Sunday, February 13, 2011

کافکا کی ایک کہانی

فرانز کافکا میرا پسندیدہ ادیب ہے۔ کیوں پسند ہے؟ اس کا کوئ واضح جواب میرے پاس نہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے مجھے چیکو فلیور کی آئس کریم پسند ہے۔ مگر نہیں پتہ کہ کیوں پسند ہے۔ یا بالکل ایسے ہی جیسے میں لوگوں کی مسکرانے کی ادا کو سب سے پہلے محسوس کرتی ہوں معلوم نہیں کیوں۔ 
محمد عاصم بٹ کا کہنا ہے کہ انہیں کافکا اس وقت بھی پسند تھا جب انہوں نے اسے پڑھا نہیں تھا۔ شاید میں بھی کچھ ایسا ہی کہنا چاہوں۔ محمد عاصم بٹ  کون ہیں؟ انہوں نے کافکا کی کہانیوں کا اردو ترجمہ کیا ہے ۔ کہانیوں کے اس مجموعے کو جنگ پبلشرز نے شائع کیا ہے۔ نام ہے اسکا کافکا کہانیاں۔
 کافکا اٹھارہ سو تراسی میں پراگ، جرمنی میں پیدا ہوا اور انیس سو چوبیس کو ویانا کے نزدیک ایک سینی ٹوریم میں اس کا انتقال ہو گیا۔ اس نے اپنی کافی تحاریر کو تلف کر دیا۔ مرنے سے پیشتر اس نے اپنے دوست سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اسکی تمام تحاریر کو چاہے وہ مکمل ہوں یا نا مکمل جلا دیا جائے۔ مگر دوست نے اس خواہش کو رد کر دیا اور اسے جو بھی تحریر ملی اسے چھپوا دیا۔ صرف اکتالیس سال عمر پانے والے اس ادیب نے ادب کی دنیا میں انمٹ نشان چھوڑے ہیں۔ 
کافکا کی ایک تحریر آپکے لئے اسکین کی ہے۔ اس تحریر کے انتخاب کی پہلی وجہ اسکا مناسب سائز میں ہونا ہے یعنی محض تین صفحات۔ باقی وجوہات آپ کھنگالئیے۔



4 comments:

  1. قطعی متاثر نہیں ہوا۔ جہاں تک ڈی کوڈ کرنے کی بات ہے تو روئے سخن کسی کی طرف بھی رکھا جاسکتا ہے۔ منحصر ہے کہ کون کس پس منظر میں ڈی کوڈ کررہا ہے۔
    عمران سیریز کے ناولوں میں اکثر ایک جملہ ہوتا تھا:
    (فون پر دوران گفتگو) "دوسری طرف سےمسکراتی ہوئی آواز آئی۔"
    تو عمران صاحب یا مظہر کلیم صاحب فون پر بھی مسکرانے کی ادا پہچان جاتے تھے۔ آپ کی صلاحیت کہاں تک ہے؟ سمائلی کی عدم موجودگی میں بھی مسکراتا ہوا تبصرہ پہچان سکتی ہیں ؟

    ReplyDelete
  2. ویسے جن کی طرف آپ نے تیر پھینکا ہے ان کو پلے کچھ نہیں پڑنے لگا۔
    اور شاگرد عزیز کو ان میں دلچسپی نہیں۔ لہذا میرے لئے کوئی مشکل سا متبادل چیلنج مہیا کیا کریں۔

    ReplyDelete
  3. عثمان، میں مسکراہٹ محسوس کرتی ہوں یعنی اگر کسی سے بہ نفس نفیس ملوں تو اسکی جس ادا پہ سب سے پہلے ذہن جاتا ہے وہ مسکرانے کی ادا ہے۔
    :)
    اور کیا قطعی پسند نہیں آیا،افسانہ، کافکا، یا مسکرانا۔
    یہ اسکین کرنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ آج سو سال بعد بھی یہ کچھ معاشروں پہ کتنا صحیح ہے ایسے ہی جیسے ہمارا معاشرہ۔ سو میں نے یہ تیر کسی کی طرف نہیں پھینکا۔ بلکہ ہم سو سال پہلے کے معاشرے میں ٹہرے ہوئے ہیں۔

    ReplyDelete
  4. افسانے کا اختتام کچھ عجیب سا ہے۔ جیسے بات کو یکلخت ختم کردیا ہو۔ اختتام پر طرز تحریر اتنا متاثر کن نہیں جتنا آغاز میں تھا۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ