Tuesday, February 15, 2011

ساحل کے ساتھ


پانچ دن بعد جب ہم لوٹے تو حالات وہی تھے۔  یعنی  مبارک صاحب اسی طرح صدر  بنے رہنے پہ مصر، انکے دل میں وہم تھا کہ گذر ہی جائے گی میرے بغیر بھی لیکن، بہت اداس ، بہت بے قرار گذرے گی جبکہ عوام نے رولا پایا ہوا تھا، جا جا میں تو سے نہیں بولوں۔


امریکہ اسی طرح ریمنڈ ڈیوس پہ تاءو دکھا نے میں مصروف، پاکستانی حکومت اسی طرح ٹال مٹول سے کام چلا کر ہر ایک فریق یعنی امریکہ 'عوام' اور خواص کو مطمئن رکھنا چاہ رہی تھی۔  لوگ اسی طرح 'انقلاب دور است' کو خوش آمدید کہنے کی دھنیں تیار کر رہے تھے تاکہ وقت ضرورت اس جھنجھٹ میں نہ پڑنا پڑے اور کچھ تو تیاری پہلے سے ہو۔ مختصراً سورج اسی طرح مشرق سے نکل رہا تھا اور مغرب میں گم ہو رہا تھا جیسے سالہا سال سے کرتا چلا آیا ہے۔
لیکن، ہم ایک اور دلچسپ سفر سے ہو کر گذر آئے۔
ایک روسی ادیب کا کہنا ہے کہ تمام خوشحال خاندانوں کی کہانیاں ایک جیسی ہوتی ہیں اور غریب خاندانوں کی الگ الگ۔  سی طرح تمام ترقی یافتہ جگہوں کے سفر کی کہانیاں ایک جیسی ہوتی ہیں اور پسماندہ  جگہوں کا جب بھی قصد کریں الگ داستانیں بنتی ہیں۔ خاص طور پہ ایسی جگہیں جو معاشی اور اسکے ساتھ آنے والی معاشرتی تبدیلیوں سے گذر رہی ہوں۔ 
  سو ایک دفعہ پھر پاکستان کے شورش زدہ اور سب سے پسماندہ صوبے بلوچستان کا رخ کیا، ہماری منزل گوادر کا ایک مضافاتی علاقہ تھا۔ بیٹی صاحبہ بھی ساتھ تھیں۔ صبح سویرے ہم نکلے تو موسم بڑا سہانا تھا۔ کراچی میں اسے موسم بہار کہنا چاہئیے۔ بادل آسماں پہ دفعہ ایک سو چوالیس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے من وتو کا فرق مٹائے ہوئے ایک دوسرے میں گھلے ملے جا رہے تھے۔  کراچی شہر کے صنعتی ماحول کی حدوں سے باہر نکلے تو ہوا میں ایک تازگی اور الہڑ پن تھا۔
گاڑی سے گوادر جانے کے لئے صرف ایک راستہ ہے، کوسٹل ہائ وے۔ یوں اس روڈ پہ چلتے ہوئے گوادر کراچی سے تقریباً ساڑھے چھ سو کلو میٹر کے فاصلے پہ ہے۔ شروع کے تقریباً سو کلو میٹر آر سی دی ہائ وے پہ سفر کرنا پڑتا ہے پھر وندر سے آگے جا کر کوسٹل ہائ وے شروع ہو جاتی ہے۔ راستے میں جو اہم بستیاں آتی ہیں ان میں اُرماڑہ اور پسنی کی نیول بیسز شامل ہیں۔
 میں پہلے بھی کئ دفعہ یہاں جا چکی ہوں لیکن اس دفعہ  بلوچستان کے  مخدوش حالات کو  ذاتی طور پہ جاننے کے لئے میں  نے سفر میں شامل ہونے کا ارادہ کیا۔ مشعل کے اسکول سے ایک ہفتے کی چھٹی لی۔ اس مہم پہ انہیں جو کچھ سیکھنے کو ملتا وہ اسکول کی چار دیواری میں کبھی نہیں مل سکتا۔  آغاز سفر میںوہ خود بھی بے حد بے چین تھیں اور ہر دس منٹ کے بعد پوچھتیں کہ کیا بیچ  یعنی ساحل آگیا؟  کیا آنے والا ہے؟ کیا میں اب اپنا سوئمنگ کاسٹیوم پہن سکتی ہوں؟ کیا ہم وہاں پہ سی شیلز جمع کریں گے؟ کیا وہاں پہ مرمیڈ ہوگی؟ کیا میں ایک چاکلیٹ کھا سکتی ہوں؟ پھر ایک  جگہ بیٹھے بیٹھے غنودگی طاری ہوتی۔ یوں ایک فل اسٹاپ لگتا اورجاگنے پہ وہی  سوال ایک نئ ترتیب میں آجاتے۔
اُرماڑہ سے پہلے ہنگول کا علاقہ آتا ہے۔ یہاں پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے اور ہنگول دریا بھی گذرتا ہے۔ اس پہ گذرنے والے پل کے ساتھ پچھلے دو سالوں میں ایک ریسٹ ہاءوس بنا دیا گیا ہے۔ پل پہ سے گذرتے ہوئے ہم نے سوچا کہ واپسی کے سفر میں ایک رات اس ریسٹ ہاءوس میں گذاریں گے  تصویریں بنائیں گے، کچھ فاصلے پہ   دریا کے ساتھ  پہاڑوں میں واقع ایک قدیم مندر کو دیکھ کر آئیں گے جہاں ہر سال موسم بہار میں ہندو بڑی تعداد میں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لئے آتے ہیں۔ یہ ہنگلاج کا مندر یا نانی مندر کہلاتا ہے۔


اسکے علاوہ دریا میں مگر مچھ ہیں جو روزانہ دریا کنارے دھوپ کھانے کے لئے صبح سے لیٹ جاتے ہیں انکا دیدار بھی کریں گے۔
کوسٹل ہائ وے سمندری ساحل کے ساتھ ساتھ ہے سو کہیں کہیں سمندر بالکل صاف نظر آتا ہے اور کہیں کہیں پہاڑوں کی اوٹ لے لیتا  ہے۔ اس راستے کا سب سے خوبصورت حصہ کُنڈ ملیر کے آس پاس آتا ہے جو اُرماڑہ سے پہلے ہے۔ یہاں کاریگران قدرت نے پہاڑوں کو تراش کر ایلس کا ونڈر لینڈ بنایا ہوا ہے۔ مشعل نے ان پہاڑوں کو دیکھ کر کہا۔' یہ تو کوئین کا ہاءوس ہے ماما'۔ فوٹو گرافرز کے لئے یہاں بڑے شاندار مناظر ہیں۔ اسکے علاوہ فیشن شوٹس کے لئے پہاڑ ایک بہترین پس منظر کا کام انجام دے سکتے ہیں۔ ایک ماڈل میں نے بھی استعمال کی تھی اور اچھی تصویریں ملی تھیں  لیکن وہ تصویریں کہیں کھو گئیں۔ یہ نئ تصاویر حاضر ہیں۔


کنڈ ملیر کے قریب
 
کنڈ ملیر
کنڈ ملیر کے قریب
گاڑی کے اندر سے لی گئ ایک تصویر
پہاڑ جیسا کہ آپ نے تصویروں میں دیکھا، برہنگی کی حد تک بنجر ہیں۔  ہریالی سے ڈھکے ہوئے پہاڑ تو اپنے لباس کی زینت کی وجہ سے خوب صورت لگتے ہیں لیکن یہ بنجر پہاڑ وہ خوبصورتی رکھتے ہیں جس کے لئے شاید آرٹسٹ نیوڈ پینٹنگز بناتے ہیں۔
اس پہ مجھے یاد آیا کہ ہمارے ٹی وی کے مشہور میزبان اور لکھاری انور مقصود صاحب کے بارے میں سنتے ہیں کہ وہ بھی مصوری سے شغف فرماتے ہیں اور  انکی تصاویر کی بڑی مانگ ہے۔  یہ بھی کہیں پڑھا کہ ایک دفعہ جناب ضیا ءالحق صاحب نے ان سے انکی پینٹنگز کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں جواب دیا کہ میری پینٹنگز آپ دیکھ نہیں پائیں گے۔ مزید استفسار پہ کہا کہ میری ماڈلز بہت غریب ہوتی ہیں۔ اتنی غریب کہ انکے پاس پہننے کو کپڑے بھی نہیں ہوتے۔
کیا بلوچستان اتنا ہی غریب ہے یا پسماندہ؟

7 comments:

  1. بھت عمدھ۔۔۔

    ReplyDelete
  2. ساحل تو خوب ہے لیکن بنجر پہاڑ دیکھ کر کچھ وحشت سی محسوس ہوتی ہے۔
    آپ کا یہ دورا تفریحی تھا یا کچھ اور ؟

    ReplyDelete
  3. بہنا، گوادرکےمتعلق اوربھی معلومات شیئرکریں۔کیونکہ مجھےبھی شوق ہےکہ میں بھی یہ ساحل دیکھوں انشاء اللہ اب جب وطن واپسی ہوئی تویہ شوق بھی پوراکروں گا۔انشاء اللہ

    ReplyDelete
  4. عثمان، وحشت کے بھی سامان ہونے چاہئیں اگر محبت، کلفت، عداوت اور مروت کے ہوتے ہیں۔
    کون سا دورہ؟ جو وحشت کے ساتھ نسبت رکھتا ہے یامحبت، کلفت، عداوت یا مروت کے ساتھ۔
    :)
    جاوید اقبال صاحب، جیسا کہ اخیر میں لکھا ہے یہ سلسلہ جاری ہے سو ابھی مزید پڑھنے کی اور دیکھنے کی ضرورت باقی ہے۔

    ReplyDelete
  5. آپ نے بہت عمدہ لکھا ہے۔۔ سفرکے تجربات کو الفاظ میں ڈھالنے کی آپ کی قابلیت باعث رشک ہے ۔

    ReplyDelete
  6. اس پوسٹ سے میری پانچ سال پرانی یادیں تازہ ہو گئیں جب آئی یو سی این میں ملازمت کے دوران کافی مرتبہ گوادر جانا ہوا۔
    امید ہے آپ نے گنز کا ساحل اور جیوانی کا غروب آفتاب بھی دیکھا ہو گا اور تمر کے جنگلات بھی۔
    ویسے ایک مختصر سفر میں بلوچستان میں پھیلی بے چینی کا اندازہ نہیں ہو سکتا، خصوصا جب اتنے بڑے صوبے کے مختلف علاقوں میں وجوہات مختلف ہیں۔

    ReplyDelete
  7. پہاڑوں کی خوبصورتی ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ بنجر اور ننگے ہوں۔ ورنہ تو بندہ سبز رنگ یا درخت دیکھنا چاہے تو اس کے لئے جنگل موجود ہیں، پہاڑ نہیں۔ مجھے اسی وجہ سے مری وغیرہ کے پہاڑ پسند نہیں لیکن وہاں کے جنگلات بہت خوبصورت ہیں

    مزے کی بات ایک بار ایک دوست آئے تھے آئس لینڈ سے، انہوں نے ائیرپورٹ سے نکلتے ہی کیمرہ نکالا اور وڈیو اور پکس لینا شروع کر دیں۔ گھر پہنچنے تک ان کی بیٹریان ڈاؤن تھیں۔ اگلے دن یہی روٹین، جب بیٹری ختم تو لیپ ٹاپ پر تصاویر اور وڈیو ڈالی اور بیٹریاں دوبارہ چارجنگ پر۔ پتہ چلا کہ آئس لینڈ میں پہاڑ تو ہیں لیکن درخت نہیں۔ کہیں ہیں بھی تو بہت کم اور انتہائی چھوٹے۔۔۔ یہاں کی طرح جنگل نہیں پائے جاتے :)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ