Saturday, September 4, 2010

سر سید احمد خان-تعلیم۔ ۲


سر سید کی تعلیم کا آغاز گھر سے ہوا۔ بسم اللہ قرآن حکیم سے ہوئ۔ اپنی والدہ اور ایک استانی سے جو انکے خاندان کے بچوں کو پرھاتی تھیں پڑھنا لکھنا سیکھا پھر فارسی اور عربی کی ابتدائ کتابیں پڑھیں۔ گلستان اور بوستان کے مطالعے میں بھی انکی والدہ انکی مدد کرتی رہیں۔ مکتب کی تعلیم میں مولوی حمید الدین انکے اتالیق تھے۔ تعلیمی استعداد پیدا ہونے پہ اپنے ننہیالی تلخصص ریاضی کی طرف آئے۔ پھر آلات رصد کے علوم کی تحصیل کا شوق ہوا۔ پھر اپنے خاندانی حکیم غلام حیدر کے زیر اثر طب میں دلچسپی لینے لگے۔ طب کی ابتدائ کتابیں ان سے پڑھیں اور کچھ عرصے انکی شاگردی میں طبابت کا تجربہ حاصل کیا۔ یہ دلچسپی بھی زیادہ عرصے نہ رہی۔ طبیعت کے رجحان اور افتاد طبع کے مطابق مختلف کتابیں انکے زیر مطالعہ رہیں مگر علم کے کسی خاص شعبے میں کوئ قابل لحاظ قابلیت پیدا کرنے کا خیال نہیں آیا۔ البتہ دہلی کی علمی و ادبی مجلسوں میں بیٹھنے کا موقعہ انہیں اکثر ملتا رہتا تھا۔ اہل علم و ادب سے انکی ملاقات رہتی۔ اس وقت کے مشہور شعراء و ادباء میں مرزا غالب، مفتی صدر الدین خان آزردہ۔ اور امام بخش صہبائ کے ہاں انکا آنا جانا تھا۔
سن  ۱۸۴۶میں انکے عزیز بڑے بھائ سید محمد خان چند روز بیماری میں مبتلا رہ کر وفات پا گئے۔ اس صدمے نے انکے دماغ پہ گہرا اثر ڈالا۔ دنیا کی رنگینیوں سے دل اچاٹ ہو گیا۔انکی کایا ہی پلٹ گئ۔ داڑھی بڑھا لی۔ زہد و تقوی میں مستعد ہو گئے۔ علم کی پیاس ازسر نو عود کر آئ دینی کتب کا کے مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ لڑکپن میں جو رسائل سرسری پڑھے تھے انہیں دوبارہ غور خوض سے پڑھا۔ مولوی واعظ علی جو دلی کے مشہور واعظ تھے ان سے علم فقہ پر کتابیں پڑھیں۔ مولوی فیض  الحسن سے مقامات حریری اور سبعہ معلقہ کے چند قصیدے سبقاً پڑھے۔ شاہ عبدالعزیز کے بھتیجے اور شاہ رفیع الدین کے خلف الصدق سے حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ پھر انہی سے علوم القراں کی تحصیل کی اور سند لی۔
اس دوران صہبائ، آزردہ اور غالب کے یہاں بھی باقاعدگی سے حاضر ہوتے رہے۔ اور ان سے اکتساب فیض کرتے رہے۔ غالب کے خاندان سے انکے ننہیال کے خاندانی روابط تھے۔ وہ انہیں اپنا چچا کہتے تھے اور غالب ان سے بیٹوں جیسا سلوک کرتے اور شفقت فرماتے۔
تو صاحب، یہ ان لوگوں کے قصوں میں سے ایک کا قصہ ہے جو اپنی جہالت پہ فخر کر کے اسے بیان نہیں کرتے تھے بلکہ اسے کم کرنے کی جدو جہد میں لگے رہتے تھے۔ یہ کہانی ابھی جاری ہے۔

65 comments:

  1. ہمارے ہاں قیام پاکستان بننے کے بعد جو ازسرنو تاریخ ایجاد کی گئی ہے اس میں سرسید کو ناحق نیم ولن کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ ایک طبقہ تو ایسا ہے کہ اسے سرسید سے سخت عناد ہے۔ خیر یہ لوگ تو علامہ اقبال اور قائد اعظم کو بھی رگیدتے رہے۔ سرسید کی زندگی کا مطالعہ کرتے وقت یہ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ اُن کے حالات زندگی اور خیالات کو زمان و مکان کے اعتبار سے پرکھا جائے۔ اُس دور میں سرسید جیسی حقیقت پسندانہ سوچ اور فلسفہ کا کوئی بہتر متبادل ملنا مشکل تھا ۔ چاہے وہ مذہب کے بارے میں ہو ، معاشرت یا سیاست کے بارے میں۔ برصغیر پاک و ہند کے موجودہ مسلمان معاشرے کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ ہم نیچے کی طرف سفر کررہے ہیں۔ جذباتیت بلکہ جنونیت عقل کے آگے لگا رکھی ہے۔
    سرسید کے غالب کے ساتھ اتنےگہرے تعلق سے میں ناآشنا تھا۔ یہ خوب رہی۔ اگر اس کے متعلق مزید معلومات ہوں تو بیان کیجئے گا۔
    آپ نے ایک لفظ "تلخصص" کا استعمال کیا ہے؟ اس کے کیا معنی ہیں؟ میرے پاس کوئی اچھی آن لائن ڈکشنری نہیں۔ اگر آپ کو پتا ہے تو کوئی لنک شئیر کردیں۔ جس کے ذخیرہ الفاظ مناسب ہوں۔

    ReplyDelete
  2. یہ کہانی ابھی جاری ہے۔
    آپکو شائد خود یقین نہیں ہے اسلئے یا کہ طنزا کہا ہے ۔

    ReplyDelete
  3. عثمان، جی ہاں آپ نے بجا فرمایا کہ ایک طبقے کو سر سید احمد کاں سے بڑا عناد ہے اس میں جماعت اسلامی بھی شامل ہے۔ ہر وہ طبقہ جو بارہ سو تیرہ سو سال کی پکی پکائ پہ زندگی گذارنا چاہتا ہے اور اپنے طور پہ خود سے کچھ کرنے کے قابل نہیں انہیں اس قسم کے لوگوں سے عناد اور تکلیف رہتی ہے۔ انکے نزدیک زندگی کو ڈیڑھ ہزار سال پہلے کے ڈھب پہ چلے جانا چاہئیے تاکہ پھر انکا بول بالا ہو سکے۔ اگر اس سے ہٹے تو پھر تو خود سے کچھ خیال و فکر کے گھوڑے دوڑانے پڑیں گے۔ وہ اسکی تاب نہیں لا سکتے۔ وہ کسی بھی ایسے شخص کو کیسے سراہ سکتے ہیں جو اپنے زمانے سے اس قدر ہٹ کر سوچ سکتا ہو اور عملی طور پہ اسے کر کے بھی دکھا سکتا ہو۔
    چونکہ ابھی یہ سلسہ جاری ہے تو آثارالصنادی جو سر سید کی ایک کتاب کا نام ہے اسکی تحریر کے وقت غالب نے ایک بڑا دلچسپ بیان دیا لیکن اسکا تذکرہ اسی وقت ہوگا۔
    تلخصص، میں نے فیروز اللغات ، جو کہ میرے پاس موجود ہے اس میں چیک کیا، نہیں ملا۔ اب عبارت کےاستعمال سے اندازہ ہوتا ہے کہ انکے خاندان میں پڑھا جانے والا مخصوص علم، جس میں باقی خاندان والے بھی دلچسپی رکھتے ہوں۔ یہی معنی ہونگے۔ فیروز اللغات، اردو تھیسارس اور لونگ مین کی انگلش ڈکشنری میرے کمپیوٹر کے دائیں جانب ایک ہاتھ سے بھی کم فاصلے پہ ہمیشہ رہتی ہیں۔ اس لئے کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ کوئ آن لائن اردو ڈکشنری ہے یا نہیں۔ ہو سکتا ہے کوئ اور آپکی مدد کر دے۔

    ReplyDelete
  4. جاہل اور سنکی، سر سید احمد خان پہ بات جاری ہے۔ یہ تھی سادی سی بات۔ ارے فلسفی، آپ کچھ سادہ بھی سوچا کریں۔

    ReplyDelete
  5. پاکستان میں میرے پاس فیروز لغات ہوتی تھی۔ لیکن وہ کافی پرانا ایڈیشن تھا۔ جب سے کینیڈا آیا ہوں اردو لغت کا مسئلہ درپیش ہے۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی مرتب کردہ آن لائن لغت ڈھونڈی تھی جو کافی کارآمد تھی۔ لیکن یہ اب تقریبا وفات پاگئی ہے۔ سرچ کرنے سے کوئی نتائج برآمد نہیں ہوتے۔
    چند سال پہلے میں نے بی بی سی پر ایک آرٹیکل پڑھا تھا جس میں یہ ذکر تھا کہ فیروز لغات کے نئے ایڈیشن میں ذخیرہ الفاظ کی تعداد کم ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ دنیا کی واحد لغت ہے جس میں الفاظ کم ہورہے ہیں۔ پاکستان کی ہر شے ذندہ آباد!

    ReplyDelete
  6. سید احمد خان بلاایک بڑے عالم، ایب اور محقق تھے، اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے جدید اردو نثر کی طرح ڈالی تو بے جا نہ ہوگا۔ تہذیب الخلاق کے زریعے انہوں نے اردو صحافت کی بنیاد ڈالی اور انکے اخلاقی مضامین آج بھی اردو زبان و ادب کا بہترین سرمایہ ہے۔ لیکن بات کو جانبدار ہوکر نہ دیکھا جائے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ تاج برطانیہ کے نمک خواں مغربی تہذیب اور ترقی اور نشاۃ ثانیہ کے روسیا بھی تھے اور جب جنگ آزادی میں ہندو مسلم غیر ملکی تسلک کے خلاف بھرپور جنگ کررہے تھے تو دہلی میں سید احمد خان کا گھر انگریز افسروں اور انکے اہل خانہ کی سب سے بڑی پناہ گاہ کا کردار ادا کررہا تھا۔ سر سید کا ایک کردار مرعوبیت کی بنیاد ڈالنے کا بھی ہے، انہوں نے مسلمانوں کو بھی انگریزوں کی وفاداری کا سبق دیا۔انہوں نے لاڈ میکالے کے تعلیمی نظام کو خود لاڈ میکالے سے پہلے نافظ کیا اور حقیقت یہ ہے کہ ابتدائی تین چار عشروںمیں علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ صرف انگریز کو کلرکی کا کام سر انجام دے رہے تھے۔

    مجھے نہیں معلوم کہ عثمان کو یہ غلط فہمی کیسے ہوگئی کہ قیام پاکستان کے بعد سر سید کے کردار کو متنازعہ کیا گیا اور عنیقہ یہ کیسے کہ رہی ہیں کہ قصور جماعت کا ہے۔ صاحب قیام پاکستان کے بعد تو سرسید کو نئی جلا ملی، مطالعہ پاکستان میں انکو پاکستان کا سب سے پہلا خالق قرار دیا گیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مطالعہ پاکستان تو شروع ہی ان سے ہوتی ہے۔ ہاں سر سید کی اصل مخالفت انے معاثرین نے کی بات کے لوگوں رعایت برتی۔

    اور مجھے یہ بھی معلوم کہ عنیقہ سرسید کے دفاع کے لئے آگے تو آگئی ہیں لیکن انہوں نے خود سرسید کے ہزاروں صفحات پر مشتعمل علمی کارناموں میں سے کتنے کا مطالعہ کر رکھا ہے اور انہیں ان کے فہم دین کے بارے میں کیا علم ہے۔ اور کیا وہ جانتی ہے کہ قیام پاکستان سے قبل سرسید کو بہت کم لوگ جانتے تھے۔

    لیکن ایک بات ریکارڈ کی درستگی کے لئے یہاں بتانا چاہوں گا کہ سید احمد خان کی اصل مخالفت خود انکے دور میں ہوئی تھی۔ جب انہوں نے اپنی عقل کی بنیاد پر نیچیریت کا نعرہ لگایا تو اس وقت کے علمائے حق نے جو اللہ طرف سے چودسو سال پہلے ملی پر قناعت کرتے ہیں اور دین میں ایجاد، تجدد اور رنگنیوں کے قائل نہیں نے ہی سید احمد خان کو انگیزوں کو ایجنٹ قرار دیا تھا۔ جماعت اسلامی تو پونے سو سال بعد کی کہانی ہے۔

    اور ہان کیا وجہ تھی کہ اسلام کے غم میں گھلتے سید امحد خان کے مدرسہ میں 1906 تک سوائے قرآن ، حدیث اور فقہا کے تمام جدید علوم پڑھائے جاتے تھے اور شاعر مشرق بھی محمدن اورنٹل کالج کے نصاب سے متفق نہیں تھے ۔

    ReplyDelete
  7. آگے چل کے ہسٹری چینل سے کچھ قوؤٹ کرنے کا پروگرام نہ ہو کہیں ۔
    ہسٹری چینل والے تو اب اپنی ہی سنائی ہوئی ہسٹری کو سٹوری کہتے ہیں ۔

    ReplyDelete
  8. تصیح کرلیں
    بلا : بلاشبہ
    سرمایہ ہے : سرمایہ ہیں
    تسلک : تسلط
    انگریز کو کلر

    ReplyDelete
  9. کاشف نصیر صاحب، پہلے تو اپنی اس غلط فہمی کے گڑھے سے فوراً باہر آجائیں کہ میں انکا دفاع کرنے اٹھ کھڑی ہوئ ہوں۔ جماعت کے لٹریچر کو اپنے بلاگ پہ چھاپیں اور میں اسکی رد کرنے بیٹھ جاءووں۔ ایسی مصیبت نہیں پڑی۔ یہ سب جماعتی لٹریچر ہزار دفعہ کا پڑھا ہوا اور سنا ہوا ہے۔ بالکل صحیح بتاءووں، میں نے آپکے وہ اسباق تفصیل سے نہیں پڑھے۔ معلوم تھا کہ کیا لکھا ہوگا۔ آپ نے ابھی پڑھنا شروع کیا ہے تو کیا ساری دنیا آپکے ساتھ آموختہ کرے گی۔
    میرے بلاگ پہ جو لوگ بھی آرہے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ میں سر سید احمد خان پہ پچھلے سال سے لکھنا چاہ رہی ہوں۔ تسلی کے لئے یہ لنک دیکھ لیں۔
    http://anqasha.blogspot.com/2010/02/blog-post_05.html
    آپ سب اپنے گھمنڈ اور لا علمی کو دوسروں پہ نافذ مت کیا کریں۔ ابھی آپ نے جامعہ جانا شروع کیا ہے۔ میں وہاں سے اپنی پی ایچ ڈی مکلمل کر کے اور کچھ عرصے درس و تدریس میں رہ کر نکل آئ ہوں۔
    میری ساڑھے تین سالہ بیٹی بھِ یہی سمجھتی ہے اور کہتی ہے کہ ماما آپکو نہیں پتہ ناں ، میں آپکو بتاتی ہوں کیسے ہوگا۔ مگر وہ جلد ہی اندازہ کر لیتی ہے کہ اسکا گمان کچھ زیادہ درست نہیں۔ آپ اس سے تو بڑے ہے ناں۔ میں کاشف نصیر یا کوئ اور شخص نہیں ہوں۔ ابھی آپکو بہت چلنا ہے۔ جہاں پہنچ کر آپ مجھ سے کہیں کہ آپ نے یہ نہیں کیا ہوگا۔
    جماعت انہی بزرگوں کے اقوال کو دوہراتی آئ ہے۔ آپ خود بھی تو انہی کا لٹریچر پڑھ کر رد کفر کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں تو جب ابھی سپر فشل قسم کی باتوں سے نکلیں گے تو ہی سمجھ پائیں گے نیچریت کیا چیز تھی اور اس وقت کے علماء اور آجکے علماء میں کوئ خاص فرق نہیں آپ بھی عالم ہیں۔ اسی بلاگستان میں بلاگرز اور مبصرین کو ملا لیا جائے تو کوئ درجن بھر اعلی پائے کے عالم تو یہی بیٹھے ہوئے ہیں۔ ویسے کوئ ضروری بھی نہیں کہ اس سے نکل جائیں، کچھ لوگ ساری عمر بڑے نہیں ہوتے۔ یہاں ایسی مثالیں موجود ہیں میں انہیں لکھنا نہیں چاہتی۔
    آرام سے رہئیے۔ میں نے لکھا ہے کہ کہانی جاری ہے۔ اوپر تبصرے میں بھی لکھ چکی ہوں کہ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ اس سے زیادہ لکھ کر میں اپنے موضوع کو تبصرے میں ضائع نہیں کرنا چاہتی۔

    ReplyDelete
  10. قصہ تو بہت دلچسپ ہے جی۔ بہت اعلی، ویسے میں نے تو آج تک مطالعہ پاکستان کی کسی کتاب میں سر سید کی ہجو گوئی نہیں دیکھی۔
    اور آخر مِیں مرغے کی ایک ٹانگ کے مصداق عناد سرسید میں جماعت اسلامی بھی شامل ہے۔۔۔
    یعنی اس طبقے میں سے صرف جماعت اسلامی ہی قابل ذکر تھی یا یہ بھی آپ کے بغض و عناد کا نتیجہ ہے؟

    اور سرسید کے اسلامی افکار اور دورغلامی میں کردار پر کیا بات کروں، پھر وہی رونا ہوگا آپ کو ہمارے شدت پسند اور رجعت پسند ہونے کا۔۔۔۔

    ReplyDelete
  11. عثمان، یہ اردو ڈکشنری بورڈ نے نئ ڈکشنری مرتب کی ہے جسکی بائیس جلدیں ہیں۔ ابھی چند مہینے پہلے ہی تو مارکیٹ میں آئ ہے۔ لیکن میں نے دیکھی نہیں ہے۔ لیجئیے خبر یہاں دیکھئیے۔

    http://www.dawn.com/wps/wcm/connect/dawn-content-library/dawn/the-newspaper/local/publication-of-22volume-urdu-lughat-celebrated-870
    یہ خبر جس گرم جوشی کی مستحق تھی اسے وہ تو نہ مل سکی۔ لیکن بہر حال اردو ڈکشنری بورڈ نے ایک اہم کام کیا ہے۔
    اردو میں فیروز اللغات کے علاوہ بھی لغات ہیں مثلاً فرہنگ آصفیہ اور نوراللغات۔

    ReplyDelete
  12. آپ کے دیے ہوئے لنک میں مقررین کے بیانات کافی دلچسپ اور قابل بحث ہیں۔ کبھی موضوع اس طرف آیا تو بات کریں گے۔ پاک وطن میں کسی مثبت بات کو پذیرائی کہاں ملتی ہے۔

    ReplyDelete
  13. آگے چل کے ہسٹری چینل سے کچھ قوؤٹ کرنے کا پروگرام نہ ہو کہیں ۔
    ہسٹری چینل والے تو اب اپنی ہی سنائی ہوئی ہسٹری کو سٹوری کہتے ہیں ۔

    ReplyDelete
  14. آپ نے لکھا ہے :
    "ہر وہ طبقہ جو بارہ سو تیرہ سو سال کی پکی پکائ پہ زندگی گذارنا چاہتا ہے"
    اس کا کیا مطلب ہے ??
    عقائد اور عبادات ... یہ دو ایسے معاملات ہیں جو 1400 سال پہلے رسول عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دئے تھے ، بس قیامت تک یہی قائم رہیں گے ، چاہے کوئی اس کو "پکی پکائی" کا عنوان دے لے یا "دقیانوسیت" کا.
    مسلم معاشرے کی سربلندی کے لیے سرسید کے جو کچھ بھی اچھے کام تھے ... وہ سب سر آنکھوں پر. لیکن وہ معاملات ... جو عقائد اور عبادات سے متعلق تھے ... مثلاً : معجزات ، جنت جہنم کی حقیقت ، آدم (علیہ السلام) اور ابلیس ، دعا کے فوائد ، جبرئیل علیہ السلام کی حقیقت ، مقام نبوت ... وغیرہ .... ان سب کا سرسید نے اگر انکار کیا ہے تو کیا یہ قابل تعریف بات ہے?
    قرآن کی شرح احادیث صحیحہ ہیں ، اگر ان ہی کا انکار کر دیا جائے تو دین میں پھر بچے گا کیا?
    اگر کوئی سرسید یا کوئی غامدی ان "شروحات" کو "پکی پکائی" کا عنوان دے کر نئے سرے سے دین کی تشریح کرنا چاہتا ہے تو پھر اسلام اور یہودیت/نصرانیت میں فرق ہی کیا رہ پائے گا?

    یہ ضرور یاد رکھئے کہ میں نے صرف "عقائد اور عبادات" کی بات کی ہے ، اس سے ہٹ کر دیگر معاملات کی نہیں.

    ReplyDelete
  15. میں نے اپنے تبصرے میں کب کہا کہ آپ نے یہ مضمون میرے مضمون کے جواب میں لکھا ہے۔ آپ نے سرسید کی زندگی کا ذکر کیا اور میں نے بھی انکی زندگی کے کچھ اوراق کھول دئے جس کے جواب میں آپ حضرات کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے اور میں نے ساتھی بلاگر عثمان کے اس انکشاف پر کہ پاکستان بننے کے بعد سر سید کو ولن کے طور پر پیش کیا گیا حیرت کا اظہار کیا۔ کمال ہے کہ آپ نے یہ سمجھا۔ اب اگر کوئی اور ہوتا تو وہ کہتا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    جہاں تک لڑیچر کا تعلق ہے خود میں نے سید مدودی کو کچھ زیادہ نہیں پڑھا ہوا۔ اور گریجویشن تک تو بلکل بھی نہیں پڑھا تھا۔ لیکن پچھلے کچھ دو برسوں میں جب سے قرآن کے معنوی علوم سے شغف ہوا میں نے انہیں کھلے ذہن سے پڑھا اور انکی عالمانہ تحاریر کو داد دئے بغیر نہ رہ سکا جب کے جماعت کے دیگر لٹریچر سے مجھے ابھی بھی کوئی آگاہی نہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ میں جس ماحول میں پلا بڑھا وہاں جماعت کا دور دور تک کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے گھر میں شروع سے ہی کتابوں کی ایک بہت بڑی الماری ہے لیکن اس میں سید مدودی یا جماعت کا کوئی لٹریچر موجود نہیں تھا۔ اس لئے لڑیچر والا الزام خلاف حقیقت ہے اور مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تکرار نہ کی جائے۔

    ایک بات مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے کچھ پڑھے لکھوں کو جماعت یا ان لوگوں کو جو عام فہم میں مذہب پسند کہلاتے ہیں سے اتنی چڑ کیوں ہیں کہ دوران گفتگو محض انکے حوالوں سے ہی متلی شروع ہوجاتی ہے لیکن مجال ہے کہ اور کسی کا بھی زکر کرلو اسطرح ردعمل سامنے آئے۔

    ایک چیز یاد رکھیں صاحب رائے شخص ہی کچھ لکھتا اور لوگوں تک اپنے خیالات پہنچاتا ہے۔ صاحب رائے یعنی جس کی ہر معاملے پر کوئی رائے ہو ذاتی یا اخز کی ہوئی۔ پھر غیر جانبداری کیا چیز ہوتی ہے۔ ایک رپورٹر اور مخبر کو تو غیر جانبدار ہونا چاہئے لیکن ایک شخص جو اپنے خیالات بیان کرتا ہے وہ کیونکر غیر جانب دار ہوسکتا ہے۔ جانب داری کا مطلب ہے کہ آپ جسے غلط سمجھتے ہیں اسے کھل کر غلط کہیں اور جسے ٹھیک سمجھتے ہیں اسے کھل کر ٹھیک کہیں مگر استدلال کے ساتھ، دلائل اور منطق کے ساتھ نہ کہ صرف مخالفت برائے مخالفت کہ صاحب تم سے تو بات ہی نہیں کرنی کہ تم جماعتی ہو۔ جماعتی بھی گویا کوئی گالی ہوگئی۔

    سر سید کی توصیف کی جائے تو غیر جانبداری اور سید مدودی کی تعریف کی جائے تو جرم اور جماعتی ہونے کا لیبل۔ اوف یہ تنگ نظری جس کا الزام صرف مذہبی لوگوں پر عائد کیا جاتا ہے دوسری جانب کے نتہاپسندوں میں بھی جو آپنی دانست میں خود کو خوب عقل پرست اور تہذیب و اخلاق کا معمار سمجھتے ہیں بدرجہ اتم موجود ہے۔

    ReplyDelete
  16. کاشف نصیر صاحب، آپ نے لکھاہے کہ
    آپ نے سرسید کی زندگی کا ذکر کیا اور میں نے بھی انکی زندگی کے کچھ اوراق کھول دئے جس کے جواب میں آپ حضرات کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔

    اب آپکی اس بات پہ کیا کہا جائے کہ آپکو میری بات سمجھ نہیں آئ کہ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ آپ نے یہ کیسے اخذ کر لیا کہ کسی کے پاس اس موضوع پہ کہنے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ یہ آپکے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت ہے۔
    انتظار کریں۔ جہاں مودودی صاحب کو اب اس عمر میں آکر پڑھنا شروع کیا وہاں دل دماغ اسی طرح کھلے رکھیں۔ علم کی کوئ حد نہیں ہے۔ قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پہ تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں۔
    اگر آپ مودودی صاحب کی سوانح پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ انہوں نے کوئ باقاعدہ تعلیم کوئ خاص حاصل نہیں کی تھی۔ انہوں نے تفسیر قرآن لکھی لیکن یہ تفسیر خود انکی جدیدت پر مبنی ہے اور ثقہ قسم کے اسلامہ علماء اسے بالکل پسند نہیں کرتے۔ سر سید نے بھی اپنے زمانے کے لحاظ سے جدیدیت کا ہی مظاہرہ کیا تھا۔ اسے آپ اس وقت کے علماء کی زبان استعمال کرتے ہوئے نیچریت کہہ رہے ہیں۔ جبکہ آپ سائینس کے طالب علم بھی نہیں اور نہ ہی آپکو اس شغف ہے پھر آپ اتنی شد ومد سے یہ اصطلاح کس کی تقلید میں استعمال کر رہے ہیں۔
    آپکی باقی باتوں کے لئے ایک دفعہ پھر کہونگی کہ انتظار کریں۔ میں وہ سب کچھ لکھونگی جو انکے متعلق لکھا گیا ہے۔
    جاہل اور سنکی، تاریخ کتابوں کے ذریعے ہی ہم تک پہنچی ہے۔ چاہے وہ سیرت النبی یا احادیث ہی کیوں نہ ہوں یا سائینس کے قوانین۔ صرف لکھنے والے کی جانبداری ہی نہیں پڑھنے والے کی جانبداری بھی ہوتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ایک غلط حقیقت کو پیش کرنے کے باوجود جزاک الل اور ماشااللہ کی صدائیں آسمان ہلا دیتی ہیں۔ اور ایک صحیح بات کہنے والا اپنی زندگی زنداں کی نذر کر دیتا ہے۔
    ابھی تو سر سید کے متعلق انتہائ سادہ ترین باتوں کا تذکرہ ہوا ہے جو کہ سر سید کی اپنی بیان کردہ باتوں اور حالی نے جو انکا حیات نامہ لکھا تھا ان سے اور دیگر اور تحریروں سے لئے گئے ہیں۔ اس میں اتنی تشویش کی کیا بات ہو گئ ہے۔ جو جانبداری اور غیر جانبداری کے مسائل کھڑے ہوں۔
    جہاں تک ہماری درسی کتابوں کا تذکرہ ہے مجھے یاد کرنے دیں۔ سر سید کے متعلق پہلی تحریر آٹحویں کلاس میں ملتی ہے۔ یہ اردو کی کتاب میں ہے اور موضوع ہے اسکا بحث و تکرار۔ یہ سر سید کے مضامین تہذیب الاخلاق سے لی گیا
    تھا۔ سر سید کے متعلق مزید لائینیں مطالعہ ء پاکستان میں علی گڑھ یونیورسٹی کے حوالے سے ملتی ہیں اور انکی ایک اور تحریر ہم پڑھتے ہیں شاید نویں یا گیارہویں جماعت میں اور اسکا نام ہے میرا بچپن۔ اسکے علاوہ درسی کتابوں سے مجھے ایسا کچھ خاص نہیں ملتا۔ یہی کتابیں یا اس سے ملتی جلتی کتابیں آپ نے بھی پڑھی ہونگیں۔ کیا تائثر بنتا ہے کسی نو وردگان علم میں انکا۔ کیا بالکل وہی جو قائد اعظم کا اور اقبال کا ہے؟
    لیکن جب ہم ان کتابوں سے باہر کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو بالخصوص ہمارے روائیتی مذہبی عناصر انہیں فاسق قرار دے دیتے ہیں۔ سی لائین میں قائد اعظم بھی کھڑے نظر آتے ہیں۔ اقبال نے چونکہ مذہبی استعارے استعمال کئے ہیں اور جم جشتہ ماضی پہ وہ صدمے میں بھی ہیں اس لئے انکی تھوڑی بہت جاں بخشی ہو جاتی ہے۔
    اور پھر وہ کہتے ہیں کہ
    ایک بات مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے کچھ پڑھے لکھوں کو جماعت یا ان لوگوں کو جو عام فہم میں مذہب پسند کہلاتے ہیں سے اتنی چڑ کیوں ہیں کہ دوران گفتگو محض انکے حوالوں سے ہی متلی شروع ہوجاتی ہے لیکن مجال ہے کہ اور کسی کا بھی زکر کرلو اسطرح ردعمل سامنے آئے۔

    ReplyDelete
  17. جاہل اور سنکی، معذرت یہ میں کاشف نصیر اور وقار اعظم کا نام لکھنے کے بجائے آپکا نام لکھ گئ۔ وہی اپنے آپکو مخاطب سمجھیں۔

    ReplyDelete
  18. لگتا ھے شاہ صاحبان کے کارناموں کا دور تھا یہ ۱۷ سے لیکر ا۹ سو تک۔
    کچھ ادھر کے اور کچھ ادھر۔
    کچھ جدید اور کچھ چودہ پندرہ سو سال پہلے کے دور میں ہی جینے والے۔

    ReplyDelete
  19. کچھ حضرات معصومیت سے پوچھ رہے ہیں کہ سرسید کو میٹرک کی مطالعہ پاکستان کی کتاب میں ولن کہاں کہا گیا ہے؟
    اول تو عنیقہ نے جزوی جواب ادھر ہی دے دیا ہے. باقی میں بھی صرف اتنا بتا دوں کہ کسی کا قد چھوٹا کرکے اور اس کی تمام تر خدمات کو حذف کرکے ان کا ذکر دو تین صفحات تک محدود کردینا نا انصافی کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ انیسویں صدی میں برصغیر کے مسلمانوں کو جہد مسلسل کی طرف مائل رکھنے اور ان میں علم و فکر کی شمع جلانے کا سہرا بڑی حد تک سرسید ہی کے سر بندھتا ہے۔ افسوسناک بات ہے کہ ہمارا مذہب پرست طبقہ سرسید سے ان کا یہ مقام چھین کر سارا سہرا دارلعلوم دیوبند جیسے اداروں کے سر باندھ دیتا ہے۔ کون مسلمانوں کو مستقبل کی طرف لے جارہا تھا اور کون صدیوں پیچھے۔۔۔۔یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ غیر جانبداری شرط ہونی چاہیے۔
    سرسید کی شخصیت کو جسطرح مسخ کیا گیا ہے اسے دیکھنے کے لئے محض میٹرک کی کتاب پر ہی اکتفا نہ کریں۔ پاکستان میں لوگوں اور "اسلامی تاریخ دانوں" کے عمومی رویے دیکھیں۔ اور کچھ نہیں تو اردو صحافت ہی پر نظر ڈال لیجئے جہاں بیٹھے کچھ لوگ سرسید کو محض انگریزوں کے ایجنٹ کے اور کچھ نہیں دیکھ پاتے۔

    ReplyDelete
  20. ۔۔۔۔ابھی تو سر سید کے متعلق انتہائ سادہ ترین باتوں کا تذکرہ ہوا ہے جو کہ سر سید کی اپنی بیان کردہ باتوں اور حالی نے جو انکا حیات نامہ لکھا تھا ان سے اور دیگر اور تحریروں سے لئے گئے ہیں۔ اس میں اتنی تشویش کی کیا بات ہو گئ ہے۔ جو جانبداری اور غیر جانبداری کے مسائل کھڑے ہوں۔۔۔۔

    محترمہ آپ کو کسی شدید قسم کی غلط فہمی نے گھیر رکھا ہے۔ میں نے تو تحریر کی تعریف کی ہے کہ بہت اعلی ہے۔

    باقی جانبداری تو آپ میں رچی بسی ہے جس کا اظہار آپ کے تبصروں سے ظاہر ہے۔ اور بات اسی پر ہورہی ہے۔ آپ کے سرسید پر کوئی بلاگ پوسٹ لکھ ڈالنے سے سرسید کا قد مزید نہیں بڑھ جائے گا اور نہ ہی مودودی صاحب کی ہجوگوئی سے ان کا قد کچھ کم ہوجائے گا۔ تو لگی رہیں مگر معاملات کو ایک دوسرے میں غلط ملط نہ کیا کریں۔۔۔۔

    ReplyDelete
  21. پاکستان اور ہندوستان میں عقل سلیم رکھنے والے لوگ سرسید احمد خان کو ملت اسلامیہ ہندوستان کاہیرو نہیں مانتے ۔ سر سید احمدخان نے ملت اسلامیہ کو انگریزوں کی غلامی کا خوگر کرنے کے لئیے اپنی زندگی وقف کی ۔ پاکستان میں کچھ ایسے لوگ البتہ ضرور موجود ہیں جو پاکستان کے ہر غدار ملت کو قائد ملت کے خطابات دئیے جانے پہ شدو مد سے اصرار کرتے ہیں ۔ اور جو لوگ اسکے برعکس تاریخ میں تمام غدران وطن کو انکے اصل کردار میں پیش کرنے کا تقاضہ کرتے ہیں ۔ انہیں پاکستان کا ایک مخصوص طبقہ جس کی اپنی فکر بجائے خود ایک سوالہ نشان ہے اور جن کی امامت ڈاکٹر مبارک علی وغیرہ کرتے ہیں۔ یہ طبقہ حقائق کی بناء پہ ببات کرنے والوں کو انتہاء پسند ۔ دقیا نوسی ۔ سقہ عالم، جماعتیے، قدامت پسند، دیوبندی ۔ کم علم۔ پی ایچ ڈی دگری محروم ۔ اسلام کو اوڑھنا بچھونا بنانے والے ۔ طالبان۔ کراچی سے باہر رہنے والے اور نت نئے خطابات سے نواز کر اپنی بات کو صرف اس دلیل سے درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بہت روشن خیال ہیں ۔ اسقدر روشن خیال کہ جو ان سے اتفاق نہ کرے خواہ وہ دینی احکام و اعمال ہی کیوں کر نہ ہوں ۔ وہ سب دھکوسلے ہوتے ہیں ۔ جب جواب نہ بن پڑے تو مسلمانوں کی خوب خبر لیتے ہیں ۔ انھیں نہ انکا اسلام پسند ہے نہ انھیں دنیا کی کوئی دلیل ۔ سچ اور واقعاتی تاریخ اپنے عزیز مشن سے ادہر ادہر کر سکتی ہے۔

    سبحان اللہ ۔
    یہ اللہ کی شان نہیں تو اور کیا ہے کہ بغیر کسی واقعاتی شہادت، دلیل، اور ثبوت کے غدران ملت کو قائدین ملت کے ساری پاکستانی قوم کے سر منڈھنے کی کوششیں دن رات ہر فورم اور ہر میسر ذرائع سے جاری ہیں۔ اور سمجھتے یہ کہ باقی قوم شاید گھاس چر گئی ہے۔ اور دیگر تاریخ سے واقفیت رکھنے والے شاید مسلمان انتہاء پسند، انتہاء پسند کی گردان کرنے والوں کے افتڑاء سے دب کر حق بات کہنے سے ہاتھ کینھچ لیں گے۔

    مسلمانوں پہ قابض انگریز حکمرانوں کی اس حد تک مدح سرائی ، چاپلوسی اور خوشامدکہ اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کو غدر کا نام دینے والے سر سید احمد خان کی طرح کابل کے حکمران احمد کرزئی کو بھی مستقبل میں افغانوں کا ہمدرد ، غمگسار، اور افغانوں کی حالت زار پہ کڑھنے والا عظیم رہنماء قرار دیا جائے خواہ کر زئی نے ھندوستان کے سرسید احمد خان کی طرح انتہائی خوشامد اور چاپلوسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور افغانستان اور عراق پہ ناحق قبضہ کرنے والے ٹونی بلئیر ، بش اور ملکہ وکٹوریہ کو عظیم المرتبت اور خدا کا سایا نہ بھی قرار دیا ہو۔

    ہمارا اصل المیہ ہماری قوم کا وہ بکاؤ مال ہے جس نے ہمیشہ اپنوں کی بجائے اغیار کی خدمات کیں۔ اور اس کہانی طرح یہ سلسہلہ جاری ہے۔

    ReplyDelete
  22. وقار اعظم، چونکہ میں نے کہیں یہ نہیں لکھا کہ یہ میری ذاتی تحقیق کا نتیجہ ہے۔ اس لئے قد بڑھابے اور گھٹانے سے اسکا کوئ تعلق نہیں۔ جو لوگ کام کر کے جا چکے ہیں انکے کام کے نتائج کے اثرات آج بھی چل رہے ہیں۔
    آپ ذرا ، اردو میں سر سید کا نام ڈال کر چیک کریں کہ کتنا مواد موجود ہے۔ میری اس قسم کی تمام تحریریں، اسی خلاء کو پر کرنے کے لئے اور جاوید صاحب جیسے لوگوں کے نظریات سامنے لانے کے لئے ہیں۔
    مودودی صاحب کی ہجو گوئ کیا ہے۔ یہ کہ اپنہ کم تعلیمی استعداد اور تعلیمی مذہبی پش منظر نہ رکھنے ے باوجود انہوں نے قرآن کی اپنے طور پہ ایک نئ اور سادہ تفہیم کی۔ اور بر غیر کے اعلی علماء اکرام انکی اس کوشش کو قابل قدر نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ کیونکہ انہوں نے تفہیم میں کچھ مروجہ اصولوں کی پاس داری نہیں۔ یہ تو ایک ایسی حقیقت کا بیان ہے جو سب جانتے ہیں۔ یہ ہجو گوئ میں کہاں سے آگیا۔ شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفادار ہونے کا مطلب جانتے ہیں آپ۔

    ReplyDelete
  23. وقار اعظم، اسے صحیح سے پڑھیں، برصغیر کے علماء اکرام۔
    جاوید صاحب۔ آپکی ان سب شدت پسند باتوں کا جواب آنے والی تحریروں میں ہے۔ جو رمضان کی مصروفیت کی وجہ سے تعطل میں ہے۔ آپ شاید اسی تاریخ سے واقف ہیں جو آپکو پسند آتی ہے اور آپکے بنیادی افکار کی روشنی میں ہوتی ہے۔
    اگر آپ اس صلاحیت سے محروم ہیں کہ کسی شخص کو اسکے زمانے کے پس منظر میں دیکھ کر اسلی کوششوں اور افکار لی تحسین نہ کر سکیں تو اس میں روشن خیال کہاں سے آگئے۔
    جب تک میں نے بانسری بجانا سیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی اس وقت تک اسے بجانا معمول کی بات سمجھتی تھی۔ ایک دفعہ جب اس چکر میں پڑی تو اندازہ ہوا کہ اس فن کی کیا نزاکتیں، خوبصورتیاں ہیں۔
    اسی طرح ایک صاحب بصیرت شخص کی صلاحیتوں کو کوئ قدر شناس ہی جان سکتا ہے۔ اور ہر ایک جوہری نہیں ہوتا۔ زیادہ تر لوگ ہیرے اور کانچ میں فرق نہیں کر سکتے۔ اگر کوئ کانچ کا ایک ٹکڑا انہیں دے کر اسے ہیرا سمجھا کر اسکی حفاظت کرنے کو کہہ دیں تو وہ اسکی حفاظت میں صدیوں لگے رہیں گے۔ اسکی ایک مقدس حیثیت متعین کریں گے کہ کوئ چند مخصوص لوگوں کے علاوہ ہاتھ نہ لگا پائے۔ وہ لوگ اسے دیکھیں گے ہیرے کی خوبصورتی کی تعریف کریں گے۔ اور کہیں گے ہیرا اصل میں ہیرا ہے۔ پھر انہیں میں سے ایک دن دماغی جینیاتی میوٹیشن کا شکار شخص اس ہیرے کو خاموشی سے چرا کر اسکی جانچ کرتا ہے اور معلوم کرتا ہے کہ یہ تو ہیرا نہیں ہے۔ لیکن لوگ اسکا حشر کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں کہ یہ تو چور ہے اس نے ہماری صدیوں پرانی امانت میں خیانت کی ہے۔ یہ شخص ہمارے لئے وجہ شرمندگی ہے۔ ننگ ملت ، ملت فروش۔
    آپ ان لوگوں میں سے ایک ہیں۔ اب یہ بتائیے گا کہ کس کا گناہ زیادہ ہے۔ اس چور کا یا ان لوگوں کا؟

    ReplyDelete
  24. یہ جو سوچ سرسید احمد خان کو حامد کرزئی کے مماثل قرار دیتی ہے یہ وہ سوچ ہے جو اپنی انا اور خود پسندی کے کنوئیں میں مقید ہے۔ یہ سوچ نہ تو اپنے محدود زمان و مکان سے مبرا ہوکر کچھ پرکھ سکتی ہے نہ یہ اپنے زمان مکان میں رہتے ہوئے کوئی تجدد اور فکر چاہتی ہے۔ اس سوچ کو ہر اُس سوچ سے نفرت ہے جو اس کے ہم آہنگ نہیں۔
    یہ سوچ باوجود اپنی تمام کوششوں کے کارنامئہ سرسید کو تاریخ کے سنہری صفحات سے مٹا نہیں سکی۔ یہ وہ سوچ ہے جسے یہ جان کر مروڑ اٹھتے ہیں کہ سرسید ہی وہ شخص تھے جو اُنیسویں صدی کے مسلمانوں کی سوچ کو دور جدید سے ہم آہنگ کرنے کے لئے کوشاں تھے۔ جبکہ دوسری طرف یہ بوسیدہ سوچ مسلمانوں کو سائنس اور دوسرے جدید علوم کو "انگریزی علوم" قرار دے اور محض دین سے رجوع کرانے کا ڈھکوسلا دے کرے پیچھے کی طرف بھگا رہی تھی۔
    یہ سوچ آج بھی تیسری دنیا کے مسلمانوں کو رگید رہی ہے جس کی بدولت مسلمان اقوام عالم میں ذلیل و خوار ہیں۔ اس سوچ کے ہاتھوں مسلمانوں کے ذلیل ہونے کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔

    ReplyDelete
  25. عنیقہ ناز ، آپ نے لکھا ہے : "تاریخ کتابوں کے ذریعے ہی ہم تک پہنچی ہے۔ چاہے وہ سیرت النبی یا احادیث ہی کیوں نہ ہوں یا سائینس کے قوانین"۔
    سائینس کے قوانین بےشک کتابی صورت میں آپ تک پہنچے ہوں. لیکن قرآن ، احادیث اور سیرت النبی کے متعلق آپ کا یہ دعویٰ ذرا محل نظر ہے. عام سائینسی قانون یا کتاب کا تقابل قرآن ، احادیث اور سیرت النبی سے قطعاً نہیں کیا جا سکتا. کیونکہ قرآن کا تعلق راست اللہ تعالیٰ سے جا ملتا ہے اور روایات صحیحہ کا تعلق الصادق الامین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جانثار صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے. صحابہ نے کلام ربانی یا احادیث صحیحہ کس طرح جمع کیں اور کس طرح ائمہ محدثین نے انہیں جانچ پرکھ کر درست قرار دیا .... یہ بھی ایک علم ہے. اس علم الرجال کا تقابل اگر دنیا کی کوئی سی بھی "سائینس" پیش کرتی ہو تو ذرا اس سائینس کا نام ہی بتا دیجئے گا.

    مزید آپ نے لکھا : "سر سید نے بھی اپنے زمانے کے لحاظ سے جدیدیت کا ہی مظاہرہ کیا تھا۔ اسے آپ اس وقت کے علماء کی زبان استعمال کرتے ہوئے نیچریت کہہ رہے ہیں۔ جبکہ آپ سائینس کے طالب علم بھی نہیں اور نہ ہی آپکو اس شغف ہے پھر آپ اتنی شد ومد سے یہ اصطلاح کس کی تقلید میں استعمال کر رہے ہیں"۔
    چلئے "نیچریت" کی تعریف آپ ہی اپنے کسی اگلے مضمون کے ذریعے سمجھا دیجئے گا. لیکن ایک بات ضرور یاد رکھئے گا کہ اگر "نیچریت" یا کوئی اور فلسفہ ، چودہ سو سال پہلے پیش کئے گئے قرآنی یا اسلامی عقائد کا رد کرتا ہو تو وہ علمائے اسلام تو چھوڑیں عام مسلمان کو بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا.

    ReplyDelete
  26. سرسید کو پاکستان کے اور پندوستان کے باہر کوئی نہیں جانتا۔ یہ ہے انکی ملی خدمات۔
    میں پہلے ہی اردو زبان و ادب کے لئے سرسید کی خدمات کا متعرف ہوں لیکن اصل چیز ہے کہ بحثیت مجموعی وہ انگریزوں کو خود تراش پودے تھے جنہوں نے مسلمانوں کو صرف اور صرف غلامی کا سبق دیا۔ کیا کوئی سابق کرسکتا ہے کہ سر سید نے کبھی مسلمانوں کو آزادی کا سبق دیا ہو، آخرکیوں نہیں دیا۔
    علامہ اقبال کہتے ہیں
    غلامی میں کام آتی ہیں نہ تدبیریں نہ شمشیریں
    اور جہاں تک بازوق کے بیان کردہ چیزیں جیسے معجزات ، جنت جہنم کی حقیقت ، آدم (علیہ السلام) اور ابلیس ، دعا کے فوائد ، جبرئیل علیہ السلام کی حقیقت ، مقام نبوت ۔ وغیرہ کا تعلق ہے وہ الگ ہیں۔
    بہرحال ہم تو محمد رسول اللہ صلہی اللہ و علیہ وسلم اور انکے صحابہ کے دسترخوان پر بیٹھے گے آپ حضرات اپنا علیحدہ دسترخوان پچھانا چاہتے ہیں تو شوق سے بچھائیں۔

    ReplyDelete
  27. عنیقہ ناز لکھتی ہیں : "اسی طرح ایک صاحب بصیرت شخص کی صلاحیتوں کو کوئ قدر شناس ہی جان سکتا ہے۔ اور ہر ایک جوہری نہیں ہوتا۔ زیادہ تر لوگ ہیرے اور کانچ میں فرق نہیں کر سکتے۔ اگر کوئ کانچ کا ایک ٹکڑا انہیں دے کر اسے ہیرا سمجھا کر اسکی حفاظت کرنے کو کہہ دیں تو وہ اسکی حفاظت میں صدیوں لگے رہیں گے۔ اسکی ایک مقدس حیثیت متعین کریں گے کہ کوئ چند مخصوص لوگوں کے علاوہ ہاتھ نہ لگا پائے۔ وہ لوگ اسے دیکھیں گے ہیرے کی خوبصورتی کی تعریف کریں گے۔ اور کہیں گے ہیرا اصل میں ہیرا ہے۔ پھر انہیں میں سے ایک دن دماغی جینیاتی میوٹیشن کا شکار شخص اس ہیرے کو خاموشی سے چرا کر اسکی جانچ کرتا ہے اور معلوم کرتا ہے کہ یہ تو ہیرا نہیں ہے"۔
    یہ بہت اچھی مثال پیش کی آپ نے.
    اور یہی مثال آپ سرسید کی "تفسیر القرآن" پر لاگو کر کے دیکھیں.
    یاد رکھیں کہ اس معاملے میں صاحبان بصیرت "محدثین" رہیں گے جو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تشریح (احادیث) اور صحابہ کی تفسیر کی صحت کو ثابت کریں گے. اور صحت جب ثابت ہو جائے تو احادیث صحیحہ اور تفاسیر صحابہ کے مقابلے میں دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے دماغی جینیاتی میوٹیشن کا شکار شخص کی منطق یا تاویل کام نہیں آ سکے گی !!

    ReplyDelete
  28. ہیرے کو شیشہ یا شیشے کو شیشہ تو تقریبا ہر کوئی ہی کہہ لیتا ہے ۔ شیشے سے ہیرے کی کرنیں نکال لینا ہر کسی کے بس کا نہیں ہوتا ۔

    ReplyDelete
  29. نظريہ مودوديت کے پيروکار تو قائد اعظم کو بھی کافر اعظم کہتے ھے ،ان حضرات کا بس چلے تو قائد اعظم ، علامہ اقبال وغیرہ کی تصویر پہ جماعتی اسٹائیل کی داڑھی لگادے ،
    مودودی حضرت تو تمام علوم و فنون ميں مہارت رکھتے تھے۔ يہ ہماری کم علمی ہے کہ ہميں معلوم ہی نہيں کہ ان حضرت نے يہ علم و فن کس سے حاصل کيا۔اس ليے ان حضرت کے پيروکار يہ کہتے ہيں کہ جماعت اسلامی ميں اسلام ہے اسلام ميں جماعت اسلامی نہيں۔
    جماعت اسلامی کی۔ پاکستان کے بننے سے لیکر آج تک جتنے بھی جمہوریت نے نقصان اٹھائے ہیں وہ سب اس جماعت کے تحفے ہیں۔
    جماعت کی خدمات پر ایک احتمالی نظر ڈالتے ہیں۔ جماعت نے پاکستان کی کافر تاریخ کو مشرف بہ اسلام کیا، پھر سکولوں کے استادوں کو سکھایا کہ یہ تاریخ پڑھائی کیسے جاتی ہے۔ جماعت نے ہمارے پہلے سے ہی مسلمان آئین کو اور مسلمان کیا پھر ججوں کو سکھایا کہ اس آئین کی تشریح کیسے کی جانی چاہیے۔ جماعت اسلامی نے کمیونزم کو شکست دی، سویت یونین کے حصے بخرے کیے، کتنی ہی وسط ایشیائی ریاستوں کو آزاد کرایا، افغانستان کو تو اتنی دفعہ آزاد کرایا کہ خود افغانی پناہ مانگ اٹھے
    جماعتوں کو بھی یہ ہنر سکھایا کہ اگر کوئی دلیل نہ بن پڑے تو کوئی آیت اور حدیث پڑھ دو یا قادیانیت کا سرٹییفکٹ
    دے دو مخالف کا منہ بند ہو جائے گا۔

    جماعت کے ليے
    ’ہم آہ بھی بھرتے ہيں تو ہو جاتے ہيں بدنام
    وہ قتل بھی کر ديں تو چرچا نہيں ہوتا‘

    ReplyDelete
  30. http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/09/100905_baat_se_baat.shtml

    اس کالم میں وسعت نے بھی ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اپنے منفی عمل اور منفی سوچ سے پاکستان کو اس حالت تک پہنچادیا ہے اور اب بھی وہ اپنے اسی ایجینڈے کو فالو کررہے ہیں!!!!!
    کون لوگ؟
    یہ آپلوگ مجھ سے ذیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں!!!!!
    لیاقت علی خان غدار اور سردار شوکت حیات وفا دار!!!

    ReplyDelete
  31. کافی عرصے بعد وقت ملا کہ پرانے کوچے کی سیر کریں۔ عنوان اور اقتباس سے خوشی ہوئی کہ لفظی جگالیوں کے علاوہ بھی کچھ لکھا جارہا ہے لیکن تبصرہ جات میں تو وہی معرکہ آرائی جاری ہے تو کیوں نا میں بھی مقدور بھر دانش وری جھاڑوں۔۔۔۔۔۔۔
    پہلے تو لفظ “تلخصص“ کی بات ہو جائے میرے خیال میں تو یہ املاء کی غلطی ہے اگر اسے یوں پڑھا جائے “ تعلیمی استعداد پیدا ہونے پہ اپنے ننہیالی تخصص ریاضی کی طرف آئے۔“ تو بات سمجھ میں آجاتی ہے۔
    اب رہے سرسیداحمد خان تو بات تو سچ ہے کہ وہ نیچری تھے اور جدیدیت کا پرچار کرتے تھے اسی لیے سرسید احمد خان ایک شخص نہیں ایک طبقہ فکر کا نام ہے ایک طرف غالب، حالی اور سر سید کھڑے تھے اور دوسری جانب
    پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
    لفظ پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
    پیٹ چلتا ہے آنکھ آئی ہے

    جی ہاں اکبر الہ آبادی اور مدرسہ دیوبند کے بانی مولانا قاسم ناتونوی جیسے بزرگ تھے اب ہم اور آپ کے لیے یہ فیصلہ کرنا تو آسان ہے ( میں نا مانوں کی گنجائش رکھنی چاہیے ) کہ کس کی کوششوں کا کیا نتیجہ نکلا؟ سب جانتے ہیں کہ تحریکِ پاکستان کی کامیابی میں علیگڑھ کا کتنا ہاتھ ہے اور پچاس ساٹھ کی دھائی تک تو مزہبی جماعتوں نے قیامِ پاکستان کی مخالفت والے موقف سے رجوع ہی نہیں کیا تھا۔
    سرسید کی وکالت یا انکے مخالفین کی ہجو مقصود نہیں ہے تاریخ کو ہماری پسند نا پسند سے کوئی غرض نہیں ہوتی اس لیے حقائق بیان کریں نتائج قاری پر چھوڑ دیں۔
    ( شُرلی )مجھے سر سید کی جدیدیت یا نیچری میں کوئی برائی نظر نہیں آتی اس کا اپنا نظریہ تھااور اس نظریے کے باوجود مولانا حسرت موہانی اور مولانا محمد علی جوہر جیسے بطل عظیم انکی درس گاہ سے پیدا ہوئے۔ جب آئزک نیوٹن اور آئن سٹائن جیسے کفار کی تھیوریوں پر یقین رکھتے ہو تو بھائی سر سید کی تو یہ لمبی ڈاڑھی بھی تھی۔

    ReplyDelete
  32. کاشف نصیر صاحب، دنیا صرف کاشف نصیر کا نام نہیں ہے۔ سر سید کی کئ کتابوں کا انگلش اور جرمن میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اور وہیں کے رہنے والوں نے کیا ہے۔ سر سید کے مذہبی نظریات سے قطع نظر بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے انکی جو خدمات ہیں وہ شاید ہی کسی اور رہ نما کے حصے میں آتی ہوں۔ لیکن جناب یہ بات بھی کوئ تسلیم کرے کہ مذہبی عصبیت بھی کوئ چیز ہوتی ہے۔
    ہمارے ایک مبصر کی دلیل تو یہ ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے کوئ سر سید کو جانتا تک نہ تھے۔ ایسی باتیں لکھنے والے صرف اپنی لا علمی کو مظاہرہ کرتے ہیں۔ یعنی انکی قیام پاکستان کے متعلق معلومات صرف نویں جماعت کی تاریخ پاکستان ہے۔ اور آپ نے شاید نویں اور انٹر کے اردو کے نوٹص خود سے بنائے تھے۔ اس لئے آپ صرف اردو ادب تک محدود ہیں۔ آفرین ہیں آپ لوگوں کے مطالعے پہ۔ اتنے تفصیلی مطالعے سے تو یہی تجزیہ نکل سکتا ہے۔

    ReplyDelete
  33. استانی محترم!
    اس پوسٹ کے نیچے مذہب پرستوں کی جہالت دیکھ کر تو اب آپ پر فرض ہوچلا ہے کہ ایسے علمی سلسلے جاری رکھیں۔
    یہ اوپر کسی نے علم الرجال کا تقابل سائنس سے کروانے کی کوشش کی ہے۔ اطلاع کے لئے عرض ہے کہ عصر حاضر میں جو سائنس کا طریقہ تحقیق ہے وہ تاریخ دانوں کے بنائے ہوئے صدیوں پرانے علم الرجال سے کہیں اعلیٰ و ارفع ہے۔ تاہم یہ بات وہ لوگ کبھی نہیں سمجھ سکتے جن کی ساری عمر سائنس سے نفرت اور مدرسوں میں مذہب کا رٹا مارتے گذری ہو۔
    استانی جی نے اچھا کیا کہ ایسے لوگوں سے براہ راست مخاطب نہیں ہوئیں۔ وہ شخص جو عورت کو "ناقص العقل" گردانتا ہے اس سے کلام کرنا عورت کی توہین ہے۔

    ReplyDelete
  34. کاشف نصیر جیسے کوئیں کے مینڈکوں کی بھی آپ نے خوب کہی،
    چلیں اب مجھے تسلی ہوگئی کہ ایک۔۔۔۔۔۔۔ کے منہ سے کچھ بھی برآمد ہوسکتا ہے!!!!!
    حالانکہ ہندو اورمسلم دوقومیتیں ہیں یہ نکتہ بھی سب سے پہلے سر سید احمد خان نے ہی اٹھایا تھا!!!!

    ReplyDelete
  35. ہے۔ اور آپ نے شاید نویں اور انٹر کے اردو کے نوٹس خود سے بنائے تھے۔ اس لئے آپ صرف اردو ادب تک محدود ہیں۔
    اردو ادب تک نہیں اردو ادب کی چیرپھاڑ تک۔۔۔۔۔۔۔
    :)

    ReplyDelete
  36. دنیا کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ لوگ اسکی خوبصورتی کو قائم رکھنے کیلئے اسے آگے یا پیچھے کرنے کی باتیں کرتے رہیں ۔

    ReplyDelete
  37. عنیقہ صاحبہ @ ظاہر سی بات ہے کہ انگریز اور فرانسیسی انکی کتابوں کے ترجمعے تو کریں گے، لیکن وہ وہاں بھی اتنے مقبول نہیں جتنا آپ سمجھانا چاہ رہی ہیں۔ میری مراد اسلامی دنیا تھی، کبھی آپ مصر، فلسطین، اردن، لبنان، ازبکستان، ناجیریا، مراکش، شام اور انڈونیشیا وغیرہ میں سرسید پر تحقیق کیجئے گا اکثر مسلم محقیقین سرسید کے بارے میں اس سے زیادہ نہیں جانتے کہ وہ مسلم ہند کے بڑے دانش ور یا رہنما تھے۔ البتہ مولانا مدودی، سید القطب، حسن البنا، شیخ الہند محمود الحن، عطاء اللہ شاہ بخاری وغیرہ کے اسماء ان تمام ممالک میں آپ عوام میں بھی سنے گی اور خواص و علما میں بھی۔

    دوسری بات یہ کہ یاد رکھیں کے سرسید ایک ادیب ، صحافی، مفکر اور دانش ور تھے رہنماء نہیں اور انکی ادبی و صحافتی خدمات کی میں نے اوپر جتنی تعریف و توصیف شاید آپ سمیت کسی ایک نے نہیں کی۔ ہم تو سرسید کے اعزالی فکر، مرعوبہ ذہنیت اور انگریزوں سے وفاداری پر انہیں حدف تنقید بنارہے ہیں۔ بہر حال اللہ سے دعا ہے انکی تمام تر کوتاہیوں کو معاف کرے ۔

    رضوان میاں @ سرسید کا قیام پاکستان میں کوئی کردار نہیں ہے۔ ذرا سا بھی نہیں۔ جتنا مطالعہ پاکستان میں بیان کیا جاتا ہے اسکا دس فیصد بھی نہیں ۔کیونکہ انہوں نے نہ مسلمانوں کو کبھی ٖحریت کی تعلیم دی اور انکے سینوں میں آزادی اور غیرت کے چراغ چلائے۔ انکے نزدیک تو مسلمانوں کو سیاست ہی نہیں کرنی چاہئے تھی بلکہ اس بے کار کام کو تاج برطانیہ کے لئے چھوڑ دینا چاہئے۔ بس مسلمانوں کو جدید اور ماددی علوم سیکھنے چاہئے اور قرآن و سنت موقع کا جہاں تک تعلق ہے تو موقع ملا تو جنت میں جاکر سیکھ لیں گے۔

    پاکستان کے قیام کا سارا سہرا علامہ اقبال کی فکر اور قائد اعظم کی قیادت کو جاتا ہے اور دونوں حضرات کے طرز فکر سے ہرگز ہرگز متفق نہ تھے۔ اور اس سلسلے میں علی برادارن کو بھی کچھ صلہ جاتا ہے جنہوں نے پہلی دفعہ مسلم لیگ کو عوامی جماعت میں تبدیل کیا تھا۔

    رضوان میاں ؀@ قیام پاکستان پر عطاٗ اللہ شاہ بخاری، حسین مدنی، مولانا آزاد وغیرہ سمیت کئی بڑے علماٗ نے اختلاف کیا تھا اور انکی رائے میں بھی وزن بھی تھا اور موجودہ حالات کو دیکھ کر انکا موقف درست بھی لگتا ہے۔ ذرا فرصت میں بیٹھ میں کر ان حضرات کے ایک اعتراض پر غور کیجئے گا۔ کئی اور علما جیسے مولانا اشرف علی تھانوی اور شبیر احمد عثمانی پاکستان کے حامی بھی تھے اور قائد اعظم سے بہت قریب بھی تھے تو انکے بارے میں کیا خیال ہے، سرسید کے ساتھ تو کوئی عالم نہیں تھا ، آپ کہیں گے سرسید خود عالم تھے وہ وحی کے نہیں ماددہ کے عالم اور ساری زندگی انہوں نے ماددیت کی ہی تعلیم دی۔ بہر حال طااللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ مسجد کے قیام سے قبل کو اختلاف رائے جائز ہے مگر اگر ایک دفعہ مسجد قائم ہوگئی تو اسکی حفاظت کی ذمہ داری تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔

    بہرحال قائد اور اقبال کو سرسید پر قیاس نہیں کیا جاسکتا، سرسید کا اعتزالی اور مادہ پرست اسلام صرف ان لوگوں کو ہضم ہوسکتا ہے جو محمد رسول اللہ صلی و علیہ وسلم کے اسلام کے چودہ سو سالہ پرانے اسلام کو قدیم اور فرسودہ سمجھتے ہیں اور دنیا کی لذتوں میں گم ہیں اور ماددی علوم کو الہامی علوم پر ترجیع دیتے ہیں۔

    ReplyDelete
  38. کاشف نصیر صاحب، آپ نے جو اسلامی اور غیر اسلامی کی حد قائم کر کے ایک فہرست تھما دی ہے۔ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کے اس معیار پہ اقبال اور محمد علی جناح تو غائیب ہو جاتے ہیں۔ شاید آپکو علم ہو کہ ایک انگریز کی مرتب کی ہوئ ایک کتاب جس میں اس نے دنیا کے سو اہم افراد کا تذکرہ ہے اور رسول اللہ کے تذکرے کو سب سے پہلے نمبر دیا گیا ہے۔ اسی میں موہن داس گاندھی کا بھی تذکرہ موجود ہے مگر اقبال یا محمد علی جناح کا نام تک موجود نہیں۔ پاکستان سے باہر اگر جائیں تو امریکہ جیسے ملک میں لوگ پاکستان نام کے ملک سے واقف نہیں۔ حالانکہ پاکستان امریکہ کا پچھلے تقریباً چالیس سال سے جنگی حلیف ہے۔
    دنیا کے لوگ ڈاکٹر عبدلاسلام سے واقف ہیں، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی سے واقف ہیں ، حتی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خانن اور ڈاکٹر عطا الرحمن سے واقف ہیں، وہ عمران خان کو جانتے ہیں مگر وہ نہیں جانتے کہ قائد اعظم کس کا نام ہے۔ ان سب باتوں کی تو میں عینی گواہ ہوں۔ اب آپ بتائیے کہ اس ملک پہ قائد اعظم کا احسان بڑا ہے یا ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی یا عمران خان کا۔
    آپ اپنے محسنوں کو اگر یاد رکھنے کے قابل نہیں تو اس میں باقی دنیا کا کیا دوش۔ اگر لوگ پاکستانیوں کو احسان فراموش کہتے ہیں تو کیا غلط کہتے ہیں۔
    پکی بچکانہ سوچ کا یہ عالم ہے کہ آپ ایک پوری تحریک کو دو رہ نماءووں کے اوپر ڈال دینا چاہتے ہیں۔ پاکستان بننے کی تاریخ صرف ان بیس سالوں کا نتیجہ نہیں جو اقبال اور قائد اعظم کے گرد گھومتی ہے بقول قائد اعظم تو پاکستان کی بنیاد اس دن رکھ دی گئ تھی جس دن پہلا مسلمان برصغیر میں داخل ہوا۔ کاشف نصیر صاحب، ابھی آپ طفل مکتب ہیں۔ پہلے اچھی طرح پڑھ لکھ لیں۔ اس وقت تک خاموشی سے پڑھنے اور سننے کی عادت ڈالیں۔ خاموشی، عقلمند کا زیور اور بے وقوف کی ڈھال ہے۔ آپ مسلسل اس طرح کی باتیں کر کے محض یہ بات ثابت کر رہے ہیں کہ قوم کے سپوت اپنی تاریخ تک سے واقف نہیں۔ اور اپنے اسکول کی کتابوں سے زیادہ مزید کچھ جاننے کے خواہشمند نہیں۔
    آپ کی یہ باتیں پڑھ کر لوگوں کو اندازہ ہوگا کہ یہ کہنا کہاسلام ازم کے نام پہ پاکستان میں جو جہالت پھیلائ جا رہی ہے وہ بات کتنی صحیح ہے۔
    آپ نے ایک دفعہ پھر اپنی یہ بے کار بات دوہرائ کہ آپکی ان باتوں کا جواب کوئ نہیں دے رہا۔ اگر آپ دلچسپی رکھتے ہیں تو انتظار کیجئیے۔ مجھے ابھی اس پہ بہت کچھ لکھنا ہے۔ لیکن آرام سے یہ رمضان کا مہینہ گذر جائے۔ کم از کم اسلای تعلیمات میں سے صبر ہی دیکھ لیں۔ خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
    رضوان صاحب، یہ جو آپ نے تلخصص کی بات کی ہے۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ یہ لفظ میں نے بھی پہلی دفعہ دیکھا اور اب بھی میرا خیال ہے کہ یہ لفظ تلخیص سے نکلا ہے۔ یعنی خالص کر لینا۔ اسے کسی ڈکشنری میں چیک کرنا پڑے گا۔ عربی کا لفظ لگتا ہے۔ آپکی دلچسپی کا شکریہ۔
    رضوان صاحب،

    ReplyDelete
  39. کاشف نصیر صاحب، یہ بات تو میں کہنا بھول گئ کہ خدا جسے چاہے عزت دے۔ یہی قائد اعظم جنہیں آپ قیام پاکستان کا مکمل سہرا باندھ رہے ہیں۔ اگر قیام پاکستان کے گیارہ مہینے کے بجائے گیارہ مہینے پہلے انتقال فرما جاتے تو مجھے یقین ہے کہ یہ سہرا ابھی آپ کسی اور کو باندھ رہے ہوتے۔
    :) :)

    ReplyDelete
  40. با ذوق صاحب، شیخ محمد اکرام نے فکر کے لحاظ سے مسلمانوں کی خاصی اقسام لکھی ہیں۔ ان میں اہل حدیث کے علاوہ اہل قرآن نام کا بھی ایک گروہ ہے۔
    احادیث رسول اللہ کی وفات کے تقریباً دو سو سال بعد اکٹھا کی گئیں۔ اس پورے عرصے میں عباسیوں اور امویوں کی باہمی چپقلش کا زمانہ گذرا ہے۔ ہر دو گروہ نے اقتدار کے لئے خوب احادیث گھڑی ہیں۔ انکا تذکرہ شبلی کی سیرت النبی میں بھی ہیں۔ صرف یہی نہیں کئ کی تو حضرت عائیشہ نے بھی تر دید کی۔ احادیث کی سب سے مستند کتابیں پڑھیں تو ایسی احادیث بھی سامنے آتی ہیں جن کو پڑھ کر ایک عام سوچ کی صلاحیت رکھنے والے شخص کے لئے بھی مسلمان رہنا مشکل ہو جائے۔ انہی احادیث کو جمع کرنے والے بزرگوں کی محنت کو خاموشی سے تقدیس کا درجہ دئیے رکھنے کی وجہ سے تقلید کو ایک بہتر طرز فکر کے طور پہ اس زمانے میں رائج کیا گیا۔ تقلید کا مطلب جہاں آپکے دماغ میں سوال پیدا ہو۔ وہاں دماغ کو سلادو اور یہ حکم دو کہ اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اللہ کہتا ہے کہ میں ایک چھپا خزانہ تھا جب میں نے چاہا کہ جانا جاءوں تو خود کو ظاہر کر دیا۔ لیکن علماء کہتے ہیں کہ خدا ایک چھپا خزانہ ہے اور بہتر یہ ہے کہ جتنا ہم بتا رہے ہیں اتنا تم جانو۔ اتنا ہی تم سمجھو کہ وہ ظاہر ہے۔
    تقلید کا چلن، اسلام کے دو سو سال بعد تک کوئ ایسا وجود نہیں رکھتا تھا۔
    موجودہ سائینس میں علم کو جس طرح مرتب کیا ہے کہ ایک شخص کو اسکی تلاش میں کم سے کم غلطیوں کے ساتھ وہ سب کچھ ملے جو انسانی کوششوں سے اب تک حاصل کیا گیا۔ اس طریقہ کار پہ میں ایک تحریر لکھنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔ یہ کافی آسان، اور قابل پہنچ ہے۔ اس سے ایک عام علمی سطح رکھنے والا شخص بھی بآسانی مستفید ہو پاتا ہے۔

    ReplyDelete
  41. " کاشف نصیر صاحب، ابھی آپ طفل مکتب ہیں۔ پہلے اچھی طرح پڑھ لکھ لیں۔ اس وقت تک خاموشی سے پڑھنے اور سننے کی عادت ڈالیں۔ "

    شاگرد عزیز کو استانی محترم کے یہ جملے پسند نہیں آئے۔ میرے خیال سے آپ کا قلم اس کہیں بہتر جملے لکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ شاگرد اعظم درج بالا فقروں پر اپنا مریل سا احتجاج پیش کرتا ہے۔
    اور ہاں۔۔
    وہ سائنسی طریقہ کار پر تحریر کا آئیڈیا دلچسپ ہے۔ تحریر کا انتظار رہے گا۔

    ReplyDelete
  42. کاشف صاحب بہیت شکریہ آپ نے آپنی جعلی تصویر ہٹا دئ ، کیا ہی اچھا ہو آپ آپنے اصلی نام محمد وقار اعظم سے ہی بلاگنک کرے ،، :hmm: :hmm:

    ReplyDelete
  43. کسی نےکیاخوب کہاتھاکہ ،، جماعت اسلامی میں اسلام ھے اسلام میں جماعت اسلامی نہیں ۔۔۔ :grins: :grins:

    ReplyDelete
  44. شاید یہی وہ تنگ نظر سوچ ہے کہ جو اختلاف کرے اسے طفل اطفال قرار دے دیا جائے۔
    ایک پڑھا لکھا شخص ہمیشہ عاجز ہوا کرتا ہے لیکن یہ کونسی تعلیم ہے جو تکبر اور خود فہمی کا درس دیتی ہے۔
    آپ سے مجھے اس طرح کے جملے کی توقع نہیں تھے کہ میں آپ کو دلیل اور استدلال کی زبان میں کرنے والی صاحب دانش خاتون سمھتا تھا اور ابھی بھی باوجود نظریاتی اختلافات کے سمجھتا ہوں۔

    عنیقہ آپا دراصل بات کارواں کی نہیں رہنماوں کی ہوتی ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ایک شیر کئی بھیڑوں کی قیادت کرسکتا ہے لیکن ایک بھیڑ کئی شیروں کی قیادت نہیں کرسکتی۔ اور سچ یہ ہے کہ اگر قائد کی قیادت نہ ہوتی تو پاکستان کبھی حاصل نہیں ہوتا، اور میرے خیال سے تحریک پاکستان کا آغاز انیس سو اڑتیس سے ہوتا ہے نہ کہ سر سید ۔ لوگ قائد سے جتنا بھی بغض کا اظہار کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان صرف اور صرف جناح کی زد تھی اور مسلم بریصغیر میں قائد جیسا زدی اور اصول پسندکوئی نہ تھا۔

    یورپ اور امریکہ میں لوگ اقبال کو نہیں جانتے، اقبال کی کیا اوقات کبھی امریکہ و برطانیہ کی سڑکوں پر نکلیں لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ و علیہ وسلم کو بھی جانتے۔ البتہ سرسید کی بات میں نے یوں کی کہ وہ انگریزوں، یورپی نشاۃ ثانیہ اور مغرب کی جس قدر مرعوبیت کا درس دیتے تھے اسکے صلے میں انکو وہاں کتنا یاد رکھا گیا۔ جو لوگ اپنی حقیقت بھولتے ہیں انکا معاملا یہ ہوتا ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔

    ReplyDelete
  45. کاشف نصیر صاحب، جب کوئ شخص یہ کہہ دے کہ قائد اور اقبال کی وجہ سے پاکستان بنا اور اس پہ اصرار کرے تو یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ چیزوں کو بہت سطحی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ ایک ایسی تحریک جسکے نتیجے میں ایک اتنے بڑے ملک کو توڑ دیا جائے۔ لاکھوں لوگ اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار ہو جائیں۔ اسکی ایک فکری اساس ہوتی ہے۔ اور یہ فکری اساس اہل دانش کے طبقے بناتے ہیں۔ کوئ رہ نما اسی فکری اساس کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی شخصی مضبوطی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے انجام تک پہنچانے کے قابل ہوتا ہے۔ اگر لوگوں میں عزم پیدا ہو جائے تو وہ بھیڑوں کو بھی شیر بنا دیتے ہیں۔ عوام کی طاقت سب سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ یہ عزم یک لخت نہیں پیدا ہوتا بلکہ اپنی پختگی کے مراحل طے کرتا ہے۔
    قیام پاکستان کی جنگ لڑنے والوں میں علی گڑھ یونیورسٹی سے حصول علم کر کے نکلنے والوں کی اتنی بڑی تعداد تھی کہ خود قائد اعظم نے اسے مسلمانوں کی اس تحریک کا اسلحہ خانہ قرار دیا۔ یہ فکری اساس اس ارتقائ سوچ کا نتیجہ تھی جو سر سید سے سفر کرتا ہوا، اقبال اور پھر قائد اعظم تک آیا۔
    یہ جان لینا چاہئیے کہ وحی کے علاوہ انسان جو کچھ بھی کرتا ہے وہ ارتقائ سوچ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ پہیہ انسان کی ایک بہت زیادہ اہم ایجاد ہے۔ بظاہر اتنی سادہ نظر آنے والی اس چیز سے پہلے دنیا کس حالت میں تھی اسکا اندازہ کرنے کے لئے اسے اپنی روزانہ کی زندگی سے منفی کر دیں اور آپکی گھڑی سے لے کر ہوا میں اڑنے والا جہاز تک رک جائے گا۔
    لیکن آج ہم پہیہ بنانا نہیں سیکھتے۔ کئ ہزار سال پہلے کوئ انجان انسان ہمارے لئے یہ کام کر گیا۔ آج ہم جہاز بناتے ہیں۔ لیکن اس انسان نے اگر پہیہ نہ بنایا ہوتا تو جہاز بنانے والے کبھی جہاز بنانے کے قابل نہ ہو پاتے۔
    آپکی باقی باتوں کے جواب بعد کی تحریروں میں۔ اور یہ جو آپ نے مرعوبیت کی بات کی ہے تو بھائ صاحب، آج ہم ٹوتھ پیسٹ سے لے کر نوٹ بنانے کے طریقے تک ان سے لے کرع استعمال کرتے ہیں۔ یہ ہماری مرعوبیت نہیں ہماری مجبوری ہے۔ سر سید نے جو کچھ کیا وہ انہوں نے انگریزوں کے لئے نہیں کیا۔ انکے ادارے سے تعلیم پانے والے انگریز نہیں تھے۔ انگریزوں کے پاس اس وقت بھی ویسے اداروں کی ایک لائن لگی ہوئ تھی۔ اس لئے یہ سب کچھ جو آپ لکھتے ہیں وہ سراسر آپکی لا علمی ہے اسکے علاوہ کچھ نہیں یا پھر وہ مذہبی تعصب جو آپکو کھل کر کسی شخص کی عظمت کو سراہنے بھی نہیں دیتا۔ صرف اس لئے کہ انکے مذہبی نظریات آپ سے الگ تھے۔ ان سب کی اپنی وجوہات ہیں جس پہ ہم وقت آنے پہ بات کریں گے۔
    ویسے ابھی یہ نہیں معلوم کہ جو لوگ خدا کا اتنا تذکرہ کرتے ہیں انہیں بھی خدا ملے گا یا نہیں۔ وصال صنم سے تو ہاتھ دھو ہی بیٹھے ہیں۔
    عثمان، اگر آپ بھی گریجوایشن کرنے اور ایک یونیورسٹی کے طالب علم ہونے کے باوجود اسی طرح اپنی نویں جماعت میں فراہم کردہ کتب کی اطلاعات پہ اصرار کرتے رہیں گے تو میں آپکو بھی ٹائیم آءوٹ کر دونگی۔ ابھی تک اسی لئے شاگرد عزیز بنا رکھا ہے کہ آپ کچھ وقت مطالعے کو دیتے ہیں۔ اورعقل کے گھوڑے دوڑاتے ہیں۔

    ReplyDelete
  46. پہلی بات تو ہے کہ میں گریجویٹ نہیں ایم بی اے ہوں اور جامعہ کراچی سے ایم اے ابلاغ عامہ کر رہا ہوں۔
    دوسری یہ کہ میں کوئی عالم فاضل اور پی ایچ ڈی نہیں ایک طالب علم ہوں اور اپنی آراء میں ہمیشہ غلطی اور اصلاح کی گنجائش رکھتا ہوں کہ کسی کوئیں کا مینڈک نہیں اور نہ ہی کسی کو نیچا دیکھانے اور ہتک عزت کرکے داد لینے یقین رکھتا ہوں۔
    تیسری بات یہ ہے کہ مجبوری اور مرعوبیت میں بے انتہا فرق ہے، سرسید نے مسلمانوں کو کھلم کھلا مرعوبیت کی تعلیم دی تھی۔
    چوتھی بات یہ ہے کہ سر سید کے مذہبی اعتقاد کے اعتزالی ہونے پر تمام مکاتب فکر کے راسخ علماء کا اجماع ہے۔
    پانچویں بات یہ ہے کہ جب مسلمان انگیریزوں کے خلاف جنگ آزادی لڑ رہے تھے تو سرسید کا گھر انگریزوں کی جائے پناہ تھی، کیا یہ مسلمانوں سے بے وفائی نہیں تھی۔
    چھٹی بات یہ ہے کہ سرسید نے جو محمڈن کالج قائم کیا تھا اور انیس سو چالیس کے عشرے میں جو علی گڑھ یونیورسٹی تھی اس میں بہت فرق تھا۔ مسلمان سرسید کے برخلاف سیاست میں حصہ لے رہے تھے، سول نافرمانیوں کی تحاریک اور آزادی کی جدوجہد میں سرگرم تھے۔ سرسید ایسا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
    یوں تو ہم مدینہ اور مکہ اور حضرت آدم علیہ سلام تک جاسکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تحریک پاکستان کا آغاز انیس سو اڑتیس کے بعد ہوا تھا اور پاکستان کی فکری بنیاد سرسید نے نہیں علامہ اقبال نے فراہم کی تھی۔
    ساتویں بات یہ ہے کہ سرسید ایک بہت اعلی ادیب، صحافی، ماہر تعلیم اور دانش ور تھے۔ انہیں مسلمانان برے صغیر کے فکری رہمنا اور رہبر کے طور پر پیش کرنا تاریخ سے ناانصافی ہے۔
    آٹھویں با ت یہ کہ آج آپ ہندوستان جائیں وہاں موجود علی گڑھ کے کئی جید استازہ آپ سے بحث کریں گے قیام پاکستان سرسید کے اصولوں کی نفی تھی، انکو آپ کیا جواب دیں گی۔
    اور آخری بات یہ کہ انسان جب اپنی عقل پر ناز کرتا ہے اور تکبر اسے اندھا کردیتا ہے تو وہ مخالفین کی رائے کو طفل مکتب ہی سمجھتا ہے۔

    ReplyDelete
  47. کاشف نصیر! آپکی یہ جرائت کہ آپ سرسید کے منہ آتے ہیں؟۔ آپ قائد اعظم اور علامہ محمد اقبال کو سرسید پہ فوقیت دیتے ہو؟ پاکستان کا بانی و دانی مانتے ہو؟ کہاں سرسید کی شان کہاں علامہ اقبال و قائد اعظم؟ آپ کو نہین پتہ کہ پاکستان میں ہر غدارِ ملت ، قائد ملت ہے ۔۔۔،۔ بس دہلی کی کسی حویلی میں پیدا ہوا ہو۔۔ سرسید سے لیکر ۔۔۔ مشرف تک۔
    یُو طفلِ مکتب۔ اس منافقت کے دور میں سچھی کھری باتیں کرنا والا تمہاری یہ جرائت کہ ۔۔ بابو انگریزی یعنی سرسیدی منشی پیدا کرنے کی انتھک کوشش کرنے والے کے بارے میں یوں شک و شبہات۔۔ پتہ نہیں ہے ۔ سرسید اور ان جیسے اسی قبیل کے بزرگوں کا ہی تو یہ احاسن ہے کہ انکی پیدا کردہ کلاس آج بھی پاکستان کی ان داتا ہے۔۔ یُو طفل مکتب ۔۔ انگلستان دیکھا ہے؟ جہاں سرسید کو غدار مسلمانوں کو آئیندہ کے کسی ممکنہ غدر سے باز رکھنے کے لئیے انھیں منشی بابو کی گُڑتی دینے اور انکے دین اسلام کو مختصر کرنے کے لئیے سوشل ریفامر اور انکی مذھبی کتاب کی تخریص اور عقائد کو اختصار ۔ ایمان کی برید کرنے کا شاہی اذن عطا کیا گیا ۔ وہ انگلستان ۔۔ واہ جو آج بھی پاکستان کے مربی قائد کو اپنے سایہ تاج میں پناہ دئیے بیٹھا ہے۔ سرسید کو کون نہین جانتا؟ انگلستان کے محبوب و شیدائی کا ذکر انگلستان کے عجائب گھروں میں ہے۔ تاجدار انگلستان آج بھی سرسید اور ہمنواؤں کا وظیفہ جاری کرتے ہیں۔ جو محنت وہ کر گئے انگریز انہیں اپنا مربی سجمھتے ہیں ۔ وہ علامہ اقبال کو کیا جانتے ہیں ۔ قائد اعظم کون تھا ۔ ان میں سے کون کون دہلی کی حویلی میں پیدا ہوا تھا؟ سرسید کا ذکر امریکی ترانے میں ہے۔ مائیں اپنے بچوں کا نام ان پہ رکھتی ہیں ۔۔ وھاٹ نان سینس ۔۔ یُو طفل مکتب ۔۔ منہ کا ذائقہ خراب کرتا ہے۔ سارا پکستان بھی چیخ چیخ کر سرسید کے خلاف آسمان سر اٹھا لے تو کیاَ؟ وہ ہوتے کون ہیں؟ انکا علم ناقص ہے ۔ ان میں کچھ مغربی یونی ورسٹیز میں دماغ کھپاتے ہیں ۔ تو کیا؟ وہ ایک چھوڑ دس اصلی پلس اعزازی ڈگریاں رکھتے ہوں تو کیا۔ وہ ڈگریوں کی دُم بھی ساتھ لگائیں تو بھی نہیں مانیں گے۔وہ قلمی نام کی بجائے اصلی نام بھی لکھ لیں ۔۔ بس نہیں مانیں گے ۔۔ نہیں مانیں گے۔ اگر وہ اپنی بات منوانے پہ اصرار کریں تو ہم تو انکی مادر علمی سے ہی انکار کر دیں گے۔ طفل مکتب کہیں کے۔ اونہہ۔ ۔۔ اگر وہ حقائق کی ٹھوس بنیاد پہ بھی بات کریں تو کیا ۔ ہے تو وہ نان سیسنس تمھاری طرح کٹر مُلا۔ انتہاء پسند ۔ سچی باتیں کرنے والے ۔ بس اصلی صرف ہم ہیں ۔۔ ہم سُن لیا ۔ کان کھل کر سُن لو ۔۔ ہم اور صرف ہم جو ہم کہہ دیں وہی درست ہے ۔ باقی سب غلط۔۔۔۔ بس اب خموش۔
    ہاں اور آکری بات سُن لو ہم علام فاضل ۔۔ تُم طفل مکتب ۔۔۔ اگرقائد اعظم کون ہے پاکستان بنانے والے ؟ اگر زیادہ اگر مگر کی تو ہم پاکستان کا بانی کھاتہ بھی حوالی والوں کے کھاتے منڈھ دیں گے ۔۔ پھر کیا کر لو گے؟ ورنہ موہن داس کرم چند گاندھی تو دور گیا ہی نہیں کیا ،، کیا سمجھے؟ ۔۔ کہاں سے آجاتے ہیں ۔ طفل مکتب کہیں کے۔ مولوی ، دقیا نوسی رُجعت پسند۔ اونہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھا نہین اسپیم کنٹرول بھی اپنے پاس ہے اور من پسند تبصروں بھی ہم کمال انسباط و مسرت سے مزے لیتے ہیں۔ بس ہماری حمایت میں ہوں ۔ خواہ اسمیں کسی کی بھی متی پلید ہو۔ جتنی ذیادہ مٹی پلید اتنا زیادہ مزا۔۔ یہ ہے ہمارا معیار اور ہمارا درس۔۔ کیا سمجھے ؟ یُو طفل مکتب؟؟ خبردار۔۔

    ReplyDelete
  48. لیجئے۔۔۔۔ آپ مجھے صرف ٹائم آؤٹ کی دھمکی دے رہی ہیں۔
    میں تو سکول کے زمانے میں کان پکڑتا رہا ہوں۔ ڈنڈے کھاتا رہا ہوں۔
    وہ الگ بات ہے کہ آپ سے وصول کردہ ڈانٹ کی گرمی شائد ڈنڈے سے ذیادہ ہو۔ ابھی تک کھائی تو نہیں البتہ دوسروں کی حجامت بنتا بہت دیکھی ہے۔ لوگ ڈانٹ کھا کر حجامت بنوا کر پورے بلاگستان میں ایک ٹانگ پر ناچتے نظر آتے ہیں۔ ہاہاہا۔۔۔۔

    ReplyDelete
  49. بس جی اب انتظار کرے ۔۔۔۔۔۔۔
    قادینت کے فتوئے اور سرٹیفیکٹ کا ۔۔۔۔۔۔۔
    جوکہ ایک صا حب ۔۔۔۔۔۔۔

    ReplyDelete
  50. گوندل بقلم خود کے تبصرے پر،
    لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!
    :)

    ReplyDelete
  51. عثمان لگتا ھے۔کچھ زیادہ ہی ٹھڑک لگ رہی ھے۔
    کچھ بلاگستان کے ایک ٹانگ پر ناچنا جاننے والوں میں شرم ہے۔کہ خاموش ہو جاتے ہیں۔
    ویسے ناچ نہ جاننے آگن ٹیڑا بھی ہو تا ھے نا۔
    بندہ چاپلوسی پر آ جائے تو ڈانٹ کیوں پڑے گی؟

    ReplyDelete
  52. قسم سے میں نے آج تک کوئی تحریر پوری نہیں پڑھی، مگر سرسیداحمد پر تبصرے تک پڑھ لئے۔ جھگڑو اور جھگڑو۔۔۔ میں بھی ناخن آپس میں رگڑ رہاہوں۔ مجھے امید ہے اس سے بحث لڑائی کی صورت تو اختیار نہیں کرے گی لیکن ذاتیات پر انگلیاں ضرور اٹھیں گی۔ اور اس کا مظاہرہ اوپر ہوچکا ہے۔

    ReplyDelete
  53. گریجوایشن، ماسٹرز کرنے سے پہلے ہی ہوتا ہے ناں۔ میں آپکے بلاگ پہ پڑھ رہی تھی کہ آپ نے حال ہی میں جامعہ میں داخلہ لیا ہے اور داڑھی اس لئَے واضح نہیں کہ ابھی پوری نہیں آئ۔ اسی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ابھی آپ شاید اٹھارہ سال کی حدوں میں ہیں۔ یہ جان کر اور مایوسی ہوئ کہ دوسرا ماسٹرز کرنے جا رہے ہیں مگر ابھی تک جو ایک دفعہ پڑھا اسی پہ قائم ہیں۔
    یہ میرا تکبر نہیں، در حقیقت آپ ہی لوگوں کا تکبر ہے۔ جسکی وجہ سے آپکو صدمہ ہوتا ہے کہ ہمیں یہ کہہ دیا۔ بھائ صاحب تاریخ میرا بھی خصوصی مضمون نہیں۔ لیکن ایسا ہے کہ میں ایک ہی طرز فکر کی چیزیں اپنے اوپر سوار کر کے نہیں پڑھتی۔ اور ایم بی اے کرنے کی تربیت تو مینیجمنٹ کی سخت تربیت ہوتی ہے۔ یعنی اگر کوئ آپ سے کہہ رہا ہے تو کہ ابھی اطلاعات باقی ہیں تو ایک کامیاب مینیجر کو انتظار کرنا چاہئیے۔ اس وقت کا جب اسکے سامنے والا شخص اپنی بات مکمل کر لے۔ اب میں بطور استانی کچھ کہوں۔ تو آپ کو بہت برا لگے گا۔ اور آپ بلاگستان کا مشہور و معروف جملہ دوہرائیں گے کہ علم پہ غرور کرتی ہیں۔ اس لئے آپکو اسی حالت پہ چھوڑتی ہوں۔ امید ہے کہ آپ اس موضوع پہ باقی تحریریں بھی پڑھیں گے۔
    عطاء رفیع، مجھے بھی تبصروں میں دلچسپی زیادہ ہوتی ہے۔ اب اگر آپ نے اپنی دلچسپی ظاہر کی ہے تو میری زیادہ تر پوسٹس پہ تو بڑے دلچسپ تبصرے ہوتے ہیں۔ خدارا انہیں ضرور پڑھیں۔
    جاوید گوندل صاحب، تبصرے میں کاٹ پیدا کرنے کے لئے غلط بیانی سے کام لینا کوئ خوبی نہیں۔ غلط بیانی سے تو عام سے عام شخص بھی دوسروں کی دھجیاں اڑا سکتا ہے۔ اسپیم کنٹرول میرے پاس ہے۔ اگر آپ وہ ذہنی مریض نہیں جنہیں فحش گالیاں لکھنے میں حظ آتا ہے تو اطلاع دوں کہ وہی تبصرے ڈیلیٹ ہوئے یا پھر شاید ایک تبصرہ اور وہ بھی محض دو لوگوں کے درمیان کدورت کم کرنے کی ناکام کوشش میں۔ کیا آپکو یہ شکایت کبھی ہوئ کہ آپکا کوئ تبصرہ ڈیلیٹ ہوا ہو۔ آپ سب لوگ اسلامی تعلیمات کی حقانیت کا چرچا کرتے ہیں۔ مگر جب کبھی آپ لوگوں کی باری آتی ہے یہ سب بھول جاتے ہیں۔ صداقت، دیانت اور امانت صرف اسلام کے متعلق لکھتے وقت ہی استعمال نہیں ہوتے بلکہ ایک اچھے مسلمان اور اچھے انسان کو اپنی زندگی کے ہر بے کار ترین لمحے بھی اسے جاری و ساری رکھنا چاہئیے۔
    ڈیئر سر، آپ سب لوگ چاہے کتنے ہی لمبے اسباق لکھتے رہیں جب تک اپنے آپ کو ان اسباق کے مطابق نہیں کر لیتے انکا کوئ اثر نہیں۔ میں آپ لوگوں کے اس انداز سے ذرا متائثر نہیں ہوتی اور یہی چیز آپکو غرور لگتی ہے۔ اور بالکل سامنے کی بات یہ ہے کہ آپ سب اسلامی بنیادی اخلاقیات کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ چاہے وہ عبداللہ کو بارہ سنگھا کہنا ہو یا یہ کہنا کہ اسپیم کنٹرول اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ لوگ مایوس کرتے ہیں مگر سوچتی ہوں کہ کوئ بات نہیں کسی اور جگہ بہتری ہوگی مگر کچھ لوگ بار بار مایوس کرتے ہیں۔

    ReplyDelete
  54. بی بی!۔
    مجھے برملا اعتراف کرنے پہ کوئی عار نہیں کہ آپ نے میرا کوئی تبصرہ آج تک ڈیلیٹ نہیں کیا۔
    اسپیم کنٹرول کے بارے میں اس لئیے کہا ہے۔ کہ کچھ لوگ نہ صرف آپ کے بلاگ پہ بلکہ جابجا، دو سروں کے بارے میں اسقدر غلیظ اور ہتک آمیز الفاظ لکھتے ہیں کہ اُن کی سوچ اور ذہنیت پہ گھن آتی ہے۔ ایک آدھ افراد نے نام بدل بدل کر دوسروں کی ٹانگ کینچھنے کی بے سود کوشش کی ہے۔ آپ اگر چاہتیں تو ایسے بے ہودہ تبصرہ جات شروعات میں ہی حذف کر دیتیں تو کسی کو شکایت نہ ہوتی اور اسطرح کے بے وقوف کوئی اور راہ لیتے یا تمیز کے دائرے میں آجاتے۔ یہ بھی انکی ایک طرح کی تربیت ہوتی۔ ایسے تبصرے تقریبا سبھی مغربی و مشرقی ذرائع ابلاغ اور بہت سے بلاگر حضرات اپنے پڑھنے والوں کے احترام میں کرتے ہیں۔ واللہ یہ میں اپنے بارے میں لکھے گئے کسی دوسرے کی الفاظ کی وجہ سے نہیں کہہ رہا۔ کسی بھی ڈبیٹر کی طرح مجھے عملی زندگی میں ٹانگ کینچھنے والوں کا کافی تجربہ رہا ہے۔ جب کچھ لوگ پروگرام کے تحت مد مقابل کو اسکا نکتہ نظر بیان کرنے سے روکنے کے لئیے شور شرابہ اور بے ہودگی پہ اتر آتے ہیں۔ ایسا کرنے سے کسی نو آموز کو تو مسئلہ ہو سکتا ہے مگر مجھے ایسے بے ہودہ لوگوں کی کبھی پرواہ نہیں رہی ۔ میری بلا سے اُنکے ذھن کا گند کس طرح انڈلتا ہے ۔ میری اپنی ذات کے بارے میں بات ہو تو تمیز سکھائے جانے کی قدرت رکھتے ہوئے بھی اکثر اوقات درگزر سے کام لیتا ہوں ۔ مگر جب اسطرح کے باگو بلے ایک سنجید گفتگو کا رُخ محض سینگ پھنسا کر اڑ جانے کی وجہ سے رُک بدل دیتے ہوں تو ۔۔ بی بی! آپ بھی اتفاق کریں گی کہ اسقدر مصروف زندگی میں کس کے پاس وقت ہے کہ سینگوں کے ساتھ سنگ پھنسا کر بیٹھا رہے۔ اور آپ کے بلاگ پہ ان کے چھپے ہوئے بے ہودہ تبصرہ جات کی وجہ سے انہیں شہہ ملتی ہے۔ کیا آپ نے غور نہیں کیا کہ شروع کے کئی قارئین اب اپنی رائے نہیں دیتے۔ میں سمجھتا ہوں ایسے بے وقوف دوستوں کی بجائے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے۔ اسلئیے سابقہ رائے میں طنزیہ طور پہ آپ سے اسپیم کنٹرول کا حوالہ دیا تھا۔

    کاشف نصیر! صاحب یا کسی بھی صاحب یا صاحبہ کے بارے میں کم ازکم مجھے آپ سے اسطرح کے الفاظ اور طرز تخاطب کی کبھی امید نہیں تھی۔ مجھے نہائت دکھ ہوا ہے۔

    بار سنگھے کو اسلئیے بار سینگھا کہتے ہیں کہ وہ جہاں جھاڑیاں نظر آئیں اسمیں سینگ پھنسا کر بیٹھ جاتا ہے کوئی کچھ کرتا رہے ۔ کہتا رہے مگر بارہ سینگھے کو جھاریوں سے زور لگانے سے کام ہوتا ہے اور بس۔۔ اور یہ احسن طریقہ نہیں۔زچ ہونے پہ بارہ سینگھے کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ جیسے شتر مرغ کی مثال مشہور ہے کہ دشمن دیکھ کر منہ ریت میں دبا لیتا ہے۔ کہ شاید یوں مجھے دشمن نہیں دیکھ رہا۔ جسطرح شتر مرغ کی مثال انگریزی اور دوسری مغربی زبانوں میں عام ہے اسی طرح اسی طرح سینگ پھنسانے کی مثال ہمارے کلچر میں عام فہم ہے۔

    بی بی! اگر آپ نے سرسید کے موضوع کو ایک دم نمٹا نہ دیا تو خاطر جمع رکھیں ہم بھی آپ کو وہ حوالہ جات مہیاء کریں گے جنہیں آپ خاطر میں نہ لانا چاہئیں تو اور بات ہے مگر انھیں آپ محض طفل مکتب ککہ کر ٹال نہ سکیں گی۔ سرسید پہ آپکی تحریر کی جو رفتار ہے، محسوس ہوتا ہے ابھی کافی اقساط لے گی ۔ خاطر جمع رکھیں ہم بھی کوشش کریں گے کہ تاریخی دلائل اور تحقیق سے اعتراض کریں۔ اگر تو کوئی اعتراض ہوا تو۔ اور فرصت ملی۔

    پچھلی رائے اس لئیے طنزیہ لکھی تھی کہ اگر آپ دوسروں کے دلائل کو جوابی منطقی دلیل سے رد کرنے کی بجائے محض طنزو تحضیک کرتے ہوئے اڑا دیں گی تو ہم بھی سوقیانہ اور طنزیہ شکایات کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
    اللہ آپ کو خوش رکھے۔ آمین۔ اور میری طرف سے تمام قارئین اکرام کو عید مبارک ۔ اور آپ کو آپکی فیملی کو ڈھیروں ڈھیر عید کی مبارکباد قبول ہو۔

    ReplyDelete
  55. یاسر۔۔۔۔ " چاپلوسی" کرنے والے اکثریت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ بحث اور اختلاف اور اہل بلاگستان سے پنگے نہیں لیتے۔
    ویسے باقی اہل بلاگستان سے میرا ہنسی مذاق آپ کو کبھی برا نہیں لگا۔
    یہاں کیا ہوا؟

    ReplyDelete
  56. ان صاحب کی ایمانیات کااندازہ لگا نا ہو تو اس بات سے لگائیں کہ،اسکول کے ہائی لیول میں پڑھنے والےاچھے خاصے بڑے لڑکے دوسروں کی دیوار پر چڑھ کر ان کے درختوں پر لگے پھل بلا اجازت توڑ رہے تھے،جس پر حضرت کا تبصرہ یہ تھا کہ یہی تو وہ بچپن کی شرارتیں ہوتی ہیں جو ساری زندگی دل میں میٹھی میٹھی چٹکیاں لیتی رہتی ہیں،میرے اعتراض کرنے پر اور یہ کہنے پر کہ اگر بچپن سے بچوں کو صحیح اور غلط کی تمیز نہ کرائی جائے تو وہ بڑے ہوکر بڑی سے بڑی چوری کو بھی گناہ نہیں سمجھتے اور مہر آپی کی مثال بھی پیش کی!
    جس پر جناب میرا مزاق اڑانا شروع ہوگئےکہ عبداللہ تو بچپن سے ہی بڑامومن تھا اس نے تو کبھی ایس کیا ہی نہ ہوگا!
    ہوسکتا ہے بچپن میں مجھ سے بھی ایسی حرکتیں سرزد ہوئی ہوں مگر ہمیں ہمارے بڑوں نے سختی سے یہ سکھایا کہ تم کسی کا تنکا بھی بغیر پوچھے لو گے تو قیامت میں تمھاری نیکیوں سے انکا بدلہ دیا جائے گااور نیکیاں کتنی قیمتی ہوں گی اس وقت، یہ بھی سمجھایا گیا-
    سو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر اور احسان ہے کہ حرام سے نفرت ذہن میں بٹھانے کی وجہ سے بڑی سے بڑی دولت بھی نیت کو بدل نہ سکی الحمد للہ!
    اور حق جہاں بھی نظرآیا اسے قبول کرنے میں کبھی مشکل پیش نہ آئی!!!!

    ReplyDelete
  57. عنیقہ ناز نے لکھا ہے : "شیخ محمد اکرام نے فکر کے لحاظ سے مسلمانوں کی خاصی اقسام لکھی ہیں۔ ان میں اہل حدیث کے علاوہ اہل قرآن نام کا بھی ایک گروہ ہے"۔
    مجھے نہیں معلوم کہ آپ کو یہ جملہ لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اگر ممکن ہو تو وضاحت کر دیں ، مہربانی ہوگی۔

    آپ نے لکھا : "احادیث رسول اللہ کی وفات کے تقریباً دو سو سال بعد اکٹھا کی گئیں۔"
    معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ کیا آپ "تحقیق" کے بعد ہی ایسا کہہ رہی ہیں یا آپ نے بھی اہل القرآن نامی گروہ کی تقلید میں مغربی مستشرقین کا پسندیدہ فقرہ محض دہرا دیا ہے؟
    بہرحال ۔۔۔ اس کے جواب میں اگر وقت نکال کر یہ دو مضامین پڑھ لیں تو شائد اس موضوع پر مزید گفتگو ممکن ہو۔
    حدیث کی کتابت کے احکام
    کتابتِ احادیث کی ممانعت اور اجازت

    محدثین کی مخلصانہ خدمات کے "اعتراف و قبولیت" کو اگر آپ "تقدیس" کا عنوان دینا چاہتی ہیں تو یہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ یہ خدمات انفرادی نہیں ہیں بلکہ اجماعی ہیں۔ بنیادی عقائد و عبادات کے معاملے میں محدثین نے اجماعی طور سے جس طرح احادیث کو چھان پھٹک کے بعد "کلامِ نبوی" ثابت کر دکھایا ہے ، وہ سائینسی اصولوں کے قوائد و ضوابط کی پابندیوں کے ساتھ ہی ہے۔ ہاں ، اگر کسی فرد کی عقل میں معجزہ یا حقیقتِ جنت جہنم یا فرشتوں کے وجود کی بات نہیں آتی تو یہ اس کے فہم کا قصور ہے نا کہ محدثین کی اجماعی تحقیق کی خرابی کا۔

    بےشک کچھ کتابوں میں وضعی یا منکر یا گھڑی ہوئی روایات بھی مل جاتی ہیں۔ لیکن ۔۔۔
    بیشمار ضخیم کتابیں بھی اس ضمن میں تحریر کی گئی ہیں اور جن کا موضوع ہی یہی ہے کہ کون کون سی احادیث وضعی ہیں؟ کون کون سے راوی کذاب اور وضاعِ حدیث ہیں؟ کہاں کہاں موضوع احادیث نے راہ پائی ہے؟ کس کتاب کی کون کون سی روایات ساقط الاعتبار ہیں؟ کن راویوں پر ہم اعتماد کر سکتے ہیں اور کن پر نہیں کر سکتے؟ "موضوع" کو "صحیح" سے جدا کرنے کے طریقے کیا ہیں؟ اور روایت کی صحت ، ضعف ، علت کی تحقیق کن کن طریقوں سے کی جا سکتی ہے؟
    ان ضخیم کتابوں کی اطلاع پا کر تو ہمیں ویسا ہی اطمینان حاصل ہوتا ہے جیسا کسی کو یہ سن کر ہو کہ بکثرت چور پکڑ لیے گئے ہیں ، بڑے بڑے جیل خانے ان سے بھر گئے ہیں ، بہت سے اموالِ مسروقہ برآمد کر لیے گئے ہیں اور سراغرسانی کا ایک باقاعدہ انتظام موجود ہے جس سے آئیندہ بھی چور ، قاتل ، مجرم پکڑے جا سکتے ہیں۔
    لیکن تعجب کی بات ہے اگر کسی کے لیے یہی اطلاع الٹی بےاطمینانی کا موجب ثابت ہو اور وہ اسے بدامنی کے ثبوت میں پیش کرنے لگے ؟؟

    ReplyDelete
  58. اعتزالی ہونا شائد سید صاحب کو روحانی طور پر پسماندہ کرتا ہو، لیکن ان کے علم، سیاسی فہم اور دینی ہمدردی کے جذبے سے انکار کرنا، نا شکراپن ہے۔ سر سید کے نیچری عقائد اور بعض مغربی فلسفوں سے مرعوبیت پر اعتراض کرنے والوں کو اقبال پر بھی ایسے ہی اعتراض کرنے چاہییں۔ لیکن چونکہ اقبال نے شمشیر و سناں والے شعر بھی لکھے ہیں، انہیں ملکہ وکٹوریہ کے نوحے دکھائی نہین دیتے۔
    سر سید شائد ان چند اسلامی علماؑ میں سے ہیں جنہوں نے عبرانی سیکھ کر بائبل کا عمیق مطالعہ کیا اور اسلام کی عظمت کے قائل ہوۓ۔ افسوس کہ عقلیت پسندی میں وہ دعا اور معجزات سے انکاری ہو گئے لیکن ان کی خدمات کاصلہ اللہ تعالیٰ انہیں ضرور دے گا۔

    ReplyDelete
  59. عنیقہ, اسماء نے آپکو اور آپکے اہل خانہ کو عید مبارک کہی ہے!
    میری طرف سے بھی آپکو اور آپکے اہل خانہ کو اور تمام پڑھنے والوں کو عید کی دلی مبارکباد!
    :)

    ReplyDelete
  60. اسماء، آپکو اور آپکے اہل خانہ کو بہت عید مبارک۔ آپ نے تو بلاگنگ سے منہ موڑ لیا ورنہ ہم کہتے کہ ذرا اسکا احوال لکھیں کہ فرانس میں عید کیسے منائ جاتی ہے۔ کیا آپ بھی اپنی بچیوں کو مہندی لگاتی ہیں اور چوڑیوں کی میچنگ کا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے۔
    :)
    باقی سب قارئین کو عید مبارک۔ خدا ہم سبکی نیتیں درست کرے۔ آمین

    ReplyDelete
  61. جاوید گوندل صاحب، میں محض اس لئے کسی کا تبصرہ حذف نہیں کرنا چاہتی کہ کسی شخص کو وہ ہتک آمیز اور غلیظ لگتے ہیں۔ آپ کو چند مخصوص اشخاص کے تبصرے ہتک آمیز لگتے ہیں اور چند کے نہیں۔ جنکے آپکو ہتک آمیز نہیں لگتے انکے مجھے لگتے ہیں۔ تو اس بارے میں کوئ ایک متفقہ رائے موجود نہیں۔ اگر اس طرح تبصرے حذف کرنے بیٹھوں تو ہر شخص ہی اسکا جلد یا بدیر نشانہ بنے گا۔ جبکہ میں نے کوئ امتحانی بورڈ نہیں قائیم کیا ہوا۔ سوائے اسکے کے لوگوں کو تبصرہ کرتے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ میں اسکے متوقع طور پہ کیا آسان، مشکل یا سخت جواب دے سکتی ہوں۔
    جہاں تک آپکا یہ کہنا کہ کئ قارئین پہلے تبصرہ کرے تھے اب نہیں کرتے۔ یہ انکا حق انتخاب ہے۔ ایک وقت میں سب کو خوش نہیں رکھا جا سکتا۔ میں بلاگنگ دوسروں کو خوش کرنے کے لئے نہیں کرتی۔ کئ لوگ نہیں کرتے تو کئ نئے لوگ شامل ہو گئے۔ دنیا اسی طرح چلتی ہے۔ جو چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کل وہ چیزوں کو بہتر طور پہ سمجھنے کے قابل ہوں اور واپس آجائیں۔ یہ کوئ پزا ہٹ تو نہیں کہ عوامی مزاج کے مطابق پزا کی ترکیب میں تبدیلی لے آئے۔ بلاگستان کی دنیا موجود ہے۔ جہاں دل چاہے جائیں۔ ایک مقولہ ہے کہ ٹوپی میں سے خرگوش کو نکالنے کے لئے اس میں خرگوش کا ہونا ضروری ہے۔

    ReplyDelete
  62. اچھا لگا آپ کا اندازِ تخاطبِ میزبانی۔۔۔ اس طرح آپ کی ریڈر شپ ضرور بڑھے گی۔

    ReplyDelete
  63. @ عنیقہ ناز
    جہاں تک مجھے یاد ہے ، میں نے عثمان صاحب کے تبصرے (بحوالہ "ناقص العقل") کے جواب میں 2 تبصرے ارسال کئے تھے جنہیں شائد اب تک آپ نے اپروو نہیں کیا ہے۔

    ReplyDelete
  64. با ذوق صاحب، جیسا کہ یہ بات میں پہلے بھی کئ بار کہہ چکی ہوں کہ صرف وہ تبصرے ڈیلیٹ کئے جاتے ہیں جن میں فحش الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ آپکے جو بھی تبصرے اب تک ملے ہیں وہ سب اپروو کئے گئے ہیں۔ بس اس وجہ سے ماڑدیشن مجھے پسند نہیں کہ بے کار کے شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ