہیں ہوگا۔ یہ بالکل ضروری ہوگا کہ ان میں سے ایک دوسرے کو فتح کرے اور اسے ہٹا دے۔
یہ وہ نکتہ تھا جسے انکی وفات کے چالیس سال بعد قیام پاکستان کی تحریک کی بنیاد بنایا گیا۔ سر سید کی دور بیں بصارت نے اس منظر کو اس وقت دیکھا جب انگریزوں کے ملک سے جانے کے متعلق عام شخص سوچ بھی نہ سکتا تھا۔

اسی موضوع پہ پچھلی تحاریر یہاں دیکھئیے۔ 

21 comments:

  1. اچھا کیا کہ آپ نے زمان و مکان کا کچھ نقشہ کھینچا ہے۔ لیکن ایک معاملے میں کچھ تشنگی رہ گئی۔ آپ نے تعلیمی لحاظ سے مسلمانوں کے دگرگوں حالات تفصیل سے بیان نہیں کئے۔ اسے تفصیلاً بیان کئے بغیر سرسید کے تعلیمی انقلاب کی اہمیت کو پوری طرح سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ ورنہ پھر کچھ "اسلامی تبصرہ نگار" مسلمان بمقابلہ انگریز کا واعظ شروع کردیتے ہیں۔ اگر ہوسکیں تو ایک پوسٹ میں اسکی کچھ مزید تفصیل لکھیے۔ اور کچھ دارلعلوم دیوبند قسم کے اداروں کے "کارنامے" بھی قلم بند کردیجئے۔ موازنہ سامنے ہوگا تو تصویر اور بھی بہتر ہوگی۔

    ReplyDelete
  2. ہمممم،
    مگر کوئیں کے مینڈکوں کو یہ بات سمجھ میں آجائے تب بات ہے!!!!

    ReplyDelete
  3. نئے آقاؤں کو سمجھنا اور انکی منشا کے مطابق ٹرانسفارم تو ہونا ہی پڑتا ہے نا جی ۔
    گذشتہ عید مبارک ۔

    ReplyDelete
  4. وہ(سرسید احمد خان) لکھتے ہیں کہ
    فرض کریں کہ تمام انگریز انڈیا چھوڑ جاتے ہیں تو کون انڈیا کی حکمرانی کرے گا۔ ان موجودہ حالات میں کیا یہ ممکن ہے کہ دو قومیں مسلمان اور ہندو ایک ساتھ حکمرانی کر سکیں اور طاقت میں برابر کے شراکت دار ہوں۔ ایسا یقیناً نہیں ہوگا۔ یہ بالکل ضروری ہوگا کہ ان میں سے ایک دوسرے کو فتح کرے اور اسے ہٹا دے۔
    یہ وہ نکتہ تھا جسے انکی وفات کے چالیس سال بعد قیام پاکستان کی تحریک کی بنیاد بنایا گیا۔
    Posted by عنیقہ ناز at 3:36 PM

    رحمان ملک نے فرمایا ۔ فرض کریں تمام امریکن اور اور نیٹو افواج افغانستان چھوڑ جاتی ہیں۔تو افغانستان پہ حکمرانی کون کرے گا؟۔ان موجودہ حالات میں کیا یہ ممکن ہے کہ دو متحارب قوتیں طالبان اور شمالی اتحاد ایک ساتھ حکمرانی کر سکیں؟ اور طاقت میں برابر کے شراکت دار ہوں؟۔ ایسا یقیناً نہیں ہوگا۔ یہ بالکل ضروری ہوگا کہ ان میں سے ایک دوسرے کو فتح کرے اور اسے ہٹا دے۔
    یہ وہ نکتہ ہے جسے رحمان ملک کے چالیس سال بعدآزادی ِ افغانستان کی تحریک کی بنیاد سمجھا جائے ۔
    فرموادات ِرحمان ملک المعروف رحمان بابا القانونی۔قصہ خوانی بازار ۔ پشاور۔

    سبحان اللہ ! کیا دلائل ہیں ۔ کہ تحریک آزادی کو نہ صرف غدر قرار دینے ۔ غدر سمجھنے پہ اصرار کرنے والے۔غلام ذہن کے مالک ایک فرد سرسید احمد خان کو اسکی وفات کے چالیس سال بعد وجود میں آنے والی تحریک قیام پاکستان اور تحریک قیام پاکستان کے بھی تقریبا پون صدی بعد ایک غلام ذہن کو تحریک قیام پاکستان کا بانی و داعی قرار دیا جارہا ہے ۔

    عید سے چند روز قبل حجامت کرواتے وقت حجام قینچی سے شغل کرتے پاکستان اور خاص کر افغانستان کے حالات حاضرہ پہ پر جوش تبصرہ کررہا تھا کہ "سائیں! کرزائی بہت بیدار مغز اور افغانستان کا عظیم لیڈر ہے ۔ اسکے دل میں افغانستانیوں کو جدید و روشن خیال قوم میں بدلنے کے لئیے بڑا جذبہ ہے۔ اسے علم ہے کہ اگر آج افغانی ہتیار اٹھانے کی حماقت سے باز نہیں آئے اور امریکہ کے ہاتھ مضبوط نہیں کئیے تو امریکہ اور اتحادی باوجودیکہ وہ افغانیوں کی زندگی بدل دینا چاتے ہیں بہ امر مجبوری ناراض ہو کر افغانستان چھوڑ کر چلیں جائیں گے ۔ ۔۔۔ تو سائیں نقصان کس کا ہوگا ؟" ۔۔ اس سے پہلے میں حجام کو کوئی جواب دیتا اس نے نہائت دانشورانہ جواب فائر کیا۔ " سائیں! نقصان سرا سر افغانیوں کا ہی ہوگا!!! افغانیوں کو کرزئی جیسے باشعور عظیم رہنماؤں کی خواہش کے مطابق عمل کرنا چاہئیے اور اپنے آقا و مربی امریکہ اور اتحادیوں کا شکر گزار ہونا چاہئیے اور امریکہ اور اتحادیوں کے قبضے سے افغانستان کو آزاد کروانے والے شرپسند ملاؤں کی ایک نہیں ماننی چاہئیے۔ کرزئی کی سیاسی بصریت کو سمجھنا چاہئیے کہ وہ ایک روشن افغانستان کے قیام جدو جہد کا بانی ہے ۔ آج نہیں تو کل کوئی مؤرخ یہ فیصلہ دے دے گا۔وغیرہ وغیرہ۔

    نیز میرے حجام نے اپنے رحمان ملک بابا المعروف القانونی کی اعلیٰ خدمات کے عوض اسکے لئیے لاتعداد تغمہ ہائے جراءت و دانش تجویز کئیے ہیں۔

    ReplyDelete
  5. جاوید صاحب، آپکے نظریات کی بناء پہ میں یہ سوچتی ہوں کہ آپ کسی قسم کا نشہ پانی نہیں کرتے۔ لیکن آپکا یہ تبصرہ کس ضمن میں آتا ہے یہ سوچنے سے قاصر ہوں۔ آپکے نظریات پہ حامل تحاریر کا مجموعہ تو مارکیٹ میں آ چکا ہے۔ اس پہ جا کر جزاک اللہ کہئیے۔ میری یہ ساری تحاریر جن لوگوں کی تحاریر کا لب لباب ہیں انکے سامنے وہ تحریریری مجمعے اور آپکا یہ تبصرہ کوئ حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ فرمودات جن کتابوں کی مدد سے لئے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں
    اردو ادب کی تحریکیں، مصنف ڈاکٹر انور سدید۔ ایک انجینیئر اور اردو ادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل ایک صاحب علم شخص۔
    موج کوثر، مصنف شیخ محمد اکرام۔ انکی یہ کتاب سروسز بک کلب آرمی ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ جی ایچ کیو نے چھاپی ہے۔
    سر سید احمد خان شخصیت اور فن، مصنف جمیل یوسف، انکی یہ کتاب اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد نے چھاپی
    Reflections on Sir Sayed and the Aligarh Movement
    یہ کتاب سر سید پہ لکھے گئے مضامین اور خود سر سید کی اپنی چند منتخب تحاریر پہ مشتمل ہے۔
    اسکے علاوہ کرنے والوں نے سر سید پہ بے انتہا کام کیا ہے اور انکے لکھے ہوئے ہر حرف کو محفوظ کر لیا ہے۔ یہ سب تو آپکی نظر میں غلامانہ ذہن ٹہرے۔
    البتہ آپکے کی طرح کے نظریات رکھنے والے لوگ جو گوڈے گوڈے جہاد افغانستان اور جہاد طالبان میں ڈوبے ہوئے ہیں وہ آزاد ذہن کے مالک ہو گئے۔ ذرا سا غور کریں جس تعریف پہ آپ دوسروں کا غلام قرار دے رہے ہیں اس تعریف پہ آپ بھی غلام ہیں افغان اور پاکستان طالبان کے۔ سبحان اللہ۔
    اگر سر سید کے کوئ کارنامے نہیں تو ذرا تفصیلاً بتائیے گا کہ اقبال نے تحریک پاکستان کے لئے ایسا کیا کیا کہ تحریک پاکستان میں قائد اعظم کے بعد اگر کوئ رہ نما بچا تو وہ اقبال قرار پائے آپ لوگوں کی نظر میں۔
    خیر، مجھے آپ سے اسی قسم کے تبصروں کی امید ہے۔
    آرام سے رہئیے، سر سید کے ساتھ ابھی بہت سارا سفر طے کرنا ہے۔ لیکن اینٹی سر سید کا بس نہیں چل رہا ہے کہ اپنے دل کے جلے ایک ساتھ کہاں کہاں نہ پھوڑیں۔ مجھے دیکھئیے بالکل آرام سے ہوں۔ کوئ جلدی نہیں۔ جو کر کے جا چکا ہے اسکے کئے کو کون مٹا سکتا ہے۔ جبکہ حالی بھی کہتے تھے کہ ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا ہے۔

    ReplyDelete
  6. ویسے راقم کو یہ سمجھ نہیں آئی کہ جاوید صاحب وہ اس پاکستان کو اقبال و مودودی کا اور کتنا پاکستان بنائیں گے۔ ہمیں پتہ نہیں اقبال کے خواب میں پاکستان کے خدوخال کیسے تھے لیکن ہمارے ارد گرد ان کی جن تعلیمات نے فروغ پایا ہے وہ تو علامہ نے کسی برے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا۔ ہم اپنے ہر بچے کو سکول میں پڑھاتے ہیں تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں۔ تو ہمارے کئی بچے یہ سبق دہراتے دہراتے پہاڑوں پر جا بیٹھے ہیں اور کبھی کبھی اپنا خون گرم رکھنے کے لیے مسجدوں، بازاروں اور سکولوں کو بموں سے اڑاتے رہتے ہیں۔ انہیں منع کرتے ہوئے بھی ہم شرماتے ہیں کیونکہ ہم نے ہی تو انہیں پڑھایا تھا کہ شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن۔

    ReplyDelete
  7. بی بی! نشہ پانی کے الفاظ پہ میں مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا۔
    اب مندرجہ بالا تبصرے پہ بات کرتے ہیں۔ جس پہ میں نے آپکے وہ الفاظ دہرائے ہیں جو آپ نے سرسید سے منسوب کرتے ہوئے لکھے یعنی۔۔
    وہ(سرسید احمد خان) لکھتے ہیں کہ

    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔فرض کریں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔ کو فتح کرے اور اسے ہٹا دے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔از قلم سرسید احمد خان۔

    سرسید احمد خاں کے لکھے ہوئے فرمودات کے بعد آپ اپنے الفاظ میں سرسید کے ایک عام سے تجزئیے کو قیام پاکستان کی تحریک کی بنیاد سرسید احمد کے ہاتھوں رکھے جانے کو ایک دلیل کے طور پہ پیش کرتی ہیں۔ سرسید احمد خان کے مذکورہ الفاظ کے فورا آپکے الفاظ یوں ہیں ۔۔۔یہ وہ نکتہ تھا جسے انکی وفات کے چالیس سال بعد قیام پاکستان کی تحریک کی بنیاد بنایا گیا۔از قلم عنیقہ ناز۔

    عرض یہ ہے کہ اب آپ دوبارہ سے افغانستان کے حوالے سے رحمان بابا کا تجزئیہ پھر سے پڑھیں ۔ رحمان بابا یا کوئی بھی معمولی سی عقل رکھنے والا انسان سرسید احمد خان کے الفاظ میں معمولی سے ردوبدل کے ساتھ افغانستان یا اس سے ملتی جلتی کسی صورتحال پہ آسانی سے کہہ سکتا ہے کہ امریکہ وغیرہ کو ایک دن افغانستان سے جانا ہے۔ یعنی یہ ایک ایسی قدرتی اور امکانی صورت حال ہوگی کہ جس کے اس نتیجے پہ پہنچنے کے لئیے کسی غیر معمولی بصیرت کا حامل ہونا قطعی ضروری نہیں ۔ اور اگرباالفرض محال ایسے عام سے تجزئیے کو سرسید احمد خان کی دانش لا محدود مان بھی لیا جائے تو کیا سرسید احمد خان کا یہ تجزئیہ جیسا کہ آپ کا اصرار ہے اس تجزئیے کو قیام پاکستان کی تحریک کی بنیاد سمجھا جائے کیونکہ سرسید احمد خان نے اس میں ایک پشین گوئی کی ہے، ایک اندازہ لگایا ہے؟۔ تو اس صورت میں رحمان بابا سمیت پاکستان کے آدھے ، پونے اور پورے اخبارات کے کالم نگار اور تجزئیہ نگاروں کے تجزئیے ، افغانستان کی آزادی کی تحریک کی بنیاد سمجھیں جائیں؟۔ جو آئے دن یہ بتلاتے رہتے ہیں کہ امریکہ اور اتحادیوں کو افغانستان سے جانا ہے ۔ یعنی ایک عام سا تجزئیہ اور مملکت خداد پاکستان کی تحریک کی بنیاد رکھنے کے حقدار؟ جو درحقیقت اس ساری مشق کے انتہائی سخت مخالف تھے۔۔؟؟؟۔۔۔ سبحان اللہ۔

    میرےگزشتہ تبصرے میں فرمودات سے مراد سرسید احمد خان کے الفاظِ بالا تھے۔ اسمیں آپکو یا کسی اور کو کوئی دوش نہیں دیا ۔ آپ سے صرف آپ کی دلیل منسوب کی ہے۔ اور نہ ہی میں نے کہیں طالبان کا ذکر کیا ہے یہ روشن خیالوں کے ذہن کی اختراع ہے جو کہ اب کافی پرانی ہوچکی ہے،کہ جب کچھ اور نہ بن سکا تو مخاطب کو طالبان کہہ کر لاجواب کرنے کی کوشش کر دی ۔ مجھے کم از کم آپ سے یہ امید اور توقع ہر گز نہیں تھی :) ۔ پھر بھی ایک بات عرض کرتا چلوں کہ اپنے ملک پہ غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو آپ کوئی سابھی نام دیں لیں مگر ابتدائے آفرینش سے لیکر جینوا کنویشنز تک غاصب قابضوں کے خلاف مزاحمت اس ملک کے باشندوں کا ایک حق تسلیم کیا گیا ہے ۔ اس نکتے کو ماسوائے پاکستان کے بزعم خویش روشن خیال طبقے کے باقی ساری دنیا تسلیم کرتی ہے۔
    نیز میرے حجام نے اپنے رحمان ملک بابا المعروف القانونی کی اعلیٰ خدمات کے عوض اسکے لئیے لاتعداد تغمہ ہائے جراءت و دانش تجویز کئیے ہیں۔

    الحمد اللہ ۔علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا تحریک پاکستان کے بارے میں کردار آپ کے یا کسی اور کے غلط فہمیاں اور شکوک پھیلانے سے بالا تر ہے۔اور اس کردار کو ایک عالم جانتا ہے۔ سرسید احمد خان اور علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ دو متضاد شخصیات ہیں ۔ ایک یعنی سرسید احمد غلام ذہن اور غلاموں کا سردار۔دوسرا یعنی علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ آزادی اور حریت کا امام جو آزادی اور حریت کے لئیے کوئی بھی قربانی دینے کا متواتر پیغام ہے۔ کہاں اندہیرے کنوئیں کی تہہ اور کہاں آسمان پہ لپکتی اور چمکتی کُوند۔ کوئی جوڑ نہیں۔

    سرسید احمد خان کے حمایتی یا اینٹی ہونے کا کوئی ذکر نہیں۔ لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہر کسے نا کسے جس کو ہندؤستان کے مسلمانوں کی آزادی سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو بلکہ الٹا انہیں دائمی غلامی کا سبق دیتا ہو۔ غلامی کے اسباب کرتا ہو۔ اسے پاکستان یا ھندؤستان کے مسلمانوں کا زبردستی ہیرو قرار دے دیا جائے۔ عقل سلیم رکھنے والوں کو یہ نا منظور ہے۔ اب عام پاکستانی ہر قسم کے تقدس سے بلند ہو کر پاکستان کی تاریخ کے کرداروں کو انکے اصل پس منظر میں لکھے اور جانے جانے کا خواہش مند ہے۔

    ReplyDelete
  8. جاوید صاحب، خوب تو آپ نے اپنے آپکو بمع اپنے جیسے نظریات رکھنے والوں کے عقل سلیم قرار دے دیا۔ چلیں یہ تمغہ بھی آپکے عمامے اور جبہ دستار کا حصہ بنا۔ لیکن ابھی بھی آپ نے اقبال کے عظیم کارنامے نہیں گنوائے جس کی بناء پہ وہ آسمان کی لپکتی کوند قرار پاتے ہیں اور سر سید کنویں کا اندھیرا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سارے فرمودات کسی کنوئیں سے ہی آ رہے ہوں۔
    میرے نزدیک سرسید ایک عملیت پسند انسان تھے اور اقبال شاعر مشرق۔ دونوں کا کوئ مقابلہ نہیں۔ ایک علمی درسگاہ کے قائم کرنے میں اتنا ولولہ رکھتا تھا کہ اسکے لئے لوگوں کو ساٹھ سال کی عمر میں ناچ کر بھی دکھا سکتا تھا۔ ایک وقت میں دس مختلف طرح کے کاموں سے نبٹتا۔ دوسرا جس نے شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن کا سبق پڑھایا۔ اپنی عملی زندگی میں قربانی کے بکروں کو ذبح ہوتے نہیں دیکھ پاتے تھے۔ طبیعت میں نرمی تھی اس لئے۔ ویسے اگر وہ طالبان کو خود کش حملے کرتے دیکھتے اور انکی حمایت میں ایک خلقت کو گمراہ دیکھتے تو کیا محسوس کرتے۔ اب بھی مقام شکر ہے کہ آپ نے فرط جذبات میں انکے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ نہیں لگایا۔
    مجھے اقبال سے کوئ پر خاش نہیں وہ ایک عظیم شاعر اور فلسفی تھے۔ اقبال کی شاعری خود انسانی عقل کے ارتقاء کا ایک نمونہ ہے۔ یہ وہی شاعر ہے جو اپنے پہلے شاعری کے مجموعے میں سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا لکھتا ہے اور اپنی عمر کے آخیر تک آتے آتے وطنیت کو مذہب کا کفن قرار دیتا ہے۔ اسی ارتقائ روح کی وجہ سے اقبال کی شاعری کو اینٹی ملا اور پرو ملا دونوں ایک ہی جذبے سے استعمال کر پاتے ہیں۔ مگر تحریک پاکستان میں انکے کردار کو حد سے آگے بڑھا دینا اور دوسروں کو محروم کر دینا صرف اس لئے کہ انہوں نے مذہبی استعارات خوب استعمال کئے تھے۔ یہ نا انصافی ہے۔ وہ تو قائد اعظم کی قسمت اچھی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد انتقال کیا۔ اگر خدانخواستہ چھ مہینے پہلے بھی چلے جاتے تو انکے لئے آپ یہی الفاظ استعمال کرتے جو سر سید کے لئے کئے ہیں۔ کنوئیں کی تہہ کا اندہیرا۔
    آپ نے لکھا کہ آپ جیسے صراط مستقیم پہ چلنے والوں کو طالبان کہہ دینا روشن خیالوں کا کام ہے۔ لیکن کسی بھی شخص کو معتدل مزاج دیکھ کر اسے کنوئیں کا اندہیرا قرار دینا بھی بزعم خود عقل سلیم رکھنے والوں کے ہی حصے میں آتا ہے۔
    افغانستان اپنی پچھلی سو سالہ تاریخ میں کس قدر حریت پہ مبنی ملک رہا ہے اسکی تاریخ اٹھا کر پڑھ لیں۔ امریکہ کے نکلتے ہی یہ ملک دنیا کی ایک عظیم فلاحی مملکت بن کر ابھرے گا۔ اللہ نے اگر زندگی کی نعمت سے نوازا تو ضرور دیکھیں گے۔ ملا عمر جیسے نیک لوگ کیا مثالی اسلامی مملکت قائم کرتے ہیں یہ بھی خدا ہی دکھائے گا۔ بے شک خدا ہی انصاف قائم کرنے والا ہے۔
    سر سید پہ کہانی تو ابھی شروع بھی نہیں ہوئ اور آپ نے یہ کہہ دیا کہ اس ایک تجزئیے پہ انکا پاکستان میں حصہ ڈال دیا۔ صاحب اس شخص نے اپنی زندگی کے بیشتر حصے کام کیا ہے صرف کام ۔ کیا اسکی زندگی اس ایک جملے میں سمائ جا سکتی ہے۔ میں اس سلسلے میں کم از کم چھ مزید تحاریر لکھنے کا ارادہ رکھتی ہوں جو انکی مختلف تصنیفات سے لے کر علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام کی وجوہات اانکے مذہبی نظریات اور سیاسی نظریات پہ مبنی ہوگا۔
    مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ جب آپکے حسب منشاء و پسند ضد سر سید مجموعہ چھپ کر شائع ہو چکا ہے تو اس نا چیز پہ اس قدر توجہ کیوں؟ ارے بھئ اسکی تیس کاپیاں بنوا کر مزید لوگوں میں اسی ہدایت کے ساتھ بانٹ دیں کہ خواب میں بشارت آنے کے بعد یہ کاپیاں بنوائ گئ ہیں۔ جو آگے نہیں بڑھائے گا آخرت میں نقصان اٹھائے گا۔ واللہ علیم و خبیر۔

    ReplyDelete
  9. حضرات!
    روز روز حجامت بنوانا مضر کھوپڑی ہے۔
    (وزارت کھوپڑیات)۔

    ReplyDelete
  10. ملا عمر جیسے نیک لوگ کیا مثالی اسلامی مملکت قائم کرتے ہیں یہ بھی خدا ہی دکھائے گا۔ بے شک خدا ہی انصاف قائم کرنے والا ہے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    جی وہ مثالی حکومت کسی سے بھی ہضم نہ ہوسکی۔کہ منشیات کی کاشت پر پابندی ان سے ہضم نہ ہوئی حقوق نسواں یاد آگئے۔عصر حاضر میں چودہ پندرہ سو سالہ پرانی طریقہ حکومت پسند نہیں آیا۔غیر ملکی آقاوں کی جی حضوری نہ کرنے والی حکومت پسند نہ آئی۔
    افغانستان کے امن امان نے بد ہضمی پیدا کردی کہ مدرسے کا ملا اور یہ انداز حکمرانی۔
    ہزار خامیوں کے باوجود اس وقت والا گند تو نہیں تھا۔
    یہ باتیں ہمارے منہ کی نہیں ہیں۔ان مغرب کے آقاوں کے صحافیوں کی لکھی ہوئی ہیں۔جو نشہ تو حرام نہیں سمجھتے لیکن خوامخواہ کے روشن خیالی کے جنون میں بھی مبتلا نہیں ہیں۔ یہ صحافی قیاسستان میں نہیں بستے حقیقت پسند ہوتے ہیں۔

    ReplyDelete
  11. "جی وہ مثالی حکومت کسی سے بھی ہضم نہ ہوسکی۔کہ منشیات کی کاشت پر پابندی ان سے ہضم نہ ہوئی حقوق نسواں یاد آگئے۔عصر "

    منشيات پہ تو ساری دنيا ميں ہی پابندی ہے اور حقوق نسواں بھي طالبان سے اکثر بہتر ہيں تو طالبانی دہشتگرد نظام کيوں اپنانا لازم ہے؟ آپ کيوں طالبانی نظام والے شمالی وزيرستان کو چھوڑ کے کافروں کے درميان جاپان بيٹھے ہيں؟ غالبان ملا عمر کا پيغام پھیلانے- اميد ہے جاپابی سيکيوريٹی سروس آپ کو نظر ميں رکھے گي، کہيں جذبہ طالبانی کچھ ذيادہ ہے جوش نہ ماردے اور ہو جائے ٹوکيو سب وے پہ دھماکہ-

    ReplyDelete
  12. عنیقہ آپا سرسید پر تحریر اچھی جارہی ہے اگلی قسطوں کا انتظار ہے۔ لیکن مجھے اب تک کوئی نئی بات نہیں پتا چلی۔ امید ہے آئندہ تحاریر میں کچھ ایسی باتیں بھی سامنے آئیں جو مجھے نہ پتہ ہوں اور مجھے نئے سرے سے سوچنے اور رائے قائم کرنے کا موقع ملے۔

    دوسروں کو ایجنسیوں سے ڈرانے والے بھائی صاحب آپ اپنا نام ظاہر نہیں کرتے۔ آپ تو طالبان کے حامی نہیں پھر آپ کیوں ڈرتے ہیں۔ ارے صاحب کھل کے لکھیں۔

    ReplyDelete
  13. اصل معاملہ تو اللہ کے علم میں ہے اور سچ و جھوٹ بھی وہی جانتا ہے، مگر ہم بھی کسی اسکاٹ لینڈ یارڈوالے سے کم نہیں ہیں بلکہ یوں سمجھئے کہ ہمارے اگے اسکاٹ لینڈیارڈ والے بھی کیا بیچتے ہوں گے،و ہ تو ابھی ٹامک ٹوئیاں ہی مار رہے ہیں اور ہم نے اور ہمارےچاہنے والوں نے پچاسوں ایس ایم ایس کر کے فردجرم بھی عائد کردی ہے،دیکھی ہماری ہوشیاری؟؟؟؟؟؟
    آگے داستان الف لیلہ سنانے کے بعد فرماتے ہیں،
    خالد بن ولید چٹا گانگ میں انکے کلاس فیلو رہے تھے اس لئے کراچی میں بھی وہ اکثر ہمارے غریب خانے تشریف لاتے۔ والد صاحب انہیں ایم کیو ایم چھوڑ کر لاہور یا اسلام آباد منتقل ہونے کا مشورہ دیا کرتے اور وہ والد محترم کو ایم کیو ایم میں شامل ہونے پر اکساتے۔ والد محترم نے ناجانے کیوں خالد انکل کو کبھی یہ پتہ نہ لگنے دیا کہ انکا ایک بیٹا بھی ہے، شاید وہ اپنے اکلوتے فرزند کی بہتری اسی میں سمجھتے تھے۔

    ذرا اندازہ لگائیں فرزند نہ ہوا مرغی کا بچہ ہوگیا کہ جسے آپ اکثر اپنے گھر آنے والے دوست سے بھی چھپاسکتے ہیں،ایسی باتیں تو افسانوں میں بھی ممکن نہیں ہوتیں،
    سچ کہا ہے کسی نے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے!!!!
    اس تحریر کی ایک اور خوبی بھی نوٹ کیجیئے گا کہ انداز تحریر تو تلخابہ کا ہے ہی مزےدار بات یہ ہے کہ املے کی وہ غلطیاں جو کاشف نصیرکا طرہ امتیاز ہیں یہاں نظر نہیں آتیں،کیوں ہے نا حیرت کی بات!!!!!!!!

    آگے عظیم احمد طارق کے قتل کا الزام الطاف حسین پر تھوپنے کے بعد فرماتے ہیں کہ
    ناظم کراچی سے لیکر گورنر سندھ جیسے پسندیدہ اس لئے ہیں کہ دن رات ماں بہن کی گالیاں سنتے ہیں اور گردن جھکا دیتے ہیں باقی جو سنیئر ہیں چاہے وہ فاروق ستار ہی کیوں نہ ہوں کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ یہ لوگ کبھی کبھی بولتے بھی ہیں اور مشورے بھی دیتے ہیں۔الطاف حسین کی اس زبردست فاشسٹ قیادت میں سینئر پڑھے لکھے، اصول پسند اور نظریاتی لوگوں کا ساتھ چلنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔

    اب ماں بہن کی گالیاں ان صاحب نے ذاتی طور پر سنی ہوں گی اسی لیئے اتنے وثوق سے فرما رہے ہیں باقی رہے فاروق ستار تو اگر کسی انکھ کے اندھے اور کان کے بہرے کو فاروق ستار بولتے دکھائی اور سنائی نہیں دیتے تو اس کا کوئی علاج کم سے کم میرے پاس تو نہیں ہے !!!!!!!

    آگے مزید جھوٹ کے پلندے باندھتے ہوئے کہتے ہیں،
    اس کے کچھ عرصے قبل الطاف حسین نے جرنل ورکرز کے اجلاس میں کہا تھا کہ ایجنسیاں ایم کیو ایم توڑنے کیلئے متحرک ہوگئی ہیں۔ انکا اشارہ عمران فاروق اور فاروق ستار پر تھا۔ اسکے بعد پورے کراچی شہر کی دیواروں پر یہ نعرے نظر آتے تھے ’’ہمارا قائد صرف الطاف حسین‘‘، ’’ہمیں منزل نہیں رہنما چاہئے‘‘۔
    وہ دور بھی گزر گیا۔پچھلے دو برس سے عمران فاروق ایم کیو ایم سے معطل تھے اور انکے اور انکی اہلیہ کے لندن سیکٹریٹ میں داخلے پر پابندی تھی۔ عمران فاروق خاموش زندگی گزارہے تھے اور اپنے خاندان تک محدود تھے۔ لیکن الطاف حسین کو ان پر شک تھا کہ وہ ایم کیو ایم کے اندر گروپنگ کررہے ہیں۔)


    ایک تو یہ کہ یہ اشارہ عمران فاروق اور فاروق ستار کی طرف تھا یہ بات صرف اور صرف کاشف نصیر جیسے ولی اللہ ہی جان سکے پھر 2007 میں یہ الزام لگانے کے بعد بھی عمران فاروق 2008 تک الطاف حسین کا دایاں ہاتھ بنے رہے،اور پھر2008 کے انتخابات کے بعد وہ خاموش ہوگئے دو سال تک الطاف حسیں کو ان سے کوئی تکلیف نہ تھی مگر دو دن پہلےاچانک اسے تکلیف ہوئی اور اسنے ایک انتہائی حساس علاقے مین انہیں قتل کروادیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہاں کی پولس پاکستان کی پولس کی طرح کرپٹ اور کرمنل نہیں ہے!!!!!
    اور ان گل افشانیوں پر چند گدھوں کی واہ واہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے!!!!!

    ReplyDelete
  14. روز روز حجامت کروانے کا بھی ایک نشہ ہوتا ہے اور جسے یہ نشہ ہوجائے اسے حجامت بنوائے بغیر چین نہیں آتا!
    :D

    ReplyDelete
  15. اوجی میرا تبصرہ کدھر گیا

    ReplyDelete
  16. تمسخر اور ہاں میں ہاں، ہوتا تو مناسب نہیں پر اب تو یہ نارمل سی بات لگتی ہے ۔ اگر اختلافات اسقدر ہوں تو ایسے وقتوں پر کولیبوریٹیو ٹالکس مناسب نہیں ہوا کرتیں کیا ؟ یا شائد اب ہر بات کو تمسخر میں اڑا دینا ہی کولیبوریٹیو ٹالکس کا نیا مطلب ہے ۔

    ReplyDelete
  17. This comment has been removed by a blog administrator.

    ReplyDelete
  18. کاشف نصیر صاحب، جو تبصرے اب تک حاصل ہوئے وہ موجود ہیں۔ میں نے اسپیم بھی چیک کر لیا کچھ نہیں ہے۔ غالباً آپ بھیجنا بھول گئے ہیں۔

    ReplyDelete
  19. ہائیں۔۔۔۔۔
    میرا ایک عظیم تبصرہ غائب ہے جی۔

    ReplyDelete
  20. عثمان اگر حجامت والے تبصرے کی بات کررہے ہیں تو وہ اوپر موجود ہے اور اسی سے انسپائر ہوکر میں نے بھی جوابی تبصرہ کیا تھا!!!!
    :)

    ReplyDelete
  21. نہیں جی اوپر والا تبصرہ ہی موڈریشن میں پڑا تھا ۔ زحمت کے لئے معذرت، عثمان جی ہمارا تو ہر تبصرہ عظیم الشان ہوتا ہے۔ :mrgreen:

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ