Thursday, October 7, 2010

سر سید اٹھارہ سو ستاون سے پہلے-۱

گذشتہ سے پیوستہ

اٹھارہ سو اٹھارہ میں سر سید کے والد کا انتقال ہوا۔ اس وقت انکی عمر اکیس سال تھی۔ تب انہوں نےملازمت کا ارادہ  کیا۔ اپنے خالو کے پاس جا کر کام سیکھنا شروع کیا جوکہ دہلی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے صدر امین تھے۔ اور وہیں سر رشتےدار ہو گئے۔ بعد میں جب دہلی کے سیشن جج نے انہیں سیشن کورٹ میں سر رشتے دار لگانا چاہ تو انکار کر دیا کہ ابھی اس کام کے لائق نہیں۔ اٹھارہ سو انتیس میں رابرٹ ہیملٹن کمشنر آگرہ مقرر ہوئے تو سر سید کو نائب منشی کا کام سپرد کر دیا۔ سر سید نے اس دوران دل لگا کر کام سیکھا اور دیوانی قوانین کا ایک خلاصہ تیار کر لیا۔ اسے دیکھ کمشنر بہت متائثر ہوا اور اسکی ایک کاپی اعلی حکام کو بھیج کر سفارش کی کہ انہیں منصف کے عہدے پہ تعینات کیا جائے۔اس عہدے کے لئے منصفی کا ایک امتحان ہوتا تھا جس میں سر سید پہلی کوشش میں کامیاب ہو گئے۔ یہ خلاصہ قوانین منصفی کے امتحان کے امیدواروں کے لئے بڑا مجرب نسخہ ثابت ہوا۔ اسکا نام سر سید نے انتخاب الاخوین تجویز کیا۔۔ چند ہی روز میں تمام صوبوں سے شائع ہو گیا اور کئ امیدواروں نے اسکی بدولت منصفی حاصل کی۔ اٹھارہ سو چوراسی میں انجمن اسلامیہ لاہور نے انکی لاہور آمد پہ استقبالیہ دیا اور بطور خاص اسکا تذکرہ کیا۔
ملازمت میں آنے سے پہلے وہ اپنے بڑے بھائ کے ساتھ اخبار 'سید الخبار' نکالا کرتے تھے اٹھارہ سو بیالیس میں وہ فتح پور سیکری میں منصف مقرر ہوئے۔ یہاں مولانا نور الحسن کی صحبت رہی اور انکے توجہ دلانے پہ شاہ عبدالعزیز کی شیعیت کے متعلق کتاب 'تحفہ اثنا عشریہ کے دو باب ترجمہ کئے۔ اس دوران میلاد کی مجلسوں کے لئے تین رسالے لکھے۔ اسکا خیال اس لئے آیا کہ اس وقت رسول اللہ کی ولادت، حالات زندگی اور وصال کے بارے میں موجود عام کتابچوں میں صحیح روایات نہ تھیں۔ اور ان میں بہت سی بے بنیاد اور توہم پرست باتیں راہ پا گئ تھیں۔ دوسرا رسالہ تحفہ حسن  کے نام سے لکھا۔ جس میں اہل تشیع کے حضرت ابو بکر صدیق  پہ بے جواز طعن و تشنیع کا جواب لکھا اور تولا اور تبرہ پہ عقلی نکتہ چینی  کر کے انکی اصلیت واضح کی۔ ایک تیسرا رسالہ تسہیل فی جرالثقیل کے نام سے لکھا جو ایک عربی رسالے کا ترجمہ تھا۔ سید احمد بریلوی، شاہ اسمٰیل شہید اور شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ اس زمانے میں اپنے آپکو علی الاعلان وہابی کہتے تھے جب سب وہابی باغی سمجھے جاتے تھے۔ سید احمد کی تحریک اصلاح سے متائثر تھے۔ انہوں نے سید احمد اور شاہ اسمعیل کی تائید میں کئ کتابیں لکھیں۔ ان میں راہ سنت و رد بدعت بھی شامل ہے۔ یہ کتاب اٹھارہ سو پچاس میں لکھی۔ ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب کا جواب لکھتے ہوئے سر سید لکھتے ہیں کہ
مولانا سید احمد اور ٹھیک ٹھیک سمجھو تو شاہ اسمعیل کی تمام کوشش اس بات پہ مبذول تھی کہ ہندوستان میں اپنے مذہب اسلام کی تہذیب اور اصلاح کرنی چاہئیے۔
سر سید کے عقائد میں بعد میں تبدیلیاں ہوئیں لیکن مولانا سید احمد بریلوی کا اصلاحی جوش ان میں تمام عمر باقی رہا۔
اٹھارہ سو چھیالیس میں انہیں دہلی شہر کے نواح میں موجود پرانی عمارتوں کی تحقیق کا شوق ہوا۔۔ انہوں نے بڑے ذوق و شوق سے اس پہ کام کیا اور ایسی شاید ہی کوئ دستاویز اس موضوع پر میسر ہو۔ انہوں نے سو کے قریب پرانی عمارتوں کا بغور جائزہ لیا۔ انکے کتبے پڑھے۔ پھر انکی نقلیں تیار کیں اور یہ اہتمام کیا کہ ان میں وہی رسم الخط رکھا جائے جس میں کتبے کی اصل عبارت موجود تھی۔ ہر عمارت کے بنانے والے کے حالات، عمارت کی تعمیر کا مقصد،، اسکی مختصر تاریخ، عمارت کا اسکیچ، اسکی شکست و ریخت اور اس میں اضافوں کا حال، اسکے نقشے اور تعمیر کی فنی باریکیاں غرض ہر ممکنہ تفصیل انہوں نے اس میں ڈالی۔
سر سید لکھتے ہیں کہ
قطب صاحب کی لاٹ کے بعض کتبے جو زیادہ بلند ہونے کے سبب پڑھے نہیں جا سکتے تھے انکے پڑھنے کو ایک چھینکا دو بلیوں کے بیچ میں ہر ایک کتبے کے محاذی بندھوا  لیا کرتے تھے۔ میں خود اوپر چڑھ کر ہر کتبے کا چربہ اتارتا تھا۔
یہ کتاب صرف ڈیڑھ سال کے عرصے میں مکمل کی گئ اور طبع بھی ہو گئ۔۔
اس کتاب کا چوتھا باب دلی کے مشہور اور نامور لوگوں کے ذکر پہ ہے جس میں ایک سو بیس مشائخ، علماء، فقراء، مجذوبوں، اطباء، قراء، شعراء، خوش نویسوں یا خطاطوں، مصوروں اور موسیقاروں  کا تذکرہ ہے۔
کتاب کا پہلا ایڈیشن امام بخش صہبائ کے زیر اثر ادق اور پیچیدہ  تھا۔ جس کا جلد ہی سرسید کو اندازہ ہو گیا اور دوسرا ایڈیشن انہوں نے  ازسرنو لکھا اور مطالب کو آسان زبان میں بیان کیا۔
دہلی کے ڈپٹی کمشنر کو یہ کتاب اتنی پسند آئ کہ وہ اسے اپنے ساتھ لندن لے گیا۔ واپسی پہ اس نے سر سید کے ساتھ بیٹھ کر اسکا ترجمہ انگریزی میں کیا۔ لیکن یوروپ میں جو انگریزی ترجمہ پھیلا وہ موسیو گارسن دتاسی کا فرانسیسی ترجمہ تھا جو انہوں نے اٹھارہ سو ساٹھ میں کیا تھا۔ یہ کتاب یوروپ کے علمی حلقوں میں بڑی سراہی گئ اور اسکی وجہ سے لندن کی رائل ایشیاٹک سوسائٹی نے سرسید کو اپنا آنریری  فیلو بنا لیا۔
سر سید نے ایک اور رسالہ لکھا جس میں انہوں اس موضوع پہ دلائل جمع کئیے کہ زمین حرکت نہیں کرتی مگر بعد میں اپنے اس خیال سے رجوع کر لیا ور حرکت زمین کے قائل ہو گئے۔ اس کتاب کا نام ہے قول متین و رابطال حرکت زمین۔
پیری مریدی کے مروجہ طریقے کے خلاف ایک رسالہ کلمۃ  الحق لکھا۔  سلسلہ نقشبندیہ میں تصور شیخ کے حق اور اسکی وضاحت میں ایک رسالہ اٹھارہ سو تریپن میں لکھا۔ سلسلۃ الملوک کے نام سے ایک رسالہ لکھا جس میں پانچ ہزار سال تک کے ان راجاءوں، فرماں رواءوں اور سلاطین اور بادشاہوں کی فہرست مرتب کی جو دہلی کے حکمران رہے۔  اور انکی تعداد راجہ یدہشٹر سے لیکر ملکہ  قیصر ہند تک تقریباً دو سو دو بنتی ہے۔ انکے مختصر کوائف بھی اس میں موجود ہیں۔
اٹھارہ سو پچپن میں انہیں بجنور میں صدر امین مقرر کیا گیا تو تو انہوں نے بجنور کی مفصل تاریخ لکھنا شروع کی اور آئین اکبری پہ کام شروع کیا۔

جاری ہے

7 comments:

  1. سر سید صاحب سے جیلس کرنے کا خاصا بندوبست کردیا ہے آپنے ۔

    ReplyDelete
  2. اپنی غلطی تسلیم کر لینا بھی اچھے عالم کی نشانی ہوتی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ قبولیت دعا کے بارہ میں ان کی ضد قائم رہی۔

    ReplyDelete
  3. یہ سرشتہ دار کہ سر رشتہ دار کیا عہدہ ہوتا ہے؟ مجھے بہت تلاش سے بھی نہیں مل سکا :(

    ReplyDelete
    Replies
    1. سر رشتہ دار لغت کی رو سے میر منشی کو کہتے ہیں۔

      Delete
    2. مشتاق احمد یوسفی کی کتاب میں ایک جگہ پڑھا تھا کہ جہاں بشارت کا سکول میں نوکری کے لئے انٹرویو ہو رہا تھا تو اس میں ایک صاحب سر رشتہ دار بھی تھے۔ تبھی سے ذہن میں بات اٹکی ہوئی تھی کہ یہ کیا عہدہ ہوا؟ وضاحت کا شکریہ

      Delete
    3. آج کنفرم ہوا کہ میر منشی یا سر رشتہ دار دراصل چیف سیکریٹری کو کہتے ہیں :)

      Delete
    4. درج ذیل لنک پر یہ پیراگراف اس کی وضاحت کرتا ہے

      "سلطان محمد خان افغانستان میں میر منشی یا چیف سکریٹری بن گئے تھے۔ اس کے بعد وہ افغانستان سے لندن چلے گئے تو امیر عبدالرحمٰن نے انہیں برطانیہ میں افغانستان کا سفیر مقرر کر دیا۔"

      http://www.bbc.co.uk/urdu/entertainment/2012/06/120625_book_review_zz.shtml

      Delete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ