Saturday, February 5, 2011

تخیّل کی تجّلی

ایک بلاگ پہ پڑھا کہ انقلاب کو فیس بک اور ٹیوٹر کی ضرورت نہیں ہوتی۔
بنیادی تبدیلی  کے لئے لوگوں کا تبدیلی کی خواہش رکھنا ضروری ہے۔ پھر یہ احساس رکھنا بھی ضروری ہے کہ نظام میں کہاں خرابی ہے اور اسے تبدیل کرنا ہے۔ کس طریقے سے تبدیل کرنا ہے وہ کسی نصاب کا محتاج نہیں، یہ ایک ارتقائ عمل ہوتا ہے۔
 کسی بھی نظام کے لوگوں یا آسان الفاظ میں عوام کو اس چیز کی آگہی ضروری ہے کہ وہ اگر تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں تو انکے اس احساس میں کتنے لوگ انکے ساتھ شامل ہیں۔ یہ انہیں مہمیز کرتا ہے اور اجتماعی احساس کو بڑھاتا ہے یہاں میں دانستہ اجتماعی شعور کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتی۔  یہ علم آج کے زمانے میں ہم آج کے ذرائع تبادلہ ء خیال سے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔
  یوں ایک عمل،  ان ذرائع کو استعمال کئے بغیر جتنا وقت لے سکتا ہےغیر مرئ موجوں پہ چل کے وقت سے جیت سکتا ہے اور حیران کن طور پہ بہت کم وقت میں بپا ہو سکتا ہے۔ اس لئے آج کے زمانے میں ہم سنتے ہیں کہ فلاں ملک میں نیٹ یا ٹوئٹر پہ پابندی لگا دی گئ۔ خود ہمارے ملک میں یہ ہو چکا ہے۔
شاعر انقلاب، جوش ملیح آبادی، کے زمانے میں یہ سب کچھ نہ تھا۔ حکومت  لکھنے والوں کے قلم سے ڈرا کرتی تھی۔ اسکی زد پہ ترقی پسند تحریک سے تعلق رکھنے والے شاعر جوش بھی تھے۔ ایک ایسے ہی موقع پہ جب پولیس انکے گھر کی تلاشی لے چکی تھی۔ انکے قلم سے اس نظم نے وجود لیا۔ نظم کا نام ہے تلاشی۔

جس سے امیدوں میں بجلی، آگ ارمانوں میں ہے
اے حکومت، کیا وہ شے ان میز کے خانوں میں ہے
بند پانی میں سفینے کھے رہی ہے کس لئے
تو مرے گھر کی تلاشی لے رہی ہے کس لئے
گھر میں درویشوں کے کیا رکھا ہے بد نہاد
آ مرے دل کی تلاشی لے کہ بر آئے مراد
جس کے اندر دہشتیں پر ہول طوفانوں کی ہیں
لرزہ افگن آندھیاں تیرہ بیابانوں کی ہیں
جس کے اندر ناگ ہیں اے دشمن ہندوستان
شیر جس میں ہونکتے ہیں، کوندتی ہیں بجلیاں
چھوٹتی ہیں جس سے نبضیں افسر و ارژنگ کی
جس میں ہے گونجی ہوئ آواز طبل جنگ کی
جس کے اندر آگ ہے، دنیا پہ چھا جائے وہ آگ
نار دوزخ کو پسینہ آجائے وہ آگ
موت جس میں دیکھتی ہے منہ اس آئینے کو دیکھ
 مرے گھر کو دیکھتی کیا ہے میرے سینے کو دیکھ

ہائے شاعر کے تخیل کی  تجلّیاں اور بجلیاں۔


  اسکے ساتھ ہی چند دنوں کے لئے اجازت۔ کیونکہ اب کچھ دنوں تک اس بستی کے اک کوچے میں رہیں گے جو کراچی سے دور ایک افتادہ مقام پہ بغیر انٹر نیٹ کے بسا ہوا ہے۔ اپنے ساتھ اردو لغت، دیوان غالب، اور چند نا مکمل پڑھی ہوئ کتابیں لے جا رہی ہوں۔ ارادے تو بڑے باندھے ہیں دیکھیں کتنے تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ خدا حافظ۔



8 comments:

  1. ترقی پذیر ممالک کی تو کیا بات ہے۔ خود امریکہ میں باراک اوبامہ منصب صدارت تک نہ پہنچ پاتا اگر یوٹیوب ، فیس بک اور ٹوٹر جیسے متبادل میڈیا کی سہولت میسر نہ ہوتی۔ آنے والے وقتوں میں ٹیکنالوجی ازخود اور کیا کیا انقلاب لائے گی یہ تو آنے والے وقت ہی بتائیں گے۔ ایک لمحے کو پندرہ سولہ سال پہلے اور آج کی زندگیوں میں فرق جانچنے کی کوشش کریں۔ بہت سے خفیف پہلو تبدیل دیکھائی دیں گے۔ دیکھنے کی بات ہے۔


    اور یہ گمنام بستی کا سفرنامہ کب پڑھنے کو ملے گا جی؟

    ReplyDelete
  2. موت جس میں دیکھتی ہے منہ اس آئینے کو دیکھ
    مرے گھر کو دیکھتی کیا ہے میرے سینے کو دیکھ

    بہت خوب، واقعی میں یہ چیزیں آجکل زندگی میں ایک اہم ضرورت ہیں ۔ اسی لئےتویہ کسی کی رائےکوتبدیل کرسکتیں ہیں۔

    ReplyDelete
  3. ارے ارے کہاں چل دیں اب ہم جیسے لوگ جو آپکی تحاریر کے ایڈکٹ ہوچکے ہیں کیسے گزاراکریں گے؟؟؟؟؟؟

    ReplyDelete
  4. خیر ساتھ خیریت کے جائیں اور ساتھ خیریت کے واپس آئیں!!!!!!

    ReplyDelete
  5. you write very well, I wish any Urdu Newspaper takes you up as a columnist.

    ReplyDelete
  6. محترمہ بلاگر کی اصل تحریر یہ نہیں تھی کہ ،
    انقلاب کو فیس بک اور ٹیوٹر کی ضرورت نہیں ہوتی
    اصل تحریر یہ تھی
    انقلابات ٹوئٹر اور فیس بک سے نہیں آتے
    ہو سکتا ہے آپ کا ارادہ ایسا نہ ہو لیکن محسوس ایسا ہوتا ہے تحریف ہو رہی ہے اگر آپ کہیں کہ دونوں کا ایک ہی مطلب ہے تو
    عدنان بھائی نے اس کی ضرورت سے انکار نہیں کیا آپ ملاحظہ کر سکتی ہیں انہوں نے آگے لکھا ہے کہ یہ وسیلہ الاتصال ہے
    کسی زمانے میں کوئی وسیلہ اور کسی زمانے میں کوئی ۔انقلاب کے لیے اصل چیز شعور اور آگہی ہے ۔اور انقلاب فیس بک اور ٹویٹر سے پہلے بھی آتے رہے ہیں۔۔۔۔
    اگر میں غلط ہوں تو تصحیح کردیں

    ReplyDelete
  7. عثمان، بس ابھی کراچی واپس آئے ہیں۔ تھکن دور ہو تو سفر کی رپورٹ دینا شروع کریں گے کہ یہ خاصہ دلچسپ تھا۔
    عرفان بلوچ، جی میں نے انکی بات کو آگے بڑھایا ہے اس لئے کہ جوش صاحب کی نظم یاد آ گئ تھی۔

    ReplyDelete
  8. اللہ تعالیٰ آپ کو تعزین صاحبہ کی دی گئی بددعا سے محفوظ رکھے۔ آمین
    (:

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ