Wednesday, February 16, 2011

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

فصل قضایا، اقامت عدل، بسط امن، رفع نزاع کے لئیے متعدد ولاۃ حکام کی ضرورت تھی۔ اسکے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد صحابہ کو مختلف مقامات کا حاکم و والی مقرر فرما دیا۔ ان ولاۃ یا گورنروں کا تقرر ملک کی وسعت اور ضروریات کے لحاظ سے ہوتا تھا۔ رسول اللہ کے زمانے میں عرب کے جو حصے اسلام کے زیر سایہ تھے اسکے پانچ حصے تھے اور ان میں سے ہر ایک حصہ کے لئیے علیحدہ گورنر تھے 
عموماً جب کسی مہاجر کو کہیں کا عامل مقرر کرتے تو اسکی کے ساتھ ایک انصاری کا بھی تقرر فرماتے۔
ان فرائض کو ادا کرنے کے لئے سب سے زیادہ تبحر علمی، وسعت نظر اور اجتہاد کی تھی۔ اس بناء پر آپ ان لوگوں کے تبحر علمی  اور طرز عمل کا امتحان لیتے تھے۔ چنانچہ جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ   کو روانہ فرمایا تو پہلے انکی اجتہادی قابلیت کے متعلق اطمینان فرمایا ترمذی میں ہے کہ
رسول اللہ نے جب معاذ بن حبل کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا کس چیز سے مقدمات کا فیصلہ کروگے۔ انہوں نے کہا قرآن مجید سے۔ آپ نے فرمایا اگر اس میں وہ فیصلہ تم کو نہ ملے ۔ انہوں نے کہا کہ احادیث سے پھر آپ نے فرمایا کہ احادیث میں بھی اس کے متعلق ہدایت نہ ملے تو انہوں نے کہا میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا ۔ اس پہ آپ فرمایا اس خدا کا شکر ہے جس رسول کے رسول کو اس چیز کی توفیق دی جس  کو خود اس کا رسول محبوب رکھتا ہے۔
 لیکن اہل عرب کے دلوں کو مسخر کرنے کے لِئے ان تمام چیزوں سے زیادہ رفق و ملاطفت نرمی اور خوش خوئ کی ضرورت تھی۔ جنکی آمیزش سیاست اور حکومت کے اقتدار کے ساتھ تقریباً نا ممکن ہو جاتی ہے۔اس لئے رسول اللہ گورنروں کو بار بار اس طرف متوجہ فرماتے۔ چنانچہ جب معاذ بن جبل کو ایک صحابی کے ساتھ یمن کی گورنری پرروانہ فرمایا تو پہلے دونوں کو عام طور سے وصیت فرمائ
آسانی پیدا کرنا، دشواری نہ پیدا کرنا، لوگوں کو بشارت دینا ان کو وحشت زدہ نہ کرنا،باہم اتفاق رکھنا اور اختلاف نہ کرنا۔ 
اس پہ بھی تسکین نہ ہوئ تو معاذ بن جبل جب رکاب میں پیر ڈال چکے تو ان سے خاص طور پہ یہ الفاظ فرمائے۔
لوگوں کے ساتھ خوش خلقی کے ساتھ برتاءو کرنا۔
 یہ رسول اللہ کی تعلیم کا نتیجہ تھا کہ اخیر زمانے میں جب صحابہ عمال حکومت کے مظالم دیکھتے تو ان کو سخت تعجب ہوتا اور وہ رسول اللہ کی تلقینات کے ذریعے انکو روکتے تھے چنانچہ ایک بار ہشام بن حکیم بن حزام نے دیکھا کہ شام کے کچھ نبطی دھوپ میں کھڑے ہیں انہوں نے اسکی وجہ پوچھی۔ لوگوں نے کہا جزیہ وصول کرنے کے لئے ان پہ یہ سختی کی جا رہی ہے انہون نے یہ سن کر کہا 
میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ خدا ان لوگوں کو سزا دے گا جو لوگوں کو دنیا میں عذاب دیتے تھے۔

 کشف الدجی بجمالہ
 بدر الدجی بکمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلو الیہ وآلہ

حوالہ
یہ تحریر مندرجہ ذیل حوالے کی مدد سے تیار کی گئ ہے۔
سیرۃ النبی، مصنف؛ علامہ شبلی نعمانی، جلد دوم، صفحہ ۴۵۔

2 comments:

  1. سب کو سرکار ِ دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت با سعادت کا دن مبارک ہو۔
    آپ کو یہ پوسٹ تحریر کرنے پر مبارک باد۔ اللہ پاک قبول فرمائے۔
    مولانا ظفر علی خان کے چند مشہور نعتیہ اشعار
    دل جس سے زندہ ہے وہ تمنّا تمہی ؐ تو ہو
    ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دُنیا تمہی ؐ تو ہو
    پھوٹا جو سینہ شب تارِ الست سے
    اُس نُورِ اوّلیں کا اُجالاتمہی ؐ تو ہو
    سب کچھ تمھارے واسطے پیدا کیا گیا
    سب غایتوں کی غایتِ اُولیٰ تمہی ؐ تو ہو
    دُنیا میں رحمتِ دوجہاں اور کون ہے
    جس کی نہیں نظیر وہ تنہا تمہی ؐ تو ہو

    ReplyDelete
  2. ہمیں امید ہے کہ اللہ کی نصرت سے وہ دن قریب ہے جب نہ صرف اس سرزمین پر بلکہ سارے عالم پر دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا غلبہ ہوگا

    ان شاء اللہ
    نصر من اللہ و فتح قریب

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ